پیر، 24 مئی، 2021

ہم تمھارے پاس تا قیامت آئیں گے-امام حسین علیہ السّلام

ہم تمھارے پاس تا قیامت آئیں گے


نحمد ہ ونصلّی علٰی رسولہ الکریم واٰلہ الطّیبین الطا ہرین ۃ

 برّصغیر اپک وہند میں سندھ کے علاقے کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ دین اسلام کی روشنی یہاں سے داخل ہوئ اور پھر پورے برّصغیر کو اس روشنی نے اپنی پاکیزہ کرنو ں سے منوّر کیا  اس کی ابتدااس طرح سے ہوئ کہ ساتویں صدی ہجری میں امام علی نقی علیہ اسّلام کی نسل سےایک بہت بڑے عالم و زاہد و متّقی صاحب کشف وکرامت بزرگ امیر سیّد محمّد مکّی ابن سیّد محمد شجاع 640 ء میں مشہد مقدّس سے تشریف لائے اورسنّت کے مطابق یہان کے حاکم سےزمین ۔خریدی اور اس زمین پر جا گزیں ہو گئے۔

یہان آپ نے مدرسہ اور  مسجد تعمیر کروائ اور اسی مدرسے اور مسجد سےتبلیغ دین اور ترویج اسلام و درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا ،ان کی رحلتکے بعد ان کے فرزندحضرت خطیب سید صدرالدّین نے بھی اپنے والد کی طرح درس وتدریس کا یہ سلسلہ قائم رکھّا ج خطیب سید صدرادّین کا جائے مدفن سکھّراور  روہڑی کے درمیان جزیرہ نما ء قلعہ بکھّر میں واقع ہے  سندھ کے علاقے میں تعزئیےداری و عزاداری کی ابتداء اسی شہر سے ہوئ اور یہ سلسلہ پھیلتا ہوا سندھ کے دیگر علاقوں میں پھیلا

اس وقت روہڑی شہر میں ماہ محرّم میں نکلنے والے تابوت کے لئے لے بتایا

جاتا ہے کہ 1000ھجری میں یہاں پر  حضرت سید محمّدامیر مکّی کی پشت سے ایک بچّےنے جنم لیا ،یہ بچّہ آگے چل کر اپنے اجداد کی مانند بزرگ ،ولی ثابت ہوامحمد شریف اپنی ابتدائ عمر سے ہی غم حسین علیہ ا لسّلام میں سوگوارواشکبار رہا کرتے تھے

اسی مودّت امام حسین علیہ السّلام میں ہونے کی بناء پر وہ ہر سال پیدل روضہ امام حسین علیہ اسّلام کی زیارت کو جایا کرتے تھے اورا س سفر میں ان کے کچھ خاص رفقاء بھی ساتھ ہوتے تھے ان رفقاء میں  ایک کھبّڑ فقیر بھی تھے جو ہمیشہ مور شاہ کے  ہمراہ پا پیادہ کربلا عازم سفر ہوا کرتے تھے-عاشقان امام کا یہ متبرّک سفر اسی طرح سے ہر سال عازم سفر ہوتا رہا اور بالآخر مور شاہ ضعیف العمرہوئے توروضہ ءاما م مظلوم علیہا لسّلام پر جاکر عرض گزار ہوئےکہ مولا اب اجازت دیجئے کہ میں یہیں کربلا میں تا حیات  قیام کروں اما م پاک علیہ السّلام نے فرمایا ،اے فرزند تم نےاپنی تمام عمر میری زیارت کے لئے وقف کر دی اب تم واپس اپنے شہر چلے جاؤاب ہم تمھارے پاس خود  آئیں گےاور تا قیامت آئیں گے

 یہ بشارت ملتے ہی سیّد مور شاہ نے خاک کربلا کو الوداعی بوسہ دیا اور

خوشی خوشی واپسی کے سفر کے لئے روانہ ہوئے تاکہ اپنے محبوب امام اور آقاکی میزبانی کا شرف حاصل کر سکیں روہڑی شہر پہنچ کر اپنی بشارت کا زکرپنے دوستوں ساتھیون ،بزرگوں اور سادات کو بھی سنایااور پھر بڑے اشتیاق سے محو انتظار ہوئےمور شاہ کی واپسی کے کچھ دنوں بعد ملک عراق کر بلا سےدو بزرگ حضرات مورشاہ کے پاس آئےاور انہوں  نے اپنا تعارف کرواتے ہوئ بتایا کہ ہم بنی اسد قبیلے کے افراد ہیں اور ہمارے پاس میدان کربلا سےلاشہائے شہداء کی کچھ متبرّک نشانیا ن موجود ہیں یہ تبرّکات ہمارے بزرگون کو  شہداء کی لاشوں کی تدفین کے وقت ملی تھیں ۔

  اور اب ہمیں حضرت امام حسین علیہ ا لسّلام کی جانب سے بشارت ہوئی ہے کہ ہم یہ امانتیں آپ کے سپرد کر دیں پھر بزرگوں نے  تابوت  کا نقشہ اور

امانتیں دیں اور کہا کہ اس تابوت  کا نقشہ وہ ہے جو قبیلہ بنی اسد کےلو گون

نے پہلی مرتبہ امام مظلوم کی قبر پر سائے کے لئے بنایا تھا پھر ان دونو ں

بزرگ حضرات نے کچھ عرصے روہڑی میں سیّد مور شاہ کے ہمراہ قیام کیا، اورتابوت  کربلا کے حوالے سے کچھ اور بھی راز ان کےگوش گزار کئے ،ان میں وقت اور دن کا تعین بھی تھا ان دو بزرگوں میں سےایک کا انتقال ہوگیا جن کا مدفن سید مورشاہ کے مزار کےبرابر مسجد عراق روہڑی میں  زیارت خاص و عام ہے۔

اور دوسرے بزرگ عراق کربلا روانہ ہو گئےیہ ساری امانتیں  اور احکامات

ملنے کے بعد جب پہلی مرتبہ محرّم الحرام کاآغاز ہوا تو سیّد مورشاہ نے

بتائے ہوئے طریقے اور نقشے کے مطابق ۹ محرّم الحرام کے دن اور۱۰ محرّم الحرام کی درمیانی رات کو تابوت بنانے کی تیّاری شروع کی گئ اورحکم امام کےمطابق علاقے کے مومنین کو دعوت بھیجی گئ کہ صبح نمازفجر سے پہلے تابوت  کربلا برامد ہوگااندر مسجد کربلا میں سیّد مورشاہ اپنے رازدار ساتھیوں کے ہمراہ پردے میں بحکم امام  تابوت کے کام میں مشغول رہے اور مسجد کے باہر مومنین تمام رات گرئہ و زاری کرتےرہےجس و قت تابوت کربلا کے برآمد ہونے کا وقت ہوا تو اسوقت تابوت  کے جلوس کے راستے کی تمام شمعیں گل کر دی گئیں اور یہ معجزانہ تابوت دروازے کے بجائے دیوار کے اوپر خو دبخود بلند ہوا  پھر نیچے آ یاجس کو سوگوارمومنین نے یا حسین یا حسین کی صدائین بلند کرتے ہوئے  اپنے کاندھوں پر اٹھا لی

جب تابو ت امام پاک آ گے بڑھ کر اسوقت کے باشرع عالم،مجتہد،،سیّد حیدر شا ہ حقّانی کے استانے کے نزدیک پہنچا تو ان کے کانوں میں یا حسین ،یا رسول کیصدائیں آنی شروع ہوئین تو وہ اپنی عبادت چھوڑ کر اپنے بیٹون سمیت باہرآئے اور تابوت میں حضرت امام حسین علیہ السّلام کی زیارت سےمشرّف ہوئےاورتابوت میں  اما مت کی تجلّی دیکھ کر والہانہ انداز مین اپنی عباء و قباء اتار دی اورتابوت پاک علیہ السّلام کو کاندھا دیا اور گریہ کنان ہو کرعرض گزار ہوئے یاامام پاک علیہ اسّلا م آپ میرے قریب سے گزر کر جا رہے ہیں میری دعوت قبول فرمائیں ،جس کے جواب میں امام حسین علیہ ا لسّلام  نے مورشاہ کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ ہم ان کے مہمان ہیں آپ ان سے رجوع کریں مورشاہ نے فرمایا ابھی ہماری کھبّڑ فقیر کی جانب روانگی ہے-

کھبّڑ فقیر کے آستانے منڈو کھبّڑ جلوس نے پہنچ کر نماز فجر ادا کی پھر مجلس امام حسین علیہ السّلام برپا ہوئ اور صبح کے وقت یہ جلوس حیدر شاہ حقّانی کی درگاہ پہنچا جہاں حیدر شاہ حقّانی اور ان کے رفقاء نے امام پاک کااستقبال کیا اور مجلس برپا کی دوپہر تک امام حسین علیہ السّلام حیدر شاہ حقّانی کے مہمان رہے پھر حیدر شاہ حقّانی کے آستانے پر مجلس برپا ہوئ اور مومنین کی مدارات کے بعد امام پاک علیہ السّلام کی کربلا روانگی کی رخصت کا مرثیہ خود حیدر شاہ حقّانی نے پڑھا اور پھر جلوس کی شکل میں تمام عزادار ٹھٹھ بازار پہنچے جہاں کربلا کے شہزادگان کے تابوت بھی امام پاک تابوت کے ہمراہ عازم سفر ہوئے اور پھر شاہی مسجد پہنچ کر حضرت رسول خدا کی خدمت میں سلامی دی گئ کیونکہ سیّد المرسلین کا موئے مبارک یہیں جلوہ گر ہے

شاہی مسجد سے پھر تابوت امام پاک علیہ السّلام کووچھوڑا کے میدان میں لایا گیا جہاں حضرت علی اکبر اور حضرت قاسم کے تابوت دوسری سمت کی جانب الگ کئے گئے یہ منظر بڑا ہی درد ناک ہوتا ہے اور اس مطلب ہوتا ہے کہ اب خاندان بنو ہاشم کا بچّہ بچّہ شہید ہوچکا ہے اور امام مظلوم یکہ و تنہا کربلا کے میدان میں شہید ہونے جارہے ہیں وچھوڑا کے اس میدان میں قیامت خیز گریہ ہوتا ہے  اور امام پاک کے تابوت کو روہڑی کی کربلا میدان میں زیارت خاص و عام کے لئے رکھّا جاتا ہے یہ معجزاتی تابوت پانچ سو سال سے اسی طرح برامد ہو رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس جلوس میں پچّیس لاکھ عزادار پورے پاکستان سے شرکت کرتے ہیں ،اس جلوس کے راستے میں جگہ 'جگہ شربت 'پانی کی سبیلیں ہوتی ہیں اور وافر مقدار میں تبرّک تقسیم کیا جاتا ہے اس معزاتی زیارت کے دیدار کے لئے پاکستان کے مختلف شہروں سے اسپیشل ٹرینیں چلائ جاتی ہیں

لبـــــــــــــــــــیک یـــــــــــــــــا حســـــــــــــــــــــین (ع)

1 تبصرہ:

  1. یہ معجزاتی تابوت پانچ سو سال سے اسی طرح برامد ہو رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس جلوس میں پچّیس لاکھ عزادار پورے پاکستان سے شرکت کرتے ہیں ،اس جلوس کے راستے میں جگہ 'جگہ شربت 'پانی کی سبیلیں ہوتی ہیں اور وافر مقدار میں تبرّک تقسیم کیا جاتا ہے اس معزاتی زیارت کے دیدار کے لئے پاکستان کے مختلف شہروں سے اسپیشل ٹرینیں چلائ جاتی ہیں

    لبـــــــــــــــــــیک یـــــــــــــــــا حســـــــــــــــــــــین (ع)

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر