امریکہ بدری کی کہانی کوئ نئ تو نہیں زرا یہ تفصیل بھی ملاحظہ کیجئے-30 ستمبر کو ختم ہونے والے مالی سال میں امریکہ نے 271,484 غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کیا۔ملک بدر کیے گئے لوگوں کی تعداد میں رواں سال میں اضافہ ڈی پورٹیشن پروازوں کو زیادہ تعداد میں چلانے، اور گوئٹے مالا، ہنڈوراس اور ایل سلواڈور کے ملکوں کو واپس بھیجے جانے والے لوگوں کے لیے سفری طریقہ کار کو ہموار کرنے سے ممکن ہوا۔جمعرات کو امریکی سرحدوں پر کام کرنے والے ادارے "یو ایس کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن" نے کہا کہ حکام نے رواں سال نومبر میں میکسیکو سے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے 46,612 لوگوں کو گرفتار کیا۔ غیرقانونی انڈین تارکین وطن کو لے کر ایک امریکی فوجی طیارہ انڈیا کے صوبہ پنجاب کے شہر امرتسر کے گرو رویداس ایئر پورٹ پہنچ گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار میں امریکہ میں مقیم انڈین افراد کی یہ پہلی ملک بدری ہے۔اس سے قبل سیکیورٹی حکام نے بی بی سی کے صحافی رویندر سنگھ رابن کو بتایا کہ انھوں نے آنے والے افراد کی فہرست چیک کی ہے اور اس میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جس پر امریکہ میں کوئی جرم ثابت ہوا ہو۔رویندر سنگھ رابن کے مطابق امرتسر پہنچنے والے کچھ لوگوں کو پولیس کی گاڑیوں میں ان کے گاؤں لے جایا جائے گا۔ باقی ریاستوں کے لوگوں کو فلائٹ سے بھیجا جائے گا۔میڈیا کو ایئرپورٹ کے اندر جانے کی اجازت نہیں لیکن صحافی ایئرپورٹ کے باہر ان لوگوں سے بات کر سکیں گے۔اس سے قبل انڈیا کے معروف وکیل اور ایوان بالا کے رُکن کپل سبل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر انڈین وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’مودی جی، ٹرمپ 104 غیر قانونی تارکین وطن کو انڈیا واپس بھیج رہے ہیں۔ بظاہر انھیں انڈیا جانے والے طیارے میں بٹھانے سے پہلے ہتھکڑیاں لگائی گئی ہیں۔
در اصل امریکہ نے منگل کے روز فوجی طیارے ’سی 17‘ کی ایک پرواز کے ذریعے 104 غیر قانونی انڈین تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے بعد انڈیا روانہ کیا تھا۔ اور جب سے وہ وائٹ ہاؤس کے مکین بنے ہیں تب سے اس فیصلے پر پوری شدت کے ساتھ عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔امریکہ میں رہنے والے دنیا بھر کے غیر قانونی تارکین وطن کو کمرشل اور فوجی طیاروں کے ذریعے اُن کے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔ امریکی ایئرفورس کا طیارہ سی 17 جنگی سازوسامان اور فوجیوں کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتا ہےتاہم امریکہ میں غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے لیے فوجی طیاروں کا استعمال غیر معمولی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کی فلائیٹ عام کمرشل پرواز کی نسبت بہت مہنگی پڑتی ہے۔یاد رہے کہ حال ہی میں کولمبیا اور میکسیکو نے اپنے اپنے غیر قانونی تارکین وطن کو لانے والی امریکی فوجی پروازوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا
کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے کہا تھا کہ وہ صرف سویلین طیاروں کے ذریعے آنے والے ہی اپنے شہریوں کو قبول کریں گے۔لیکن امریکہ کی جانب سے ’سی 17‘ فوجی طیارے کے ذریعے غیرقانونی انڈین تارکین وطن واپس انڈیا بھیجے جانے کے اعلان کے بعد سے حکومت ہند کی جانب سے اس نوعیت کا کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا۔ماضی میں انڈین حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں کو اُن کی شناخت کے بعد قبول کر لیتے ہیں۔ گذشتہ سال بھی بہت سے غیر قانونی تارکین وطن کو یورپی ممالک سے انڈیا واپس بھیجا گيا تھا رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 18 ہزار غیر قانونی انڈین تارکین وطن کو واپس انڈیا بھیجنے کی نشاندہی کی ہے، اور اب 104 تارکین وطن پر مشتمل پہلی کھیپ امریکہ سے انڈیا کے لیے روانہ کر دی گئی ہے۔
انڈیا میں سوشل میڈیا پر امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ساتھ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پوچھا جا رہا ہے کہ اُن کی ’دوستی میں یہ کیسا مرحلہ آ گیا ہے۔‘بہت سے صارفین انڈین تارکین وطن کو ہتھکڑیوں میں امریکہ بدر کرنے پر بھی غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔عالمی خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ نے اس حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے کہ امریکہ کی جانب سے غیرملکی تارکین وطن کو مہنگے فوجی طیارے پر بھیجنے پر کتنی لاگت آ سکتی ہے۔روئٹرز کے مطابق امریکہ غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے لیے عموماً کمرشل طیارے استعمال کرتا ہے اور یہ طیارے امریکی کسٹمز اینڈ امیگریشن انفورسمنٹ (آئی سی ای) کی نگرانی میں روانہ کیے جاتے ہیں۔امریکہ سے ملک بدری کا عمل برسوں سے جاری ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے اب جبکہ یہی کام بڑے جنگی جہاز کے ذریعے کیا جا رہا ہے تو اس کا نوٹس لیا جا رہا ہے اور اس کے اخراجات بھی زیادہ ہیں۔سی 17 طیارے کی ایک ایسی ہی پرواز کے گواٹیمالا جانے کے متعلق روئٹرز نے تخمینہ لگایا ہے کہ ہر مسافر پر کم از کم 4675 امریکی ڈالر کا خرچ آ رہا ہے جبکہ ایک مسافر طیارے یا کمرشل پرواز میں یہ کام محض 853 ڈالر میں ہو سکتا ہے اور وہ بھی فرسٹ کلاس میں۔روئٹرز کے مطابق امریکی کسٹمز اینڈ امیگریشن انفورسمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ٹائی جانسن نے امریکی قانون سازوں کو ایک سماعت کے دوران بتایا تھا کہ اُن کے ادارے کی نگرانی میں چلنے والی ڈپورٹیشن فلائٹس (فوجی طیاروں پر نہیں بلکہ کمرشل مسافر طیاروں پر) پر فی گھنٹہ 17،000 امریکی ڈالر کا خرچ-امریکہ سے ملک بدری کا عمل برسوں سے جاری ہے ماہرین کا کہنا ہے اب جبکہ یہی کام بڑے جنگی جہاز کے ذریعے کیا جا رہا ہے تو اس کا نوٹس لیا جا رہا ہے اور اس کے اخراجات بھی زیادہ ہیں۔