پیر، 30 ستمبر، 2024

جے پور میں ہوا محل کیوں بنایا گیا


  گلابی عمارات کا  جے پور شہر نہ صرف گلابی رنگت کے باعث سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے،بلکہ شہر کا تعمیری انداز بھی نہایت زبردست کشش رکھتا ہے۔پوری عمارت 1799ء میں جے پور کے بانی جے سنگھ دوم کے پوتے سوائی پرتاپ سنگھ کے زمانہ میں بن کر تیار ہوئ۔  ہوامحل سرخ اور گلابی سینڈ اسٹون کا بنا ہے۔ اس کے قریب جنتر منتر، جےپور اور سٹی پیلیس، جےپور واقع ہیں- مہاراجا پرتاپ سنگھ نے جب  کھتری محل  دیکھا تو اس سے بہت  متاثر  ہوا اور پھر اس نے ایک ایسی  یادگار عمارت بنا نے کا فیصلہ کیا  جو منفرد ہو اور اس طرح ہوا محل  بن کر تیار ہوا  'ہوا محل کے آرکیٹیکٹ  استاد لال چند  تھے ۔ اس محل  کی سب سے بڑی خوبی اس کی پانچوں منزلوں پر بنی چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں ہیں جنہیں جھروکا کہا جاتا ہے۔  ان جھروکوں کو بنانے کا مقصد راجپوت خاندان کی شاہی خواتین کے لیے شہر میں ہونے والے تہوار اور جلسے جلوس کو دیکھنے کا انتظام کرنا تھا کیونکہ ان خواتین پر پردہ کی سخت پابندی تھی اور انھیں عوام می بغیر حجاب کے آنا سخت منع تھا۔


 ان جھروکوں سے وہ تو باہر دیکھ سکتی تھیں مگر انھیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ کھڑکیوں میں ایسی نقش نگاری کی گئی ہے کہ اس میں کئی سارے سوراخ ہیں جن سے ہر وقت ہوائیں آتی رہتی ہیں اور موسم گرما میں درجہ حرارت معتدل رہتا ہے۔  ہوا محل کے سامنے کا حصہ دراصل اس کے عقب کا حصہ ہے اور اس کا دروازہ دوسری جانب ہے۔  سال 2006ء میں ہوا محل میں تزئین کی گئی جس کا کل خرچ 4.568 ملین روپئے تھا۔ہوا محل پانچ منزلہ اہرامی شکل کی عمارت ہے جس کی کل اونچائی 50 فٹ (15 میٹر) ہے۔اوپر کی تین منزلیں محض ایک کمرے کے برابر ہیں جبکہ نیچے کی دو منزلیں کے سامنے وسیع برآمدے ہیں۔  استاد لال چند عظیم ماہر تعمیر تھے اور انھوں نے ہوا محل کو ایک منفرد شکل دی اور اسے سرخ اور گلابی پتھروں کا بنایا۔


 گلابی پتھر جے پور کے تمام محلات اور عمارتوں میں لگے ہیں جس کی وجہ جے پور   کوگلابی نگر کہا جاتا ہے۔ ہوا محل راجپوت فن تعمیر، اسلامی فن تعمیر اور مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ ہوا محل کا باب الداخلہ سٹی پیلیس کی جانب سے ہے۔ ایک شاہی دروازہ وسیع صحن میں کھلتا ہے جس کے تینوں جانب دو منزلہ عمارتیں ہیں۔ تینوں جانب سے ہوا محل میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔راجستھان کا ہوا محل ہوا میں محل بنانا ایک مشہور محاورہ ہے لیکن 18ویں صدی میں راجستھان کے ایک راجپوت راجہ نے اس کہاوت کو عملی جامہ پہنایا۔ اگرچہ وہ ہوا میں محل نہ بنا سکے لیکن اس نے ایک وسیع محل بنایا جسے ہوا محل کہا جاتا ہے جو آج بھی راجستھان کا نشان ہے۔


ہر طرف سے ہوا اس محل میں داخل ہوتی ہے۔ شدید گرمی میں بھی محل کا اندرونی ماحول ٹھنڈا اور آرام دہ محسوس ہوتا ہے۔ اس محل میں راجستھانی اور مغل طرز کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1799 میں مہاراجہ سوائی پرتاب نے جے پور شہر میں اس محل کی تعمیر کروائی تھی۔ یہ محل ان شاہی خواتین کے لیے تیار کیا گیا تھا جنہیں پردے کی پابندیوں کی وجہ سے بازار جانے اور شہر کی رونقوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ یہ محل اس طرح بنایا گیا تھا کہ شاہی خاندان کی خواتین محل کی کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر پورے شہر کا نظارہ کر سکتی تھیں۔ اس محل کو ہوا کا محل بھی کہا جاتا ہے اور یہ تاریخی شہر جے پور میں اب بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس محل کی خاص خصوصیت اس کا ڈیزائن ہے جو دور سے شہد کے چھتے کی طرح نظر آتا ہے۔ 


محل میں 953 چھوٹی کھڑکیاں ہیں جن میں گلابی پتھر کا خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ پانچ منزلہ محل آج 200 سال گزرنے کے باوجود اپنی شان و شوکت اور منفرد خوبصورتی کے ساتھ لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔محل کی تعمیر میں محراب کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ جو مغل فن تعمیر کی خاص نشانی ہے۔ محل کا مرکزی حصہ ہندو دیوتا ہنومان کے تاج سے بھی مشابہت رکھتا ہے۔ وسیع رقبے پر بنے اس محل میں چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں، جن پر کھڑکیاں بنائی گئی ہیں۔ ہر کھڑکی کے اوپر ایک محراب بھی بنایا گیا ہے۔ ان کھڑکیوں کی وجہ سے محل ہمیشہ ہوا دار رہتا ہے۔ اس محل کا ڈیزائن لال چندر شاہ نے بنایا تھا۔ محل کا پچھلا حصہ بالکل سادہ ہے جبکہ سامنے والا حصہ خوبصورت نقش و نگار سے مزین ہے۔ 

اگر کوئی محل کا صرف عقبی حصہ ہی دیکھ لے تو اسے اس میں کوئی خاص چیز نظر نہیں آئے گی۔ یہ حصہ راجستھان کے عام مکانوں کی طرح بنایا گیا تھا لیکن سامنے کی طرف دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محل ایک شاہکار اور فن تعمیر کا ایک نمونہ ہے۔ سیاحوں کے مطابق محل کی خوبصورتی طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت دیکھی جا سکتی ہے۔ جب سورج کی سنہری کرنیں محل کی گلابی اینٹوں پر پڑتی ہیں تو محل کی خوبصورتی دوبالا ہو جاتی ہے اور اس کی چمک دور سے محسوس ہوتی ہے۔صحن میں آثار قدیمہ کا ایک میوزیم بھی موجود ہے جو اس کی شان بڑھاتا ہے اور اس کی منفرد تاریخ کا گواہ بھی ہے

 

اتوار، 29 ستمبر، 2024

وینس -ایک دیو مالائ شہر

 

 

وینس کا نام اس کے قدیم ’’وینیٹی‘‘باشندوں سے اخذ کیا گیا ہے جو دسویں صدی قبل از مسیح میں وہاں پر آباد تھے۔تاریخی طور پر بھی یہ شہر ریاست وینس کا صدر مقام تھا۔ریاست وینس زمانہ  قرون وسطیٰ کی ایک بڑی بحری طاقت تھی اور ان علاقوں میں سے ایک تھی جہاں سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا تھا۔یہ اپنے زمانے کا اہم تجارتی مرکز تھا جہاں پر ریشم ، اناج اور مصالحوں کی تجارت ہوتی تھی۔ تیرھویں سے سترھویں صدی تک یہ آرٹ کے اہم مراکز میں بھی شامل تھا۔ان تمام خصوصیات کی وجہ سے تاریخ کے زیادہ تر ادوار میں وینس ایک دولت مند شہر رہا تھا۔وینس کے علاوہ اس شہر کو اور بھی کئی ناموں سے جانا جاتا ہے جو اس کے پیار کے نام ہیں جیسے ’’ایڈریاٹک کی ملکہ‘‘، ’’پانیوں کا شہر‘‘، ’’نقابوں کا شہر‘‘، ’’پلوں کا شہر‘‘، ’’تیرتا شہر‘‘، ’’نہروں کا شہر‘‘ وغیرہ۔نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں اس شہر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ بلاشبہ انسانی تاریخ کا خوبصورت ترین شہر ہے۔ اسے یورپ کا سب سے رومانوی شہر بھی کہا جاتا ہے۔یہ اٹلی کا ایک مردم خیز خطہ بھی تھا جس نے انٹونیو ویوالڈی سمیت کئی نابغہ ء روزگار شخصیات کو جنم دیا۔


تاریخ-اگرچہ ایسا کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں جو ہمیں براہ راست آگاہی فراہم کرتا ہو کہ وینس شہر کا قیام کب اور کیسے عمل میں آیا۔ تاہم دستیاب روایات اور شواہد سے متعدد مورخ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وینس کی اصل آبادی مختلف رومن شہروں جیسے پاڈوا ، ایکویلیا ، ٹریویسو ، الٹینو اور کونکورڈیا اور دیگر دفاع سے محروم دیہاتی علاقوں کے مہاجروں پر مشتمل تھی جو جرمن اور ہن حملہ آوروں سے جانیں بچانے کے لیے وہاں سے فرار ہورہے تھے۔بعد کے کچھ رومن ذرائع کے مطابق وینس کے اصل دلدلی جزیرے پر کچھ ماہی گیروں کا بھی پتہ چلتا ہے۔وینس کے مشہور مقامات اور تفریحات:گھومنے کے شوقین لوگ وینس ضرور جاتے ہیں۔وینس اپنے محل وقوع ، اپنے آرکی ٹیکچر اور آرٹ کی وجہ بھی دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔یہ شہر کس قدر انوکھا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ نے اس پورے شہر اور اس کی سمندری کھاڑی کو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ یعنی عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔وینس اٹلی کے صوبے یا ریاست وینیٹو کا صدرمقام ہے۔ 2009ء کے اعدادوشمار کے مطابق اس شہر کے مرکزی حصے میں لگ بھگ پونے تین لاکھ نفوس رہتے ہیں جبکہ آس پاس کے علاقوں اور مضافات کو ملا کر اس کی آبادی سولہ لاکھ سے زائد ہے۔اس کے اہم علاقوں میں کمیون آف وینیزیا ، ٹیرافرما ، پاڈوا اور ٹریویسو شامل ہیں۔ پاڈوا ، ٹریویسو اور وینس کو ملا کر یہ شہر میٹرو پولیٹن بن جاتا ہے ۔


St. Mark’s Square ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ایک چوراہا ہے جو ممکنہ طورپر دنیا کا سب سے مشہور چوک یا سکوائر ہے۔اطالوی زبان میں اس کا پورا نام Piazza di San Marco ہے اور اس کے ارد گرد شاندار تاریخی عمارات ہیں جن کو دیکھ کر قدیم وینس سلطنت کی طاقت اور دولت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔St. Mark’s Basilica وینس کا سب سے مشہور گرجا گھر ہے۔اس کے عظیم الشان فن تعمیر سے بھی وینس کے قدیم جلال وحشمت کا اندازہ ہوتا ہے۔Bridge of Sigh بھی وینس کا قابل دید مقام ہے۔ یہ چھت دار پل ڈاگس محل کو ریو ڈی پلازو کے قیدخانوں سے ملاتا ہے۔ یہ پل وینس کے چند مشہور ترین مقامات میں سے ایک ہے۔Grand Canal وینس کی مرکزی نہر اور واٹر ٹریفک کا ذریعہ ہے۔ یہ نہر پورے شہر میں سے گذرتی ہوئی جاتی ہے۔ اس کے آس پاس دیکھنے کو شاندار عمارتیں اور رہائشی مقامات ہیں۔


Doge’s Palace کا محل گوتھک طرز تعمیر کا شاہکار ہے جو ایک زمانے میں وینس کی حکمرانی کا مرکز تھا۔ یہاں سے ڈاگ اور ان کی حکومت نے وینس کی سلطنت پر طویل عرصہ حکمرانی کی۔Rialto Bridge طویل عرصہ تک سان مارکو اور سان پولو اضلاع کے درمیان گرینڈ کینال کو پار کرنے کا واحد ذریعہ تھا۔ یہ پل سولہویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا ۔ اس پر بہت سی دکانیں موجود ہیں۔Gondola وینس کی ایک قسم کی کشتیاں ہیں جو کسی زمانے میں ٹرانسپورٹ کا اہم ترین ذریعہ تھیں۔ اب یہ کشتیاں وینس کی سب سے پرکشش تفریح ہیں۔ ان کشتیوں کے ذریعے بڑی تعداد میں سیاح گرینڈ کینال اور دیگر چھوٹی نہروں کی سیر کرتے ہیں۔Scuola Grande di San Marco وینس میں تیرھویں صدی میں تعمیر کیا گیا مدرسہ ہے جسے انیسویں صدی میں ہسپتال میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس کا ماتھا یا سامنے والا حصہ پندرھویں صدی میں تعمیر کیا گیا۔Lido وینس کی کھاڑی میں ہی واقع ایک طویل اور تنگ جزیرہ ہے جسے دنیا کا پہلا خصوصی تفریحی مقام قرار دیا جاتا ہے۔ لیڈو کا طویل ساحل گرمیوں کے موسم میں مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے زبردست کشش رکھتا ہے۔Vaporetto وینس کی سیر کے لیے گنڈولا ہی واحد ذریعہ نہیں ہیں۔ Vaporetto شہر کی مقبول ترین ٹرانسپورٹ ہے۔ یہ اصل میں بحری بسیں ہیںجو شہر میں سفر کے لیے ایک آرام دہ اور سستا ذریعہ ہیں۔Teatro La Fenice یہ یورپ کا مشہور ترین اوپیرا ہاؤس ہے۔


  Storico Navale یہ اں شہر کا بحری عجائب گھر  بھی ہے جسے دیکھ کر آپ وینس کی شاندار بحری تاریخ کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس میں بحری فوج سے متعلقہ مختلف چیزیں جیسے توپخانہ ، گنڈولا کشتیاں ، بحری جہاز اور ماڈل بوٹس رکھی گئی ہیں۔Madonna dell’Orto وینس میں کئی خوبصورت کلیسا موجود ہیں -جن میں اینٹوں سے بنا یہ چرچ بھی ہےSt. Mark’s Campanile وینس کا بلند ترین گھنٹہ گھر۔یہ چرچ کناریگیو میں واقع ہے جو چودھویں صدی میں ایک مقامی مذہبی فرقے ہیومیلیاٹی کی جانب سے تعمیر کیا گیا تھا۔Squero di San Trovaso یہ سترھویں صدی میں قائم کیا جانے والا ایک چھوٹا سا شپ یارڈ ہے جو ان چھوٹے چھوٹے شپ یارڈز میں سے ایک ہے جہاں آج بھی وینس کی مشہور گنڈولا کشتیوں کی تیاری اور مرمت کا کام کیا جاتا ہے۔

میں نے یہ مضمون انٹرنیٹ سے لیا ہے-شکریہ گوگل 


 

نظم کا بے نظیر شاعر-نظیر اکبر آبادی

 

  برصغیر  میں  اردو رومانوی افسانوں  کا جب بھی زکر نکلے گا  تو سید سجاد حیدر یلدرم کا نام ضرور آئے گا اور اسی طرح  اردو نظم کے ابتدا ئ دور میں  جب رومانوی شاعری سماج میں جڑیں مظبوط کر رہی تھی  تب نظیر اکبر آبادی  نے ایک نئ  شاعری نظم کی بنیاد رکھ دی  -نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ’’بنجارا‘‘ کے اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ ٹک حرص و ہوا کو چھوڑدنیا  میاں مت دیس بدیس پھرے مارا قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا یہ دھوم دھڑکا ساتھ لیے کیوں پھرتا ہے جنگل جنگل اک تنکا ساتھ نہ جائے گا موقوف ہوا جب ان اور اجل سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زرمغرور نہ ہو تلواروں پر مت پھول بھروسے ڈھالوں کےسب پٹا توڑ کے بھاگیں گے منہ دیکھ اجل کے بھالوں کےہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خا ک لحد کی پھانکے گااس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گاسب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا ۔

یہاں صرف ان کی شعری عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس عظیم شاعر کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا- نظیر اکبر آبادی کے ہم عصروں میں مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر، شیخ قلندر بخش، جرأت، انشااللہ خان انشا اور غلام ہمدانی مصحفی شامل ہیں۔ میر اور سودا کے زمانے میں وہ نوجوان تھے اور ہو سکتا ہے کہ جرأت، انشا اور مصحفی کے دور میں وہ ادھیڑ عمر ہوں۔ اگرچہ جدید نظم کے دور کا کریڈٹ الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد کو جاتا ہے لیکن نظیر اکبر آبادی کو بجا طور پر ’’اردو نظم کا باپ‘‘ سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کا دور ان سے پہلے کا ہے۔ 1954ء میں حبیب تنویر نے اپنا معروف ڈرامہ ’’آگرہ بازار‘‘ لکھا اور اس کی ہدایات بھی دیں۔ اس ڈرامے میں نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا مکمل طور جائزہ لیا گیا ہے۔ نظیر اکبر آبادی جن کا اصل نام ولی محمد تھا، 1735ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ جب انہوں نے غزل اور نظم لکھنی شروع کی تو نظیر تخلص رکھ لیا

جب نظیر اکبر آبادی صرف چار برس کے تھے، نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کر دیا۔ اس وقت محمد شاہ رنگیلا کی حکومت تھی۔ نادر شاہ نے محمد شاہ رنگیلا کو گرفتار کر لیا۔ بعد میں اسے رہا کر دیا گیا لیکن اس وقت تک دہلی میں بے شمار لوگوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ابھی اس خونریزی اور لوٹ مار کی داستانیں لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہوئی تھیں کہ 17 سال بعد احمد شاہ ابدالی نے دہلی پر حملہ کر دیا۔ لوگوں نے دہلی چھوڑ کر محفوظ جگہوں پر جانا شروع کر دیا۔ نظیر اور ان کے خاندان کے افراد دہلی چھوڑکر اکبرآباد چلےگئے۔ اس وقت نظیر کی عمر 18 برس تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نظیر اکبرآبادی نے دو لاکھ اشعار کہے لیکن اس شعری خزانے کا بہت سا حصہ ضائع ہو گیا اور صرف چھ ہزار اشعار بچے۔ یہ اشعار چھپ چکے تھے۔ کسی اور اردو شاعر نے اتنے الفاظ کا استعمال نہیں کیا جتنا نظیر نے کیا

 نظیراکبر آبادی  نے اپنی شاعری میں عام آدمی کی حالت زار کا احاطہ کیا ہے اور اس کے لیے روزمرہ کی زبان استعمال کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری عوام میں بہت مقبول ہوئی۔ لیکن نظیر اکبر آبادی کو اس وقت وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ البتہ کچھ عرصہ بعد ان کے شعری مرتبے کو تسلیم کر لیا گیا۔ اگرچہ ان کا بہت سا کلام ضائع ہو گیا لیکن اس کے باوجود ان کی نظمیں ’’بنجارا نامہ، کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ، اور آدمی نامہ‘‘ کو شہرت دوام ملی۔ایسی نظمیں سکولوں کی درسی کتابوں میں ملتی ہیں اور اردو شاعری کے دلدادہ نظیر اکبر آبادی کی شعری عظمت کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتے۔ انہوں نے قارئین کے لیے 600 غزلیں چھوڑی ہیں۔ اگرچہ ان کی نظموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ قابل تعریف ہیں۔

 درحقیقت نظیر اکبر آبادی کی مقبولیت ان کی نظموں کی وجہ سے ہے۔ وہ مکمل طور پر ’’عوامی شاعر‘‘ تھے اور ان کی نظمیں روزمرہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی تھیں۔ ان نظموں میں مذہبی اور سماجی تہواروں کے حوالے سے بھی بہت کچھ ملتا ہے اور ان میں چھوٹی چھوٹی تفصیلات بھی ملتی ہیں جن میں عام آدمی کو ہنستے ہوئے، گاتے ہوئے اور کھیلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔انہوں نے دیوالی، ہولی، عید، شب برات کے علاوہ پھلوں، جانوروں اور پرندوں کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ پھر انہوں نے موسموں کے بارے میں بھی لکھا اور حتیٰ کہ ایسے موضوعات پر لکھا جن پر پہلے کبھی نہیں لکھا گیا۔ جیسے روپیہ، روٹیاں، آٹا، دال، پنکھا وغیرہ۔ انہوں نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر لکھا۔ نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا کینوس بہت وسیع تھا اور یہ انسانی رویے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس طرح ہر آدمی کو اس کے مزاج کی نظمیں مل جاتی ہیں۔ 1830ء میں نظیر اکبر آبادی کا آگرہ میں 95 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔

جمعہ، 27 ستمبر، 2024

بجلی کے بل عوام کی موت کے پروانے ثابت ہو رہے ہیں

 


ڈسکہ میں بجلی اور گیس کا بل زیادہ آنے پر خاتون نے زہریلی گولیاں کھاکر خودکشی کرلی۔اے آر وائی نیوز کے مطابق پنجاب کے شہر ڈسکہ کے علاقے منڈے کی میں 16 ہزار روپے کا گیس کا بل آیا اور اس کے بعد 9 ہزار روپے کا بجلی کا بل آگیا جس پر 50 سالہ خاتون نے زہریلی گولیاں کھاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔پچاس سالہ بیوہ خاتون رضیہ کے گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی تھی اس کے تین لڑکے مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے پریشان تھے اسی دوران گیس کا 16 ہزار روپے بل آیا اور بجلی کا 9 ہزار روپے کا بل آگیا۔بل کی عدم ادائیگی پر گیپکو کے اہلکار بجلی کا میٹر اتارنے بیوہ خاتون کے گھر پہنچے تھے۔خاتون نے دلبرداشتہ ہوکر  گندم میں رکھنے والی گولیاں نگل کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ متوفی رضیہ اپنے گھر میں دانے بھوننے کی بھٹی بنارکھی تھی جس سے وہ اپنے خاندان کی کفالت میں بھی مددگار تھی۔خاتون کی لاش ضابطے کی کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کردی گئی۔


 بجلی کا زیادہ بل آنے پر تین بچوں کے باپ نے انتہائی قدم اٹھا لیاواضح رہے کہ گزشتہ ماہ اگست میں چشتیاں کے علاقے محبوب کالونی کے محمد ساجد کا بجلی کا بل زیادہ آنے پر بھائیوں سے جھگڑا ہوا تھا جس کے بعد 30 سالہ ساجد نے دلبرداشتہ ہوکر زہریلی گولیاں کھالیں تھیں۔پولیس کا بتانا تھا کہ محمد ساجد سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا اور تین بچوں کا باپ تھاریسکیو حکام کا کہنا تھا کہ ساجد کو طبی امداد کے لیےاسپتال منتقل کیا جارہا تھا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا تھا۔پنجاب کے ضلع بہاولنگر کے شہر چشتیاں میں بجلی کا زیادہ بل آنے پر تین بچوں کے باپ نے انتہائی قدم اٹھالیا ۔اے آر وائی نیوز کے مطابق چشتیاں کے علاقے محبوب کالونی کے محمد ساجد کا بجلی کا بل زیادہ آنے پر بھائیوں سے جھگڑا ہوا تھا جس کے بعد 30 سالہ ساجد نے دلبرداشتہ ہوکر زہریلی گولیاں کھالیں۔پولیس کا بتانا ہے کہ محمد ساجد سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا اور تین بچوں کا باپ تھا۔ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ ساجد کو طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کیا جارہا تھا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا-گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں بجلی کا بل زیادہ آنے پر لڑائی کے بعد سگے بھائی نے اپنے بھائی کا قتل کردیا تھا، دونوں بھائی اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتے تھے۔ 

بجلی کا بل زیادہ آنے پر بھائی کے ہاتھوں بھائی کیسے قتل ہوا؟ماں نے ساری داستان سنادیبوڑھی خاتون نے بتایا تھا کہ اسی بات پر دونوں بھائیوں میں پہلے تلخ کلامی ہوئی اور پھر بات بڑھتے بڑھتے دونوں لڑ پڑے، اس وقت میں ان دونوں کے آگے ہاتھ جوڑتی رہی لیکن وہ پھر بھی لڑتے رہے۔میرے ایک بیٹے نے کہا کہ میں اسے گھر میں نہیں رکھوں گا یہ بل دے گا تو اسے رکھوں گا، بیٹے نے اسی دوران اس کا سامان اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ماں نے بتایا تھا کہ اسی سامان میں ایک چھری بھی تھی، کسی خاص منصوبے کے تحت میرے بیٹے نے اپنے بھائی کو چھری نہیں ماری، بس اچانک ماری سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیسے ہوگیا۔خاتون کا کہنا تھا کہ اب گھر میں کوئی کمانے والا نہیں، میں تو مرگئی ہوں میں کیا کروں، ایک بیٹا جیل چلا گیا ہے اور ایک بیٹا مرگیا ہے اور اب گھر بالکل خالی ہوگیا ہے، میرے دو ہی بیٹے تھے۔
 
بجلی کے بلوں نے عوام سے جینے کی رہی سہی امید بھی چھین لی ہے، یہ بھاری بل غریبوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہورہے ہیں۔اے آر وائی کی اینکر مہر بخاری کی تہلکہ خیز رپورٹ میں بجلی کے بھاری بلوں اور حکومتی بے حسی کے حوالے سے ہوشربا انکشافات کیے گئے ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک طرف عوام ہیں تو دوسری طرف صدر، وزیرزعظم زاور چیف جسٹس کو لامحدود بجلی کے یونٹس فراہم کیے جاتے ہیں۔بجلی کے بھاری بلوں سے غریب اس قدر پریشان ہیں کہ وہ بل آنے کے بعد خودکشی کی کوشش کررہے ہیں، گزشتہ دنوں رکشہ ڈرائیورز غلام محمد نے 19 ہزار روپے سے زائد بجلی کا بل آنے پر پٹرول چھڑک کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔عوام کا کہنا تھا کہ یہاں لوگوں کی دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہورہی اور واپڈا، کے الیکٹرک و دیگر بجلی کی کمپنیاں بجلی کے بھاری بل بھیج دیتی ہیں۔پاکستان میں اس وقت لاکھوں گھرانے ایسے ہیں جو کہ فقط ایک پنکھا ہی چلاتے ہیں مگر ان کا بل ہزاروں میں آتا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں 67 فیصد اضافہ کیا گیا ہے

جبکہ الیکشن سے قبل ن لیگ اور پیپلزپارٹی بجلی کے مفت یونٹس دینے کے وعدے کررہے تھے۔وفاقی کابینہ نے نیپرا کی جانب سے سمری کے بعد بجلی کے ٹریف میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ کردی ہے، اب گھریلو صارفین کے لیے بجلی کا ایک یونٹ کم ازم 48 روپے 84 پیسے کا ہوگا۔حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمت میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط پر کیا گیا ہے جبکہ حکومت تجاوزیز پر نیپرا کی جانب سے 8 جولائی کو فیصلہ کیا جائے گا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عوام بجلی کے بھاری بلوں تلے پس چکے ہیں جبکہ سرکاری اہلکار چاہے وہ صدر ہوں، وزیراعظم ہوں یا عام واپڈا اہلکار ان کے لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی صدر پاکستان کو ماہانہ 2 ہزار یونٹس مفت دیے جاتے ہیں، صدر کے انتقال کے بعد صدر کی زوجہ کو بھی بجلی کے 2 ہزار یونٹس مفت فراہم کیے جاتے ہیں، وزیراعظم پاکستان کو بھی لامحدود مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے۔چیف جسٹس کو ان کی مدت میں اور ریٹائرمنٹ کے بعد ماہانہ 2 ہزار بجلی کے مفت یونٹس فراہم کیے جاتے ہیں۔وفاقی وزیر کو بلوں کی ادائیگی کے ل ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں جبکہ ارکان اسمبلی بل خود ادا کرتے ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی بجلی کے لامحدود یونٹس استعمال کرتے ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک لاکھ 99 ہزار واپڈا ملازمین کو سالانہ 8 سے 100 ارب روپے کی بجلی مفت دی جاتی ہے۔عوام کا کہنا تھا کہ بل اتنے اتنے بھیج دیتے ہیں کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے، اتنا بھاری بل آیا ہے 42 ہزار روپے کا ہم  کہاں جائیں گے،  

جمعرات، 26 ستمبر، 2024

ہمارا دن بدن سکڑتا ہوا ریلوے نیٹ ورک- پارٹ -2

  

پاکستان ریلوے کی دوسری لائن ML-2پاکستان ریلوے کی دوسری بڑی لائن ML-2  "کوٹری اٹک لائن" ہے جس کا آغاز 1891ء میں ہوا تھا۔ یہ کوٹری (سندھ) سے شروع ہو کر دریائے سندھ کے بائیں کنارے سے ہوتی ہوئی اٹک (شمالی پنجاب) تک جاتی ہے۔ 1519 کلومیٹر طویل لائن پر 70 سے زائد سٹیشن ہیں۔ ان میں حبیب کوٹ ، جیکب آباد ، کوٹ ادو ، کندیاں ، جھنڈ اور حاسل ، اہم جنکشن ہیں جبکہ دیگر اہم شہروں میں سہیون شریف ، دادو ، لاڑکانہ ، راجن پور ، لیہ ، بکھر ، میانوالی اور داؤدخیل آتے ہیں۔پاکستان ریلوے کی تیسری لائن ML-3پاکستان ریلوے کی تیسری لائن ML-3 یا "روہڑی چمن لائن" کہلاتی ہے جو 1879ء میں بنی۔ یہ لائن ، صوبہ سندھ کے ریلوے جنکشن روہڑی سے شروع ہو کر صوبہ بلوچستان کے آخری ریل سٹیشن چمن تک جاتی ہے جہاں سرحد کے اس پار افغانستان کا شہر سپن بلداک ہے۔ 523 کلومیٹر طویل اس لائن پر 35 سٹیشن ہیں جن میں حبیب کوٹ ، جیکب آباد اور سپیزند ، جنکشن ہیں جبکہ شکارپور ، ڈیرا مراد جمالی ، سبی ، کوئٹہ ، بوستان اور گلستان ، دیگر اہم شہر ہیں۔

پاکستان ریلوے کی چوتھی لائن ML-4

پاکستان ریلوے کی چار بڑی لائنوں میں سے چوتھی کا نام ML-4 یا "کوئٹہ تا کوہِ تفتان لائن" ہے جو 1905ء میں قائم ہوئی۔ 633 کلومیٹر طویل اس ریلوے لائن پر کبھی 29 سٹیشن تھے لیکن اب صرف 14 رہ گئے ہیں۔ واحد سپیزند جنکشن ، کوئٹہ کو باقی ملک سے ریل کے نظام کو منسلک کرتا ہے۔ نوشکی ، دالبندین اور نوک کنڈی دیگر اہم سٹیشن ہیں۔ یہ لائن ایران کے شہر زاہدان تک جاتی ہے اور اسی رستے سے یورپ تک رسائی ہوتی ہے۔پاکستان ریلوے کا نیٹ ورکیاد رہے کہ دیگر برانچ لائنوں کے ذریعے پاکستان کے دیگر بڑے شہر مثلاً فیصل آباد ، سیالکوٹ ، شیخوپورہ ، قصور ، جھنگ ، پاکپتن ، کوہاٹ ، منڈی بہاؤالدین ، میرپور خاص اور ننکانہ صاحب وغیرہ تک رسائی بھی حاصل ہے البتہ ایبٹ آباد ، مری ، میرپور ، مظفرآباد ، چترال ، سکردو ، گلگت اور گوادر وغیرہ ریل رابطوں سے محروم ہیں۔ان کے علاوہ دیگر منصوبوں کے علاوہ پاکستان ریلوے ، چین کے تعاون سے ML-5 منصوبہ پر بھی غور کر رہی ہے جو ٹیکسلا کو خنجراب اور چین سے ملائے گا۔ افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھی ریل منصوبے زیر غور ہیں۔

سمجھوتہ ایکسپریس

پاکستان اور بھارت کے مابین واہگہ ، جموں اور تھر کے علاقہ سے ریل کا رابطہ رہا ہے جو جنگوں اور کشیدہ تعلقات کی وجہ سے متعدد بار منقطع ہوا۔ 1971ء کی جنگ کی وجہ سے بھی سبھی رابطے ختم ہو گئے تھے جنھیں بحال کرنے میں چند سال لگے۔ 22 جولائی 1976ء کو پاکستان اور بھارت کے مابین ایک "سمجھوتہ ایکسپریس" ٹرین شروع ہوئی جو روزانہ کی بنیاد پر لاہور سے امرتسر کا سفر کرتی تھی۔ غالباً اسی ٹرین پر ایک بھارتی وزیراعظم ، اٹل بہاری واجپائی ، لاہور آئے تھے لیکن 2007ء میں یہ ٹرین دہشت گردی کے ایک متنازعہ حملہ میں بند ہو گئی تھی۔پاکستان ریلوے کے اہم سنگِ میل

موجودہ پاکستان میں ریلوے کا آغاز ، 13 مئی 1861ء کو کراچی سے کوٹری کی 169 کلومیٹر ریلوے لائن سے ہوا۔1865ء میں لاہور سے ملتان ریلوے لائن کا آغاز ہوا۔1876ء میں دریائے راوی ، دریائے چناب اور دریائے جہلم پر ریل پلوں کی تعمیر مکمل ہوئی جس سے لاہور سے جہلم تک ریل کا رابطہ ممکن ہوا۔1878ء میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوٹری سے سکھر براستہ دادو اور لاڑکانہ ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ اسی سال لودهراں سے پنوعاقل تک کی 334 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا افتتاح بھی ہوا۔1880 میں جہلم سے راولپنڈی تک کا 115 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا آغاز ہوا۔ اسی سال روہڑی سے سبی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام بھی مکمل ہوا1881ء میں راولپنڈی سے اٹک کے درمیان 73 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔

1882ء میں خیرآباد کنڈ سے پشاور تک 65 کلومیٹر طویل ریلوے لائن تعمیر مکمل ہوئی۔1883ء میں دریائے سندھ پر اٹک پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پشاور ، راولپنڈی سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔887ء میں سبی اور کوئٹہ ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہوئی۔1889ء میں روہڑی اور سکھر کے درمیان پل کا افتتاح ہوا جس سے کراچی ، پشاور سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔1896ء میں روہڑی اور حیدرآباد براستہ ٹنڈو آدم، نواب شاہ اور محراب پور ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔1900ء میں کوٹری پل اور 8 کلومیٹر طویل کوٹری ، حیدرآباد ریلوے لائن مکمل ہو گئی۔ اس سیکشن کے مکمل ہو جانے کے بعد پاکستان ریلویز کی کراچی - پشاور موجودہ مرکزی ریلوے لائن بھی مکمل ہو گئی۔کراچی کی لوکل ٹرین ، کراچی سرکلر ریلوے بھی "ٹرانسپورٹ مافیا" کی وجہ سے نہ چل سکی تھی۔


ا

بدھ، 25 ستمبر، 2024

ہمارا دن بدن سکڑتا ہوا ریلوے نیٹ ورک-پارٹ -1

  


سوموار 13 مئ  1861 پاکستان ریلوے کا قیام میں عمل میں آیا تھا

 انگریز برصغیر پاک و ہند  میں آئے تو یہاں سے بہت کچھ لے گئے تو دوسری جانب اس خطہ کے عوام کو بہت کچھ دے بھی گئے  ان تحفوں میں  سب سے بڑا تحفہ ریل کا نظام تھا جس نے لنڈی کوتل سے راس کماری تک پورے ہندوستان کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔ دوردراز مقامات تک رسائی کے لیے مسافر اور مال گاڑیوں نے نقل و حمل کو بہت سستا اور آسان بنا دیا تھا۔انسانی تاریخ میں برسہا برس تک گھوڑوں ، بیلوں اور اونٹوں کی مدد سے سفر ہوتا تھا۔ اس دوران گھوڑا اور بیل گاڑیاں وغیرہ بھی بنیں لیکن 1825ء میں کوئلے کے بھاپ انجن سے چلنے والی پہلی مسافر ریل گاڑی کا آغازبرطانیہ میں ہوا جو باقی دنیا کی طرح برصغیر میں بھی متعارف ہوئی۔ برطانوی راج میں 1853ء میں بمبئی سے تھانے تک 32 کلومیٹر کی پہلی ریل لائن کا افتتاح ہوا تھا۔ بھارت میں اس وقت ایک لاکھ کلومیٹر سے طویل لائن والی دنیا کی چوتھی بڑی ریلوے ہے جس میں بارہ لاکھ سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔

موجودہ پاکستان کی پہلی ریلوے لائن 3 مئی 1861ء کو کراچی اور کوٹری کے درمیان 169 کلومیٹر طویل لائن تھی۔ نصف صدی میں پایہ تکمیل تک پہنچنے والی پونے آٹھ ہزار طویل اس ریل نیٹ ورک پر پانچ سو سے زائد سٹیشن ہیں جو لنڈی کوتل سے کیماڑی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اوسطاً پونے دو لاکھ افراد روزانہ سفر کرتے ہیں۔ ڈیڑھ سو پرانے اس ریل ٹریک پر زیادہ سے زیادہ رفتار 120 کلومیٹر ہے۔ لاہور سے کراچی تک ایک ہزار کلومیٹر ڈبل ٹریک بھی ہے۔ ابتداء بھاپ انجنوں سے ہوئی جو ڈیزل انجنوں میں تبدیل ہوئی۔ اب دنیا بھر میں بجلی سے چلنے والی انتہائی تیز رفتار اور ڈرائیور کی مدد کے بغیر خودکار ٹرینیں عام ہورہی ہیں لیکن پاکستان میں بجلی کی ریل گاڑیاں متروک ہو چکی ہیں۔لاہور اور خانیوال کے مابین چلنے والی بجلی کی ٹرین-لاہور اور خانیوال کے مابین چلنے والی-بجلی کی ٹرین بند کر دی گئی-پاکستان میں بھی 1970ء کی دھائی سے بجلی کی ریل کار چلتی تھی جو لاہور سے خانیوال تک 286 کلومیٹر طویل تھی۔ اس روٹ پر 29 الیکٹرک ریل کاریں چلتی تھیں جن پر چار سو کے قریب ملازمین تھے۔ 14 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی اس ماحول دوست ، سستی اور تیز رفتار ٹرین سروس کو 2007ء میں جزوی طور پر اور 2010ء میں مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا حالانکہ اس ٹریک پر پاکستان ریلوے کو ڈیزل کے مقابلے میں بجلی کی ٹرین چلانے پر سالانہ 30 ارب روپے کی بچت ہوتی تھی۔ "ڈیزل مافیا" ، جو ٹرین پر ٹرکوں کو ترجیح دیتا ہے ، وہ بھلا بجلی کی ٹرینوں کو کیسے برداشت کر سکتا ہے جہاں ان کا کمیشن مارا جاتا ہے۔ !

تقسیم سے قبل انگریز راج میں موجودہ پاکستان میں چار بڑی لوکل پرائیویٹ ریلوے کمپنیاں ، "پنجاب ریلوے" ،"سندھ ریلوے" ، "دہلی ریلوے" اور "انڈین فلوٹیلا ریلوے" تھیں جنھیں 1885ء میں حکومت نے خرید کر سرکاری تحویل میں لیا اور 1886ء میں "نارتھ ويسٹرن اسٹیٹ ریلوے" کی بنیاد ڈالی جو بعد میں "نارتھ ويسٹرن ریلوے" کہلائی۔قیامِ پاکستان کے بعد 1961ء میں "شمال مغربی ریلوے" (North Western Railway) کو "پاکستان مغربی ریلوے" اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1974ء میں "پاکستان ریلوے" کا نام ملا۔ صدر مقام لاہور میں ہے جہاں مغل پورہ میں سب سے بڑی ورکشاپ بھی ہے جو 1904ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان لوکوموٹیو فیکٹری 1993 میں رسالپور میں 10 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہوئی جہاں سالانہ 150 کوچز بنتی ہیں۔ پاکستان ریلوے کے پاس 190 ڈیزل الیکٹرک انجن ہیں۔

پاکستان ریلوے کی پہلی لائن

پاکستان ریلوے کی مال بردار ٹرینیں -پاکستان میں ٹرک اور ڈیزل مافیا کتنا طاقتور ہے ، اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی پہلی تین دھائیوں میں پاکستان ریلوے ، کراچی کی بندرگاہ سے باقی ملک تک 73 فیصد مال برداری کی خدمات انجام دیتی تھی جو 2015ء کے اعدادوشمار کے مطابق چار فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔یاد رہے کہ 1970ء کی دھائی میں جہاں کراچی کی دوسری بندرگاہ پورٹ قاسم بنی ، وہاں 1974ء میں لاہور میں خشک گودی کا سلسلہ شروع ہوا جو دیگر صنعتی شہروں مثلاً سیالکوٹ، گوجرانوالہ ، فیصل آباد اور پشاور تک پھیل گیا تھا۔ اس سے پاکستان ریلوے اور کاروباری افراد کو بڑا فائدہ ہوا تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان ریلوے نیٹ ورک  -قیامِ پاکستان کے وقت ریلوے نیٹ ورک آٹھ ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل تھا جو سکڑ کر پونے آٹھ ہزار رہ گیا ہے۔ غیر منافع بخش روٹس ختم کر دیے گئے ہیں لیکن پھر بھی ریلوے خسارہ ہی میں رہی۔ پاکستان کا ریلوے نیٹ ورک حسبِ ذیل ہے:

پاکستان ریلوے کی مرکزی لائن ML-1

پاکستان ریلوے کی مرکزی لائن ML-1 یا " کراچی پشاور لائن" ، کیماڑی سے شروع ہو کر دریائے سندھ کے دائیں کنارے اور صوبہ سندھ ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے اہم ترین اور گنجان آباد علاقوں سے گزرتی ہوئی پشاور چھاؤنی تک جا کر ختم ہوتی ہے۔ تقسیم کے وقت یہ لائن پاک افغان سرحد پر لنڈی کوتل تک جاتی تھی۔1881ء میں مکمل ہونے والی یہ پہلی ریلوے لائن 1687 کلومیٹر طویل ہے جس پر 180 سے زائد سٹیشن ہیں۔ اس لائن پر کوٹری ، حیدرآباد ، روہڑی ، بہاولپور ، لودھراں ، ملتان ، خانیوال ، رائے ونڈ ، لاہور/شاہدرہ ، وزیرآباد ، لالہ موسیٰ ، ٹیکسلا اور اٹک اہم جنکشن ہیں جبکہ دیگر اہم شہروں میں نوابشاہ ، سکھر ، ساہیوال ، اوکاڑہ ، گوجرانوالہ ، گجرات ، جہلم ، راولپنڈی اور نوشہرہ شامل ہیں۔

پاکستان ریلوے کی دوسری لائن ML-2پاکستان ریلوے کی دوسری بڑی لائن ML-2 یا "کوٹری اٹک لائن" ہے جس کا آغاز 1891ء میں ہوا تھا۔ یہ کوٹری (سندھ) سے شروع ہو کر دریائے سندھ کے بائیں کنارے سے ہوتی ہوئی اٹک (شمالی پنجاب) تک جاتی ہے۔ 1519 کلومیٹر طویل لائن پر 70 سے زائد سٹیشن ہیں۔ ان میں حبیب کوٹ ، جیکب آباد ، کوٹ ادو ، کندیاں ، جھنڈ اور حاسل ، اہم جنکشن ہیں جبکہ دیگر اہم شہروں میں سہیون شریف ، دادو ، لاڑکانہ ، راجن پور ، لیہ ، بکھر ، میانوالی اور داؤدخیل آتے ہیں۔پاکستان ریلوے کی تیسری لائن ML-3پاکستان ریلوے کی تیسری لائن ML-3 یا "روہڑی چمن لائن" کہلاتی ہے جو 1879ء میں بنی۔ یہ لائن ، صوبہ سندھ کے ریلوے جنکشن روہڑی سے شروع ہو کر صوبہ بلوچستان کے آخری ریل سٹیشن چمن تک جاتی ہے جہاں سرحد کے اس پار افغانستان کا شہر سپن بلداک ہے۔ 523 کلومیٹر طویل اس لائن پر 35 سٹیشن ہیں جن میں حبیب کوٹ ، جیکب آباد اور سپیزند ، جنکشن ہیں جبکہ شکارپور ، ڈیرا مراد جمالی ، سبی ، کوئٹہ ، بوستان اور گلستان ، دیگر اہم شہر ہیں۔


پاکستان ریلوے کی چوتھی لائن ML-4

پاکستان ریلوے کی چار بڑی لائنوں میں سے چوتھی کا نام ML-4 یا "کوئٹہ تا کوہِ تفتان لائن" ہے جو 1905ء میں قائم ہوئی۔ 633 کلومیٹر طویل اس ریلوے لائن پر کبھی 29 سٹیشن تھے لیکن اب صرف 14 رہ گئے ہیں۔ واحد سپیزند جنکشن ، کوئٹہ کو باقی ملک سے ریل کے نظام کو منسلک کرتا ہے۔ نوشکی ، دالبندین اور نوک کنڈی دیگر اہم سٹیشن ہیں۔ یہ لائن ایران کے شہر زاہدان تک جاتی ہے اور اسی رستے سے یورپ تک رسائی ہوتی ہے۔پاکستان ریلوے کا نیٹ ورکیاد رہے کہ دیگر برانچ لائنوں کے ذریعے پاکستان کے دیگر بڑے شہر مثلاً فیصل آباد ، سیالکوٹ ، شیخوپورہ ، قصور ، جھنگ ، پاکپتن ، کوہاٹ ، منڈی بہاؤالدین ، میرپور خاص اور ننکانہ صاحب وغیرہ تک رسائی بھی حاصل ہے البتہ ایبٹ آباد ، مری ، میرپور ، مظفرآباد ، چترال ، سکردو ، گلگت اور گوادر وغیرہ ریل رابطوں سے محروم ہیں۔ان کے علاوہ دیگر منصوبوں کے علاوہ پاکستان ریلوے ، چین کے تعاون سے ML-5 منصوبہ پر بھی غور کر رہی ہے جو ٹیکسلا کو خنجراب اور چین سے ملائے گا۔ افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھی ریل منصوبے زیر غور ہیں۔


سمجھوتہ ایکسپریس

پاکستان اور بھارت کے مابین واہگہ ، جموں اور تھر کے علاقہ سے ریل کا رابطہ رہا ہے جو جنگوں اور کشیدہ تعلقات کی وجہ سے متعدد بار منقطع ہوا۔ 1971ء کی جنگ کی وجہ سے بھی سبھی رابطے ختم ہو گئے تھے جنھیں بحال کرنے میں چند سال لگے۔ 22 جولائی 1976ء کو پاکستان اور بھارت کے مابین ایک "سمجھوتہ ایکسپریس" ٹرین شروع ہوئی جو روزانہ کی بنیاد پر لاہور سے امرتسر کا سفر کرتی تھی۔ غالباً اسی ٹرین پر ایک بھارتی وزیراعظم ، اٹل بہاری واجپائی ، لاہور آئے تھے لیکن 2007ء میں یہ ٹرین دہشت گردی کے ایک متنازعہ حملہ میں بند ہو گئی تھی۔پاکستان ریلوے کے اہم سنگِ میل

موجودہ پاکستان میں ریلوے کا آغاز ، 13 مئی 1861ء کو کراچی سے کوٹری کی 169 کلومیٹر ریلوے لائن سے ہوا۔1865ء میں لاہور سے ملتان ریلوے لائن کا آغاز ہوا۔1876ء میں دریائے راوی ، دریائے چناب اور دریائے جہلم پر ریل پلوں کی تعمیر مکمل ہوئی جس سے لاہور سے جہلم تک ریل کا رابطہ ممکن ہوا۔1878ء میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوٹری سے سکھر براستہ دادو اور لاڑکانہ ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ اسی سال لودهراں سے پنوعاقل تک کی 334 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا افتتاح بھی ہوا۔1880 میں جہلم سے راولپنڈی تک کا 115 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا آغاز ہوا۔ اسی سال روہڑی سے سبی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام بھی مکمل ہوا1881ء میں راولپنڈی سے اٹک کے درمیان 73 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔

1882ء میں خیرآباد کنڈ سے پشاور تک 65 کلومیٹر طویل ریلوے لائن تعمیر مکمل ہوئی۔1883ء میں دریائے سندھ پر اٹک پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پشاور ، راولپنڈی سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔887ء میں سبی اور کوئٹہ ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہوئی۔1889ء میں روہڑی اور سکھر کے درمیان پل کا افتتاح ہوا جس سے کراچی ، پشاور سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔1896ء میں روہڑی اور حیدرآباد براستہ ٹنڈو آدم، نواب شاہ اور محراب پور ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔1900ء میں کوٹری پل اور 8 کلومیٹر طویل کوٹری ، حیدرآباد ریلوے لائن مکمل ہو گئی۔ اس سیکشن کے مکمل ہو جانے کے بعد پاکستان ریلویز کی کراچی - پشاور موجودہ مرکزی ریلوے لائن بھی مکمل ہو گئی۔کراچی کی لوکل ٹرین ، کراچی سرکلر ریلوے بھی "ٹرانسپورٹ مافیا" کی وجہ سے نہ چل سکی تھی۔

 

ا

پیر، 23 ستمبر، 2024

دین اسلام میں نکاح کی اہمیت اور اس کے ثمرات

 روائت ہے کہ جب عرش بریں پر  حضرت آدم علیہ اسلام  گہری نیند سے جاگے تو اپنے قریب ایک پری پیکر وجود کو پایا اور آپ علیہ السلام وارفتہ اس وجود  کی جانب بڑھے تب ندائے پروردگار آئ -ٹہر جائیے آدم علیہ السلام پہلے نکاح ہوگا -پھر  نکاح کی رسم کے بعد حضرت آدم علیہ السلام نے  پانچ مزید بشر کو پایا  یہ پنجتن پاک کے وجود  مبارک تھے  جو نکاح کی تقریب میں شریک ہوئے تھے -یعنی اللہ کریم و کارساز نے روز ازل سے ہی  عفّت و عصمت کا محافظ ،” نکاح ”کو قرار دیا  اس رشتے سے اِنسانی معاشـرت کا آغاز ہوتا ہے  یہی رشتہ   پاکیزہ نسب کا ضامن ، ذہنی ،جسمانی ،روحانی ،سماجی اخلاقی و  بلندی کردار اورنفسیاتی مفسدات کا معالج ، شریف خاندان اور صالح معاشرے کے قیام کا موجب ہے جسے اِسلام نے عام ضروریاتِ زندگی کی طرح بےحد آسان بنایا تاکہ معاشرے میں کوئی مرد  یا عورت غیر شادی شدہ نا رہے


لیکن بہت افسوس کا مقام ہے کہ اس متبرک اور سادہ رسم کو  ہمارے سماج نے اتنا پیچیدہ کر دیا ہے کہ  لوگ  اپنے بچوں کی شادیوں کانام پر خاموشی سے وقت کو گزارتے ہیں تاکہ بیٹی ہے تو اس کا جہیز تیار کر سکیں اور بیٹا ہے تو اس کی بری اور  زیور تیار کر سکیں  نتیجہ یہ ہے کہ نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو  سماجی  فضا کی آ لودگی کا سبب بنتے ہیں شادیاں مشکل ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں کامیابی اور ناکامی کے تصورات بھی بدل گئے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے شادی کے لیے لڑکے کا تعلیم یافتہ اور مہذب ہوناکافی سمجھاجاتا تھا لیکن اب لڑکی والے الگ گھر، گاڑی اورسرکاری نوکری کاتقاضا کرتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ لڑکے کے گھر میں کتنے افراد ہیں، خاندان زیادہ بڑا تو نہیں،عام طورپراسی لڑکے کو ترجیح دی جاتی ہے جس پر بھائی ، بہنوں کی ذمہ داری نہ ہو


 اگر آج سے پچاس برس پیچھے چلے جائے  تو خاندان کے اندر شادیاں کروانے کا رواج تھا،جس کی بدولت شادیاں آسانی سے ہوجاتی تھیں البتہ  جدید  طبی تحقیق نے بتایا کہ  کزن میرج  کرنے کی صورت میں بچوں میں معذوری کا امکان بڑھ جاتاہے۔چنانچہ اس کے بعد لوگ خاندان سے باہر رشتہ ڈھونڈنے لگے ۔خاندان کے اندر رشتہ کرنے کی صورت میں فریقین بہت سی چیزوں پرسمجھوتاکرلیتے تھے لیکن اب لوگ خاندان سے باہر رشتہ تلاش کرتے ہیں اور انھیں ذات برادری کے نام پر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے جس کی وجہ سے شادیاں تاخیر کا شکار ہورہی ہیں۔مردوں اور خواتین میں جس کی عمرتیس ،پینتیس برس سے بڑھ جاتی ہے اس کے لیے شادی کرنا اوربھی مشکل ہوجاتاہے کیوں کہ اس   لڑکی یا لڑکے نے زندگی کاطویل حصہ  جیون ساتھی کے بغیر  گزارہ ہوتا ہےیہ لوگ کئی طرح کے تجربات اورمشاہدات سے گزرے ہوتے ہیں جو انھیں منطقی بنادیتے ہیں۔ان کے لیے جو رشتہ آتاہے یہ بہت باریکی کے ساتھ اسے جانچتے اور عقل کے ترازو پرپرکھتے ہیں،یاد رکھئے ایک مشہور مثل ہے جتنا چھانو اتنا کر کرا نکلے گا - رشتوں میں اس قدر ناپ تول نہیں کیا جاتا بلکہ کچھ چیزوں کوقبول کرناپڑتاہے۔


بیس ، پچیس سال کی عمرلااُبالی پن کی ہوتی ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں کچھ چیزوں پر سمجھوتاکرلیتی ہیں بہن بھائیوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں، ایک بہن گھر میں رہ جاتی ہے جووالدین کی خدمت کرتی ہے۔اب بعض والدین اس وجہ سے اپنی بیٹی کارشتہ نہیں ہونے دیتے کہ اگر یہ بھی گھر سے چلی گئی توہماراخیال کون رکھے گا۔یہ اپنی بیٹی پر ظلم ہے اور اللہ  کے حکم کے  بھی خلاف ہے۔یہ بات یادرکھیں کہ انسان کو جوانی میں  جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ عمراگرہم سفر کے بغیرگزرجائے تو اس کے بعدانسان کی شخصیت میں نفسیاتی  عوارض پیدا ہوجاتے ہیں۔وہ مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتاہے اور اس کے اندرگھٹن بھی بڑھ جاتی ہے جس کااظہار وہ مختلف منفی رویوں کی صورت میں کرتاہے۔لہٰذا والدین کو چاہیے کہ ان کی بیٹی کے لیے جب بھی مناسب رشتہ آجائے اسے قبول کرکے بیٹی کاگھر بسائیں۔


شادیاں مشکل بنانے کے ذمہ دارہم سب ہیں۔دین اسلام نے نکاح کوانتہائی آسان بنایاہے اورولیمے کاحکم بھی فرد کی استطاعت کے مطابق دیاہے لیکن معاشرے کی نام نہاد رسومات اور دکھاوے کی کوشش میں ہم نے اسے انتہائی مشکل بنادیا ہے۔آج نکاح کے لیے مہنگے ترین ہال بک کرائے جاتے ہیں۔کئی کئی دن پروگراموں کا سلسلہ چلتاہے جس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کی شادی پرمجموعی طورپرایک کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں اوریہ سب کچھ اس لیے کیاجاتاہے تاکہ لوگ واہ واہ کریں۔دراصل جب ہم اسراف کی انتہاکردیتے ہیں تویہیں سے بے برکتی کی بنیادپڑجاتی ہے ۔اگر شادی کا مقصد میاں بیوی کاسکون ، راحت اورآسودگی ہے تو اس کے لیے لوگوں کو خوش کرنے اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔اگرہم اسی طرح رسم و رواجوں کی دنیا میں  سر نگوں رہیں گے    تو ہمارا سماج ہمارے ہاتھوں  یرغمال رہے گا   


د   


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر