بدھ، 21 فروری، 2024

پنجیری کے فوائد

  

  پنجیری  گزرے ہوئے کل میں بھی اہم تھی  اور آج بھی اہم ہے اور آنے والے کل میں بھی اہم رہےگی - تو آئیے جانتے ہیں قدرت کی اس سوغات کی اہمیت کیوں ہے-اور یہ کیسے تیاّ ر کی جاتی ہےپورے برصغیر میں عام چلن تھا کہ گھروں میں نومولود کے آنے پر پنجیری بناء جاتی تھی 'مقوی میوہ جات سے بھرپور یہ  بہت لذیذ ہو تی         ہے  اوراس کے فوائد مندرجہ زیل ہیں-کیونکہ یہ تمام ضروری غذائی اجزاء سے بھرپور ہوتی ہے اگر اسے غذائیت کا خزانہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔سردی ہو یا گرمی پنجیری زچہ عورت کو ضرور کھلائی جاتی ہے کیونکہ یہ بچے کی پیدائش سے قبل اور بعد کی ہر طرح کی کمزوری کو دور کرنے کے لئے بہترین غذا ہے۔پیدائش کے بعدکمزوری کو دور کرنے کے لئے حلووں یا سفوف میں شامل کرکے کھلاتے ہیں۔ ھڈیوں اور مہروں کی مضبوطی کے لئے

سردیوں کی خاص سوغات "پنجیری" بہت لذیذ اور لائیٹ ہونے کے ساتھ جسم کو گرماہٹ پہنچا کر سردی کے اثرات سے بچاتی ھے, کمر اور جوڑوں کے درد کو دور کرتی ھے اور بچوں کی نظر اور حافظے کو بڑھاتی ھے.زچگی والی خواتین کو لازمی دی جاتی ھےبنانے کی ترکیب -اس کو ہر گھر میں اپنے اپنے طور پربنایا جاتا ہے کچھ لوگ مونگ کا آٹا لیتےہیں تو کچھ بیسن کا استعمال کرتے ہیں اور کچھ گھرانوں میں سوجی کا استعمال کیا جاتا ہے  -مقدار -ایک پاو دیسی گھی آدھا کلو آٹایا سو جی  دو کپ پسی ہوئی چینی دو-چار سبز الائچیاں آدھا کپ ناریل کا برادہ (Dessicated coconut )بادام, پستے, کاجو, کشمش, چار مغز, اخروٹ یہ سب اپنی پسند سے جتنے چاہیں لے لیں -سونٹھ پسی ہوئ ایک چائے کا چمچاجوائن پسی ہوئ آدھی چائے کی چمچی تین بڑے چمچ سونف-دو چمچ کمر کس -تیس عدد مکھانےتین چمچ کھانے والی گوند یعنی گوند کتیراتین چمچ کھانے والے

 بنا نے کی ترکیب :

آدھا گھی کڑاہی میں ڈالیں اور ہلکی آنچ پر مکھانے, گوند اور کمر کس کو الگ الگ بھون کے نکال لیں پھر انکے ساتھ سونف شامل کر کے گرائنڈ کر لیں.اب اسی گھی میں کشمش کو بھی ہلکی آنچ پر بھون کے نکال لیں.. اب ناریل کے علاوہ باقی سب کٹے ہوئےخشک میوے اسی گھی میں بھون کے نکال لیں.اب کڑاہی کو صاف کر کے باقی بچا ہوا گھی ڈالیں الائچی کے دانے ڈالیں اور ہلکی آنچ پر آٹے کو ھلکا براون ہونے تک بھونیں, جب بھن جائے تو چولہا بند کر دیں اور چینی کے علاوہ باقی سب بھنے ہوئے اجزا اور ناریل کو اسمیں ملا دیں, جب ٹھنڈا ہو جائے تو پسی ہوئی چینی بھی ڈال دیں.. مزیدار پنجیری تیار ہے, گرم دودھ کے ساتھ انجوائے  کیجئے-مکھانے میں شامل کیمیائی اجزا:پھول مکھانے میں کیلشیم، میگنیشیم اور فاسفورس کی وافر مقدارپائی جاتی ہے۔ان کے علاوہ اس میں دیگر فائدہ مند مرکبات -ا مسئلہ جن لوگوں کو ہائی بلڈپریشر کا مسئلہ ہے انہیں مکھانہ  استعمال باقاعدگی سے کرنا چاہیئے۔ یہ نہ صرف انکے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ 

یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔جسمانی طاقت بحال کرےمکھانا ایک ایسی چیز ہے جس کو آپ کسی بھی وقت کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے ہم کو بہت سارے فوائد ملتے ہیں۔ اگر آپ روزانہ مکھانا کھائیں گے تو یہ بہت فائد ہ مند ہے۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔جسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے۔ بدن میں موجود ہر طرح کے دردوغیرہ دور ہوجائییں گے۔ نہ آپ کبھی تھکاوٹ محسوس کریں گے اور نہ ہی سستی۔خواتین کیلئے تحفہ پھول مکھانے خواتین کے بعض دوسرے مسائل کا حل بھی ہے۔اس نسخے کو تیار کرنے کے لئے آپ کو تھوڑا تردد کرنا پڑے گا۔ لیکن آپ کے بہت سے مسائل اس سے حل ہوجائیں گے۔

جن خواتین کو پرانی لیکوریا ہو کمر ٹانگوں اور پنڈلیوں میں ایسا درد ہو کہ درد کی گولیاں کھا کر عاجز آگئی ہوں۔ دوسری طرف بلڈ پریشر ہو۔گرم چیزیں نہ کھاسکتی ہوں اور تیسری طرف موٹاپا بہت زیادہ ہو۔ ایسی خواتین اس نسخے کا استعمال کریں۔حیران کن فائدہ ہوگا۔اسی طرح وہ خواتین جو کمزور ہیں۔ جن میں خون کی کمی ہے۔ پٹھے اعصاب اور جسم دکھتا ہے۔ ہر وقت سانس پھولتا ہے۔طبیعت اکتاہٹ اور بیچینی کا شکار رہتی ہے۔ وہ بھی یہ نسخہ استعمال کرسکتی ہیں۔ اسی طرح مہوروں کا مسئلہ،ڈسک پرابلم،اعصابی کھنچاؤ،اس نسخے کے سامنے ایسے ہیں جیسے آٹے میں سے بال نکل جائے۔اس نسخے کو کچھ عرصے تک استعمال کرنا شرط ہے۔ اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی نسخہ ہو ایک یا دو بار استعمال کرنے سے ان کے مسائل حل ہوجائیں۔ تو ایسا نہیں ہوتا۔ کسی بھی نسخے کا مستقل استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی خواتین جن میں بے اولادی کے مسائل ہوں اور وہ اپنی بے اولادی دور کرنےکے لئے پنجیری کا استعمال بےحد مفید ہے -وہ پنجیری پر ضرور توجہ دیں -

 

اتوار، 18 فروری، 2024

حضرت ’’امام مہدی علیہ السلام(عج) ‘‘

    امام حسن عسکری علیہ السلام کی اولاد-شیعوں کا عقیدہ اس بات پر ہے کہ امام حسن  عسکری(علیہ السلام) کے صرف ایک بیٹے تھے جو امام مہدی (علیہ السلام) ہیں جو ۲۵۵ ہجری میں پیدا ہوئے اور آج تک رضائے الٰہی سے پردۂ غیب میں ہیں اور انشاء اللہ بحکم پروردگار عالم، ظہور فرمائیں گے اور اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے۔آپ کا معروف ترین لقب ’’مہدی‘‘ ہے اسی لقب کی وجہ سے آپ کو ’’امام  مہدی(عج) ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ولادت باسعادت: امام زمانہ(عج) کی ولادت باسعادت عباسی خلیفہ معتمد کی حکومت کے دوران 15شعبان 255ہجری کو سامراء میں ہوئی۔  امام زمانہ(عج) کی ولادت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام نے دس ہزار رطل روٹی اور دس ہزار رطل گوشت تقسیم کیا اور تین سو دنبے عقیقہ کے طور پر ذبح کیے۔والدہ ماجدہ: امام زمانہ(عج) کی والدہ کا نام جناب ’’نرجس‘‘ہے۔

اپنے بابا کی شہادت کے وقت امام زمانہ(عج)  کی عمر پانچ سال تھی۔ جس طرح اللہ نے حضرت یحیی کو بچپن میں ہی نبوت عطا کی اور حضرت عیسی کو گہوارے میں ہی اپنا رسول بنایا اسی طرح اللہ تعالی نے امام زمانہ کو کم سنی میں ہی امامت کے منصب پہ فائز کیا انھیں دانائی اور حق وباطل میں تمیز کرنے والے فصل الخطاب سے نوازا اور انھیں پوری دنیا کے لیے اپنی حجت اور نشانی قرارا دیا۔ اس کتاب کے’’امام مہدی منتظر‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے باب میں ہم کہہ چکے ہیں کہ اسلام میں امام مہدی(عج) اور ان سے متعلق تمام امور کے بارے میں عقیدہ رکھنے کا پہلا اور بنیادی سبب اہل سنت اور شیعوں کی معتبر کتابوں میں موجود احادیثِ نبویہ  ہیں، ہر دور میں مسلمانوں کا اس بات پہ اتفاق رہا ہے کہ آخری زمانہ میں اہل بیت میں سے مہدی نام کا ایک فرد ظہور کرے گا جو دین کی مدد و تائید کرے گا اور عدل و انصاف کی بات کرے گااور پوری دنیا پر حکومت حاصل کرنے کے بعد اسے عدل و انصاف سے بھر دے گا-

غیبتِ صغری: اس پہلی غیبت میں امام مہدی سوائے چند خاص لوگوں کے تمام لوگوں سے پوشیدہ رہے اور شیعوں سے ان کا رابطہ اپنے نمائندوں اور سفراء کے ذریعے رہا، شیعہ اپنے سوالات اور خطوط امام مہدی(عج) کے خاص سفیر کو دیتے اور وہ سفیر شیعوں کے خطوط کو امام مہدی تک پہنچا دیتا۔ امام مہدی(عج) کی طرف سے سوالوں اور خطوط کے جوابات کو متعلقہ افراد تک پہنچانا بھی امام کے سفیر کی ہی ذمہ داری تھی امام مہدی(عج) کی طرف سے لکھے گئے خطوط وغیرہ پہ امام کی مہر اور ان کے دستخط ہوا کرتے تھے۔مختلف حدیثی، تاریخی، کلامی منابع اور دعا و زیارات میں شیعیانِ آل رسول کے بارہویں امام بہت سارے القاب اور کنیت سے متعارف کرائے گئے ہیں؛

 محدث نوری نے اپنی کتاب نجم الثاقب میں تقریباً 182 نام اور القاب ذکر کیے ہیں اسی طرح (نام نامہ حضرت مہدیؑ نامی کتاب) میں امام ؑ کے 310 اسماء اور القاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ محدث نوری نے یہ اسماء اور القاب ذکر کیے ہیں: مهدیؑ، قائم، بقیۃ الله، منتقم، موعود، صاحب الزمان، خاتم الاوصیاء، منتَظَر، حجۃ الله، منتقم، احمد، ابوالقاسم، ابوصالح، خاتم الائمہ، خلیفۃ الله، صالح، صاحب‌الامر۔   محدث نوری، النجم الثاقب میں لکھتے ہیں کہ تمام معتبر اسامی اور القاب کو جمع کیا ہے اور شخصی نظریات اور غیر معتبر تحقیقات سے اجتناب کیا ہے ورنہ مختلف کتابوں سے کئی گنا اسامی اور القاب نکالے جا سکتے تھے۔ اسی طرح نام نامہ حضرت مہدیؑ نامی کتاب میں 310 اسماء اور القاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بارہویں امامؑ کے اسماء اور القاب اہل سنت مآخذ میں بھی نقل ہوئے ہیں؛ گوکہ ان مآخذ میں زیادہ تر مہدی کے عنوان سے استفادہ کیا گیا ہے ۔ ان القاب میں سے بعض کچھ یوں ہیں:-امام زمانہؑ کی والدہ ماجدہ کے متعدد نام ذکر ہوئے ہیں؛  

ولادت امام زمانہؑ کو عام لوگوں سے خفیہ رکھا گیا۔ ۔ نیز امام صادقؑ فرماتے ہیں: "صاحب الامر کی ولادت خلائق سے پوشیدہ ہے یہاں تک کہ ظہور کریں ولادت مخفی بھی اس لئے ہی تاکہ آپؑ پر کسی کی بیعت نہ ہو"۔  ۔تاریخ میں ولادت کا خفیہ رکھا جانا بے مثال نہیں ہے بلکہ مروی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی ولادت کو بھی خفیہ رکھا گیا تھا کیونکہ بادشاہ وقت کی طرف سے ان کے قتل کئے جانے کا خدشہ تھا۔ یا پھر قرآن کریم کی سورہ قصص کی آیات 7 سے 13 تک میں موسی بن عمرانؑ کی ولادت کی روداد بیان کرتے ہوئے ان کی ولادت کو خفیہ رکھے جانے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

 

ہفتہ، 17 فروری، 2024

خطبہ -مولا علی علیہ السلام


مولائے کائنات نے اپنے پیرو کاروں کے لئے نہج البلاغہ جیسی بلند مرتبہ کتاب تخلیق کی اس کتاب میں مولا نے اپنے خطبات کے زریعہ  انسان کی فلاح و بہبود کے اور اخلاقی کو سنوارنے  کے  نکات بیان کئے ہیں -اگر اس کتاب کو دنیا کے تمام مکاتب فکر کے لوگ  زیر مطالعہ لائیں تو بلا مبالغہ وہ جینے کا ایسا   انداز اختیار کر لیں جس  سے دنیا عش عش کر اُٹھے -یہاں میں اپنے مولا کا ایک خطبہ تحریر کر رہی ہوں -ہاں سنو! تمھارے زمانے میں ایک وقت ایسا بھی آءے گا جب اس وقت اپنے سیدھے  راستوں پر چلنے والوں کے پاؤں لڑکھڑا جائیں گے اور سیدھے راستے پر چلنے والے لوگ بہک جائیں گے جب اس فتنے کا حملہ ھو گا تو لوگوں کی خواہشوں میں ٹکڑاؤ ھو گا -لاگ خدا کے احکامات کی کھلم کھلا نافرمانیوں کے مرتکب ہو کر اس کے غیض کو آواز دینےلگیں گے- ان کی رائے میں اختلاف ھوگا جو سر اٹھا کر دیکھے گا اس فتنے کو اس کا سر توڑ دے گا جو اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرے گا یہ اسے جڑ سے اکھاڑ دے گا لوگ ایک دوسرے کو اس طرح کاٹیں گے جیسے   بھرے ھوئے  گلوں میں گدھے ایک دوسرے کو نوچتے ھیں

 دین کی بٹی ھوئی رسی کے بل کھل جائیں گے زمین   میں اندھیرا چھا جائے گاعلم عقل چپ سادھ لیں گے اور ظالموں کی زبانیں کھل جائیں گی یہ فتنہ بیابانوں میں رھنے والوں ک ہتھوڑوں سے کوٹے گا اور اپنے سینے سے دبا کر انھیں ریزہ ریزہ کر دے گا اس سے اٹھنے والی دھول میں اکیلے دو مسافر برباد ھو جائیں گے اور راستوں میں چلنے والے قافلے راہ میں ھی مارے جائیں گے مقدر میں کڑواہٹ بھر جائے گی دودھ کے بدلے تازہ خون دوہا جائے گا دین کے معیار گر جائیں گے یقین کے دھاگے ٹوٹ جائیں گے عقل مند اس سے دور بھاگیں گے اور شر پسند اس کے برابر شریک ھونگے یہ فتنے گرج چمک کے ساتھ آئں گے اور اسقدر سخت اور تیز ھو ں گے کہ تمام رشتے ٹوٹ جائیں گے اور دین کا دامن چھوٹ جائے گا اس سے الگ تھلگ رھنے والا بھی اس میں الجھ جائے گا اور اس بھاگنے والا اپنے قدم باہر نا نکال سکے گا

 ،بہت سے لوگ قتل ھو جائیں گے اور ان کا خون رائیگاں جائے گا اور کچھ اتنے ڈرے ھوئے ھوں گے کہ پناہ ڈھونڈتے پھریں گے انھیں ایمان کے نام پر قسم دے دے کر دھوکہ دیا جائے گا تم نئی نئی رسموں کے بانی نا بننا اس راستہ پر قدم جمائے رکھنا جس پر ایمان والوں کی جماعت چل رھی ھوگی اور جس پر اللہ کا حکم اور ماننے والوں کا عمل اور کردار قائم ھو گا-دیکھو اللہ کے پاس منصف  بن کر جانا ظالم بن کر نا جانا شیطان کے ٹھکانوں سے بچنا اپنے پیٹ میں حرام لقمے نہیں ڈالنا کیوں کہ تم اس کی نگاہوں 

کے سامنے ھو جس نے خطا کو تمھارے لئے  منع کیا ھے اور فرمانبرداری کی راھیں آسان کر دی ھیں آج کے حالات کے تناظر میں دیکھا جا سکتے ھے کہ مولا علی کا فرمان حرف با حرف درست ھے ، یہی فرمان وصی رسول اللہ کا1400 سال پہلے کا ھےسامنا کرنا پڑا اور باعث حیرت ظلم کی بات یہ ہے کہ یہ فتنے اور فتنہ پرور کوئی غیر مسلم نہیں تبلکہ مسلمان ہیں اور اسوقت کے مسلمان تھے جنہوں نے اللہ کے حبیب رحمت عالمین کو دیکھا بھی تھا انکی محفلوں میں بھی رہے تھے اور انکی زبان مبارک سے علی کے بارے میں فرمودات سنے بھی تھے۔ یہ آج کے فتنہ پرور اور فتنہ پروری بھی اسی کا تسلسل ہے۔۔۔۔۔ یہ بات اللہ کے رسول کے بعد فقط باب العلم ہی کہہ سکتے ہیں کہ ۔ سوچو کے لوگ اندھیروں میں بھٹک رھے ھیں تھے جہالت حد سے گزر چکی تھی اور مزاج میں سختی آگئی تھی لوگ حلال کو حرام اور حرام کو حلال اور سمجھ دار کر زلیل سمجھنے لگے تھے

یہ فتنے شروع شروع میں خفیہ راستوں سےآتے ھیں جیسے چھوٹے بچوں کی اٹھان ھوتی ھے لیکن پھر اپنے آثار پتھر پر بننے والے نشان کی طرح چھوڑ جاتے ھیں دنیا کے ظالم گٹھ جوڑ کر کے ان کے وارث ھو جاتے ھیں ان میں جو پہلا ھوتا ھے وہی آخری والے کا رہنما ھوتا ھے اور ان میں جو آخر ھوتا ھے وہ پہلے والے کے راستے پر ہی چلتا ھے یہ لوگ گھٹیا دنیا پر جان دیتے ھیں اور گلے سڑے جانور پر ٹوٹ پڑتے ھیں   -یہ بہت جلد  آپس میں دشمن بن کر ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور آمنا سامنا ھو گا تو ایک دوسرے پر لعن طعن کریں گے اس کے بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ جو لوگوں کے سکھ چین کو مٹا دے گا ہر طرف تباہی مچا دے گا اور اللہ کے بندوں پر سختی کے ساتھ حملہ آور ھو گا -



جمعرات، 15 فروری، 2024

اھلا و سہلاً مرحبا🌹ولادت مبارک امام زین العابدین علیہ السلام

 



🌹بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۃ🌹الّلہُم صَلَی الله عَليهِ وَآلِہٖ وَسَلِّمْ🌹اھلا و سہلاً مرحبا 🌹گلستان نبوت میں امامت کے مینارہء چہارم حضرت امام  زین العابدین علیہ السلام کی ولادت کُل عالمین کی مومن مخلوقات و جن و انس کو مبارک ہو- اور اس وقت اپ کے جد حضرت علی عليہ    السلام حیات تھے ۔ آپ کا نام آپ لوح ازل میں محفوظ اسم   علی رکھا گیا جبکہ کنیت ابوالحسن اور ابوالقاسم رکھی گئی۔ ولادت کے چند دن بعد آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا جس کے بعد آپ کی خالہ گیہان بانو جو محمد بن ابی بکر کی زوجہ تھیں اور انہوں نے محمد بن ابی بکر کے انتقال کے بعد شادی نہیں کی تھی، نے آپ کی پرورش کی۔ دو سال کی عمر میں آپ کے دادا حضرت علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام عليہ سلام کو شہید کر دیا گیا

علی بن حسین بن علی بن ابی‌ طالب (38-95 ھ) امام سجادؑ اور زین العابدین کے نام سے مشہور، آپ 35 سال امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ کا زہد و تقویٰ مشہور تھا۔ وضو کے وقت آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔ پوچھا گیا تو فرمایا کہ میرا تصورِ کامل اپنے خالق و معبود کی طرف ہوتا ہے اور اس کے جلالت و رعب سے میری یہ حالت ہو جاتی ہے۔نماز کی حالت یہ تھی کہ پاؤں کھڑے رہنے سے سوج جاتے اور پیشانی پر گٹھے پڑے ہوئے تھے اور رات جاگنے کی وجہ سے رنگ زرد رہتا تھاعلامہ ابن طلحہ شافعی کے مطابق نماز کے وقت آپ کا جسم لرزہ براندام ہوتا تھا۔ سجدوں کی کثرت سے آپ کا نام سید الساجدین  پڑ گیا تھا۔ ابن جوزی خصائص الائمہ کہتے ہیں:علی بن الحسین، زین العابدین املا، انشاء، بات چیت اور خطاب کرنے کی کیفیت اور اللہ کی بارگاہ میں عرضِ حاجت کے سلسلے میں تمام مسلمانوں پر معلمی کا حق رکھتے ہیں؛
 کیونکہ آنحضرت علیہ السلام  نہ ہوتے تو مسلمان اللہ کے ساتھ کلام اور راز و نیاز کرنے اور اس کی بارگاہ میں عرض حاجت کی کیفیت سے نا واقف رہتے؛    امام علیہ السلام  نے لوگوں کو سکھایا کہ استغفار کے وقت خدا کے ساتھ کس طرح کلام کریں اور بارش طلب کرنے کے وقت کس زبان سے بارش کے نزول کی التجا کرے اور دشمن سے خوف کے وقت کس طرح اللہ کی پناہ میں چلے جائیں اور دشمنوں کا شر دور کرنے کے لیے اللہ سے درخواست کرے۔زکی مبارک اپنی کتاب التصوف الاسلامی والادب والاخلاق نے صحیفہ سجادیہ کو مختلف پہلؤوں سے انجیل کی مثال قرار دیتے ہیں، ۔ آقا بزرگ تہرانی کہتے ہیں: صحیفۂ اُولٰی، جس کی سند امام زین العابدین علیہ السلام  تک پہنچتی ہے۔ ... اکابرین کے نزدیک متواترات اور [قطعیات] میں شمار ہوتا ہے؛ کیونکہ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ [سلسلۂ سند میں] مذکورہ تمام اصحاب 

نے تمام زمانوں میں اس کی نقل کی اجازت رجال کے تمام طبقات میں اپنے مشائخ سے حاصل کی ہے -نیز محمد تقی مجلسی نے دعوی کیا ہے کہ ان کے پاس صحیفہ کی نقل کے سلسلے میں دس لاکھ اسناد موجود ہیں ۔ اہل سنت کے علما میں ابن جوزی نے خصائص الائمہ میں اور سلیمان بن ابراہیم قندوزی نے ینابیع المودہ میں اس کا تذکرہ کرکے اس کے بعض حصوں کو نقل کیا ہے ابو المعالی محمد بن ابراہیم کلباسی (متوفٰی 1315ھ ق) نے بھی اپنی کتاب الرسالۃ فی السند الصحیفۃ السجادیۃ میں صحیفہ سجادیہ کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ صحیفہ سجادیہ بخط کفعمی ـ جو صحیفہ سجادیہ کے قدیم نسخوں میں سے تھا اور کئی سال تک ایران سے نکل کر گم ہو چکا تھا ـ کا سراغ بڑی محنت کے نتیجے میں، بر صغیر میں لگایا گیا اور ثقافتی شخصیات کے توسط سے قم میں منتقل کیا گیا اور بالآخر زیور طبع سے آراستہ ہوکر شائع ہوا۔

یہ نسخہ صحیفہ کی 54 دعاؤں کے علاوہ چار مزید دعاؤں پر مشتمل ہے۔ امام سجاد :بار پروردگارا! اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیج؛ جن کو تو نے  اپنی مخلواقت پر ہدائت کے لئے منتخب کیا ، اور اپنے علوم کا خزینہ اور دین کے محافظ مقرر کیا اور روئے زمین پر انہیں خلیفہ اور اپنے بندوں پر حجت کے عنوان سے متعین کیا؛ انہیں اپنے ارادے سے، ہر نجاست اور آلودگی سے پاک و منزہ قرار دیا اور انہیں اپنے ارادے سے ہر ناپاک کرنے والی شئے سے پاک کردیا اور انہیں اپنے مقام قرب اور بہشت بریں تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا۔امام سجاد اپنی دعاؤں کے آغاز میں اللہ کی حمد و ثناء بجا لاتے ہیں،اپ صلوات کے ورد پربہت توجہ دیتے تھے، یہاں تک کہ صحیفہ میں کم ہی کوئی دعا ہوگی جس میں لفظ صلوات سے استفادہ نہ ہوا ہو  آپ علیہ السلام  آخر میں اللہ سے اپنی حاجت کی درخواست کرتے ہیں۔صحیفہ سجادیہ محض خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس کی بارگاہ میں حاجت کے بیان پر ہی مشتمل نہیں ہے، بلکہ بہت سے اسلامی علوم و معارف کا مجموعہ بھی ہے   – 

درد جگر ٹھہر زرا

       جگر (liver) ہما رے بد ن میں ایک ایسا عضو ہے  جورنگت میں گہرا سرخ اور نرم گوشت کی مانند ہوتا ہے۔ جگر کوانسانی جسم کا سب سے بڑا اندرونی عضو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ جگر   ہما ر ی صحت برقرار رکھنے میں کلید ی کردار ادا کرتا ہے   اگر کسی و جہ  سےجگر  میں کو ئ خرا بی  پید ا  ہو جا   ۓ تو علامات واضح ہونے لگتی ہیں۔جگر کے مسائل کی ابتدائی نشانیاں بہت عام ہوتی ہیں جیسے پیٹ میں درد، بھوک کا احساس نہ ہونا، تھکاوٹ یا توانائی کی کمی اور ہیضہ ہو نا شا مل ہے۔جلد کی رنگت زردی مائل ہوجاتی ہے جبکہ آنکھوں میں بھی پیلاہٹ نمایاں ہوجاتی ہے۔جگر ہمارے جسم کا دوسرا بڑا اور نظام ہاضمہ میں اہم کردار ادا کرنے والا عضو ہے۔ ہم جو بھی شے کھاتے ہیں، چاہے غذا ہو یا دوا، وہ ہمارے جگر سے گزرتی ہے۔

اگر جگر کی صحت کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ باآسانی خراب ہو کر ہمیں بہت سے امراض میں مبتلا کرسکتاہے ۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب خون کے سرخ خلیات میں زیادہ مقدار میں ایک زرد مادہ جمع ہوجاتا ہے۔عام طور پر جگر اس مادے کو جسم سے خارج کرتا ہے مگر جب وہ بیمار ہوتا ہے تو ایسا نہیں کرپاتا۔اگر کسی مریض کو جگر کے دائمی امراض کا سامنا ہو تو خارش کی شکایت بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔اس خارش کے نتیجے میں سونا مشکل ہوسکتا ہے اور کھجانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر اس طرح کی شکایت ہو تو ڈاکٹر سے رجوع  کر نا  چا ہۓ -جگر کا ایک عام مرض ہیپاٹائٹس ہے جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔     جگر کے ‏‏بیما ر ہونے پر معدے میں سیال جمع ہونے لگتا ہے جس سے پیٹ میں ورم بڑھ جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے  بہت زیادہ پھول گیا ہے۔جگر کے امراض کے شکار کچھ افراد کی ٹانگوں اور ٹخنوں میں یہ سیال جمع ہوجاتا ہے جس سے یہ حصے سوج جاتے ہیں، ان حالات میں نمک کا کم استعمال مددگار ثابت ہوسکتا ہے مگر ڈاکٹر سے  مشورہ ضروری ہے۔ 

 فضلے کی رنگت بہت زیادہ زرد ہوجاتی ہے۔  جبکہ پیشاب کی رنگت بہت زیادہ گہری براون ہوجاتی ہے۔جگر کے امراض کے شکار بیشتر افراد کو ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے، جس کی وجہ جسم اور دوران خون میں زہریلے مواد کا اجتماع ہوتا ہے۔اس مواد کے نتیجے میں دماغی افعال بھی متاثر ہوتے ہیں جس سے ذہنی الجھن یا توجہ مرکوز کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، چیزیں بھولنا بھی عام مسئلہ ہوتا ہے۔جگر کے ا امراض سے جسم میں زہریلے مواد کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہر وقت متلی ہو نے کا  احساس ہوسکتا ہے یا قے کی تکلیف بھی ہوسکتی ہے۔جگر کو زیادہ نقصان پہنچا ہو تو قے یا فضلے میں خون بھی نظر آسکتا ہے۔اگر جگر کو نقصان پہنچ رہا ہو تو ہلکی رگڑ سے بھی خراشیں نمایاں ہوجاتی ہیں۔اسی طرح اگر کسی جگہ سے خون بہنے لگے تو وہ آسانی سے رکتا نہیں، کئی بار الٹا اثر بھی ہوتا ہے یعنی جریان خون کی بجائے جگر کے امراض کے شکار افراد میں بلڈ کلاٹس کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔'

 جگر کے اہم افعال

آپ کا جگر تقریباً 500 مختلف کام کرتا ہے جن سے آپ کے جسم کی کارکردگی بہترین رہتی ہے۔جگر ہی پیشاب اور فضلے کے افعال کو صحت مند بناتا ہے ان میں سے دو اہم ترین کام خون صاف کرنا اور ہاضمے میں مدد دینا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک صحتمند جگرتوانائی کا ذخیرہ رکھتا ہے، انفیکشن کا مقابلہ کرتا ہے اور زہریلے مادّوں کو جسم سے نکالتا ہے۔-جب جگر کو نقصان پہنچ چکا ہو تو وہ یہ کام ٹھیک طرح نہیں کر سکتا اس لیے اپنے جگر کو صحتمند رکھنا اہم ہے۔ہر طبیب  کا کہنا ہے کہ جگر کو صحت مند رکھنے کے لیے قدرتی غذاؤں کا انتخاب ہی بہت بہتر ہوتا ہے- آپ کو غذائ چارٹ اسی عنوان کے پارٹ  2میں پڑھنے کو ملے گا۔اس اہم عضو کی اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے  جگر کی حفاظت اور صحت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے جگر کا عالمی دن منایا جا نے لگا ہے۔ 

اتوار، 11 فروری، 2024

مجلس -28 رجب -جب بدر کربلا تک آ گئ

ِ


اما  م عالی مقام جب یزید کے ارادوں سے آگاہ ہو گئے تب آپ نے شہر مدینہ سے   کوچ کا ارادہ کیا رات کے وقت اپنی  مادر گرامی  کی قبر پر آئے  بہت دیر قبر سے لپٹے رہے  پھر امام حسن علیہ السلام   کی قبر پر حاضری دی اور نماز بجا لائے اور وداع کیا  آخر شب نانا  رسول اللہ کی قبر پر حاضری دی اور دو شب مسلسل اپنے جد امجد کی قبر  پر رہے۔امام عالی مقام کے بھائ محمد حنفیہ کو معلوم ہوا کہ  امام حسین علیہ السلام مدینہ سے کوچ کر رہے ہیں تو محمد حنفیہ ملنے آئے تب ۔امام  نے اپنی وصیت ان کے نام پر لکھی جس کا مضمون کچھ یوں تھا: "إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب”۔ترجمہ: میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں) اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا رسول اللہ  اور بابا علی بن ابی طالب  کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔ مکہ کی طرف روانگی-شہر مدینہ  کو الوداع کرتے ہوئے آپ  علیہ السلام نے شعب ابی طالب کو اپنے  اور اہل خانہ کے لئے قیام کا انتخاب کیا 

امام حسین علیہ السلام    اٹھائیس رجب کو رات کے وقت  اور بروایت دیگر تین شعبان سنہ 60 ہجری کو  اپنے خاندان اور اصحاب کے  افراد کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔  اس سفر میں محمد بن حنفیہ کے سوا  امام حسین کے اکثر اعزّاء و اقارب ـ منجملہ آپ کے بیٹے، بیٹیاں، بھائی، اور بھتیجے ـ آپ کے ساتھ تھے۔چالیس بنو ہاشم کے گھرانے کے دو سو افراد کے ہمراہ  آپ کے 20 صحابی بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوگئے ۔ مکہ کے راستے میں آپ اور افراد قافلہ نے عبداللہ بن مطيع، سے ملاقات کی۔ امام حسین  علیہ السلام    پانچ روز بعد 3 شعبان سنہ 60 ہجری کو مکہ میں داخل ہوئے  اور اہلیان مکہ اور حُجاجِ بیت اللہ الحرام نے آپ کا پُر جوش استقبال کیا ذوالحج کو امام حسین علیہ السلام، ہاشمی نوجوانوں کے ہمراہ حرم کعبہ میں موجود تھے کہ آپ کو اطلاع ملی کہ یزید نے آپ کو قتل کرنے کے لیے حاجیوں کے بھیس میں اپنے تیس افراد مکہ بھیجے ہیں جو موقع کی تلاش میں ہیں اور کسی بھی وقت امام علیہ السّلام  کو بیت الله کی حرمت کا خیال کے بغیر قتل کر دیں گے - امام علیہ السّلام نے اس صورت حال سے اپنے ہمراہ حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو آگاہ کیا -علمدار حسینی نے جب یہ جسارت سنی تو جلال میں آ گئےاور دوسرے ہاشمی جوانوں کو اکٹھا کر کے امام کو فوراً اپنے حصار میں لے لیا - امام نے جوانوں کے جوش کو دیکھتے ہوے حکم دیا کہ فوراً حرم کو چھوڑ دیا جائے تاکہ کسی بھی ممکنہ خون خرابے کی نوبت نہ آئے -

امام علیہ السلام   نے حج کو عمرہ سے تبدیل کیا اور حرم سے دور تشریف لے گئے- سر کے بال اتروا کر احرام کھول دیے گئے -امام عالی مقام اپنے  ہمراہ ہاشمی  جوانوں کو لے کر گھر واپس تشریف  لائے - بی بی زینب سلام اللہ علیہا  کو صورت حال سے آگاہ کر تے ہوئے   ہجرت کی تیاری کا حکم دیا -  ۔ کربلا کے ریگزاروں میں کن سی مصیبت تھی جو آلِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے رفقا کو درپیش نہ آئی ہو لیکن آفرین ہے حضرت امام حسین علیہ السلام   کے حوصلہ پر جس کا کوئی ثانی نہیں۔کربلا نام ہے ذبحِ عظیم کا جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے۔ کربلا میں امام  حسین علیہ السلام  کی شہادت  حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کا ہی تسلسل ہے۔ ربّ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کو مؤخر کر دیا تھا جس کی تکمیل کربلا کے صحرا میں   رسول پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نواسے حضرت امام حسین نے بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کی قربانیاں دے کر کی۔ کربلا قربان گاہ بن گئی اور امام حسین   علیہ السلام   کی قربانی وَ فَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ  ترجمہ: اور ہم نے ایک بڑی قربانی کے ساتھ اس کا فدیہ دے دیا۔ (سورۃ الصفات ۔ 107)کی تفسیر بن گئی۔

 بظاہر امام حسین   علیہ السلام   خا ک و خون میں لت پت ہوگئے، آپ  کا سرِ مقدس کربلا سے دمشق لے جایا گیا، ان پر فرات کا پانی بند کر دیا گیا لیکن درحقیقت وہ سرخرو اور سرفراز ہوئے۔  مسلمانوں کے نظام میں حریتِ فکر و نظر باقی نہ رہی تو اس وقت امام حسین اسطرح اٹھے جیسے قبلے کی جانب سے گھنگھور گھٹا اُٹھتی ہے اور اُٹھتے ہی جل تھل کر دیتی ہے۔ یہ گھنگھور گھٹا کربلا کی زمین پر برسی اوردنیا کے ویرانوں کو لالہ زاربنا گئ ۔امام حسین   علیہ السلام   نے یہ جنگ صرف اپنے نانا کے دین کو بچانے کیلئے لڑی تاکہ خلافت ان اصولوں کے مطابق قائم ہو جو قرآنِ مجید پیش کئے۔ اگر امام حسین علیہ السلام   سلطنت کے خواہاں ہوتے تو اتنے تھوڑے آدمیوں اور معمولی سروسامان کے ساتھ کیوں مکہ معظمہ سے کوفہ کی طرف جاتے۔ ان کے دشمن صحرا کے ذروں کی طرح بے شمار تھے جبکہ دوستوں اور رفیقوں کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی یزداں کے اعداد کی ہے۔حروف ابجد کے حساب سے ’یزداں‘ کے 72 عدد بنتے ہیں۔

 امام حسین کے تمام ساتھی بھی کربلا میں 72 ہی تھے۔حسین کا عزم و استقلال پہاڑوں کی مانند مضبوط اور استوار تھا او روہ اپنی تلوار کو دینِ حق کی عزت و بقا کیلئے استعمال کرنا چاہتے کربلا کا قیام عمل میں لا کر امام عالی مقام علیہ السلام   نے رہتی دنیا تک کے لئے  ایک عالمگیر پیغام دیا  کہ باطل کا سامنا ہو توحق کی قربان گاہ پر اپنی جان قربان کر دوحقیقت یہ ہےکہ امام حسین علیہ السلام   کی شہادت پر ان کی شان بے  مثال کھڑی ہے ۔آپ اللہ سے محبت کی مثال کو امر کر گئے آپ نے زمانے کو بتا دیا کہ اللہ کی محبت ایک قوت ہے، ایک محرک ہے، جو ہمارے اندر غیر معمولی صبر اور تحمل پیدا کرتی ہے۔کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے تھے اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔‘‘تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ حق قوتِ شبیری سے زندہ رہتا ہے اور حضرت  امام حسین جیسی اعلیٰ مرتبہ کی حامل شخصیت ہی ایسی خدمت انجام دیتی ہے۔ 

جمعرات، 8 فروری، 2024

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

   -گھرکے انگن سے میری تعلیم کی ابتداء  تختی لکھنے سے ہوئ اب میں اس دور کے بارے میں سوچتی ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ وقت ایک خوب صورت رنگین تتلی کی مانند تھا -اب مجھے ناشتہ کے فوراً بعد باورچی خانے میں ہی امّی جان قران پاک پڑھایا کرتی تھیں -قران پاک کے بعد کچھ دیر کا وقفہ مل جاتا تھا جیسے آدھا گھنٹہ اس ٹائم میں میرا چھوٹا بھائ میری گود میں رہتا تھا آدھے گھنٹے کے بعد حساب کا وقت ہو تا تھا -میں نے پہاڑے اس طرح سیکھے تھے -دو ایکم دو-دو دونی چار-پہاڑَ ے بس تین چار تک ہی یاد کیئے تھے کی امّی جان نے ایک دن مجھ سے کہا باہر جا و اور کچھ کنکریاں  لے آو -کنکریوں کا سائز شیشے کی کنچے کی گولیوں سے کچھ کم  ہونا چاہئے-میں کچھ دیر میں پچاس کنکریا ں چن کر لے آئ -مجھے اس وقت گنتی روانی سے نہیں آتی تھی اس لئے میں زمین پر دس-دس کنکریا             ں لگ الگ رکھتی گئ جب پانچ جگہ رکھ لیں تب جمع کر کے ڈبّے میں ڈالا اور لاکر امیّ جان کے سامنے ڈبّہ رکھ دیا  - -امّی جان نے ان کنکریوں کو صابن سے دھویا اور ساتھ ہی ڈبّہ بھی دھو کر اوندھا رکھ دیا -جب ڈبّہ اور کنکریا ں خشک ہو گئیں  کنکریا ں  اس میں رکھتے ہوئے امّی جان مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں -دیکھو بیٹا یہ تمھارا گنتی اور حساب کا ڈبّہ ہے اب میں اس سے تم کو حساب سکھاوں گی 

 میری قلم کہانی میری زبانی جی تو میں بات کر رہی تھی تختی کی ،اس زمانے کا رواج تھا کہ اسکولوں میں بھی ابتدا ئ جماعتوں میں تختی لازمی لکھوائ جاتی تھی ،اس کے لئے میری محنتی ، جفاکش اور سمجھدار ماں نے ا ضافی کام یہ کیا ہوا تھا کہ ہم لکھائ سیکھنے والے بچّوں میں ہر ایک کے لئےکے لئے دو تختیاں رکھی تھیں تا کہ ایک تختی اسکول جائے تو دوسری گھر میں استعمال ہواس زمانے میں ہمارے گھرمیں ا یک مٹّی کے کٹورے میں ہمہ وقت ملتانی مٹّی بھیگی رہتی تھی ،ایک دن میں نے کٹورے سے نکال کرجست کے پیالے میں رکھنی چاہی تو امّی جان نے کہا کہ اس پیالے میں مٹّی نہیں رکھنا ورنہ ملتانی مٹّی کا پانی اوپر ہی تیرتا رہے گا اورتختی کی لپائ میں مشکل پیش آئے گی ،اسوقت میں نے جانا کہ مٹّی کے برتن پانی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں-میں نے بہت جلد تختی تیّار کرنے کا ہنر سیکھ لیا اور پھر جب تختی سوکھ جاتی تھی تب میری پیاری ماں اس پر چوڑی لکیریں کھینچ کر اپنے ہاتھ سے خوش خط تحریر لکھ کر ہم بہن بھائ کو دیتیں اور ہم بچّے برو کے قلم کو سیاہ روشنا ئ میں بھگو کران کے پنسل سے لکھے ہوئے حروف کو دوبارہ لکھتے یوں ہمارا رسم الخط بہتر ہوتا گیا-

اس زمانے کی زندگی مین برو کے قلم کی بہت اہمیت تھی ،یہ قلم دراصل بہت پتلے بانس کی لکڑی سے بنائے جاتے تھے میری معلومات کے مطابق ۔اگر ایسا نہیں ہے تو جس کسی کے بھی علم میں ہو وہ برائے مہربانی بتا کر ثواب دارین حاصل کرےخیر تو اس کے بنانے کا بھی ایک خاص طریقہ تھا چونکہ وہ بہت سخت لکڑی کا ہوتا تھا اس لئے اس کے واسطے بہت تیز چھری استعمال کی جاتی تھی اورقلم کا تحریری حصّہ ترچھا رکھّا جاتا تھامیری امّی جان کی جانب سے ہر گز اجازت نہیں تھی کہ کوئ بچّہ اپنا قلم خود بنائے گا ،لیکن میں نے امّی جان سے چھپ کر حسب معمول یہ ہنر بھی جلد سیکھ لیا اور پھر امّی جان سے بتایا کہ آپ خود دیکھ لیجئے کہ میں چھری کو محفوظ طریقے سے چلاتی ہوں کہ نہیں ،بس پھر امّی جان میرے طریقہ کار سے مطمئین ہو گئیں اور مجھے ا پنا قلم خود تیّار کرنے کی اجازت مل      گئ س زمانے میں بنی بنائ روشنائ کے بجائے گھر میں تیّار کی ہوئ روشنائ استعمال کی جاتی تھی تختیوں پر سیاہ اور کاغذ پر نیلی ہر دو روشنائ کی بنی بنائ پڑیاں بازار سے دستیاب ہوتی تھیں جن کو گھول کر استعمال کیا جاتا تھا ،

اس کے بعد کے دور میں بنی بنائ روشنائ نے معاشرے میں رواج پایاہم بہن بھائیوں  میں صفائی سے سلیٹ اورتختی لکھنے  کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔۔ کس کے پاس سرکنڈے کے چھوٹے اور بڑے  عمدہ قلم ہیں۔ کون اپنے قلم سے لفظوں کی گولائیاں خوب صورت بناتا ہے۔ نقطے کیسے لگانے ہیں اور کہاں لگانے ہیں۔  اس زمانے میں خوشخطی کی بہت اہمیت اس لئے ہوتی تھی   کیونکہ کسی بھی شخص کی شخصیت کا اندازہ اس کی تحریر سے لگایا جاتا تھا ۔شائد یہی وجہ تھی کہ امی جان ہم بچوں کی خوشخطی پر بہت توجہ دیتی تھی- کون جھوم جھوم کر اونچی آوازمیں گنتی، پہاڑے اور نظمیں سنا سکتا ہے۔ یہ ہمارے اولین  جماعتوں کے مشاغل تھے۔

ت کے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر