حبیب بن مظاہر اسدی، قبیلۂ بنو اسد میں سے اور کوفہ کے باشندے ہیں اور حضرت علیؑ کے خاص صحابی ہیں۔ ۔وہ ان کوفیوں میں سے ہیں جنہوں نے امیر شام کی موت اور خلافت یزید کی باز گشت کے بعد امام حسینؑ کو خط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی لیکن جب انھوں نے کوفیوں کی بیعت شکنی کو دیکھا تو چپکے سے کوفہ چھوڑ کر امام حسینؑ سے جا ملے اور 75 سال کی عمر میں امام حسینؑ کی رکاب میں جام شہادت نوش کرگئےحبیب بن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ خفیہ طور پر لوگوں سے مسلم کے لئے بیعت لیتے تھے اور اس راہ میں ان دو نے کوئی قصور روا نہيں رکھا۔ ابن زیاد کوفہ آیا اور لوگوں پر دباؤ ڈالا تو انھوں نے مسلم کا ساتھ چھوڑ اور بیعت توڑ دی چنانچہ قبیلۂ بنو اسد نے حبیب اور مسلم بن عوسجہ کو پناہ دی تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے اور موقع پاکر دونوں خفیہ طور پر کوفہ سے نکل گئے۔حبیب شہر کوفہ میں میثم سے کہتے ہیں: "گویا ایک مرد کو دیکھ رہا ہوں جو الزرق کے بازار میں خوبوزے فروخت کررہا ہے ۔
عاشورا میں میسرہ کے کمانڈر
صبح عاشورا جب امام حسین علیہ السلام نے اپنے لشکر کو آراستہ کیا تو زہیر بن قین کو میمنہ کا سالار مقرر کیا اور حبیب بن مظاہر کو میسرہ کا سالار اور قلب لشکر کی کمان بھائی ابوالفضل کے سپرد فرمائی۔شکر یزید کی طرف سے زیاد بن ابیہ کا غلام "یسار" اور عبیداللہ بن زیاد بن ابیہ کا غلام "سالم" دونوں میدان میں آئے اور حریف طلب کیا۔ حبیب اور بریر ہمدانی مقابلے کے لئے اٹھے مگر امام نے انہیں اجازت نہ دی۔ بعدازاں عبیداللہ بن عمیر کلبی ان کی طرف لپکے اور اپنا تعارف کرایا لیکن انھوں نے حبیب، زہیر اور بریر کو جنگ مقابلے کے لئے طلب کیا؛ تاہم عبیداللہ بن عمیر نے کار نمایاں کرکے ان دونوں کو ہلاک کر ڈالا۔
بالآخر وہ سات محرم الحرام کو کربلا میں امام حسینؑ کے قافلے سے جاملےابن زیاد کوفہ آیا اور لوگوں پر دباؤ ڈالا تو انھوں نے مسلم کا ساتھ چھوڑ اور بیعت توڑ دی چنانچہ قبیلۂ بنو اسد نے حبیب اور مسلم بن عوسجہ کو پناہ دی تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے اور موقع پاکر دونوں خفیہ طور پر کوفہ سے نکل گئے۔ وہ دن کی روشنی میں ابن زياد کے جاسوسوں اور گماشتوں کی نظروں سے کہیں چھپ جاتے تھے اور راتوں کو سفر کرتے تھے حتی کہ امام حسینؑ کی لشکر گاہ تک پہنچے۔ بالآخر وہ سات محرم الحرام کو کربلا میں امام حسینؑ کے قافلے سے جاملےاپنی کم تعداد کے باوجود اپنی قوت ایمانی سے لیس اور اخلاص کے ساتھ اسلام کے دفاع اور محبت و ولایت اہل بیت علیہم السلام سے سرشار جذبے کے ساتھ دشمن کے سامنے ڈٹ گئے ان باوفاء اصحاب نے عطاء وفداء کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملے گی جس کی گواہی حضرت امام حسین علیہ السلام کے اپنے اصحاب کے بارے میں کہے گئے کلام سے ملتی ہے
حبیب کا بنی اسد سے مدد مانگنا
عمر بن سعد کے لشکر میں مسلسل میں اضافہ ہوتا گیا تو حبیب امام حسین علیہ السلام سے اجازت لے کر قبیل بنی اسد کی طرف چلے گئے اور ایک مفصل خطبہ دے کر ان سے مدد مانگی۔انھوں نے اپنے خطاب کا کچھ یوں آغاز کیا: "میں تمہارے لئے بہترین تحفہ لے کر آیا ہوں اور تم سے درخواست کرتا ہوں کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی مدد کے لئے چلے آؤ؛ کیونکہ آپ اپنے بہادر اصحاب کی ایک جماعت کے ہمراہ - جن میں سے ہر فرد ایک ہزار افراد کے برابر ہے اور آپ کے فرمان سے سرتابی نہیں کرتے اور اپنے پورے وجود کے ساتھ آپ کا دفاع کرتے ہیں تاکہ آپ کو دشمنوں کی طرف سے کسی قسم کی گزند نہ پہنچے - کربلا کی سرزمین پر موجود ہیں جنہیں عمر بن سعد کی سرکردگی میں 22 ہزار یزیدیوں پر مشتمل لشکر نے گھیرے میں لے لیا ہے۔ تم میرے اقرباء اور اعزاء میں سے ہیں، میری نصیحت کی طرف توجہ کرو تاکہ دنیا اور آخرت کی شرافت حاصل کرسکو۔۔۔ خدا کی قسم! تم میں سے جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے فرزند کے راستے میں بصیرت و آگہی کے ساتھ جام شہادت نوش کرے گا وہ اعلٰی عِلِیّین (یعنی جنت کے اعلیٰ درجے لوگوں کے رتبے) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ ہوگا" جس شخص نے سب سے پہلے حبیب کی ندا پر لبیک کہا اور وفاداری کا اعلان کیا وہ "عبد اللہ بن بشر" تھے۔ عبد اللہ اور بنی اسد کے کچھ افراد حبیب کے گرد جمع ہوئے اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں شرف حضور پانے کا ارادہ کیا لیکن یزیدی فوج سے ازرق بن حرب صیداوی نے 4000 افراد کا لشکر لے کر ان پر حملہ کیا اور قبیلہ بنی اسد کو منتشر کردیا۔ حبیب، امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ماجرا کہہ سنایا۔
مندرجہ ذیل کا رجز حبیب بن مظاہر سے منسوب ہے:
أَنَا حَبيبٌ وَأبي مُظَّهَرْ • فارِسُ هَيجاءٍ وَلَيثُ قَسْوَرْ
وَفي يميني صارِمٌ مُذَکَّرْ • وَفيكُمُ نارُ الجَحيمِ تُسْعَر
أَنْتُمُ أَعَدُّ عُدُّةً وَأَكْثَرْ • وَنَحْنُ في كُلِّ الأُمورِ أَجْدَر
وَأَنتُمُ عِنْدَ الوَفاءِ أَغْدَر • لَنَحْنُ أَزْكى مِنْكُمُ وَأَطْهَرْ
وَنَحْنُ أَوْفى مِنْکُمُ وَأَصْبَرْ • وَنَحْنُ أَعْلى حُجَّةً وَأَظْهَرْ
حَقّاً وَأَتْقى مِنْكُمُ وَأعْذَرْ • المَوْتُ عِنْدي عَسَلُ وَسُكَّرْ
مِنَ البَقاءِ بَينَكُم يا خُسَّر • أَضْرِبُكُم وَلا أَخافُ المَحْذَرْ
عَنِ الحُسَينِ ذِي الفِخارِ الأَطْهَرْ • أنْصُرُ خَيرِ الناسِ حينَ يذْكَرْ؛ (45)
میں حبیب ہوں، میرا والد مظاہر ہے
بھڑکتی شعلہ ور رزمگاہ کا شہسوار ہوں
ہاتھ میں میرے عمدہ کاٹ کی تلوار ہے
جو تمہارے درمیان دوزخ کی آگ بھڑکاتی ہے
تم گنتی میں زیادہ اور ہتھیاروں سے لیس ہو
جبکہ ہم تمام معاملات میں زیادہ لائق ہیں
تم وفاء کے لحاظ سے عہدشکن اور بہت زیادہ غدار ہو
اور ہم پاک تر اور پاک سرشت تر ہیں
اور ہم تم سے زیادہ وفادار اور زیادہ صبر کرنے والے ہیں
اور ہم حجت و استدلال کے لحاظ سے برتر اور پاک تر ہیں
حق یہ ہے کہ ہم تم سے زیادہ پرہیزگار اور زیادہ صاحب برہان ہیں
موت میرے نزدیک شہد اور شَکَر ہے
تمہارے درمیان بقاء اور رکنے کی نسبت، اے گھاٹے میں گھرنے والو
تمہیں مارتا ہوں اور کسی خبردار کرنے والے سے نہیں ڈرتا
حسین کی طرف سے، جو پاک ترین، سربلندلئے بیعت لیتے تھے