Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
جمعہ، 23 اگست، 2024
اب اغوا برائے تاوان کا نام "ہنی ٹریپ" ہے
جمعرات، 22 اگست، 2024
آ م بادشاہ اور ساون کا موسم
بدھ، 21 اگست، 2024
جکارتہ کب ڈوبے گا
منگل، 20 اگست، 2024
شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ
جناب محمد بن محمد بن نعمان المعروف شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کا نام ہم بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں آپ ۱۱ ؍ذی القعدہ ۳۳۸ ھ کو بغداد کے قریب عکبری نامی علاقہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد معلم تھے اس لئے آپ کو ابن معلم بھی کہا جاتا ہے۔ آپ چوتھی اور پانچویں صدی کے شیعہ اثناعشری نامور فقہاء اور متکلمیں میں شمار ہوتے تھے، اور کئی علوم میں آپ نے قلم فرسائی کی۔ آپ کی کتابوں میں المقنعۃ علم فقہ میں، اوائل المقالات علم کلام میں جبکہ الارشاد تاریخ میں بہت زیادہ مشہور ہیں۔آثار شیخ مفید شیخ مفید کی کتابوں کا مجموعہ ہے اور احمد بن علی نجاشی کے بقول شیخ مفید کے مجموعی مکتوبات 175 کتابوں اور رسالوں پر مشتمل ہےابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرنے کے بعد بغداد تشریف لے گئے جہاں مختلف شیعہ اور سنی علماء سے کسب فیض کیا اور بیس برس سے کم عمر میں درجہ اجتہاد و استنباط پر فائز ہوئے، آپ کے اساتذہ میں محدث عالی مقام جناب شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ سرفہرست ہیں۔ جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں ملتا ہے کہ وہ کثرت سے نماز پڑھتے، صدقہ دیتے اور مطالعہ کرتے تھے۔ جیسا کہ آپ کے داماد اور جانشین جناب ابو یعلی جعفری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ آپ راتوں میں کم سوتے تھے، نماز پڑھتے، قرآن کریم کی تلاوت کرتے، مطالعہ کرتے یا تدریس کرتے تھے۔
جب قاضی عبد الجبار کوئی جواب نہ دے سکا تو پوچھا آپ کون ہیں تو جناب شیخ مفید نے فرمایا: محمد بن محمد بن نعمان ہوں ۔ یہ سننا تھا کہ قاضی عبدالجبار اپنی جگہ سے اٹھے اور آپ کو اپنی جگہ بٹھایا اور کہا ’’انت المفید حقا‘‘ (حقیقت میں آپ عالم اسلام کے لئے مفید ہیں) نشست میں موجود علماء کو بہت ناگوار گذرا تو قاضی نے ان سے کہا کہ میں تو ان کا جواب نہ دے سکا اگر آپ میں سے کوئی ان کا جواب دے سکے تو جواب دے لیکن کسی نے کلام کی جرات نہیں کی ۔اسی طرح ملتا ہے کہ شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شب خواب میں دیکھا آپ بغداد کی مسجد کرخ میں تشریف فرما ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تشریف لائیں اور آپ سے فرمایا:’’ یا شیخ! علمھما الفقہ‘‘ (ائے شیخ ! ان دونوں کو فقہ کی تعلیم دیں ۔)
خواب سے بیدار ہوئے تو حیرت میں پڑ گئے کہ میں کون ہوتا ہوں دو معصوم اماموں کو تعلیم دوں ، دوسری جانب یہ بھی فکر لاحق ہوئی کہ معصوم کو خواب میں دیکھنا شیطانی خواب نہیں ہو سکتا ۔ صبح ہوئی تو شیخ نے جس مسجد کا خواب دیکھا اسی مسجد میں تشریف لے گئے ابھی تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ ایک جلیل القدر سیدہ خاتون کنیزوں کے جھرمٹ میں اپنے دو بیٹوں کو لے کر آئیں اور فرمایا:’’ یا شیخ! علمھما الفقہ‘‘ (ائے شیخ ! ان دونوں کو فقہ کی تعلیم دیں ۔) آپ کو خواب کی تعبیر مل گئی اور وہ دو بیٹے کوئی اور نہ تھے ایک جناب سید مرتضیٰ علم الہدیٰ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے جامع نہج البلاغہ جناب سید رضی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو اس طرح تعلیم دی کہ آگے چل کر دونوں بھائی افق علم پرمہر و ماہ بن کر چمکے۔ کہ ایک مرتبہ جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ اور جناب سید مرتضیٰ رحمۃ اللہ علیہ میں کسی علمی نکتہ میں اختلاف ہوا تو دونوں نے طے کیا کہ اس کا فیصلہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے کرائیں گے۔ جب مسئلہ کو کاغذ پر لکھ کر مولا کی ضریح مطہر کے حوالے کیا تو ادھر سے جواب آیا : ’’انت شیخی و معتمدی والحق مع ولدی علم الہدیٰ‘‘ (ائے شیخ مفید! آپ میرے لئے قابل اعتماد ہیں لیکن حق میرے بیٹے علم الہدیٰ (سید مرتضیٰؒ) کے ساتھ ہے۔ )ج
ناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کی درس میں جہاں شیعہ علماء و طلاب شرکت کرتے ہیں وہیں اہل سنت علماء کی بھی کثرت تھی۔ آپ نے طولانی علمی جہاد ، علم فقہ کی عالیشان عمارت کی بنیاد رکھنے اور کلام میں اعتدال کا راستہ کھولنے کا کارنامہ ، دشوار سماجی حالات میں انجام دیا ہے۔ اگرچہ بغداد میں آل بویہ کی حکومت نے آزاد علمی بحث کے لئے مناسب ماحول فراہم کیا تھا ، مگر اس وقت خلفاءکے تعصب آمیز طرزعمل اور شیخ مفید اور تمام شیعوں پر عباسی حکومت کے دباؤ کا مسئلہ ہر گز حل نہ کرسکی۔ بغداد کے علاقے کرخ کے شیعوں کی مظلومیت اور انہیں اور ان کے عظیم پیشوا کو جو اذیتیں دی جاتی تھیں، وہ ایسے حقائق ہیں کہ تاریخ صراحت کے ساتھ اس کی گواہی دیتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شیخ مفید کی تین بار کی جلاوطنی کے علاوہ جو تاریخ میں درج ہے ، 405 سے 407 تک تقریبا دوسال انہیں ایسی پریشانیوں اور اذیتوں میں مبتلا رکھا گیا کہ جن کی نوعیت صحیح طور پر معلوم نہیں ہے
آپ کی ذہانت اور حاضر جوابی اپنی مثال آپ تھی کہ اگر کوئی کتاب مذہب شیعہ کے خلاف لکھی جاتی تو آپ اس کا جواب ضرور لکھتے شیخ مفید کی فقہ ان دونوں نقائص سے پاک اور دونوں خوبیوں کی حامل ہے؛ امامیہ کے نزدیک معتبر روشوں پر استوار بھی ہے اور اس میں اصطلاحی اجتہاد سے استفادہ بھی ہے اور استدلال و استنباط نظری کی مداخلت بھی ہے۔ بنابریں شیخ وہ ہستی ہیں کہ جس نے شیعوں کے نزدیک معتبر اور مقبول علمی قالب تیار کیا، ماثور ( معصومین سے منقول ) مضامین اور اصول متلقات میں علمی نظم پیدا کیا اور اس کو شیعہ فقاہت کے مرکز میں باقی رکھا۔ یہ وہی چیز ہے کہ ان کے بعد صدیوں تک اور آج تک ، اصولی فقاہت میں جاری ہے اور اس کو رشد و ترقی کی اس منزل تک پہنچایا ہے جہاں آج وہ ہے۔کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو مخالفین نے سکون کی سانس لی کہ ان کا جواب لکھنے والا گذر گیا۔ (مرات الجنان فی تاریخ مشاہیرالاعیان ، جلد ۳، صفحہ ۱۹۹)افسوس ۳ ؍ رمضان المبارک ۴۱۳ ھ کو بغداد میں رحلت فرمائی، آپ کے شاگرد جناب سید مرتضیٰ علم الہدیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ پڑھی ۔ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہو نے کی سعادت حاصل کی۔
پیر، 19 اگست، 2024
جھیل ڈل کی فلوٹنگ مارکیٹ
انسان بھی کیا مخلوق ہے - وہ جہاں بھی جاتا ہے اپنے جینے کا سامان وہیں فراہم کر لیتا ہے-جموں کشمیر میں ڈل جھیل قدرت کا شاہکار تو ہے ہی تاہم اس کے ایک اور پہلو کا بہت کم لوگوں کو شاید علم ہے - جی ہاں! ڈل جھیل کی آغوش میں صبح سویرے ہر روز کشتیوں پر ایک سبزی بازار سجتا ہے جہاں ڈل جھیل میں باغیچوں اور پانی کے اوپر بنائے گئے گارڈنز میں تیار کی جانے والی سبزی فروخت کی جاتی ہے- ڈل جھیل کا یہ فلوٹنگ مارکیٹ یعنی تیرتا بازار کشمیر کے تہذیب و تمدن اور ثقافت کا ایک اہم جزو بن چکا ہے - فلوٹنگ مارکیٹ ہر روز صبح سویرے روشنی کی پہلی کرنوں کے ساتھ ہی سجتا ہے اور اس کے دو یا ڈھائی گھنٹوں کے بعد یہاں موجود تمام سبزی فروشوں کی تازہ سبزیوں سے بھری کشتیاں خالی ہوجاتی ہیں- یہ ملک کا پہلا اور واحد فلوٹنگ مارکیٹ ہے جو کئ دہائیوں سے یہاں ڈل جھیل میں مسلسل لگتا ہے یہاں سبزیاں کاشت کرنے والے درجنوں سبزی فروش کشتیوں میں بھر کر مختلف سبزیاں لے کر آتے ہیں اور پھر فروخت کرتے ہیں - یہ تاریخی فلوٹنگ مارکیٹ اپنے آپ میں ایک مثال ہے اور ملک میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا مارکیٹ ہے جو جھیل کے نیلے پانیوں میں مسلسل دہائیوں سے لگتا آیا ہے۔
فلوٹنگ مارکیٹ کی تاریخ-کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سوشل ورک میں زیر تعلیم محمد عباس جس کے گھر والے بھی ڈل کے اندر سبزیوں کی کاشت کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ فلوٹنگ مارکیٹ کی تاریخ ایک صدی سے زیادہ عرصے پر مہیت ہے - آواز دی وائس کے ساتھ ایک گفتگو میں انہوں نے بتایا " در اصل جب پرانے زمانے میں ٹرانسپورٹ کی سہولیات میسر نہیں ہوا کرتی تھی تو ہمارے آبا و اجداد جو سبزیاں کاشت کرتے تھے بعد میں وہ یہی سبزیاں کشتیوں کے ذریعے وہ ایک جگہ سپلائی کرتے تھے - اس کی تاریخ بہت پرانی ہیں اور بعد میں یہ دھیرے دھیرے ایک منڈی کی شکل اختیار کرگیا " ڈل کے آس پاس آباد کئ دیہات کا روزگار اسی پر منحصر ہے اور وہ دہائیوں سے ڈل میں سبزیاں کاشت کرکے کشتیوں میں لاد کر ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں جہاں سے بعد میں یہ سبزیاں سرینگر اور دیگر جگہوں کے لئے سپلائی کی جاتی ہیں- اسی تاریخ اور روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سینکڑوں سبزی کاشتکار ہر روز صبح یہاں اپنی اپنی کشتیوں میں بھر کر سبزیاں لاتے ہیں تاکہ وہ انہیں فروخت کرسکے-
فلوٹنگ مارکیٹ کی خاصیت-ڈل جھیل میں لگنے والے فلوٹنگ مارکیٹ کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں کشتیوں میں مختلف اقسام کی اور تازہ سبزیاں بکتی ہیں جن میں ٹماٹر، بیگن، کدو ، ساگ، شملہ مرچ اور ندرو کے علاوہ دیگر اقسام کی سبزیاں وافر مقدار میں خرید و فروخت ہوتی ہیں - علی محمد نامی ایک سبزی فروش نے آواز دی وائس کو بتایا " فلوٹنگ مارکیٹ میں بکنے والی سبزیوں کی خاصیت یہ ہے کہ یہ آرگینک طریقے پر اگائی جاتی ہیں اور اس میں کم سے کم کھادوں کا استعمال کیا جاتا ہے- اس کے علاوہ ہر دن نئی اور تازہ سبزیاں یہاں دستیاب رہتی ہیں اور یہ اس وجہ سے بھی بہت زیادہ بکتی ہیں کہ ان کا ذائقہ دیگر منڈیوں سے بکنی والی سبزیوں کے مقابلے میں اچھا ہوتا ہے- " فلوٹنگ سبزی مارکیٹ کی خاصیت یہ بھی ہے کہ یہاں پر فروخت ہونے والا ندرو اور ساگ شہرِ سرینگر کے علاوہ دیگر جگہوں میں بھی لوگ بہت زیادہ پسند کرتے ہیں اور اس کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے -
سیاحوں کے لئے توجہ کا مرکز-ڈھل جھیل کا یہ فلوٹنگ صبح کے اوقات میں لگتا ہے اور یہاں ایک سو سے زائد سبزیوں سے لدی کشتیوں کا بازار خوب سجتا ہے - سبزیوں کی خرید و فروخت کے علاوہ یہ مارکیٹ سیاحوں کے لئے بھی دلچسپی کا مرکز بنتا ہے - ڈل جھیل کے دلکش اور خوبصورت ہائوسبوٹس میں مقیم غیر مقامی و غیر ملکی سیاح اکثر اس فلوٹنگ مارکیٹ کا نظارہ کرنے کے لئے آتے ہیں اور بوٹس میں یہاں کی چہل پہل اور رونق کا مشاہدہ کرکے واپس پلٹتے ہیں - ہرشل نامی بنگلور کے ایک سیاح نے آواز دی وائس کو بتایا کہ جب انہوں نے پانیوں میں اس طرح کا تیرتا مارکیٹ دیکھا تو یہ ان کے لئے کافی انوکھا نظارہ تھا کیونکہ انہوں نے اس طرح کا مارکیٹ پہلی دفعہ دیکھا ہے - ان کے مطابق یہ ڈل جھیل کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے - انہوں نے اس مارکیٹ کی تصاویر بطور یاداش اپنے ساتھ رکھی ہیں جسے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے گھر والوں کو واپسی ہر دکھائے ۔ سرینگر کے مضافات میں واقع کئ دیہات جو ڈل جھیل کے متصل آباد ہیں جن میں سعدہ کدل ،میر بحری، کانڈ محلہ، عشائی باغ وغیرہ شامل ہیں کی اکثر آبادی کا روزگار ڈل جھیل پر ہی منحصر ہے اور یہاں بیشتر لوگ سبزیاں کاشت کرکے بعد میں فلوٹنگ مارکیٹ میں سپلائی کرتے تھے لیکن کئ برس پہلے سرکار نے ڈل مکینوں کی بازآبادکاری کی پالیسی کے تحت انہیں یہاں سے منتقل کرکے شہر سے باہر بسانا شروع کیا جس کی وجہ سے اس مارکیٹ میں قریباً 40 فی صد کمی واقع ہوگئی - جھیل ڈل کے رہنے والے ایک ماحولیاتی کارکن بتایا کہ کئ برس قبل فلوٹنگ مارکیٹ میں دو سو سے لیکر تین سو افراد جو سبزیوں کی کاشت کرتے تھے اپنی کشتیوں میں یہاں سبزیاں لاتے تھے لیکن اب اس تعداد میں کافی کمی واقع ہورہی ہے - انہوں نے بتایا ایک تو بیشتر آبادی کو یہاں سے منتقل کیا گیا ہے دوسرا نئ پود اس کام میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی ہیں جس کی وجہ سے بھی ڈل جھیل میں لگنے والے فلوٹنگ مارکیٹ میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے
جموں و کشمیر کے سرینگر میں واقع جھیلِ ڈل دنیا کے شہرہ آفاق سیاحتی مقامات میں ایک ہے اور یہ اپنے قدرتی حسن کے اعتبار سے دنیا بھر میں معروف ہیں - ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے سیاح یہاں کا نظارہ کرنے کے لئے ضرور آتے ہیں - ڈل کے - ڈل جھیل کا انتہائی خوبصورت نظارہ یہاں سے گزرنے والے ہر فرد کو اپنی جانب اس طرح مائل کرتا ہے کہ انسان ڈل جھیل کے کنارے بیٹھ کر اس کی ٹھنڈی اور دل کو چھو لینے والی ہواؤں کو گلے لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے اور یہاں اپنی زندگی کے کچھ پل ضرور گزارتا ہے - مقامی و غیر مقامی سیاحوں کے لئے ڈل جھیل ہمیشہ کشمیر میں توجہ کا مرکز ہوتا ہے -ڈل جھیل کا دوسرا پہلو-کناروں پہ آباد مُغل باغات جن میں شالیمار باغ اور نشاط باغ قابل ذکر ہے ڈل کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں کشمیر میں مغل دور حکومت میں تعمیر کیے گئے باغات موجود ہیں تاہم جھیل ڈل کے کنارے پر واقع نشاط اور شالیمار باغ اپنی خوبصورتی اور طرز تعمیر کے اعتبار سے سب سے جداگانہ ہیں ۔نشاط باغ جھیل ڈل کے مشرق میں زبرون پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ یہ باغ چنار اور صنوبر کے درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس باغ کی خوبصورتی اور قدیم طرز تعمیر کے لحاظ سے مغل باغات میں سے نشاط سیاحوں کی پہلی پسند رہتا ہے ۔خواں کو ملکی ہو یا غیر ملکی سیاح۔موسم بہار ہو یا یہ خزاں۔ ہر موسم میں آنے والے سیاح باغ کے اندر رنگ برنگے پھولوں، بہتے پانے کے جھرنے اور فواروں کا مزا لینے کے لئےآتے ہیں
اتوار، 18 اگست، 2024
امام حسن مجتبیٰ علیہ السّلام - سیرت مبارک پارٹ 1
امام حسن 15 صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رمضان 3 ہجری کی شب مبارک کو مدینہ منورہ میں سورہ کوثر کی پہلی تفسیربن کر کا شانہ نبوت 'صحن امامت علی المرتضیٰ والمجتبیٰ و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا میں تشریف لائے ۔ رسولِ خداسید عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور خانواد ہ ء بنو ہاشم کیلئے امام حسن کی ولادت بہت بڑی خوشی تھی -لعابِ دہن -جب سرکا دو عالم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ خوشخبری ملی کہ وہ اپنے پہلے نواسے کے نانا بن گئے ہیں آپ اسی وقت اپنی بیٹی سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر بیت الشرف تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے اسماء بنت ِ عمیس میرے فرزند کو لاؤ۔‘‘ بی بی اسماء نومولود کو لے کر حاضر خدمت ہوئیں ۔ سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نومولود کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر فرمائی اور آپ کے مبارک دہن میں اپنا لعابِ دہن ڈال کر گھٹی کی رسم ادا کی۔ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود عقیقہ فرمایا اور آپ کے سر مبارک کے بال منڈوائے اور حکم دیا کہ ان بالوں کے ہم وزن چاندی خیرات کی جائے۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہٗ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عقیقہ کرتے وقت یہ دعا فرمائی ’’اے میرے اللہ! اس کی ہڈی مولود کی ہڈی کے عوض ہے اور اس کا گوشت اس کے گوشت کے عوض ہے اور اس کا خون اس کے خون کے عوض ہے اور بال اس کے بعوض مولود کے بال ہیں۔ اے اللہ اس قربانی ٔ عقیقہ کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اس کی آل کو بچانے والا بنا۔‘لوح محفوظ میں درج آپ کا نام حضرت جبرئیل امین لے کر آئے
حضرت سیّدنا امام حسن چھ سال اور چار مہینے اپنے نانا حضور سرکارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سایۂ عاطفت میں رہے اور سات سال سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسی طاہرہ ماں کی آغوش کے زیر ِتربیت رہے اور تقریباً عرصہ 37 سال اپنے والد بزرگوار سیّدنا علی المرتضیٰ کے فیوض و برکات سے مستفیض رہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی پاکیزہ ہستیوں کی آغوش میں پرورش پانے والے امامِ جلیل میں یقینا وہی تاثیر ہو گی جو ان عظیم ہستیوں میں ہے۔روایات میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیّدنا امام حسن سے محبت و الفت کے بے شمار ثبوت موجود ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’میں حضرت سیّدنا امام حسن کو اس وقت سے محبوب رکھتا ہوں جب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ریش ِ انور میں انگلیاں ڈال رہے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی زبانِ مبارک ان کے منہ میں دے کر فرماتے ہیں ’’اے اللہ میں اسے اپنا محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے اپنا محبوب رکھ۔‘ دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے اللہ! مجھے حسن سے محبت ہے تو بھی ان سے محبت فرما اور جو کوئی ان سے محبت کرے تو اس کے ساتھ محبت فرما۔‘‘طبقات ابنِ سعد‘‘ میں صحیح سند کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن ِ زبیررضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں ’’میں نے دیکھا اس حال میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب حالت ِ سجدہ میں تشریف لے جاتے تو حضرت امام حسن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کمر مبارک پر سوار ہو جاتے۔ جب تک آپ خود نہ اترتے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس وقت تک سجدہ میں ہی رہتے اور میں نے دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رکوع فرماتے تو حضرت امام حسن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مبارک پیروں کے درمیان میں گھس جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رکوع سے اٹھ کر سجدہ میں نہ جاتے جب تک وہ دوسری جانب سے نکل نہ جاتے۔‘
روایات اس بات پر شاہد ہیں کہ سیّدنا امام حسن علیہ السلا م کے کے دربارِ اقدس سے کبھی کوئی خالی نہ گیا اور ہر وقت سخاوت کا دروازہ کھلا رہتا۔ حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کشف المحجوب میں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک اعرابی آپ کے در پر آیا اور گالیاں بکنے لگا۔ پیکرِ حلم نے سب کچھ برداشت کرتے ہوئے کہا اے اعرابی! کیا تجھے بھوک لگی ہے یا پیاس یا کوئی اور مصیبت تجھے لاحق ہے۔ مجھے بتا تاکہ میں تیری مدد کروں۔ آپ نے غلام کو حکم دیا کہ درہموں کی ایک تھیلی اس اعرابی کو لاکر دے دو اور اعرابی سے فرمایا کہ معاف کرنا گھر میں اس وقت صرف یہی کچھ موجود تھا اگر اور کچھ موجود ہوتا تو میں تمہیں دینے سے دریغ نہ کرتا۔ جب اس اعرابی نے آپ کی بات سنی تو بے اختیار پکار اُٹھا ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ وآلہٖ وسلم کے صاحبزادے ہیں اور میں تو آپ کے حلم اور بردباری کا تجربہ کرنے آیا تھا۔‘‘ حقیقت شناس اولیا و مشائخ کی یہی صفت ہوتی ہے کہ لوگوں کی مدح اور مذمت ان کے نزدیک برابر ہوتی ہے۔ (کشف المحجوب)کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر تنگدستی کی شکایت کی۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے اسے پچاس ہزار اشرفیاں دیں۔ وہ اشرفیاں اس سے اٹھائی نہ گئیں تو اس نے مزدور کو بلوایا۔ آپ نے مزدور کی اجرت بھی خود ادا کی۔
ایک بار حضرت علی علیہ السلام کے کے دورِ خلافت میں آپ کے سامنے ایک مقدمہ پیش کیا گیا جس میں ایک ہی قتل کا اعتراف دو ملزمان کر رہے تھے۔ ایک قاتل کو لوگ پکڑ کر لائے تھے اور دوسرا خود پیش ہوا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے نے پہلے ملزم سے اس کے اعتراف کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ جن حالات میں میری گرفتاری ہوئی میرے پاس اعترافِ جرم کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ اگر میں انکار کرتا تو کوئی یقین نہ کرتا۔ واقعہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں قصاب ہوں میں نے جائے وقوعہ کے قریب ایک بکرے کو ذبح کیا۔ گوشت کاٹ رہا تھا کہ مجھے رفع حاجت کی غرض سے کچھ دور جانا پڑا۔ ابھی میں فارغ ہوا ہی تھا کہ میری نظر پاس پڑی ہوئی ایک لاش پر پڑی۔ اسی دوران وہاں کچھ اور لوگ بھی جمع ہوگئے۔ میرے خون آلود ہاتھ اور میری چھری دیکھ کر وہ سمجھے کہ میں ہی قاتل ہوں کیونکہ میرے سوا وہاں اور کوئی موجود نہ تھا۔ اگر میں انکار کرتا تو کوئی میری بات کا یقین نہ کرتا لہٰذا مجھے مجبوراً اعتراف کرنا پڑا۔ جب اعترافِ جرم کرنے والے دوسرے شخص سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ میں ایک اعرابی ہوں‘ مفلس ہوں مال کی طمع میں اس شخص کو قتل کیا۔ مال ابھی نکال نہ پایا تھا کہ لوگوں کے آنے کی آہٹ سنی۔ میں چھپ گیا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ اس بے گناہ شخص کو میرے کیے ہوئے قتل کی بنا پر گرفتار کر کے لے جارہے ہیں۔ مجھے سخت رنج ہوا اس لیے میں نے خود کو پیش کر دیا۔تمام واقعہ سن کر حضرت علی نے حضرت امام حسن سے پوچھا کہ آپ کی اس مقدمے کے متعلق کیا رائے ہے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’اے امیر المومنین ( ! اگر اس شخص نے ایک کو ہلاک کیا ہے تو ایک شخص کی جان بھی بچائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَانَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ترجمہ: جس نے ایک شخص کی جان کو بچا لیا اس نے گویا سب لوگوں کی جان کو بچا لیا۔‘‘حضرت علی علیہ السلام کو حضرت حسن علیہ السلام کی اس فہم و فراست پر بہت خوشی ہوئی اور آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہٗ کے مشورہ کے مطابق اس اعرابی کو معاف کر دیا اور مقتول کا خون بہا بیت المال سے ادا کرنے کا حکم دیا۔اور آپ نے علم کے درجات اپنے پدرگرامی کی زات سے حاصل کئے۔
حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایاہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طفر ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ کے ،میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں -رسول اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب (اولاد فاطمہ )اور رشتہ کے (حاکم المستدرک ،طبرانی المعجم الکبیر،احمد بن حنبل فضائل الصحابہ،شوکانی )۔نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کیلئے بھی رسول خدا امام حسن و حسین کو اپنے فرزندان کے طور پرا س طرح ساتھ لے کر گئے کہ آپ کی آغوش مبارک میں امام حسین علیہ السلام تھے اور آپ کی انگشت مبارک امام حسن کے ننھے سے ہاتھ میں تھی پشت مبارک پر بی بی سیدہ سلام اللہ علیہا چل رہی تھیں اور ان یکے پیچھے امام دنیا و امام عقبیٰ تھے -اور عیسائ راہبوں نے یہ منظر دیکھ کر مباہلہ سے دست برداری اختیار کر کے جزیہ دینا قبول کیا -اور اس واقعہ پر قرآن کی آیت گواہ ہے
ہفتہ، 17 اگست، 2024
بڑے خواب دیکھنے والا ایک بڑا انسان -آغا حسن عابدی
’’آغا حسن عابدی ان عظیم انسانوں میں سے ایک تھے جو اپنے خوابوں کو پورا کر گئے ۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مثالی محب وطن اور لیجنڈری بینکار تھے۔ان کی ولادت 14مئی 1922ء کو بر صغیر کے انتہائ اعلیِ تہذیبی شہر لکھنؤ میں ہوئ ۔ان کے آباؤ اجداد نے کئی نسلوں تک نوابوں اور راجوں مہاراجوں کے اتالیق و مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ 1947 میں برصغیر تقسیم ہوا تو آغا صاحب ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور خود کو اس کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کردیا۔ انھوں نے انگریزی ادب میں ایم اے اور پھرقانون کی ڈگری لکھنؤ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اس کے بعد بنکاری کا شعبہ اپنایا اور 1946ء میں حبیب بنک سے منسلک ہوئے۔ وہ اس بنک کے متعدد انتظامی عہدوں پر فائز رہے ۔1972ء میں جب پاکستان میں بینکوں کو قومی ملکیت میں لیا گیا تو آغا حسن عابدی نے متحدہ عرب امارات کے شیوخ کے مالی تعاون سے بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس (Bank of Credit and Commerce International۔ BCCI) کے نام سے ایک بین الاقوامی بنک قائم کیا۔ جس کی شاخیں بہت جلد دنیا کے 72 ملکوں میں پھیل گئیں۔
آغا صاحب نے 1940 کے عشرے کے آخر میں ایک بینک سے اپنا بینکنگ کیریئر شروع کیا اور تیزی سے ترقیاں حاصل کیں۔ انھیں بینک کے مالک سے متعارف کرانے والے کوئی اور نہیں خود راجا صاحب محمودآباد تھے۔ 1959 میں انھوں نے ایک دوسرے بینک میں شمولیت اختیار کرلی، وہاں بھی انھوں نے تیزی سے آگے بڑھنے کی روایت برقرار رکھی اور سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ان کی زیر قیادت یو بی ایل نے پاکستان کا بینکنگ کلچر بدل کر رکھ دیا اور ملک کا دوسرا بڑا بینک بن گیا۔ مگر یہ ان کی شمولیت کے بعد بینک کی ترقی کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔1972 میں جب پاکستان میں بینکوں کو قومی تحویل میں لیا گیا، آغا صاحب نے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی) کے نئے پروجیکٹ پر کام شروع کیا، انھوں نے عربوں کو اس میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے قائل کیا جس کے نتیجے میں دنیا کے بڑے بینکوں میں ایک اور ایسے بینک کا اضافہ ہوا جس کے دفاتر دنیا کے 72 ملکوں میں قائم تھے۔ اس کے ملازمین کی تعداد 16 ہزار تھی اور آغا صاحب نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ملازمین کی اکثریت پاکستانیوں پر مشتمل ہو۔ اپنے ملک اور ہموطنوں کے لیے وہ ایسی ہی سوچ اور جذبہ رکھتے تھے۔ بینک کے اعلیٰ انتظامی افسران میں سے 80 فیصد سے زائد کا تعلق بھی پاکستان سے تھا۔
اور یہ دنیا کے بہتیرین بینکوں میں شمار ہونے لگا ۔ آغا حسن عابدی نے بی سی سی آئی کو ایک کمرشل بینک کی حیثیت سے قائم کیا تھا مگر اسے تیسری دنیا کے ممالک کے محروم پسماندہ اور کم مراعات یافتہ اقوام کی ترقی کے لیے ایک فعال ادارے میں ڈھال دیا۔ انھوں نے اپنے بنک کے زیر اہتمام متعدد خیراتی اور فلاحی ادارے اور فاؤنڈیشن قائم کیے جنھوں نے دنیا کے بہت سے ممالک خصوصاً پاکستان میں فلاحی کام سر انجام دیےوہ ایک مضبوط پاکستان تعمیر کرنے میں ان کے کردار سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ۔ فاسٹ نیشنل یونیورسٹی اور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ سے ہر سال ہزاروں گریجویٹ نکلتے ہیں، ان میں سے چند ہی جانتے ہوں گے کہ ان باوقار اداروں کی بنیادیں کس نے رکھی تھیں۔ یہ اسی ایک شخص کا ویژن تھا جس نے پاکستان کی ترقی میں بھرپور کردار ادا آج کے تاریک دور میں پاکستانی نوجوانوں کو ایسی متاثر کن شخصیات سے متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے جن کے نقش قدم پر چل کر وہ زندگی میں کامیابیاں و کامرانیاں سمیٹ سکیں۔انھوں نے ثابت کیا کہ قوم کی خدمت کے لیے سیاست واحد ذریعہ نہیں ہے۔
بی سی سی آئی کی ترقی سب کی توقعات سے کہیں زیادہ تھی۔انہوں نے نہا ئت برق رفتاری سے ترقی کی اور بہت جلد بی سی سی آئی کو دنیا بھر کا سب سے بااثر بینک بنادیا،یہ اعزاز بھی بی سی سی آئی کو حاصل ہے کہ اس نے بینکاری کے شعبے میں کامیاب پیشہ ور لوگوں کی کمی پوری کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں پاکستانیوں کو تربیت دی۔ آج اگر پاکستان کے بینکاری اور مالیات کے شعبے جدید خطوط پر استوار اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں تو یہ کارنامہ بھی آغا صاحب ہی کا مرہون منت ہے۔ آغا صاحب کو ویژنری کہنا غلط نہ ہوگا۔ انھوں نے پاکستان میں بہت پہلے کمپیوٹر سائنس کو متعارف کرایا، جب بہت کم لوگ جانتے تھے کہ یہ کس بلا کا نام ہےپاکستان میں کمپیوٹر سائنس کو فروغ دینے کی خاطر انھوں نے 1980 میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے بی سی سی آئی فاؤنڈیشن (فاسٹ) قائم کرنے کے لیے 100 ملین روپیہ کا عطیہ دیا۔ سال 2000 نے فاؤنڈیشن کی طرف سے فاسٹ نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز کو وجود میں آتے دیکھا۔ اس بڑی یونیورسٹی کے کیمپس اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور میں قائم ہیں۔ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ (جی آئی کے آئی) بھی انہی کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا۔ ان دونوں اداروں نے کئی سائنسدان اور انجینئرز پیدا کیے ہیں جو پاکستانی معیشت کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔آغا صاحب ایک ایسے تاجر تھے جو اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ آدمی کا مقصد حیات غریبوں کی مدد کرنا ہونا چاہیے۔ ان کے سرانجام دیے ہوئے عظیم کارناموں کا ثبوت یہ ہے کہ وفات کے کئی سال بعد آج بھی لوگ ان کی مخیرانہ سرگرمیوں سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ آغا صاحب نے زندگی کی آخری سانسیں کراچی کے ایک بڑے اسپتال میں دوران علاج لی تھیں، وفات کے وقت ان کی عمر 74 برس تھی۔ خرابی صحت کی بنا پر وہ بی سی سی آئی سے بہت پہلے 1988 میں ہی علیحدگی کرچکے تھے۔ آغا صاحب کو علیحدگی اختیار کیے ہوئے بمشکل 3 سال ہوئے تھے جب تیسری دنیا کا یہ قابل فخر بینک بند کردیا گیا۔
6 اگست 1995 کو نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ بی سی سی آئی پر لگائے جانے والے الزامات میں کوئی سچائی تھی بھی تو آغا حسن عابدی سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا، ان کا اپنا کہنا بھی یہی تھا کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ وہ ایک شاعر اور مستقبل پر نظر رکھنے والے (ویژنری) آدمی تھے۔انھوں نے بی سی سی آئی کی شکل میں جو بینک قائم کرنے کا خواب دیکھا تھا اس کے ذریعے وہ عوامی بہبود کے کام کرنا اور تیسری دنیا کے ممالک سے غربت ختم کرنا چاہتے تھے۔وہ لندن میں رہتے اور انتہائی نفیس و خوش لباس آدمی تھے۔ شیخ زید بن سلطان النہیان کے علاوہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر بھی آغا صاحب کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ بقول شاعر ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی۔2انھوں نے نو آزاد متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان کا اعتماد حاصل کیا اور ان کی مالی اعانت سے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کے نام سے ایک عالمی بینک کے قیام کا ڈول ڈال دیا
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...