منگل، 4 جنوری، 2022

راہب اعظم کے حضرت بایزید بسطامی سے سو سوال


 

جب راہبوں کی  عید کی محفل میں حضرت بایزید بسطامی  کی موجودگی کا انکشاف ہوا تو بعض راہب طیش میں آ گءے اور انہوں اپنے پیشوا سے  ان کو قتل کرنے کی اجازت چاہی لیکن پیشوا نے کہا  کہ ہمارے دین میں دلیل کے بغیر قتل جائز نہیں ہے مجھے پہلے  اس شخص کا امتحان لے لینے دو اگر یہ سچّا ہوا تو  اس کی جان بخش دی جائے گی ورنہ اگر یہ ہمارے دین کی آزمائش میں آیا  ہے تب ہم اس کو قتل کر دیں گے –راہب اعظم کے جواب پر تمام  راہب خاموش ہو گئے۔۔تب راہب اعظم نے بایزید سے پہلا سوال کیا

راہب اعظم :وہ ایک بتاؤ جس کا کوئ دوسرا نا ہو

بایزید :وہ عرش اعظم کا مکین پروردگار

عالم ہئے جس کا کوئ شریک نہیں جو واحدو جبّار و قہّار ہئے

راہب اعظم :وہ دو بتاؤ جس کاکوئ تیسرا نہیں ہئے

با یزید :وہ رات اور دن ہیں سورہ بنی اسرائیل آئت نمبراکّیس  میں ہئے

راہب اعظم :وہ تین بتاؤ جن کا کوئ چو تھا ناہو

با یزید :وہ عرش ،و کرسی اور قلم ہیں

راہب اعظم: وہ چار بتاؤ جن کا پانچواں نا ہو

با یزید :وہ چار آسمانی کتب عالیہ ہیں جن کے نام زبور،تورات انجیل اور قران مجید ہیں

راہب اعظم : وہ پانچ بتاؤ جن کا چھٹا نا ہو

بایزید :وہ پانچ وقت کی فرض نما زیں ہیں

راہب اعظم :وہ چھ بتاؤ جن کا ساتواں ناہو

بایزید: وہ چھ دن ہیں جن میں پروردگارعالم نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا سورہ ق آئت نمبر 38 کا حوالہ دے کر جوابدیا 

  اور ہم ہی نے یقیناًسارے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہئے چھ د ن میں پیدا کئے )

راہب اعظم : وہ سات بتاؤ جن کا آٹھواں نا ہو

بایزید : وہ سات آسمان ہیں سورہ ملک کی آئت نمبر تین  کا حوالہ دی

(جس نے سات آسمان تلے اوپر بنا ڈالے

راہب اعظم : وہ آٹھ بتاؤ جن کا نواں ن ہو

بایزید :وہ آٹھ فرشتے ہیں جو عرش اعظم کو اٹھائے ہوئے ہیں سورہ حاقّہ آئت (17

  اور تمھارے پروردگار کےعرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے)

  راہب اعظم :وہ نو بتاؤ جن کا دسواں ناہو

بایزید :وہ بنی اسرائیل کے نو فسادی اشخاص تھے

 اور شہر میں نو آدمی تھے جو ملک میں بانئ فساد تھے اور اصلاح کی فکر نا کرتے تھے ) سورہ نمل آئت نمبر8 4 کی گوا ہی ہئے

راہب اعظم: وہ دس بتاؤ جن کا گیارھواں نا ہو

بایزید :یہ دس روزے اس متمتّع پر فرض کئے گئے جس میں قربانی کرنے کی سکت ناہوہ

 راہب اعظم: وہ گیارہ جن کا بارھواں ناہو

بایزید :وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی تھے سورہ یوسف آئت نمبر 4 کا حوالہ

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور

 سورج کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم :وہ بارہ جن کا تیرھواں نا ہو

با یزید: یہ ازل سے سال کے بارہ مہینے ہیں  ربّ جلیل نے سورہء توبہ میں جن کا زکر کیا ہے

راہب اعظم :وہ تیرہ جن کا چودھواں نا ہو

بایزید : وہ حضرت یوسف علیہ السّلام  کا خواب ہئے سورہ یوسف کی آئت نمبر 4

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور

 سورج کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم : وہ قوم کونسی ہے جو جھوٹی ہونے کے باوجود جنّت میں جائے گی

بایزید : وہ قوم حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی ہیں جن کو پروردگارعالم نے معاف کر دی

راہب اعظم : وہ سچّی قوم کون سی ہئے جو سچّی ہونے کے باوجود دوزخ میں جائے گی

بایزید: وہ قوم یہود نصا ریٰ کی قوم ہئے سورہ بقرہ آئت نمبر113

راہب اعظم:  انسان کا نام  اس کے جسم میں کہاں رہتا ہے

بایزید :  انسان کےنام کا قیام  اس کے کانوں میں رہتا ہے

راہب اعظم :  وَا لذّٰ ر یٰتِ ذَ رٴ وً ا ۃ

 کیا ہیں

با یذید : وہ چار سمتوں سے چلے والی ہوائیں ہیں شرقاً ،غرباً،شمالاً ،جنوباً

  سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 1

راہب اعظم:  فَا ٴلحٰمِلٰتِ وِقرًا کیا ہیں

بایزید :  وہ وہ پانی بھرے بادلوں کو اپنے جلو میں لے کر بارش برسانے والی ہو ائیں ہیں   سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 2  راہب اعظم  فَا ٴلجٰر یٰت یُسرًا ۃ کیا ہیں

با یزید : ( پھر بادلو ں کو اٹھا کر ) آہستہ آہستہ چلتی  ہیں سورہ و الزّا ریات آئت نمبر  3

    راہب اعظم: فَالمقسّمات امراً کیا ہیں

بایزید :(یہ رب کریم کی جانب سے بارش کی تقسیم ہئے )،ہواؤں کو جہاں حکم ہوتا ہئے و ہیں جاکر بادلو ں کو ٹہرا کر(بارش تقسیم کرتی) برسا تی ہیں

راہب اعظم: وہ کیا ہے جو بے جان ہو کر بھی سانس لیتی ہے

بایزید: وہ صبح ہے جس کا زکر قران نے اس طرح کیا ہے

وا لصّبح اذ اتَنفّسَ سورہ تکویر آئت نمبر 81

راہب اعظم : وہ چودہ جنہوں نے ربّ جلیل سے گفتگو کی

بایزید: وہ سات زمینیں اور سات آسمان ہیں  )

راہب اعظم : وہ قبر جو اپنے مقبور کو اپنے ہمراہ لے کر چلی

بایزید : وہ حضرت یونس علیہ السّلا م کو نگل لینے والی مچھلی تھی

 راہب اعظم : وہ پانی جو نا تو زمین سے نکلا نا آسمان سے برسا 

بایزید: وہ ملکہ بلقیس کے گھوڑوں کا پسینہ تھا جسے ملکہ نے گھوڑوں سے حاصل کر کے بطور تحفہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کو بھجوایا تھا

 راہب اعظم : وہ چار جو پشت پدر سے اور ناشکم مادر سے پیدا ہوئے

بایزید: وہ حضرت آدم علیہا لسّلام اور بی بی حوّا اور ناقہ ء صالح علیہ ا لسّلام اور دنبہ بعوض حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام

راہب اعظم: پہلا خون جو زمین پر بہا گیا

بایزید : وہ ہابیل کا خون تھا جو قابیل نے بہایا تھا

راہب اعظم : وہ جس کو پیدا کر کے خدا نے خود خرید لیا اور پھر اس کی عظمت بیان کی

 با یزید: وہ مومن کی جان ہئے جس کے لئے اللہ خود خریدار بن گیا

 اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر

خرید لئے ہیں کہ کہ ان کی قیمت ان کے لئے بہشت ہئے سورہ توبہ آئت نمبر 111

   راہب اعظم: وہ کون سی محرمات ساری دنیا کی محرمات سے افضل ہیں

بایزید : بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا ،بی بی فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیہا ، بی بی آسیہ سلام اللہ علیہا و بی بی مریم سلام اللہ علیہاہیں

  راہب اعظم : اب میں تم سے سوال کر رہا ہوں کہ بلبل اپنی زبان میں کیا کہتی ہئے

بایزید: بلبل کہتی ہئے فَسُبحٰنَ اللہِ حِینَ  تُمسُو نَ وَ حِینَ تُصبِحُو نَ

راہب اعظم : اونٹ کیا کہتا ہئے

بایزید : حَسبِی اللہُ وَ کفیٰ بِا للہِ وَکِیلاَ

راہب اعظم : بتاؤ گھوڑا کیا کہتا ہئے

بایزید : سُبحانَ حافِظی اذا اثقلت الابطال

راہب اعظم :مور کیا کہتا ہئے

بایزید:الرّحمٰن علی العرش الستویٰ

راہب اعظم :  مینڈک کیا کہتا ہئے

  بایزید:سُبحا ن المعبود فی البراری وا لقفار سبحان الملک الجبّار سور ہ نحل

راہب اعظم :کتّا بھونکتے وقت کیا کہتا ہئے

 بایزید : وَیلُن( دو پیش کی آواز سے پڑھیں )

راہب اعظم :گدھا ہینکتے وقت کیا کہتا ہئے

 بایزید : لعن اللہ العشار

راہب اعظم :چاند لگاتار تین راتیں کہاں غائب رہتا ہئے

 بایزید : یہ بھی غامض میں جاکر رب جلیل کے حضور سجدہ ریز رہتا ہئے اور پھر طلوع ہوتا ہئے

راہب اعظم : طامّہ کیا ہئے

بایزید :قیامت کا دن ہئے

راہب: اعظم :طمّہ و رمّہ  کیا ہئے

بایزید: یہ حضرت آدم علیہالسّلام سے قبل کی مخلوقات تھیں

راہب اعظم: سبد و لبد کیا ہئے

یہ بھیڑ و بکری کے بال کہے جاتے ہیں

راہب اعظم :ناقوس بجتا ہئے تو کیا کہتا ہئے

  بایزید:سبحان اللہ حقّاً حقّاً انظر یا بن آدم فی ھٰذا الدّنیا غرباً شرقاً ما تریٰ فیھا امراً یبقیٰ

   راہب اعظم : وہ قوم کو ن سی ہئے جس پر اللہ تعالٰی نے وحی بھیجی جو ناتو انسان ہئے ناہی جن ہئے اور ناہی فرشتہ ہئے

بایزید : وہ شہد کی مکھّی ہئے سورہ نحل میں جس کا تذکرہ ہئے

وہ کون سی بے روح شئے ہئے جس پر حج فرض بھی نہیں تھا پھر بھی اس نے طواف کعبہ بھی کیا اور حج بھی کیا

بایزید: وہ کشتئ نوح علیہ السّلام ہئے جس نے پانی کے اوپر چلتے ہوئےہی حج کے ارکان ادا کئے

راہب اعظم : قطمیر کیا ہئے?

بایزید کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو غلاف ہوتا ہئے اس کو قطمیر کہتے ہیں

راہب اعظم : نقیر کسے کہتے ہیں

بایزید :کھجور کی گٹھلی کی پپشت پر جو نقطہ ہوتا ہئے اس کو نقیر کہتے ہیں

راہب اعظم : وہ چار چیزیں بتاؤ جن کی جڑ ایک ہئے لیکن مزہ ہر ایک کا جدا ہئے

بایزید: آنکھون کا پانی نمکین ہوتا ہئے جبکہ ناک کا پانی ترش ہئے

- اور منہ کا پانی میٹھا ہئے اورکانوں کا پانی کڑوا ہئے

اور ان چاروں کا مرکز مغز ہئے جو کاسہء سر میں بند ہئے    

راہب اعظم :جب دن ہوتا ہئے تو رات کہاں چلی جاتی ہئے اور جب رات چلی آتی ہئے تو دن کہاں چلا جاتا ہئے

 بایزید : رات اور دن لگاتار اللہ تعالیٰ کے غامض میں چلے جاتے ہیں یہاں تک کسی کی بھی رسائ نہیں ہئے

راہب اعظم : ایک درخت جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی پر تیس پتّے ہیں ہر پتّے پر پانچ پھول ہیں ،دو پھول دھوپ کے ہیں اور تین پھول سائے میں ہیں

بایزید: ا ئے راہب اعظم وہ جو تم نے درخت پوچھا تو وہ ایک سال کی مدّت ہئےاس کے بارہ مہینے ہیں اور ہر مہینے کے تیس دن ہیں ہر دن کی پانچ نمازیں ہیں دو دھوپ کے وقت پڑھی جاتی ہیں تین سائے کے وقت پڑھی جاتی ہیں

راہب اعظم: بتاؤ نبی کتنے ہیں اور رسول اور غیر رسول میں کیا فرق  ہئے

بایزید : تین سو تیرہ رسول ہیں باقی نبی ہیں

   راہب اعظم بہشت کی اور آسمانوں کی کنجیا ں کن کو کہا گیا ہئے

بایزید: وہ اللہ کے مقرّب ترین بندے پنجتن پاک حضرت رسول خدا محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہِ وسلّم آپ (صلعم )کی پیاری

 بیٹی حضرت بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاان کے شوہر حضرت علی علیہ ا لسلام  ان کے دونوں بیٹےحضرت  امام حسن

 علیہ السّلام  اور امام حسین علیہ السّلام ہیں

اور جب حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے راہب اعظم کی گفتگو تمام ہوئی تو وہ بایزید کے دست حق پرست پر اپنے پانچ سو ما تحت راہبوں کے ہمراہ دین اسلام پر ایمان لے آیا

اس طرح ندائے غیبی کی وہ بات پوری ہوئی جس میں ایک شاندار واقع ظہور پذیر ہونے تذکرہ تھا۔

نور مقدّم کی بے نور آنکھیں

 

نور مقدّم کی بے نور آنکھیں

والدین کے لئے لمحہء فکریہ -مجھے اس بات پر کو ئ حیرت نہیں ہوئ کہ اتنا بڑا سانحہ جیتے جاگتے وقت میں ظہور پذیر ہو گیا اور سارا شہر سوتا رہا 'کیوں ؟یہ

 تقاضائے فطرت کے تحت قریب آئے تھے پھر جان کیوں لے لی

اب دیکھئے ایک لڑکی اپنے شہر سے دوسرے شہر پڑھنے آتی ہے ہوسٹل کی رہائش کے دوران ایک ایسے شخص سے دوستی ہوجاتی ہے جو پہلے سے شادی شدہ اور دو

 بچّوں کا باپ ہے اس کی جاب ایک پاکستان سے باہر دور دراز کے ملک میں ہے اوروہ شخص پاکستان آتا ہے اور اپنی فیمیلی کے ساتھ وقت گزار کر  بیرون ملک

 جانے کے بجائے اس لڑکی کے  ساتھ رہنے لگتا ہے انہیں ساتھ رہتے ہوئے چند روز ہی گزرتے ہیں کہ بیوی کو کچھ  شک ہو تا ہے تو اپنے شوہر کی ائر پورٹ پر

 انکوائری  کرواتی ہے ائر پورٹ والے کہتے ہیں اس نام کا کوئ مسافر اس ملک کو دو مہینے کے اندر تک نہیں گیا  اب  شوہر کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی چوری پکڑی گئ ہے -تو اب وہ لڑکی سے جان چھڑانا چاہتا ہے پھروہ بازار سے ایک ریوالور خریدتا ہے اور لڑکی کی نظر سے بچا کر گھر میں چھپا دیتا ہے پھر لڑکی سے کہتا ہے چلو سیر کو چلتے ہیں  پھر وہ لڑکی کو ایسی گزرگاہ پر لاتا ہے جو سنسان ہے اور دونو ں جانب جھاڑیاں ہیں اب راستہ چلتے ہوئے وہ چپکے سے دو قدم پیچھے رکتا ہے اور شلوار کے نیفہ میں چھپایا ہوا ریوالوار نکال کر لڑکی پر دو فائر کرتا ہے لڑکی زرا سی دیر میں د م توڑ دیتی ہے پھر خون میں لت پت مردہ لڑکی کو گھسیٹ کر جھاڑیوں ڈال کرآتا ہے اور اپنا سامان پیک کر کے اپنی بیوی کے پاس چلا جاتا ہے اور بیوی سے ایک جھوٹی کہانی گڑھتا ہے کہ میری باہر کی جاب ختم ہو گئ اس لئے میں تمھارا سامنا نہیں کر پارہا تھا اور واپس آ کر اپنے ایک دوست کے گھر ٹھر گیا تھا

اب اس کیس کا پتا یوں چلا کہ لڑکی نے اپنی ایک ہاسٹل کی  دوست کو اپنا ہمراز بنایا ہوا تھا اور اسی دوست  کا ریفرنس گھر والوں کو بھی دیا تھا جب لڑکی سے گھر

 والوں کا رابطہ نہیں ہوا تو انہوں اپنی بیٹی کی دوست سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ وہ فلاں 'فلاں دوست کے ساتھ کہ کر گئ   پھر نہیں معلوم کہ اب وہ کہاں ہے

 اب پولیس نے تفتیش کی تب سارا عقدہ کھل کر سامنے آگیا کہ لڑکی قتل کی جاچکی ہے

 اب دوسرا کیس 'لڑکی دوسرے شہر سے  پڑھنے آتی ہے اور ہوسٹل میں رہنے لگتی ہے اور پھر پہلی ملاقات اس قدر قربتوں میں  بببدلتی ہے کہ لڑکی اپنے وجود

 میں ایک اور سانس کو مھسوس کرتی ہے پہلے دونوں پریشان ہوتے ہیں پحر سانس کا گلا گھونٹنے کا فیصلہ کرتے ہیں

 لڑکی گھر جا کر اپنی ماں سے فیس کے بہانے ڈیڑھ لاکھ روپے لے کر آتی ہے  اور ہسپتال میں بچّے کے ساتھ ساتھ اپنی جان کی بازی بھی ہار دیتی ہے 'جب وہ زندہ

 تھی اس وقت کی تصاویر میڈیا پر شئر کی گئِیں اورلڑکا مردہ لڑ کی کو ہسپتال میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے-اب پولیس حرکت میں آتی ہے اور ملزم کا سراغ لیتی ہے

لاہورنجی ٹیچنگ ہسپتال میں لڑکی کی لاش چھوڑ کر جانے والےکی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی، پولیس نے ملزم اسامہ کو

حراست میں لے لیا، لاش کا پوسٹمارٹم مکمل ہوگیا، ملزم کا کہنا تھا کہ لڑکی حاملہ تھی۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے ڈگری لینے

 آئی طالبہ کے قتل کیس میں اہم پیش رفت، نجی ٹیچنگ ہسپتال میں لڑکی کی لاش چھوڑ کر جانے والوں کا سراغ مل گیا۔ لاہور

نیوز سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے لے آیا، پولیس نے ایک ملزم اسامہ کو حراست میں لے لیا۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم اسامہ نے مریم کو اٹھا کر گاڑی سے باہر نکالا جبکہ اس کا ساتھی گاڑی

چلا رہا تھا، ملزم لاش ہسپتال کی ایمرجنسی میں رکھ کر فرار ہو جاتا ہے۔ پولیس نے ملزم اسامہ سے تحقیقات شروع کر دی جبکہ دوسرے ملزم کی تلاش جاری ہے۔

پولیس کے مطابق گجرات کی رہائشی 20 سالہ مریم گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے اپنی ڈگری لینے آئی تھی جہاں سے وہ

 رائیونڈ روڈ پر واقع نجی میڈیکل یونیورسٹی چلی گئی، پولیس نے ہسپتال عملے کے بیانات قلمبند کر لیے ہیں۔

 انویسٹی گیشن پولیس کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد حقائق سامنے آئیں گے۔

 بیس سالہ طالبہ کی ہلاکت کی تفتیش میں سنسنی خیز انکشافات، گرفتار اسامہ نے پولیس کو بیان ریکارڈ کرا دیا۔ مریم اور

  اسامہ آپس میں دوست تھے، اسامہ کے بیان کے مطابق مریم بغیر نکاح کےحاملہ تھی، دونوں کا تعلق پاکستان کے ضلع گجرات سے ہے۔

 یہ تیسرا کیس دیکھ لیجئے نیو ائر نائٹ میں اسلام آباد کے بنگلے کی چھت پر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی پارٹی تھی اور پھر

 ناجانے کیا پیش آیا کہ دو جوان لڑکیا ں چھت سے نیچے گر گئیں یا گرا دی گئیں یا وہ اپنی عزّتیں بچانے کو خود کود گئیں

 اس پر پردہ پڑا ہوا ہےلیکن معاشرہ کے لئے ایک لمحہ ء فکریہ چھوڑ گیا ہے ' دین فطرت اور دین اسلام کا تقا ضہ ہے جب

 تمھارے بچّے بلوغ کو پہنچ جائیں ان کی شادی میں جلدی کرو اور معاشرہ کا یہ عالم ہے کہ لڑکیاں بغیر نکاح کے بوائے

 فرینڈز کے ہمراہ لیونگ ریلیشن شپ پر رہتی ہیں اور پھر انجام کار؟؟؟؟؟خوفناک ہوتا ہے

 آ پ کو قدم قدم پر پاکستانی سماج میں نور مقدّم جیسی لڑکیا ں ملیں گی جو والی وارثوں کے بغیر کٹی پتنگوں کی مانند آزاد فضا وں میں ڈول رہی ہوں گی


کالے کوّے سے ڈریو

ca-pub-4942806249941506"ads.txt>

 

کالے کوّے سے ڈریو

اللہ تعالیٰ نے زمین میں کئی خزانے پیدا کیے ہیں جو سب کے سب ہمارے لیے فائدہ مند ہیں۔ ہماری تفریح کے لیے اتنا بڑا سامان موجود ہے کہ ہماری عمر کم

 ہوجاتی ہے مگر اس زمین میں موجود چیزوں کو دیکھ نہیں پاتے۔ بچپن سے کئی جانور اور پرندے ہمارے اردگرد رہتے تھے اور رہتے ہیں جنھیں ہم دیکھ کر بڑے

 خوش ہوتے ہیں۔ان جانوروں میں کچھ ہماری سواری کے لیے ہیں اور کچھ خوراک کے لیے اورکچھ پرندے ہم کھاتے ہیں اورکچھ خوبصورت ہونے کی وجہ سے

 انھیں اپنے ماحول میں زندہ رکھنے کے لیے ان کا خیال کرتے ہیں۔ جانور اور پرندوں کی ایک ثقافتی اہمیت ہے اور ان سے ہم نے کئی کہاوتیں اور نشانیاں باندھی ہوئی ہیں۔

کوا جو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے، وہ برفانی علاقوں میں سفید رنگ کا ہوتا ہے اور باقی جگہ پر کالے رنگ کا ہوتا ہے مگر سب کی عادتیں اور علامتیں ایک جیسی ہیں۔

سندھ میں شاعروں نے کوے کی اہمیت اور ثقافتی ضرورت پر کئی شعر کہے ہیں جس میں ایک بات پورے پاکستان میں مشترکہ ہے کہ جب کوا کسی کے گھرکی دی

وار یا پھر چھت پرآکر بیٹھتا ہے اورکائیں کائیں کرنے لگتا ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ آج کوئی مہمان آئے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب تو شہروں اورگاؤں میں

 بھی موبائل فون موجود ہے اس لیے اب کوے کی کائیں کائیں کی طرف لوگ کم ہی دھیان دیتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے شاعروں اور ادیبوں نے اس کا ذکر کرنا نہیں چھوڑا ہے۔

بچپن میں گاؤں میں اکثر بچوں کے ہاتھوں سے کوا روٹی کا ٹکڑا چھین لیتا تھا مگر پھر بھی اسے لوگ نہیں مارتے تھے صرف اسے دور رکھنے کے لیے ہاتھوں کی دو

 انگلیاں ملاکر دوسرے ہاتھ کی انگلی سے کوے کو بتانا ہوتا تھا کہ اسے ہم غلیل مار رہے ہیں اور وہ بھاگ جاتا تھا۔ کوے کو سیانا پرندہ مانا جاتا ہے -

 اس کے لیے

 ایک یہ کہاوت ہے کہ سیانا کوا جب بھی کہیں پھنستا ہے دونوں ٹانگوں سے۔ یہ پرندہ گرمی میں گھبراتا ہے اورکڑی دھوپ میں درخت پر ہی رہتا ہے اس لیے

 سندھ میں کہاوت ہے کہ اتنی گرمی ہے کہ کوے کی آنکھ نکل رہی ہے۔گاؤں میں لوگ کوے کے لیے مکھن اور چینی سے گندم والی چوری (پنجیری) بنا رکھتے تھے۔

اب تو کوے کی نسل بے حد بڑھ گئی ہے اورکراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں ہر جگہ آپ کو یہ پرندہ ملے گا لیکن پالنے کے لیے اسے کوئی بھی پنجرے

 میں نہیں رکھتا اس لیے کہ یہ آپ کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا ہے۔ کراچی سے اس پرندے نے طوطے، بلبل کی نسل کو ختم کردیا ہے اب بھی اگر طوطا کہیں

 درخت پر نظر آجاتا ہے تو یہ اسے مار دیتے ہیں۔ جہاں بھی کوے نے کبوتر کو دیکھا کہ وہ بیمار ہے وہ اس کے سر پر ٹھونگیں مار کرگرا دیتے ہیں اور پھر اپنا بھوجن

 بناکر چٹ کردیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے زمین میں کئی خزانے پیدا کیے ہیں جو سب کے سب ہمارے لیے فائدہ مند ہیں۔ ہماری تفریح کے لیے اتنا بڑا سامان موجود ہے کہ ہماری عمر کم

 ہوجاتی ہے مگر اس زمین میں موجود چیزوں کو دیکھ نہیں پاتے۔ بچپن سے کئی جانور اور پرندے ہمارے اردگرد رہتے تھے اور رہتے ہیں جنھیں ہم دیکھ کر بڑے

 خوش ہوتے ہیں۔ان جانوروں میں کچھ ہماری سواری کے لیے ہیں اور کچھ خوراک کے لیے اورکچھ پرندے ہم کھاتے ہیں اورکچھ خوبصورت ہونے کی وجہ سے

 انھیں اپنے ماحول میں زندہ رکھنے کے لیے ان کا خیال کرتے ہیں۔ جانور اور پرندوں کی ایک ثقافتی اہمیت ہے اور ان سے ہم نے کئی کہاوتیں اور نشانیاں باندھی ہوئی ہیں۔

کوا جو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے، وہ برفانی علاقوں میں سفید رنگ کا ہوتا ہے اور باقی جگہ پر کالے رنگ کا ہوتا ہے مگر سبکی عادتیں اور علامتیں ایک جیسی ہیں۔

سندھ میں شاعروں نے کوے کی اہمیت اور ثقافتی ضرورت پر کئی شعر کہے ہیں

 جس میں ایک بات پورے پاکستان میں مشترکہ ہے کہ جب کوا کسی کے گھرکی دیوار یا پھر چھت پرآکر بیٹھتا ہے اورکائیں کائیں کرنے لگتا ہے تو ہم سمجھ جاتے

 ہیں کہ آج کوئی مہمان آئے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب تو شہروں اورگاؤں میں بھی موبائل فون موجود ہے اس لیے اب کوے کی کائیں کائیں کی طرف لوگ

 کم ہی دھیان دیتے ہیں لیکن اس کی وجہ سےشاعروں اور ادیبوں نے اس کا ذکر کرنا نہیں چھوڑا ہے۔ کوئل اپنا گھونسلا نہیں بناتی اور اپنے انڈے کوے کے

 گھونسلے میں دے آتی ہے۔ کوا ان بچوں کو اپنا سمجھ کر پالتا ہے جب وہ بڑے ہوتے ہیں اور پھر وہ انھیں نکال باہر کرتے ہیں۔،

 

                  


مغرور بادشاہ کو ہدائت کیسے ملی

 

  بادشاہ تھا۔ وہ ایک زبر دست لشکر کا مالک تھا۔  اس کے پاس ایک لاکھ تینتیس ہزار گھڑ سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ فوج

 تھی۔ اس کثیر لشکر کے ساتھ وہ جس ملک یا شہر پر چڑھائی کرتا، لوگ خوف زدہ ہو جاتے اور اطاعت میں سر خم کر دیتے۔ وہ جس علاقے کو فتح کرتا، وہاں سے

 دس دانا آدمی منتخب کر کے بطور مشیر اپنے ساتھ رکھتا۔اس طرح اس کے پاس چار سو بہترین علمائے دین جمع ہو گئے تھے جن کے پاس کتب سماویہ کا علم تھا

جب وہ ممالک کو زیرِ نگیں کرتا ہوا مکہ مکرمہ میں داخل  ہوا، تو اہلِ مکہ اس کے لاؤ لشکر کو دیکھ کر ذرا بھی مرعوب نہ ہوئے۔ اس وقت اس کے پاس چار ہزار حکماء

 اور علماء بھی تھے۔ تُبَّع نے اپنے وزیر عَمارِیس کو بلا کر پوچھا کہ اہل مکہ کے دلوں پر اس لشکر جرار کا خوف کیوں نظر نہیں آ رہا؟

اس کے مشیر نے جواب دیا 'ائے بادشاہ اس شہر میں ایک گھر ہے جس کی زیارت کو تمام دنیا سے لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور جتنا تیرا لشکر ہے اتنے آدمی تو

 روز اس کا طواف کرتے ہیں بس اس بات نے تُبَّع الحمیری کو طیش دلا دیا اور اس نے کہا فوج کو تیّار ی کا حکم دیا جائے میں خانہ ء کعبہ کو نیست و نابود کر دوں گا  اور

 اس کے دّام کو غلام بنا وں گا اور اس کے ساتھ ہی بادشاہ ککو ایسی بیماری لاحق ہوئ کہ وہ اس کا جسم اکڑ گیا اور جسم کے ہر حصّے سے بدبو دار پیپ کا اخراج ہو نے 

جس کی شدت کے باعث کوئی شخص لمحہ بھر کے لیے بھی اس کے پاس نہ ٹھہر سکتا۔ اس بیماری نے اس کی نیند چھین لی۔دربار کے تمام حکماء اور علماء کو بلایا گیا

لیکن بیماری کی کوئ تشخیص نہیں کر سکا جو دوا دیتا بالاخر سب سے آخر میں عالم ربّانی کو بلایا گیا عالم ربّانی نے بادشاہ کو ایک نظر دیکھا اورکہا مرض زمینی نہیں آسمان

ی ہے جو بادشاہ کی کسی سنگین خطا کے سبب لاحق ہوا ہے عالم ربّانی کے روبرو بادشاہ  نے اعتراف کیا کہ اس نے خانہء کعبہ اور خدّام کعبہ کے لئے بری نیت کی تھی-

عالم ربّانی نے بادشاہ سے کہا اگر تو توبہ کر لے گا تو تجھے نجات مل جائے گی ورنہ موت تیرے سر پر کھڑی ہے اور تو ابھی صدق دل سے توبہ کر لے

بادشاہ نے اسی وقت صدق دل سے تو بہ کی اور کہا کہ میں دل سے خانہ ء کعبہ کی تعظیم کروں گا اور خدّام کی خدمت بھی کروں گا ۔ ابھی وہ عالم ربّانی بادشاہ کے

 پاس سے ہٹنے بھی نہیں پایا تھا کہ بادشاہ کی تکلیف رفع ہو گئی اور وہ صحت یاب ہو گیا۔پھر  اس نے خانہ کعبہ کے سات قیمتی غلاف تیار کروائے۔اور خدّام کعبہ کو

 سات 'سات جوڑے زربفت اور کمخواب کے دئے پھر وہ اپنے لشکر کے ہمراہ یثرب کی جانب روانہ ہوا-

سر زمین ِیثرب ان دنوں ایک صحرا تھا ، جہاں صرف پانی کا ایک چشمہ تھا۔ اس کے علاوہ نہ کوئی عمارت تھی نہ کوئی پودا، نہ کوئی جاندار وہاں بستا تھا۔ تُبَّع نے چشمے

 کے پاس پڑاؤ ڈال  دیا۔ وہاں لشکر کے سب علماء اور حکماء جمع ہوئے، جومختلف شہروں سے منتخب کر کے ہمراہ رکھے گئے تھے۔

ان میں وہ صاف باطن، دین الٰہی کا خیر خواہ، رئیس العلماء بھی تھا جس نے بادشاہ کو عظمت کعبہ سے رو شناس کروایا تھا اور اسے بلائے مرض سے نجات دلائی

 تھی۔ بادشاہ کے علمائے دین نے یثرب پہنچ کر ناجانے کیا محسوس کیا کہ زمین کی کنکریاں ہاتھ میں آٹھا کر سونگھیں اور پھر کہنے لگے اس شہر کی مٹّی  نبی آخر

 الزّماں کی خوشبو سے معمور اس لئے ہم   اب یہاں سے واپس نہیں جائیں گے، چاہے ہماری جان چلی جائے۔ وہ آ کر بادشاہ کے خیمہ کے دروازے پر کھڑے ہو

 گئے اور کہا: ہم نے اپنے شہر چھوڑے اور مدتوں بادشاہ کے ساتھ رہے اور اس مقام تک پہنچے کہ یہاں موت نصیب ہو۔ اب ہم نے عہد کیا ہے کہ اس جگہ کو

 نہیں چھوڑیں گے، چاہے بادشاہ ہمیں قتل کر دے یا جلا ڈالے۔

بادشاہ کا دل اب ہدائت یافتہ ہو چکا تھا اس نے اپنے ان چار سو علمائے دین کے بہترین گھر بنوائے اور تمام گھروں کو ساز سامان سے آراستہ کیا اور پھر  لونڈیوں کو

 آزاد کر کے اپنے عالموں کے نکاح کرواتا گیا تاکہ جب نبئ کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم دنیا میں تشریف لائِں تب مدینہ اُن کی پاکیزہ نسلوں سے معمور ہو اس

بعد اس نے ایک متبرّک خط تحریر کیا جس کا متن یہ تھا - یہ خط تبّع الحمیری کی جانب سے نبئ آخرالزّماں صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی خدمت میں لکھا گیا کے

کمترین مخلوق تبع اول الحمیری کی طرف سے شفیع المذنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم -اما بعد

اے اللہ کے حبیب!حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے

 دین پرآ گیا  ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تومیری بڑی خوش نصیبی ہو گی لیکن  اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمائے گا  اور

 قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کیجئے، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ

 اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔

شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً عالم ربّانی کی نسلوں میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک وہ دنیا نے وہ سنہری ساعتیں بھی دیکھیں جب  ایک ہزار چالیس برس گزر گئے ان

 علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیااور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے

 حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور نبئ مکرّم حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ

 وسلّم کے مدینہ آنے پر آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا آپ نے خط پڑھا اور مسکرائے اور فرمایا -شاباش میرے بھائ،،  ،


ہفتہ، 1 جنوری، 2022

وٹّہ سٹّہ کی عذاب کہانیاں

ca-pub-4942806249941506"ads.txt>

 وٹّہ سٹّہ کی عذاب کہانیاں

اب سے تقریباً ستائس برس پہلے کا واقعہ ہے جو میری آنکھوں کے سامنے پیش آ یا نازک کومل  تعلیم یافتہ  لڑکی کی شادی ہوئ بھائ کے ساتھ بدلے پر اپنے قریبی عزیزوں میں بیاہ کر چلی گئ کہ سال بھر سے کچھ اوپرگزرا تھا کہ اچانک ایک دن اس کی گلی سے گزر ہوا- لڑکی بصد اصرار اپنے گھر کے اندر لے گئ  اور پھر میں نے حسب دستور اس کی شادی شدہ زندگی کا احوال پوچھا تو اس نے بتایا کہ جیسا کہ مجھے معلوم ہو گا کہاس کی شادی اس کے قریبی  عزیزوں میں وٹّہ سٹّہ کے بدلے میں  ہوئ تھی جو میری  بھابھی کا میرے والدین سے نہیں نباہ سکی اس لئے مجھے بھی طلاق ہو گئ -

لڑکی نے بتایا کہ ہم دونوں شوہر بیوی بہت اچھّا نباہ کر رہے تھے میرے شوہر مجھ سے بہت محبّت کرتے تھے -میں بھی ان سے بہت محبّت کرتی تھی لیکن پھر ہمارے گھر میں روز بدمزگی رہنے لگی شوہر مجھ سے کھنچے کھنچے رہنے لگے کیونکہ میں اوپر کی منزل میں رہتی تھی اور ساس سسر نیچے کی منزل میں رہتے تھے تو جب میرے میاں دفتر سے آتے تو میری ساس ان کو انکی بہن کی مظلومیت کا حال بتاتی تھی اور پھر وہ مجھ سے دور ہونے لگے یہاں تک کہ ایک دن میری نند جو میری بھابھی تھی گھر آ کر بیٹھ گئ اوراس نے خلع کا مطالبہ کر دیا میرے والدین نے پہلے سمجھوتہ کی کوشش کی پھر ہار مان کربھائ سے خلع دلوا دیا

  میرے یہاں پہلا بچّہ ہونے والا تھا پھر جب میرے یہاں بچّہ ہوا تو میری ساس نے اسے مجھے دیکھنے تک نہیں دیا اورہسپتال سے ہی وہ اسے اپنے ساتھ لے گئیں بچّے کی پیدائش کے بعد میرا طلاق نامہ بھی آ گیا  -اور مجھے ڈپریشن کے دورے پڑنے لگے امّی بتا رہی تھِین کہ میں اچانک چیختی تھی کہ میرا بچّہ مجھے لادو-تقدیر کا لکھا توپورا ہو چکا تھا اورپھرمیرے دوہرے صدمہ سے امّی شدید بیمار ہوئیں کہ ایک جانب میرا گھر اجڑا تو دوسری طرف میرا لخت جگر مجھ سے چھین لیا گیا اور پھر یوں ہوا کہ مجھے تو اللہ نے ٹھیک کر دیا  لیکن امّی  میری اور بھائ کی طلاق کا صدمہ نہیں جھیل سکیں اور اللہ میا ں کے پاس چلی گئیں-میرے بھائ حالات سے دلبرداشتہ ہو کر باہر چلے گئے اور میں یہیں ابّو کے ساتھ رہنے لگی-ان تمام سختیوں سے گھبرا کر میں نے دوبارہ اپنی تعلیم شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا کہ اچانک ایک روز  میرے ایک کزن میرے گھر آئے مجھ سے سر سری ملاقات کے بعد بس انہوں نے مجھ سے اتنا پوچھا کہ کیا میں ان سے شادی کروں گی میں نے ان کو جواب دیا اب میرے وارث میرے ابّو ہیں آپ ان سے بات کر لیجئے پھر وہ ابّو کے ساتھ کافی دیر دوسرے کمرے میں رہےاورپھران کے ساتھ ساتھ  ان کی فیمیلی نے متّفقہ فیصلہ کیا اور گھر کے چند افراد کے درمیان مجھے اپنا بنا لیا -یہ زندگی کا بڑا انوکھا موڑ تھا خوشی اور دکھ کاا متزاج - اب میں دو بیٹیوں کی ماں ہوں الحمد للہ

 اب میرے شوہر یہیں میرے ساتھ رہتے ہیں کیونکہ اگر مین سسرال جاتی ہوں تو ابّو تنہا ہو جائیں گے -لڑکی نے مجھ سے کہا آنٹی آ پ کہانیاں لکھتی ہیں میری کہانی بھی لکھیے اور سماج کو بتائیے کہ  شادی کی یہ ظالمانہ رسم ختم ہونی چاہئے کیونکہ دیکھئے میراگھر دوبارہ آباد ہو گیا میرے سابقہ شوہر کی بھی شادی ہوگئ ہے لیکن میرا وہ لخت جگر جس نے میری شکل بھی نہیں دیکھی

 میرے کلیجے کو چیر کر مجھ سے جدا کر دیا گیا-اور بھائ کی معصوم بیٹیا ں جن کو ان کی ماں اپنی مرضی سے چھوڑ گئ وہ اب سوتیلی ماں کے رحم و کرم پر پل رہی ہیں

وٹّہ سٹّہ کی ایک اور سچّی کہانی

میری اور میرے بھائی کی شادی کئ سال پہلے وٹہ سٹہ کی رسم  میں ہوئی تھی۔شادی کا ابتدائ وقت تو  میری بھابھی نے اچھّا نباہ کیا لیکن پھربھابھی کا رویہ اچانک میرے بھائی اور گھر والوں کے ساتھ تلخ ہونے لگا ۔ ان کے ہاں دوجڑواں بیٹیاں بھی  بھی ہوگئں ۔  پھر ایک  دن ایک چھوٹی سی بات پر میری بھابھی ناراض ہو کر میکے بیٹھ گئیں میرے والدین اور بھائی کئی مرتبہ بھابھی کو منانے گئے لیکن وہ نہیں مانیں اور میکے میں ہی بیٹھی رہیں

 اس کے بعد سے پورا سسرال میرا دشمن بن گیا۔ سارا گھر میرے شوہر کے پیچھے پڑ گیا کہ اس کے بھائی نے تمہاری بہن کو چھوڑ دیا ہے۔ تم بھی اسے طلاق دے کر گھر بھیج دو۔ شوہر کچھ عرصے تک تو گھر والوں کو منع کرتے رہے اس کے بعد بھی انہوں نے مجھے اپنے والدین کے گھر تو نہیں بھیجا لیکن مجھ سے تعلق ختم کرلیا ہے۔

میں اپنے  کمرے میں بند رہتی ہوں۔ ۔ میرے والدین اور خاندان کے بڑوں نے بہت کوشش کی کہ یہ معاملات سدھر جائیں۔ میرے شوہر کہتے ہیں کہ تمھیں  اپنے گھر جانا ہے تو چلی جاؤ لیکن پھر واپس آنا چاہو گی تو دروازے بند ملیں گے-کوئ بتائے میں نے کس جرم کی سزا پائ


 


اتوار، 22 اگست، 2021

عید غدیرتکمیل دین کا یوم جاودانی

عید غدیرتکمیل دین کا یوم جاودانی اس عید کے شب و روز میں عبادت، جشن اور غریبوں کے ساتھ نیکی نیز خاندان میں آمد و رفت ہونے کے ساتھ مومنین اس عید پر اچھے کپڑے پہنتے اور زینت کرتے ہیں ۔ یہ عید صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ اگرچہ اس کی نسبت شیعہ خاص اہتمام رکھتے ہیں؛ مسلمانوں کے دیگر فرقے بھی عید غدیر میں شیعوں کے ساتھ شریک ہیں، غیر شیعہ علماء نے بھی اس روز کی فضیلت اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے مقام ولایت پر فائز ہونے کی وجہ سے عید قرار دینے کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے؛ کیونکہ یہ دن حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کے لئے خوشی و مسرت کا دن ھے چاہے آپ کو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا بلا فصل خلیفہ مانتے ہوں یا چوتھا خلیفہ۔ بیرونی ”الآثار الباقیة “ میں روز غدیر کو ان دنوں میں شمار کرتے ہیں جس کو مسلمانوں نے عید قرار دیا ہے ۔ ابن طلحہ شافعی کہتے ھیں: ”حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے اشعار میں روز غدیر خم کا ذکر کیا ہے اور اس روز کو عید شمار کیا ہے، کیونکہ اس روز رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے آپ کو اپنا جانشین منصوب کیا ”لفظ مولا کا جو معنی بھی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے ثابت کرنا ممکن ہو وہی حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی معین ہے، اور یہ ایک بلند مرتبہ، عظیم منزلت، بلند درجہ اور رفیع مقام ہے جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص کیا، لہٰذا اولیائے الٰھی کے نزدیک یہ دن عید اور مسرت کا روز قرار پایا ہے۔“ ثعالبی، شب غدیر کو امت اسلامیہ کے نزدیک مشھور راتوں میں شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”یہ وہ شب ہے جس کی کل میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے غدیر خم میں اونٹوں کے کجاؤں کے منبر پر ایک خطبہ دیا اور فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، اور شیعوں نے اس شب کو محترم شمار کیا ہے اور وہ اس رات میں عبادت اور شب بیداری کرتے ہیں۔“ غدیر کے کچھ اہم پیغامات ۱۔ ہر پیغمبر کے بعد ایک ایسی معصوم شخصیت کا ہونا ضروری ہے جو ان کے راستہ کو آگے بڑھائے اور ان کے اغراض و مقاصد کو لوگوں تک پہنچائے، اور کم سے کم دین و شریعت کے ارکان اور مجموعہ کی پاسداری کرے، جیسا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے ان چیزوں کے لئے جانشین معنی کیا اور ہمارے زمانہ میں ایسی شخصیت حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں۔ ۲۔ انبیاء علیھم السلام کا جانشین خداوندعالم کی طرف سے منصوب ہونا چاہئے جن کا تعارف پیغمبر کے ذریعہ ہوتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے اپنا جانشین معین کیا؛ کیونکہ مقام امامت ایک الٰھی منصب ہے اور ہے امام خداوندعالم کی طرف سے خاص یا عام طریقہ سے منصوب ہوتا ہے۔ ۳۔ غدیر کا ایک ہمیشگی پیغام یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد اسلامی معاشرہ کا رہبر اور نمونہ حضرت علی علیہ السلام یا ان جیسے ائمہ معصومین میں سے ہو۔ یہ حضرات ہم پر ولایت اور حاکمیت رکھتے ہیں، لہٰذا ہمیں ان حضرات کی ولایت کو قبول کرتے ہوئے ان کی برکات سے فیضیاب ہونا چاہئے۔ ۴۔ واقعہ غدیر سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ انسان کو حق و حقیقت کے پھنچانے کے لئے ہمیشہ کوشش کرنا چاہئے اور حق بیان کرنے میں کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہئے؛ کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اگرچہ یہ جانتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے وصیت پر عمل نھیں کیا جائے گا، لیکن لوگوں پر حجت تمام کردی، اور کسی بھی موقع پر مخصوصاً حجة الوداع اور غدیر خم میں حق بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی ۔ ۵۔ روز قیامت تک باقی رہنے والا غدیر کا ایک پیغام اھل بیت علیھم السلام کی دینی مرجعیت ہے، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے انہیں دنوں میں حدیث ”ثقلین“ کو بیان کیا اور مسلمانوں کو اپنے معصوم اھل بیت سے شریعت اور دینی احکام حاصل کرنے کی راہنمائی فرمائی۔ عید غدیر وہ مبارک اور سعد دن ہے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج سے واپسی پر غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کو خدا کے حکم سے اپناخلیفہ و جانشین منصوب فرمایا اور اس دن خدانے دین کو مکمل اور نعمتوں کا اتمام کیا اس طرح رسول اکرم صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم نے امت کو اپنے بعد کا راستہ دکھادیا ۔ 18 ذوالحجہ کا دن ہے جب رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ حجۃ الوداع کے بعد واپس جاتے ہوئے غدیر خم کے مقام پر امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا۔ روایات کے مطابق نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم حجۃ الوداع سے فراغت کے بعد واپس تشریف لے جا رہے تھے تو غدیر خم کے مقام پر حکم خداوندی سے توقف فرمایا اور تمام ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ سے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے جناب علی ابن ابی طالب کی ولایت و جانشینی کا اعلان فرمایا۔ اہل تشیع کا ماننا ہے کہ اس دن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کو اپنا جانشین بنایا۔اور ارشاد فرمایا من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں 10ھ کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا۔ تاریخ نویسوں کے مطابق 26 ذیقعدہ مطابق 22 فروری 633ء محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے چلے۔اتفاقا ان دنوں چیچک یا تاٗیفائیڈ کی وبا پھیلی ہوئی تھی اس وجہ سے بہت سے لوگ پیغمبر کے ساتھ حج کرنے نہ جاسکے ،اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی جمعیت پیغمبر اکرم ﷺ کے ساتھ نکلی بعض تاریخی شواہد کے مطابق اس مقدس سفر میں جو لوگ آپ کے ساتھ روانہ ہوئے ان کی تعداد 90 ہزار سے کم نہ تھی اسی طرح دوسرے علاقوں سے جو لوگ مکہ پہنچے تھے وہ بھی ہزاروں میں تھے۔ جیسا کہ حضرت علی بھی یمن سے حاجیوں کا ایک بہت بڑا قافلہ لے کر مکہ میں داخل ہوئے۔ مناسک حج بجا لانے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خانہ خدا کو الوداع کہا اور ارض حرم سے رخصت ہو گئے۔ آنحضرت نے ہجرت کے زمانے سے رحلت تک اس حج کے علاوہ کوئی اور حج انجام نہ دیا تھا۔ اس حج کو ’’حجۃ الوداع‘‘،حجۃ الاسلام‘‘،حجۃ البلاغ‘‘،حجۃ الکمال‘‘اور حجۃ التمام ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ غدیر خم جمعرات 18 ذی الحجہ مطابق 21 مارچ نوروز کے دن یہ قافلہ جحفہ پہنچا۔ جحفہ مکہ سے 13 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں شام کے راستے سے حج کے لیے مکہ آنے والے لوگ احرام باندھتے ہیں اس کو میقات اہل شام (سوریہ) بھی کہتے ہیں اور مکہ سے واپسی پر مدینہ منورہ، مصر، شام اور عراق والوں کے راستے الگ ہو جاتے ہیں۔ اس کے قریب کوئی ڈیڑھ دو میل کی مسافت پر ایک تالاب ہے۔عربی میں تالاب کو غدیر کہتے ہیں۔ اسی پس منظر میں صدیوں سے مولائے کائنات کے منصب ولایت پر فائز ہونے کی خوشی میں یہ عید دنیا بھر میں منائی جاتی ہے. باب شہر علم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تقوی،دین داری،دین کی مطلق پابندی،غیر خدا اور غیر راہ حق کو نظر میں نہ لانے،راہ خدا میں کسی کی پرواہ نہ کرنے،علم،عقل،تدبیر،طاقت،اور عزم و ارادے کا مظہرتھے اور ایسی شخصیت کو غدیر کے دن اپنا جانشین معین کرنا تاریخ میں امت اسلامی کی رہبری کے معیار کو ظاہرکرتاہے. آج اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ غدیر جیسے اہم واقعے کو مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور ان کی کمزوری کا بہانہ نہیں بننا چاہیے میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا هوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا هوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا هوں کھیں ایسا نہ هوکہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل هوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ هواگر چہ بڑی تدبیرسے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ھے۔اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایاھے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نھیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شرسے حفاظت کی ضمانت لی ھے اور خدا ھمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ھے ۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ھے جبرئیل تین بار میرے پاس خداوندِ سلام پروردگار(کہ وہ سلام ھے )کا یہ حکم لے کر نازل هوئے کہ میں اسی مقام پرٹھر کر سفیدوسیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی ،وصی،جانشین اور میرے بعد امام ھیں ان کی منزل میرے لئے ویسی ھی ھے جیسے موسیٰ کےلئے ھارون کی تھی ۔فرق صرف یہ ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ هوگا،وہ اللہ و رسول کے بعد تمھارے حاکم ھیں اور اس سلسلہ میں خدا نے اپنی کتاب میں مجھ پریہ آیت نازل کی ھے : ”بس تمھارا ولی الله ھے اوراسکارسول اوروہ صاحبان ایمان جونمازقائم کرتے ھیں اورحالت رکوع میںزکوٰةادا کرتے ھیں “علی بن ابی طالب نے نماز قائم کی ھے اور حالت رکوع میں زکوٰة دی ھے وہ ھر حال میں رضا ء الٰھی کے طلب میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا هوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا هوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا هوں کھیں ایسا نہ هوکہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل هوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ هواگر چہ بڑی تدبیرسے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ھے۔اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایاھے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نھیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شرسے حفاظت کی ضمانت لی ھے اور خدا ھمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ھے ۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ھے۔ میں نے جبرئیل کے ذریعہ خدا سے یہ گذارش کی کہ مجھے اس وقت تمھارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لئے کہ میں متقین کی قلت اور منافقین کی کثرت ،فساد برپاکرنے والے ،ملامت کرنے والے اور اسلا م کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاریوں سے با خبرهوں ،جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ھے کہ”یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ھیں جو ان کے دل میں نھیں ھے ،اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ھیں حالانکہ پروردگارکے نزدیک یہ بہت بڑی بات ھے “۔اسی طرح منافقین نے بارھا مجھے اذیت پہنچائی ھے یھاں تک کہ وہ مجھے ”اُذُن'' ھر بات پرکان دھرنے والا“کہنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ھی هوں چونکہ اس (علی )کے ھمیشہ میرے ساتھ رہنے،اس کی طرف متوجہ رہنے،اور اس کے مجھے قبول کرنے کی وجہ سے یھاں تک کہ خداوند عالم نے اس سلسلہ میں آیت نازل کی ھے:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر