رائے بھادر شیورتن
4,994 / 5,000
حسن علی آفندی 14 اگست 1830 کو سندھ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق اخوند خاندان سے تھا اور ان کے آباؤ اجداد ترکی ہجرت کر کے حیدرآباد میں آباد ہوئے۔ وہاں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ حسن علی آفندی کے انسان دوست کارناموں کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے انہیں "خان بہادر" کا خطاب دیا۔ وہ 1934 سے 1938 تک مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ اور سندھ قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ وہیں 20 اگست 1895 کو انتقال کر گئے۔ حسن علی آفندی" 1830 میں ہالہ حیدرآباد، سندھ میں ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام میاں محمد احسان اخوند ہے۔ اس نے سنا کہ اس کا باپ مر گیا ہے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد، اس کی پرورش اس کے بھائی امید علی نے کی، جس نے اپنے بچپن میں قرآن پڑھا، اور پھر عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ کچھ دنوں بعد وہ ایک چھوٹے سے شہر میں بیس روپے ماہانہ پر سیکرٹری کے طور پر ملازم ہو گئے۔
ملازمت کے بعد اس نے انگریزی زبان سیکھنی شروع کی اور بہت جلد اس پر عبور حاصل کر لیا۔ کچھ دنوں بعد اسے ڈپٹی کلکٹر کے دفتر میں مڈل کلرک کا عہدہ مل گیا۔ دور کراچی آئے اور ضلعی عدالت کے سربراہ اور مترجم مقرر ہوئے۔ عدالت سے تعلق کی وجہ سے وہاں تمام وکلاء دوست بن گئے۔ وہاں رہتے ہوئے انہوں نے پرائیویٹ طور پر قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں کی ذہانت اور قابلیت کو دیکھ کر انگریز جج نے انہیں قانون کا امتحان اور سرٹیفکیٹ دیے بغیر قانون کی مشق کرنے کی اجازت دی۔
کراچی آنے کے بعد وہ اپنے پرانے شہر حیدرآباد آ گئے اور قانون کی پریکٹس شروع کی۔ اس وقت سندھ میں زیادہ تر وکلاء ہندو تھے۔ چنانچہ حسن علی آفندی نے جیسے ہی وکالت شروع کی، مسلمانوں نے اپنے مقدمات وہاں لے جانے شروع کر دیے۔ محنت اور ذہانت کی وجہ سے چند ہی دنوں میں شہریت چاروں طرف پھیل گئی۔ حسن علی آفندی کو ملک و قوم کی بھلائی کے وکیل کی حیثیت سے سنیں۔ وہ تمام مسلمانوں سے حقیقی ہمدردی اور محبت رکھتے ہیں۔ "ترکی" اور "روس" کے درمیان "جنگ" کے وقت اس نے ترکی کی مالی امداد کے لیے چندہ جمع کیا۔ اس نے حد تک مالی تعاون کیا۔ ترک حکومت نے ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں "آفندی" خطوط اور تمغے دئیے۔ "افندی" کو ترکی زبان میں "سردار" نہیں کہا جاتا۔ سندھ مدرسۃ الاسلام حسن علی آفندی کا ’’یونیورسٹی آف سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘ کا قیام ایک عظیم کارنامہ ہے۔ اس زمانے میں سندھ کے مسلمانوں کے لیے انگریزی تعلیم کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا۔ اسکول اور کالج زیادہ تر ہندو مذہب کی تعلیم دیتے ہیں۔ حسن علی آفندی نے سندھ کے مسلمانوں کو جدید تعلیم اور دولت سے مالا مال کرنے کے لیے ایک انجمن بنائی۔ ایک خیال یہ ہے کہ مسلمان اب تک جدید انگریزی تعلیم حاصل نہیں کریں گے، نہ صرف وہاں اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بند ہو جائیں گے، بلکہ وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اس نے وڈی نوابوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو تعلیم کی اہمیت کا احساس دلایا۔ 1885ء کے آخر میں کراچی میں ’’سندھ مدِستا اسلام‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس مدرسے کے لیے دور دراز سے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل بنایا گیا۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ اس مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سندھ کے پہلے مسلمان گورنر، الحاج سر غلام حسن، ہدایت اللہ پنجم کے طالب علم تھے۔ بعد میں، ایس سی ایسوسی ایشن نے سندھ مسلم کالج اور سندھ لاء کالج قائم کیا۔ ان اداروں میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم نہیں ہیں۔ حسن علی آفندی نے وہاں کی محنت اور اچھے کام کو دیکھا تو برطانوی حکومت نے انہیں ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب دیا۔ 1885ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کے وقت پہلے انتظامی بورڈ کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے جناب علی محمد اپنے والد حسن علی آفندی کی جانشین ہوئے۔ اس وقت انہوں نے محسوس کیا کہ مدرسہ کے انتظامات ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں، اس لیے انہوں نے ادارہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ حسن علی آفندی برطانوی ہندوستان کے ایک مشہور مسلم دانشور تھے۔ وہ سندھ کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرتے رہے اور ترقی کرتے رہے، یہاں تک کہ انھوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ پڑھائی کے دوران انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی ہی عمر کے حسن علی آفندی کو سندھی مسلمانوں کے لیے ایک تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ ان کی کوشش میں جسٹس امیر علی تعلیمی نظام دیکھنے کے لیے ان کی دعوت پر کلکتہ گئے۔ آخر کار 1885 میں حسن علی آفندی نے کراچی سندھ مدرسہ اسلام کی بنیاد رکھی۔ اج حسن علی کے بنائے ہوئے اس تعلیمی ادارے سے نکلنے والے ایس اے لاء کالج سمیت کئی تعلیمی ادارے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ابتدائی تعلیم سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کی۔ حسن علی آفندی کی فلاحی کامیابیوں کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے انہیں یہاں خان بہادر کا خطاب دیا۔ حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ تھے اور مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کے رکن تھے۔ وہ 1934 سے 1938 تک سندھ قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ یہاں انہوں نے قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں کو مسلم لیگ سے متعارف کرانے کا کام کیا۔ اس کے ذریعے اس نے مصر کا دورہ کیا۔موھاٹا خاندان کا سندھ میں کاروبار
ویسے تو مارواڑی ھندو اور مسلمان سندھ کے بڑے شہروں میں آباد ہیں جن کا تعلق مارواڑ کے اضلاع جیسلمیر باھڑمیر اور بیکانیر سے تھا، لیکن ان میں سے مشہور موھاٹا خاندان اور ڈالمیا خاندان مشہور کاروباری خاندان گزرے ہیں، آج موھاٹا خاندان کا سندھ میں کاروبار اور ان کی سیاسی و سماجی خدمات بیان کرتے ہیں،کراچی شہر کے ایک بڑے تاجر ھندو مارواڑی رائے بھادر شورتن چندرا رتن گوردھن داس موہٹا گزرے ہیں، آپ کے دادا موتی لال کا تعلق بیکانیر راجستان کے ایک گاؤں سے تھا، موتی لال بیکانیر کو خیرآباد کہہ کر حیدرآباد دکھن "تلنگانہ" میں جا بسے اور ایک دکان پر کلرک کا کام شروع کیا، موتی لال کے بچے جب جوان ہوئے تو ان کے چار بیٹے حیدرآباد سے کلکتہ چلے گئے، جہاں انہوں اعلیٰ کوالٹی کا امپورٹڈ کپڑے کا کام شروع کیا،جب کراچی بندر گاہ بننے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تو ان چار بھائیوںمیں سے گوردھن داس 1883ع میں کلکتہ سے کراچی چلے آئے،
گوردھن داس نے کراچی میں کپڑے کا کاروبارِ شروع کیا اور کاروبار بڑھا تو ٹاور کے قریب گوردھن داس کلاتھ مارکیٹ کی بنیاد رکھی،گوردھن داس کے سب سے بڑے بیٹے رام گوپال ایک بڑے پڑھے لکھے اسکالر تھے، ان کو کاروبار سے کچھ زیادہ لگاو نہیں تھا اس لئے انہوں نے کاروبار سے زیادہ ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا، کراچی میں ہندو جم خانے کا بنیاد رکھنے سے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا ، جم خانہ کا آفیشل نام آپ کے نام رام گوپال گوردھن داس موھاٹا ھندو جم خانہ سے منسوب کیا گیا۔گوردھن داس کا دوسرا بیٹا سیٹھ شو رتن چندرا رتن موہاٹا صنعتکار بن گئے،شیورتن موہٹا پر اوپر والا مہربان ہوا دیکھتے دیکھتے شو رتن موہاٹا کراچی کے سب سے بڑے مالدار افراد میں شامل ھو گئے اور شہر کے معروف سماجی شخصیت ابھر کر سامنے آئے،شو رتن کا کاروبارِ جہاز رانی جہاز سازی اور اس کے علاؤہ شوگر مل، اسٹیل مل اور صابن کے کارخانے تھے، ان کے کراچی میں کئی گھر اور پلاٹ تھے،
حبیب بینک پلازہ کا پلاٹ گوردھن داس نے ہندو سیٹھ ھری داس رامداس سے 11 جون 1917 میں خریدا تھا جو ان کی ملکیت میں اضافہ بنا، "موہٹا ننگر ريلوي اسٹيشن اور شگر ملز" شو رتن نے بڑے کاروباری ہونے کے ناتے ان کے تعلقات گورنر بمبئی سے تھے، شیو رتن نے گورنر کو خوبصورت جہاز تحفے میں پیش کیا اور اس کے تعلقات رانا آف عمرکوٹ کے ساتھ جودھ پور کے راجا سے بھی اچھے مراسم تھے۔شو رتن نے شگرمل لگانے کا جب ارادہ کیا تو پہلے انہوں نے شاہ پور چاکر کے قریب پریتم آباد میں تین ھزار ایکڑ زمین کا رقبہ خریدا جس میں گنے کی کاشت اور شوگرمل لگائی، شورتن موھاٹا شگر مل برصغیر کی دوسری اور بڑی شگر مل کا بنیاد بن گئی، جب شگر مل اپنا کام شروع کیا تو مال برداری کیلئے شورتن شگرمل سے کھڈڑو ریلوی اسٹیشن تک سامان بیل گاڑیوں کے ذریعے لدا جاتا تھا، اس مسئلے کے حل کیلئے شو رتن نے راجا آف جودھپور اور رانا آف عمرکوٹ سے رابطہ کیا اور انگریز دور میں 20 نومبر 1939ع میں میٹر گیج ٹریک کھڈڑو اسٹشن سے نوابشاھ کیلئے بچھائی گئی، میرپور خاص سے کھڈڑو پہلے موجود تھی بعد میں اسی روٹ پر شاہ پور چاکر سے آگے پریتم آباد کے قریب موھاٹا نگر ریلوے اسٹیشن کا بنیاد پڑا جو اب سرور ننگر کہلاتا ہے، اس کے قریب گوٹھ نما شہر سرور آباد نوابشاھ سانگھڑ روڈ پر بھی واقع ہے،
سرور نام مخدوم سرور نوح سے منسوب کیے گئے ہیں کیوں کے ان کی زمینداری بھی اسی علاقے میں ہے۔پریتم آباد یا شاہ پور چاکر اور کھڈڑو اس وقت نوابشاھ ضلع کا حصہ تھے، جب سانگھڑ ضلع کا وجود 1951ع آیا تو اب یے شہر ضلع سانگھڑ کا حصہ بن گئے ہیں۔ 27 سال پہلے میرپور خاص اور کھڈڑو کے درمیان جودھپور ریلوی سروس کے نام سے ریل چلتی تھی جو جودھ پور کے راجا امید سنگھ کی ملکیت تھی، مارواڑ راجستان سے میرپور خاص ریل چلانے کا مقصد راجستان میں قحط سالی کے دوران پانی، گندم، سبزیاں، مرچیں اور مال مویشی کا چارہ یہاں سے لیکر جایا جانا تھا اور بعد میں مسافر ٹرین کا اضافہ ہوا، پاکستان بننے کے بعد یہ ریل پاکستان ریلویز کو فروخت کر دی گئی، یوں 129 کلومیٹر 17 اسٹیشن والی عرف عام راجا ریل 2005ع میں بندکر دی گئی، "موھٹا پیلس اور گوردھن داس ھندو جیم خانہ" دونوں عمارات کی تاریخ ہمارے شہر کراچی جو سندھ کا راجدھانی ہے میں واقع کلفٹن میں موجود ہیں، ان میں ایک محل نما عمارت موھاٹا پیلس کی ہے، موھاٹا پیلس بنانے والے تاریخ کے جبر کے نتیجے میں جب جلاوطن ہوا تو اس پیلس کو بھی سکون نصیب نہیں ہوا،
راء بھادر شورتن چندرا رتن گوردھن داس موھاٹا کی بیوی بیمار رہنے لگی تو ڈاکٹروں اور حکیموں نے مشورہ دیا کہ اس کو صبح شام سمندر کی ہوائوں کی ضرورت ہے، سمندر کی لہریں اس وقت حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمہ اللہ کے مزار مقدس اور روپ چند بیلا رام پارک "باغ ابن قاسم" کے ساتھ رتنیشور مھادیو مندر کی دیواروں سے ٹکراتی تھیں۔ ہوائیں کبھی بھی قید نہیں کی جا سکتی، اس لیے سیٹھ شیو رتن نے اپنی بیوی کے لیے یہ محل 1927ع میں تعمیر کروایا جو موھاٹا پیلس کے نام سے اب بھی مشہور ہے۔ موھاٹا پیلس کا نقشہ اس دور کے ایک مشہور آرکیٹیکٹ آغا احمد حسین نے بنایا تھا، آغا احمد حسین ھندو جم خانہ، کراچی چیمبرز آف کامرس، انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن اور دوسرے عمارتوں کے آرکیٹیکٹ رہے ہیں، اس لیے ان عمارات میں آپ کو یکسانیت نظر آئے گی۔ آغااحمد حسین کے ہندو جم خانہ اور موھاٹا پیلس فن تعمیر کے لازوال شاہکار ہیں.شورتن موھاٹا اپنی سخاوت اور سماجی کاموں کے حوالے سے مشہور تھا، آپ کراچی میونسپلٹی کا ممبر رہنے کے ساتھ بہت سی کمیٹیوں اور فلاحی اداروں کے ممبر رہے۔شیورتن موہٹا کراچی چیمبر آف کامرس، انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن، دیپ چند ٹی اوجھا سینٹوریم کےبانی ممبر تھے، موھٹا خاندان کا سندھ کے سیاست اور خصوصی طور پر کراچی کے ترقی میں بڑا ہاتھ رہا-لیکن حکومت پاکستان نے ان سے ان کا یہ پسندیدہ محل بذریعہ جبر لے لیا تو وہ بد دل ہو کر پاکستان چھوڑ گئے