Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
پیر، 23 دسمبر، 2024
کراچی میں کرائے کے اسلحے سے وارداتیں
ہفتہ، 21 دسمبر، 2024
گنیز ورلڈ ریکارڈ رکھنے والی ٹی ایم مشین -درہ خنجراب
گنیز ورلڈ ریکارڈ رکھنے والی یہ اے ٹی ایم مشین دنیا کی بلند ترین کیش مشین چین اور پاکستان کے درمیان خنجراب پاس سرحد پر واقع ہے-سوست برانچ کے منیجر خنجراب میں بنے اے ٹی ایم کو کیش سے بھرنے کے لیے سخت موسم، دشوار پہاڑی گزرگاہوں اور بار بار لینڈ سلائیڈنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے باقاعدگی سے سرحد تک سفر کرتے ہیں -خنجراب پاس پر بنی دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم جہاں پہنچنے کے لیے بادلوں سے گزرنا پڑتا ہےہم دنیا کی بلند ترین ’کیش مشین‘ (یعنی اے ٹی ایم) کی طرف جا رہے تھے جو پاکستان کے شمالی صوبہ گلگت بلتستان میں چین اور پاکستان کے درمیان خنجراب پاس کی سرحد پر واقع ہے۔ برف سے ڈھکی قراقرم کی چوٹیوں کے درمیان بنی سڑک خنجراب نیشنل پارک سے گزرتی ہے جہاں پاکستان کے قومی جانور مارخور کے علاوہ برفانی چیتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ا س دور دراز اور بلند پہاڑی علاقے کے بیچ میں ایک اے ٹی ایم کیوں لگایا گیا ہے؟2016 میں نیشنل بینک آف پاکستان کی طرف سے تعمیر کی گئی، شمسی توانائی اور ہوا سے چلنے والی اے ٹی ایم مشین اس سرحدی کراسنگ کے اردگرد رہنے والے رہائشیوں، سرحدی فوجیوں اور سیاحوں کے کام آ رہی ہے۔کسی دوسرے اے ٹی ایم کی طرح ہی کام کرتی ہے۔ اسے نقد رقم نکالنے، یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی اور انٹر بینک فنڈ ٹرانسفر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔بے شک اوپر پہنچنے پر آکسیجن کی کمی کا مسلہ ہوتا ہے لیکن اوپر پہنچنے کے بعد علاقہ کی دلداری سب بھول جانے پر مجبور کر دیتی ہے نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کی طرف سے سنہ 2016 میں بنائے گئی، شمسی اور ہوا کی توانائی سے چلنے والی یہ اے ٹی ایم مشین اس سرحدی کراسنگ کے اردگرد کے رہائشیوں اور سرحدی فوجیوں کی محدود تعداد کے کام آ رہی ہے۔ سیاح اس اے ٹی ایم میں جانا ایک اعزاز سمجھتے ہیں، اور یہاں سے رقم نکالنے کی ایسی تصویریں لیتے ہیں جو ’کولڈ ہارڈ کیش‘ کے فقرے کو نئے معنی دیتی ہیں۔
دنیا کی بلند ترین کیش مشین چین اور پاکستان کے درمیان خنجراب پاس سرحد پر واقع ہےجنوبی افریقہ سے آئی ریٹائرڈ پرنسپل عائشہ بیات، جو اپنے شوہر کے ساتھ چھٹیوں پر آئی تھیں نے مزاحیہ انداز میں کہا ’میرا اکاؤنٹ فریز ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’ہم ایک ایسے ملک سے آئے ہیں جہاں ہمارے پاس بھی پہاڑی سلسلے ہیں۔۔۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں خوبصورت نظارے دیکھ رہی ہوں۔‘
بیات کے شوہر فاروق نے کہا ’ایفل ٹاور کی طرح تاریخی نشانیوں کا ہونا ضروری ہے۔ یہ باقی علاقے کو دیکھنے کا بہانہ بن جاتی ہیں۔‘لیکن اس تاریخی نشانی کی تعمیر کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں تھا۔ اور نہ ہی اسے فعال رکھنا آسان ہے۔اس اے ٹی ایم کی نگرانی کرنے والی افسر شاہ بی بی نے بتایا کہ اس منصوبے کی تکمیل میں تقریباً چار ماہ لگے۔ قریب ترین این بی پی بینک سوست میں ہے جو یہاں سے 87 کلومیٹر دور ہے۔سوست برانچ کے منیجر زاہد حسین چوٹی پر بنے اس اے ٹی ایم کو رقم سے بھرنے کے لیے سخت موسم، دشوار پہاڑی گزرگاہوں اور بار بار لینڈ سلائیڈنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے باقاعدگی سے یہاں تک کا سفر کرتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ’اوسطاً 15 دنوں کے اندر یہاں سے تقریباً 40-50 لاکھ روپے نکالے جاتے ہیں۔
‘اس دوران بی بی ریئل ٹائم ڈیٹا مانیٹر کرتی اور سوست برانچ کو فراہم کرتی ہیں۔ انھیں سیٹلائٹ کنیکٹیویٹی، سولر پاور بیک اپ، نقد رقم واپس لینے اور پھنسے کارڈز (پچھلے سال تیز ہواؤں نے اے ٹی ایم کو عارضی طور پر بند کر دیا) سے متعلق ہنگامی صورتحال سے بھی نمٹنا ہے۔بی بی نے بتایا ’زمین پر موجود ایک شخص کو اے ٹی ایم تک پہنچنے اور مرمت کرنے میں تقریباً دو سے ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں۔‘کچھ لوگ ایسے دور دراز مقام پر اے ٹی ایم کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ لیکن حسین کہتے ہیں کہ ’ہم ان لوگوں کو بھول جاتے ہیں جو ہماری سرحدوں کی 24/7 حفاظت کرتے ہیں۔ وہ تعداد میں معمولی ہو سکتے ہیں، لیکن وہ ایک بڑے پارک میں رہتے ہیں اور ان کے پاس اپنے پیاروں اور خاندان والوں کو اپنی تنخواہیں منتقل کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے- برانچ کے منیجر خنجراب میں بنے اے ٹی ایم کو کیش سے بھرنے کے لیے سخت موسم، دشوار پہاڑی گزرگاہوں اور بار بار لینڈ سلائیڈنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے باقاعدگی سے سرحد تک سفر کرتے ہیں -بختاور نے مجھے بتایا ’صرف پچھلے چند گھنٹوں میں، میں نے تین خواتین کو آکسیجن دی ہے۔ کل سات تھیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ چڑھائی پر آنے سے پہلے اگر آپ نے تیل والا یا زیادہ کھانا کھایا ہے تو اس سے آپ کی حالت خراب ہو گی۔انھوں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ سیاحوں کے لیے ایک بڑی پریشانی ان کا کارڈ پھنس جانا ہے، حالانکہ انھوں نے اندازہ لگایا کہ کسی دوسرے اے ٹی ایم کی طرح ایسا یا تو کسی دن بہت بار ہوتا ہے یا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔کارڈ پھنس جائے تو پھر آپ کو یہاں کے شدید موسم میں کم از کم دو گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے یا اگلے دن دوبارہ واپس آنا ہوتا ہے ، بختاور نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا ’اسے دوبارہ حاصل کرنے کا آسان سفر نہیں ہے۔‘تاہم بینک مینیجر زاہد کے لیے یہ خنجراب پاس اے ٹی ایم پر کام کرنے کے شوق کا حصہ ہے۔ اپنے کام کی اہمیت جانتے ہوئے اور اس حوالے سے شدید دباؤ کے باوجود وہ کہتے ہیں ’میں ان شاندار قدرتی مناظر پر بنی ٹیکنالوجی کے پیراڈائم شفٹ کا حصہ بننا اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔‘
جمعہ، 20 دسمبر، 2024
سنو جاناں ! مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے
سنو جاناں
مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے
اور وہ بات تم کو یاد رکھنی ہے '
کہ تم خوابوں میں میرے اس طرح
نہیں آیا کرو
تمھارے یوں چلے آنے سے
ہوتا ہے یہ
کہ خواب میرے ٹوٹ جاتے ہیں
اور نیند آنکھوں سے میری پھر روٹھ جاتی ہے
اور میرے دل کے شوالے میں
وہ پجارن جاگ جاتی ہے
جو تمھارے پیار کے چرنوں کی داسی تھی
پھر پجارن ایک کہانی کہہ سناتی ہے
ہاں گلابی رنگ برساتی کہانی
یاد ہے تم کو؟
وہ افسانہ بھی تم کو یاد تو ہوگا ؟
جسے ہم خود ادھورا چھوڑ کر بچھڑے
اس افسانے کو دہراتے ہوئے
بھیگتی جاتی ہیں آنکھیں خود بخود میری
پھر تم اپنا ہاتھ شانے پر میرے
رکھ کے مجھ سے کہتے ہو
سنو خود کو سمجھا لو
اپنے دل کو بہلا لو
مگر میں کیا بتاوں یہ
مجھے
خود کو سمجھانا نہیں آتا
پجارن کو منانا بھی نہیں آتا
اور پجارن کو منانے میں
میں خود بھی ٹوٹ جاتی ہوں
زائرہ عابدی
زمانہ قدیم کا فقید المثال 'ما ہر ریاضی ' وتعمیرات ''ارشمیدس"
اس کے والد، ایک ماہر فلکیات تھے جن کو فیڈیاس کے نام سے جانا جاتا تھا، اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا خاندان اعلیٰ طبقے میں شمار کیا جاتا تھا، یا ممکنہ طور پر اشرافیہ میں، کیونکہ وہ اسے تعلیم کے لیے اسکندریہ بھیجنے کے متحمل تھے۔ ارشمدیسی کا پہلا موجودہ حوالہ پولی بیئس کے مسودات سے اخذ کیا گیا ہے، ایک یونانی ماہر تعمیرات، فقید المثال معمار اور موجد تھا جسے زمانہ قدیم کا سب سے عظیم ریاضی دان مانا جاتا ہے اور جنہیں اب تک کی انسانی تاریخ کے سب سے بلند رتبہ ماہران ریاضی میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے سر کئی ایجادات کا سہرا رکھا گیا ہے جو آج بھی مستعمل ہیں (جیسے ارشدمیدیس پچی: سکریِو) اور اسے ریاضی اور ریاضی کی طبیعیات کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔انہوں نے یونانی زیر تسلط سسلی کے شہر سیراکیوز (سرقوسہ) میں آنکھ کھولی، اور انہوں نے اپنی ساری زندگی وہیں گزاری بجز کچھ عرصے کے جو انہوں نے تعلیم کی پیاس بجھانے کی خاطر اسکندریہ، مصر میں گزارا۔ سکندریہ میں گزارا گیا وقت ا رشمیدیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہون نے ایسے فلکیاتی آلات ایجاد کیے جو سورج، چاند اور سیاروں کیے مقامات اور حرکات کی شناخت کر سکتے تھے۔ارشمیدیس کی زندگی کے بارے میں تقریباً کچھ معلوم نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ سائراکیز، سسلی میں پیدا ہوئے تھے، جو اس وقت اس خطے کا حصہ تھا جسے میگنا گریشیا ("گریٹر یونان یا یونان عظیم") کہا جاتا تھا، جو کہ جنوبی اٹلی میں یونانی نوآبادیات کے ذریعے آباد کیے گئے علاقوں کے لیے رومی اصطلاح ہے
پولی بیئس نے غالباً ارشمیدیس کی زندگی کے بارے میں معلومات کو حذف کر دیا یا انہیں تحریر کرنا اس قدراہم نہ سمجھا کیونکہ ایک ارشمیدیس کی زندگی پر ایک سوانح عمری پہلے ہی شائع ہو چکی تھی جو اب تاریخ کے دھارے میں کہیں گم ہو گئی ہے۔اس کے والد نے اسے اسکندریہ بھیجا جو اس وقت بطلیما خاندان (۳۲۳ تا ۳۰ قبل مسیح) کے زیر سایہ ایتھنز کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک دانشورانہ مرکز کے طور پر ترقی کر رہا تھا۔ اسکندریہ میں، اس کی دوستی سائرین کے ایراتوسٹینیز اور ساموس کے کونون سے ہوئی، جو شہر کے معروف ترین دانشوران تھے۔ کونن ایک معزز ماہر فلکیات اور ریاضی دان تھا، اور ایراسٹوتھینز اسکندریہ کی لائبریری کا سربراہ اور ایک جامع علوم پر دسترس رکھنے والا معلم تھا جس نے سب سے پہلے زمین کے احاطے کا تخمینہ لگایا۔ ،ہ (جسے اینٹیکیتھرا ڈیوائس بھی کہا جاتا ہے) کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا پہلا اینالاگ کمپیوٹر ہے۔ یہ آلہ، ۱۹۰۱ میں یونانی جزیرے اینٹیکیتھراسے دریافت ہوا، جو دوسری صدی کے اواخر/پہلی صدی قبل مسیح کا ہے اور اسے سورج، چاند اور سیاروں کی پوزیشن کا حساب لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ آلہ بابل اور مصری فلکیاتی اصولوں پر انحصار کرتا تھا لیکن اس میں یونانی حروف تہجی کے حروف استعمال کیے گئے تھے اور اسے یونان میں تیار کیا گیا تھا۔ کرینک کو موڑ کر، کسی نے ایک پوائنٹر کو منتقل کیا، جو چاند کے مرحلے، سیاروں کے مقام کو دکھانے کے لیے جگہ پر کلک کرتا ہے، اور چاند گرہن کا حساب بھی لگا سکتا ہے۔ارشمیدس اس آلے کے موجد کے طور پر صرف ایک امیدوار ہے کیونکہ اس کا انتساب نیسیا کے رہائشی ابرخش (دور حیات ۱۹۰ تا ۱۲۰ قبل مسیح) اور دیگر افراد سے بھی کیا گیا ہے۔ تاہم، ارشمیدس کی اسی طرح کی ایجادات کے بارے میں سیسرو کے ذکر کی تصدیق اسکندریہ کے ریاضی دان پاپس (دور حیات ۲۹۰ تا ۲۵۰ عیسوی) نے بھی کی ہے، جس نے دعویٰ کیا کہ ارشمیدس نے ایسے آلات کی تعمیر اور تیاری کے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی۔
ارشمیدیس نے اپنے پیشرو کو اس قدر تعظیم کی نگاہ سے دیکھا کہ انہوں نے اپنے کام دی میتھڈ (ضوابط اصول ریاضیات کو ان سے منسوب کر دیا۔ارشمیدس کا سکرو (پیچ) ایک سلنڈر (اُسطوانہ) تھا جس میں ایک مڑا ہوا بلیڈ تھا جو اوپر کی طرف گھومتا تھا جب ایک کرینک (چکر دھنی)سے گھمایا جاتا تھا اور یہ طریقہ کار آج بھی مستعمل ہےیہ امر یہاں اس قدر قابل ذکر اور قابل توجہ نہیں ہے کہ آیا کہ وہ واقعی ہی اینٹیکیتھرا ڈیوائس کا خالق تھا یا نہیں، لیکن اس کی حیثیت ارشمیدس اسکرو کے موجد کے طور پر ہمیشہ قائم رہے گی، جو پانی کو نچلی سطح سے اوپر تک کھینچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ جیسا کہ حجم،ارشمیدس کی زندگی سے متعلق بہت سی کہانیوں اور روایات منسوب ہیں، اسی طرح ارشمیدس سکرو کی ایجاد کا محرک بننے والے حالات و واقعات سے بھی ایسی ہی روایات منسوب کی جاتی ہیں، لیکن ایک بات تو مسلم ہے، اور وہ یہ کہ ان سب مفروضہ جات میں جہاز کے نچلے حصے سے پانی کے اخراج کا مسئلہ موجود تھا۔
ان روایات سے سب سے مشہور روایت یونانی مصنف ناکراٹس کے اتھیناؤس کا بیان کردہ ہے، جو بتاتا ہے کہ کس طرح ہئیرو دوم نے ارشمیدس سے اس کے لیے ایک بہت بڑا جہاز ڈیزائن کرنے کی درخواست کی، ایک ایسا جہاز جو کسی جاگتی آنکھ نے نہ دیکھا ہو اور جو کسی فعال کان نے نہ سنا ہو، شاید ایسا جو کہ چشم تخیل میں بھی نہ آسکے۔ جو کہ بطور سوار جہاز، ایک شاہانہ نمونہ کے فرائض انجام دے سکے، اور بیک وقت ضرورت پڑنے پر جنگ میں ایک مضطوط اور توانا عنصر کے طور پر بھی۔ ارشمیدس نے اس وقت تک کی انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم الشان جہاز تیار کیا، اور اس کا نام سیراکوزیا رکھا گیا، اس جہاز میں افروڈائٹ دیوی کے لیے ایک وسیع مندر، باغات، ایک جم، ریاستی کمرے، اور دیگر سہولیات موجود تھیں، ۱۹۰۰ سے زیادہ مسافروں، عملے، اور فوجیوں کے لیے کافی جگہ موجود تھی، اور جنگی میناروں کے ساتھ ساتھ ایک تختے پر بہت عظیم الجثہ منجنیق بھی نسب تھی۔ یہ جہاز ارشمیدس کے منصوبے کے مطابق تیار گیا تھا لیکن پھر اچانک ہی دیکھا گیا کہ جہاز کی اس قدر جسمات اور وزن کی وجہ سے جہاز کی بیرونی سطح سے کثیر مقدار میں پانی کا اخراج ہو رہا تھا۔
ارشمیدس کا سکرو (پیچ) ایک سلنڈر (اُسطوانہ) تھا جس میں ایک مڑا ہوا بلیڈ تھا جو اوپر کی طرف گھومتا تھا جب ایک کرینک (چکر دھنی)سے گھمایا جاتا تھا اور یہ طریقہ کار آج بھی مستعمل ہے ۔ سلنڈر کے ایک سرے کو پانی میں رکھ کر اور کرینک کو موڑ کر پانی کو کھینچ کر جہاز سے خارج کیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ کار آج بھی دنیا بھر میں متعدد حوالوں سے استعمال ہوتا ہے۔ سیراکوزیا نے صرف ایک بار سمندری میدان پر قدم رکھا، اور یہ سفر سیراکیوز سے اسکندریہ تک کا تھا، جہاں اسے بطلیموس سوم یورگیٹیس کو تحفے کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن اس کے بعد اس عظیم الشان اور قوی المرتبت جہاز کا نصیب کیا بنا،یہاں تاریخ ہمیں خاموش دکھائ دیتی ہے کہا جاتا ہے کہ ارشمیدس نے فلکیات کے موضوع پر مختلف النوع تحریرات مسودات تیار کئے، جن کا حوالہ بعد میں آنے والے مصنفین اور محققین نے دیا، لیکن ان میں سے کوئی بھی مسودہ وقت کے گرداب سے بچ نہ سکا سوائے سینڈ ریکنر (حاسب ریت) کے، جس کی مدد سے ارشدمیس نے کائنات کے حجم کا حساب لگایا
پھر ایک نئ ڈنکی نے ڈ بویا
کیا کوئ نوجوان اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے کہ ایک ماں اس کو جنم دینے سے لے کر جوانی حد تک پہنچانے کی منزل آنے تک کتنے مراحل سے گرتی ہے -اور وہ اپنی اس قیمتی جان کا سودا کتنی آسانی سے کر لیتا ہے -ان کو نہیں معلوم ہے کہ سمندر برد ہونے سے بچ جانے والے جب میتوں کی شکل میں واپس آتے ہیں تو زمین کی آ غوش میں سو جاتے ہیں لیکن وہ ماں زندہ لاش بن کے جیتی ہے جس نے اس کو جنم دیا تھا -اس کے اہل خانہ مدتوں اپنے پیارے کا داغ دل میں لئے گم سم رہتے ہیں -یو نان میں پاکستانی سفیر عامر آفتاب قریشی نے کہا ہے کہ کشتی حادثے میں اب بھی درجنوں پاکستانی لاپتا ہیں جن کے بچنے کی امیدیں بہت کم ہیں جب کہ حادثے میں جاں بحق پاکستانیوں کی لاشیں سفارتخانہ اپنے خرچ پر پاکستان بھیجے گا۔یونان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ کشتیوں کو حادثہ ضرورت سے زیادہ افراد سوار ہونے کی وجہ سے پیش آیا، جس کشتی میں پاکستانی سوار تھے اس کے اندر پہلے شگاف پڑا اور پھر ڈوب گئی۔انہوں نے کہا کہ لیبیا سے غیر قانونی طریقے سے جانے والی 5 کشتیوں پر پاکستانی سوار تھے، جس کشتی پر سوار تھے اس کا نہ انجن ٹھیک تھا نہ واکی ٹاکی اور نہ ہی کشتی کا ناخدا کشتی پر تھا جب کہ متاثرہ کشتیوں میں پاکستانی بچے بھی تھے۔ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو خود باہر بھیجا جارہا ہے جو سنگین مسئلہ ہے،
پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ ان کی پاکستانی والدین سے درخواست ہے کہ اپنے بچوں کو ایسے خطرناک سفر پر نہ بھیجیں۔پاکستانی سفیر نے کہا کہ کشتی پر 80 سے زائد پاکستانی سوار تھے، کتنا افسوسناک ہےکہ یہ لوگ نامعلوم جگہ پر ہزاروں فٹ گہرے سمندر میں ڈوب گئے -انہوں نے کہا کہ حادثے میں اب بھی درجنوں پاکستانی لاپتا ہیں، جن میں کم عمر بچے بھی شامل ہیں، جائے حادثہ پر ریسکیو آپریشن جاری ہے تاہم لاپتا افراد کے بچنے کی امیدیں کم ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وزیراعظم کو رپورٹ پیش کرے، جو لوگ اس مکروہ کاروبار میں ملوث ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔خیال رہے کہ چند روز قبل یونان کے جنوبی جزیرے گاوڈوس کے قریب کشتی الٹنے کے بعد لاتعداد تارکین وطن ڈوب کر ہلاک جب کہ کئی لاپتا ہوگئے --
’اپنے کم عمر بیٹے کو اُس کی ضد کے ہاتھوں مجبور ہو کر غیرقانونی راستے سے یورپ بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہمارے علاقے میں کام کرنے والے ایجنٹ گاؤں کے درجنوں لڑکوں کو یونان اور اٹلی بھجوا چکے تھے۔ میرا بیٹا کچے ذہن کا تھا جو اُن کی باتوں میں آ گیا اور ہمیں بار بار یہی کہتا تھا کہ اگر آپ نے مجھے یورپ نہیں بھجوانا تو میں گھر چھوڑ دوں گا۔‘سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم جاوید اقبال اب اپنے اُس فیصلے پر بُری طرح پچھتا رہے ہیں کہ جب 13 سالہ بیٹے کی ’ضد‘ کے ہاتھوں مجبور ہو کر انھوں نے غیرقانونی طریقے سے اسے یورپ بھجوانے کا فیصلہ کیا۔پاکستان کے دفتر خارجہ نے غیرقانونی تارکین وطن کے تین کشتیوں پر سوار ہو کر یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران یونان میں پیش آئے حادثے کے نتیجے میں پانچ پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
اور ان پانچ افراد میں جاوید کے 13 سالہ بیٹے محمد عابد بھی ہیں۔یونان میں موجود سفارتخانے کے حکام کے مطابق فی الحال پانچ ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ 47 پاکستانی شہریوں کو ریسکیو کر لیا گیا جنھیں اب یونان کے حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے۔ حکام کے مطابق اگرچہ اس حادثے کے دوران لاپتہ ہونے والی پاکستانی شہریوں کی اصل تعداد کا تو علم نہیں تاہم یہ درجنوں میں ہو سکتے ہیں۔سعودی عرب سے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے جاوید اقبال نے بتایا کہ وہ صوبہ پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے رہائشی ہیں اور فرنیچر کے کاریگر ہیں۔ جاوید کے چار بچے ہیں جن میں محمد عابد تیسرے نمبر پر تھے۔عابد کے چچا کی جانب سے بی بی سی اُردو کو عابد کا ب فارم اور پاسپورٹ بھی بھیجا گیا جس میں اُن کی تاریخ پیدائش 20 اگست 2011 ہے اور یوں اُن کی عمر محض لگ بھگ 13 سال چار ماہ بنتی ہے۔
حادثے میں 47 پاکستانی شہریوں کو ریسکیو کر لیا گیا تھا جو اب یونان کے ایک حراستی مرکز میں ہیں ہمیں نہیں پتا تھا کہ جسے وہ منزل سمجھ رہا تھا وہ یورپ نہیں بلکہ موت ہے‘جاوید اقبال نے بتایا کہ ’عابد سے بڑا بھائی اور بہن تو سکول جاتے ہیں، لیکن عابد نے سکول جانا چھوڑ دیا تھا اور بس یہی کہتا تھا کہ ملک سے باہر ہی تو جانا ہے تو پڑھ لکھ کر کیا کرنا۔ میں نے اسے کہا کہ میرے پاس سعودی عرب آ جاؤ، لیکن اس کی یہی رٹ تھی کہ اسے یورپ جانا ہے
بدھ، 18 دسمبر، 2024
۔پیر سید نصیر الدین نصیرؒ -ایک خورشید تاباں
مری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہ شوق سے دور ہیں رگ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن وہ کسی طرح وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچے دار پر جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی
غم زندگی سے فرار کیا یہ سکون کیوں یہ قرار کیا
غم زندگی بھی ہے زندگی جو نہیں خوشی تو نہیں سہی
سر طور ہو سر حشر ہو ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
نہ ہو ان پہ جو مرا بس نہیں کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انہیں کا تھا میں انہیں کا ہوں وہ مرے نہیں تو نہیں سہی
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے مری آرزو کا بھرم رہے
تری انجمن میں اگر نہیں تری انجمن کے قریں سہی
ترے واسطے ہے یہ وقف سر رہے تا ابد ترا سنگ در
کوئی سجدہ ریز نہ ہو سکے تو نہ ہو مری ہی جبیں سہی
مری زندگی کا نقیب ہے نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اس کا غم تو نصیب ہے وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے اسے حشر پر نہ اٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی وہ یہیں سہی
اسے دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیرؔ دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو وہ ہزار پردہ نشیں سہی
!BlogThisX پر اشتراک کریںFacebook پر اشتراک کریںPinterest پر اشتراک کریں
خاموش قاتل کاربن مونو آکسائڈ
خاموش قاتل کہلانے والی گیس کاربن مونو آکسائیڈ ایک بے رنگ بے مز ہ گیس ہے جس کو سونگھا یا چکھا نہیں جا سکتا۔ اس کا حملہ دل، دماغ اور پھیپھڑوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ بند جگہ میں جیسے گھر یا گاڑیوں میں کاربن مونو آکسائیڈ کی معمولی مقدار انسانی جانوں کے زیاں کا باعث ہوتی ہے۔یہ ایک زہریلی گیس ہےکاربن مونو آکسائڈ گیس یا سیال پٹرولیم گیس کے نامکمل طور پر جلنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔آپ اس کی بو محسوس نہیں کر سکتے ہیں اس کا رساؤ صحیح سے نہ لگائے گئے، ٹھیک طور سے مرمت نہ کیے گئے یا ناقص دیکھ بھال کیے گئے گیس کے آلات نیز باد کشوں، چمنیوں اور مسدود سوراخوں سے ہو سکتا ہے۔یک الارم آپ کی زندگی بچا سکتا ہے۔
یہ ایک خاموش قاتل ہےکاربن مونو آکسائڈ کو سانس کے ذریعہ اندر لینے سے، چاہے تھوڑی ہی مقدار میں، آپ کے جسم میں آکسیجن کی گردش رک جاتی ہے۔ اگر آپ کو گیس کی بو محسوس ہو یا آپ کو کاربن مونوآکسائڈ کے زہریلے پن کا شبہہ ہو، تو گیس ایمرجنسی سروس کو فوری طور پر کال کریں۔طویل مدت میں، اس کی وجہ سے آپ کی صحت کو سنگین نقصان لاحق ہو سکتا ہے اور یہاں تک کہ آپ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔امریکی ادارے کنزیومر پروڈکٹ سیفٹی کمیشن کا کہنا ہے کہ کاربن مونو آکسائیڈ کی ہلکی مقدار سے سر میں درد، تھکان، سانس لینے میں کمی، متلی، چکر محسوس ہو سکتے ہیں لیکن زیادہ مقدار انسانی جسم میں جانے سے قے، اعصاب کے توازن کا بگڑنا، ہوش کھونا اور موت واقع ہو جانا شامل ہے۔اندرونی کمبشن انجنوں سے چلنے والی مصنوعات اور آلات جیسے پورٹیبل جنریٹر، کاریں، لان کی گھاس کاٹنے والی مشینیں اور پاور واشر وغیر بھی کاربن مونو آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں۔
موٹر گاڑیوں میں کاربن مونو آکسائیڈ اگزاسٹ کے نظام میں لیک کی وجہ سے پیدا ہو سکتے ہیں یا پھر اگر کسی وجہ سے اخراج کا نظام بند ہو جائے تو یہ گاڑی کے اندر آنے لگتے ہیں۔اس سے بچنے کے لیے کیا کریں؟اسی لیے عام طور پر منع کیا جاتا ہے کہ گاڑیوں کا ایئر کنڈیشنر چلا کر اور تمام دروازے بند کر کے نہ سوئیں کیونکہ لیکیج کی صورت میں یہ عمل مہلک ہو سکتا ہے۔عام حالات میں بھی یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ کاربن مونو آکسائیڈ زہر سے بچنے کے لیے آپ کار کے اخراج کے نظام کی سال ں ایک بار ضرور جانچ کرائیں۔ و آن نہ کریں، ہمیشہ دروازے کھول دیں تاکہ تازہ ہوا مل سکے۔اور اگر آپ گاڑی کے پچھلے دروازے (ٹیل گیٹ) کو کھولیں تو کار کی کھڑکیوں اور شیشوں کو بھی کھول دیں تاکہ ہوا باہر نکلتی رہے کیونکہ اگر صرف پچھلا دروازہ کھلا ہو گا تو عین ممکن ہے کہ اگزاسٹ سے نکلنے والی گیس کار کے اندر کھنچی چلی آئے۔
جہاں تک مری کا معاملہ ہے اس میں یہ دیکھا گیا ہے کہ گاڑیاں برف میں اتنی زیادہ پھنسی ہوئی ہیں کہ سائلنسر کا منھ تک بند ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ اس کے علاوہ باہر کی سردی سے بچنے کے لیے گاڑی کے انجن کا آن رکھنا بھی فطری نظر آتا ہے۔ایسے میں کاربن مونو آکسائیڈ کا گاڑی میں پھیل جانا اور گاڑی کے اندر کی فضا کا زہر آلود ہو جانا فطری ہو جاتا ہے۔کملیش سنکھ تاؤ لکھتے ہیں کہ ’مری میں جو ہوا وہ غلطی ہم عام طور پر دہراتے ہیں۔ ٹھنڈ سے بچنے کے لیے کار کے ہیٹر کو آن رکھتے ہیں۔ برف کی تہیں اگزاسٹ کو بند کر دیتی ہیں۔ اگزاسٹ کی گیس کار کے کیبن میں بھر جاتی ہے۔‘’کاربن مونوآکسائیڈ کا زہر میٹھا اور اس کی رفتار دھیمی ہوتی ہے اور اس کے شکار کو پتا بھی نہیں چلتا اور انسان موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔
‘پاکستان میں نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کے انسپکٹر جنرل انعام غنی نے لکھا ہے کہ ’خدا نہ کرے اگر آپ کی کار برف میں پھنس جائے تو اور آپ کا انجن چل رہا ہو تو آپ کھڑکی کو ہلکے سے کھول کر اگزاسٹ سائلنسر پائپ سے برف صاف کر دیں۔‘’برف کی قبر میں دھنس گیا تھا، خوش قسمت تھا بچ گیا‘ جبکہ ڈاکٹر فہیم یونس نے لکھا کہ ’مری ہونے والی اموات ٹھنڈک سے ہوئی ہیں یا کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر سے؟‘انھوں نے مزید لکھا: ’کاربن مونو آکسائیڈ بے رنگ اور مہلک ہے۔ اگر رکی ہوئی کار برف میں دھنس جاتی ہے تو اگزاسٹ (سائلنسر) بند ہونے سے کار میں سوار کی جلد موت واقع ہو سکتی ہے۔‘انھوں نے لکھا ’یہ سب کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر سے مرے ہیں اور اس کی وجہ ہوا کا گزر نا ہونا، انجن کا چلتے رہنا اور سائلنسر کا منھ بند ہونا ہے۔ اگر لوگوں نے صرف ذرا سی کھڑکی کھلی رکھتے تو۔‘پوری دنیا میں برف پڑنے سے پہلے تنبیہ جاری کی جاتی ہے کہ اس علاقے میں موسم کبھی بھی خراب ہو سکتا ہے اس لیے گھر میں رہیں لیکن مری میں الرٹ جاری کرنے میں بہت دیر کر دی گئی۔اس بارے میں ماہر ماحولیات توفیق پاشا معراج نے بی بی سی کی سحر بلوچ کو بتایا کہ برفباری کی صورت میں انتظامیہ کو سب سے پہلے مری جانے والی سڑکیں بند کرنی چاہیے تھیں۔
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...