کچھ ہستیاں ہماری اس جیتی جاگتی دنیا
میں ایسی بھی ہوتی جن کے لئے دل چاہتا ہے
کہ وہ ہمیشہ ہمارے درمیان رہیں لیکن بہر حال موت ہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے
جو یہاں آیا اسے جانا لازم ہے ،علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اکیاسی برس کی عمر میں
دار فانی سے دار بقا ء کی جانب کوچ کر گیا
ان کی عالمانہ زندگی کا کچھ مختصر
احوال
فخر ملّت'سرمایہ ء قوم 'عالم بے بدل
علّا مہ طالب جوہری 27 اگست 1939ء کو بھارت کی ریاست بہارکے شہر پٹنہ میں پیدا
ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اس وقت کے دستور تعلیم کے مطابق اپنے والد گرامی سے حاصل کی اور اعلی مذہبی تعلیم
کے لیے نجف اشرف عراق چلے گئے۔ وہاں آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی کے زیر
انتظام حوزہ میں داخلہ لیا۔طالب جوہری آیت اللہ شہید باقر الصدر کے شاگرد رہے۔ وہ
آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے ہم جماعت تھے۔ اگرچہ آیت اللہ سیستانی ان سے
کچھ بڑے تھے۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی بھی نجف میں ان کے ہم درس رہے --ان روشن درس
گاہوں میں علم دین کی شمع جلاتے ہوئے آگے
بڑھتے رہے
علامہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے
ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد
بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس
آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات
کے لیکچرر مقرر ہوئے،انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر
قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں
علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین
کے بہت بڑے داعی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ان
کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول اور حب اہل بیت ہوا کرتا
تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں
عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں۔
عقلیات معاصرعلامہ طالب جوہری کیونکہ
اکثر اپنے مداحوں میں گھرے رہتے تھے لہٰذا کبھی کبھار وہ ان معمولات کو توڑ کر
لانگ ڈرائیو یا پرندوں کے مشاہدے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ کسی بھی دور دراز سڑک سے
ہٹے ہوئے چارپائی ہوٹل پر بیٹھ کر بہت خوش ہوتے جہاں انھیں کوئی پہچاننے والا نہ
ہو۔علامہ طالب جوہری علومِ قرانی پر بہترین دسترس
رکھتے ہی تھے مگر نہ خود زاہدِ خشک تھے نہ زاہدانِ خشک کی ہمراہی میں خوش
رہتے تھے۔ان کی شرارت آمیز خوش دلی اور حسِ جمالیات ہمیشہ توانا و تر و تازہ رہی
علا مہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے
ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی،آیت
اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ التحصیل
ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل
رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر مقرر ہوئے،انہیں حکومت
نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔اسّی
کے عشرے میں پی ٹی وی سے فہم القران کی طویل سیریز نشر ہوئی جس میں علامہ نہایت
عام فہم اور زود ہضم انداز میں پیغامِ قران سمجھاتے تھے۔
شاعری کا آغاز انہوں نے آٹھ برس کی
عمر سے کیا تھا، اب تک علامہ نے خاصی
تعداد میں غزلیں، قصیدے، سلام، نظمیں اور رباعیات کہی، 1968 میں علامہ نے وجود باری
کے عنوان سے پہلا مرثیہ کہا،علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی
تھے۔انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ان کے خطبات کا موضوع
احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول ص اور حب اہلبیت ع ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ
اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی
نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں ۔سنی مکتب فکر سے
تعلق رکھنے والے بے شمار افراد یہ علامہ کے انتقال کے وقت سوشل میڈیا پر افسوس کا
اظہار کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ وہ علامہ کو محرم میں سنا کرتے تھے
بین المسالک ہم آہنگی کی اگر بات کی
جائے تو بلا شبہ علامہ طالب جوہری کا بیان ایک شیعہ عالم ہونے کے باوجود سرکاری ٹی
وی چینل پر طویل عرصے تک اس لیے چلتا رہا کیونکہ انہوں نے مسلک کی بنیاد پر تفریق
اور فرقہ واریت پھیلانے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ وہ بین المسالک ہم آہنگی کے
علمبردار سمجھے جاتے تھے-وہ ایک عظیم سکالر تھے۔
ان کی پسندیدہ جگہ ا نکی لائبریری تھی جو ان کے گھر واقع انچولی
سوسائٹی میں اوپر کی منزل پر تھی۔ لائبریری کی ہزاروں کتابوں میں سے ہر کتاب علامہ
کی انگلیاں پہچانتی تھیں چنانچہ انھیں کسی بھی ریفرینس کے لیے کوئی بھی کتاب
نکالنے میں زیادہ سے زیادہ دو منٹ لگتے تھے۔
لباس میں وہ ہمیشہ سفید پاجامہ سیاہ
اچکن پہنتے تھے جس کے ساتھ سر پر عمامہ
ہوتا تھا تھا 'یہی ان کی وضع داری کی علامت اور انکی عالی شان شخصیت کی پہچان تھی
جو تادم حیات قائم رہی -نرم خوئ اور نکتہ
سنجی ان کے مزاج کا حصّہ تھی وہ اپنی ایک ایک مجلس پر بہت توجّہ دیتے تھے انہوں
قرانی اسلوب کو اپنی شبانہ روز زندگی کا
حصّہ بنا لیا تھا -
وہ صرف شعیوں کے نہیں پوری قوم کے
مبلّغ تھے -نفیس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ خطابت کے ماہر تھے۔ وہ علم حاصل کرنے کا
ذریعہ تھےعلامہ طالب جوہر نے یادگار غزلیں،قصیدے،سلام،نظمیں اور رباعیات کہی،
1968میں آپ نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ بھی کہا۔
عراق میں لگ بھگ ابتدائی دس برس انہوں
نے چوٹی کے علماء کی تدرس سے فیض حاصل کیا -، وہ ایسے بحر العلو م کی مانند تھے جس سے ہر کوئ اپنے
فائدے کا علم حاصل کرتا تھا-
اور یہ بے پناہ مقبول عام ہستی ہمارے درمیان سے دار
فانی سے دار بقا ءکی جانب کوچ کر گئ - ان
کی وفات سےعلم کا ایک زرّیں باب ختم ہوا۔
خدا رحمت کند ایں عاقان پاک طینت را