جمعہ، 28 فروری، 2025

سندھ مدرستہ الاسلام-ایک مائہ نازاکیڈمی

  پاکستان کے اس ہونہار فرزند   کا تعلق اخوند خاندان سے تھا اور ان کے آباؤ اجداد ترکی ہجرت کر کے حیدرآباد میں آباد ہوئے۔ وہاں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ حسن علی آفندی کے انسان دوست کارناموں کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے انہیں "خان بہادر" کا خطاب دیا۔ وہ 1934 سے 1938 تک مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ اور سندھ قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ وہیں 20 اگست 1895 کو انتقال کر گئے۔ حسن علی آفندی" 1830 میں ہالہ حیدرآباد، سندھ میں ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام میاں محمد احسان اخوند ہے۔  اپنے والد کی وفات کے بعد، اس کی پرورش اس کے بھائی امید علی نے کی، جس نے اپنے بچپن میں قرآن پڑھا، اور پھر عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ کچھ دنوں بعد وہ ایک چھوٹے سے شہر میں بیس روپے ماہانہ پر سیکرٹری کے طور پر ملازم ہو گئے۔ملازمت کے بعد اس نے انگریزی زبان سیکھنی شروع کی اور بہت جلد اس پر عبور حاصل کر لیا۔ کچھ دنوں بعد اسے ڈپٹی کلکٹر کے دفتر میں مڈل کلرک کا عہدہ مل گیا۔ دور کراچی آئے اور ضلعی عدالت کے سربراہ اور مترجم مقرر ہوئے۔ عدالت سے تعلق کی وجہ سے وہاں تمام وکلاء دوست بن گئے۔   


 وہاں رہتے ہوئے انہوں نے پرائیویٹ طور پر قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں کی ذہانت اور قابلیت کو دیکھ کر انگریز جج نے انہیں قانون کا امتحان اور سرٹیفکیٹ دیے بغیر قانون کی مشق کرنے کی اجازت دی۔کراچی آنے کے بعد وہ اپنے پرانے شہر حیدرآباد آ گئے اور قانون کی پریکٹس شروع کی۔ اس وقت سندھ میں زیادہ تر وکلاء ہندو تھے۔ چنانچہ حسن علی آفندی نے جیسے ہی وکالت شروع کی، مسلمانوں نے اپنے مقدمات وہاں لے جانے شروع کر دیے۔ محنت اور ذہانت کی وجہ سے چند ہی دنوں میں شہریت چاروں طرف پھیل گئی۔ حسن علی آفندی کو ملک و قوم کی بھلائی کے وکیل کی حیثیت سے سنیں۔ وہ تمام مسلمانوں سے حقیقی ہمدردی اور محبت رکھتے ہیں۔ "ترکی" اور "روس" کے درمیان "جنگ" کے وقت اس نے ترکی کی مالی امداد کے لیے چندہ جمع کیا۔ اس نے حد تک مالی تعاون کیا۔ ترک حکومت نے ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں "آفندی" خطوط اور تمغے دئیے۔ "افندی" کو ترکی زبان میں "سردار" نہیں کہا جاتا۔ سندھ مدرسۃ الاسلام حسن علی آفندی کا ’’یونیورسٹی آف سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘ کا قیام ایک عظیم کارنامہ ہے۔ اس زمانے میں سندھ کے مسلمانوں کے لیے انگریزی تعلیم کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا۔ اسکول اور کالج زیادہ تر ہندو مذہب کی تعلیم دیتے ہیں۔


 حسن علی آفندی نے سندھ کے مسلمانوں کو جدید تعلیم اور دولت سے مالا مال کرنے کے لیے ایک انجمن بنائی۔ ایک خیال یہ ہے کہ مسلمان اب تک جدید انگریزی تعلیم حاصل نہیں کریں گے، نہ صرف وہاں اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بند ہو جائیں گے، بلکہ وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اس کے لئیے انہوں  نے   نوابوں، وڈیروں اورجاگیرداروں کو تعلیم کی اہمیت کا احساس دلایا۔ 1885ء کے آخر میں کراچی میں ’’سندھ مدرسۃالا سلام‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس مدرسے کے لیے دور دراز سے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل بنایا گیا۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ اس مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سندھ کے پہلے مسلمان گورنر، الحاج سر غلام حسن، ہدایت اللہ پنجم کے طالب علم تھے۔ بعد میں، ایس سی ایسوسی ایشن نے سندھ مسلم کالج اور سندھ لاء کالج قائم کیا۔ ان اداروں میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم   رہے  ہیں۔ حسن علی آفندی   کی محنت اور اچھے کام کو دیکھا تو برطانوی حکومت نے انہیں ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب دیا۔ 1885ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کے وقت پہلے انتظامی بورڈ کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے جناب علی محمد اپنے والد حسن علی آفندی کی جانشین ہوئے۔


 اس وقت انہوں نے محسوس کیا کہ مدرسہ کے انتظامات ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں، اس لیے انہوں نے ادارہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ حسن علی آفندی برطانوی ہندوستان کے ایک مشہور مسلم دانشور تھے۔ وہ سندھ کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرتے رہے اور ترقی کرتے رہے، یہاں تک کہ انھوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ پڑھائی کے دوران انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی  مشکلات کو سمجھتے ہوئے ان  کو سندھی مسلمانوں کے لیے ایک تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ ان کی کوشش میں جسٹس امیر علی تعلیمی نظام دیکھنے کے لیے ان کی دعوت پر کلکتہ گئے۔ آخر کار 1885 میں حسن علی آفندی نے کراچی سندھ مدرسہ اسلام کی بنیاد رکھی۔ اج حسن علی کے بنائے ہوئے اس تعلیمی ادارے سے نکلنے والے ایس اے لاء کالج سمیت کئی تعلیمی ادارے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ابتدائی تعلیم سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کی۔ حسن علی آفندی کی فلاحی کامیابیوں کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے انہیں یہاں خان بہادر کا خطاب دیا۔ حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ تھے اور مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کے رکن تھے۔ وہ 1934 سے 1938 تک سندھ قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ یہاں انہوں نے قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں کو مسلم لیگ سے متعارف کرانے کا کام کیا

جمعرات، 27 فروری، 2025

گوردھن داس قدیم مارکیٹ کھارادر کراچی 'تاریخ کے آئینے میں

 


رائے بھادر شیورتن 


4,994 / 5,000

حسن علی آفندی 14 اگست 1830 کو سندھ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق اخوند خاندان سے تھا اور ان کے آباؤ اجداد ترکی ہجرت کر کے حیدرآباد میں آباد ہوئے۔ وہاں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ حسن علی آفندی کے انسان دوست کارناموں کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے انہیں "خان بہادر" کا خطاب دیا۔ وہ 1934 سے 1938 تک مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ اور سندھ قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ وہیں 20 اگست 1895 کو انتقال کر گئے۔ حسن علی آفندی" 1830 میں ہالہ حیدرآباد، سندھ میں ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام میاں محمد احسان اخوند ہے۔ اس نے سنا کہ اس کا باپ مر گیا ہے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد، اس کی پرورش اس کے بھائی امید علی نے کی، جس نے اپنے بچپن میں قرآن پڑھا، اور پھر عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ کچھ دنوں بعد وہ ایک چھوٹے سے شہر میں بیس روپے ماہانہ پر سیکرٹری کے طور پر ملازم ہو گئے۔

ملازمت کے بعد اس نے انگریزی زبان سیکھنی شروع کی اور بہت جلد اس پر عبور حاصل کر لیا۔ کچھ دنوں بعد اسے ڈپٹی کلکٹر کے دفتر میں مڈل کلرک کا عہدہ مل گیا۔ دور کراچی آئے اور ضلعی عدالت کے سربراہ اور مترجم مقرر ہوئے۔ عدالت سے تعلق کی وجہ سے وہاں تمام وکلاء دوست بن گئے۔ وہاں رہتے ہوئے انہوں نے پرائیویٹ طور پر قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں کی ذہانت اور قابلیت کو دیکھ کر انگریز جج نے انہیں قانون کا امتحان اور سرٹیفکیٹ دیے بغیر قانون کی مشق کرنے کی اجازت دی۔

کراچی آنے کے بعد وہ اپنے پرانے شہر حیدرآباد آ گئے اور قانون کی پریکٹس شروع کی۔ اس وقت سندھ میں زیادہ تر وکلاء ہندو تھے۔ چنانچہ حسن علی آفندی نے جیسے ہی وکالت شروع کی، مسلمانوں نے اپنے مقدمات وہاں لے جانے شروع کر دیے۔ محنت اور ذہانت کی وجہ سے چند ہی دنوں میں شہریت چاروں طرف پھیل گئی۔ حسن علی آفندی کو ملک و قوم کی بھلائی کے وکیل کی حیثیت سے سنیں۔ وہ تمام مسلمانوں سے حقیقی ہمدردی اور محبت رکھتے ہیں۔ "ترکی" اور "روس" کے درمیان "جنگ" کے وقت اس نے ترکی کی مالی امداد کے لیے چندہ جمع کیا۔ اس نے حد تک مالی تعاون کیا۔ ترک حکومت نے ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں "آفندی" خطوط اور تمغے دئیے۔ "افندی" کو ترکی زبان میں "سردار" نہیں کہا جاتا۔ سندھ مدرسۃ الاسلام حسن علی آفندی کا ’’یونیورسٹی آف سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘ کا قیام ایک عظیم کارنامہ ہے۔ اس زمانے میں سندھ کے مسلمانوں کے لیے انگریزی تعلیم کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا۔ اسکول اور کالج زیادہ تر ہندو مذہب کی تعلیم دیتے ہیں۔ حسن علی آفندی نے سندھ کے مسلمانوں کو جدید تعلیم اور دولت سے مالا مال کرنے کے لیے ایک انجمن بنائی۔ ایک خیال یہ ہے کہ مسلمان اب تک جدید انگریزی تعلیم حاصل نہیں کریں گے، نہ صرف وہاں اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بند ہو جائیں گے، بلکہ وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اس نے وڈی نوابوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو تعلیم کی اہمیت کا احساس دلایا۔ 1885ء کے آخر میں کراچی میں ’’سندھ مدِستا اسلام‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس مدرسے کے لیے دور دراز سے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل بنایا گیا۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ اس مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سندھ کے پہلے مسلمان گورنر، الحاج سر غلام حسن، ہدایت اللہ پنجم کے طالب علم تھے۔ بعد میں، ایس سی ایسوسی ایشن نے سندھ مسلم کالج اور سندھ لاء کالج قائم کیا۔ ان اداروں میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم نہیں ہیں۔ حسن علی آفندی نے وہاں کی محنت اور اچھے کام کو دیکھا تو برطانوی حکومت نے انہیں ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب دیا۔ 1885ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کے وقت پہلے انتظامی بورڈ کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے جناب علی محمد اپنے والد حسن علی آفندی کی جانشین ہوئے۔ اس وقت انہوں نے محسوس کیا کہ مدرسہ کے انتظامات ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں، اس لیے انہوں نے ادارہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ حسن علی آفندی برطانوی ہندوستان کے ایک مشہور مسلم دانشور تھے۔ وہ سندھ کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرتے رہے اور ترقی کرتے رہے، یہاں تک کہ انھوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ پڑھائی کے دوران انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی ہی عمر کے حسن علی آفندی کو سندھی مسلمانوں کے لیے ایک تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ ان کی کوشش میں جسٹس امیر علی تعلیمی نظام دیکھنے کے لیے ان کی دعوت پر کلکتہ گئے۔ آخر کار 1885 میں حسن علی آفندی نے کراچی سندھ مدرسہ اسلام کی بنیاد رکھی۔ اج حسن علی کے بنائے ہوئے اس تعلیمی ادارے سے نکلنے والے ایس اے لاء کالج سمیت کئی تعلیمی ادارے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ابتدائی تعلیم سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کی۔ حسن علی آفندی کی فلاحی کامیابیوں کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے انہیں یہاں خان بہادر کا خطاب دیا۔ حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ تھے اور مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کے رکن تھے۔ وہ 1934 سے 1938 تک سندھ قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ یہاں انہوں نے قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں کو مسلم لیگ سے متعارف کرانے کا کام کیا۔ اس کے ذریعے اس نے مصر کا دورہ کیا۔موھاٹا خاندان کا سندھ میں کاروبار

       

ویسے تو مارواڑی ھندو اور مسلمان سندھ کے بڑے شہروں میں آباد ہیں جن کا تعلق مارواڑ کے اضلاع جیسلمیر باھڑمیر اور بیکانیر سے تھا، لیکن ان میں سے مشہور موھاٹا خاندان اور ڈالمیا خاندان مشہور کاروباری خاندان گزرے ہیں، آج موھاٹا خاندان کا سندھ میں کاروبار اور ان کی سیاسی و سماجی خدمات بیان کرتے ہیں،کراچی شہر کے ایک بڑے تاجر ھندو مارواڑی رائے بھادر شورتن چندرا رتن گوردھن داس موہٹا گزرے ہیں، آپ کے دادا موتی لال کا تعلق بیکانیر راجستان کے ایک گاؤں سے تھا، موتی لال بیکانیر کو خیرآباد کہہ کر حیدرآباد دکھن "تلنگانہ" میں جا بسے اور ایک دکان پر کلرک کا کام شروع کیا، موتی لال کے بچے جب جوان ہوئے تو ان کے چار بیٹے حیدرآباد سے کلکتہ چلے گئے، جہاں انہوں اعلیٰ کوالٹی کا امپورٹڈ کپڑے کا کام شروع کیا،جب کراچی بندر گاہ بننے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تو ان چار بھائیوںمیں سے گوردھن داس 1883ع میں کلکتہ سے کراچی چلے آئے، 


گوردھن داس نے کراچی میں کپڑے کا کاروبارِ شروع کیا اور کاروبار بڑھا تو ٹاور کے قریب گوردھن داس کلاتھ مارکیٹ کی بنیاد رکھی،گوردھن داس کے سب سے  بڑے بیٹے رام گوپال ایک بڑے پڑھے لکھے  اسکالر تھے، ان  کو کاروبار سے کچھ زیادہ لگاو نہیں تھا  اس لئے انہوں نے کاروبار سے  زیادہ ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا، کراچی میں ہندو جم خانے کا بنیاد   رکھنے سے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا  ، جم خانہ کا آفیشل نام آپ کے نام رام گوپال گوردھن داس موھاٹا ھندو جم خانہ سے منسوب کیا گیا۔گوردھن داس کا دوسرا بیٹا سیٹھ شو رتن چندرا رتن موہاٹا صنعتکار بن گئے،شیورتن موہٹا پر اوپر والا مہربان ہوا  دیکھتے دیکھتے شو رتن موہاٹا کراچی کے سب سے بڑے مالدار افراد میں شامل ھو گئے اور شہر کے معروف سماجی شخصیت ابھر کر سامنے آئے،شو رتن کا کاروبارِ جہاز رانی جہاز سازی اور اس کے علاؤہ شوگر مل، اسٹیل مل اور  صابن کے کارخانے تھے، ان کے کراچی میں کئی گھر اور پلاٹ تھے،


حبیب بینک پلازہ کا  پلاٹ گوردھن داس نے ہندو سیٹھ ھری داس رامداس سے 11 جون 1917 میں خریدا تھا جو ان کی ملکیت میں اضافہ بنا، "موہٹا ننگر ريلوي اسٹيشن اور شگر ملز" شو رتن نے بڑے کاروباری ہونے کے ناتے ان کے تعلقات گورنر بمبئی سے تھے، شیو رتن نے گورنر کو خوبصورت جہاز تحفے میں پیش کیا اور اس کے تعلقات رانا آف عمرکوٹ کے ساتھ جودھ پور کے راجا سے بھی اچھے مراسم تھے۔شو رتن نے شگرمل لگانے کا جب ارادہ کیا تو پہلے انہوں نے شاہ پور چاکر کے قریب پریتم آباد میں تین ھزار ایکڑ زمین کا رقبہ خریدا جس میں گنے کی کاشت اور شوگرمل لگائی، شورتن موھاٹا شگر مل برصغیر کی دوسری اور بڑی شگر مل کا بنیاد بن گئی، جب شگر مل اپنا کام شروع کیا تو مال برداری کیلئے شورتن شگرمل سے کھڈڑو ریلوی اسٹیشن تک سامان بیل گاڑیوں کے ذریعے لدا جاتا تھا، اس مسئلے کے حل کیلئے شو رتن نے راجا آف جودھپور اور رانا آف عمرکوٹ سے رابطہ کیا اور انگریز دور میں 20 نومبر 1939ع میں میٹر گیج ٹریک کھڈڑو اسٹشن سے نوابشاھ کیلئے بچھائی گئی، میرپور خاص سے کھڈڑو پہلے موجود تھی بعد میں اسی روٹ پر شاہ پور چاکر سے آگے پریتم آباد کے قریب موھاٹا نگر ریلوے اسٹیشن کا بنیاد پڑا جو اب سرور ننگر کہلاتا ہے، اس کے قریب گوٹھ نما شہر سرور آباد نوابشاھ سانگھڑ روڈ پر بھی واقع ہے،


سرور نام مخدوم سرور نوح سے منسوب کیے گئے ہیں کیوں کے ان کی زمینداری بھی اسی علاقے  میں ہے۔پریتم آباد یا شاہ پور چاکر اور کھڈڑو اس وقت نوابشاھ ضلع کا حصہ تھے، جب سانگھڑ ضلع کا وجود 1951ع آیا تو اب یے شہر ضلع سانگھڑ کا حصہ بن گئے ہیں۔ 27 سال پہلے  میرپور خاص اور کھڈڑو کے درمیان جودھپور ریلوی سروس کے نام سے ریل چلتی تھی جو جودھ پور کے راجا امید سنگھ کی ملکیت تھی، مارواڑ راجستان سے میرپور خاص ریل چلانے کا مقصد راجستان میں قحط سالی کے دوران پانی، گندم، سبزیاں، مرچیں اور مال مویشی کا چارہ یہاں سے لیکر جایا جانا تھا اور بعد میں مسافر ٹرین کا اضافہ ہوا، پاکستان بننے کے بعد یہ ریل پاکستان ریلویز کو فروخت کر دی گئی، یوں 129 کلومیٹر 17 اسٹیشن والی عرف عام راجا ریل 2005ع میں بندکر دی گئی، "موھٹا پیلس اور گوردھن داس ھندو جیم خانہ" دونوں عمارات کی تاریخ ہمارے شہر کراچی جو سندھ کا راجدھانی ہے میں واقع کلفٹن میں موجود ہیں، ان میں ایک محل نما عمارت موھاٹا پیلس کی ہے، موھاٹا پیلس بنانے والے تاریخ کے جبر کے نتیجے میں جب جلاوطن ہوا تو اس پیلس کو بھی سکون نصیب نہیں ہوا،


 راء بھادر شورتن چندرا رتن گوردھن داس موھاٹا کی بیوی بیمار رہنے لگی تو ڈاکٹروں اور حکیموں نے مشورہ دیا کہ اس کو صبح شام سمندر کی ہوائوں کی ضرورت ہے، سمندر کی لہریں اس وقت  حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمہ اللہ کے مزار مقدس  اور روپ چند بیلا رام پارک "باغ ابن قاسم" کے ساتھ رتنیشور مھادیو مندر کی دیواروں سے ٹکراتی تھیں۔ ہوائیں کبھی بھی قید نہیں کی جا سکتی، اس لیے سیٹھ شیو رتن نے اپنی بیوی کے لیے یہ محل 1927ع میں تعمیر کروایا جو موھاٹا پیلس کے نام سے اب بھی مشہور ہے۔ موھاٹا پیلس کا نقشہ اس دور کے ایک مشہور آرکیٹیکٹ آغا احمد حسین نے بنایا تھا، آغا احمد حسین ھندو جم خانہ، کراچی چیمبرز آف کامرس، انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن اور دوسرے عمارتوں کے آرکیٹیکٹ رہے ہیں، اس لیے ان عمارات میں آپ کو یکسانیت نظر آئے گی۔ آغااحمد حسین کے ہندو جم خانہ اور موھاٹا پیلس فن تعمیر کے لازوال شاہکار ہیں.شورتن موھاٹا اپنی سخاوت اور سماجی کاموں کے حوالے سے مشہور تھا، آپ کراچی میونسپلٹی کا ممبر رہنے کے ساتھ بہت سی کمیٹیوں اور فلاحی اداروں کے ممبر رہے۔شیورتن موہٹا کراچی چیمبر آف کامرس، انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن، دیپ چند ٹی اوجھا سینٹوریم کےبانی ممبر تھے، موھٹا خاندان کا سندھ کے سیاست اور خصوصی طور پر کراچی کے ترقی میں بڑا ہاتھ رہا-لیکن حکومت پاکستان نے ان سے ان کا یہ پسندیدہ محل بذریعہ جبر لے لیا تو وہ بد دل ہو کر پاکستان چھوڑ گئے 

ڈالر منگواو ورنہ مار کھاو اور جیل جاؤ پارٹ2


 


’کام سیکھو ورنہ ہمارا خرچہ واپس دو‘دوسری جانب احمد علی بتاتے ہیں کہ کمبوڈیا میں ’جاب‘ پر پہنچ کر اُنھیں اس وقت انتہائی حیرت ہوئی جب انھیں آٹھ موبائل فون اور آٹھ سم کارڈ دیے گئے۔ ’مجھے نمبروں کی فہرست دے کر کہا گیا کہ اِن نمبرز پر کال کر کے کسی بھی طریقے سے ان کے کریڈٹ کارڈز اور بینک اکاوئنٹ کی تفصیلات اور پاسورڈز حاصل کرنے ہیں۔‘میں نے آئندہ چند روز میں کئی کالیں کیں مگر کوئی بھی شکار نہ پھنسا تو وہ مجھ پر بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ ایسے نہیں چلے گا۔‘وہاں موجود افراد نے احمد کو متنبہ کیا کہ وہ جلد ہی یہ کام سیکھ لیں ورنہ اُن پر جو ’اخراجات‘ ہوئے ہیں وہ انھیں واپس کرنے ہوں گے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے چند روز مزید کوشش کی مگر دھوکا دہی کا کام نہیں سیکھ سکے جس کے بعد انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔آن لائن کمائی اور سرمایہ کاری کا جھانسہ: پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان فراڈ کا شکار کیسے ہو رہے ہیں؟

آواز کی نقل کے ذریعے آن لائن فراڈ کیسے ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟دھوکا دینے پر کمیشن ملتا تھا‘انھوں نے بتایا کہ وہاں لائے گئے کئی افراد دھوکا دہی کے اس کام میں ماہر ہو چکے تھے۔ ’اُن کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ اُن میں مختلف ممالک کے لوگ تھے۔‘ان کے مطابق ’کال سینٹر‘ میں کام کرنے والوں کو کوئی باقاعدہ تنخواہ وغیرہ نہیں ملتی تھی بلکہ کمیشن ملتا تھا۔ ’ایک ہزار ڈالر پر دس فیصد کمیشن ملتا تھا۔ جو اُن کو کمائی کر دیتا وہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے اور اس کو کھانا پینا بھی بہتر دیا جاتا تھا۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’وہاں روزانہ بریفنگ ہوتی تھی اور بتایا جاتا کہ اب وہ کس ملک کے لوگوں کو کال کریں گے اور کس بینک یا کاروباری ادارے کے نمائندے بنیں گے۔‘وہ بتاتے ہیں کہ عموماً کم پڑھے لکھے اور بڑی عمر کے افراد زیادہ آسانی سے ان کی جانب سے کیے گئے فراڈ کا شکار بن جاتے تھے جبکہ کئی لوگ انعامات کے لالچ میں بھی پھنس جاتے تھے۔


علی کے مطابق عموما کم پڑھے لکھے اور  بڑی عمر کے افراد زیادہ آسانی سے ان فراڈز کا شکار ہو جاتے,اختر علی کے مطابق عموما کم پڑھے لکھے اور بڑی عمر کے افراد زیادہ آسانی سے ان فراڈز کا شکار ہو جاتے تھےیہ سب کام کیسے ہوتا تھا؟اختر علی کے مطابق کال سینٹر سے کی جانے والی کالیں خودکار نظام کے تحت ریکارڈ ہو رہی ہوتی تھیں۔’جیسے ہے کوئی شخص فریب میں آ کر اپنے کریڈٹ کارڈ، بینک اکاؤئنٹ یا دیگر معلومات فراہم کرتا تو چند ہی منٹوں میں اس کا اکاؤنٹ، کریڈٹ کارڈ خالی کر دیا جاتا۔‘نصیب ساجد کا کہنا ہے وہاں کام کرنے والے کچھ لوگ تجربے کی بنیاد پر اتنے ماہر ہوگئے تھے کہ وہ شکار کی آواز سُن کر بتا دیتے تھے کہ یہ شخص پھنسے گا یا نہیں۔جس کے بارے میں انھیں اندازہ ہو جاتا کہ یہ نہیں پھنسے گا تو اس پر وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔‘رہائی کیسے ممکن ہوئی؟اختر علی بتاتے ہیں کہ کال سینٹر والوں نے انھیں بعدازاں بتایا کہ انھیں ایجنٹ سے دو ہزار ڈالرز میں خریدا تھا۔


ایک روز انھوں نے بتایا کہ اب تک تم پر پانچ ہزار ڈالر خرچ ہو چکے ہیں، لہذا یہ رقم واپس کرو۔ وہ مجھے اور دیگر کچھ اور افراد کو جو کام نہیں سیکھ پا رہے تھے، سونے نہیں دیتے تھے اور تشدد بھی کرتے تھے۔‘علی نے بتایا کہ وہ لوگ انھیں فون دیتے اور گھر والوں کو کال ملانے کا کہتے۔ ’جب ہم فون کرتے تو وہ ہمیں کرنٹ لگاتے اور گھر والوں سے کہتے کہ جلدی پیسے بھجوائیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر والے پریشان ہو کر وہ پیسے بھجواتے مگر وہاں موجود افراد یہ کہہ کر مزید رقم کا مطالبہ کرتے کہ ہمارے کھانے پینے اور دیگر چیزوں پر ہونے والے اخراجات بڑھ چکے ہیں۔نصیب ساجد کہتے ہیں کہ ناکام ہونے پر انھیں بھی تشدد کا بنایا گیا۔اس ہی دوران وہاں پہلے سے موجود ایک لڑکا اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ واپس پاکستان چلا گیا تھا۔ اُن کی کینیڈا میں موجود ایک پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر رضوان خالد چوہدری نے مدد کی تھی۔ اس نے جاتے جاتے پروفیسر کا رابطہ نمبر ہمیں دے دیا تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ نمبر اپنے گھر والوں کو دیا اور انھوں نے پروفسیر 
ڈاکٹر رضوان کے ذریعے کمبوڈیا کی پولیس سے رابطہ قائم کیا۔ساجد کے مطابق پہلے انھیں گرفتار کر کے جیل میں رکھا گیا اور پھر پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔جیسے ہے کوئی شخص اپنے کریڈٹ کارڈ، بینک اکاوئنٹ اور دیگر معلومات فراہم کرتا تو چند ہی منٹوں میں اس کا اکاونٹ، کریڈٹ کارڈ خالی کر دیا جاتا۔


لڑکیاں بھی  مجرموں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں‘پروفیسر ڈاکٹر رضوان یونیورسٹی آف واٹر لو میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔اُن کا کمبوڈیا میں انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کر سائبر فراڈ کے مراکز میں پھنسے والے افراد سے رابطہ اپنے ایک شاگرد کی توسط سے ہوا جس کا بڑا بھائی اس گروپ کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ کچھ سال قبل اپنے شاگرد کے بھائی کو چھڑانے کے لیے انھیں بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب تک پچاس کے قریب لوگوں کو اس گروہ کے چنگل سے چھڑا چکے ہیں۔ ان کے مطابق زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہے مگر اس میں انڈین اور دیگر ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں کہ ان کی اطلاعات کے مطابق اس وقت بھی سینکڑوں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جن میں کچھ لڑکیاں بھی شامل ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ یہ گروہ ملازمت اور کام کے بہانے لوگوں کو بلا  لیتے ہیں۔ ’جو سائبر فراڈ کر سکتا ہے وہ اسے رکھ لیتے ہیں  جو یہ فراڈ کام نہیں کر سکتا ہے اسے کھانا بھی بہت کم ملتا ہے اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے 

بدھ، 26 فروری، 2025

ڈالر منگواؤ ورنہ مار کھاؤاور جیل جاؤ-پارٹ 1

 

ابھی تک تو پاکستانی قوم سمندر کی ڈنکیوں کو رو  رہی تھی کہ اچانک کمبوڈیا اسکینڈل سامنے آ گیا -کیسے ارمان سجا کر پاکستانی نوجوان دیار غیر جاتے ہیں اور وہاں جا کر معلو ہوتا ہے کہ وہ اغوا ہو چکے -بی بی سی کی رپورٹ حرف بہ حرف پڑھئے’جب میں پاکستان میں تھا تو بتایا گیا تھا کہ کمبوڈیا میں ڈیٹا انٹری کا کام ہے۔ مگر جب وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ کال سینٹر کا کام ہے اور کچھ ہی دنوں میں یہ بتایا گیا کہ لوگوں کو دھوکا دینا ہے۔ اگر کام سیکھ لیا اور ماہانہ ایک ہزار ڈالر کما کر دو گے تو اس پر دس فیصد کمیشن ملے گا۔ جب میں یہ کام نہیں سیکھ سکا تو انھوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہم نے تمھیں ایجنٹ سے خریدا ہے، وہ پیسے واپس کرو۔‘یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے رہائشی نصیب ساجد کا جنھیں گذشتہ سال کے آواخر میں جنوب مشرقی ایشیا کے ملک کمبوڈیا سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔لیکن ساجد واحد پاکستانی نہیں جو اس طرح کی دھوکہ دہی کا شکار ہو کر کمبوڈیا میں پھنس گئے تھے۔اتوار (23 فروری) کے روز تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی پولیس نے ایک مشترکہ کارروائی میں کمبوڈیا کے ایک سرحدی قصبے میں سائبر فراڈ کے ایک مرکز سے 215 غیر ملکیوں کو بازیاب کروایا ہے


خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بازیاب ہونے والوں میں 50 پاکستانی، 48 انڈین اور 109 تھائی شہری شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائبر فراڈ کے یہ مراکز کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں۔قوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جرائم پیشہ گروہ دنیا بھر سے لاکھوں افراد کو سمگل کر کے انھیں جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں قائم فراڈ کے مراکز اور غیر قانونی آن لائن آپریشنز میں کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی 2023 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان غیر قانونی آپریشنز میں ہر سال اربوں ڈالر کا سائبر فراڈ ہوتا ہے اور لوگوں کو ان کی جمع پونجی سے محروم کیا جاتا ہے۔فیصل آباد کے رہائشی احمد علی کی کہانی بھی ساجد سے ملتی جلتی ہے جنھیں بیرون ملک نوکری کا جھانسہ دے کر کمبوڈیا پہنچایا گیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ کمبوڈیا پہنچے تو انھیں کہا گیا کہ یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے لوگوں کے بینک اکاؤئنٹس اور کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات حاصل کرنی ہیں۔ اُن کے مطابق اس سینٹر میں موجود بہت سے لوگ ایسا کرنے میں یعنی 


لوگوں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے مگر اُن سے یہ کام نہیں ہو سکا۔احمد علی بھی گذشتہ سال کے آخر میں کمبوڈیا سے ڈی پورٹ ہو کر واپس پہنچے ہیں۔ احمد علی اور نصیب ساجد کی واپسی کے لیے اُن کے اہلخانہ کو بہت کوششیں کرنی پڑی تھیں۔’ایجنٹ نے کمبوڈیا بھجوانے کے تین لاکھ روپے لیے‘اتوار کے روز تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی پولیس نے کمبوڈیا کے ایک سرحدی قصبے میں سائبر فراڈ کے مراکز کے خلاف ایک مشترکہ آپریشن میں 215 غیر ملکیوں کو بازیاب کروایا ہے۔، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی پولیس نے مشترکہ کارروائی میں 215 غیر ملکیوں کو سائبر فراڈ سینٹر سے بازیاب کروایا گیا ہے جس میں 50 پاکستانی ہیں نصیب ساجد بتاتے ہیں کہ اُن سے پہلے بھی ان کے علاقے کے کافی افراد ایک ایجنٹ کے ذریعے کمبوڈیا جا چکے تھے۔انھوں نے بتایا کہ مذکورہ ایجنٹ سرکاری سکول میں استاد ہیں اور لوگ اُن پر کافی اعتماد بھی کرتے ہیں۔’مجھے پاکستان میں روزگار نہیں مل رہا تھا اور جب سُنا کہ کمبوڈیا میں کال سینٹر اور ڈیٹا انٹری کی ملازمتیں دستیاب ہیں تو میں نے اُن سے رابطہ کیا اور تین لاکھ روپے میں ہمارا معاملہ طے ہوا۔

 انھوں نے مجھے کمبوڈیا کا ویزہ لگوا کر دینا تھا جبکہ ٹکٹ وغیرہ کا بندوبست مجھے خود کرنا تھا۔‘اُن کے مطابق وہ ستمبر کے مہینے میں کمبوڈیا پہنچے۔ ’کمبوڈیا میں مجھ سے یہ کہ کر پاسپورٹ لے لیا گیا کہ اس پر ایک ماہ کا سیاحتی ویزہ لگا ہوا ہے جسے مستقل ویزہ میں تبدیل کروانا ہے۔‘ساجد نے بتایا کہ وہ لوگ انھیں دارالحکومت نوم پنہ کے نواحی علاقے لے گئے جہاں بڑی بڑی عمارتیں موجود تھیں۔اُن کے مطابق جس عمارت کے کمرے میں انھیں رکھا گیا وہاں پہلے سے چار پاکستانی موجود تھے جبکہ عمارت کے دیگر کمروں میں بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس علاوہ وہاں انڈیا، بنگلہ دیش، افغانستان، تھائی لینڈ، میانمار اور دیگر ممالک کے شہری بھی موجود تھے۔اُن کا کہنا ہے کہ وہاں پہنچ کر انھوں نے محسوس کیا کہ ایک خوف کا عالم تھا۔

ساجد بتاتے ہیں کہ ’پہلے سے موجود پاکستانی کسی کے ساتھ بات نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ میرے کمرے میں موجود پاکستانیوں نے بھی بات نہیں کی، مجھے صرف یہی کہا گیا کہ کچھ دن یہاں رہو تو سب خود ہی معلوم ہو جائے گا۔‘’کام سیکھو ورنہ ہمارا خرچہ دو‘دوسری جانب احمد علی بتاتے ہیں کہ کمبوڈیا میں ’جاب‘ پر پہنچ کر اُنھیں اس وقت انتہائی حیرت ہوئی جب انھیں آٹھ موبائل فون اور آٹھ سم کارڈ دیے گئے۔ ’مجھے نمبروں کی فہرست دے کر کہا گیا کہ اِن نمبرز پر کال کر کے کسی بھی طریقے سے ان کے کریڈٹ کارڈز اور بینک اکاوئنٹ کی تفصیلات اور پاسورڈز حاصل کرنے ہیں۔‘’میں نے آئندہ چند روز میں کئی کالیں کیں مگر کوئی بھی شکار نہ پھنسا تو وہ مجھ پر بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ ایسے نہیں چلے گا۔‘وہاں موجود افراد نے احمد کو متنبہ کیا کہ وہ جلد ہی یہ کام سیکھ لیں ورنہ اُن پر جو ’اخراجات‘ ہوئے ہیں وہ انھیں واپس کرنے ہوں گے۔

منگل، 25 فروری، 2025

الجزائر کا اسلامی تشخص

  رقبے کے اعتبار سے بحیرہ روم پر واقع الجزائر کا رقبہ  48   صوبے   پر  مشتمل ہے   جس میں 553 اضلاع اور 1٫541 بلدیات ہیں۔ ہر صوبےمیں  ضلع اور بلدیہ کا نام عموماً اس کے سب سے بڑے شہر پر رکھا جاتا ہے آئین کے مطابق ہر صوبے کو کسی حد تک معاشی آزادی حاصل ہوتی ہے- عرب دنیا اور افریقی براعظم میں سوڈان کے بعد سب سے بڑا ملک ہے۔ الجزائر کے شمال مشرق میں تیونس، مغرب میں مراکش، جنوب مغرب میں مغربی صحارا، موریتانیا اور مالی ہیں۔ جنوب مشرق میں نائجر جبکہ شمال میں بحیرہ روم واقع ہیں۔ اس کا رقبہ تقریباً 24 لاکھ مربع میل جبکہ آبادی 3 کروڑ 57 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔الجزائر میں 48 صوبے، 553 اضلاع اور 1٫541 بلدیات ہیں۔ ہر صوبے، ضلع اور بلدیہ کا نام عموماً اس کے سب سے بڑے شہر پر رکھا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق ہر صوبے کو کسی حد تک معاشی آزادی حاصل ہوتی ہے۔الجزائر کے دار الحکومت کا نام بھی الجزائر ہے علماء کی کوششوں کی بنا پر اسلام کی ازسرنو بحالی کی جزوی جدوجہد جاری تھی جنھوں نے 1930ء سے قرآنی اسکول کھولے اور 1927ء میں برسلز میں منعقد ہونے والی کانگریس میں میسالی ہا دجی نے آزا دی کا مطالبہ کیا۔


الجیریا نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران کافی سخت سال گزارے کیونکہ اسے اپنے غذائی ذخائر کا کثیر حصہ یورپ بھیجنا پڑتا تھا۔  یہاں کئی قدرتی بندرگاہیں بھی موجود ہیں۔ ساحل سے لے کر اطلس التلی تک کا علاقہ زرخیز ہے۔ اطلس التلی کے بعد کا علاقہ گھاس کے وسیع و عریض میدانوں پر مشتمل ہے جو کوہ اطلس کے مشرقی حصے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے بعد صحرائے اعظم کا علاقہ ہے۔ ہوگر کے پہاڑ دراصل وسطی صحارا کے بلند علاقے ہیں جو دار الحکومت سے 1٫500 کلومیٹر جنوب میں ہیں۔الجزائر، وہران، قسطنطین، تیزی وزو اور عنابہ بڑے شہر ہیں۔  الجیریا کی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایوانِ زیریں کو نیشنل پیپلز اسمبلی کہتے ہیں جس کے 380 اراکین ہوتے ہیں۔ ایوانِ بالا جسے کونسل آف نیشن کہتے ہیں کے 144 اراکین ہوتے ہیں۔ ایوانِ زیریں کے لیے ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔1976 کے آئین کے مطابق ملک میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں بنائی جا سکتی ہیں تاہم ان کی منظوری وزیرِ داخلہ سے ضروری ہوتی ہے۔ اس وقت ملک میں 40 سے زیادہ سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔


 آئین کے مطابق مذہب، زبان، نسل، جنس یا علاقائی بنیادوں پر سیاسی جماعت بنانا ممنوع ہے۔الجیریا کی فوج بری، بحری، ہوائی اور علاقائی ائیر ڈیفنس فوجوں پر مشتمل ہے۔ فوج کا سربراہ ملک کا صدر ہوتا ہے جس کے پاس ملکی وزیرِ دفاع کا عہدہ بھی ہوتا ہے۔کل فوجیوں کی تعداد 1٫47٫000 ہے۔  19 سے 30 سال تک کی عمر کے نوجوان مردوں کے لیے فوجی خدمات لازمی ہیں جو ڈیڑھ سال پر محیط ہوتی ہیں۔ اس میں چھ ماہ تربیت اور ایک سال شہری منصوبوں پر کام کرنا شامل ہے۔  الجزائر کے شہر   جد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔یہ مسجد 18ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی اور اس کا نام صوفی بزرگ محمد بن علی کے نام پر رکھا گیا ہے، جو اس جگہ دفن ہیں۔ یہ ایک متاثر کن ڈھانچہ ہے، جس میں ایک بڑا مرکزی گنبد اور اس کے چاروں طرف چار چھوٹے گنبد ہیں۔ مسجد کو پیچیدہ نمونوں اور ڈیزائنوں سے سجایا گیا ہے، اور اس کا ایک بڑا صحن ہے جس میں 5,000 نمازیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔سیدی ابو مدین مسجد ( عربی: مسجد شعيب أبو مدين ) یا عبادت گزاروں کی مسجد ( عربی: مسجد العباد ) ت


لمسن، الجزائر کا ایک تاریخی اسلامی مذہبی کمپلیکس ہے ، جو بااثر صوفی بزرگ ابو مدین کے لیے وقف ہے۔ ابو مدین سیویل سے تعلق رکھنے والا تھا اور اس نے المغرب کے خطے میں تصوف کے پھیلاؤ میں بہت تعاون کیا تھا۔اس کمپلیکس میں مسجد ،مدرسہ اور ترکی حمام سمیت متعدد دینی عمارتیں ہیں۔ اس مسجد کی بنیاد مراکش کے مرین شاہی حکمرانوں نے 1339 میں رکھی تھی اور یہ کمپلیکس سیدی الحلاوی مسجد سے مشابہت رکھتا ہے جو اس کی شکل میں 1335 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ مدرسہ کی بنیاد مسجد کے آٹھ سال بعد رکھی گئی تھی ، جہاں ابن خلدون نے ایک بار پڑھایا تھا۔   دارالسلطان محل بھی اسی کمپلیکس کے نچلے حصے میں قائم ہوا تھا ، جہاں سلطان مسجد کے دورے کے دوران ٹھہرے تھے۔ فن تعمیراس مسجد میں مرکزی دروازہ ہے جو کئی دیگر موری فن تعمیروں سے ملتا ہے جیسے قرطبہ سے قیروان ۔ دروازہ پینٹنگز کی گیلری کی طرف بھی جاتا ہے۔ گنبد کے سب سے اوپر مقرنہ موجود ہے۔ یہ ان سیڑھیوں تک جاری رہتی ہے جو پیرٹا ڈیل سول ، ٹولیڈو سے ملتے جلتے ہیں۔ لکڑی کے دروازے پیتل کے ساتھ سجے ہیں اور وہ درمیان میں فاؤنٹین کے ساتھ شاہ کی طرف جاتا ہے اور اس کے چاروں طرف راہداریوں اور نماز ہال سے گھرا ہوا ہے۔


، الجزائر مغربی الجزائر کا ایک شہر ہے جو    صوبہ میں واقع ہے۔ یہ صوبے کا دارالحکومت اور خطے کا سب سے بڑا شہر ہے۔  اپنی بھرپور تاریخ اور ثقافتی ورثے کے لیے جانا جاتا ہے، اور یہ متعدد تاریخی مقامات اور ثقافتی پرکشش مقامات کا گھر ہے۔ میں سب سے زیادہ قابل ذکر نشانیوں میں سے ایک    عظیم مسجد ہے، جسے   کی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑی اور آرائش سے مزین مسجد ہے جو 12ویں صدی میں بنائی گئی تھی اور اسے شمالی افریقہ میں الموحد فن تعمیر کی بہترین مثالوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔  کے دیگر قابل ذکر نشانات میں  ، جو کبھی مقامی حکمرانوں کی نشست ہوا کرتا تھا، اور      ، جس میں اس خطے کی تاریخ اور ثقافت کی نمائشیں شامل ہیں۔   متعدد روایتی بازاروں کا گھر بھی ہے، جہاں زائرین مقامی دستکاری اور دیگر تحائف خرید سکتے ہیں۔یہ شہر پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک زرخیز وادی میں واقع ہے، اور یہ اپنی معتدل آب و ہوا اور خوبصورت قدرتی ماحول کے لیے جانا جاتا ہے۔   الجزائر کی تاریخ اور ثقافت کو تلاش کرنے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک مقبول سیاحتی مقام ہے۔

پیر، 24 فروری، 2025

کراچی کی سڑکوں پر کھلی ٹریفک گردی

 گزشتہ چند ہفتوں سے کراچی میں ٹریفک حادثات کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں جہاں بہت سے افراد تیز رفتار ڈمپر، ٹرک اور واٹر ٹینکر کی زد میں آئے ہیں۔ ایسے میں عوام میں غم و غصہ پایا جانا حیران کُن نہیں ہے کہ جس کا اظہار انہوں نے کچھ ہیوی ٹریفک کو نذرِ آتش کرکے کیا- گورنر سندھ نے ڈمپر حادثات کو کراچی میں ’ٹریفک گردی‘ سے تعبیر کیاکراچی: گورنر سندھ نے ڈمپر حادثات کو کراچی میں ’ٹریفک گردی‘ سے تعبیر کیا ہے، انھوں نے وزیر بلدیات سعید غنی کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’انھوں نے میری ڈمپر والی بات پر مضحکہ خیز بیان دیا، سعید غنی بتائیں ان 70 لوگوں کے گھر والوں کو کیا جواب دوں؟‘‘بدھ کو کراچی میں نجی انرجی کمپنی اور سرسید یونیورسٹی کے درمیان معاہدے کی تقریب میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا کہ پچھلے دو مہینوں میں ڈمپر سے لوگ مر رہے ہیں، افغانستان سے لائے گئے ڈمپرز بھی شہر میں چل رہے ہیں، لیکن سعید غنی بجائے ان ڈمپر والوں کو پکڑنے کے میرے بیان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔انھوں نے کہا کسی بھی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جتنی تیزی آفاق احمد کی گرفتاری میں دکھائی گئی ہے اتنی ہی دیگر چیزوں میں بھی دکھائیں۔ کامران ٹیسوری نے کہا سعید غنی کے بیان پر مجھے افسوس ہوا، وہ مجھ پر بعد میں کر لیں تنقید، یہ بتائیں کہ عدالتی احکامات کے باوجود بھی کارروائی کیوں نہیں ہو رہی؟


سڑکوں کے لیے ملنے والے 15 ارب کے فنڈ کے استعمال سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ فاروق ستار کی تجویزگورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا ’’پہلے کراچی میں دہشت گردی تھی اب ٹریفک گردی ہے، قاتل ڈمپر قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، دن میں کوئی ڈمپر نہیں چلنا چاہیے، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، سعید غنی ڈمپر والوں کی گرفتاری میں بھی تیزی دکھائیں۔ ناظم آباد میں بشریٰ زیدی کے حادثے سے لے کر چند ماہ قبل کارساز روڈ پر عمران عارف اور ان کی بیٹی آمنہ عارف کی المناک اموات تک، کراچی میں ٹریفک حادثات کی فہرست بہت طویل ہے۔ جو لوگ ان حادثات میں زندہ بچ گئے، وہ عمر بھر کی معذوری یا ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔ بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے پیش نظر حکومت نے ’روڈ چیکنگ کمیٹی‘ بنائی ہے جو گاڑیوں کی فٹنس کی جانچ پڑتال اور سڑکوں کی مجموعی تحفظ کی صورت حال پر نظر رکھے گی۔ٹریفک مینجمنٹ، شہری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ شہر میں گاڑیوں کی آمد و رفت کو منظم کرنے، مال بردار گاڑیوں کو ریگولیٹ کرنا اور ٹریفک جرائم کے ارتکاب کے خلاف قانونی کارروائی کی ذمہ داری ٹریفک پولیس کی ہے۔ وہ پولیس کی اعلیٰ کمان اور متعلقہ صوبائی ڈپارٹمنٹ کو جوابدہ ہیں۔


عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکار اسنیپ چیکنگ پر لاپروائی برتتے ہیں۔ وہ موٹر سائیکلوں، رکشوں، چھوٹی گاڑیوں، پک اپ گاڑیوں اور ہیوی ٹریفک وغیرہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اپنے اعلیٰ حکام کو مطمئن کرنے کے لیے نامکمل کاغذات پر چالان کردیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز کی گاڑیاں جو عموماً ٹریفک قوانین کو کسی خاطر میں نہیں لاتیں، بےمقصد سائرن کا استعمال کرتی ہیں انہیں ٹریفک پولیس کے اہلکار جانے دیتے ہیں جبکہ ان کم عمر، غیرلائسنس یافتہ مگر امیر خاندانوں کے بچوں کو روکا نہیں جاتا جو تیز رفتاری سے اپنی لگژری گاڑیاں چلا رہے ہوتے ہیں۔کالے شیشے والی گاڑیوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ بنا نمبر پلیٹ کی گاڑیوں کو بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مصروف شاہراہوں پر اکثر گاڑیاں اور موٹر سائیکلز مخالف سمت سے تیز رفتاری سے گزرتی نظر آتی ہیں تیز رفتار گاڑیوں سے ٹکرانے کے بعد قانون کی پاس داری کرنے والے ڈرائیورز کی ایک نہیں چلتی۔ سڑکوں پر کیے جانے والے مباحثوں میں اکثر جیت اس کی ہوتی ہے جس کی آواز زیادہ بلند ہوتی ہے یا جو زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ پل اور اوورپاسز کے نیچے عوامی مقامات رکشہ اسٹینڈز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ایسی گاڑیاں اکثر ٹین ایجرز چلاتے ہیں جو قوانین کا خیال نہیں رکھتے۔اسی اثنا میں میئر کراچی کو حال ہی میں شکایت کرتے دیکھنا مضحکہ خیز تھا۔ میونسپلٹی عوامی مقامات اور مختص شاہراہوں کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ لیکن اہم شاہراہوں کے کناروں پرپیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ ٹوٹی ہوئی ہیں اور ان پر تجاوزات کی بھرمار ہے۔ ایسے میں پیدل چلنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ بچوں اور والدین کو چلتی ہوئی گاڑیوں کے درمیان احتیاط سے اپنا راستہ بنانا پڑتا ہے تاکہ وہ صدر یا دیگر مصروف علاقوں میں واقع اسکولوں تک پہنچ سکیں۔ سڑکوں کو وسعت دینے کے منصوبوں کی وجہ سے گاڑیوں کے راستوں کو تو وسعت ملی ہے لیکن فٹ پاتھ تنگ ہوگئی ہیں۔


بی آر ٹی ریڈ لائن پروجیکٹ کی تعمیر نے کئی مقامات پر راہ گیروں کے لیے مختص راستے تباہ کیے ہیں۔ چند علاقوں جیسے ڈی ایچ اے میں تو سڑک کنارے پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی راستے ہی نہیں بنائے گئے۔ ڈی ایچ اے کو کلفٹن سے جوڑنے والی خیابانِ شاہین اس کی مثال ہے۔ اس کے علاوہ سائیکل سوار اور گاڑیوں کو آمد و رفت کے لیے استعمال نہیں کرنے والے افراد کا سفر کرنا محال ہے۔سڑکوں پر مشتعل رویہ بہت عام ہے۔ لوگ تیز رفتار گاڑیوں کا پیچھا کرتے ہیں، سرِ راہ گاڑیاں روک کر جھگڑے کرتے ہیں، ٹریفک لائٹس کی پروا نہیں کی جاتی، ان ڈرائیورز کو ہراساں کیا جاتا ہے جو اسٹاپ سائن پر ٹریفک قوانین کی پاس داری کرتے ہیں، سڑک پار کرنے والے راہ گیروں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے جبکہ فٹ پاتھ پر پارکنگ جیسے مناظر اس شہر کا معمول ہیں۔موٹر سائیکل سوار بھی کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ زیادہ تر انڈیکیٹر دیے بغیر تیز رفتاری سے لین تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا بہت زیادہ افراد سوار کرکے موٹر سائیکل چلاتے ہیں، ہیلمٹ نہیں پہنتے اور موٹر سائیکل روکے بغیر موبائل فونز استعمال کرتے ہیں۔



مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیورز اور موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ گفتگو کریں تو آشکار ہوگا کہ ان میں سے زیادہ تر کو تو ٹریفک قوانین اور ضوابط کی بنیادی معلومات بھی نہیں۔اب تو سرکاری عمل سے گزر کر ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کو بھی غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جب ٹریفک پولیس اہلکار ایسے لوگوں کو روکتے ہیں تو وہ باخوبی واقف ہوتے ہیں کہ اہلکاروں کے ساتھ معاملات کیسے طے کرنے ہیں۔ ہیوی ٹریفک کے ڈرائیورز یا لگژری ایس یو وی کے مالکان تیز رفتار ڈرائیونگ پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی گاڑیاں قابو سے باہر ہوجائیں تو سڑکوں پر سنگین زخموں یا اموات کا باعث بنتی ہیں۔ لگژری گاڑیوں کی پشت پر سوار گارڈز ٹریفک قوانین کی پامالی کرنے والے ڈرائیورز کو پوچھ گچھ سے بچا لیتے ہیں۔یہ انتہائی خراب صورت حال ہے جس کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے نام نہاد کمیٹی کا قیام زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوگا۔ اسٹیک ہولڈرز بشمول رہائشیوں، دکانداروں، اپنے بچوں کو اسکول لے جانے والے والدین یا روزانہ سڑکوں پر خوفناک حالات کا سامنا کرنے والے تمام عام شہریوں کو حل تلاش کرنے کے عمل میں حصہ لینا چاہیے۔کراچی کو ’سٹیزن ٹریفک لائزن کمیٹی‘ کی ضرورت ہے جس میں سول سوسائٹی کے اراکین اور ماہرین کو شامل کیا جائے جو ٹریفک چیلنجز کا معائنہ کریں، حل تلاش کریں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ ہم اپنی سڑکوں پر مزید المناک سانحات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

آرٹیکل انٹرنیٹ کی مدد سے لکھا گیا 

اتوار، 23 فروری، 2025

سلسلہ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی مرحوم

 روحانی اسکالر، سلسلہ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی کی نماز جنازہ اور تدفین ہفتے کو مرکزی مراقبہ ہال میں کر دی گئی، نماز جنازہ مرحوم کے صاحب زادے ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی نے پڑھائی ، نماز جنازہ اور تدفین میں عزیزو اقارب خاندان ، سلسلہ عظیمیہ کے ہزاروں اراکین ،مختلف اخبارات کے مالکان ، ایڈیٹرز ، صحافیوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ممتاز شخصیات نے شرکت کی ،مرحوم خواجہ شمس الدین عظیمی کاسوئم عظیمیہ جامع مسجد،سیکٹر 4سی، سرجانی ٹاؤن میں اتوار 23 فروری کو صبح11 بجے سے بعد نماز ظہر تک ہوگا -بین الاقوامی شہرت یافتہ روحانی اسکالر ، سلسلہ عظیمیہ کے سربراہ خواجہ شمس الدین عظیمی انتقال کر گئے ۔خواجہ شمس الدین عظیمی کا انتقال کراچی میں ہوا ۔خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ شمس الدین عظیمی فالج اور ہارٹ اٹیک کے باعث 10 روز زیر علاج رہے ۔انتظامیہ سلسلہ عظیمیہ کے مطابق خواجہ شمس الدین عظیمی 17 اکتوبر 1927 کو سہارنپور، ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے تصوف ، سیرت النبیؐ ،روحانیت ،مراقبہ ، کلر تھراپی کے موضوعات پر کئی مقبول عام کتابیں لکھیں۔سلسلہ عظیمیہ کے زیر اہتمام پاکستان کے چالیس سے زائد شہروں ، برطانیہ ،امریکا ،روس ،مشرق وسطیٰ کے ممالک سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں مراقبہ ہال قائم کئے ۔ آپ کی کتب بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے نصاب میں شامل ہیں ۔خواجہ شمس الدین عظیمی ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور کے بانی، روحانی علاج پر بہت مقبول کالم نگار اور بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے ۔ 


ممتاز عالم دین، دانشور، محقق، مصنف اور سلسلہ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی جمعے کے دن 98 سال کی عمر میں کراچی میں رحلت فرما گئے۔ عظیمی صاحب ایک روایتی بزرگ یا پیر نہیں تھے بلکہ انھوں نے روحانیت کو سائنسی اور جدید انداز میں پیش کر کے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔خواجہ صاحب ماہنامہ ’’روحانی ڈائجسٹ انٹرنیشنل‘‘ اور میگزین ’’قلندر شعور‘‘ کے بانی چیف ایڈیٹر تھے۔اپ کا معروف کالم ’’روحانی ڈاک‘‘ اپنے دور کی ایک تاریخی دستاویز تصور کیا جاتا ہے۔ اس کالم کے ذریعے اپ نے لاکھوں افراد کے سماجی، نفسیاتی اور روحانی مسائل کے حل تجویز کیے۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا اور ان میں روحانیت کے حقیقی مفہوم کو اجاگر کیا۔


عظیمی صاحب نے روحانی تربیت کے لیے مراقبہ ہالز کو ایک ادارے کے طور پر قائم کیا اور اس کے نیٹ ورک کو دنیا بھر میں وسیع تر بنایا۔آپ نے امریکا یورپ متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں منعقد پروگراموں میں شرکت کی اور وہاں کے لوگوں کو روحانی تعلیمات سے روشناس کرایا، آپ کی تقریریں کتابیں اور ورکشاپس عالمی سطح پر ایک وسیع اثر پیدا کرنے کا سبب بنی۔نئی نسل کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے عظیمی صاحب نے پاکستان بھر میں 60 سے زیادہ مراقبہ حال قائم کیے جب کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اسی طرح کے 26 مراکز قائم کیے گئے جن میں 13 مراکز یورپی ممالک میں اور چار امریکا میں ہیں۔ ان کے علاوہ کینیڈا، متحدہ عرب امارات، بحرین، تھائی لینڈ، روس ڈنمارک، ہالینڈ اور ناروے میں بھی روحانی مراکز قائم کیے۔-پاکستان جیسے   ملک میں جہاں پیری مریدی  کا کاروبا اپنے عروج پر ہے وہیں خواجہ شمس ادین عظیمی کے روحانی مر کز میں آ نے والوں سے  ان کا مسلک نہیں  پوچھا جاتا تھا بلکہ قران کریم سے یا رنگ و روشنی کے زریعے انسانیت کی  بھلائ تقسیم کی جاتی تھی اور یہ یہ بھلا ئ اب ان کے پیشرو تقسیم کرتے  رہیں گے


عظیمی صاحب نے روحانی علوم پر کتب ہی نہیں لکھی بلکہ انھیں ایک مکمل نصاب کی شکل دی۔عظیمی صاحب نے تعلیمی میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اپ نے عظیمی پبلک اسکول قائم کیا جو کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں کم آمدنی والے خاندان کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ان کی کتابیں جن میں ’’احسان و تصوف‘‘ اور ’’ایک سو ایک اولیاء اﷲ خواتین‘‘ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ روحانیت ایک ایسی حقیقت ہے جو انسان کی فلاح کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا پیشتر حصہ روحانی علوم کی تدریس تحقیق اور اس کے فروغ کے لیے واقف رکھا۔نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کے لیے آپ کا کتابچہ ’’روحانی نماز‘‘ اور روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے آپ کی کتابیں ’’روحانی علاج‘‘ اور ’’رنگ و روشنی سے علاج‘‘ یعنی Colour Therapy منفرد حیثیت کی مالک ہیں۔ عظیمی صاحب پر کولمبو انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اسکالر نے پی ایچ ڈی بھی کی، اس کے علاوہ دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں آپ پر تحقیقی مقالات لکھے جا چکے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر تین جلدوں پر مشتمل ایک شاندار کتاب تصنیف کی۔


ایک تحقیق کے مطابق عظیمی صاحب کی تعلیمات اور تربیت کا اہم مقصد انسان کے طرز فکر کو مثبت بنانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کا طرز فکر مثبت نہ ہوگا، آپ نہ تو زندگی میں سکون حاصل کر سکتے ہیں اور نہ فلاح انسانیت کے لیے کوئی کام دلجمی سے کر سکتے ہیں۔ آپ کی علمی اور روحانی خدمات کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ آپ کی کئی کتابیں مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔آپ کو کئی یونیورسٹیوں نے اعزازی پروفیسر کا درجہ دے رکھا تھا۔آپ کی پوری زندگی ایک مشن کے طور پر دنیا کے سامنے ائی۔اور وہ اپنی  تمام  زندگی خدا کی  مخلوق کی   بلا معاوضہ خدمت کرتے ہوئے  مالک کل کے حضور حاضر ہو گئے 

 


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر