ہفتہ، 2 اپریل، 2022

یادگار امام مظلوم - تعذیہ داری

 

واقعہ کربلا اپنے مرکزی کردار کی وجہ سے تمام دنیامیں انتہائی الم ناک اور اپنی نوعیت کا اہم ترین واقعہ ہے۔اس واقعہ نے پورے عالم انسانیت کو متاثر کیا ہے۔پیغام کربلا کسی ایک خطہ، مذہب یافرقہ تک محدود نہیں یہ ابدی وآفاقی اور عالمی ہے۔دنیا بھر میں عزاداری اس کا زندہ ثبوت ہے۔اس کی یاد کے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں، انداز جدا ہوسکتےہیں، خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے زبان و بیان کا وسیلہ الگ ہوسکتاہے مگر شہدائے کربلا کی عظمت کا اعتراف ہر صاحب دل کرتا ہے۔ایمان کے لیے قربان ہونے والوں کا ذکر اپنی تمام آب و تاب کے ساتھ صفحہ تاریخ پر حرف روشن کی طرح عیاں، زندہ و پائندہ ہے اور انسانیت کو پیغام زندگی دے رہاہے۔یہ نبی نوع انسان سے متعلق رزمیہ ہے یہ ظلم و ستم سے رہائی کا منشور ہے۔عصر عاشور کو حسین مظلوم نے جو عظیم قربانی دی وہی بشریت کی عدیم المثال قربانی بن گئی ہے۔ضروری ہے کہ تحریک و مراسم عزاداری سے روشناس ہونے سے پہلے عزا، عزادار اور عزاداری کے تصورات کو سمجھ لیا جائے۔


کسی کے مرنے پر صبر کی تلقین اور اظہار ہمدردی کرناتعزیت کہلاتا ہے۔ (عربی تعزیة) اہل تشیع کے نزدیک شہید کربلا اور دیگر شہدا کا ماتم جو ان کے روضے پر، گھروں یا امام بارگاہوں میں محرم کی پہلی تاریخ سے دسویں تک کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر کہیں تابوت، کہیں ان کے روضے کی تصویر، جسے تعزیہ کہتے ہیں، کہیں دُلدُل یا علم نکالے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ شہدا کا ماتم بھی کرتے ہیں۔ مجالس عزا میں مرثیہ، نوحہ، سلام پڑھتے اور شہادت کا حال بیان کرتے ہیں۔ ہرملک میں تعزیت کے مختلف طریق رائج ہیں۔ اسلامی ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں شہدا کا ماتم ضرور کیا جاتا ہے۔

عراقی اسے شبیہ کہتے ہیں، کیونکہ وہ لوگ حادثہ کربلا کی نقل پیش کرتے ہیں۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری امام حسین منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی۔ ایران میں دولت صفویہ کے عہد سے یعنی سولہویں صدی کے شروع سے تعزیہ داری کا رواج ہوا۔ اور پھر رفتہ رفتہ برصغیر پاکستان و ہندوستان میں بھی تعزیہ داری ہونے لگی۔

امام  حسین علیہ السلام  کے روضہ مبارک کی شبیہہ کو اردو میں  تعزیہ کہا جاتا ہے۔ تعزیہ سونے، چاندی، لکڑی، بانس، کپڑے، اسٹیل  اور کاغذ  سے تیار کیا جاتا ہے۔ اہل تشیع تعزیہ کو غم اور  سوگ کی علامت کے طور پر جلوس کی شکل میں نکالتے ہیں۔ جلوس تعزیہ امام بارگاہ سے برآمد ہو کر کربلا پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تعزیہ کی ابتدا تیمور کے دور میں ہوئی۔ بناوٹ کے لحاظ سے تعزیہ کی مختلف اقسام ہیں 

ہندوستان میں تعزیہ کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی ؟

واقعہ کربلا اپنے مرکزی کردار کی وجہ سے تمام دنیامیں انتہائی الم ناک اور اپنی نوعیت کا اہم ترین واقعہ ہے۔اس واقعہ نے پورے عالم انسانیت کو متاثر کیا ہے۔پیغام کربلا کسی ایک خطہ، مذہب یافرقہ تک محدود نہیں یہ ابدی وآفاقی اور عالمی ہے۔دنیا بھر میں عزاداری اس کا زندہ ثبوت ہے۔اس کی یاد کے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں، انداز جدا ہوسکتےہیں، خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے زبان و بیان کا وسیلہ الگ ہوسکتاہے مگر شہدائے کربلا کی عظمت کا اعتراف ہر صاحب دل کرتا ہے۔ایمان کے لیے قربان ہونے والوں کا ذکر اپنی تمام آب و تاب کے ساتھ صفحہ تاریخ پر حرف روشن کی طرح عیاں، زندہ و پائندہ ہے اور انسانیت کو پیغام زندگی دے رہاہے۔یہ نبی نوع انسان سے متعلق رزمیہ ہے یہ ظلم و ستم سے رہائی کا منشور ہے۔عصر عاشور کو حسین مظلوم نے جو عظیم قربانی دی وہی بشریت کی عدیم المثال قربانی بن گئی ہے۔ضروری ہے کہ تحریک و مراسم عزاداری سے روشناس ہونے سے پہلے عزا، عزادار اور عزاداری کے تصورات کو سمجھ لیا جائے۔ ہندستان میں تعزیہ داری کی ابتدا کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ عہد تیمور میں چونکہ بادشاہ، وزراء، بیگمات اور اہل لشکر عموما شیعہ تھے اور ہندستان میں جنگ اور سلطنت کے دیگر انتظامات کی وجہ سے سب لوگ ہر سال کربلائے معلی نہیں جاسکتے تھے اور ان کے دلوں میں اس کی وجہ سے ایک خلش اور شکایت رہتی تھی، پھر یہ مسئلہ بادشاہ کے گوش گذار  ہوا، اس کے حل کے لئے امیر تیمور  نے کربلا سے حضرت حسین رضي الله عنه کے روضہ کی نقل حاصل کر کے اس کو تعزیہ کی شکل میں تیار کرایا، تاکہ ہندوستان کے شیعہ اس نقل کے ذریعہ کربلائے معلی کی زیارت کاثواب اپنے ملک میں حاصل کر سکیں، چنانچہ یہی ہوا اور لوگ کربلا جانے کے بجائے یہیں اس نقل کی زیارت کرنے لگے، جس نے بہت جلد ہی کم و بیش وہ صورت اختیار کر لی جو آج کل  مروج ہے، پھر بتدریج اس میں ترقی ہوئی تو اس کے ساتھ دُلدل اور عَلم وغیرہ بھی نکلنے لگے،تعزیے 29 ذی الحج سے 9 محرم تک آراستہ کر کے مخصوص مقامات پر رکھ دیے جاتے ہیں۔ ان مقامات کے مختلف نام ہیں مثلا     عزا خانہ ،  تعزیہ خانہ ،  امام بارگاہ ،  عاشور خانہ ،  امام خانہ ،  چبوترا ،  چوک امام صاحب وغیرہ۔ ہندوستان میں تعزیہ سولہویں صدی میں رائج ہوا ۔ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں تعزیہ اور جلوس تعزیہ کا رواج تھا۔ عالمگیر ہی نے جلوس تعزیہ میں شمشیر زنی پر پابندی لگائی۔  دکنی ریاستوں میں عزاداری کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ چنانچہ مجلس ، ماتم،  جلوس ،  تعزیہ اور امام بارگاہ قائم کیے گئے۔ تیرہویں صدی ہجری / اٹھارویں صدی عیسوی تک پورے ہندوستان میں تعزیہ داری عام ہو گئی تھی۔ تعزیہ کے سب سے نچلے حصے کو تخت، ا اوپر والے کو   خطیرہ ، اس سے اوپر والے کو تربت اور سب سے اوپر والے کو  علم کہتے ہیں۔ عراق میں تعزیہ کو شبیہہ کہا جاتا ہے۔ ایران میں تعزیے کا رواج نہیں وہاں شبیہہ یا تمثیل رائج ہے البتہ کشمیر، نیپال اور افریقہ میں تعزیہ داری ہندوستانی انداز میں ہوتی ہے۔

جنوبی ایشیا میں بھی شیعہ مسلمان یوم عاشورا کو بڑے اہمتمام سے تعزیہ اٹھاتے ہیں۔ وہ تابوت بھی کہتے ہیں۔تعزیہ کوبہت ہی خوبصورت بنایا جاتا ہے۔ بانس پر رنگا رنگ نقاشی کی جاتی ہے۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور ان ممالک میں جہاں جنوبی ایشیا کے لوگ رہتے ہیں بہت ہی جوش و خروش کے ساتھ تعزیہ بناتے ہیں۔ خوبصورت اور رنگین کاغذوں اور پنیوں کو بانس پر لپیٹا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے اہم علاقے جہاں تعزیہ بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے؛

بدھ، 30 مارچ، 2022

چائے کی پیالی میں تخت بلقیس کا سفر

 

نام  تو اس کا  لینارڈ تھا  لیکن  اسلام  قبول کر لینے کے بعد  فاروق احمد لینارڈ ہو گیا   فاروق احمد لینارڈ انگلستانی انگلینڈ  کے  ایک  شاہی خاندان  میں پیدا ہوا - لیکن بچپن ہی سے وہ  اطراف و جوانب میں بسنے والے مسلمانوں  سے اپنے دل میں خاص انسیت رکھتا  تھا  -یہاں تک کہ وہ نوجوانی کی حدود میں داخل ہو گیا اور اس نے مسلمانوں کی تبلیغی  جماعت   سے وابستگی اختیار کر لی   اور ساتھ ہی دین اسلام میں داخل ہو گیا -اس کے بعد اس نے قران پاک کی تعلیمات  کا بغور مطالعہ شروع کیا  اپنے مطالعاتی سفر میں جب وہ حضرت سلیمان  علیہ السّلام  اور  ملکہ بلقیس کے قصّہ  تک پہنچا تو سخت استعجاب میں پڑ گیا  کہ ایک وسیع عریض تخت کیونکر پلک جھپکنے  اور کھلنے کی مدّت  کے درمیان  حضرت سلیمان علیہ السّلام کے  دربار تک آن پہنچا  

  اس  واقعہ  نے اسے  وادی حیرت  میں غوطہ زن کر دیا کر دیا  اس نے اپنے اطراف و جوانب کے مسلمانوں سے رابطہ کر کے  بس ایک ہی سوال دہرایا کہ تخت بلقیس کیونکر اتنی زرا سی دیر میں  کوسوں دور سے آن پہنچا  وہ لوگ  جب اس نو آموز مسلم کو  مطئن  نہیں کر سکے تو کچھ نے کہا کہ  تم پاکستان  چلے جاؤ تمھیں  اپنا شافی جواب مل  جائگا  اور وہ پاکستان آ گیا  پاکستا  ن میں اس کی خوب مدارات ہو ئ اور  جگہ جگہ تایخی مقامات دکھائے گئے  لیکن ایک دن جب اس کے میزبان کی گاڑی داتا  دربار کے سامنے سے گزری اور اس نے وہاں عام لوگوں کا جمّ غفیر دیکھا    تو  اس نے  وہاں کے  ہجوم کے بارے میں اپنے میزبان سے سوال کیا  کہ اتنی بڑی تعداد میں یہاں لوگ کیوں جمع ہیں –میزبان نے بتایا کہ یہ ایک اللہ والے کا مزار ہے اس نے   میزبان  سے کہ کر گاڑی رکوائ اور مزار کے احاطہ میں داخل ہو گیا  احاطے سے ہو کر وہ اور آگے بڑھااب اس کے سامنے ایک بزرگ کھڑے تھے جن کے  ایک ہاتھ میں  چائے کی  پیالی اور دوسرے  ہاتھ میں گرم چائے کی کیتلی  تھی –بزرگ نے اس کو دیکھتے ہی سوال کیا چائے پیو گے لینارڈ نے کہا ضرور اور بزرگ نے لینارڈ کوکیتلی سے چائے نکال کر دی  اور چائے کی پیالی  ہاتھ میں لینے  کے ساتھ ہی لینارڈ بے ہوش ہو کر گر گیا  جب اس کے میزبان اسے ہوش میں لانے میں کامیاب ہو گئے تو انہوں نے لینارڈ سے  بے ہوشی کا سبب پوچھا

لینارڈ نے بتایا کہ   مجھے قرآن پاک  کی سچائی پر پورا یقین حاصل ہو چکا تھا  لیکن میں      ایسی تصدیق چاہتا تھا جو مجھے  روحانی طور پر  مطمئن کر سکے میں  اب پوری طرح جان گیا ہوں کہ تخت بلقیس کیونکر پلک جھپکنے اور کھلنے کی مدّت کے درمیان آیا ہو گا-پھر اس نے چائے والے بزرگ کا پتا نشان دریافت کیا تو لاگوں نے بتایا  کہ  وہ کب کے جا چکے کہاں سے آئے تھے  اور کہاں چلے گئے  کسی کو نہیں معلوم تھا

اس انگریز  کے ساتھیوں نے  اس سے بے ہوشی کی وجہ جاننا چاہی تو اس نے کہا کہ میں جس سوال کے لیے اتنا سفر   کرکے پاکستان  آیا تھا اس کا جواب مجھے اس بزرگ نے دے دیا ہے.....

 انہوں نے مجھے  اس پیالی میں چائے پیش کی   جس میں' میں روز   انگلستان میں  موجود  اپنے گھر کے اپنے کمرے میں چائے پیتا تھا –میرا چائے کا کپ کس طرح ہزاروں میل کا سفر طے کر کے یہاں تک آ گیا 'اب میری سمجھ میں آیا کہ  اگر ایک لمحہ میں اتنے فاصلے سے   چائے کی پیالی آ سکتی ہے تو پلک جھپکنے سے پہلے   ملکہ بلقیس  کا  تخت  بھی آ سکتا ہے.....

اس کے بعد   لینارڈ   نے  واپس انگلستان جانے سے  انکار  کر دیا اور باقی ساری زندگی داتا گنج بخش کے مزار پر  مزار کی مجاوری میں گزاردی اور 1945ء میں  اللہ کے ولی کے دربار سے  بارگاہ  ربُّ العالمین  میں حاضر ہو گیا  اس کی تد فین اس کی وصیّت کے مطابق  حضرت  داتا گنج بخش  رحمۃ اللہ علیہ کے مزار  کے احاطہ میں  موجود تہ خانے میں ہوئی جو آج      بھی اولیاء اللہ کی خدائی وابستگی کی شہادت دے رہی ہے

 

منگل، 22 مارچ، 2022

موج رواں پر یا حسین

ca-pub-4942806249941506"ads.txt>

یہ بروائتے  تقریباًدوسو برس پہلے کا زکر ہے کہ بدھ مت کا ایک پیرو کار

حسب معمول  دریا میں اپنا جال ڈالے مچھلیاں پکڑ رہا تھا  کہ  اس کی نظر دریا کی لہروں پر چلتے ہوئے ایک علم پر گئ اس  نے مچھلیوں کے ساتھ علم بھی اپنی تحویل میں لے لیااور علم گھر لا کر گھر  کے ایک کونے میں رکھ کر بھول گیا  

  لیکن ایک رات اس کو خواب میں یاد دہانی کروائ گئ کہ وہ اس علم کو  شیرازی نام

 کے بزرگ کو جا کر دے آئے اور ساتھ ہی مسجد و امام بارگاہ کی تعمیر کی جگہ بھی خواب میں بتا دی گئ جب یہ خواب اس نے بار بار دیکھا تو وہ علم لے کر شیرازی صاحب کے پاس حاضرہوا

ماندلے شہر کے رہائشی 84 سالہ ڈاکٹر شیرازی بتاتے ہیں کہ یہاں مشہور روایت یہ ہے کہ ان کے نانا آغا علی اکبر شیرازی کے پاس ایک پریشان حال مچھیرا آیا جس کے ہاتھ میں ایک علم تھا۔

اس مچھیرے کو یہ علم اراوادی دریا سے ملا تھا۔ مچھیرے کا تعلق بدھ مت سے تھا۔ وہ علم گھر لے آیا اور بھول گیا۔ روایت کے مطابق اسے تین بار خواب میں آغا شیرازی سے ملنے اور امام بارگاہ بنانے کی جگہ کی نشاندہی ہوئی تھی۔

بدھ مت سے تعلق رکھنے والا یہ مچھیرا ماتیں سوں کے پرنانا تھے۔ تین نسلوں سے یہ خاندان امام بارگاہ کی نگہبانی کر رہا ہے۔

لگ بھگ تین سے چار کنال پر پھیلی ہوئی اس امام بارگاہ کے احاطے میں برمیز لکڑی کے چھوٹے سے گھر میں یہ اپنی والدہ اور شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔ امام بارگاہ کے احاطے میں ان کے شوہر اپنی گاڑیوں کا گیراج چلاتے ہیں۔ ہر سال محرم اور صفر کے مہینوں میں یہ زائرین کا استقبال کرتے ہیں۔ ماندلے اور دوسرے بڑے شہروں سے یہاں ننگے پیر زائرین چہلم (اربعین) کے لیے بھی آتے ہیں۔

امام بارگاہ کے احاطے میں مسجد ہے جہاں ان ایام میں باجماعت نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

میانمار کے قدیم شہر عماراپورا میں واقع ڈیڑھ سو برس قدیم امام بارگاہ کی نگہبانی ایک بُدھ مت مذہب کا پیروکار خاندان کر رہا ہے۔

یہ خاندان چار نسلوں سے اس امام بارگاہ کا متولی ہے۔ اِن کا رہن سہن عام بُدھ مت پیروکاروں سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ جیسا کہ اس خاندان کے افراد دیگر پیروکاروں کے برعکس خنزیر کا گوشت نہیں کھاتے ہیں اور اہل تشیع کے ساتھ ایام عزا کے سوگ میں شامل ہوتے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب برما میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات خوشگوار نہیں اور سنہ 2016 میں بدھ مت اور مسلمانوں کے مابین ہونے والے فسادات کے بعد سے بہت سی مسجدیں آج بھی بند ہیں،

میانمار کا قدیم شہر عماراپورا سنہ 1783 سے سنہ 1859 تک برما کا دارالحکومت رہا ہے۔ یےگار موشے کی کتاب ’برما کے مسلمان‘ کے مطابق سلطنت اووا کے دور میں (یعنی سنہ 1850) میں یہاں 20 ہزار مسلمان خاندان آباد تھے۔

ماندلے شہر سے 11 کلومیٹر کی دوری پر واقع اس شہر میں آج ایک بھی اہل تشیع کنبہ موجود نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود گذشتہ ایک صدی سے وہاں انگریزوں کے دور میں تعمیر کی جانے والی امام بارگاہ آج بھی قائم و دائم ہے اور ہر سال محرم اور سفر کے مہینوں میں زائرین کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔

برما میں یہ امام بارگاہ پرائیویٹ ٹرسٹ کے طور پر چلایا جاتا ہے۔ عمارا پورا امام بارگاہ کے ٹرسٹی ڈاکٹر ایم اے شیرازی بتاتے ہیں کہ ان کے نانا آغا علی اکبر شیرازی نے اس امام بارگاہ کی تعمیر سنہ 1884 میں ایک بدھ مت پیروکار مچھیرے کے کہنے پر کی تھی۔

مرنے سے پہلے سنہ 1917 میں عمارت کی ملکیت کے کاغذات امانت کے طور پر ان کے حوالے کر گئے۔

امام بارگاہ کے پچھلے احاطے میں ایک پرانی قبر بھی موجود ہے۔ یہ قبر حاجی ید محمد حسین نجفی المعروف حاجی سیدی کی ہے جن کی وفات سنہ 1918 میں ہوئی تھی۔

رواں برس برما میں کووڈ 19 کی وجہ سے عبادت کے مقامات بند رکھے گئے ہیں۔ مولانا کہتے ہیں ’کووڈ کی وجہ سے ہمیں حکومت نے اس سال عزاداری سے منع کیا ہے۔ جب حکومت ہمیں کبھی کبھار منع کرتی ہے تو ہم مان لیتے ہیں۔

پشاور کوچہ رسالدارشہیدان اما میہ مسجد

 پشاور کوچہ رسالدارشہیدان اما میہ مسجد

امامیہ مسجد پشاور میں دھماکہ شیعوں کے خلاف ہونے والی دہشتگردی کے واقعات میں سے ایک  بہت بڑا اور خونچکاں  واقعہ  ہے جو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے دارالخلافہ پشاور قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار میں واقع ہوا۔ یہ سانحہ 4 مارچ سنہ 2022ء بمطابق 30 رجب 1443 ہجری کو اس وقت پیش آیا جب لوگ نماز جمعہ میں مشغول تھے۔ظالمون پہ تا قیامت لعنت  ہے اور مظلوم اللہ کی بارگاہ مین کامیاب ہین ابتدائی تفصیلات کے مطابق قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار میں شیعہ جامع مسجد میں 2 حملہ آوروں نے گھسنے کی کوشش کے دوران ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی۔حملہ آوروں کی فائرنگ سے ایک پولیس جوان شہید جبکہ دوسرا شدید زخمی ہو گیا۔ مسجد میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا،عینی شاہد کے مطابق کالے لباس میں ملبوس خودکش حملہ آور نے پہلے سکیورٹی اہلکاروں پر 5 سے 6 فائر کیے اور پھر اندر آ کر خود کو اڑا دیا، دھماکے کے بعد مسجد کے ہال میں ہر طرف انسانی اعضا پھیل گئے۔ اس سانحے میں ۷۰سے زائد مومنین شہید جبکہ تقریبا 200 کے قریب مؤمنین زخمی ہیں-کیا ان بے کسوں کے بے گناہ خون  کے طفیل  پاکستان کے حکمرانوں کے ضمیر بیدار ھونگے؟

وزیر اعظم پاکستان عمران خان، نے اس سانحے کی مذمت کی اور فی الفور اس کے تحقیق اور زخمیوں کو مدوا کرنے کا حکم دیا۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل راجہ ناصر عباس جعفری نے مذمت کرتے ہوئے اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی قرار دیاشیعہ علما کونسل کے سربراہ سید ساجد علی نقوی نے سانحے کی مذت کرتے ہوئے واقعے کو حکومت کی نااہلی قرار دیا اور تین دن سوگ کا اعلان کرتے ہوئے 6 مارچ کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا۔6جمعیت علما اسلام کے سربراہ اور اہل سنت عالم دین فضل الرحمن نے نماز جمعہ کے دوران ہونے والے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے سفاکیت کی بدترین مثال قرار دیا-

عراق میں مقیم شیعہ مرجع تقلید آیت‌الله سیستانی کے دفتر کی طرف سے جاری ایک بیان میں سانحہ پشاور کی مذمت کے ساتھ پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں مذہبی مراکز پر ہونے والے حملوں کی روک تھام کرے۔اسی طرح عراق کی پارلیمانی پارٹی حکمت کے سربراہ عمار الحکیم نے بھی مذمت کی ہے

پاکستان کی اہلسنت مذہبی پارٹی جماعت اسلامی نے سانحہ امامیہ مسجد پشاور کی مذمت کی ہے۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے نمازیوں پر ہونے والے اس حملے کو انسانیت پر حملہ قرار دیا-اور امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق نے عبادتگاہوں کو قتلگاہ بنانے والوں کو حیوان سے بھی بدتر قرار دیتے ہوئے سانحہ پشاور کی مذمت کی۔اہل سنت کے متعد دعلما نے بھی اس سانحے کی بھرپور مذمت کی جن میں تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جمعیت علماء پاکستان (نورانی) اور ملی یکجہتی کونسل کے صدر ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر، جمعیت علماء اسلام (س) کے مولانا عبدالروف فاروقی، جماعت اہلحدیث پاکستان کے حافظ عبدالغفار روپڑی، مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان کے صدر پیر عبدالخالق قادری سرفہرست ہیں

حکمراں اور انتظامیہ کی غفلت شیعہ نسل کشی کی بنیاد ہے

کی رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام سید سجاد حسین کاظمی نے گذشتہ شب شھدائے پشاور کی مناسبت سے مدرسہ حجتیہ قم کی مسجد میں منعقد مجلس میں حکمراں اور انتظامیہ کی غفلت کو پاکستان میں شیعہ نسل کشی کی بنیاد بتایا ۔

انہوں نے حالیہ شہادتوں پر تعزیت وتسلیت پیش کرتے ہوئے زخمی مومنین کی جلد شفا یابی کی دعا کی اور کہا : خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے ہمیں ڈرانے والوں کومعلوم ہونا چاہے کہ ہم نے مجالس کے ذریعے اپنی ماؤں کی آغوش میں شہید اور شہادت کے موضوعات سنے ہیں کہ کس طرح ہمارے آئمہ اور شہداء کربلا نے فخریہ انداز سے شہادت کا استقبال کیا، ہم شہادت کے منتظر ہیں، جوقوم شہادت کی منتظر ہو اسے بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے کیسے ڈرایا جا سکتا ہے؟

حجت الاسلام سید سجاد حسین کاظمی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ہمارے نوجوانوں کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے تاہم ملک کی سلامتی کے لئے ہماری قیادت باربارصبرکی تلقین کررہی ہے کہا: لیکن صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، اگر ہمارے اکابرین ملت اور قیادت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا توملک سنبھالنا دشوارہوجائے گا ۔

حوزہ علمیہ قم کے استاد نے اس بات پر تنقید کرتے ہوئے کہ ملک کا بہت بڑا قومی سرمایا صرف کرنے والی 33 ایجنسیوں کو کیوں ان حادثات کا پتہ نہیں چلتا ؟ دہشت گردی روکنے کے لئےقومی ایکشن پلان بنایا گیا مگرلگتا ہے اس پلان میں بھی منظور نظرخاص دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، عوامی قاتلوں اورشیعہ نسل کشی میں ملوث دہشت گردوں کا توکوئی نام لینے والا نہیں ہے کہا: ملکی سلامتی اورامن وامان کے نفاذ کے لئے ہماری قیادت نے آئین کی روشنی میں مذاکرات کی حمایت کی مگرمذاکرات میں ہمارے قاتلوں کونظرانداز کیا گیا، ہماری قیادت نے آپریشن کی حمایت کی، مگرآپریشن میں بھی ہمارے قاتلوں کو نظر انداز کیا گیا، اب اس قومی ایکشن پلان میں امید تھی مگرقومی ایکشن پلان کے باوجود یہ واقعات اورسانحات کسی اور چیزکی نشاندہی کر ر ہے ہیں، ہم سوچنے پر مجبورہیں کہ ہمارے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس پر تمام ملکی ادارے متحد ہیں ۔

ہفتہ، 19 مارچ، 2022

تم کتنے کم ظرف ہو

ca-pub-4942806249941506"ads.txt>

  

تم کتنے کم ظرف ہو

 

وہ بلکل ننھا بے بی سا تھا 'اس سے چند برس بڑا ایک اور بھائ تھا اس کے ماں اور باپ دونوں محنتی تھی  ماں   محلّے کے لوگوں کے کپڑے سیتی تھی اور باپ تعلیم نا ہونے کے سبب محنت مزدوری کرتا تھا اور وہ چاروں لندن کے ایک غریب محلّے کے بینٹمنٹ میں  ایک خوش و خرّم زندگی گزار رہے تھے کہ ایک روزاچانک اس گھر کا سر براہ ان سب کو چھوڑ کر راہئ عدم ہو گیا

اب ماں نے باپ کے فرائض بھی اپنے زمّہ لے لئے

وقت کچھ اور آگے کھسکا وہ اپنے بچپن کی یاد  داشت میں لکھتا ہے کہ اتنی غربت اور ناداری کے باوجود بھی اس کی ماں نے اپنے حوصلے بلند رکھّے ہوئے تھے وہ بیسمنٹ کے ایک کونے میں سلائ مشین پر محلّے کے لوگوں کے کپڑے سیتے ہوئے گنگناتی رہتی تھی لیکن قدرت ان معصوم بچّو ں کی آزمائش کرنی تھی

پھر ایک روز فرشتہ  اجل ان کی واحد سہارا ماں کو بھی لے کر عالم بالا چلا گیا -اب یہ بڑے بھا ئ نے جو خود ابھی  گیارہ  برس کا ایک بچّہ تھا  اس نے چھوٹے بھائ کی زمّہ داری سنبھال لی یہاں تک کہ چھوٹا بھائ کالج میں پہنچ گیا -اب کالج میں یہ کیفیت تھی کہ جب انٹر ول ہوتا اس وقت یہ بچّہ جو اب نوجوانی کی حدود میں داخل ہو چکا تھا کینٹین میں چائے پینے کے بجائے لا نکی گھاس پر اپنا انٹرول گزار دیا تھا کیونکہ اس کے پاس چائے پینے لئے معمولی رقم بھی نہیں ہوتی تھی

ایک دن کی با ت ہے کہ وہ انٹرویل میں گھاس پر لیٹا ہوا تھا جب اس نے دیکھا کہ تاریخ کے پروفیسر وہاں سے گزر رہے تھے پروفیسر نے اس کو دیکھا تو اس کی جانب آ گئے -وہ اپنے پروفیسر کو اپنی جانب آتا دیکھ کر ازراہ ادب  اٹھ کر بیٹھ گیا اور پروفیسر نے اس  کے قریب آ کر  اس سے پوچھا کیا تم نے آج  تاریخ  کےفلاں 'فلاں پروفیسر کا مضمون اخبار میں پڑھا ؟

اس  نے جواب میں نخوّت سے کہا میں اس کم ظرف انسان کی کوئ تحریر نہیں پڑھتا ہوں

اس کے پروفیسر نے انتہائ ناگوار لہجےمیں اسے جواب دیا کہ تم کتنے کم ظرف ہو کہ تم انسان کی علمی صلاحیت سے بھی فا ئدہ نہیں اُٹھا سکتے ہوتمھاری زاتی دشمنی اپنی جگہ لیکن کم سے کم تم اس کی علمی بصیرت سے تو آگہِی حاصل کر سکتے ہو پروفیسر اپنی بات پوری کر کے چلے گئے وہ اپنی جگہ سے آٹھا اور اس نے اپنے نا پسندیدہ پروفیسر کا مضمون لائبریری جا کر توجّہ سے پڑھا

-پھر وہ اس کے مضامین پڑھتا گیا یہاں تک کہ وہ ایک روز وہ خود تاریخ داں بن گیا -اور اس کا اگلا قدم برطانوی پارلیمنٹ کے سپیکر کی کرسی تھی -اس کرسی پر وہ کافی عرصہ براجمان رہا اور اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے نقش قدم چھوڑ گیا

ہفتہ، 12 فروری، 2022

سچّے موتی اور ان کے خواص

سچّے موتی اور ان کے خواص 'زمانہء قدیم ہو یا زمانہء جدید اگر ہم دیکھنا چاہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہماری زندگی میں موتیوں  کا  ہمیشہ ہی عمل دخل رہتا ہے  -

بالخصوص خواتین کے زیورات میں  اور موتیوں کا  زکر ملکہ بلقیس کے تخت کے تذکرے میں بھی موجود ہے کہ اس تخت میں کتنے قیمتی موتی   جڑے ہوئے تھے  جبکہ قدرت کی

یہ انمول سوغات بادشاہوں نے اپنی گلے کی مالاؤں میں پہنی ہے تو آیئے اس کا کچھ تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں  کہ اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے

موتی کی پیدائش اس صدف کے پیٹ میں ہوتی ہے، صدف کو سیپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل ایک انتہائی سخت سمندری کیڑا ہوتاہے، اس کے دونوں بازئوں پر کچھوے کی

 طرح سخت ہڈی کی ڈھال ہوتی ہے، جس کے ذریعہ یہ دوسرے جانوروں سے محفوظ رہتا ہے، پانچ برس میں جوان ہوتا ہے، بارش کے دنوں میں سطح پر آتا ہے۔ یہ ایک خاص

 طرح کا جالا بن کر مکڑے کی طرح خود کو کسی محفوظ مقام پر اَڑا لیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک جگہ ٹھہرا رہتا ہے، ماہرین نے اسے خوردبین کے ذریعہ دریافت کیا ہے۔

صدف کے تین پرتیں ہوتی ہیں، اوپر والی پرت سخت لچک دار اورسیاہی مائل سبز رنگ کی ہوتی ہے، دوسری پرت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے خانے ہوتے ہیں، جن میں چونا بھرا

 ہوتا ہے اور کئی طرح کے رنگ پیدا کرنے والے مادے ہوتے ہیں، تیسری پرت پوست در پوست ہوتی ہے اور اس میں طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں، موتی یہیں بنتا ہے۔ اس

 کی پیدائش کے بارے میں دو طرح کی روایات ہیں، ایک مذکورہ، جو ماہرین نے بیان کی ہے اور دوسری وہ جو قدیم جوہریوں نے بیان کی ہیں۔ قدیم روایت کے مطابق نو روز کے

 اکیسویں دن نیساں کا مہینہ شروع ہوتا ہے، اس مہینے کے بادل ابرِ نیساں اور اس کی بارش آب نیساں کہلاتی ہے۔ ابرنیساں جب سمندر پر برستا ہے تو سیپ سطح پر آ کر منہ کھول

 دیتے ہیں اس طرح آب نیساں کے قطرے ان کے منہ میں پڑتے ہیں۔ اب جس قدر بڑا قطرہ صدف کے منہ میں جاتا ہے، اتنا ہی بڑا موتی بنتا ہے لیکن یہ ایک قدیم اور قطعی غلط

 روایت ہے۔ ۔ جدید سائنس نے یہ بات کسی اور طرح سے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدف کے اندرکوئی بھی چیز داخل ہو جائے موتی بن جاتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق صدف

 میں کوئی بیرونی چیز اتفاق سے داخل ہو جائے مثلا ریت کا ذرہ یا کوئ اور سخت چیز تو کیونکہ اس کی اندرونی ساخت یا جسم جیلی کی طرح نرم ہوتا ہے تو یہ سخت زرہ اس کے جسم میں

 اذیت یا Irritation کا باعث بنتا ہے کیڑا اپنے تحفظ کے لیے ایک خاص قسم کا مادہ یا لعاب خارج کرکے اس شئے کے گرد ایک جال سا بننا شروع کر دیتا ہے، تاکہ اس کی چبھن ختم

 ہو سکے اور یہی لعاب سخت ہو کر موتی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہ ہی دراصل موتی بننے کی ابتدا ہوتی ہے۔

اس کو گلے میں لٹکانے سے دل کو تقویت حاصل ہوتی ہے، اس کو پہننے والے کی شادی کام یاب اور ازدواجی زندگی خوش گوار گزرتی ہے، موتی کو استعمال کرنے والا جادو اور سحر کے 

 اثر سے محفوظ رہتا ہے، ذہنی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے، اسقاط حمل روکنے کے لیے اسے حاملہ خاتون کی کمر پر باندھا جاتا ہے ۔ 

موتی رموز قدرت سے وابستہ ایک بہت ہی دلچسپ موضوع ہے۔ یہ انسان کی قدیم تہذیبی روایت کا اشارہ بھی ہے۔ موتی جیسی خوبصورت، دلکش اور افادیت والی شے ایک

 نہایت کھردری، بھدی اور معمولی سی مخلوق گھونگا سے حاصل ہوتی ہے۔ اس گھونگا کو آئسٹر (Oyster) کہتے ہیں جو حیوانات کے ایک زمرے مولسک (Mollusc) کا رکن ہے۔

 مولسک تقریباً 530 ملین سال قبل وجود میں آئے تھے۔ موتی کی دوسری خوبی جو اسے دیگر رتنوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ موتی اپنی اصل حالت ہی میں نہایت دلکش ہوتا

 ہے جب کہ دوسرے رتنوں کی خوب صورتی تراش وخراش اور پالش کے بعد ابھرتی ہے۔ جہاں ایک طرف مذہبی کتابوں اور لوک گیتوں میں موتی کا ذکر ہوا ہے وہیں دوسری

 طرف جدید سائنس میں موتی ایک اہم موضوع بنا ہے۔

موتی دوا سازی میں بھی مستعمل ہے۔ اس کا سفوف اور پانی دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یونانی طریقہ علاج میں بطور خاص موتی کی اہمیت ہے جہاں یہ ٹانک کے طور پر استعمال

 ہوتا ہے جس سے جسمانی اور دماغی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور صحت پر مثبت اثرا ت پڑتے ہیں۔ ایسی دواؤں میں دواالملک اور جوارشِ لولو بہت مشہور ہیں۔ اسی طرح

 آیورویدک دواؤں میں بھی موتی کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں نے بھی اپنی تخلیقات میں موتی بطور استعارہ استعمال کیا ہے

جمعرات، 10 فروری، 2022

آگ کا دیوتا مراکش میں

 

مراکش میں اللہ کے ایک ولی کا عظیم کارنامہ،

یہ ان دنوں کی بات ہے جب مراکش کے لوگ کافرانہ زندگی گزار رہے تھے ایسے میں دنیا کے کسی گوشہ میں ر ہنے والے  ایک بزرگ کو بشارت ہوئ کہ وہ

 مراکش چلے جائیں اور دکھی انسانیت کی مدد کریں -وہ بزرگ خدائ تنبیہ کے بعد مراکش آ گئے -مراکش آ کر وہ مراکش کے گلی کوچوں میں نکلتے اور دیکھتے کہ

 کہاں وہ کسی کی کوئ مدد کرسکتے ہیں-لیکن کئ روز گزر گئے ان کو کوئ ایسا معاملہ نظر نہیں آیا کہ وہ کسی کی کوئ مدد کرتے لیکن  ایک روز ان کا گزر ایک گلی

 سےہوا تو انہوں نے ایک گھر کے اندر سے عورت کےنالہ وشیون کی آواز سُنی -کچھ ثانیہ وہ کھڑے کچھ سوچتے رہے پھر آخر کار دروازے پر دستک دے دی

 دستک کے جواب میں روتی ہوئ عورت دروازے پر آئ اور اس نے دروازہ کھولا  بزرگ نےعورت سے سوال کیا 'ائے خاتون کیوں رو رہی ہیں آپ؟بزرگ

 نے رحمدلانہ لہجے میں  عورت سے سوال کیا تو وہ کہنے لگی ہمارے شہر میں  ایک بڑا ظالمانہ  رواج ہے کہ جو لڑکی اپنی جوانی کو پہنچتی ہےآگ کے دیوتا کے مخبراس

 کو اطّلاع دے دیتے ہیں اور پھر اس لڑکی کو دیوتا  ایک رات کے لئے اپنی دلہن بناتا ہے اور رات کے ختم ہونے پر اس لڑکی کو  دیوتاکے بھینٹ میں دے دیا جاتا ہے 

–یہ کیسا ظلم ہے !

 محض ایک رات وہ آگ کے دیوتا کے ساتھ گزارتی ہے اور صبح  قتل کر دی جاتی ہےوہ مظلوم -

خاتون نے کہا میری ایک ہی بیٹی ہے جس کی عمر پندرہ برس ہوئ ہے اور میرا شوہر بھی اس دنیا میں ہے ناہی اور کوئ والی وارث ہے جو ہماری مددکرےاور آج

 کی رات آگ کا دیوتا اس کی بھینٹ لینے آئَے گااور صبح سویرے میری بیٹی کو قتل کر کےلاش سمندر برد کر دی جائے گی عورت پھر زاروقطار رونے لگی  بزرگ

 نے

عورت سے کہا تم فکر مت کرو میں تمھاری بیٹی کو نا آگ کے دیوتا کے سپرد ہونے دوں گااور نا ہی وہ قتل کی جائیگی ،آگ کا دیوتا کہا ں رہتاہے

بزرگ نے دریافت کیا تو عورت نے بتایا کہ وہ سمندر میں رہتا ہےاور جب اسے لڑکی کی بھینٹ لینی ہوتی ہے تو اپنے بحری جہاز سے آتا ہے

سمندر کےکنارےاس کا بہت

 بڑا محل ہے وہ اسی محل میں  رات  گئے آتا ہے  اس کا جہاز آگ سے روشن ہوتا ہے وہ آدھی رات کو آتا ہے اور  صبح ہونے سے قبل  لڑکی کو اپنی نظروں کے

 سامنے قتل کروا کر  ظالم  چلا بھی جاتا ہےٍٍٍٍٍٍٍٍ-

 -عورت نے بے چارگی سے کہا

اچھّا تم بلکل  پریشان مت ہونا -میں تمھارے گھر سر شام آ جاوں گا تم اپنی بیٹی کا عروسی لباس مجھ کو دے دینا اور میں آگ کےدیوتا کے کارندوں کے آنے تک

 تمھارے گھر میں ہی رہوں گا  تم کو اب اپنی بیٹی کی فکر کی ضرورت نہیں ہے   یہ کہہ کر بزرگ وہاں سے روانہ  ہو گئے

اور شام کو پھر وہ حسب وعدہ اس گھر کی دہلیز پر موجود تھے -دیوتا کے کارندوں کے آنے سے کچھ دیر قبل انہو  ں  نے لڑکی  عروسی جوڑا زیب تن کیا اور دیوتا

 کے کارندوں کے انتظا رمیں بیٹھ گئے  -اور پھر رات کا اندھیا را ہونے پر جب دیوتا کے کارندے لڑکی   کو لینے آئےتو  بز رگ  دلہن کے لباس میں سر کوجھکائے

 ہوئے  ان کے ساتھ چلے گئے

کارندوں نے دلہن کو محل میں  لے جاکر دیوتا کے حوالے کیا اور واپس چلے گئے

اور پھر دیوتا نے جونہی دلہن کا گھونگھٹ الٹا گھونگھٹ کے اندر سے ایک باریش بزرگ نکلے تودیوتا ڈر کے مارے الٹے پیروں کمرے کے باہر دوڑااور ساتھ ہی

 بزرگ بھی  آئۃ الکرسی  بلند آواز کے ساتھ پڑھتے ہوئےاس کے پیچھے دوڑےلیکن کمرے کادروازہ تو  خود ہی بند کر چکا تھا اور  اب کہیں اس کےلئے جائے امان

 نہیں تھی اور  خود ساختہ دیوتا   بالآخر گر پڑا اور بزرگ کے آگے ہاتھ جوڑ کرمعافیاں مانگنے لگا توبزرگ نے کہا نہیں تجھے معافی ایسے نہیں ملے گی تو پہلے س

چّے دل سے توبہ کرے گا کہ اب کسی لڑکی کو محل میں نہیں بلائے گا تب تجھے معافی ملے گی-

بادشا ہ جا ں بخشی  کے عوض بزرگ کی  شرط مان گیا -اگلے روز تمام مراکش میں منادی ہوئ کہ بادشاہ اسلام قبول کر رہا ہے اس لئے مراکش کے طول و عرض میں    ہر فرد

کا   مذہب ہو گا

 پھر  اس شقی اور ظالم بادشاہ نے بزرگ کے ہاتھ پراسلام قبول کیا اور بادشاہ کے سا تھ ساتھ تمام مراکشی با شندوں نے بھی اسلا م قبول کیا اور اللہ کی مہربانی سے

 تمام مراکشی باشند ے یک بیک ایک بزرگ کی کرامت کے  سبب دین اسلام کی روشنی سے مالا مال ہو گئے

جبکہ در  اصل دیوتا کے روپ میں مراکش کا  اصل بادشاہ ہوتا تھااور لڑکی قتل اس لئے کی جاتی تھی تاکہ وہ بادشاہ کی اصلیت  کسی کو بتا نہیں سکے

عیّاش مرد عورت کے جنسی استحصال کے لئے  کیسے 'کیسے گھناونے حربے استعمال کرتے ہیں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر