اتوار، 8 دسمبر، 2024

زار شاہی کے دور حکومت میں انقلاب روس

 

23 فروری1917ء (موجودہ کیلنڈر کے مطابق 7مارچ) کو خواتین کا عالمی دن تھا۔ دار الحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں مرد فیکٹریوں میں اور عورتیں خوراک کا راشن لینے گئی تھیں۔جب خواتین لائنوں میں لگ کر  کئی  گھنٹے انتظار کر چکیں تب ان سے کہا گیا کہ گودام خوراک سے خالی ہو چکے ہیں  مزید انتظار فضول ہو گا اس لئے گھروں کو لوٹ جائے،  ۔ اس کے جواب میں عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا جسے تاریخ میں فروری انقلاب سے یاد کیا جاتا ہے۔خواتین نے اردگرد کی فیکڑیوں کے محنت کشوں کو جمع کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں تقریباً 50ہزار محنت کش ہڑتال پر چلے گئے۔ دو دن بعد تک سینٹ پیٹربرگ کے تمام صنعتی مراکز بند ہو چکے تھے ۔ طلبہ ء،سفید پوش  ورکرز اور استاتذہ تک بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے   ۔27فروری کے بعد دار الحکومت کا بیشتر حصہ محنت کشوں اور سپاہیوں کے قبضے میں تھا جس میں پل، گولہ بارود، ریلوے اسٹیشن، ٹیلی گراف اور پوسٹ آفس شامل تھے۔


 1905ء کے تجربات کی روشنی میں محنت کشوں نے سوویتیں(محنت کشوں کی پنچایتیں) تشکیل دیں تاکہ سماج کے نظام کار پر گرفت مضبوط کی جائے۔مارچ تک طاقت سے محروم زار نکولاس تخت چھوڑ چکا تھا اور رومانوف شاہی خاندان قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔   اب ان کے نعروں میں روٹی اور امن کے ساتھ ساتھ بادشاہت کے خاتمے کا بھی مطالبہ شامل ہو گیا۔ شاہی گارڈز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ اگلے روز ان کی تعداد دو تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ زار نے فوج بلا لی اور اسے امن و امان بحال کرنے کا حکم دیا مگر تربیت یافتہ فوج کا بڑا حصہ جنگ کا ایندھن بن چکا تھا۔ وردی میں ملبوس کچھ ریکروٹ تھے اور کچھ تھکی ہاری فوج جو عوام کی طرح جنگ سے تنگ آ چکی تھی۔ انھیں مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا گیا تو فوجی ہتھیار پھینک کر مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے۔


 پیلس سکوائر میں فوج کے ہتھیار رکھنے سے زاروں کی تین سو سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ آخری زار نکولس دوم کو تاج و تخت چھوڑنا پڑا۔   آمرانہ طرز حکومت، اقتصادی کمزوری، بد عنوانی اور قدیم طرز پر بنی افواج پر عوامی غیظ و غضب بالآخر ایک انقلاب کی صورت میں ڈھل گیاجس کا مرکز مغربی شہر پیٹروگراڈ (جو پہلی جنگ عظیم سے قبل سینٹ پیٹرز برگ کہلاتا تھا) تھا۔ زار کی جگہ روس کی غیر اشتراکی عبوری حکومت نے شہزادہ جورجی لفوف کی زیر قیادت اقتدار سنبھالا۔ جولائی کے فسادات کے بعد لفوف کی جگہ الیگزیندر کیرنسکی نے لے لی۔ عبوری حکومت آزاد خیال اور اشتراکیوں کے درمیان ایک اتحاد تھا، جو سیاسی اصلاحات کے بعد ایک جمہوری طور پر منتخب کی گئی آئینی مجلس (اسمبلی) سامنے لانا چاہتی تھی۔یہ انقلاب بغیر کسی واضح قیادت یا منصوبہ بندی کے وجود میں آیا۔  جب کہ بادشاہ کی بالا دستی ختم ہو چکی تھی مگر ڈوما میں اب بھی ملک کی لبرل پارٹیوں کے اراکین، زمیندار اور امرا بھرے پڑے تھے جنھوں نے ملک میں “عبوری حکومت” کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ عبوری حکومت اس وقت کے تاریخی حقائق کے نتیجے میں بہت سی مشکلات کا شکار تھی۔ عملی طور پر وہ حکومت کسی بھی قسم کی سماجی تبدیلی  نہیں چاہتی  تھی۔روس کی پارلیمنٹ  میں   امراء اورجاگیردار اپنا   غلبہ  اور بالادستی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھے اپریل میں لینن کی فن لینڈ سے واپسی ہوئی، ریلوے اسٹیشن پر روسی انقلاب کی سوشلسٹ خصوصیات پر لینن نے جو تقریر کی وہ پارٹی کے بہت سے لیڈروں کے لیے ایک دھماکا تھی۔ 


اپریلکی 4 تاریخ تھی 1917ءکو مزدوروں اور سپاہیوں کے نمائندگان کی سوویتوں (پنچائتوں) کی کل روس کانفرنس کے دو اجلاسوں میں لینن نے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے اپنا نکتہ نظر واضح کیا، اس میں لینن نے عبوری حکومت کی کوئی حمایت نہ کرتے ہوئے  اسے سرمایہ داروں کی حکومت قرار دیا۔  -25 اکتوبر کو ہماری افواج نے سرما محل کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ شہری ساری رات امن سے سوئے رہے‘ انھیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ ریلوے اسٹیشن‘ ڈاک خانہ‘ تارگھر‘ پیٹروگراڈ‘ ٹیلی فون ایجنسی اور اسٹیٹ بینک‘ سب پر ہمارا قبضہ ہو چکا تھا۔ اسی شام جب ہم سوویتوں کی کانگریس کے افتتاح کا انتظار کر رہے تھے تو لینن اور میں ہال سے ملحقہ ایک کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ کمرہ بالکل خالی تھا‘ ماسوائے کرسیوں کے۔ کسی نے ہمارے لیے فرش پر کمبل بچھا دیا۔ شاید وہ لینن کی بہن تھی جو ہمارے لیے سرہانے لائی تھی۔ ہم ساتھ ساتھ لیٹے ہوئے تھے۔ جسم اور روح تنے ہوئے تاروں کی طرح تھے۔ ہم نے یہ آرام بڑی محنت کے بعد کمایا تھا۔ نیند نہیں آرہی تھی۔ لہٰذا ہم مدھم آواز میں باتیں کرنے لگے۔ شورش ختم کرنے کے خیال سے لینن اب مصالحت کرچکا تھا۔ وہ سرخ محافظوں‘ سپاہیوں اور جہاز رانوں کے ان ملے جلے ناکوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا‘ جو شہر میں ہر جگہ لگے ہوئے تھے ”  لینن کا کہنا تھا ”یہ کیسا حیرت ناک نظارہ ہے۔ محنت کش نے سپاہی کے پہلو بہ پہلو رائفل ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور وہ آگ تاپ رہے ہیں“ وہ اپنے گہرے احساس کو دہرائے جارہا تھا۔


لینن اس وقت دُنیا بھر میں چلنے والی سوشلسٹ تحریکوں سے بہت متاثر تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں ’بین الاقوامی سوشل انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ لینن دراصل کارل مارکس کے پیروکار تھے اور وہ سوشل ازم کو روس سے باہر بھی پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔اس خواب کو پورا کرنے کے لیے سنہ 1919 میں لینن اور کارل مارکس سے انسیت رکھنے والی دیگر شخصیات نے ’کمیونسٹ انٹرنیشل‘ کی بنیاد رکھیاس کے بعد سے اس کے اراکین کمیونسٹس کے نام سے مشہور ہوئے۔ لیکن کمیون ازم کو پوری دنیا تک پھیلانے کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔روفیسر جولین کیسانوا کہتی ہیں کہ ’کمیون ازم کی ترویج کا عمل سنہ 1918، 1919 اور 1920 میں جاری رہا۔ جرمنی، آسٹریا اور ہنگری میں بغاوت ہوئی۔ لیکن بالشویک کہیں اور زیادہ دنوں تک اقتدار میں نہیں رہ سکے۔‘بلا کون ہنگری کے ایک کمیونسٹ سیاستدان تھے جو 1919 میں کچھ عرصے کے لیے اقتدار میں آئے۔روفیسر جولین کہتی ہیں کہ ’لیکن یہ تمام انقلاب خون خرابے کی نذر ہو گئے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ان تمام ممالک میں ایسے بہت سارے مسلح گروہ تھے جو کہ لینن کے گروہ اور نظریات کے مخالف تھے۔ن تمام وجوہات کے سبب لینن کا دنیا بھر میں سوشل ازم پھیلانے کاخواب پورا نہیں ہو سکا لیکن وہ سوویت یونین کی بُنیاد رکھنے میں ضرور کامیاب ہوئے، جو ایک ایسی سُپرپاور بنا جس نے اگلے 70 برسوں میں دُنیا کی بڑی طاقتوں  کا ناک میں دم کئے رکھا  


ہفتہ، 7 دسمبر، 2024

کرشن چندر برصغیر کے مشہور ناول نویس اور افسانہ نگار

  زہین آنکھیں  مسکراتا چہرہ   خوش لباس' اپنی  یاران محفل میں   ایک الگ ہی شناخت  'جی ہاں یہی کرشن چندر ہیں  برصغیر کے ممتاز  ناول اور افسانہ نگار ۔ کرشن چندر   پیدا ئشی  ادیب  تھے -انہوں نے   اپنے ابتدائ  دور میں رومان پرور کہانیاں تخلیق کیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ  جب  انہوں نےاپنے  چاروں جانب سماجی ناہمواری کا مشاہدہ کیا تو ان کے دل کا درد ان کی تحریر وں میں  در آ یا پھر انہوں نے اپنے قلم کو سماجی نشتر کے طور پر استعمال کیا  کرشن چندر کا جنم 23 نومبر 1914 کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ میں ہوا۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے جنہوں نے کرشن چندر کی تعلیم کا خاص خیال رکھا۔ کرشن چندر نے چونکہ تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے کیا تھا اس لئے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے 1929 میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور 1935 میں انگریزی سے ایم اے کی سند حاصل کی۔چونکہ کرشن چندر نے پنجاب اور کشمیر کی آب و ہوا میں ہوش سنبھالا اور اسی دور کی افسانوں   اور ناولوں میں رومانیت کا عنصر زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے اور ان کا قاری رومان کی دنیا کا اسیر ہوجاتا ہے ۔


  اس کے بعد کے دور میں انہوں نے اپنے افسانوں میں اس دور کے معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کی خامیوں، مثلاً بیجا رسم و روایات، مذہبی تعصبات، آمرانہ نظام اور تیزی سے اُبھرتے ہوئے دولت مند طبقہ کے منفی اثرات وغیرہ جیسے موضوعات کو شامل کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آخر میں تحریر کئے گئے ان کے زیادہ تر افسانوں میں زندگی کے اعلیٰ معیار اور اس کے اقدار پر بحث کی گئی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ انہیں پڑھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی کئی تصنیفات، مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘ اور ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ وغیرہ قارئین کے ذہن میں اچھی خاصی جگہ بنا لیتی ہیں اور بار بار پڑھے جانے کے باوجود انہیں دوبارہ پڑھنے کے لئے مجبور کرتی ہیں۔  ان کی خوبصورت زبان قاری کو آغاز میں ہی اپنے   طلسم  میں گھیر  لیتی   ہے اور افسانہ کے آخر تک اس  طلسم سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیتی


 کرشن چندر  نے جب   بالی ووڈ میں  قدم رکھا تو یہاں   بھی اپنی الگ  شناخت  بنائ  اور کافی مقبول ہوئے۔ انہوں نے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے تحریر کئے۔ ’دھرتی کے لال‘،’شرافت ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو فلم ناظرین کے سامنے پیش کیا۔کرشن چندر نے اپنی تحریری صلاحیتوں کو مختلف ذرائع سے لوگوں کے سامنے رکھا اور داد و تحسین حاصل کی۔ کرشن چندر کے  شاہکار  افسانوں میں ’کالو بھنگی‘ کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کہانی میں انہوں نے چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے کالو بھنگی کے ذریعہ پسماندہ طبقات کی پریشان حال زندگی اور ان کے مسائل سے روشناس کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کہانی میں صرف کالو بھنگی کی پریشانیوں اور جدوجہد کو ہی پیش نہیں کیا گیا ہے بلکہ پورے سماج کی پست ذہنیت کو بھی ظاہر کیا گیا ہے اور انہونے یہ سب اتنے بے باک انداز میں  بیان کیا ہے کہ ان کی تحریر دل کی گہرائ  تک اترتی چلی جاتی ہے


 انہوں نے ڈیڑھ درجن سے بھی زائد ناول لکھے ہیں ان ناولوں میں سے ہی ان کی ایک شاہکار تصنیف ہے ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ میں انہوں نے ملک کی سیاست، حکومت اور سرکاری دفاتر کے کردار سے  پورے سماج کو  انتہائی دلچسپ انداز میں روبرو کرایا ہے۔اس مزاحیہ تصنیف کا اہم کردار ایک گدھا ہے جسے کرشن چندر نے ایک محنت کش اور مزدور طبقہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس گدھے کے ذریعہ انہوں نے عام آدمی کی موجودہ صورت حال کو عیاں کرتے ہوئے ملک کے نظام میں پوشیدہ خامیوں کو انتہائی چالاکی اور بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کرشن چندر نے ایک گدھے کا سہارا لے کر اس وقت کے حکمراں اور لیڈران کو کچھ اس انداز میں نشانہ بنایا ہے کہ وہ زخمی تو ہوتے ہیں لیکن مصنف پر کسی طرح کا الزام عائد نہیں کر پاتے۔ان کا یہ مزاحیہ ناول رسالہ ’شمع‘ میں قسط وار شائع ہوا تھا اور لوگوں نے اسے کافی پسند کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ جب ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ ختم ہو گئی تو لوگوں کا اصرار ہوا کہ اس کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ لوگوں کی گزارش کو دھیان میں رکھتے ہوئے کرشن چندر نے ’گدھے کی واپسی‘ کے عنوان سے ایک نیا ناول تحریر کیا۔ بعد ازاں انہوں نے تیسراناول ’ایک گدھا نیفا میں‘ بھی تحریر کیا۔ ان تینوں ہی ناولوں نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی اور اردو، ہندی  کے علاوہ متعدد زبانوں میں اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے


کرشن چندر نے ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو بنیاد بنا کر بھی کئی افسانے لکھے جن میں ’اندھے‘، ’لال باغ‘، ’جیکسن‘، ’امرتسر‘ اور ’پشاور ایکسپریس‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان افسانوں میں کرشن چندر نے اس وقت کی سیاست کے عوام مخالف کرداروں پر بلاجھجک اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی برائیوں سے پیدا شدہ ماحول پر ضرب کرتے ہوئے انسانی رشتوں اور جذبات کو اہمیت دی ہے۔ وہ ان افسانوں میں فرقہ واریت کی اصل ذہنیت اور صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے انسانیت پر مبنی سماجی نظام کی تعمیر پر زور دیتے ہیں۔ ان کے یہ افسانے ہندوستانی ادب میں انسانیت کی حق میں آواز اٹھانے کا کام انجام دیتے ہیں اور قارئین کو غور و فکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔وہ اپنے ان خیالات کو اس خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں کہ بات دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔اور بالآخر بے مثال  ادب تخلیق کرنے والا یہ بے مثل ادیب 8 مارچ 1977 کو اس دار فانی سے کوچ کر گیا ۔   


جمعرات، 5 دسمبر، 2024

بیٹیوں کے شادیوں میں تاخیر کے ہولناک نتائج

 

 
امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جب تمھاری بیٹیاں بالغ ہو جائیں تو ان کی شادی جلد کرو -امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جوان لڑکیوں کی مثال درخت پر پکے پھل کی ہے کیونکہ پکا پھل اگر درخت سے نہیں توڑا جائے تو وہ سڑ جاتا ہے اور ماحول کو پراگندہ کرتا ہے-امام کے فرمان کی روشنی میں غور کیجئے کہ زمانے کا  چلن آج کی لڑکیوں کے ساتھ کیسا ہے-کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز ٹو میں واقع ایک گیراج میں کھڑی کار سے لڑکی کی  لاش ملی جبکہ کار میں کاشف نامی شخص بھی بیہوشی کی حالت میں پایا گیا۔پولیس کا بتانا ہے کہ متوفیہ کی شناخت جویریہ کے نام سے ہوئی جبکہ کاشف اس کا بہنوئی ہے۔پولیس سرجن کے مطابق پوسٹ مارٹم میں موت کی وجہ سامنے نہیں آسکی ہے اس لیے موت کی وجہ جاننے کیلئے لاش کے نمونے حاصل کرلیے گئے ہیں ایس پی کلفٹن ماجدہ پروین کے مطابق ابتدائی تفتیش میں پولیس کو کار سے کوئی نشہ آور چیز نہیں ملی، بظاہر یہی لگتا ہے کہ واقعہ بند کار میں کاربن مونوآکسائیڈ بھرنے کے باعث پیش آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم کے بعد لڑکی کی لاش ورثا کے حوالے کردی گئی ہے، لڑکی کے اہل خانہ نے قانونی کارروائی سے انکار کردیا ہے تاہم گیراج کو سیل کردیا ہے، واقعے کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔  بتایا جاتا ہے کہ ۲۹ سالہ جویریہ کے اپنے بہنوئی    کاشف سے قریبی تعلقات تھے اور جویریہ کی بہن اپنے شوہر سے جھگڑا بھی کر چکی تھی -وقوعہ والے دن صبح جویریہ نے اپنے والد سے کہا کہ  اسے اس کا بہنوئ کاشف لینے آ رہا ہے اور  وہ اس کے ساتھ جم جا رہی ہے   بتا یا جاتا ہے کہ متوفیہ جویریہ  کا اس معا ملہ پر  اس کی بہن سے کئ بار جھگڑا بھی ہوا تھا اور اس کی بہن نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی لیکن پھر بھی وہ دونوں اپنی اس روش سے باز نہیں آئے جس کے آ گے کھائ اور زلت  کی موت لکھی تھی 

 اور یہ کراچی کے بعد  گوجرانوالہ میں پیش آنے والے حادثے کی خبر - گوجرانوالہ میں کار سے نوجوان لڑکےاور لڑکی کی لاش برآمد ہوئی جسے پولیس نے تحویل میں لے کر ہسپتال منتقل کردیا۔ پولیس کے مطابق افسوسناک واقعہ تھانہ سبزی منڈی کے علاقے علامہ اقبال روڈ پر پیش آیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ متوفی نوجوان عاصم اور لڑکی آپس میں دوست ہیں، کار ایک بند گیراج میں کھڑی تھی جہاں دم گھٹنے سے کار کے اندر ہی دونوں جاں بحق ہو گئے۔ پولیس کے مطابق عاصم کے کزن نے گیراج کھولا تو کار میں لاشیں دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی، پولیس نے جائے وقوعہ سے شواہد جمع کر لیے اور واقعہ کی تفتیش جاری ہے۔ پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گاڑی میں گیس لکیج کے باعث دم گھٹنے سے دونوں کی موت واقع ہوئی ہے-ان  اخلاق باختہ معاملات کے پیچھے  لڑکیوں کی شادی کا لیٹ ہونا ہی جا جائے گا  -بعض  ناسمجھ والدین  لڑکی  کی اعلیٰ تعلیم کی خاطر اچھے رشتے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جب بیٹی کئی سال بعد اعلیٰ تعلیم مکمل کر لیتی ہے تو پھر خواہش ہوتی ہے کہ تعلیمی لحاظ سے رشتہ اس کے برابر کا ہو ۔ خوش قسمت ہیں وہ جن کو فوراً رشتہ مل جائے ورنہ ایسے رشتے کے انتظار میں تعلیم کے بعد مزید کئی سال بیت جاتے ہیں۔

کئی بچیوں کو آپ نے اسی انتظار میں جوانی ڈھلتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا۔ بلکہ بعض تو کنواری ہی پوری زندگی گزار دیتی ہیں۔کیا  ایسے ماں باپ  بتا سکتے ہیں  کہ لڑکی کو اس قدر اعلیٰ تعلیم دلانے کا کیا فائدہ پہنچا۔ ۔ اعلیٰ تعلیم کے خلاف تو میں  بھی نہیں مگر جس تعلیم کی خاطر اچھے رشتے سے ہاتھ دھونا پڑیں تو یہ کوئی سمجھداری والا سودا نہیں۔اور پھر ۲۹ سالہ جویریہ کی کہانی ہو یا ۳۷ سالہ سارہ انعام جیسی اعلیِ تعلیمیافتہ لڑکی کی کہانی ہو جس نے  سوشل میڈیا کے زریعہ گھر و الوں سے چھپ کر ایک مجرمانہ زہینیت رکھنے والے مرد سے شادی کی اور بہت ہولناک انجام سے دو چار ہوئ-سارہ انعام  ایک مفکر تھی ذہین اور نرم گفتار ۔ وہ اپنا فارغ وقت نان فکشن کتابوں کو پڑھنے میں گزارتی تھیں-سارہ انعام پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں مبینہ طور پر اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت  پُرکشش شخصیت کی حامل ایک بے ضرر انسان تھیں   مگر اُن کے شوہر نے اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں واقع فارم ہاؤس پر مبینہ طور پر انھیں بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا تھا

۔ اُن کے شوہر اور اس کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز فی الحال جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں -سارہ انعام نے کینیڈا کی یونیورسٹی آف واٹر لو سے سنہ 2007ء میں آرٹس اور اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ یونیورسٹی آف واٹر لو کو دنیا بھر میں اکنامکس کی تعلیم کے لیے بہترین تعلیمی اداروں میں سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد سارہ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز جونیئر ایویلیوئیشن افسر کی حیثیت سے کینیڈا ہی سے کیا تھا  سنہ 2010ء میں انھوں نے ابوظہبی میں بزنس کنسلٹینسی کی کمپنی ’ڈیلوئیٹ‘ میں شمولیت اختیار کر لی جہاں وہ چار سال تک بحیثیت کنسلٹنٹ اور بعد ازاں سینیئر کنسلٹنٹ خدمات سر انجام دیتی رہیں۔ اس نوکری کے بعد انھوں نے ابوظہبی کے ادارے ’ایجوکیشن اینڈ نالج‘ میں شمولیت اختیار کی۔عمر کے اس حصے میں اب وہ اپنی فیملی لائف شروع کرنا چاہتی تھی اوراکثر اپنی دوستوں میں کہتی  تھی کہ وہ   چا ہتی ہے کہ اُن کو بھی کوئی بہت محبت دے   اور  ان کے  پاس ان کےاپنے دوست بچے ہوں  'مگر وائے افسوس کہ اعلیٰ تعلیم ان کی عمر کے سنہری دور کو کھا گئ  تو سوشل میڈیا پر ایک مجرم میسر آ گیا جو اس کی زندگی کو ہی کھا گیا 

 

منگل، 3 دسمبر، 2024

ٹک ٹاک سلیبرٹی - جان کی بازی مت ہاریں

 ٹک ٹاک کے جنون میں حال ہی میں امریکہ میں ایک 10 سال کی بچی کی موت  واقع ہو گئ   - 10 سال کی بچی ٹک ٹاک کے مشہور زمانہ چیلنج ہیش ٹیگ بلیک آؤٹ کا حصہ بنی۔ ٹک ٹاک بناتے ہوئے موت کے منہ میں جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔  اس چیلنج میں لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنا گلا دبا کر اپنی سانس کو اس حد تک بند کریں کہ وہ بے ہوش ہو جائیں۔اسی چیلنج کو پورا کرنے کی کوشش کی 10 سال کی بچی نے اور اس حد تک اپنا گلا دبایا کہ جان سے گزر گئی۔ پاکستان میں اس سے قبل بھی ٹک ٹاک بناتے ہوئے کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں  ٹک ٹاک کمپنی نے کہا ہے کہ  صارفین کے تحفظ کے لیے  ہم ایسا تجربہ کرنے میں بہت محتاط ہیں جو کچھ ہم نے نوجوانوں کی حفاظت اور راز داری کے لیے اب تک کیا ہے اس کے بارے میں مزید جاننے کے منتظر ہیں  -ٹک ٹاک  کمپنی صارفین کی حفاظت کو ترجیح دیتی ہے -


نوبیاہتا دلہن ٹک ٹاک بناتے ہوئے ہلاک،فاطمہ کی شادی کو دو  روز ہوئے تھے اور ابھی اس کے کمرے میں مسہری سجی ہوئی تھی اور اس کے پھولوں سے خوشبو بھی آرہی تھی۔ اس کی والدہ اور چھوٹی بہن اسے ملنے آئی تھیں۔ تینوں ایک ہی کمرے میں بیٹھی ہوئی تھیں کہ اچانک فاطمہ کو خیال آیا کہ کیوں نا ان خوب صورت لمحات کی وہ ٹک ٹاک ویڈیو بنا لے۔ نئے آئیڈیا کی تلاش میں انہوں نے الماری میں سے ایک پستول نکالا جو غالباً اُن کے شوہر کا تھا۔دلہن نے پستول کو اپنی کنپٹی پر رکھا اور ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے ساتھ ایک گانا پلے کیا اور پستول کے ٹریگر  کو دبا دیا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کی زندگی کی آخری ٹک ٹاک ویڈیو ہے۔ فائر کی آواز کے ساتھ ہی فاطمہ خون میں لت پت مسہری پر ڈھیر ہو گئیں۔ فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی فاطمہ کی عمر 17 یا 18 برس تھی۔ان کے والد محمد عباس نے روتے ہوئے بتایا کہ میری بیٹی کبھی کبھار ٹک ٹاک پر کوئی ویڈیو بنا لیتی تھی اور اس دن بھی وہ خوش تھی اور ویڈیو بنانا چاہتی تھی۔’تاہم اسے اندازہ نہیں تھا کہ پستول کو استعمال کیسے کرنا ہے، میری اہلیہ اور میری چھوٹی بیٹی بھی اس کمرے میں موجود تھیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے یہ سب ہوا


۔ میں نے پولیس کو بھی اس حوالے سے آگاہ کیا ہے۔ ‘محمد عباس کا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی تو چلی گئی میں دوسرے والدین کو کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو اس ٹک ٹاک جیسی لعنت سے دُور رکھیں، میں اس نقصان کو کبھی بھی پورا نہیں کر سکوں گا میں بہت تکلیف میں ہوں۔‘ٹک ٹاک بناتے ہوئے موت کے منہ میں جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ۔گذشتہ چند برسوں میں پاکستان میں ٹک ٹاک بناتے ہوئے کئی اموات رپورٹ ہو چکی ہیں۔ 21 مئی 2021 میں کبل (سوات) کے رہائشی حمید اللہ نامی ایک ٹک ٹاکر نے ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بناتے ہوئے خود پر گولی چلا دی جس کے باعث وہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے۔  اسی طرح دسمبر 2019 میں اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ سیالکوٹ میں رونما ہوا۔ تین دوست ٹک ٹاک کے لیے ایک ویڈیو فلما رہے تھے کہ ایک دوست کو حقیقت میں گولی لگ گئی اور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ نومبر 2020 میں لاہور کے علاقے سُندر میں دو دوست پستول تھامے ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بنا رہے تھے کہ اچانک گولی چل گئی، ایک دوست آنکھ میں گولی لگنے سے موقع پر ہی ہلاک ہوگیا جبکہ دوسرا دوست بازو میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوا۔ جون 2020 کو کراچی میں 17 سال کا نوجوان ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بناتے ہوئے گولی لگنے سے جان کی بازی ہار گیا۔


فروری 2020 کو لاہور میں پانچ نوجوان رکشہ میں بیٹھ کر ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے، تین نوجوان ہلاک جبکہ دو زخمی ہوئے تھے۔ جنوری 2021 کو اِسی طرح ویڈیو بناتے ہوئے ریل سے ٹکرا کر ایک نوجوان جان کی بازی ہار گیا۔  شناخت کے بحران کا مسئلہ:پوری دنیا میں نفسیات دان سوشل میڈیا خاص طور پر ٹک ٹاک کے حوالے سے کافی زیادہ تحقیقات کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ لوگ خطرے کی حد تک حتیٰ کہ اپنی جان تک دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ڈاکٹر ز کا کہنا  ہے کہ یہ ایک طرح کی سائبر ایڈکشن ہے جس سے اس وقت نئی دنیا میں نوجوان نسل کے جنون  کا سامنا ہےواسطہ پڑا ہے۔‘’اس سے پہلے نشہ صرف ڈرگز کا ہوتا تھا لیکن اب سوشل میڈیا کا استعمال ایک نشے کی طرح ہی دماغ کو ڈوپامین فراہم کرتا ہے جیسے نشے کی حالت میں کوئی اور  نشہ کیا جائے ‘ کیونکہ اس کے اندر صرف چھوٹی ویڈیو کا استعمال کیا جاتا ہے اور چھوٹی سی ویڈیو کے اندر ہی کلائمیکس بھی ہوتا ہے، یعنی نفسیات کے اعتبار سے اس کے تمام جزئیات کسی ذہن کو اس کی لت ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔‘ماہر نفسیات ارم ارشاد کہتی ہیں کہ ’شناخت کا بحران سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ لوگ سوشل میڈیا پر جب کوئی چیز ڈالتے ہیں تو اس کے بعد جب دوسرے لوگ لائک کے بٹن سے یا اس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں یا اظہار کرتے ہیں تو اس کا سیدھا سیدھا آپ کے ذہن پہ اثر ہوتا ہے۔’ٹک ٹاک نے بنیادی طور پر ہر ایک شخص کو ایک سلیبرٹی بنا دیا ہے  -


 اب یہ دنیا کے والدین کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کس طرح اس جنون سے دور رکھ سکتے ہیں جو انکی اولاد کی جان کے درپئے ہے -ایک اور نوجوان جس کی وڈیو نیٹ پر موجود ہے ایک پر سکون بیٹھے ہوئے  اونٹ کے قریب جا کر جیسے ہی وڈیو بنانا چاہتا ہے اونٹ اس دخل در معقولات کو ناپسند کرتے ہوئے نوجوان   کے بال اپنے دانتوں میں لے کر کھڑا ہوتا ہے پھر اس نوجوان کو زمین پر پٹخنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ نوجوان یا تو مر جاتا ہے یا بے ہوش ہوجاتا ہے تب اونٹ اس کی جان چھوڑتا ہے -اب نوجوانوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی جانوں سے نہیں کھیلیں اور والدین کا فرض  ہےکہ وہ اپنی اولاد کی نگہداشت پر پوری توجہ رکھیں -اللہ ہم سب کا حامئ و ناصر ہو

بدھ، 27 نومبر، 2024

بلند و با لا کو ہ سا رو ں کا مجمو عہ کو ہ ہمالیہ

 



  بلند و با لا کو ہ سا  رو  ں کا مجمو عہ کو ہ  ہمالیہ ایک طو   یل پہا ڑی سلسلہ ہے جو برصغیر پاک و ہند کو سطح مرتفع تبت سے جدا کرتا ہے۔ کوہ ہمالیہ میں کرہ ارض کی کچھ بلند ترین چوٹیاں ہیں، جن میں سب سے اونچی، ماؤنٹ ایورسٹ بھی شامل ہے جو چین اور نیپال کی سرحد پر واقع ہے۔ ہمالیہ کی بلندی میں 7,200 میٹر (23,600 فٹ) سے زیادہ 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں۔ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو موجود ہیں۔ 8,000 میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔ اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7,200 میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلد ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکاگوا ہے جس کی بلندی صرف 6,962 میٹر ہے-دنیا کے بہت سے بڑے دریا جیسے سندھ، گنگا، برہم پتر، یانگزی، میکانگ، جیحوں، سیر دریا اور دریائے زرد ہمالیہ کی برف بوش بلندیوں سے نکلتے ہیں۔ ان دریاؤں کی وادیوں میں واقع ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، پاکستان، چین، نیپال، برما، کمبوڈیا، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، قازقستان، کرغیزستان، تھائی لینڈ، لاؤس، ویتنام اور ملائیشیا میں دنیا کی تقریباً آدھی آبادی، یعنی 3 ارب لوگ، بستے ہیں۔

ہمالیہ کا جنوبی ایشیا کی تہذیب پر بھی گہرا اثر ہے؛ اس کی اکثر چوٹیاں ہندو مت، بدھ مت اور سکھ مت میں مقدس مانی جاتی ہیں۔ ہمالیہ کا بنیادی پہاڑی سلسلہ مغرب میں دریائے سندھ کی وادی سے لے کر مشرق میں دریائے برہمپترا کی وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ برصغیر کے شمال میں 2,400 کلومیٹر لمبی ایک مہراب یا کمان کی سی شکل بناتا ہے جو مغربی کشمیر کے حصے میں 400 کلومیٹر اور مشرقی اروناچل پردیش کے خطے میں 150 کلومیٹر چوڑی ہے۔ یہ سلسلہ تہ در تہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جن کی اونچائی جنوب سے شمال کی طرف بڑھتی جاتی ہے۔ تبت سے قریب واقع انتہائی شمالی سلسلے کو، جس کی اونچائی سب سے زیادہ ہے۔
گلیشئر اور دریا-ہمالیہ نام سنسکر ہِمالَے' بمعنی برف کا گھر) سے مشتق ہے۔ ہمالیہ میں کم و بیش 15,000 گلیشیٔر ہیں جن میں تقریب 12,000 مکعب کلومیٹر پانی ذخیرہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع 70 کلومیٹر لمبا سیاچن گلیشیر دنیا میں قطبین سے باہر دوسرا طویل ترین گلیشیر ہے۔ قطبین کے باہر طویل ترین گلیشیر بھی ہمالیہ سے زیادہ دور نہیں، یہ تاجکستان کا فریڈشینکو گلیشیر ہے جس کی لمبائی 77 کلومیٹر ہے۔ ہمالیہ کے کچھ دوسرے مشہور گلیشیر گنگوتری اور یمنوتری گیشیر (اتراکھنڈ)، نوبرا، بیافو اور بالتورو گلیشیر (قراقرم)، زیمو اور کھُمبو گلیشیر (ماؤنٹ ایورسٹ) ہی


گرم علاقوں کے قریب واقع ہونے کے باوجود ہمالیہ کے بلند تر علاقے سارا سال برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ ان برف پوش چوٹیوں سے بہت سے دریا نکلتے ہیں جو موسمی دریاؤں کے برعکس سارا سال چلتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر دریا برصغیر پاک و ہند کے دو دریائی نظاموں میں سے کسی ایک میں شامل ہوجاتے ہیں:مغربی دریا سندھ طاس کا حصہ ہیں جن میں دریائے سندھ سب سے بڑا ہے۔ دریائے سندھ تبت میں دریائے سینگے اور دریائے گار کے ملاپ سے وجود میں آتا ہے اور بھارت اور پاکستان سے گزرتا ہوا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ اس کے معاونین میں جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج کے علاوہ دوسرے بہت سے چھوٹے دریا بھی شامل ہیںہمالیہ کے دیگر دریاؤں کی اکثریت گنگا برہماپترا طاس میں شامل ہے۔ اس طاس کے سب سے بڑے دریا گنگا اور برہم پترا ہیں۔ برہماپترا مغربی تبت میں دریائے یارلنگ تسانگپو کی حیثیت سے شروع ہوتا ہے اور مشرق کی طرف سفر کرتا ہوا تبت اور پھر آسام کی وادیوں سے گزرتا ہے۔ گنگا اور برہماپترا کا ملاپ بنگلہ دیش میں ہوتا ہے جس کے بعد یہ دریا دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا بناتا ہوا خلیج بنگال میں گرتا ہے۔


ہمالیہ سے نکلنے والے مشرقی ترین دریا میانمار کے دریائے آئیروادی سے ملتے ہیں۔ یہ دریا جنوب کی جانب بہتے ہیں اور مشرقی تبت اور میانمار سے ہوتے ہوئے بحیرہ انڈمان میں گرتے ہیں۔دریائے سالوین، میکانگ، یانگزی اور ہوانگ ہی (دریائے زرد) بھی سطح مرتفع تبت سے نکلتے ہیں تاہم تبت کے یہ حصے ارضیاتی طور پر کوہ ہمالیہ کا حصہ نہیں اور اس لیے ان دریاؤں کو ہمالیہ کے دریاؤں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ تاہم کچھ ارضیات دان ان تمام دریاؤں کو مجموعی طور پر "حلقہ ہمالیہ دریا" کہتے ہیںحالیہ سالوں میں سائنسدانوں نے گلیشیروں کے پگھلنے میں خاطر خواہ تیزی دیکھی ہے۔ اگرچہ گلیشیروں کے پگھلنے کے اثرات بہت سالوں تک پوری طرح واضع نہیں ہوں گے، اس سے شمالی بھارت اور پاکستان میں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے جو خشک موسم میں اپنے دریاؤں میں ان گیشیروں سے آنے والے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔قرار دیے گئےدنیا کا نواں اور پاکستان کا دوسرا بلند ترین پہاڑ نانگا پربت گلگت بلتستان کے ضلع استور میں اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑاہے ،جس کو حرف عام میں کلر مائونٹین بھی کہا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی مشکلوں سے یہ پہاڑ 1953 میں جرمن کوہ پیمائوں کی ٹیم نے سر کیا۔

دنیا کے ٹاپ ٹین گلیشیئر میں سے 5 گلیشیئر پاکستان کےاسی علاقے میں واقع ہیں، جو پاکستان میں پانی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔انہی پہاڑی سلسلوں میں شاہراہ قراقرم اپنی آن بان اور شان کے ساتھ بل کھاتا ہوا مزید آگے کو بڑھتا جاتا ہے، جو پاک چین دوستی کی عظیم مثال ہے۔یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس بل کھاتے روڈ سے ان عظیم پہاڑوں کا منظر بڑا دلکش و دلفریب نظاہرہ پیش کرتا ہے۔ سیاح دنیا بھر سے ان دلکش نظاروں کو دیکھنے بڑی تعداد میں امڈ آتے ہیں۔جب ناران سے ہوتے بابوسر ٹاپ سےگزریں تو دنیا کے بلند و بالا پہاڑی سلسلے اپنے برف پوش چوٹیوں کی وجہ سے ایک منفرد منظر پیش کرتے ہیں۔ ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ پاکستان و افغانستان کی سرحدوں کے درمیان واقع ہے، جو سلسلہ قراقرم اور کوہ پامیر کے مغرب کی جانب پھیلا ہوا ہے۔اس سلسلے کی بلند ترین چوٹیاں ضلع چترال میں ترچ میر، نوشاق، استور نال ہیں۔پاکستان کا سوئٹزرلینڈ سوات اسی سلسلے کا حصہ ہے۔کوہ پامیر پہاڑوں کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان میں یہ پہاڑی سلسلہ پنجاب اور بلوچستان کی سرحد پر ہے۔کوہ نمک پنجاب کے شمالی حصے میں دریائے جہلم سے دریائے سندھ تک پھیلا یہ سلسلہ اپنی کانوں کےلیےمشہور ہے،یہاں موجود بڑی کانوں میں کھیوڑہ، کالاباغ، مایووارچا شامل ہیں، جن سے بڑی مقدار میں نمک اور کچھ مقدار میں درمیانے درجے کا کوئلہ بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ کھیوڑہ دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان ہے۔ اس سلسلے کی بلند ترین چوٹی سیکسر سطح سمندر سے 1522 میٹر بلند ہے، چوٹی سے میانوالی، خوشاب، چکوال، سرگودھا اور جہلم کا نظارہ مسحور کردیتا ہے۔

منگل، 26 نومبر، 2024

دنیا میں غلامی کی تاریخ

   ، کسانوں کی بڑی آبادی والی اسلامی دنیا میں ، زرعی مزدوری کی ضرورت اتنی  نہیں تھی جتنی امریکا میں۔  اسلام میں غلام بنیادی طور پر خدمت کے شعبے میں ہدایت کی جاتی تھی  –     باورچی ، پورٹرز اور سپاہی  – غلامی کے ساتھ ہی بنیادی طور پر پیداوار کے ایک عنصر کی بجائے کھپت کی ایک شکل ہے۔ اس کے لیے سب سے زیادہ بتانے والے ثبوت صنفی تناسب میں پائے جاتے ہیں۔ صدیوں میں اسلامی سلطنت میں سیاہ فام غلاموں میں تجارت کرنے والے ، ہر مرد کے لیے تقریبا دو خواتین تھیں۔ ان میں تقریبا تمام خواتین غلاموں کے گھریلو پیشے تھے۔ کچھ لوگوں کے لئے ، اس میں اپنے آقاؤں کے ساتھ جنسی تعلقات بھی شامل تھے۔ یہ ان کی خریداری کا ایک جائز مقصد تھا اور سب سے عام۔  عثمانی غلام طبقے کا ایک رکن ، جسے ترکی میں کول کہتے ہیں ، اعلی مقام حاصل کرسکتے ہیں۔



مراکش کی سلطنت میں نوعمری کے عمل سے گزرنے کے لیے غلاموں کا انتخاب انتہائی منتخب تھا۔ بہت ساری اوصاف اور صلاحیتیں ہیں جن کے مالک اپنے آقاؤں کا احسان اور اعتماد جیت سکتے ہیں۔ آقا / غلام تعلقات کی جانچ پڑتال کرتے وقت ہم یہ سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں کہ اسلامی معاشروں میں سفید پوشیدہ غلام خاص طور پر قابل قدر تھے۔ اضافی طور پر ، حصول کے طریقہ کار ، اسی طرح عمر کے ساتھ ساتھ غلام غلام کی قیمت کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا ، ، مالک غلام تعلقات پر بھروسا کرسکتی ہے۔ نوکروں یا یہاں تک کہ نو عمر بالغوں کے طور پر حاصل کردہ غلاموں نے ان کے آقاؤں کے قابل بھروسا مددگار اور مدعی بن گئے۔ مزید برآں ، نوعمری کے دوران غلام کا حصول عام طور پر تعلیم و تربیت کے مواقع کا باعث بنتا ہے ، کیونکہ نوعمری کے زمانے میں حاصل شدہ غلام فوجی تربیت شروع کرنے کے لیے ایک عمدہ عمر میں تھے۔

 کالے کاسٹ شدہ غلاموں کو ، شاہی حرموں کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا ، جب کہ سفید فام غلاموں نے انتظامی کاموں کا فریضہ دیا گیا ۔ ینی چری ایک "کے طور پر بچپن میں جمع شاہی فوجوں کی اشرافیہ فوجیوں تھے خون ٹیکس ، جبکہ" گیلی غلاموں میں گرفتار غلام چھاپوں یا کے طور پر جنگی قیدیوں ، شاہی وریدوں سے تعینات. غلامی دراصل عثمانی سیاست میں سب سے آگے رہتی تھی۔ عثمانی حکومت میں اکثریت کے عہدے دار غلام خریدے گئے ، آزاد ہوئے اور سلطنت عثمانیہ کی 14 ویں صدی سے 19 ویں تک کامیابی کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ بہت سے عہدے داروں کے پاس خود بڑی تعداد میں غلام تھے ، حالانکہ سلطان خود اس کی ملکیت میں سب سے بڑی رقم رکھتے تھے۔  اینڈرون جیسے محل اسکولوں میں عہدے داروں کی حیثیت سے غلاموں کی پرورش اور خصوصی طور پر تربیت کرکے ، عثمانیوں نے حکومت اور جنونی وفاداری کا پیچیدہ علم رکھنے والے منتظمین بنائے۔


مراکش کی سلطنت میں نوعمری کے عمل سے گزرنے کے لیے غلاموں کا انتخاب انتہائی منتخب تھا بہ ساری اوصاف اور صلاحیتیں ہیں جن کے مالک اپنے آقاؤں کا احسان اور اعتماد جیت سکتے ہیں۔ آقا / غلام تعلقات کی جانچ پڑتال کرتے وقت ہم یہ سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں کہ اسلامی معاشروں میں سفید پوشیدہ غلام خاص طور پر قابل قدر تھے۔ اضافی طور پر ، حصول کے طریقہ کار ، اسی طرح عمر کے ساتھ ساتھ غلام غلام کی قیمت کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا ، ، مالک غلام تعلقات پر بھروسا کرسکتی ہے۔ نوکروں یا یہاں تک کہ نو عمر بالغوں کے طور پر حاصل کردہ غلاموں نے ان کے آقاؤں کے قابل بھروسا مددگار اور مدعی بن گئے۔ مزید برآں ، نوعمری کے دوران غلام کا حصول عام طور پر تعلیم و تربیت کے مواقع کا باعث بنتا ہے ، کیونکہ نوعمری کے زمانے میں حاصل شدہ غلام فوجی تربیت شروع کرنے کے لیے ایک عمدہ عمر میں تھے۔ اسلامی معاشروں میں یہ عمل دس سال کی عمر میں شروع کرنا ، پندرہ سال کی عمر تک جاری رہنا معمول تھا ،


 اس موقع پر یہ جوان فوجی خدمت کے لیے تیار سمجھے جاتے تھے۔ اسلامی غلام معاشروں میں مہارت رکھنے والے غلاموں کی بہت زیادہ قدر کی جاتی تھی۔ عیسائی غلاموں کو اکثر عربی میں بولنے اور لکھنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ سفارتی امور کا انگریزی اور عربی زبان میں روانی رکھنے کا ایک انتہائی قابل قدر ذریعہ تھا۔ تھامس پیلو جیسے دو زبانوں والے غلاموں نے اپنی ترجمانی کی صلاحیت کو سفارت کاری کے اہم آداب کے لیے استعمال کیا۔ پیلو خود مراکش میں سفیر کے مترجم کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔پہلا بہمنی سلطان ، علاؤالدین بہمن شاہ نے شمالی کارناٹک سرداروں سے لڑائی کے بعد ہندو مندروں سے ایک ہزار گانا اور ناچنے والی لڑکیوں کو گرفتار کیا تھا۔ بعد میں بہمنیوں نے بھی جنگوں میں شہری خواتین اور بچوں کو غلام بنایا۔ شاہ جہاں کی حکمرانی کے دوران ، بہت سے کسان زمین کی محصول کی طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنی خواتین اور بچوں کو غلامی میں فروخت کرنے پر مجبور تھے۔

پیر، 25 نومبر، 2024

مصنوعی زہانت اور کاربن کا پھیلا ؤ

 

دنیا جس قدر ترقی کر رہی ہے اسی حساب سے ا نسا ن  ‍    کے لئے  ا س   کی مشکلات میں اضافہ بھی ہو رہا ہے  -پہلے تو آپ زرا شہروں کی آلودگی کی  حالت ملا حظہ کیجئے جو دن بدن بد ترین ہوتی جا رہی ہے اس پر  نت نئ ٹیکنالوجی ہے جس کے پیچھے انسان بھاگا چلا جا رہا ہے-ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سسٹم بڑے پیمانےپر کاربن خارج کر رہے ہیں اور یہ صورت حال گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بدتر ہوتی جا رہی ہےسن 2023 میں دنیا کی 63 بڑی معیشتوں کے کیے جانے والے تجزیے کے مطابق یہ عالمی سطح پر ہونے والی مضر گیسوں کے 90 فیصد اخراج کی ذمہ دار ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ملک شدید موسمیاتی اثرات میں کمی کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔ادھریونیورسٹی کالج لندن میں انرجی سسٹم کے پروفیسر، اسٹیو پائی کے مطابق فوسل فیول سےبتدریج چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے یہ اہم ہے کہ تبدیلی کو یقینی بنایا جائے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ''منصفانہ مرحلہ کس طرح نظر آتا ہے؟ یہ امیر ممالک پر منحصر ہے جن کا فوسل فیول پر انحصار کم ہے اور وہ بڑی معیشتوں کے حامل ہیں۔ انہیں رہنما کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نا کہ  انسان کو نت نئ سہولیات دے کر اسے آسان راستہ مہیا کرنا ۔


یہ  مسلم ہے کہ پیچیدہ ماڈلز کو چلانے اور ان کی تربیت کرنے کیلئے توانائی کی اضافی مانگ ماحولیات پر سنجیدہ نوعیت کے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ سسٹم بہتر ہونے کے ساتھ ان کو مزید کمپیوٹنگ پاور اور چلنے کیلئے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اوپن اے آئی کا موجودہ سسٹم ''جی پی ٹی4‘‘ اپنے گزشتہ ماڈل سے 12 گُنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔سسٹمز کی تربیت کرنا ایک چھوٹا سا عمل ہے۔ دراصل اے آئی ٹولز کو چلانے کیلئے تربیت کے عمل سے 960 گُنا زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔محققین کے مطابق ان اخراج کے اثرات وسیع ہو سکتے ہیں۔  نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے اس تحقیقی منصوبے کی قیادت ایسوسی ایٹ پروفیسر یوان نے  وا ضح کیا  کہ مصنوعی ذہانت کے ٹو لز ماحولیاتی نقصان اور فوائد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مصنوعی ذہانت (AI) بہت زیادہ توانائی سے چلتے  ، اور اس توانائی کا بیشتر حصہ فوسل فیول کے جلانے سے حاصل ہوتا ہے، جو کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ صنعتی ماحولیات اور پائیدار نظام کی ایسوسی ایٹ پروفیسرکا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کیلئے کمپیوٹنگ سسٹمز کو چلانے کیلئے توانائی( بجلی) کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجلی کی پیداوار آلودگی پیدا کرتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بجلی کی پیداوار میں فوسل فیولز کا غلبہ ہے۔


 توانائی کیلئے فوسل فیولز کوجلانے کے ماحول پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی میں اضافہ کرتے ہیں۔فوسل فیولز کے جلنے سے وہ آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے جو ہوا اور پانی کو آلودہ کرتی ہے، سانس کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے، اور تیزابی بارش (ایسڈ رین) کا باعث بنتی ہے۔ مزید برآں، فوسل فیولز کو نکالنے اور توانائی کے انفراسٹرکچر کی تعمیر سے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور ماحولیاتی تنزلی کا سبب بنتا ہے۔ان منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے شمسی اور ہوا جیسی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی اور توانائی کی مؤثر حکمت عملیوں کو اپنانا ضروری ہے۔مصنوعی ذہانت ماحول پرکن طریقوں سے اثر ڈالتی ہے-توانائی کے استعمال کے علاوہ مصنوعی ذہانت کو ہارڈویئر آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ہارڈویئر ز، جیسے سرورز اور ڈیٹا سینٹرز، کی تیاری، نقل و حمل، دیکھ بھال اور تلفی کیلئے اضافی توانائی اور وسیع مواد اور قدرتی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً کوبالٹ، سلیکون، سونا، اور دیگر دھاتیں۔مصنوعی ذہانت کے ہارڈویئر میں استعمال ہونے والی دھاتوں کی کان کنی اور تیاری مٹی کے کٹاؤ اور آلودگی کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید برآں، بہت سی الیکٹرانک اشیاء کو مناسب طریقے سے ری سائیکل نہیں کیا جاتا، جس کے نتیجے میں الیکٹرانک فضلہ پیدا ہوتا ہے جو مزید آلودگی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان آلات میں استعمال ہونے والے مواد اگر مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگائے جائیں تو یہ مٹی اور پانی کو آلودہ کر سکتے ہیں۔


مصنوعی ذہانت کے ماحول  کیلئے مثبت پہلو-مصنوعی ذہانت کے اطلاق سے ماحول کیلئے فائدے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ چند سال ایک تحقیق شائع ہوئی تھی  میں کیمیائی صنعت میں مصنوعی ذہانت کے فوائد کا جائزہ لیا گیا تھا۔ مصنوعی ذہانت توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہے اور توانائی کے استعمال کو کم کر سکتی ہے، اور یہ ماحولیاتی نگرانی اور انتظام میں مدد فراہم کرتی ہے، جیسے گیسز کے اخراج کا سراغ لگانا۔مزید برآں، مصنوعی ذہانت ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کیلئے عمل اور سپلائی چین کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔تحقیقی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کو لائف سائیکل اسیسمنٹ (LCA) میں مدد کیلئے استعمال کیا، جو کسی مصنوعات کی پوری زندگی کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے کا ایک معیاری طریقہ ہے۔ مصنوعی ذہانت ہمیں مختلف حیاتیاتی مواد سے بنی مصنوعات کے ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ کرنے میں مدد دیتی ہے، جو روایتی طریقوں کے ذریعے بہت وقت طلب عمل ہوتا ہے۔


پروگرام ''ایکسپیڈیشنز‘‘ (Expeditions) کیا ہے؟یہ امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کا ایک پروگرام ہے ،جس کا مقصداگلی دہائی میں کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو 45فیصد تک کم کرنے پر توجہ مرکوزکرنا ہے۔ اس کے تین اہم اہداف ہیں۔(1)کمپیوٹنگ آلات کی پوری زندگی کے دوران کاربن کے اخراج کی پیمائش اور رپورٹنگ کیلئے معیاری پروٹوکول تیار کرنا۔ (2)کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو کم کرنے کے طریقے تیار کرنا۔(3)تیزی سے ترقی کرنے والی ایپلی کیشنز، جیسے مصنوعی ذہانت اور ورچوئل رئیلٹی سسٹمز، کے کاربن اخراج کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرنا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ منصوبہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کو کیسے حل کرے گا؟ اس کے جواب میں پروفیسر یوان یائو کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کا اندازہ لگانے کیلئے شفاف اور مضبوط طریقوں کی ضرورت ہے۔ 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکررپارٹ2

   اور اس کے ساتھ فائزہ وہیں صوفے پر بیٹھ کر چائے تھرماس سے پیالیوں میں ڈالتے ہوئے کہنے لگیں ارے چھوڑو نصیر شاہ کیا یاد دلادیا ، نا تمھاری ا...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر