بدھ، 12 مارچ، 2025

جعفر ایکسپریس سانحہ


12/march /2025

ویب ڈیسک — مارچ 11, 2025

جعفر ایکسپریس پر فائرنگ سانحہ کی اپڈیٹ   -

_مارچ 11, 2025  

رپورٹ   پیش  کی ہےغلام مرتضیٰ زہری

عاصم علی رانانے -کینیڈا میں رات کا ایک بجنے والا ہے اور کیلنڈر مارچ کی بارہ تاریخ بتا رہا ہے

بلوچستان میں مشکاف کے قریب جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملہ کے بعدسیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ 104 افراد کو بازیاب کروالیا گیا ہے۔سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک 16 دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ 17 زخمیوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ڈی ایس ریلوے عمران حیات نے جعفر ایکسپریس حملے میں ٹرین ڈرائیور کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔104 یرغمال مسافروں کو سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں سے رہا کروایا، سیکیورٹی ذرائع- رہا ہونے والوں میں 58 مرد، 31 خواتین اور 11 بچے شامل ہیں، سیکیورٹی ذرائع حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم بی ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ جعفر ایکسپریس اور یرغمالوں پر ان کا اب بھی مکمل کنٹرول ہے (جبکہ  پوری ٹرین جل کر خاکستر ہو چکی ہے)ور 214 افراد ان کی تحویل میں ہیں۔بی ایل اےنے ان 214 مسافروں کو جنگی قیدی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تنظیم قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے۔بی ایل اے نے خبردار کیا ہے کہ یرغمالوں کی بازیابی کے لیے آپریشن کے سنگین نتائج ہوں گے-بلوچستان میں مشکاف کے قریب جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملہ کے بعدسیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ 104 افراد کو بازیاب کروالیا گیا ہے۔


جن افراد کو بازیاب کروایا گیا ان میں 58 مرد، 31 خواتین اور 15 بچے شامل ہیں۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اب تک 16 دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ 17 زخمیوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔دوسری جانب بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ کا بیان سامنے آیا ہے جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ جعفر ایکسپریس اور یرغمالوں پر ان کا اب بھی مکمل کنٹرول ہے اور 214 افراد ان کی تحویل میں ہیں۔بی ایل اےنے ان 214 مسافروں کو جنگی قیدی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تنظیم قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے۔بقول انکے"پاکستانی حکام کو 48 گھنٹوں کی مہلت دی جاتی ہے کہ بلوچ سیاسی اسیران، جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد اور قومی مزاحمتی کارکنان کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔"دہشتگردی کے اس واقعہ سے متعلق پاکستان فوج کی طرف سے کوئی بیان اب تک جاری نہیں کیا گیا البتہ بعض معلومات عسکری زرائع سے فراہم کی گئی ہیں جن میں متاثرہ مقام پر آپریشن کا بتایا گیا ہے لیکن اس علاقہ میں آزاد ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے معلومات صرف ذرائع یا پھر بی ایل اے کی طرف سے جاری کی جارہی ہیں جن کی مکمل تصدیق ابھی نہیں ہوپائی۔، ذرائع

This is yesterday Updates. 

تازہ ترین قومی خبریں11 مارچ ، 2025

بلوچستان   میں جعفر ایکسپریس پر بزدلانہ حملے کے دہشتگردوں کے افغانستان میں اپنے ماسٹر مائنڈ سے رابطے ہیں۔سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں نے ٹرین میں سوار عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنایا ہوا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کا گھیراؤ کرلیا ہے اور فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے، عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنائے جانے کے باعث آپریشن انتہائی احتیاط سے کیا جارہا ہے۔سیکیورٹی ذرائع نے مزید بتایا کہ مشکل علاقہ ہونے کی وجہ سے بھی پیچیدہ آپریشن احتیاط سے کیا جارہا ہے، سیکیورٹی فورسز آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھیں گی -سیکیورٹی ذرائع کے مطابق بولان پاس، ڈھاڈر کے مقام پر دہشت گردوں نے جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے معصوم شہریوں کو ٹارگٹ کیا۔ذرائع کے مطابق دہشت گردوں نے جعفر ایکسپریس کو ٹنل میں روک کر مسافروں کو یرغمال بنایا ہوا ہے، یرغمال بنائے گئے افراد میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے-جعفر ایکسپریس پر دہشتگردوں کا حملہ، سیکیورٹی فورسز کی کارروائی 104 مسافر بازیاب، 16 دہشتگرد ہلابلوچستان میں بولان کے علاقے میں جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے مسافروں کو یرغمال بنایا، سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بولان پاس، ڈھاڈر کے مقام پر دہشت گردوں نے جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے معصوم شہریوں کو ٹارگٹ کیا۔


مال بردار ٹرین سے مسافروں کو مچھ اسٹیشن پہنچایا گیا-سیکیورٹی فورسز کے بازیاب کروائے گئے 104 مسافروں کو لے کر مال بردار ٹرین مچھ ریلوے اسٹیشن پہنچ گئی ہے۔ مسافروں کی بازیابی کیلئے آپریشن جاری -ذرائع کا کہنا ہے کہ باقی مسافروں کی باحفاظت بازیابی کیلئے سیکیورٹی فورسز کوشاں ہیں، دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے، آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔ذرائع کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے 16 دہشتگردوں کو ہلاک کردیا ہے، جبکہ متعدد دہشتگرد زخمی ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے باعث دہشت گرد چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہوگئے۔ سیکیورٹی فورسز کی اضافی نفری علاقے میں آپریشن میں حصہ لے رہی ہے۔ذرائع نے بتایا تھا کہ دہشت گرد بیرون ملک اپنے سہولت کاروں سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے رابطے میں ہیں۔صدر اور وزیراعظم کی جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت -واضح رہے کہ اس سے قبل یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ بلوچستان کے ضلع بولان میں نامعلوم افراد کی جانب سے جعفر ایکسپریس پر فائرنگ کی گئی۔لیویز ذرائع نے بتایا تھا کہ فائرنگ سے ٹرین ڈرائیور شدید زخمی ہوا ہے جس کو طبی امداد کےلیے اسپتال منتقل کردیا گیا جبکہ سبی کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔واضح رہے کہ مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس کوئٹہ سے پشاور کےلیے صبح 9 بجے روانہ ہوئی تھی کہ اس دہشتگردی کے واقعے کا شکار ہوگئی۔


  جعفر ایکسپریس میں 400 مسافر سوار ہیں۔جعفر ایکسپریس پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ایمرجنسی انفارمیشن ڈیسک قائم کردیا گیا ہے جہاں ریلوے اہلکاروں کو مقرر کردیا گیا ہے۔  وزیراعلیٰ بلوچستان کا ریاستی رٹ چیلنج کرنے والوں کو نیست و نابود کرنے کا عزم-ڈیسک اہلکار کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی ڈیسک جعفر ایکسپریس واقعہ کے حوالے سے معلومات کیلئے قائم کیا گیا ہے، جعفر ایکسپریس کے واقعہ کے حوالے سے معلومات شئیر کی جائیں گی۔اہلکار کا کہنا تھا کہ تاحال جعفر ایکسپریس کے حوالے سے کوئی معلومات موصول نہیں ہوئیں -وزیر مملکت طلال چوہدری نے کہا ہے کہ دہشت گرد ٹرین مسافروں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کے دوران طلال چوہدری نے کہا کہ بولان میں ٹنل کے قریب جعفر ایکسپریس پر حملہ کیا گیا-انہوں نے کہا کہ دہشت گرد بہت سارے لوگوں کو ٹرین سے پہاڑی علاقے میں لے کر گئے ہیں، ۔وزیر مملکت نے مزید کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے پہنچ کر ٹرین سے بہت سارے لوگوں کو ریسکیو کرلیا، ۔اُن کا کہنا تھا کہ ٹرین میں سرکاری ملازمین بھی اہل خانہ کے ساتھ سفر کر رہے تھے،-طلال چوہدری نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردوں نے مسافروں کو نہیں چھوڑا، ان مسافروں کو سیکیورٹی فورسز نے بازیاب کروایا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری دنیا کو ہمارے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔اُنہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ایسے واقعات کو سوشل میڈیا پر دشمن کے ساتھ اپنے لوگ بھی سپورٹ دے رہے ہیں۔وزیر مملکت نے کہا کہ ثبوت موجود ہیں کہ افغانستان سے ان دہشت گردوں کو سپورٹ ملتی ہے، کالعدم تنظیم کا اتحاد ہے، افغانستان سے آنے والی منشیات کا پیسا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ایسے ہمسائے ان واقعات میں ملوث ہیں جن پر ہم نے احسان کیا۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے فائرنگ سے زخمی افراد کی جلد صحتیابی کیلئے دعا کی۔ انکا کہنا تھا کہ معصوم مسافروں پر فائرنگ کرنے والے درندے کسی رعایت کے مستحق نہیں


قنبر بن حمدان رحمۃ اللہ مولا علی علیہ السلام کے با وفا صحابی

 

 

  قنبر بن حمدان رحمۃ اللہ مولا علی علیہ السلام کے با وفا صحابی -آ   پ مولا علی کے ساتھ اس طرح رہتے تھے جس طرح شمع کے گرد پروانہ دوانہ وار رہتا ہے -حضرت قنبرؓ کی شہرت ایک متقی،عابد،عارف اور متکلم کی ہے۔اس سے آپ کو حضرت علیؑ کے ہاں بہت اعلی منزلت- حاصل تھی اسی لیے امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ قنبرؓ حضرت علیؑ کے غلام تھے اور حضرت علیؑ سے شدید محبت کرتے تھے۔ آپ کو امیر المومنین ؑ نے ولایت اہل بیتؑ کی معرفت کی وجہ سے ایک خاص خطاب سے نوازا آپ نے فرمایا اے قنبرؓ اللہ نے ہماری ولایت کو آسمان و زمین کے جن و انس اور دیگر کے سامنے پیش کیا۔ ہماری ولایت کو نیک اور طاہرلوگوں نے قبول کیا اور کینہ پرور،بغض و عداوت رکھنے والوں اور فضول لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا۔آپ کا نام قنبر بن حمدان ؓہے جبکہ آپ کی کنیت ابی ہمدان ہے۔آپ کا شمار پہلی صدی ہجری کے بزرگ شخصیات میں سے ہوتا ہے۔آپ امیر المومنین حضرت علی ؑ کے غلام تھے۔آپ کی شہرت حضرت امیر المومنینؑ کی اطاعت گزاری اور فرمانبرداری سے ہے۔حضرت قنبر ؓ صرف خادم نہیں تھے بلکہ آپ حضرت علی علیہ السلام کے شاگرد،امانتدار،مخلص ساتھی اور ہم راز تھے۔ آپ نے چشمہ علوی سے خود کو سیراب کیا،آپ کی تربیت گھرانہ امامت و ولایت میں حضرت علیؑ ،حضرت فاطمہؑ اور حضرات حسنین علیہم السلام نے کی۔


اسی طرح آپ ان لوگوں میں سے تھے جو امیر المومنین ؑ کا حق پہچانتے تھے اور امیر المومنین ؑ کی ولایت پر ثابت قدم رہے۔آپ نے ہمیشہ امیر المومنین ؑ اوراہلبیت علیہم السلام کے حق کا دفاع کیا یہاں تک کہ ایک رات آپ امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے پیچھے چل رہے تھے ایسے میں حضرت علیؑ نے انہیں دیکھ لیا اور پوچھا کیا بات ہے قنبرؓ؟ حضرت قنبرؓ نے جواب دیا میں آپ کی پیروی میں یہاں تک آیا ہوں(تاکہ آپ کی حفاظت کروں)حضرت امیر ؑ نے فرمایا : کیا تم میری اہل زمین سے حفاظت کرو گے یا اہل سماء سے حفاظت کرو گے؟ تو حضرت قنبر ؓ نے کہا میں اہل زمین سے آپ کی حفاظت کروں گا۔ اس پر امیر المومنینؑ نے فرمایا اہل زمین سے اس وقت کچھ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے جب تک اللہ اس کی اجازت نہ دے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ حضرت قنبرؓ ہمیشہ حضرت علیؑ کے ساتھ رہتے تھے،آپ کے احکامات کو نافذ کرتے تھے اور قول و فعل سے آپؑ کا دفاع کرتے تھے۔


جب حضرت علیؑ کی کوفہ میں حکومت قائم ہو گئی تو آپ نے حضرت قنبر ؓ کو بیت المال میں ذمہ داریاں دیں۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت کی،خاص طور پر آپ جنگ صفین میں شریک ہوئے اس میں حضرت علیؑ کے لشکر کا پرچم آپ کے پاس تھا۔اس وقت دشمن کے لشکر کا پرچم عمرو بن عاص کے غلام نے اٹھایا ہوا تھا ۔حضرت قنبر ؓ انتہائی بہادی اور شجاعت سے لڑے اور اسے قتل کر دیا۔ اس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک بڑا مشہور بہادر جوان تھا۔ آپ اس دن زخمی ہوئے جب آپ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیھم السلام کے پاس موجود تھے اور انقلابی حضرت عثمان بن عفان کے گھر داخل ہوئے۔ حضرت قنبرؓ ،حضرت اویس قرنیؒ، حضرت میثم تمارؒ،حضرت مالک اشتر،حضرت کمیل بن زیادؒ اور حضرت حبیب بن مظاہر اسدیؓ جیسے خواص میں شامل تھے جو حضرت علی ؑ کے ساتھ تھے۔عدالت اور تقوی کی وجہ سے قنبرؓ نے کئی مواقع پر حضرت علیؑ کے لیے گواہی دی۔ مشہور واقعہ ہے جب ایک یہودی کے ساتھ آپ کا ذرہ کا معاملہ ہوا تو آپ کا کیس قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا تو امام حسن ؑ اور حضرت قنبر ؓ نے حضرت علی علیہ السلام کے حق میں گواہی دی۔


آپ حضرت علیؑ کی عدالت کے اعلی معیار پر ایمان رکھتے تھے ایک بار حضرت علیؑ نے آپ کو حکم دیا کہ ایک مجرم کو کوڑے ماریں۔ جب آپ نے کوڑے مارے تو تین کوڑے زیادہ مار دیے۔ حضرت علیؑ نے حکم دیا کہ قنبرؓ کو تین کوڑے مار کر اس سے قصاص لیا جائے۔ قنبرؓ کو اس کی مرضی کے ساتھ یہ کوڑے مارئے گئے۔حضرت قنبرؓ نے حضرت علیؑ سے اعلی اخلاق کی تعلیم پائی اور اس کی وجہ سے صاحب حلم قرار پائے۔امیر المومنین حضرت علیؑ نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ قنبرؓ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ قنبرؓ اسے جواب دینا چاہتے ہیں تو حضرت علیؑ نے فورا فرمایا رکو ،رکو ،اے قنبرؓ رک جاو۔جس نے تمہیں گالی دی ہے اسے بغیر جواب کے جانے دو اس سے رحمٰن راضی ہو گا اور شیطان نا خوش ہو گا اورتمہارا دشمن پسپائی اختیار کرے گا۔حضرت قنبرؓ کو حجاج بن یوسف کے حکم سے شہید کیا گیا اور اس کی وجہ حضرت علیؑ سے محبت تھی۔ ایک دن حجاج نے حضرت قنبرؓ سے پوچھا تم کس کے غلام ہو؟ حضرت قنبر ؓ نے جواب دیا کہ میں اس کا غلام ہوں جس نے تلواروں سے جہاد کیا، دو نیزوں سے دفاع کیا،


 دو قبلوں کی طرف نما زادا کی، دو بار بیعت کی، دو بار ہجرت کی اور ایک لمحہ کے لیے بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی۔ حجاج بن یوسف نے پوچھا تم علیؑ کے لیے کیا کرتے تھے؟ حضرت قنبرؓ نے کہا میں انہیں وضو کرواتا تھا،اس نے پوچھا جب آپؓ وضو کر لیتے تو کیا فرمایا کرتے تھے؟ حضرت قنبرؓ نے جواب دیا آپ قرآن مجید کی اس آیت مجیدہ کی تلاوت فرماتے تھے:((َلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ (44) فَقُطِعَ دَابِرُ القَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ وَ الحَمْدُ للهِ رَبِّ العَالَمِينَ(45))(سورة الأنعام ـ44 ـ45)حجاج نے کہا اور اس آیت میں مذکور ظالم قوم سے مراد ہمیں لیتے تھے؟ حضرت قنبرؓ نے فرمایا:ہاں، اس پر حجاج نے پوچھا اگر میں تمہیں قتل کروں تو؟ آپ نے فرمایا اس وقت تم ظالم ہو نگے اور میں سعادت مند ہوں گا۔ اس پر حجاج غضب ناک ہو گیا اور آپ کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ آپ کے مدفن کے بارے میں اختلاف ہے بعض لوگوں نے کہا آپ کو بغداد میں دفن کیا گیا اور بعض نے کہ آپ کو حمص میں دفن کیا گیا۔قنبرؓ کی اولاد اہلبیت ؑ سے محبت کے لیے معروف تھی۔آپ کا ایک بیٹا ابی جبیر بن زنبر تھا ۔اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے۔اسی طرح سالم بن قنبر ،ابو الفضل العباس بن الحسن بن خشیش القنبری،نعیم بن سالم بن قنبر آپ کی اولاد میں سے معروف شخصیات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہمدان میں دو مسجدیں بہت مشہور ہیں ایک مسجد ہانی جو نیشا پور میں ہے اور دوسری مسجد شادان ہے جو سبزوار میں واقع ہے یہ دونوں کے نام آپ کی اولاد کے ناموں پر ہیں۔  

اتوار، 9 مارچ، 2025

خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور جدید ترکی کا سفر

 

تر کی  میں عثمانی خلافت د م توڑ رہی تھی -غیر شرعئ طور پر کنیزیں تو  جائداد اور خلافت کے حقدار  اپنے وقت کے خلفاء کے  لئے وارثین پیدا کر رہی تھیں تو دوسری جانب  نکاح کے بندھن میں آنے والی شرفاء کی بیٹیوں کو خلیفہ کی اولاد پیدا کرے کی اجازت نہیں تھی 'پھر ظلم اپنے عروج پر پہنچا جب تخت کا وارث تو ایک بیٹا تھا باقی ۱۹ بیٹے گونگے اور بہرے  حبشی غلاموں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے گئے -خلیفہ کے محل میں دردنا ک موت مارے جانے والے بعض  بچے بہت چھوٹی عمر کے تھے  ان میں سے عمر میں سب سے بڑے شہزادے نے جو خوبصورت اور صحت مند جسامت کا مالک تھا التجا کی کہ ’میرے آقا، میرے بھائی  ابتم میرے والد کی جگہ ہو میری زندگی اس طرح مت ختم کرو- غم سے نڈھال سلطان نے اپنی داڑھی نوچ لی لیکن جواب میں ایک لفظ نہ بولا۔اور پھر  کی گلیوں میں یہ جنازے جاتے ہوئے دیکھ کر استنبول کے شہریوں کے دل ہل گئے تھے۔اور پھر خلافت ایک بیٹے کے حصے میں آ گئ -اب کوئ بھی خلیفہ کی ہمسری کا دعویدار نہیں تھا 'سب قبروں میں سلا دئے گئے تھے اور دوسری جانب استعماری قوتیں در پردہ خلافت عثمانیہ کو ختم کر کے دنیا کا نقشہ بدلنے کے لئے تیار تھیں اور اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانا اب مصطفےٰ کمال پاشا  کی زمہ داری بنادی گئ تھی اپنے ہدف تک رسائی کے لئے اس نے فوج میں ملازمت اختیار کر لی۔ دمشق فوجی ہیڈ کوارٹر سے اس نے اپنی عسکری ملازمت کا آغاز کیا۔


 اس دوران جمعیت اتحاد و ترقی کے ان رہنماﺅں سے اس نے مراسم بڑھا لئے جو نئے ترکی کی تشکیل کے لئے خفیہ یا اعلانیہ پروگرام رکھتے تھے ، دوسری طرف جنگ بلقان میں اپنی عسکری مہارت کا بھرپور مظاہرہ کر کے خود کو اس نے ایک جرات مند اور بہادر کمانڈر کے طور پر منوا لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر وہ ملٹری اتاشی کے طور پر کام کر رہا تھا مگر اس کے اندر کا فوجی اگلے محاذوں کے لئے بے تاب تھا۔ 1915ءمیں اس نے سربراہان سے درخواست کی کہ مجھے فوج کے کسی دستے کی کمانڈ دے کر اگلے محاذوں پر بھیج دیا جائے۔ مصطفی کمال کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے درخواست منظور کر لی گئی۔ اس کی تعیناتی آبنائے باسفورس کی طرف کر دی گئی، جہاں انگریز اور فرانسیسی افواج سے سخت معرکہ درپیش تھا۔ اسی سال یعنی 1915ءکے وسط میں چند ماہ کی مدت میں مصطفیٰ کمال نے فرانسیسی افواج کو پسپا کر دیا۔ آبنائے باسفورس کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا۔مصطفےٰ کمال نے سوچ لیا تھا کہ اب  ترکی کو اس   اپنے ہدف تک رسائی کے لئے اس نے فوج میں ملازمت اختیار کر لی۔ دمشق فوجی ہیڈ کوارٹر سے اس نے اپنی عسکری ملازمت کا آغاز کیا۔ اس دوران جمعیت اتحاد و ترقی کے ان رہنماﺅں سے اس نے مراسم بڑھا لئے جو نئے ترکی کی تشکیل کے لئے خفیہ یا اعلانیہ پروگرام رکھتے تھے ، دوسری طرف جنگ بلقان میں اپنی عسکری مہارت کا بھرپور مظاہرہ کر کے خود کو اس نے ایک جرات مند اور بہادر کمانڈر کے طور پر منوا لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر وہ ملٹری اتاشی کے طور پر کام کر رہا تھا مگر اس کے اندر کا فوجی اگلے محاذوں کے لئے بے تاب تھا۔

 

 1915ءمیں اس نے سربراہان سے درخواست کی کہ مجھے فوج کے کسی دستے کی کمانڈ دے کر اگلے محاذوں پر بھیج دیا جائے۔ مصطفی کمال کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے درخواست منظور کر لی گئی۔ اس کی تعیناتی آبنائے باسفورس کی طرف کر دی گئی، جہاں انگریز اور فرانسیسی افواج سے سخت معرکہ درپیش تھا۔ اسی سال یعنی 1915ءکے وسط میں چند ماہ کی مدت میں مصطفیٰ کمال نے فرانسیسی افواج کو پسپا کر دیا۔ آبنائے باسفورس کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا۔مصطفےٰ کمال نے سوچ لیا تھا کہ اب  ترکی کو اس    د ستور سے آزادی دلانا ہے-اس کی ترقی کی رفتار تیز تر ہو گئی۔ فرانسیسی افواج کو شکست سے دوچار کرنے پر مصطفی کمال کو جنرل رینک پر پروموٹ کر دیا گیا۔ اپنی پروموشن کے پہلے ہی سال اس نے روسی افواج کو شکست دے کر ترکی کا مقبوضہ علاقہ بھی آزاد کروا لیا۔ اس کارنامے پر 1917ءمیں مصطفی کمال کو اہم محاذوں پر برسر پیکار ساتویں فوج کا کور کمانڈر لگا دیا گیا۔ 30 اکتوبر 1918ءکو جب معاہدہ امن پر دستخط ہوئے تو مصطفی کمال کو تمام ذمہ داریوں سے فارغ کر کے نئی ذمہ داریاں دینے کے لئے استنبول بلوا لیا گیا۔سلطنت عثمانیہ کے چھتیسویں فرما نروا خلیفہ وحید الدین سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ خلیفہ کی نظر مصطفی کمال اتا ترک پر پڑی تو اس کی عسکری مہارت اور انتظامی صلاحیت پر رشک کرتا۔ اس سے بھی بڑھ کر وہ اس بات پر فخر کرتا کہ مصطفی کمال جیسا بہادر اور محبت وطن سالار اسے نصیب ہوا ہے، مگر اسے خبر نہیں تھی کہ ترکی کی محبت کا دم بھرنے والے مصطفی کمال کے دماغ میں سلطنت عثمانیہ کے لئے نفرت کس ڈگری پر ہے۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ ہمارے دربار کا ایک وفادار ہے، اسی بے خبری میں خلیفہ وحید الدین نے مصطفی کمال کو انسپکٹر جنرل بنا دیا۔مصطفی کمال کو اور کیا چاہئے تھا؟اس کی تو جیسے من کی مراد بر آئی، کیونکہ مصطفی کمال معاہدہ امن کے بعد دل گرفتہ تھا۔ امن کا یہ معاہدہ ایسے حالات میں ہوا تھا کہ یونانی افواج نے ایشیائے کوچک کے ایک بڑے حصے پر قبضہ جمائے رکھا تھا۔ازمیر اور اناطولیہ ترکی کے قبضے سے نکل گئے۔


  فوج کے انسپکٹر جنرل کے طور پر اتا ترک کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ افواج سے باقی ماندہ اسلحہ واپس لے کر اسلحہ ڈپو کے حوالے کر دے،مگر اسی ذمہ داری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اتا ترک نے فوج کو پھر سے منظم کرنا شروع کر دیا۔ فوج سے باہر بھی کئی قوتیں جو معاہدہ امن سے خوش نہیں تھیں، اتا ترک نے ان کی سرپرستی شروع کر دی۔  د ستور سے آزادی دلانا ہے-اس کی ترقی کی رفتار تیز تر ہو گئی۔ فرانسیسی افواج کو شکست سے دوچار کرنے پر مصطفی کمال کو جنرل رینک پر پروموٹ کر دیا گیا۔ اپنی پروموشن کے پہلے ہی سال اس نے روسی افواج کو شکست دے کر ترکی کا مقبوضہ علاقہ بھی آزاد کروا لیا۔ اس کارنامے پر 1917ءمیں مصطفی کمال کو اہم محاذوں پر برسر پیکار ساتویں فوج کا کور کمانڈر لگا دیا گیا۔ 30 اکتوبر 1918ءکو جب معاہدہ امن پر دستخط ہوئے تو مصطفی کمال کو تمام ذمہ داریوں سے فارغ کر کے نئی ذمہ داریاں دینے کے لئے استنبول بلوا لیا گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے چھتیسویں فرما نروا خلیفہ وحید الدین سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ خلیفہ کی نظر مصطفی کمال اتا ترک پر پڑی تو اس کی عسکری مہارت اور انتظامی صلاحیت پر رشک کرتا۔ اس سے بھی بڑھ کر وہ اس بات پر فخر کرتا کہ مصطفی کمال جیسا بہادر اور محبت وطن سالار اسے نصیب ہوا ہے،مگر اسے خبر نہیں تھی کہ ترکی کی محبت کا دم بھرنے والے مصطفی کمال کے دماغ میں سلطنت عثمانیہ کے لئے نفرت کس ڈگری پر ہے۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ ہمارے دربار کا ایک وفادار ہے، اسی بے خبری میں خلیفہ وحید الدین نے مصطفی کمال کو انسپکٹر جنرل بنا دیا۔مصطفی کمال کو اور کیا چاہئے تھا؟اس کی تو جیسے من کی مراد بر آئی، کیونکہ مصطفی کمال معاہدہ امن کے بعد دل گرفتہ تھا۔ امن کا یہ معاہدہ ایسے حالات میں ہوا تھا کہ یونانی افواج نے ایشیائے کوچک کے ایک بڑے حصے پر قبضہ جمائے رکھا تھا۔ازمیر اور اناطولیہ ترکی کے قبضے سے نکل گئے۔  فوج کے انسپکٹر جنرل کے طور پر اتا ترک کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ افواج سے باقی ماندہ اسلحہ واپس لے کر اسلحہ ڈپو کے حوالے کر دے، مگر اسی ذمہ داری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اتا ترک نے فوج کو پھر سے منظم کرنا شروع کر دیا۔



 فوج سے باہر بھی کئی قوتیں جو معاہدہ امن سے خوش نہیں تھیں، اتا ترک نے ان کی سرپرستی شروع کر دی۔ مصطفےٰ کمال اتاترک نے 29 اکتوبر سنہ 1923 کو قانون سازوں کے ایک گروپ کے ساتھ عشائیے میں یہ اعلان کیا اور اگلے روز ووٹنگ کے بعد، ترک پارلیمنٹ نے حکومت کی نئی شکل اختیار کی اور اتاترک ترکی کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔’جمہوریہ زندہ باد! مصطفی کمال پاشا زندہ باد!ترکی کے درو بام میں  فلک شگاف نعروں کی گونج میں اتاترک نے ترکی کے شرق و غرب میں  اعلان عام کیا -اب ترکی کے لوگ اپنے بچوں کو مساجد اور مدارس  بھیجنے کے بجائے جدید تعلیمی ادار و ں میں تعلیم حاصل کریں گے ۔  اذان عربی زبان میں نہیں ہو گی   ۔ حج اور عمرے  پر کو ئ نہیں جائے گا  ۔ حجاب و ٹوپی اور داڑھی  سب قدیم عاد تیں چھوڑ نا ہو ں گی ۔ مصطفی کمال نے مذہبی امور کا ایک محکمہ بھی قائم کر دیا، مگر اس محکمے کا کام یہ تھا کہ مذہب پسند لوگوں کی کڑی نگرانی کرے۔ اسی محکمے کے تحت اتا ترک نے ترکی کے انشا پردازوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ ترکی زبان میں شامل ہو جانے والے عربی الفاظ کو ختم کر کے نہ صرف اس کا ترکی متبادل پیش کرے، بلکہ اس کو ہر صورت میں رائج بھی کرے۔ مسلمان اگر اذان دینا چاہتے ہیں تو ان کے لئے اذان کے عربی الفاظ کی جگہ ترکی الفاظ منتخب کئے جائیں۔  ،  ۔’جمہوریہ زندہ باد! مصطفی کمال پاشا زندہ باد!‘ترکی کے در وبام گونج اٹھے ۔  اس معاشرے کو ایک روشن خیال اور آزاد خیال معاشرہ بننا چاہئے۔ہمیں اس مقصد کے لئے ”ماڈرن ترکی“ کی طرف سفر کرنا ہوگا۔

ہفتہ، 8 مارچ، 2025

پاکستانی میڈیا انڈسٹری کی روح رواں سلطانہ صدیقی

 

جب سے دنیا وجود میں آئ ہے تب سے لے کر وہ آج تک ارتقا ئ مدارج طے کرتی چلی آئ ہے -انہی مدارج میں ایک درجہ یہ بھی ہے کہ  انسانوں کے اس بے کراں ہجوم میں کچھ لوگ صرف زندگی نہیں گزارتے وہ زندگی کی کہانیا ں  لکھتے ہیں ۔ایسی کہانیاں  جو لوگوں کے دلوں میں اور وقت کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتی ہے۔ سلطانہ صدیقی کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے ایک ایسی عورت جس نے  ادب کی دنیا میں  جھلمل کرتا خواب دیکھا اور پھر اسے خواب کو اپنے قلم سے تعبیر بھی دے  کر حقیقت میں بدلا۔  سلطانہ صدیقی ایسی ہستی جس نے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں نہ صرف اپنا مقام بنایا بلکہ اسے ایک نئی شناخت دی ۔ یہ 1974 کی بات ہے جب ایک باہمت خاتون نے پی ٹی وی کے دروازے پر دستک دی   ، آنکھوں میں ایک نئے سفر کی چمک اور دل میں کچھ انوکھا کرنے کی لگن لیے وہ اس میدان میں اتریں۔ پی ٹی وی میں ان کا پہلا تخلیقی کام بچوں کے پروگرام "رنگ برنگ" کی صورت میں سامنے آیا مگر یہ تو محض شروعات تھی۔ اصل معرکہ تب سر ہوا جب نوے کی دہائی میں  انہوں نے "ماروی" جیسا شاہکار تخلیق کیا

 یہ ڈرامہ نہ صرف فنی معراج کو چھوا بلکہ ثقافتی رنگوں میں لپٹا ایک امر داستان بن گیا۔سلطانہ صدیقی کے خواب صرف ایک ڈرامے یا ایک کامیابی تک محدود نہیں تھے۔ ان کا خواب تھا کہ پاکستان میں ایسا پلیٹ فارم ہو جہاں کہانیاں سانس لے سکیں کردار بولیں اور  جذبات ایک تصویر میں ڈھلیں۔  ناظرین صرف ڈرامے دیکھیں نہیں بلکہ محسوس بھی کریں اور یہی خواب ہم ٹی وی کی صورت میں حقیقت میں ڈھل گیا ۔2004میں جب انہوں نے ہم ٹی وی کی بنیاد رکھی تو شاید کسی کو اندازہ بھی نہ تھا کہ یہ چینل دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کی پہچان بن جائے گا۔"زندگی گلزار ہے" جیسے ڈرامے نے جہاں پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو بین الاقوامی شناخت دی وہیں سلطانہ صدیقی کے وژن پر بھی مہر ثبت کر دی۔ فواد خان اور صنم سعید جیسے اداکاروں کو شہرت کی معراج بخشنے والا یہ ڈرامہ نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور دیگر ممالک میں بھی بے حد پسند کیا گیا۔ایک خواب پورا ہو جائے تو دوسرا خواب آنکھوں میں بس جاتا ہے۔


 سلطانہ صدیقی نے ہم ٹی وی کو محض ایک چینل نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ایک میڈیا ایمپائر میں تبدیل کر دیا۔ ان کی بہو مومنہ درید نے ایم ڈی پروڈکشن کی صورت میں اس سفر کو آگے بڑھایا اور ان کا بیٹا درید قریشی ہم ٹی وی کے انتظامی معاملات کو دیکھنے لگا۔ یوں ایک خواب نے حقیقت کی زمین پر جڑیں پکڑ لیں اور ایک خاندان نے مل کر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا ۔ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کے لیے انہوں نے دبئی اور لندن میں ہم ایوارڈز کا انعقاد کیا۔ اس کا مقصد صرف ایوارڈ دینا نہیں تھا بلکہ پاکستان کی کہانی کو دنیا کے سامنے رکھنا تھا اور یہ بتانا تھا کہ ہم بھی تخلیق کی دنیا میں کسی سے کم نہیں۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے ایک اور شاندار پروجیکٹ "تن من نیل و نیل" پروڈیوس کیا جو ناظرین میں بے حد مقبول ہوا۔ پاکستان کے ڈرامہ شائقین کو پی ٹی وی کا سنہرا دور یاد آیا ۔ سلطانہ صدیقی کی میڈیا انڈسٹری میں شاندار کاوشوں کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا ہے  مگر اصل اعزاز وہ محبت اور عزت ہے جو انہیں عوام نے دی۔


سلطانہ صدیقی کی کہانی صرف ایک فرد کی کہانی نہیں، یہ جستجو کی کہانی ہے ایک خواب کے حقیقت بننے کی کہانی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر حوصلہ، ہنر اور ہمت ہو تو دنیا کی کوئی رکاوٹ راستہ نہیں روک سکتی۔سلطانہ صدیقی جنوبی ایشیا کی ایک تجربہ کار ٹیلی ویژن پروڈیوسر، جنہیں جنوبی ایشیا کی ایسی واحد خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو کئی ٹیلی ویژن چینلز کی مالک ہیں اور نہایت کامیابی سے اس شعبے میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔ سلطانہ صدیقی حیدرآباد، سندھ میں پیدا ہوئیں۔ سلطانہ کا تعلق سندھ کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے۔ بے اے آنرز کے بعد ہی ان کی شادی ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطانہ صدیقی نے عورت ہو کر عورت کو ایکسپو لائٹ کیا ہے۔ اِس سے پہلے عورتوں پر اِتنے بولڈ ڈرامے نہ تو لکھے گئے اور نہ بنائے گئے کہ جن سے عورت کا تقدس مجروح ہوا ہے۔تعلیم-حیدرآباد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد سندھ یونیورسٹی سے انھوں نے علم نفسیات اور تقابلی مذاہب کے شعبے میں بی اے آنرز کیا۔مشاغل اور پیشہ- انھیں بچپن ہی سے کھیل کود، فنونِ لطیفہ و موسیقی اور تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کا شوق تھا۔ انھوں نے اپنے شوق اور اپنے اندر پائی جانے والی صلاحیتوں کو کبھی دبایا نہیں، بلکہ انھیں اپنی تخلیقی قوت کے بھرپور اظہار کا ذریعہ بنایا۔


 انیس سو تہتر، چوہتر سے انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کی دنیا میں قدم رکھا۔1981ء سے لے کر 2008ء تک انھیں 15 مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔ سلطانہ صدیقی نے پاکستان ٹیلی وژن پر بحثیت پروڈیسر اور ڈائریکٹر کام کرنا اس وقت شروع کیا، جب میڈیا میں بہت کم خواتین دیکھی جاتی تھیں۔ ان کا غیر معمولی شہرت حاصل کرنے والا ڈراما ’ماروی‘ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا، جس کے بعد سے انھوں نے بے شمار ڈرامے پیش کیے اور اُن کی ہدایات دیں۔ سلطانہ سماجی کاموں میں بھی پیش پیش نظر آتی ہیں۔ وہ ’فخر امداد فاؤنڈیشن ‘ نامی ایک این جی او کی ڈائریکٹر اور ایک مشہور پروڈکشن ہاؤس ’مومل‘ کی بانی بھی ہیں۔سندھ گریجوایٹس ایسوسی ایشن وومن ونگ، میڈیا وومن جرنلسٹس اینڈ پبلشرز آرگنائزیشن کی سربراہ ہیں۔ سندھ مدرستہ الاسلام کے بورڈ آف گورنر کی رکن ہیں۔ایوارڈز-صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی (2007ء۔2008ء) سمیت مزید چھ مختلف ایوارڈز حاصل کرچکی ہیں۔سی سی او سمٹ ایشیا 2013ء کی جانب سے حال ہی میں منعقدہ ایک اجلاس میں ہم نیٹ ورک لمیٹڈ کی صدر سلطانہ صدیقی کو اُن کی پیشہ ورانہ خدمات کے اعتراف میں ٹرافی پیش کی گئی۔اس کے ساتھ ہی انھیں ایک کتاب ”100بزنس لیڈرز آف پاکستان“ کا2013کا ایڈیشن بھی پیش کیا گیا جس میں ایسے 100 نمایاں صنعت کاروں کے پروفائل ہیں جنھوں نے پاکستانی صنعت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کتاب میں سلطانہ صدیقی کا پروفائل بھی شامل کیا گیا ہے۔یادش بخیر سلطانہ صدیقی کو یہ اہم ایوارڈ پہلی مرتبہ نہیں دیا گیاہے قبل ازیں انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دیا جاچکا ہے۔یہ تقریب منیجر ٹوڈے اور سی ای او کلب پاکستان کی جانب سے منعقد کی گئی تھی- وہ کہانیوں کی دنیا میں روشنی کا مینار ہیں اور جب تک کہانیاں لکھی جاتی رہیں گی سلطانہ صدیقی کا نام سنہرے الفاظ میں لکھا جاتا رہے گا۔ 

جمعرات، 6 مارچ، 2025

علم کے شیدائ فرزند سندھ حسن علی آفندی

 

حسن علی آفندی (ولادت: 14 اگست 1830ء)  ہندوستان کے ایک نامور مسلم دانشور تھے۔ وہ حیدرآباد، سندھ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے مگر خود اپنی محنت سے تعلیم حاصل کرکے آگے بڑھتے گئے حتی کہ انھوں نے وکالت کی تعلیم مکمل کر لی۔سندھ میں تعلیم کا سفر-حسن علی آفندی بھی سرسید کی طرح یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں نے اگر جدید تعلیم حاصل نہ کی تو وہ ہر لحاظ سے پیچھے رہ جائیں گے اور ترقی یافتہ اقوام کے شانہ بشانہ چلنے کے لئے ایک پڑھی لکھی جدید علو م سے آراستہ  قوم کی ضرورت ہو گی ۔ اپنی سوچ اپنا مقصد لے کر وہ میدان عمل میں اتر پڑے -حسن علی آفندی نے وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے دوران اس راستے میں کئی مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کیا، اسی دوران انھیں سندھ کے مسلمان نوجوانوں کے لیے تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ تب انھوں نے ہندوستان کی قابل شخصیات اور مخیّر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کی مدد اور تعاون حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ 1885ء میں حسن علی آفندی نے کراچی میں سندھ مدرسۃُ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ایک اسکول تھا، بعد میں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا۔ سندھ مدرسہ نے ثابت کیا کہ حسن علی آفندی اور ان کے ساتھیوں کا ایک جدید درس گاہ کے قیام کا فیصلہ مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں تھا کیوں کہ بعد میں اسی ادارے سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ کئی ایسے مسلمان راہ نما نکلے جنھوں نے مسلمانوں کی اصلاح اور تحریک پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا


۔ حسن علی آفندی نے علی گڑھ کا سفر کرکے سر سید احمد خان سے ملاقات کی اور پھر علی گڑھ تحریک کی پیروی کرتے ہوئے سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کے قائم کردہ سندھ مدرسہ بورڈ کے تحت سندھ مدرسۃ العلوم کی بنیاد رکھی۔ اس ایسوسی ایشن کے قیام کا فیصلہ جسٹس امیر علی کے دورہ سندھ کے موقع پر کیا گیا تھا۔حسن علی آفندی نے  نوشہروفیروز میں ڈپٹی کلکٹر کے دفتر میں منشی گری سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ اسی دوران انگریزی, سندھی, عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا،پھر وہ ایک کلرک کے طور پر کوٹری میں ایک اسٹیم کمپنی میں ملازم ہوگئے۔ جس کے بعد عدالتی کلرک کے طور پر ملازم ہوئے اور ساتھ ہی قانون کی تعلیم مکمل کرکے وکالت شروع کردی ،   وہ سندھ کے پہلے مسلم وکیل تھے، جب کہ ہندو وکیل دیارام جیٹھ مل اور اودھا رام مول چند پہلے ہی وکالت کررہے تھے۔1881 میں حسن علی آفندی کراچی میونسپلٹی کے کونسلر منتخب ہوئے۔ تین چار سال کے عرصے میں ہی کراچی میں محمڈن ایسوسی ایشن کی شاخ قائم کی۔ سندھ مدرسہ بورڈ کے پہلے صدر حسن علی آفندی اور نائب صدر خان بہادر نجم الدین تھے جب کہ ارکان میں سیٹھ علی بھائی کریم جی, سیٹھ غلام حسین چھا گلہ, سیٹھ صالح محمد ڈوسل, غلام حسین خالق دینا وغیرہ شامل تھے۔1890 میں سندھ مدرسے کے دو شعبے تھے ایک انگریزی اور دوسرے کا تعلق مقامی زبانوں میں تعلیم سے تھا، جس میں سندھی, گجراتی اور اردو کی تعلیم چوتھی جماعت تک دی جاتی تھی ۔


گو کہ سندھ مدرسہ ہائی اسکول تھا لیکن پرائمری اور مڈل کے بعد بہت سے بچے تعلیم منقطع کردیتے تھے۔ لیکن  1900 تک مدرسے میں بچوں کی تعداد کوئی پانچ سو کے قریب تھی جن میں کراچی کے طلبا کی اکثریت تھی جو زیادہ تر مسلم تھے۔ ہندو طلبا دس فی صد سے بھی کم تھے۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کا پورا نام سندھ مدرسۃسندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے پبلک ریلیشن آفیسر مصطفیٰ جتوئی انڈپینڈنٹ اردو کو اس ادارے کی تاریخ کے حوالے سے بتایا: ’18ویں صدی میں اس خطے میں کوئی مشنری یا ماڈرن سکول نہیں تھا جو بچوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دے تو اس وقت خان بہادر حسن علی آفندی کو یہ خیال آیا کہ یہاں پر ایک ایسا سکول ہونا چاہیے۔ پھر اس وقت حسن علی آفندی نے لوکل گورنمنٹ سے یہ زمین لی اور یہاں پر یہ سندھ مدرستہ الاسلام سکول قائم کیا۔‘آج آفندی کے بنائے ہوئے اس تعلیمی ادارے  کی آغوش سے نکلے ایس ایم لا کالج سمیت کئی تعلیمی ادارے موجود ہیں۔   حسن علی آفندی کے فلاحی کارناموں کے اعتراف میں برٹش گورنمنٹ  نے انھیں خان بہادر کا خطاب دیا۔ حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ  میں بھی شامل  رہے اور مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے رکن بھی رہے۔ سنہ 1934ء سے 1938ء تک وہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ انھوں نے محمد علی جناح کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کو مسلمانوں میں متعارف کرانے کا کام کیا۔


 اس کے ساتھ انھوں نے مصر، فلسطین، شام، عراق، یمن، سعودی عرب اور امریکا کا دورہ بھی کیا    اس زمانے میں میٹرک کا امتحان بمبئی یونی ورسٹی کے زیرِ اہتمام ہوتا تھا۔ گجراتی پڑھنے والوں میں ہندو اور مسلم دونوں تھے جن میں خوجے, بوہرے اور میمن زیادہ تھے۔سندھ مدرستہ الاسلام سکول میں برطانوی دور کے انسپیکٹر جیکب سمیت کئی حکومتی ملازمین انگریزی زبان کی تعلیم دیتے تھے-ا س سکول میں سندھ کو بمبئی سے علیحدگی کی تحریک چلانے والے سر شاہ نواز بھٹو، غلام حسین ہدایت اللہ، سر عبداللہ ہارون سمیت کئی لیڈروں نے تعلیم حاصل کی۔اس کے علاوہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح، ٹیسٹ کرکٹر محمد حنیف، سندھ کے مشہور سیاست دان رسول بخش پلیجو، ابراہیم جوئیو سمیت کئی اہم شخصیات نے یہاں پر اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔اس ادارے کا دوسرا سفر 1943 میں شروع ہوا اور سکول کو کالج کا درجہ ملا اور قائداعظم محمد علی جناح نے خود اس کا افتتاح کیا۔قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زاتی جائداد میں سے جن اداروں کو حصہ دیا، ان میں سے ایک سندھ مدرستہ الاسلام بھی ہے۔پھر اس مدرسے نے  آہستہ آہستہ سکول سے کالج اور پھر فروری 2012 میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا، جس کا نام سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی رکھا گیا۔  ’18ویں صدی میں اس خطے میں کوئی مشنری یا ماڈرن سکول نہیں تھا جو بچوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دے تو اس وقت خان بہادر حسن علی آفندی کو یہ خیال آیا کہ یہاں پر ایک ایسا سکول ہونا چاہیے۔ پھر اس وقت حسن علی آفندی نے لوکل گورنمنٹ سے یہ زمین لی اور یہاں پر یہ سندھ مدرستہ الاسلام سکول قائم کیا۔


شروع میں جامعہ بنتے وقت اس میں پانچ شعبے تھے اور اب یہاں بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے 20 کے قریب مختلف شعبہ جات ہیں۔سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں ایک میوزم بھی قائم ہے جس میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے زیر استعمال چیزیں اور قائداعظم محمد علی جناح کے داخلے کا رجسٹر بھی موجود ہے، جس میں ان کے اس سکول میں داخلہ لینے کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔قائداعظم محمد علی جناح نے سندھ مدرستہ الاسلام سکول میں ساڑھے چار سال کے عرصے تک تعلیم حاصل کی تھی۔اس کے علاوہ میوزم میں مختلف اہم شخصیات کی تصاویر وغیرہ بھی موجود ہیں، جنہوں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی تھی۔  -اور 20 اگست 1895 ء  میں وہ اپنی مادر وطن کے فرزندوں کا حق  ادا کرتے ہوئے  خالق حقیقی سے جاملے ان کا نام فلاح و بہبود کے کاموں اور تعلیم و تربیت کے میدان میں ان کی خدمات کی وجہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ 

بدھ، 5 مارچ، 2025

بھگت سنگھ آزادی کا نغمہ گاتے ہوئے تختہءدار تک گئے

 


جنگ آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ، جن کی پھانسی کے بعد ورثا کو لاش نہ دی گئی-بھگت سنگھ کا گاؤں جس کے مکین آج بھی ان پر فخر کرتے ہیں بھگت سنگھ: سکنہ بنگا چک نمبر 105 ضلع لائلپور-انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حکم پر اسے اصلی حالت میں بحال کیا جا رہا ہے۔ ’سکھ یاتریوں کے لیے پونچھ ہاؤس میں نہ صرف سکھوں بلکہ پنجاب کے ہیرو بھگت سنگھ سے منسوب گیلری کا قیام ہو چکا ہے، جس میں انہیں دی گئی سزاؤں کے احکامات، تصاویر اور کتابیں رکھی گئی ہیں تاکہ نہ صرف سکھ یاتری بلکہ نوجوان بھی ماضی کے بے مثال مزاحمتی ہیرو کی زندگی کے بارے میں جانیں اور سیکھیں۔احسان بھٹہ کے بقول: ’ہم نے یہاں ان کی فیملی اور دو ساتھیوں کی تصاویر بھی لگائی ہیں، جب اسی جگہ پونچھ ہاؤس میں بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔’ان تینوں نے برطانوی حکومت سے درخواست کی تھی کہ سیاسی قیدیوں کی حیثیت کے پیش نظر انہیں عام مجرموں کی طرح پھانسی نہ دی جائے بلکہ گولی مار کر سزا دی  جائے، لیکن برطانوی حکومت نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔ 


لاہور: بھگت سنگھ کو پھانسی سنائے جانے کے مقام پر یادگار گیلری قائم-حکومت پنجاب کی جانب سے لاہور کے پونچھ ہاؤس میں گیلری قائم کرتے ہوئے بھگت سنگھ کو ’پنجاب کا ہیرو‘ قرار دیا گیا ہے۔پنجاب حکومت نے لاہور میں واقع پونچھ ہاؤس میں ہندوستان کی تحریک آزادی کے معروف ہیرو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب ایک گیلری قائم کر دی ہے۔یہ وہی پونچھ ہاؤس ہے، جہاں 117 سال پہلے انہیں برطانوی سرکار نے پھانسی کی سزا سنائی تھی اور اب اسی گیلری میں ان سے جڑی یادوں پر مشتمل تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔حکومت پنجاب کی جانب سے لاہور میں گیلری قائم کرتے ہوئے بھگت سنگھ کو ’پنجاب کا ہیرو‘ قرار دیا گیا ہے۔سیکرٹری انڈسٹریز احسان بھٹہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’بھگت سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان سے جڑی ماضی کی تلخ یادوں کو آج کی نسل کے سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔‘پونچھ ہاؤس انگریز دور میں سرکاری دفاتر پر مشتمل مقام تھا، لیکن قیام پاکستان کے کچھ سالوں بعد یہ عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہوتی گئی تھی۔


انگریز سرکاری نے انہیں اسمبلی میں دستی بم پھینکنے کے جرم میں سزائے موت سنائی اور 23 مارچ 1931کو انہیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔‘محکمہ انڈسٹریز کے ڈائریکٹر جنرل آصف علی فرخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پونچھ ہاؤس کی بحالی اور بھگت سنگھ گیلری کی تعمیر محکمہ انڈسٹریز اور محکمہ سیاحت کے تعاون سے کی گئی ہے۔ بھگت سنگھ جیسے جنگ آزادی کے ہیرو کی خدمات اور ان کی جدوجہد کو اجاگر کرنا وقت کی ضرورت تھی۔ ہم نے مختصر وقت میں اس گیلری کو مکمل کیا تاکہ پنجاب کے اس روشن پہلو کو دنیا بھر میں اجاگر کیا جائے۔لاہور کا پونچھ ہاؤس جہاں 117 سال پہلے بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی بھگت سنگھ کی زندگی-پونچھ ہاؤس کے ریکارڈ کے مطابق بھگت سنگھ ہندوستان میں صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد (جس کا نام اس وقت لائل پور تھا) کے علاقے بنگا میں 28 ستمبر 1907کو ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے۔


 ان کا تعلق جٹ سندھو گھرانے سے تھا۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی اور 1921 میں میٹرک کے بعد نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ جلیانوالہ قتل عام کے بعد 1927 میں انہوں نے نوجوان بھارت سبھا کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی اور پھر انقلاب کے لیے چلنے والی انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے سوشلسٹ نظریات کے ساتھ اپنی آواز بلند کرنا شروع کر دی۔ریکارڈ کے مطابق دہلی میں قانون ساز اسمبلی میں عین اس وقت جب کالونیلزم سے متعلق قانون پاس کرنے کے لیے اجلاس جاری تھا، بھگت سنگھ کو ساتھیوں سمیت دستی بم پھینکنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔


گرفتاری کے بعد انہیں مختلف جیلوں میں رکھا گیا  لیکن  بھگت سنگھ  نے  اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی اور  جیل میں کئی بار بھوک ہڑتال بھی کی۔اُن دنوں پونچھ ہاؤس میں برطانوی حکومت کی عدالتیں قائم تھیں۔ انہیں عدالت نے ساتھیوں سمیت سزائے موت سنائی۔ بالآخر پنجاب کے اس 24 سالہ سپوت کو ان کے دو ساتھیوں سمیت لاہور میں پھانسی دے دی گئی۔پھانسی   کے تختے تک جاتے ہوءے بھگت سنگھ   آزاد وطن کے  گیت  گا رہے تھے  - حالانکہ عام طور پر پھانسی کا وقت صبح سویرے ہوتا تھا لیکن انہیں شام کے وقت تختہ دار پر چڑھایا گیا۔

 


منگل، 4 مارچ، 2025

بیرون ملک پاکستانی قیدی توجہ چاہتے ہیں-

 

بیرون ملک پاکستانی قیدیوں پر حکومت توجہ دے -جسٹس پراجیکٹ پاکستان مختلف ملکوں میں قیدیوں کے جرائم، ان کی منتقلی کے معاہدے اور قونصلر تک رسائی نیز انہیں تحفظ فراہم کرنے جیسی تفصیلات کی بنیاد پر اعداد و شمار جمع کرتا ہے اور  پراجیکٹ  کی کوشش کرتی  ہے کہ قیدیوں کو جلد پاکستان لایا جا سکے'پاکستان کی موجودہ اور گزشتہ حکومتیں بھی اس بارے میں اعلانات کرتی رہی ہیں کہ بیرون ممالک قید پاکستانیوں کو واپس لانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم اس کے باوجود ان کی تعداد میں اضافہ ماہرین کے مطابق حکومتی اعلانات کی نفی کرتا ہے۔دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے وائس آف امریکہ کے سوال پر بتایا کہ پاکستان کے سفارت خانے بیرون ممالک قید ان پاکستانی قیدیوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور انہیں قانونی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ دفتر خارجہ نے ان پاکستانیوں کو واپس لانے کی اپنی کوششوں سے پارلیمنٹ کو بھی آگاہ کیا ہے۔ممتاز زہرا نے کہا کہ   یقیناًًپردیس میں رہنے والے پردیسیوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ اور بے شمار شکایات بھی ہیں۔


 اور  ان قیدیوں  کو بہت سے مسائل بھی درپیش۔ جن کے  پائیدار  حل کے لئے ہم کوشاں ہیں -ایک بہت ہی توجہ طلب بات یہ ہےبے شمار  لوگ جو ہیں وہ بے گناہ قید ہیں اور بہت سے تو ایسے ہیں کہ جن کی سزائیں بھی مکمل ہو چکی ہیں لیکن وہ تاحال قید میں ہیں کیونکہ  ان کے لئے رہائ تو کجا   کوئ انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور رہائی نہ ملنے کی وجہ کے انکے کاغذات تاحال نامکمل ہیں جسکی بڑی وجہ جو ہے وہ ایک یہ بھی ہے کہ پاکستانی سفارت خانے کاعملہ پاکستانی قیدیوں سے کسی قسم کا کو ئی رابطہ روا نہیں رکھتا۔ یاد  رہے کہ ہمارے وطن کے ممتاز لکھاری  ممتاز مفتی نے اپنی ایک تحریر میں پاکستان کے سفارتی عملے کی  نالائقی سے نالاں ہو کر ایک تحریر بھی لکھی تھی  جبکہ دوسری جانب  دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کا انکے ملک کے سفارتی عملے کی طرف سے بھرپور خیال رکھا جاتا ہے۔ سفارتخانے کی طرف سے باقاعدگی سے خرچا بھی دیا جاتا ہے اور ان کی خوراک و دیگر سہولتوں کا بھی خیال رکھا جاتا ہے جبکہ پاکستانی سفارتی عملے کی طرف سے کوئی خاطر داری نہیں ہوتی انہیں ان کے حال پہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ہمیں ملنے والے پاکستانی قیدی کے پیغام میں بیشمار گلے شکوے پاکستانی سفارت خانے کے عملے اور حکومت سے کئے گئے ہیں۔ جی ہاں پاکستانی قیدیوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان جو ہے وہ ان کے مسائل کو نہ صرف سنے بلکہ ان کے حل کے لئے مناسب اقدامات بھی کرے۔


 تاہم ہمارے پاکستانی قیدی بھائی جو طویل عرصہ سے بے گناہ نہ صرف سعودی قید میں بلکہ دیگر ممالک میں بھی ہیں ان کے حالات پر رحم کیا جائے اور ان کی رہائی کا بندوبست کیاجائے۔  یہ  شکایات ہمارے ان دوستوں کی جو دیار غیر میں مقید ہیں۔ بہر حال اب اخلاقی طور سے بھی اور انسانی ہمدردی کے ناطے  ہمارا فرض ہے کہ دیار غیر میں قید پاکستانیوں کی رہائی کے لیے بھرپور اقدامات اٹھائیں۔تاہم دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں کے اہلکاروں کو چاہیے کہ دنیا بھر میں پاکستانیوں کے مسائل اور ان کی پریشانیوں کو سمجھے اور جہاں تک ہوسکے ان کی پریشانیوں کو حل کرنے کی کوشش کرے۔بہر حال اب حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ از خود دنیا بھر کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کے کوائف حاصل کرے اور پاکستانیوں کی رہائی کے لئے بھی عالمی سطح پر آواز اٹھائے تاکہ دیار غیر میں قید پاکستانی بھائی بھی نہ صرف آزادی کا سورج دیکھ سکیں


  بے شمار پاکستانی   نوجوان     ہیں وہ غیرممالک کی جیلوں میں بھی قید ہیں۔  ایک  پاکستانی  نوجوان نے اس طرح    ایک  کہانی بتائ  ہے-جی ہاں دوستوہمیں بھی ہمارے ایک مہربان اور پیارے پاکستانی بھائی کا پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ وہ میرے محلے دار ہیں مجھ سے مل بھی چکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی کسی نے انہیں بھی دھوکے سے پکڑوایا خیر ہمارے پاکستانی دوست جو کہ سعودی عرب جیل میں قید ہیں اور سعودی جیل سے ہی بذریعہ سوشل میڈیا اپنی آواز میں پیغام ہم تک پہنچا دیا۔  دیار غیر میں سعودی جیلوں میں قید بے شمار پاکستانی قیدیوں کی ترجمانی کرتے ہوئے  پیغام میں بتایا کہ   کمیشن کومختلف ممالک میں قید پاکستانیوں کے اعدادوشمار اکھٹے کرنے کے علاوہ اُن کی رہائی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تاہم ایسے قیدی جو دہشت گردی یا منشیات کی سمگلنگ میں قصوروار ٹھہرائے گئے ہیں اُن کے متعلق کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔


وزارت داخلہ کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ضمن میں جوائنٹ سیکرٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ یہ کمیٹی دنیا کی مختلف جیلوں میں قید اُن تمام پاکستانیوں کے کوائف اکھٹے کرنے کے علاوہ اُن کے خلاف درج کیے گئے مقدمات کا جائزہ لے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی ان مقدمات کا جائزہ لینے کے بعداس پرقانونی ماہرین سے رابطہ کرنے کے بعد اُن سے رائے لی جائے گی جس کے بعد مختلف ممالک میں سفارت خانوں کے متعلقہ حکام کوان افراد کے مقدمات کی پیروی کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے کہ دنیا کی مختلف جیلوں میں قید پاکستانیوں کے بارے میں معلومات وہاں پر موجود پاکستانی سفارت خانے کے عملے کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہیں۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی پاکستانی معمولی جرائم میں قید ہواور وہ کونسل کی خدمات چاہتا ہو تو پھر سفارتخانے کے اہلکار وہیں پرکسی وکیل کی خدمات حاصل کرکے اُن کی رہائی کےاقدامات کرتے ہیں۔‘


انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی پاکستانی منشیات، قتل اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہو ایسے افراد کو قانونی امداد دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ زیاہ ممالک میں ان جرائم کی سزا موت ہے۔‘قیدیوں کے حالت زار کے بارے میں کام کرنے والی تنظیم گلوبل فاؤنڈیشن کےمطابق دنیا بھر کے اکیاون ممالک کی جیلوں میں7934 پاکستانی قیدی موجود ہیں جن میں درجنوں خواتین بھی پابند سلاسل ہیں۔ تنظیم کےاعداد وشمار کے مطابق سب سے زیادہ تعداد سعودی جیلوں میں ہے جن کی تعداد 5237ہے دوسرے نمبر پر بھارت کی 31جیلوں میں472قیدی موجود ہیں جبکہ ماہی گیروں کی کثیر تعداد اس کے علاوہ ہے۔تنظیم کے اعدادوشمار کے مطابق صرف فیروز پور جیل میں35 پاکستانی سزائیں پوری کر لینے کے باوجوداذیت ناک حالات میں قید کاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تھائی لینڈ کی دو جیلوں لارڈ یاؤ اور بنک کوانگ میں قید ہیں-میں نے یہ تحریر انٹر نیٹ سے لے کر تلخیص کی ہے

 

 


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر