منگل، 23 اپریل، 2024

منفرد لہجے کی شاعرہ پروین شاکر

  24 نومبر، 1952 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔ آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انھوں نے بچپن میں پروین کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں-پروین شاکر نئے لب و لہجہ کی تازہ بیان شاعرہ تھیں، جنھوں نے مرد کے حوالے سے عورت کے احساسات اور جذباتی مطالبات کی لطیف ترجمانی کی۔ ان کی شاعری نہ تو آہ و زاری والی روایتی عشقیہ شاعری ہے اور نہ کُھل کھیلنے والی رومانی شاعری۔ جذبہ و احساس کی شدّت اور اس کا سادہ لیکن فنکارانہ بیان پروین شاکر کی شاعری کا خاصہ ہے۔ ان کی شاعری ہجر و وصال کی کشاکش کی شاعری ہے جس میں نہ ہجر مکمل ہے اور نہ وصل۔ جذبہ کی صداقت،رکھ رکھاؤ کی نفاست اور لفظیات کی لطافت کے ساتھ پروین شاکر نے اردو کی نسائی شاعری میں اک ممتاز مقام حاصل کیا۔ بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔پروین شاکر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے، ان کے مربّی احمد ندیم قاسمی کا کہنا تھا کہ پروین کی شاعری غالب کے شعر "پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا * افسونِ انتظار تمنا کہیں جسے" کا پھیلاؤ ہے۔ 

پروین شاکر  اپنے منفرد لب و لہجے اور عورتوں کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل پیش کرنے کے باعث اردو شاعری کو اک نئی جہت دیتی نظر آتی ہیں۔ وہ بےباک لہجہ استعمال کرتی ہیں، اور انتہائی جرات کے ساتھ جبر و تشدد کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے جذبات و خیالات پر شرم و حیا کے پردے نہیں ڈالتیں ۔ ان کے موضوعات محدود ہیں، اس کے باوجود قاری کو ان کی شاعری میں نغمگی،تجربات کی صداقت،اور خوشگوار تازہ بیانی ملتی ہے۔پروین شاکر 24 نومبر 1952 ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ۔ ان کے والد ،شاکر حسین ثاقب جو خود بھی شاعر تھے،قیام پاکستان کے بعد کراچی میں آباد ہو گئے تھے۔پروین کم عمری سے ہی شاعری کرنے لگی تھیں، اور اس میں ان کو اپنے والد کی حوصلہ افزائی حاصل تھی۔ پروین نے میٹرک کا امتحان رضویہ گرلز اسکول کراچی سے اور بی اے سر سید گرلز کالج سے پاس کیا۔ 

1972 میں انھوں نے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم ۔اے کی ڈگری حاصل کی، اور پھر لسانیات میں بھی ایم۔ اے پاس کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ عبداللہ گرلز کالج کراچی میں بطور ٹیچر ملازم ہو گئیں۔ 1976ء میں ان کی شادی خالہ کے بیٹے نصیر علی سے ہوئی جو ملٹری میں ڈاکٹر تھے۔ یہ شادی پروین کی پسند سے ہوئی تھی، لیکن کامیاب نہیں رہی اور طلاق پر ختم ہوئی۔ ڈاکر نصیر سے ان کا ایک بیٹا ہے۔ کالج میں 9 سال تک پڑھانے کے بعد پروین نے پاکستان سول سروس کا امتحان پاس کیا اور انھیں 1982 میں سیکنڈ سکریٹری سنٹرل بورڈ آف ریوینیو مقرر کیا گیا۔ بعد میں انھوں نے اسلام اباد میں ڈپٹی کلکٹر کے فرائض انجام دئے۔1990ء میں ٹرینٹی کالج جو امریکا سے تعلق رکھتا تھا سے تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی محض 25 سال کی عمر میں ان کا پہلا مجموعہ کلام "خوشبو" منظر عام پر آیا تو ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ انھیں اس مجموعہ پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

پروین کے پہلے مجموعے "خوشبو" میں اک نو عمر لڑکی کے رومان اور جذبات کا بیان ہے جس میں اس نے اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کو گہری فکر اور وسیع تخیّل میں سمو کر عورت کی دلی کیفیات کا انکشاف کیا ہے۔ان کے یہاں بار بار یہ جذبہ ابھرتا دکھائی دیتا ہے کہ وہ نہ صرف چاہے جانے کی آرزو کرتی ہیں بلکہ اپنے محبوب سے زبانی طور پر بھی اس کا اظہار چاہتی ہیں۔ پروین کی شاعری شباب کی منزل میں قدم رکھنے والی لڑکی اور پھر ازدواجی زندگی کے بندھن میں بندھنے والی عورت کی کہانی ہے۔ ان کے اشعار میں نئی پود کو اک شعوری پیغام دینے کی کوشش ہے، جس میں شادی کے غلط تصور اور عورت پر مرد کی اجارہ داری کو چیلنج کیا گیا ہے۔ پروین نے بار باردہراے گئے جذبوں کو د ہرانےوالی شاعری نہیں کی۔ انھوں نے شرما کر یا جھجک کر اپنی مشرقیت کی لاج رکھنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے شاعری سے ماورائیت کو خارج کر کےاردو کی نسائی شاعری کو اپنی بات اپنے انداز میں کہنے کا حوصلہ دی

پروین کی شخصیت میں بلا کی خود اعتمادی تھی جو ان کی شاعری میں بھی جھلکتی ہے۔ اسی کے سہارے انھوں نے زندگی میں ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کیا۔ 18 سال کے عرصہ میں ان کے چار مجموعے خوشبو ،صدبرگ،خودکلامی اور انکار شائع ہوئے۔ ان کی کلیات ماہ تمام 1994 ء میں منظر عام پر آئی۔ 1985 میں انھیں ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ اور 1986 میں یو ایس آئی ایس ایوارڈ ملا۔ اس کے علاوہ ان کو فیض احمد فیض انٹرنیشنل ایوارڈ اور ملک کے وقیع ایوارڈ "پرائڈ آف پرفارمنس" سے بھی نوازا گیا۔سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی۔ بی۔ آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔ 26 دسمبر 1994ء کو اک کار حادثہ میں ان کا انتقال ہو گیا- اور محض بیالیس برس کی عمر میں یہ زندگانی چھوڑ کر جانے والی پروین شاکر اپنے مدّاحوں کے دل میں آج بھی زندہ ہے   

پیر، 22 اپریل، 2024

سیالکوٹ توجہ کا طالب ہے


   بتایا جاتا ہے کہ سیالکوٹ کی کم و بیش چار ہزار سال پرانی تاریخی حیثیت ہے۔ایک اور تحقیق کے مطابق تحریک آزادی اور ختم نبوت کے ایک نامور مجاہد مولانا ظفر علی خان بھی سیالکوٹ میں ہی پیدا ہوئے۔سیالکوٹ نے میدان کرکٹ اور ہاکی کے بھی بے شمار نامور اور بڑے کھلاڑی پیدا کئے،جن میں ظہیر عباس، اعجاز احمد، شعیب ملک، شہناز شیخ اور منظور جونیئر جیسے درخشندہ ستارے شامل ہیں۔ سیالکوٹ کی علمی، ادبی، ثقافتی اور تاریخی حیثیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر صرف سیالکوٹ کی تجارتی اور کاروباری حیثیت کو ہی معیار بنا لیں تو پھر بھی یہ شہر اقبال پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔قیام پاکستان کے وقت جن دو تین شہروں سے ہندو کاروبار چھوڑ گئے، اُن میں سیالکوٹ بھی شامل تھا۔ بارڈر کے اُس پار  بھارت کا ضلع جموں تھا جس کی حیثیت صرف گیٹ وے ٹو کشمیر کی تھی مگر بھارت نے جموں کو اُس کے  کافی سال پہلے ڈویژن کا درجہ دے کر یہ ثابت کیا کہ یہ صرف ایک سرحدی علاقہ نہیں ہے جو جنگوں میں سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے بلکہ وہاں باقاعدہ ریڈیو سٹیشن بھی قائم کیا تاکہ سٹرٹیجک اہمیت بھی اجاگر ہو سکے۔  سیالکوٹ کے پاس ہلال استقلال کا منفرد اعزاز ہو یا سیالکوٹ میں ڈرائی پورٹ کا قیام ہو یا پھر ایئر پورٹ کا، سیالکوٹ کے دلیر اور فراخ دل کاروباری لوگوں نے سود و زیاں سے بے فکر ہو کر خالصتاً انسانی جذبوں سے لیس ہو کر نہ صرف شہر اقبال بلکہ ملکی معیشت کو مضبوط و مستحکم کرنے میں وہ تاریخی کردار ادا کیا کہ عصر حاضر میں پاکستان تو کیا دنیا کے کسی دیگر شہر کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ایئر پورٹ کا منفرد منصوبہ اِس قدر جامع اور ہمہ گیر ہے اور حکومت سے ایک پائی وصول کیے بغیر اتنا بڑا پراجیکٹ اپنی مدد آپ کے تحت پایہ تکمیل کو پہنچنا،پھر یہاں کی بزنس کمیونٹی کی جانب سے ”ائیر سیال“ کے نام سے اپنی ایئر لائن کامیابی سے چلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

 اسی طرح نوآبادیاتی طرز کے بنے ہوئے بیرکوں میں پرانی آرمی ویلفیئر شاپس کی کھڑکیوں، کلاسک برآمدے، اونچی چھتوں اور کشادہ لان میں اب وی مال کی تجارتی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں۔ تمام  مالز میں مقبول ریٹیل برانڈز موجود ہیں جبکہ یہاں فوڈ چینز، گروسری اور بچوں کے لیے پلیئنگ ایریا بھی موجود ہے۔کمرشلائزیشن اور مال کلچر کے اس پہلو پر تو افسوس کیا جاسکتا ہے کہ یہ متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے کے لیے بنایا گیا ہے (جس سے طبقات میں فرق ہوگا) لیکن اس کے قطع نظر ان شاپنگ مالز میں خواتین ملازمین کی موجودگی ایک مثبت امر ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے خواتین ریٹیل افرادی قوت میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے بیوٹی سیلون انڈسٹری کے علاوہ خواتین بطور سیلز پرسن، کیشئرز، کیوسک آپریٹر اور انٹرپرونیورز بھی کام کررہی ہیں۔سیالکوٹ مال کے میک اپ سٹی میں کام کرنے والی ایک خاتون سیلزپرسن سے میری بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھر کی کفالت کرتی ہیں جبکہ ان کے والد بھی چمڑے کی فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں۔لیکن سیالکوٹ کے نظرانداز شدہ شہر ہونے کا اس وقت شدت سے احساس ہوتا ہے جبموٹر وے سے اترنے کے بعد لگتا ہے کہ ہم کسی پسماندہ علاقے مکی حڈود میں داخل ہو گئے ہیں- شہر میں کسی بھی راستے سے داخل ہوں، شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں،بیکار اور تعفن شدہ سیوریج،شکست و ریخت سے بھرپور در و دیوار اور بڑے بڑے پائپ، کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہم سیالکوٹ جیسے صنعتی ہب میں ہیں یا کسی علاقہ غیر میں داخل ہو چکے ہیں۔واٹر فلٹریشن پلانٹ کے غیر ضروری منصوبے کے لئے ہمارے علاقے کی200ایکڑ سے زائد نہایت بہترین زرعی اراضی چھوٹے کاشتکاروں کو اونے پونے داموں دے کر حاصل کی گئی اور صرف کمیشن کھانے کے لیے ایک بے کار منصوبہ شروع کرتے ہوئے سارے شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ سیالکوٹ کی حالت زار پر تو اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر کالم کی تنگ دامانی کا سامنا ہے، لہٰذا بات کو مختصر کرتے ہوئے سیالکوٹ کے ساتھ ہونے والی سیاسی اور انتظامی نا انصافیوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ 

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تحت مقامی کاروباری برادری کی جانب سے بنائے گئے ایس آئی اے ایل کے اس تاریخی میگا پروجیکٹ کے بارے میں پہلے بھی متعدد بار بات کی جاچکی ہے۔ اسے اکثر دیگر شعبوں اور شہروں کے لیے سرکاری مدد کے بغیر خالصتاً سول سوسائٹی کی اجتماعی طاقت کی ایک روشن مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ایس آئی اے ایل کی کامیابی کے بعد سیالکوٹ نے اپنی ایئرلائنز، ایئر سیال کی سروسز کا آغاز کیا۔ ایئر سیل جسے ابتدائی طور پر بڑی مقامی نجی ایئرلائنز کی کم ہوتی سروسز اور قومی ایئرلائن کی پروازوں کو درپیش مسائل کے باعث شروع کیا گیا تھا، اب ایئر سیال کو اس کی سروسز اور معیار کی وجہ سے مسافروں میں خوب پسند کیا جارہا ہے۔نومبر 2007ء میں اپنے آغاز کے بعد سے سیالکوٹ ایئرپورٹ کے اثرات دور رس رہے پھر چاہے وہ معاشی مواقع کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، اس کے سماجی اور ثقافتی اثرات کا دائرہ کار کافی وسیع ہے۔ سب سے پہلے تو کسی بھی ایئرپورٹ کی طرح سیالکوٹ ایئرپورٹ نے ملازمین کے لیے مواقع پیدا کیے۔ ایئرپورٹ کے لیے متنوع افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جن میں منصوبہ سازوں اور انجینئرز، تعمیراتی عملے، گراؤنڈ ہینڈلنگ کا عملہ جیسے کار پارکنگ، سامان کی ریپنگ، سامان کی اسکیننک، مسافروں کو سہولیات فراہم کرنے کا عملہ اور ایئر ٹریفک کنٹرول شامل ہیں۔ ایس آئی اے ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے قوائد کے مطابق ملازمتوں کے لیے سب سے پہلے مقامی آبادی کو ترجیح دی جاتی ہے اور ان ملازمتوں کے مواقعوں نے علاقے کی معاشی ترقی میں اپنا کلیدی حصہ ڈالا ہے۔

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق کارگو ہیوی ایئرپورٹ نے سیالکوٹ کی اسپورٹس اور سرجیکل سامان کی صنعتوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ان دیگر صنعتوں کو بھی ابھرنے کا موقع ملا ہے جوکہ اس سے پہلے صرف برائے نام موجود تھیں، بالخصوص کپڑوں کی صنعت اس کی واضح مثال ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سیالکوٹ کے زیادہ تر حصوں میں فی کس آمدنی کا تناسب بھی قومی اوسط سے زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ بہتر معیارِ زندگی کی تلاش میں لوگوں کو سیالکوٹ ایک پُرکشش مقام لگنے لگا ہے۔ معاشی ترقی کی کشش کی وجہ سے شہر میں لوگ ہجرت کرکے آرہے ہیں اور یوں افرادی قوت میں بھی نمایاں تبدیلی آئی ہے۔فی الوقت سندھ کی ہندو برادری کے بہت سے لوگ سیالکوٹ کی کپڑوں کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ چونکہ ان صنعتوں میں بہتر معاوضے والی ملازمتیں موجود ہیں اس لیے گھریلو کام جیسے صفائی اور تعمیرات کے کام کرنے والے لوگوں کی کمی ہوگئی ہے۔ اس کمی کو اب وہ افرادی قوت پورا کر رہی ہے جوکہ جنوبی اور وسطی پنجاب حتیٰ کہ خیبرپختونخوا سے ہجرت کرکے آئی ہے۔شاپنگ مالز کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بھی شہر کی صورت کو تبدیل کردیا ہے۔ ایک وقت میں سیالکوٹ جو بازاروں کی چہل پہل کے لیے جانا جاتا تھا، اب اس نے مقبول برینڈز، فوڈ چینز اور کھانے کی شاندار مقامات کی موجودگی کے ساتھ ہی جدید شاپنگ کے تصور میں بھی خود کو ڈھال لیا ہے۔ یہ مالز کنٹونمنٹ کے اردگرد بنائے گئے ہیں جہاں پہلے گھنٹہ گھر کے ساتھ صدر بازار ایک تجارتی مرکز تھا۔ سیالکوٹ مال، وی مال، سینٹرل مال اور برینڈز ولیج، یہ تمام ایک مخصوص دائرے ہی میں کھلے ہیں جس کی وجہ سے انگریزوں کی ایک بہت پرانی فوجی چھاؤنی جوکہ نوآبادیاتی دور کی میراث تھی، اسے اب ایک جدید تجارتی مرکز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔سیالکوٹ کا  گھنٹہ گھر جسے شہر کا ورثہ کہا جاتا ہے اب اس سے متصل سیالکوٹ مال واقع ہے جہاں دکانیں، ملٹی پلیکس سینما اور گیمنگ آرکی موجود ہے۔ 

اتوار، 21 اپریل، 2024

پتنگ کی خونیں ڈور


    پتنگ کی خونیں  ڈور -ایک سال کی ننھی بچی باپ کی گو د میں بیٹھی بائیک پر جا  رہی  تھی کہ اچانک اس کی گردن ڈھلک گئ اور ساتھ ہی باپ کے کپڑے خون میں تر بتر ہو گئے-بچّی کو پتنگ کی قاتل ڈور نے مار ڈالا تھا  دوسرا کیس -افطار میں کچھ ہی وقت باقی تھا، آصف اپنی والدہ کے ساتھ افطاری کرنا چاہتا تھا، اس لیے وہ تیزی سے بائیک چلاتا ہوا اپنے گھر جارہا تھا کہ اچانک اسے اپنے گلے پر کسی چیز کے ٹکرانے اور شدید تکلیف کا احساس ہوا۔ آصف بائیک سے گرگیا، اپنی تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اس نے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن اس کا دماغ ماؤف ہورہا تھا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔سڑک سے گزرنے والے لوگ بھاگ کر اس کی طرف آرہے تھے۔ صرف چند سیکنڈ میں آصف کے پورے کپڑے خون میں لت پت ہوچکے تھے۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھ سکتا، وہ لڑکھڑا کر گرگیا۔ آصف کی زندگی کی ڈور، کسی پتنگ کی ’’بے رحم قاتل ڈور‘‘ نےمنقطع کردی تھی آصف کی منگنی ہو چکی تھی اور گھر والے شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے 

۔یوں تو ہر دور میں پتنگ بازی ایک دلچسپ مشغلہ رہا ہے۔ نیلے آسمان کی وسعتوں میں سفید، اودے، سرمئی بادلوں کے ساتھ ہوا کے دوش پر اٹکھیلیاں کرتی رنگ برنگی پتنگیں سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلیتی ہیں۔پاکستان میں بھی یہ کھیل بہت مقبول ہے لیکن اب کچھ عرصے سے پتنگ بازی پر حکومت کی جانب سے بار بار پابندی عائد کردی جاتی ہے۔ پتنگ بازی جیسے مشغلے پر پابندی کی بنیادی وجہ وہ ’’قاتل ڈور‘‘ ہے جس نے اَن گنت افراد کی ’’سانسوں کی ڈور‘‘ کو منقطع کردیا ہے۔ پاکستان بھر میں پتنگ کی اس قاتل ڈور نے نہ صرف درجنوں افراد کو شدید زخمی اور ہمیشہ کےلیے آواز سے بھی محروم کردیا، بلکہ کئی افراد اس ڈور کا شکار ہوکر زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اکثر لوگ جانتے ہیں کہ سرکس میں جو کر لوگوں کو اپنی حرکات و سکنات سے خوش کرنے اور ہنسانے کے لیے مختلف کرتب دکھاتا ہے۔ لوگ اس سے انجوائے کرتے ہیں اور محظوظ ہوتے ہیں۔ ایک سرکس کے دوران جو کر نے بلندی سے چھلانگ لگائی اور زمین پر چاروں شانیں چت لیٹ گیا ۔ وہاں موجود حاضرین زبر دست تالیاں اور سیٹیاں بجا بجا کر اسے داد دیتے رہے، خوش ہوتے رہے لیکن اس نے نہ اٹھنا تھا نہ اٹھا وہ مر چکا تھا۔ اسی طرح لوگ پتنگ بازی کرتے ہوئے محظوظ ہوتے ہیں، اسے ایک روایتی کھیل اور شغل قرار دیتے ہیں۔کہتے ہیں پتنگ بازی کا آغاز 3 ہزار سال پہلے   ہوا ۔ شاید کبھی یہ ایک مشغلہ کھیل تماشار ہا ہو، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ جب سے پتنگ بازی کے لیے تیز دھار ، دھاتی اور کیمیکل ( مانجھا ) لگی ڈور کا استعمال بڑھا ہے یہ ایک خونی عمل بن چکا ہے۔ پتنگوں کی ڈور پھرنے کی بناءپر، گلے کٹنے سے لوگ مر رہے ہیں ۔

 اکثر موٹر سائیکل سوار ڈور پھرنے اور بچے   پتنگیں لوٹنے کی کوشش میں حادثات کا شکار ہو کر زخمی ہو جاتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے کثیر تعداد میں لوگ پتنگ بازی سے مضروب اور جان بحق ہو چکے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ کوئی شخص اپنی نوکری ختم کر کے یا بازار سے سودا سلف لے کر اپنے خیالوں میں تم اپنے دھیان میں خود یا بچے کے ساتھ اپنے گھر اپنی فیملی کے پاس جارہا ہو اور اچانک سڑک پر کہیں سے تیز دھار دھاتی ڈور ا سکے ساتھ الجھ کر اسے یا بچے کو شدید مضروب کر دے یا زندگی ہی ختم کر دے تو ایک شخص کا حادثہ نہیں ہوگا بلکہ یہ پوری فیملی کے لیے نہایت اذیت اور کرب کا باعث ہوگا۔ اور اس کا احساس صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ پینگیں بنانا، فروخت کرنا ، اْڑانا ، اڑانے میں سہولت مہیا کرنا اور اس دوران ہوائی فائرنگ کرنا قانوناً جرم قرار دیے جاچکے ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر پولیس سختی سے قانونی کاورائی کرنے کے لیے عزم ہے۔اس سلسلے میں عوام الناس کو پتنگ بازی کے مضمرات سے مطلع کرنے کے لیے ایک بھر پور آگاہی مہم کا آغاز بھی ہو چکا۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم سب بھی مل کر پتنگ بازی کے اس خونی کھیل تماشہ کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔ والدین پر اس سلسلے میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس خونی شغل سے باز رکھیں ورنہ بچوں کی جانب سے کسی غیر قانونی فعل کی ذمہ داری براہ راست ان کے والدین کی گردانی جاتی ہے۔ 

پتنگ بازی سے ہونے والے نقصانات و حادثات کو عموماً سیریس نہیں لیا جاتا اور لوگ اسے محض وقتی کھیل تما شاہی سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ استاد تعلیمی اداروں میں ، علماءمساجد میں اور صحافی اپنے قلم سے غرض یہ کہ معاشرے کا ہر فر دلوگوں کو پتنگ بازی کے نقصانات سے آگاہ کرنے میں اپنا اپنا کردارادا کریں اور ہم سب مل کر پتنگ بنانے ، فروخت کرنے ، اْڑانے والوں کی حوصلہ شکنی کریں اور اسے روکیں-اس سال کی ابتدا سے ہی گلے پر ڈور پھرنے سے کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئیں۔ حالانکہ ’’انسداد پتنگ بازی ایکٹ‘‘ بھی موجود ہے لیکن پاکستان میں کسی بھی قانون پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہوا ہی کب ہے؟ انسداد پتنگ بازی کی ٹیمیں پتنگ بازوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں سرگرم تو ہیں لیکن ان کی کارروائیاں معصوم بچوں کی پکڑ دھکڑ اور انھیں سرزنش کرنے تک ہی محدود ہیں۔پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق پتنگ بازی پر ممانعت کے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر صرف ایک ماہ میں2855 مقدمات درج کیے گئے اور 2991 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 

فیصل آباد میں ہونے والے اس حالیہ واقعے کے بعد ہی پولیس نے چوبیس گھنٹوں کے دوران پتنگ بازی میں ملوث 512 افراد کو گرفتار کیا، اور ساٹھ ہزار کے قریب پتنگیں، سات سو ڈوریں اور چرخیاں وغیرہ بھی برآمد کی گئیں۔ پنجاب پولیس کے مطابق سوچنے کی بات ہے کہ آخر پتنگ بازی کا یہ دلچسپ مشغلہ ایک خونیں کھیل کیسے بن گیا؟ آخر کیوں پتنگ بازی سے انسانی ہلاکتوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں؟ صرف دو دہائی پہلے تک بھی پتنگ بازی اور بسنت کو ایک ثقافتی کھیل کا درجہ حاصل تھا۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ماہِ فروری کی آمد کے ساتھ ہی بہار کے استقبال اور بسنت منانے کےلیے بطور خاص پتنگ بازی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ نہ صرف اس کھیل کو ’’غیر شرعی‘‘ قرار دیا جانے لگا بلکہ کئی غیر قانونی طریقوں اور پتنگ اڑانے میں استعمال کی جانے والی غیر قانونی ڈور کے استعمال نے بھی اس مشغلے پر پابندی کی راہ ہموار کی۔  کے دوران مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ پتنگیں ضبط کرکے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

 

ہفتہ، 20 اپریل، 2024

صحیفہ ء سجادیہ ازامام زین العابدین علیہ السلام

 

 صحیفہ ء سجادیہ ازامام زین العابدین علیہ السلام -شیعیان اہل بیت کے چوتھے امام حضرت امام سجاد سے منقولہ 45 مناجاتوں و دعاؤں پر مشتمل کتاب کا نام ہے۔ صحیفہ سجادیہ قرآن و نہج البلاغہ کے بعد، اہل تشیّع کے ہاں اہم مرتبے والی کتاب مانی جاتی ہے اور زبور آل محمد و انجیل اہل بیت کے عناوین سے مشہور ہے۔آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ میں لکھا ہے کہ اس کتاب پر تقریبا 50 شرحيں لکھی گئی ہیں جن میں سب سے مشہور شرح کا نام ریاض السالکین ہے اور اس کے مؤلف سید علی خان شیرازی ہیں۔ صحیفہ کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ترکی، اردو، ہسپانوی، بوسنیایی، آلبانوی، تامل سمیت مختلف زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اہل تشیع کے ہاں اس کتاب کی منزلت بجائے خود، جبکہ اہل سنت کے علما نے بھی اس کی فصاحت و بلاغت کی تعریف کیامام س یہ نسخہ صحیفہ کی 54 دعاؤں کے علاوہ چار مزید دعاؤں پر مشتمل ہے پھر اسی کے لیے حمد و ثنا ہے۔ اس کی ہرہر نعمت کے بدلے میں جو اس نے ہمیں اور تمام گزشتہ و باقی ماندہ بندوں کو بخشی ہے،ان تمام چیزوں کے شمار کے برابر جن پر اس کا علم حاوی ہے اور ہر نعمت کے مقابلہ میں دوگنی چوگنی جو قیامت کے دن تک دائمی و ابدی ہو ۔ ایسی حمد جس کا کوئی آخری کنار اور جس کی گنتی کا کوئی شمار نہ ہو۔

جس کی حد نہایت دسترس سے باہر اور جس کی مدت غیر مختتم ہو۔ ایسی حمد جو اس کی اطاعت و بخشش کا وسیلہ، اس کی رضا مندی کا سبب، اس کی مغفرت کا ذریعہ، جنت کا راستہ، اس کے عذاب سے پناہ، اس کے غضب سے امان، اس کی اطاعت میں معین، اس کی معصیت سے مانع اور اس کے حقوق و واجبات کی ادائیگی میں مددگار ہو ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کے خوش نصیب دوستوں میں شامل ہو کر خوش نصیب قرار پائیں اور ان شہیدوں کے زمرہ میں شمار ہوں جو اس کے دشمنوں کی تلواروں سے شہید ہوئے ۔ بیشک وہی مالک و مختار اور قابل ستائش ہے بار پروردگارا! اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیج؛ جن کو تو نے حکومت کے لئے منتخب کیا، اور اپنے علوم کا خزینہ اور دین کے محافظ مقرر کیا اور روئے زمین پر انہیں خلیفہ اور اپنے بندوں پر حجت کے عنوان سے متعین کیا؛ انہیں اپنے ارادے سے، ہر پلیدی اور آلودگی سے پاک و منزہ قرار دیا اور انہیں اپنے ارادے سے ہر ناپاک کرنے والی شئے سے پاک کردیا اور انہیں اپنے مقام قرب اور بہشت بریں تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا۔صحیفۂ سجادیہ، دعا نمبر 47 فقرہ 56۔امام سجاد اپنی دعاؤں کے آغاز میں اللہ کی حمد و ثناء بجا لاتے ہیں، بعد ازاں خاندان رسول(ص) پر درود و سلام بھیجتیے ہیں، یہاں تک کہ صحیفہ میں کم ہی کوئی دعا ہوگی جس میں لفظ صلوات سے استفادہ نہ ہوا ہو۔

  آپ(ع) آخر میں اللہ سے اپنی حاجت کی درخواست کرتے ہیں۔صحیفہ سجادیہ محض خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس کی بارگاہ میں حاجت کے بیان پر ہی مشتمل نہیں ہے، بلکہ بہت سے اسلامی علوم و معارف کا مجموعہ بھی ہے جن میں اعتقادی، ثقافتی و تعلیمی، معاشرتی اور سیاسی مسائل نیز بعض طبیعی قوانین اور شرعی احکام کو دعا کے سانچے میں بیان کیا گیا ہے۔خدا کے ساتھ ارتباط و تعلق کے سلسلے میں مختلف اوقات اور احوال کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر بعض دعائیں بیان کی گئی ہیں؛ بعض دعائیں ۔تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں توبہ کی راہ بتائی کہ جسے ہم نے صرف اس کے فضل و کرم کی بدولت حاصل کیا ہے۔ تو اگر ہم اس کی بخششوں میں سے اس توبہ کے سوا اور کوئی نعمت شمار میں نہ لائیں تو یہی توبہ ہمارے حق میں اس کا عمدہ انعام، بڑا احسان اور عظیم فضل ہے۔

 اس لیے کہ ہم سے پہلے لوگوں کے لیے توبہ کے بارے میں اس کا یہ رویہ نہ تھا ۔ اس نے تو جس چیز کے برداشت کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے، وہ ہم سے ہٹا لی اور ہماری طاقت سے بڑھ کر ہم پرذمہ داری عائد نہیں کی اور صرف سہل و آسان چیزوں کی ہمیں تکلیف دی ہے اور ہم میں سے کسی ایک کے لیے حیل و حجت کی گنجائش نہیں رہنے دی ۔ لہذا وہی تباہ ہونے والا ہے،جواس کی منشاء کے خلاف اپنی تباہی کا سامان کرے اور وہی خوش نصیب ہے، جو اس کی طرف توجہ و رغبت کرے-تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے، جس نے ہمارے ( جسموں میں) پھیلنے والے اعصاب اور سمٹنے والے عضلات ترتیب دیئے اور زندگی کی آسائشوں سے بہرہ مند کیا اور کار و کسب کے اعضاء ہمارے اندر ودیعت فرمائے اور پاک و پاکیزہ روزی سے ہماری پرورش کی اور اپنے فضل و کرم کے ذریعہ ہمیں بے نیاز کردیا اور اپنے لطف و احسان سے ہمیں ( نعمتوں کا) سرمایہ بخشا۔ پھر اس نے اپنے احکام اوامر کی پیروی کا حکم دیا تاکہ فرمانبرداری میں ہم کو آزمائے اور نواہی کے ارتکاب سے منع کیا تاکہ ہمارے شکر کو جانچے، مگر ہم نے اس کے حکم کی راہ سے انحراف کیا اور نواہی کے مرکب پر سوار ہولیے ۔ پھر بھی اس نے عذاب میں جلدی نہیں کی اور سزا دینے میں تعجیل سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے کرم و رحمت سے ہمارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا اور حلم و رافت سے ہمارے باز آ جانے کا منتظر رہا۔

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے کہ اس نے اپنی ذات کو ہمیں پہنچوایا اور حمد و شکر کا طریقہ سمجھایا اور اپنی پروردگاری پر علم و اطلاع کے دروازے ہمارے لیے کھول دیئے اور توحید میں تنزیہ و اخلاص کی طرف ہماری رہنمائی کی اور اپنے معاملہ میں شرک و کجروی سے ہمیں بچایا ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کی مخلوقات میں سے حمدگزاروں میں زندگی بسر کریں اور اس کی خوشنودی و بخشش کی طرف بڑھنے والوں سے سبقت لے جائیں۔ ایسی حمد جس کی بدولت ہمارے لیے برزخ کی تاریکیاں چھٹ جائیں اور جو ہمارے لیے قیامت کی راہوں کو آسان کر دے اور حشر کے مجمع عام میں ہماری قدر و منزلت کو بلند کر دے ، جس دن ہر ایک کے کئے کا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ ہوگا ۔ جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ایسی حمد جو ایک لکھی ہوئی کتاب میں ہے جس کی مقرب فرشتے نگہداشت کرتے ہیں،ہماری طرف سے بہشت بریں کے بلند ترین درجات تک بلند ہو۔ ایسی حمد جس سے ہماری آنکھوں میں ٹھنڈک آئے جبکہ تمام آنکھیں حیرت و دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور ہمارے چہرے روشن و درخشاں ہوں، جبکہ تمام چہرے سیاہ ہوں گے ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی اذیت دہ آگ سے آزادی پا کر اس کے جوارِ رحمت میں آجائیں ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کے مقرب فرشتوں کے ساتھ شانہ بشانہ بڑھتے ہوئے ٹکرائیں اور اس منزلِ جاوید و مقام عزت و رفعت میں جسے تغیر و زوال نہیں، اس کے فر ستادہ پیغمبروں کے ساتھ یکجا ہوں  


جمعہ، 19 اپریل، 2024

مہاجرنوجوان اور کوٹہ سسٹم کی تلوار

  

 قیام پاکستان کے فوراً بعد سے مہاجروں کے اوپر شب خون مارنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور مختلف حیلے بہانں سےچن چن کر مہاجر وفاقی حکومت سے نکال دئے گئے -دشمنی کی حد بڑھتے بڑھتے کوٹہ سسٹم تک آ گئ اور اب کیا صورتحال ہے آ پ اس مختصر تحریر میں ملاحظہ کیجئے ؁ ء میں ایم کیو ایم نے سابق مشرقی پاکستان میں محصور پاکستانیوں کو واپس لانے اور سندھ کے شہری علاقوں سے کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور دیگر عوامی حقوق کے اصول کے لئے سیا ست کا آغاز کیا تھا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ایم کیو ایم نے بھی پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح روایتی سیاست اپنا کر نہ صرف اپنے بنیادی منشور اور نظریات کو بھلا کر اقتدار کو اپنی منزل قرار دیا اور یک کے بعد دیگرے حکومتوں کی اتحادی بنتی رہی اور پھر نہ اپنے وعدے یاد رہے اور نہ عوام کے بنیادی مسائل صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہی تمام تر سیاسی جدو جہد کا محور بنا  اور آج عالم یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی اتحادی ہونے کے باوجود وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے 19 اگست کو ایک ایس آر او 747 ون جاری کیا ہے اس ایس آر او کے مطابق وفاقی ملازمتوں میں جو کوٹہ سسٹم نافذ ہے اس میں لا متنا ہی توسیع کردی ہے وزیر اعظم عمران خان کا یہ کراچی اور اربن سندھ کے لوگوں پر ایک بہت ہی کاری وار ہے اور یہ شب خون مارنے کے مترادف ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ نواز شریف جو کام 2013 ؁ء سے 2018 ؁ء تک نہیں کر سکے عمران خان نے خاموشی اور رات کی تاریکی میں چپ چاپ ایس آر او جاری کردیا اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ کوٹہ سسٹم 1973 ؁ ء میں متعارف کرایا گیا تھا اور آئین کے مطابق یہ بات طے کی گئی تھی کہ وفاق کی ملازمتوں میں پورے ملک کا جو حصہ ہے اس میں سندھ کا بھی کوٹہ ہے سندھ کے کوٹے کوبھی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ا

اب مسئلہ یہ ہے کہ 2013 ؁ ء سے آج 2020 ؁ ء تک اس کوٹہ سسٹم کو خلاف قانون قائم رکھا گیا ہے یہ آئین کے مطابق 2013 ؁ ء میں ختم ہو گیا تھا آج 19 اگست 2020 کو وزیرِ اعظم عمران خان نے جو کام کیا ہے انہوں نے تو حد ہی کردی انہوں نے ایس آر او جاری کیا جس سول سروس پوائنٹ کے جو رول ہیں یعنی ٹرانسفر اور پروموشن کے انہوں نے ان میں بھی ترمیم کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کوٹہ سسٹم جس کے لئے آئین میں ترمیم بہت ضروری ہے اسے ایک طرف رکھتے ہوئے کہا کہ اس آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے اور اب یہ لامتنا ہی ہو گا اور اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہو گا بلکہ غیر معینہ مدت تک نافذ العمل ہو گا اور اسی طرح چلتا رہے گا گویا  پی ٹی آئی نے کراچی سے اتنا بڑا مینڈیٹ لیا کراچی سے ان کے 14 ایم این اے 30 صوبائی اسمبلی کے ممبر کے علاوہ کراچی سے ان کے وزیر اور صدر مملکت بھی ہیں اور یہ کراچی کراچی کی اتنی بات کرتے ہیں کہ کراچی کے حالات کو سدھارنے کے لئے وفاق یہ کرے گا اور وہ کرے گا ابھی تو یہ بات بھی ان سے کوئی پوچھ نہیں رہا ہے کہ ملک کے 650 ارب کے بجٹ میں سے کراچی کو اب تک کیا دیا ہے کراچی کے لوگوں سے  کے الیکٹرک منافع میں سے بھی وفاقی حکومت اپنا حصہ وصول کر رہی ہے رات دن کراچی کراچی کرنے والوں نے کراچی کے نوجوانوں کے حقوق پر شب خون مارا ہے 


کوٹہ سسٹم کے ضمن میں جو بات سندھ کو دوسرے صوبوں سے الگ کرتی ہے وہ کوٹے کی یہ ہی شہری اور دیہی تقسیم ہے۔کوٹا سسٹم کے معماروں کے ذہن میں یہ بات لازماََ رہی ہو گی کہ جب کوٹے کے مقاصد حاصل ہو جائیں تو اِس کو ختم کر دیا جائے گا۔لیکن بد قسمتی سے نفاذِ اُردو کی طرح حکومتِ پاکستان کے مانگے ہوئے 6 ماہ کی طرح یہ 10 سال بھی شیطان کی آنت بن گئے۔ حالانکہ تاریخی طور پر کوٹا سسٹم کوئی بہت نئی بات نہیں۔قائد،اعظم ؒ کے مشہورِ زمانہ 14 نکات میں بھی مسلمانوں کی متناسب نمائندگی کی بات کی گئی تھی، اسی کی بنیاد پر انگریز نے 1926 میں مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمتوں کا 25%کا کوٹہ جاری کیا جو اُس وقت کی ضرورت اور مسلمانوں کی بڑی کامیابی تھی۔کوٹا سسٹم کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں محض 7%افراد اہلیت کی بنیاد پر لئے جاتے ہیں۔ باقی ’’کوٹہ سسٹم ‘‘ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔جب انتہائی اہمیت کی حامِل سرکاری نوکریوں پر تقرری کی کسوٹی محض ڈومیسائل بنا دیا جائے تو پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کہاں جائیں گے؟

المیہ ملاحظہ فرمائیں کہ ملازمت کے امتحان میں کہیں کم نمبر لینے والا، اپنے سے زیادہ نمبر لینے والوں کو ایک طرف کرتے ہوئے کوٹہ کی بنیاد پر منتخب کرلیا جاتا ہے۔ کیا یہ بے انصافی نہیں؟ چلیں کچھ عرصہ کسی مصلحت یا صوبہ کے مفاد کی خاطر یہ کڑوے گھونٹ پی بھی لئے جائیںتو بھی آخر کب تک؟ یاد رہے کہ کوٹہ سسٹم کو وفاقی شرعی عدالت اور پاکستان سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1973 میں کوٹہ سسٹم کو جو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا تھا وہ خود اِسی آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف و رزی ہے۔ کوٹہ سسٹم میں بھی شروع میں کوئی قواعد و ضوابط رہے ہوں گے کہ تحریری امتحانات میں کم از کم اتنے نمبر حاصل کرنے والے سرکاری ملازمت کے اہل ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہوا کہ اِس سے کئی ایک سیٹیں خالی رہیں کیوں کہ کوٹے میں آنے والے اُس کم از کم اہلیت یا قابلیت پر پورا نہیں اترتے تھے۔تب کم نمبر والے، اُس استبدادی قابلیت سے مبرا قرار دے دیے گئے۔اب جب آپ بہت ذمہ داری کی جگہ پر ایک نا اہل شخص کو بٹھا دیں گے تو اول تو وہ خود احساسِ کمتری کا شکار ہو گا دوم اپنے ماتحتوں کے زیرِ اثر ہو گا۔یہیں سے بگاڑ کا آغاز ہوا کرتا ہے، رشوت بد عنوانی خدا داد نہیں بلکہ اسی موذی ’’کوٹہ سسٹم ‘‘ کی ناجائز اولاد ہے۔وفاقی اسامیوں میں دیہی سندھ کا کوٹہ11.4فی صداور شہری سندھ کا حصہ محض 7.6فی صد ہے۔سندھ کے علاوہ باقی کسی صوبہ میں دیہی اور شہری آبادی کی کوٹہ کے نظام میں تخصیص نہیں ہے۔ اس نظام میں شہری سندھ کے لیے تین شہر شامل ہیں: کراچی، حیدرآباد اور سکھر۔ان ہی شہروں میں اردو بولنے والے سندھیوں کی اکثریت ہے۔کوٹہ نظام اور صنعتوں کوقومیائے جانے سے خصوصاً اردو بولنے والے تعلیم یافتہ اور تجارت اور صنعت سے وابستہ افراد کو معاشی اور سماجی طور پرنقصان پہنچا۔ نتیجہ کے طور پرسندھ میں آج ہم بڑے پیمانے پرکرپشن،اقرباپروری، نااہلی اور میرٹ کا قتلِ عام دیکھتے ہیں۔اس لیے نہ صرف اردو بولنے والے سندھی لوگوں کو متناسب نمائندگی نہیں ہی ملتی، بلکہ وہ رشوت، نااہلی اور اقرباپروری کی وجہ سے بھی دوہرے عتاب کا شکار ہوتے ہیں۔


کچھ اخباری اطلاعات کے مطابق شہری سندھ کا ڈومیسائل لینا نہایت آسان ہے۔ کراچی اور حیدرآ باد کے حکومتی اداروں میں جانے کا مشاہدہ کیجیے تو شاذونادر ہی اردو بولنے والے سندھی نظر آئیں گے۔نجی شعبہ کے بڑھنے سے کسی حد تک اردو بولنے والے سندھیوں کی معاشی بقا ممکن ہوپائی۔ مگر اس کے باوجود انہیں ہر جائز کام کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ مقامی حکومتوں کانظام کراچی جیسے بڑے شہروں کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ جماعتِ اسلامی کے نعمت اللہ خان صاحب کادور مثالی سمجھاجاتا ہے۔ان کے دورِنظامت میں کئی ترقی یافتہ کام ہوئے۔اس کے بعد مصطفی کمال صاحب کے دورِنظامت میں بھی شہر میں کئی ترقیاتی کام تکمیل پائے۔انہیں فارن پالیسی کے جریدے نے دنیا کا بہترین میئر بھی شمار کیا۔ ان دونوں ادوارِنظامت میں شہرِکراچی پرامن بھی رہا۔موجودہ حالات میں کم ازکم سندھ کے اندر میرٹ کا امکان نظر نہیں آتا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کے گیارہ ارکان میں شہری سندھ سے کوئی نمائندگی نہیں۔ یہ ہی وہ خوفناک صورتحال جسے ایک بار سابق ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کو بھی تسلیم کرنا پڑاکہ کوٹہ نظام میرٹ کا قتل عام ہے اور اسے فی الفور ختم ہوجانا چاہیے ۔وفاقی اردو یونیورسٹی کے علاوہ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں کوئی ایک بھی سرکاری یونیورسٹی پچھلے 45برسوں میں قائم نہیں ہوئی باوجود یہ کہ شہری سندھ کی آبادی تین کروڑتک پہنچ گئی ہے۔

ماضی کا حسین بھاولپور

 یک دفعہ کا ذکر ہے کہ نواب آف بہاولپور لندن میں ایک عام شہری کی طرح اپنا دیسی  لباس کرتا  پاجامہ پہن کر بازار گئے  ۔بازار میں   ؎ گاڑیوں  کے شوروم میں کھڑی رولز رائس کار بہت پسند آئی۔ وہ اندر گئے اور سیلز مین سے قیمت پوچھی۔ یہ سوچ کر کہ وہ ایک عام ایشیائی شہری ہے،شوروم میں موجود  آدمی نے  ان کی خوب بے عزتی کرتے ہوئے کہا  تم جیسا پھکڑ آدمی یہ گاڑی نہیں خرید سکتا ہے- نواب صاحب ہوٹل واپس آئے اور اگلے دن وہ پورے شاہانہ شان کے ساتھ ملازمین کی پوری فوج لے کر شوروم میں گئے اور  اسی  آدمی  سے پوچھا کہ  شو روم میں کتنی گاڑیاں موجود ہیں -آدمی نے جواب دیا چھ ہیں -اسی وقت نواب نے چھ رولس رائس گاڑیاں خرید کر ملازمین کو دیں اور  ان سے کہا کہ ان گاڑیوں کو فوری طور پر بہاولپور پہنچا کر بلدیہ کے حوالے کیا جائے اور انہیں شہر کی صفائی اور کچرا اٹھانے کا ٹاسک دیا جائے اور یہ اس وقت تک کیا گیا جب تک یہ بات پوری دنیا میں پھیل گئی اور رولس رائس کی مارکیٹ بن گئی۔ نیچے رولز رائس کا نام سن کر لوگ ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وہی ہے جو ریاست بہاولپور میں شہر کا کچرا اٹھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کچھ عرصے بعد رولز رائس کمپنی کا مالک خود بہاولپور آیا اور نواب صاحب سے معافی مانگی اور چھ نئی رولز رائس گاڑیاں بھی بطور تحفہ دی اور درخواست کی کہ گاڑیوں کو اس گھناؤنے کام سے ہٹا دیا جائے۔ ان چھ نئی گاڑیوں میں سے ایک گاڑی قائداعظم کو نواب صاحب نے تحفے میں دی تھی، 

میں نے یہ چھوٹی سی سچی کہانی اپنے قارئین کے لیے وقف کی ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ ماضی میں بھاولپور کے نوابوں کے پاس کتنی دولت تھی۔ کرتا نور محل کو نواب صادق محمد خان عباسی چہارم نے 1872 میں تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے یہ محل اپنی بیگم کے لیے بنوایا جو تین سال میں مکمل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اس کی طرف منسوب ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کے نوابوں نے دل کھول کر اپنی دولت کو اپنے علاقے کی ترقی کے لیے استعمال کیا اور اپنے عالی شان محلات بھی بنوائے۔ ریاست کا وجود نہیں تھا لیکن نوابوں کی تعمیر کردہ عمارتیں اس کی کہانی سنانے کے لیے موجود ہیں۔ جب آپ بہاولپور جاتے ہیں تو آپ کو صرف ایک 'دیکھنے والی آنکھ' کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ وکٹوریہ ہسپتال، لائبریری، میوزیم، ڈرنگ اسٹیڈیم، ایجرٹن کالج جیسی تاریخی عمارتیں اگر آپ نور محل پہنچیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ریاست کے دوران تعمیر کی گئی سہولیات اس خطے کے لیے کافی جدید تھیں۔

 نور محل مغربی اور اسلامی طرز تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ اس کی آب و ہوا اور خوبصورتی آپ کو دور سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ نور محل نے اپنے اطراف میں سبز کمبل بچھا دیا ہے۔ آپ اس کے بالکل سامنے سرکلر لان پر  موجود ہلکی سرخ اور سفید عمارت سے پیار کر سکتے ہیں جو پہلی نظر میں دل کو موہ لیتی ہے۔ تقریباً 150 سال پرانا محل ان بہت سے محلوں میں سے ایک ہے جو 19ویں صدی میں تعمیر کیے گئے تھے۔ 20ویں صدی کے اواخر اور اوائل میں بہاولپور میں بنایا گیا۔ باقی محلات تو شاید اس سے زیادہ خوبصورت ہیں لیکن نور محل کے بارے میں کچھ الگ ضرور ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کے آخری امیر نواب سر صادق محمد خان پنجم کے پوتے صاحبزادہ قمر الزمان عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ تعمیر کے سال کے علاوہ اس کہانی میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

 نہ رہانے اور یہ محل نہ تو کسی بیگم کے لیے بنایا گیا تھا اور نہ ہی اس کے نام کی روشنی کسی بیگم کے نام پر ہے۔ ان دنوں بیگم کا نام لینا برا سمجھا جاتا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر بہاولپور کے تاریخی صادق ایجرٹن کالج کے شعبہ تاریخ کے سابق صدر ہیں اور سابق ریاست کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ کسی بیگم سے نور محل کی تعمیر کا منصوبہ غلط ہے۔ اس وقت اس علاقے میں بیگم کے نام کا کھلے عام ذکر کرنا غلط سمجھا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ نواب صاحب کی  بیگمات  کا نام لینا منع ہے۔ یہ محل کسی بیگم کے نام پر نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نور محل کچھ عرصے تک اوقاف کے پاس رہا اور پھر اسے پاکستانی فوج کو کرایہ پر دے دیا گیا جنہوں نے بعد میں اسے خرید لیا۔ ان دنوں یہ فوج کے زیر انتظام ہے۔ اس کی عمارت میں ریاست کی تاریخ اور خصوصاً نواب سر صادق محمد خان پنجم سے متعلق چیزیں رکھی گئی ہیں۔ آپ تھوڑی سی رقم میں ٹکٹ خرید کر اس کا دورہ کر سکتے ہیں۔

 اس محل کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اس میں سورج کی روشنی داخل ہونے کے لیے خاص طریقے ہیں۔ محل کے مرکزی ہال میں نواب کے بیٹھے دربار کے بالکل اوپر شیشوں کی دیوار ہے۔ شیشوں کو اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ عمارت کے ہر کونے میں قدرتی روشنی ہو۔ اس کا اندازہ اس شیشے سے لگایا جا سکتا ہے جو نواب کے دربار کے عقب میں نصب ہے۔ ان دنوں یہاں ہفتے کے آخری دو دن لائٹ شو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ منظر قابل دید ہے جو نور محل کے حقیقی معنی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں محل باہر کی روشنیوں سے منور ہے۔ اس کے گنبد پر نوابوں کی تصویریں بھی آویزاں ہیں۔ صاحبزادہ قمر الزمان عباسی کے مطابق نور محل ایک گیسٹ ہاؤس تھا۔ اس وقت کی بڑی ریاستوں کے نواب اس میں رہ چکے ہیں۔ بعد ازاں پاکستان کےسابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیات نے بھی یہاں قیام کیا -یہاں نوابین کی یاد گاریں باقی ہیں لیکن نوابین دنیا سے کبھی کے جاچکے ہی-کیونکہ باقی رہے نام اللہ کا 

بدھ، 17 اپریل، 2024

شاہ ایران۔دائمی عبرت کا نشان




  ایران۔  ایران قدیم سے جدید کا سفر کرتے ہوئے بالآخر رضا شاہ پہلوی تک آ پہنچا ـ رضا شاہ ایرانی فوج کے ایک کم پڑھے لکھے سپاہی کے بیٹے تھے  معمولی تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی میں فوج میں بھرتی ہو گئے اور جلد ہی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گئے۔ 1921ء میں حکومت کا تختہ الٹ دیا اور 1923ء میں وزیر اعظم کا عہدہ خود سنبھال لیا۔ انھوں نے فارس کو ایران کا نام دیا۔ 1925ء میں خاندان قاجار خاندان کے آخری بادشاہ احمد شاہ قاجار کو معزول کرکے خود بادشاہ بن گئے اور رضا شاہ پہلوی کا لقب اختیار کیا۔ایران میں 1925 سے 1941 تک رضا شاہ پہلوی کی حکومت کو جدید بنانے کی اہم کوششوں اور ایک آمرانہ حکومت کے قیام کے ذریعے نشان زد کیا گیا تھا۔ان کی حکومت نے سخت سنسر شپ اور پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ قوم پرستی، عسکریت پسندی، سیکولرازم اور اینٹی کمیونزم پر زور دیا۔   اس نے متعدد سماجی و اقتصادی اصلاحات متعارف کروائیں جن میں فوج، حکومتی انتظامیہ اور مالیات کی تنظیم نو شامل ہے۔  رضا شاہ کا دورِ حکومت اہم جدیدیت اور آمرانہ حکمرانی کا ایک پیچیدہ دور تھا، جس میں بنیادی ڈھانچے اور تعلیم دونوں کامیابیوں اور جبر اور سیاسی جبر کے لیے تنقید کا نشان تھا۔ان کے حامیوں کے نزدیک رضا شاہ کے دور کو نمایاں ترقی کے دور کے طور پر دیکھا گیا، جس کی خصوصیت امن و امان، نظم و ضبط، مرکزی اتھارٹی، اور جدید سہولیات جیسے اسکول، ٹرین، بسیں، ریڈیو، سینما اور ٹیلی فون شامل ہیں۔  تاہم، اس کی تیز رفتار جدید کاری کی کوششوں کو "بہت تیز" ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا  اور "سطحی" کچھ لوگوں نے اس کے دور حکومت کو جبر، بدعنوانی، حد سے زیادہ ٹیکس، اور صداقت کی کمی کے طور پر دیکھا۔

 .سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے اس کی حکمرانی کو پولیس سٹیٹ سے بھی تشبیہ دی گئی  اس کی پالیسیاں، خاص طور پر جو اسلامی روایات سے متصادم ہیں، مسلمانوں   میں عدم اطمینان پیدا کیا، جس کے نتیجے میں نمایاں بدامنی پیدا ہوئی، جیسا کہ مشہد میں امام رضا کے مزار پر 1935 کی بغاوت۔بڑے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شروع کیے گئے، جن میں وسیع سڑک کی تعمیر اور ٹرانس ایرانی ریلوے کی عمارت شامل ہے۔تہران یونیورسٹی کے قیام نے ایران میں جدید تعلیم کو متعارف کرایا۔عورت کے پردے کا حق چھین لیا گیا  تیل کی تنصیبات کو چھوڑ کر جدید صنعتی پلانٹس کی تعداد میں 17 گنا اضافے کے ساتھ صنعتی ترقی کافی تھی۔ملک کا ہائی وے نیٹ ورک 2,000 سے 14,000 میل تک پھیلا ہوا ہے۔  رضا شاہ نے ڈرامائی طور پر فوجی اور سول سروسز میں اصلاحات کیں، 100,000 افراد پر مشتمل فوج کی بنیاد رکھی، قبائلی افواج پر انحصار سے منتقلی، اور 90,000 افراد پر مشتمل سول سروس قائم کی۔اس نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مفت، لازمی تعلیم کا قیام عمل میں لایا اور پرائیویٹ مذہبی اسکولوں کو بند کر دیا — اسلامی، عیسائی، یہودی وغیرہ  تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور صنعتی منصوبوں کے طور پر۔   رضا شاہ کی حکمرانی خواتین کی بیداری (1936–1941) سے مماثل تھی، ایک تحریک جو کام کرنے والے معاشرے میں چادر کو ہٹانے کی وکالت کرتی تھی، یہ دلیل دیتی ہے کہ یہ خواتین کی جسمانی سرگرمیوں اور سماجی شرکت میں رکاوٹ ہے - اس اصلاحات کو مذہبی رہنماؤں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔نقاب کشائی کی تحریک کا 1931 کے شادی کے قانون اور 1932 میں تہران میں مشرقی خواتین کی دوسری کانگریس سے گہرا تعلق تھا

۔مذہبی رواداری کے لحاظ سے، رضا شاہ یہودی برادری کا احترام کرنے کے لیے قابل ذکر تھے، وہ 1400 سالوں میں پہلے ایرانی بادشاہ تھے جنہوں نے اصفہان میں یہودی برادری کے دورے کے دوران ایک عبادت گاہ میں نماز ادا کی۔اس عمل نے ایرانی یہودیوں کی خود اعتمادی کو نمایاں طور پر بڑھایا اور رضا شاہ کو ان میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی، سائرس اعظم کے بعد دوسرے نمبر پر۔اس کی اصلاحات نے یہودیوں کو نئے پیشوں کا پیچھا کرنے اور یہودی بستیوں سے باہر جانے کی اجازت دی۔ تاہم، ان کے دور حکومت میں تہران میں 1922 میں یہودی مخالف واقعات کے دعوے بھی کیے گئے تھے تاریخی طور پر، "فارس" کی اصطلاح   مغربی دنیا میں عام طور پر ایران کے لیے استعمال ہوتے تھے۔1935 میں، رضا شاہ نے درخواست کی کہ غیر ملکی مندوبین اور لیگ آف نیشنز رسمی خط و کتابت میں "ایران" کو اپنائیں - جو نام اس کے مقامی لوگ استعمال کرتے ہیں اور جس کا مطلب ہے "آریوں کی سرزمین"۔اس درخواست کی وجہ سے مغربی دنیا میں "ایران" کے استعمال میں اضافہ ہوا، جس نے ایرانی قومیت کے لیے عام اصطلاحات کو "فارسی" سے "ایرانی" میں بدل دیا۔بعد میں، 1959 میں، رضا شاہ پہلوی کے بیٹے اور جانشین شاہ محمد رضا پہلوی کی حکومت نے اعلان کیا کہ "فارس" اور "ایران" دونوں کو باضابطہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس کے باوجود مغرب میں ’’ایران‘‘ کا استعمال زیادہ ہوتا رہا۔خارجہ امور میں، رضا شاہ نے ایران میں غیر ملکی اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی۔اس نے برطانیہ کے ساتھ تیل کی رعایتوں کو منسوخ کرنے اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ اتحاد کے خواہاں جیسے اہم اقدامات کئے۔اس نے غیر ملکی اثر و رسوخ کو متوازن کیا، خاص طور پر برطانیہ، سوویت یونین اور جرمنی کے درمیان۔ ، اس کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہی منہدم ہوگئی، جس کے نتیجے میں 1941 میں ایران پر اینگلو سوویت حملے اور اس کے بعد جبری دستبرداری ہوئی۔[  1979ء کو شاہ محمد رضا پہلوی ایران سے باہر جانے کے لیے اپنے خصوصی ہوائی جہاز میں داخل ہوئے تو وہ زار و قطار رو رہے تھے۔


وہ ایران کی سرزمین نہیں چھوڑنا چاہتے تھے لیکن  ملک سے باہر جانے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم شاہ پور بختیار نے آمادہ کیا۔ 11شاہ پور بختیار نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ اب ایرانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے-اور پھر یہی ہوا کہ فروری 1979 میں ایران کی شاہی حکومت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد وہ مختلف ملکوں میں پھرتے رہے۔ ۔ سب سے پہلے مصر کے شہر اسوان گئے، اس کے بعد مراکش کے شاہ حسن دوم کے مہمان رہے۔ مراکش کے بعد بہاماس کے پیراڈائز آئی لینڈ میں قیام پزیر ہوئے اور پھر میکسیکو سٹی کے قریب کورناواکا شہر میں میکسیکو کے صدر جوز لوزپیز پورٹیلو کے مہمان بنے۔ چھ ہفتے نیویارک کے ہسپتال کورنیل میڈیکل میں جراحتی علاج کرواتے رہے۔ قیام کے دوران ڈیوڈ ڈی نیوسم کے خفیہ نام کا استعمال کیا جو اس وقت کے نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور کا اصل نام تھا۔ ایران میں امریکی سفارتی خانے کے جلائے جانے پر شاہ ایران کو امریکا سے جانا پڑا۔ فیڈل کاسترو کی وجہ سے میکسیکو نے دوبارہ میزبانی سے انکار کر دیا، مجبوراََ پانامہ کے تفریحی جزیرے اسلا کونتا دورا میں قیام کیا۔ پانامہ میں مقامی افراد کے ہنگاموں اور فوجی حکمران کے ناروا سلوک سے تنگ آ کر مارچ 1980 میں مصر کی سیاسی پناہ قبول کر لی۔ یہاں تک کہ 27 جولائی، 1980ء کو قاہرہ کے ایک اسپتال میں ان کا انتقال یہ وہ مطلق العنان شہنشاہ تھے جن کی  مرضی کے خلاف بولنے والوں کے مقدّر میں صرف دردنا ک موت ہی لکھی ہوتی تھی اور اس بے پناہ دولت سے وہ اپنے لئے زندگی نہیں خرید سکے نا ہی صحت کی دولت خرید سکے اور بالآخر بیماری کے ہاتھوں ایڑیاں رگڑ کر قبر میں اتر گئے(موت کے وقت شاہ کی جو دولت بیرونی بینکوں میں جمع تھی وہ دس ہزار ملین پونڈ سے بھی زیادہ تھی)

  ایران میں رہنا نصیب نہیں ہوا اس کے بعد خود شاہ کو سلطنت چھوڑ کر جلاوطن ہو جانا پڑا۔ شہنشاہ ايران محمد رضا پہلوی نے دنيا بھر كی ناياب اشياء  اپنے اس  نادر الوجود پیلس ميں جمع كيں اور دس سال بعد 1968ء ميں اس ميں رہائش پذير ہوئے۔ انقلاب ايران تک وہ اسی محل ميں اپنی ملكہ فرح پہلوی کے ہمراہ مقيم تھے اور يہیں سے انھیں ملک بدر ہونا پڑا۔ محل كی ہر چيز كو محفوظ کر ديا گيا ہے۔ اسی محل کے سا‍تھ ايک اور قديم محل موجود ہے جو قاچار خاندان كے زير استعمال رہا تھا اور بعد ميں شہنشاہ ايران نے اسے اپنے سركاری آفس میں تبديل كر ليا تھا۔ محل سے ملحقہ شہنشاہ ايران کے آفس میں دنيا كی عظيم شخصيات كی تصاوير ركھی گئی ہیں جن میں سابق وزيراعظم پاكستان ذو الفقار علی بھٹو كی تصوير بھی موجود ہے۔ 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر