اتوار، 21 جنوری، 2024

کلّو چھولے والے کی شادی 1

   ا پنی زندگی کے وہ اوّلین دن بتانے چلی ہوں جو بہت پر مشقّت تو تھے لیکن بچپن کی انوکھی آرزؤں سے معمور تھے ،ہمارے چاروں جانب ہندوستان کے شورش زدہ علاقوں سے آیا ہوا سماج تھا -بڑے بڑے  قابل نام بھی تھے اور بہت چھوٹے چھوٹے سماجی حیثیت  والے لوگ بھی جو اپنی جانیں بچا کر پاکستان کی آ بسے تھے -پہلے یہ بتا دوں کہ میں اپنے بچپن میں ایک اچھّی طالبہ ہرگز نہیں تھی ،مجھے زندگی نے بعد مین یہ سبق پڑھایا کہ علم کے بغیر دنیا اندھیری ہے ،میرا رزلٹ گھر میں ہمیشہ تھرڈ دیویزن پر ہوتا تھا جبکہ دوسرے بہن بھائ اوّل اور دوئم ہوتے تھے ،لیکن پھر مجھے کچھ رعائت اس لئے مل جاتی تھی کہ میں گھر کا کام سب سے زیادہ کرتی تھی اور اپنے چھوٹے بہن بھائ کو بھی سنبھالتی تھی  -بہر حال میرا بچپن کا ایک انتہائ شوق تھا کہ میں کسی طرح ڈھولک بجانا سیکھ جاؤں اس زمانے میں جب کسی گھر میں شادی ہوتی تھی تو رات کے وقت ڈھو لک کی محفل ضرور سجتی تھی اور میرے پیروں میں پہئے لگ جاتے تھے کہ کس طرح میں اس گھر میں پہنچ جاؤں جہاں ڈھولک بج رہی ہے ،مقصد واحد ہوتا تھا کہ ڈھول بجانے ولی لڑکی کی انگلیاں کس طرح چل رہی ہیں خود دیکھوں اور سیکھوں مگر یہ شوق آ ج بھی ناتمام ہی رہی-ابّا جان تو رات کے وقت گھر سے قدم نکالنے کے ہی سخت مخالف تھے اور امّی جان ابّا جان کے تابع تھیں-ہمارا قیام دیگر مہا جروں کے ہمراہ لالو کھیت نمبر چار میں تھا اور لالو کھیت نمبر تین ہمارے سامنے تھا ہمارا گھر مسجد مستجاب کے سامنے تھا، میری عمر یہی کوئ سات یا آٹھ برس کے دور میں تھی ایسے میں ہمارے سامنے والے محلّے کے ایک گھر سے مجھے دن کے وقت ڈھولک بجنے کی آواز آئ اور میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ ابّا جان تو گھر پر نہیں ہیں مجھے اجازت دے دیجئے

بس امّی جان نے اجازت د ی اور میں نے جھٹ پٹ چھوٹے بھائ کوگود میں اٹھایا اور چند منٹ میں کلّو چھولے والے کے گھر پہنچ گئ ،میں بھائ کے بغیر گھر سے قدم نکالنے کی بھی مجاز نہیں تھی کیونکہ وہ ڈھائ برس کی جان میری واپسی تک امّی جان کا جینا حرام کردیتا ،اس وقت کلٰو چھولے والے کا گھر مجھے دور سے ہی پرستان کے شہزادے کا گھر دکھا ئ دینے لگا گھر کے اندر باہر بلاروک ٹوک آنا جانا لگا ہوا تھا مین نے بھی اسی آپا دھاپی میں اندر پہنچ کر شادی کے گھر کے مناظر کے مشاہدے میں لگ گئ --کچّے آنگن میں ایک طرف کوری ہانڈی میں پانی کے اندر ننھی ننھی مچھلیاں تیر رہی تھیں میں نے ہانڈی میں جھانکا اور پھر گود میں موجود بھائ کو مچھلیاں دکھائیں دوسری طرف بڑے سے تھال میں سل پر پیسی گئ کچّی مہندی بھیگی ہوئ تھی جس کی سوندھی خوشبو گلی کے اندر دور تک مہک رہی تھی اور ساتھ ہی مہکتے چنبیلی کے تیل میں ابٹن کی خوشبو بھی ملی جلی تھی-گھر کے کچّے آنگن کی ملتانی مٹّی سے شائد رات کو ہی لپائ کی گئ تھی آنگن بلکل صاف ستھرا تھا

اور اب اس پرگھر کی عورتیں ایک رسم ادا کرنے جا رہی تھیں یعنی لال رنگ کے بھیگے ہوئے گیرو اور صندل کے آمیزے میں سات سہاگنوں کے ہاتھ ڈبو کر ان کو آنگن کی دیوار پر چھاپنا تھا ،بڑی بوڑھی کا سختی سے حکم تھا کہ خبر دار ہاتھ الگ الگ تھال پر نا پڑے اور ٹیڑھا میڑھا بھی نا پڑے یہ سب بد شگونیاں سہاگ بھرے بھاگ کے گھر میں بد شگونیاں مانی جاتی ہیں-اس رسم کو پہلی دفع ہی دیکھنے کا میرا اتّفاق تھا گھر کی سب سے بڑی بوڑھی خاتون کو لا کر چار پائ پر بٹھا یا گیا اور گیرواور صندل کا سرخ آمیزے سے بھرا تھال ان کے آگے رکھ دیا گیا ساتھ ہی گڑ کا اور مرمروں کا بڑا سا تھا ل آیا اور پھرڈھولک کی تھاپ پر عورتوں نے کوئ اپنی دیہاتی زبان میں گیت گانا شروع کیا ساتھ ہی آوازیں بھی دی جانے لگیں اری او کہاں ہے آ ری آ ،آج ہمرے دوارے سہاگن آئ گیو رے ، عورتیں آتی گئیں ڈھول بجتی رہی اور صندل اور گیرو کے چھاپے دیوار کو سجاتے رہے

 کلّو چھولے والے کا تعارف تو رہ ہی گیا یہ ایک بمشکل بیس بائیس سال کا انتہائ درجے کا سانولا لیکن دلکش نقوش والا نوجوان تھا ،جو ٹھیک دس بجے دوپہر سے پہلے اپنی ماں کے ہاتھ کے تیّار کئے ہوئے مزیدار چٹ پٹے چھولے کا ٹھیلا لے کر لب سڑک ہمارے گھر سے کچھ فاصلے کھڑا ہوجاتا تھا اور اس کے چھولے اتنے مذیدار ہوتے تھے کہ دوپہر کو یہ گھر واپس چلاجاتا تھا مجھے یا د ہے جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا تو بڑی حیرت سے دیکھتی رہی تھی سرسوں کے تیل میں چپڑا ہوا سرجس کے بال بلکل جٹ سیاہ اس پر سرسوں کے تیل کی اس کے ماتھے تک آئ ہوئ بہار، بڑی بڑی آنکھیں جن میں بہتا کاجل رچا ہوا ،لیکن وہ اپنے اطراف سے بیگانہ اپنے چھولوں کی دنیا میں مگن سر جھکا کے آتا اور سر جھکا کے واپس جا تا جب اس کی شادی ہوئ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی ماں نانی اور خالائیں اس کی شادی پر اپنے اپنے ارمان پورے کر رہی تھیں - خیر میری دلچسپی کا ساما ن اس گھر کی رسمیں تھیں میں جن کو دل و جان سے دیکھ بھی رہی تھی اور نگاہوں کے راستے حفظ بھی کر رہی تھی

اب صاف ستھری دیوار پر سات سہاگنو ں کے چودہ ہاتھوں کے لال لال نقش لہلہا رہے تھے میں نے ان نقوش کو بار بار دیکھا ،کوئ خاص بات تو نظر نہیں آئ لیکن اب میں سوچتی ہوں شادی کے گھر میں ان معصوم لوگوں کے کتنے ہزار ارمان تو ہاتھوں کے ان نقوش میں ہی نہاں ہوتے ہوں گےہاتھوں کے چھاپے پورے ہو گئے اور تمام مہمانوں میں گڑ اور مرمرے تقسیم کئے گئے ،مین نے بھی وہ گڑ اور مرمرے کھائے اپنے بھائ کو بھی کھلائے سنہرا گڑ اور سفید مرمرے وہ مٹھا س آج بھی منہ میں محسوس ہورہی ہےاگلا دن شادی کا تھا اور میری خوشی ٹھکانہ کیاتھا میں بتانے سے قاصر ہوں ایسا لگ رہا تھا کلّو چھو لے والا دنیا میں میرا سب سے بڑا عزیز تھا جس کی شادی میں شرکت مجھے بہر طور کرنی تھی                                                 ویسے بھی سارے مہاجر اس دور میں جی رہے تھے جب سب کی خوشی غمی اپنی خوشی غمی سمجھی جاتی تھی -اب میرا بھائ میری گود میں کچھ بے چینی محسوس کر رہا تھا اس لئے میں گھر واپس آ گئ         -اب اگلا دن اس حسین شہزادے کی بارات کا تھا جس میں بلکل بن بلائ مہمان بن کر محلّے کے تمام بچّوں کے کی ریل پیل میں جا نے کو بے چین تھی کہ ابّا جان بے وقت گھر آگئے ،ابّا جان کو دیکھ کر میرے اوپربلاشبہ عالم نزع طاری ہوگیا کچھ دیر کے لئے گلے کے اندر گھگّھی سی بندھ  گئ

جمعہ، 19 جنوری، 2024

تنزانیہ کے فرعون صفت حاکم کا قبول اسلام-part -2

  اس کے بچے امریکہ اور کینیڈا کے مختلف کالجوں میں زیر تعلیم تھے کہ اسی دوران   وہ سب کے سب اسلام کی دعوت سے متاثر ہوئے۔ سب سے پہلے نریرے کی بہو مسلمان ہوئی پھر یکے بعد دیگرے تین بیٹے اور دونوں بیٹیاں بھی مسلمان ہوگئیں۔ نریرے کے بچوں کا قبول اسلام کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ عیسائی دنیا کے لیے ایک بہت بڑا دھماکہ تھا۔ یہودی اور عیسائی پریس نے مکمل طور پر ان خبروں کا بائیکاٹ کیا کیونکہ ماضی میں بھی یہودی پریس کا یہی رویہ رہا ہے۔ اگر کسی قابل ذکر شخصیت نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور قطعاً نظر انداز کر دیا گیا اور اگر کہیں دنیا کے کسی دور دراز گوشے میں بھی غیر معروف دو چار اشخاص نے عیسائیت قبول کی تو اسے دنیا بھر میں اخبارات کی زینت بنایا گیا۔ اس سلسلے میں مسلم پریس نے بھی بالکل خاموشی اختیار کر لی۔ ہاں تحریکات اسلامی سے تعلق رکھنے والے بعض جریدوں نے اپنے طور پر تحقیقات کر کے اس خبر کو عام کیا۔ اب ہم آگے مسٹر نریرے کے قبول اسلام کی حیرت انگیز تفصیلات سے آگاہ کریں گے جسے پڑھ کر ایسا ہی محسوس ہوا جیسے یہ جدید دور کا ایک معجزہ ہے کہ کسی جدید فرعون نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ عین اس وقت جب کہ وہ تنزانیہ میں عیسائیت کے لیے سرگرداں تھا اور عیسائی مشنریوں کی ہر ممکن مدد کر رہا تھا، اس کے بچے اسلام کے گہرے مطالعے میں مصروف تھے اور بتدریج اسلام کی طرف مائل ہو رہے تھے

نریرے کے بچوں کے قبول اسلام کے بعد دارالسلام اور دیگر اہم شہروں میں تہلکہ سا مچ گیا تھا اور کافی دنوں تک اس کا چرچا رہا۔ لیکن باقاعدہ طور پر ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے اس کی تشہیر کو روکنے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ لہٰذا عوام الناس اسے افواہ سے زیادہ کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ باقاعدہ طور پر اس وقت عام لوگوں کو اس پر یقین نہ آیا جب تک خود نریرے کے بچوں نے دارالسلام میں عیسائیت کے خلاف جہاد نہ چھیڑ دیا۔ چنانچہ انہوں نے عیسائیت کے خلاف ایک بڑے مناظرے کا انعقاد کیا اور براعظم افریقہ کے تمام پادریوں کو چیلنج کیا اور وسیع پیمانے پر اس کی تشہیر کی۔ سواحلی زبان میں بڑے بڑے پوسٹر دیواروں اور اہم سرکاری دفاتر کے دروازوں پر آویزاں کیے گئے۔ مناظرے کی تاریخ سے تقریباً ایک ماہ پہلے ہی مساجد اور چرچوں کے دروازے پر کھڑے ہو کر مسلم نوجوانوں نے اس مناظرے سے متعلق پمفلٹس تقسیم کیے۔ تنزانیہ کی سرزمین پر یکایک عیسائیت کے خلاف مسلمانوں کی یہ زبردست یلغار عوام الناس کے لیے انتہائی حیران کن اور بالکل خلاف توقع تھی۔ کیونکہ نریرے کی سخت گیر ڈکٹیٹرشپ اور عیسائیت نواز پالیسی کی موجودگی میں اتنی بڑی جسارت ’’ہماری جیل میں سرنگ‘‘ کے مترادف بات تھی۔ لہٰذا ان سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمان دانشور طبقہ بھی حیرت و استعجاب کا شکار تھا کیونکہ مناظرے سے ایک دو روز قبل تک کسی کو پتہ نہیں تھا کہ عیسائیت کے خلاف اس اچانک اٹھنے والی زبردست تحریک کے پیچھے خود جناب صدر مملکت کے صاحبزادگان کارفرما ہیں۔ 

تنزانیہ کی تاریخ میں یہ بالکل پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے عیسائی مشنریوں کو کھلے عام للکارا تھا۔ چنانچہ عام لوگوں میں اس عظیم مناظراتی اجتماع میں شرکت سے دلچسپی پیدا ہوئی اور پورے تنزانیہ میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ لوگ اس میں شرکت کی تیاری کرنے لگے۔ بلکہ شیخ احمد دیدات کے تین تربیت یافتہ شاگردوں کے نام تھے جو اہل تنزانیہ کے لیے بالکل غیر معروف اور نئے تھے۔ ان تینوں مبلغین نے شیخ احمد دیدات سے ڈربن جنوبی افریقہ میں رہ کر تربیت حاصل کی تھی اور بائبل کے مختلف اور متضاد نسخوں کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ نریرے کے بچوں کا ان سے بڑا گہرا دوستانہ تھا لہٰذا یہ نوجوان مبلغین بھی آپس میں ملتے تو تنزانیہ میں اسلام کی تبلیغ اور عیسائی مشنریوں کے مقابلے کے لیے صلاح مشورہ کرتے۔ آخر انہوں نے یہ طے کیا کہ اس مناظرے کا اہتمام کھلے میدان میں کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کو دیکھ سکیں اور خود فیصلہ کریں کہ حق کس کے ہاتھ میں ہے اور برسر باطل کون ہے۔ حسب مشورہ اور پروگرام دارالسلام کے سب سے وسیع و عریض اور خوبصورت میدان جمہوری پارک میں یہ مناظرہ شروع ہو کر دو دن تک چلا۔ درمیان میں نمازوں اور کھانے پینے وغیرہ کے لیے وقفہ ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر حاضرین کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ نریرے کے تینوں لڑکے مسلم مبلغین کے دوش بدوش بیٹھے اور ان کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ تینوں مبلغین کے نام درج ذیل ہیں:

(۱) غریباں شیخ موسیٰ فونڈی 

(۲) شیخ احمد کامیمبا

(۳) شیخ محمد متانا

ان تینوں میں غریباں شیخ موسیٰ فونڈی سب سے زیادہ چاق و چوبند اور حاضر دماغ و حاضر جواب ہیں۔ مشرقی افریقہ کے مبلغین کے سربراہ بھی یہی ہیں، ان کی تبلیغی کوششوں کی وجہ سے عیسائی پادریوں کی نیند حرام ہو چکی ہے کیونکہ یہ تینوں مبلغین بالکل نوجوان اور صحت مند ہیں، ان کی عمریں بالترتیب تیس، بتیس اور پینتیس سال کی ہیں۔ شیخ احمد دیدات کے یہ تینوں تلامذہ اصل افریقی باشندے ہیں اور مقامی سواحلی زبان کے ماہر اور اچھے ادیب ہیں۔ یہ حضرات مناظرہ بھی سواحلی زبان ہی میں کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ تینوں مبلغین پورے مشرقی افریقہ کے پادریوں کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ اس مناظرے میں شیخ موسیٰ فونڈی کے ساتھیوں کے مقابلے میں دو پادریوں اور راہبہ نے حصہ لیا۔ مسلم مبلغین کے انداز بیان اور طرز تخاطب سے سامعین بخوبی سمجھ رہے تھے کہ فاتح کون اور مفتوح کون؟ حق کس کے ساتھ او برسر باطل کون۔ مقابلے میں شیخ اور ان کے ساتھیوں کا انداز دلچسپ اور جارحانہ تھا جبکہ عیسائی حضرات کو معذرت خواہانہ اور مدافعانہ پوزیشن لینی پڑی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شرکا کی تعداد تقریباً ستر ہزار سے بھی زائد تھی۔ تیسرے دن ۱۵ فروری کی شام کو جب مناظرہ اختتام کو پہنچا تو تین سو لوگوں نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کیا  -اور پوری فضا اللہ اکبر کی صدا سے گونج اٹھی۔ 

اسلام اور مسلمانوں کے متعلق اچانک اس نرم پالیسی کے اختیار کرنے کی وجہ سے نریرے کے تعلق سے عیسائی حیران و پریشان تھے کہ اس سخت گیر پالیسی میں یکایک یہ غیر معمولی تبدیلی کیسے آگئی کہ اس قسم کے پروگراموں کی اجازت مل گئی اور خود مسلمان بھی حیران تھے۔ دراصل نریرے کو جب معلوم ہوا کہ خود اس کے بچے اسلام قبول کرنے والے ہیں تو وہ بھی اسلام میں دلچسپی لینے لگا۔ اسی وقت اس نے عہدۂ صدارت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا اور عہدۂ صدارت کے لیے تنزانیہ کے سب سے معروف مسلم رہنما شیخ علی حسن مونٹے کو نامزد بھی کیا۔ صدارت کے لیے علی حسن مونٹے کی نامزدگی سے ہی لوگوں کو معلوم ہوا کہ نریرے کی پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے اور مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں اس نے اپنی روش تبدیل کر دی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ کی گئی ناانصافیوں اور مظالم کی تلافی کے لیے اس نے شیخ علی حسن مونٹے جیسے عالم فاضل شخص کو صدر نامزد کیا ہے۔ یہ سب کچھ جدید نظاموں کے خوبصورت نام پر قائم ہونے والی حکومتوں کے نام پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے عوام یہ نہیں سمجھ پاتے کہ پس پردہ عیسائیت ہی کارفرما ہے۔  ۔

تنزانیہ کے فرعون صفت حاکم کا قبول اسلام part -1

یہ اب سے چوبیس برس پہلے کی بات ہےتنزانیہ کے سابق صدر اور حکمران پارٹی کے   سربراہ جولیس نریرے کا خاندان جب دارالسلام میں رابطہ عالم اسلامی کے نمائندے شیخ مصطفیٰ عباس کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا تب یہ خبر جہاں عالم اسلام کے لیے ایک حیرت انگیز مژدہ عظیم تھی، وہیں عیسائی دنیا کے لیے بہت ہی المناک اور مایوس کن تھی۔ کیونکہ نریرے کی اسلام دشمنی اور مسلم بیزاری کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ نریرے وہ سخت گیر اور متعصب عیسائی   حاکم رہا ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں مسلمانوں پر بے تحاشا مظالم ڈھائے، گویا وہ جدید دور کا فرعون صفت حکمران تھا۔ تنزانیہ براعظم افریقہ میں ایک غالب مسلم اکثریت والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی کا ۷۸ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ بمشکل ۲۰ فیصد آبادی عیسائیوں کی ہوگی۔ باقی غیر مسلم جنگلی قبائلی ہیں جن کا کوئی معلوم مذہب نہیں ہوتا۔ ۷۸ فیصد مسلم اکثریتی آبادی والے اس ملک میں نریرے نے نام نہاد سوشلزم کی آڑ میں انتہائی متعصب اور ظالم عیسائی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ اپنے دور اقتدار میں اس نے مسلم اکثریت کو ختم کرنے اور عیسائی اکثریت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جس میں اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

 دارالسلام کا نام بدل کر ایک سیکولر نام رکھنے کی کوشش کی گئی جس پر مسلمانوں کے شدید احتجاج اور غیر معمولی ردعمل کی وجہ سے مجبورًا اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا اور دارالحکومت کے لیے نیا شہر بسانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ دارالسلام سے صرف دس کلو میٹر دور تنزانیہ کے نئے دارالحکومت کی تعمیر شروع کی گئی۔ تنزانیہ کے دارالحکومت کو جو ایک خوبصورت شہر ہے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا کیونکہ دارالسلام کی نوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور سو فیصد کاروبار بھی مسلمانوں ہی کے پاس ہے۔ اس وقت شہر میں صفائی وغیرہ کا کوئی معقول انتظام نہیں، سڑکوں پر جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں اور شہر کی بڑی بڑی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی حالت میں ہیں جن کی مرمت وغیرہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ الغرض نریرے نے مسلمانوں کی دل آزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔نریرے وہ شخص ہے جس نے تنزانیہ کے مسلمانوں کے ساتھ پڑوسی مسلم ممالک کے حکمرانوں اور مسلمانوں کو بھی چین کا سانس لینے نہیں دیا۔ چنانچہ اس نے یوگنڈا کے عیدی امین کی حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں ایک نیم پادری جنرل اجوئے کو اقتدار پر بٹھایا اور یوگنڈا کے مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کرایا جس کے نتیجے میں کمپالا اور دیگر شہروں سے مسلمان پڑوسی ملکوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمان نقل وطن کر کے پڑوسی ملکوں میں جا کر پناہ گزین ہوئے۔

 ایشیائی مسلمانوں کی اکثریت جو کاروبار پر چھائی ہوئی تھی وہ انتہائی بے چارگی کے عالم میں جان بچا کر یوگنڈا سے نکل گئی اور خالی ہاتھ اپنے اپنے وطن کو روانہ ہوئی۔ تنزانیہ کی فوج نے جو فاتح بن کر یوگنڈا میں داخل ہوئی تھی بڑی بے دردی کے ساتھ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بیش قیمت اثاثے اپنی فوجی گاڑیوں میں بھر بھر کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ نریرے ہی تھا جس نے زنجبار کی آزاد و خودمختار عرب سلطنت کو ختم کر کے اسے زبردستی تنزانیہ کی سوشلسٹ یونین میں شامل کیا اور سوشلسٹ اصلاحات کے نام پر زنجبار سے عرب اور مسلم تشخص کو ختم کرنے کی مذموم کوشش کی۔ زنجبار میں ۱۹۶۳ء سے قبل سرکاری زبان عربی تھی اور ذریعہ تعلیم بھی عربی ہی تھا۔ سب سے پہلے اس نے سرکاری دفاتر اور اسکولوں سے عربی زبان کو ختم کیا۔ سواحلی زبان جس کا رسم الخط عربی تھا اسے عربی کے بجائے انگریزی رسم الخط میں تبدیل کیا۔

 یہ بات قابل ذکر ہے کہ سواحلی زبان پر عربی کا اثر بہت زیادہ ہے،اس کے ستر فیصد الفاظ عربی کے ہیں۔ خصوصاً گنتی مکمل طور پر عربی ہی ہے، انداز گفتگو بھی عربی ہی ہے۔ اگر کوئی شخص عربی سے اچھی طرح واقف نہ ہو تو اندازہ نہ کر پائے گا کہ دو شخص باہم عربی میں گفتگو کر رہے ہیں یا سواحلی میں۔ مسلم خواتین کے لیے برقع کے استعمال کو قانوناً جرم قرار دیا اور عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کی شادی کی سرپرستی سرکاری سطح پر کی۔ یوگنڈا سے عیدی امین کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس نے کمپالا میں پادریوں کی ایک عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ آئندہ دس سالوں میں تنزانیہ سے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر ہی دم لوں گا۔ چنانچہ اس نے عالمی کلیساؤں کی مدد سے اپنے اس دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی تھیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ نریرے کے قبول اسلام کی تفصیلات بیان کرنے سے قبل اس کے قبول اسلام کے ان حالات کو بیان کرنے سے ہمارا مقصد واضح کرنا تھا کہ دنیا یہ دیکھ لے کہ عیسائی حضرات غیر عیسائی لوگوں بالخصوص اسلام اور مسلمانوں کے حق میں کس قدر متعصب اور ظالم ہوا کرتے ہیں۔ 

جبکہ دنیا بھر میں وہ اور ان کے پادری حضرات اپنی امن پسندی اور انصاف کا ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں اور دیگر غیر مسلم حضرات انہیں اپنا مسیحا سمجھ کر ان کی باتوں میں آکر مسلمانوں کے ساتھ دشمنانہ رویہ اپنا لیا کرتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود و ہنود کی نفرت کی طرح عیسائیوں کی نفرت اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے اور اس کی نمایاں مثالیں برطانیہ، فرانس، روس، اور جرمنی سے آنے والی خبروں میں دکھائی دیتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ جدید نظاموں کے خوبصورت نام پر قائم ہونے والی حکومتوں کے نام پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے عوام یہ نہیں سمجھ پاتے کہ پس پردہ عیسائیت ہی کارفرما ہے۔ خیر اب ہم آگے مسٹر نریرے کے قبول اسلام کی حیرت انگیز تفصیلات سے آگاہ کریں گے جسے پڑھ کر ایسا ہی محسوس ہوا جیسے یہ جدید دور کا ایک معجزہ ہے کہ کسی جدید فرعون نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ عین اس وقت جب کہ وہ تنزانیہ میں عیسائیت کے لیے سرگرداں تھا اور عیسائی مشنریوں کی ہر ممکن مدد کر رہا تھا، اس کے بچے اسلام کے گہرے مطالعے میں مصروف تھے اور بتدریج اسلام کی طرف مائل ہو رہے تھے۔ اس کے بچے امریکہ اور کینیڈا کے مختلف کالجوں میں زیر تعلیم تھے 


بدھ، 17 جنوری، 2024

ڈاکٹر سٹیفن ہاکنگ


ڈاکٹر سٹیفن ہاکنگ 1942 میں انگلینڈ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنی زندگی کا ایک اچھا حصہ بغیر کسی معذوری کے گزارا۔ اس نے ریاضی اور فزکس کی تعلیم حاصل کی اور فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ گریجویٹ اسکول کے دوران، 21کہ سال کی عمر میں، ڈاکٹر ہاکنگ کا دماغ مفلوج ہو رہا ہے-اس مرض میں   Amyotrophic Lateral Sclerosis (ALS) کی  عمر میں تشخیص ہوئی امریکہ میں Gehrig's disease کہا جاتا ہے۔ جیسے جیسے ALS ، دماغ میں موٹر نیوران کا انحطاط جسم میں پٹھوں کو پیغامات پہنچانے میں فیل ہوتا جاتا ہے۔ آخر کار، پٹھوں کی ایٹروفی اور پٹھوں کا رضاکارانہ کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔ ALS والے لوگ عام طور پر بیماری کے آخری مراحل میں بھی ذہانت، یادداشت اور شخصیت کو برقرار رکھتے ہیں۔

  ڈاکٹر ہاکنگ انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر بن گئے۔ اگرچہ کچھ معالجین کی طرف سے اس کی زندگی مختصر ہونے کی پیش گوئ   کی تھی، لیکن   وہ بیماری کیتشخیص کے بعد 50 سال تک مفلوج کی زندگی جیتے رہے اور کام کرتے رہے انہوں نے نظریاتیپ طبیعیات اور بگ بینگ تھیوری پر بہت سے مضامین اور کئی کتابیں شائع کیں۔ ان کی سب سے مشہور کتاب، A Brief History of Time، 1988 میں شائع ہوئی تھی۔ اسٹیفن ہاکنگ - اسٹیفن ہاکنگ - انھیں آئن اسٹائن کے بعد پچھلی صدی کا دوسرا عظیم سائنسدان سمجھا جاتا ہے - تعلیم - انھوں نے آکسفورڈ میں فزکس کی تعلیم حاصل کی اور بعد میں فلکیات میں پی ایچ ڈی کی کیمبرج یونیورسٹی اسٹیفن ہاکنگ کا 1966 میں پی ایچ ڈی کا مقالہ جاری کیا گیا جس نے چند دنوں میں مطالعہ کا ریکارڈ توڑ دیا۔ اس کا مقالہ 2 ملین سے زیادہ بار پڑھا گیا ہے اور 500,000 سے زیادہ لوگوں نے اسے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔

یماری-ان کی زندگی کا ایک اور انوکھا اور المناک پہلو بھی ایک عجیب بیماری ہے۔ وہ ایم ایس سی تک  یونیورسٹی کا طالب علم تھا،  اس کے وہی شوق تھے جو ایک پر جوش نوجوان کے ہو سکتے ہیں سائیکلنگ، فٹ بال اور کشتی رانی کا شوقین ۔ روزانہ پانچ کلومیٹر دوڑنا  بھی  اس کا معمول تھا۔ 1963لیکن ایک روز   جب وہ کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے تو  سیڑھیوں سے پھسل کر نیچے گر گئے۔ طبی معائنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ انتہائی پیچیدہ بیماری ’’موٹر نیوران ڈیزیز‘‘ میں مبتلا ہیں۔

پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔

  بیماری نے آہستہ آہستہ اسٹیفن کے ہاتھ، پاؤں اور زبان کو مفلوج کر دیا۔ لیکن اس بیماری کے اثر کی شرح اس سے تھوڑی سست تھی جس کا ڈاکٹروں کو ابتدائی طور پر خدشہ تھا — وہ جان لیوا بیماری میں مبتلا تھا اور کرسی سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ وہ ہاتھ پاؤں ہلا نہیں سکتا تھا اور بول بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن وہ ذہنی طور پر صحت مند رہے اور بلند حوصلے کی وجہ سے اپنا کام جاری رکھا۔ اس نے اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور انہیں صفحہ پر منتقل کرنے کے لیے ایک خاص کمپیوٹر کا استعمال کیا۔ ان کی یہ بیماری انہیں ریسرچ پی آر سے نہیں روک سکی اور پھر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی  

اعزازات

ہاکنگ نے 1988 میں اپنی کتاب 'اے بریف ہسٹری آف ٹائم' سے شہرت حاصل کی جس کی دس لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ انہوں نے ریاضی اور سائنس کے شعبوں میں کئی اعزازات حاصل کیے۔ صدارتی تمغہ برائے آزادی سے نوازا گیا۔ 2014 میں انہوں نے سینٹ جیمز پیلس میں منعقدہ ایک چیریٹی تقریب کے دوران ملکہ برطانیہ سے بھی ملاقات کی۔ 2014 میں ان کی زندگی پر ایک فلم دی تھیوری آف ایوریتھنگ بنائی گئی جس میں ایڈی ریڈمین نے کردار ادا کیا۔ مرکزی کردار. . اس کی موت کے بعد، اس کے بچوں کا کہنا ہے کہ اس کی میراث 'کئی سالوں تک زندہ رہے گی۔'

خیالات

اسٹیفن ہاکنگ کو ان کی غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے آج آئن اسٹائن کا ہم عمر سائنسدان کہا جاتا ہے۔ اس عظیم سائنسدان نے کائنات میں ایک ’’بلیک ہول‘‘ دریافت کیا جس سے آئے روز نئے سیارے جنم لیتے ہیں، اس بلیک ہول سے ایسی شعاعیں خارج ہوتی ہیں جو کائنات میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بھی ہیں۔ ان شعاعوں کو اسٹیفن ہاکنگ کے نام پر ’’ہاکنگ ریڈی ایشن‘‘ کہا جاتا ہے۔

1970 کی دہائی کے اوائل میں، اس نے سیمینل پیپرز کا ایک سلسلہ شائع کرنا شروع کیا جس میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آئن اسٹائن کے نظریہ میں ایک "اتحاد" موجود ہے (جہاں کشش ثقل کی قوت لامحدود ہو جاتی ہے، جیسے کہ بلیک ہول کے مرکز میں اور اس وقت ہوا بگ بینگ) اضافیت کا ایک ناگزیر حصہ ہے اور اسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا (جیسا کہ آئن سٹائن کا خیال تھا)۔ 1974 میں ہاکنگ نے یہ بھی ثابت کیا کہ بلیک ہولز مکمل طور پر سیاہ نہیں ہوتے، وہ بتدریج تابکاری خارج کر رہے ہوتے ہیں، جسے اب ہاکنگ ریڈی ایشن کہا جاتا ہے کیونکہ تابکاری بلیک ہول کے گرویٹیشنل فیلڈ سے گزر سکتی ہے۔

یہ کاغذ وہ پہلا تھا جس نے کوانٹم تھیوری کے عملی اظہار کو اضافیت پر فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا، اور یہ ان کا آج تک کا سب سے شاندار کام ہے۔ مشین، وہ فوری طور پر شکی تھا. اس کے وجدان نے اسے بتایا کہ وقت کا سفر ممکن نہیں ہے کیونکہ مستقبل سے کوئی مسافر موجود نہیں ہے۔ اگر وقت کا سفر اتنا ہی آسان ہوتا جتنا کہ کسی سیاحتی سیر پر جانا ہوتا تو مستقبل کے سیاح اپنے کیمروں سے ہمیں تنگ کرنے کے لیے یہاں آتے، ہمارے ساتھ تصویریں لینے کی بھیک مانگتے۔ ہاکنگ نے طبیعیات کی دنیا کو بھی ایک چیلنج دیا۔ کوئی ایسا قانون ہونا چاہیے جو ٹائم ٹریول کو ناممکن بنا دے۔ اس نے "تاریخ کو تاریخ دانوں کی مداخلت سے بچانے" کے لیے طبیعیات کے قوانین کے ذریعے "تاریخ کے تحفظ کا اندازہ" تجویز کیا۔ ایک بلیک ہول تھیوریٹیکل کاسمولوجی کے میدان میں ہے۔ ان کی کتابوں میں سے ایک مختصر تاریخ آف ٹائم ایک مشہور عالمگیر کتاب ہے جسے انقلابی حیثیت حاصل ہے۔

  یہ سادہ الفاظ میں لکھی گئی ایک بہت ہی اعلیٰ معیار کی کتاب ہے جس سے عام قاری کے ساتھ ساتھ جدید محقق بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔اور پھر بالآخر  تحقیق کا چمکتا ہوا سورج  جس  کی جوانی میں ہی  ڈاکٹرز مایوس تھے 76 برس کی عمر میں عالم بالا کی جانب کوچ کر  تے ہوئے  دنیا کے  ہر مایوس انسان کے لئے نقش قدم بطور مثال چھوڑ گیا  

گرد و ں کی حفاظت کیسے کی جائے

 


 




 مرض کوئ بھی ہو وہ مریض کے  لئے باعث ازیت ہوتا ہے  اور انسان اپنی زندگی میں لاتعداد مرتبہ  امراض سے دو چار ہوتا ہے  امراض کی ان اقسام میں    گردوں کی پتھری  بہت ہی تکلیف دہ مرض  کہا جاتا ہے   اس مرض میں پیشاب کی بو تیز ایمونیا کی بو کی مانند انتہا ئ ناگوار ہوتی ہے، پیشاب میں  درد کے ساتھ سرخ ریت آنے لگتی ہے   اور پیشاب کرتے وقت  درد کی شدت بڑھ جاتی ہے اور کافی مقدار میں ریت خارج ہوتی ہے۔ پیشاب دن کی نسبت رات کو زیادہ آتا ہے-گھریلو علاج - سیب کا سرکہ زیتون کا تیل دو چمچے-پسے ہوئے  آخروٹ2 عدد اور آدھی مٹھی  کشمش چبا کر کھانے سے گردے کی پتھری ریز ہ ریزہ ہوکر پیشاب کے راستے نکل جاتی ہے۔ شہد، لیموں کا رس اور زیتون کا تیل ایک ایک چمچہ آدھا گلاس پانی میں حل کرکے نہار منہ پینے کے بھی یہی اثرات ہوتے ہیں لیکن 15-20دن میں گردے کی پتھری پیشاب کے راستے خارج ہو نے میں وقت لگتا ہے-  

۔گردوں میں پتھری بننے  کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ پانی کم پینا ، خاندان میں اس کے مریضوں کی موجودگی، نمک اور کیلشیم والے کھانے زیادہ کھانا ، موٹاپا ، ذیابیطس، پیٹ کے امراض اور سرجری وغیرہ کا ہونا۔گردوں کی پتھری پیشاب کی نالی کے کسی بھی حصے کو متاثر کرسکتی ہے اور اگر وہاں پر پھنس جائے تو نکلنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔  درد کش ادویات اور بہت زیادہ پانی پینا معمولی پتھری کو نکالنے کے لیے کافی ثابت ہوتا ہے تاہم اگر وہ پیشاب کی نالی میں پھنس جائے یا پیچیدگیوں کا باعث بنے تو پھر سرجری کروانا پڑتی ہے۔پتھری نکل جانے کے بعد وہ دوبارہ نہ بنے تو اس کی بھی ادویات لینی چاہئیں۔ نکلنے کے بعد یہ سوچ لینا کہ اب سب ٹھیک ہے مناسب نہیں ہے تاہم اس سے بچاؤ کے لیے اگر لوگ غذائی عادات کا خیال رکھیں تو کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔

علامات:آغاز میں اس کی علامات کا پتا نہیں چلتا تاہم اگر چلنے پھرنے سے گردوں میں حرکت ہو یا پتھری پیشاب کی نالی میں چلی جائے تو یہ علامات سامنے آتی ہیں:بدبودار پیشاب   بار بار پیشاب آنا۔٭ عام معمول سے ہٹ کر پیشاب آنا۔ بخار اور سردی لگنا۔ پیشاب کی مقدار کم ہوجانا ( پیشاب آتا تو بار بار ہے لیکن تکلیف سے اور تھوڑا تھوڑا آتا ہے جس سے مریض پریشان ہوجاتا ہے) اتنا شدید درد ہونا جس کے باعث ساکت بیٹھنا یا کسی پوزیشن پر لیٹنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسا درد جس کے ساتھ سر چکرائے اور الٹی ہو -بخار اور سردی کے ساتھ گردوں کے مقام پر درد ہونا۔  پیشاب میں خون آنا۔پیشاب کرنے میں مشکل کا سامنا۔پتھری کیوں اور کیسے بنتی ہے؟ گردوں کا اہم کام خون سے یوریا یورک ایسڈ جیسے بیکار مادوں کا خارج کرنا ہے۔ اس کے علاوہ گردے خون کی ترکیب کو مستقل رکھنے کے لیے اسی میں سے سوڈیم کلورائیڈ، پوٹاشیم، کیلشیم، سلفیٹ اور فاسفیٹ جیسے نمکیات کی زیادتی کو کم کرتے ہیں۔ نامیاتی اور غیر نامیاتی مرکبات پانی میں حل ہوکر بادامی رنگ کا پیشاب بنادیتے ہیں۔

 اب بعض اوقات خوراک میں کیلشیم وغیرہ والی چیزوں کی زیادتی گردے کی بیماری اور پانی کی کمی کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ چیزیں گردے مثانے میں جمع ہوتی رہتی ہیں اور جمع ہوکر چھوٹی چھوٹی پتھری کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔گردے کی پتھری کی عموماً تین اقسام ہوتی ہیں۔سادہ، مرکب اور پیچیدہ پائی جاتی ہیں ،کیمیائی اجزائے ترکیبی کے اعتبار سے عموماً یہ مندرجہ ذیل چیزوں پر مشتمل ہوتی ہیں:کیلشیم آگزایسٹ اور فاسفیٹ ، یوریا، یورک ایسڈ ، میگنشیم۔پتھری بننے سے بچنے کا طریقہ:یہ زیادہ مشکل نہیں ہے ۔  ، آبی غذا پتھری کے خطرات کو کم کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے کیوں کہ یہ سبزیوں، پھلوں اور مچھلی سے مالامال ہے۔پتھری کے بعد : ایک دفعہ آپریشن یا شعاعوں کے ذریعے علاج سے آدمی کی جان پتھری سے مکمل طور پر نہیں چھوٹتی دوبارہ ہونے کا امکان رہتا ہے۔پتھری کے بعد کی خوراک: مشروبات کا استعمال زیادہ کردیں، پانی زیادہ سے زیادہ پئیں۔ کیلشیم والی اشیاء کا استعمال کم کردیں۔ بالکل ختم نہیں کرنا اس کے علاوہ سرخ گوشت،  وغیرہ کا استعمال کم کریں۔ پھلوں میں آلو بخارا، پالک، سفید مولی کا استعمال بھی کم کردیں۔ کافی ، کولا ڈرنکس بھی کم سے کم استعمال کریں۔فالسہ اور انار کے شربت کا استعمال کریں۔گردے کے درد کی صورت میں خربوزہ اور تربوز کا استعمال بڑھادیں۔ فالسہ اور انار کے شربت کا استعمال کریں۔-گٹکا -چھالیہ -فاسٹ فوڈ کا ستعمال بلکل ممنوع رہے گا 

جب  کسی  کے گردے بیماری کی وجہ سے کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں تو ، زہریلا مادے (نجاست اور فضلہ) اور خون  

سے زیادہ مقدار میں مائع پیدا ہوسکتا ہے ،اگر ان کا اخراج نا کیا  جائے تو  بالآخر موت کا باعث بن سکتا ہے ،  

بدھ، 10 جنوری، 2024

نور زہرا سلام اللہ علیہا ''آغوش خدیجہ سلام اللہ علیہا میں

 اللہ رب العزت نے اپنے محبوب،باعث تخلیق کائنات ،فخر موجودات کے اطمینان قلب کی خاطر آیت مبارکہ نازل فرما کر ایک عظیم الشان تحفہ عطا کرنے کا وعدہ فرمایا،نبئ کریم حضرت محمد مسطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اپنے محلے کے اس شخص کی طعنہ زنی سے بہت دلگیر ہوا کرتے جب جب آپ کے فرزند کا انتقال ہو گیا تھا -وہ شخص اپ کو بے اولاد ہونے کا طعنہ دیا کرتا تھا -چنانچہ اللہ کریم نے آپ کی دلجوئ ان الفاظ میں کی ’’وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیْ‘‘ ،عنقریب آپ کا رب آپ کو وہ عطاکرے گا کہ آپ فوراًراضی ہو جائیں گے۔ذہن انسانی سوچ میں پڑگیا کہ قادر مطلق اپنے حبیب کو سب کچھ عطا کردینے بعد وہ کون سی انتہائی عظیم المرتبت شے دینے کا وعدہ فرما رہا ہے کہ جو اس نے ابھی تک اپنے پیارے رسول سے پوشیدہ رکھی ہے۔ بشریت حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ ایک دن قاصد ایزدی مژدۂ جانفزا لے کر آن پہنچا، ’’اِنَّااَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ‘‘،میرے حبیب،ہم نے آپ کو الکوثر عطا کر دی۔’’قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاَ ‘‘ کا حکم دینے والے معبود نے ہر وقت شکر ادا کرتے رہنے والے رسول اعظم کو اگلا فرمان جاری کیا، ’’فَصَلِّ لِرَبّکَ وَانْحَرْ‘‘میرے حبیب اس عطائے گرانقدر کا شکرانہ ا دا کیجئے۔وہ عظیم المرتبت تحفہ جوخداکا ا پنے محبوب ر سول سے محبت کی انتہا ہے ،تمام جلیل القدر مفسرین کرام کے مطابق،

’’اَلْفَاطِمَہْ ھِیَ الْکَوْثَرْ الْمُعْطِیْ لِرَسُوْلَ اللّٰہ‘‘

ملکۂ ملک سخاوت،مطلع چرخ کرامت،سرچشمۂ صبر ورضا،ام شہیدان وفا،بنت رسول اکرم، نشانی ء خدیجہ معظمہ ،سیدہ ،طیبہ،طاہرہ، مخدومۂ کونین حضرت فاطمہ الزہراء کی ذات عالیہ ہے جو ’’ھَدْیَۃُالْمَنّانْ وَالْکَوْثَرْ اَلْقَیّمْ فِیْ الْقُرْآن ‘‘ ہے جو اللہ کی طرف سے رسول اللہ کے لئے ہدیہ ہے ،جوخدا کا رسول کے لئے تحفہ ہے ۔کُل کائنات دے کر اللہ رب العزت نے جس عظیم ہستی کے لئے لفظ عطا استعمال فرمایا ہے وہ سیدۃالنساء العٰلمین کی ذات والا صفات ہے۔اللہ رب العزت نے جب اس لفظ کوثر کو مجسم فرمایا تو صورت فاطمہ   میں سامنے آیا اور جب فضائل و خصائل زہراء کو سمیٹا تو الکوثرکا نام دیطیبہ،طاہرہ،عابدہ،زاہدہ،بنت خیرالوریٰ،سیدہ فاطمہ   سیدہ،صالحہ،راکعہ،ساجدہ،نور شمس الضحیٰ،سیدہفاطمہ راضیہ،مرضیہ،صائمہ،عاصمہ،نیرہ،انورہ،ناظمہ،ناصرہ زاکیہ،ازکیہ،اکرمہ،اعظمہ،عکس ظلخدا،سیدہ فاطمہ کاملہ،اکملہ،صادقہ،اصدقہ،عالمہ،فاضلہ،راحمہ،راشدہشاہدہ،شافعہ،قاسمہ،آمنہ،عذرا،خیرالنساء،سیدہفاطمہ ہادیہ،مہدیہ،جیدہ،ناصحہ،مکیہ،مدنیہ،قرشیہ،سرورہ مشفقہ،محسنہ،ذاکرہ،زاہرا،حافظہ،حامدہ،سیدہ فاطمہ قائمہ،دائمہ،ماحیہ،ماجدہ،خازنہ،حاکمہ،صابرہ،شاکرہ حاذقہ،قائدہ،احسنہ،افضلہ،وارثہ،پارسا،سیدہ فاطمہ واعظہ،واصفہ،شافیہ،کافیہ،رہبرہ،فائقہ،واقفہ،عارفہ عالیہ،اشرفہ،قاطعہ،ساطعہ،عاقلہ،اطہرہ،سیدہ فاطمہ امجدہ،اجملہ،مخلصہ،تارکہ،ثابتہ،ثاقبہ،خاشعہ،خالدہ ان کے القاب صائم ہوں کیسے بیاں،خرد سے ماوریٰ سیدہ فاطمہ اِنَّااَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ:

ہر تحفۂ ایزدی ، اللہ رب العزت نے اپنے رسول کے لئے خودروانہ فرمایامگر اس عظیم الشان تحفہ کو عطا کرنے کے لئے پیارے مصطفٰی کو عرش علیٰ کی دعوت دی۔شب معراج، مہمان ربانی فردوس بریں کی سیر کو تشریف لے گئے اور قصر ام المومنین خدیجہ الکبریٰ میں داخل ہوئے ۔قصر خدیجہ کا معائنہ فرماتے ایک نورانی درخت پر لگے سیب پر آپ کی نظر مبارک ٹھہری جسے دست قدرت نے آمد مصطفٰی سے تین لاکھ سال پہلے خلق کیا تھا۔حکم الٰہی پر آپ نے وہ نورانی سیب تناول فرمایا اور حجاب قدرت سے نور عصمت ،صلب رسالت میں منتقل ہوا۔واپس تشریف لائے تو اس تحفۂ خداوندی کو محبوب زوجہ خدیجہ الکبریٰ کی آغوش محبت کی زینت بنایااورعطائے الٰہی اور خدیجہ طاہرہ نے مل کر رحل رسالت پر قرآن فاطمہ نازل کر دیا۔

  مہک فردوس کی مکہ کی گلیوں میں چلی آئی کہ آغوش خدیجہ میں تھی جب بنتِ نبی آئی

سیدہ طاہرہ 20جمادی الثانی،5نبوی ،17مارچ 614ء ،بروزجمعہ المبارک ،قصر خدیجہ میں جلوہ فرما ہوئیں۔ نور زہراء کا ظہور ہوا تو زمیںسے لے کر آسمان تک ذرہ برابر جگہ بھی ایسی نہ رہی جہاں اس نور مبارکہ کی تجلی نے روشنی نہ پھیلائی ہو۔آپ خیر کثیر کا مصدر ہیںاور جہاں جہاں خیر کثیر کا ذکر ہوا ہے وہ اللہ رب العزت نے در زہرا سے صادر فرمایا ہے۔آپ کا اسم گرامی ذات قدرت نے ’’فاطمہ‘‘رکھا۔آپ اہل سماء میں’’منصورہ ‘‘کے نام سے جانی جاتی ہیںکیوں کہ اللہ رب العزت نے آپ کو نصر اللہ قرار دیا ہے۔

نور زہرا :

چھٹے خلیفۂ راشد، صادق آل محمدفرماتے ہیں کہ ،’’خداوند عالم نے حضرت فاطمہ الزہراکو اپنے نور کی عظمت سے خلق فرمایا،جب آپ کے نور کی ضیاء ارض وسماء میں پھیلی تو ملائکہ کی آنکھیں خیرہ ہونے لگاور وہ خدا کے حضور سربسجودہوکر کہنے لگے،’’اے پروردگار!یہ کیسا نور ہے‘‘۔ارشاد ربانی ہوا،’’یہ نور میرے ہی نور کی عظمت سے پیدا ہوا ہے ،اسے میں نے آسمان پر رکھا اور اپنے انبیاء میں سب سے باعظمت نبی کے صلب میں ودیعت فرما کر ظاہر کروں گاپھر اس سے ایسے انوار پیدا کروں گا جو اہل زمین پر میری تمام تر مخلوقات میںافضل ہوں گے اور میرے دین حق کی طرف لوگوں کی ہدایت کریں گے اور سلسلۂ وحی کے ختم ہو جانے کے بعد بھی وہی انوار ائمہ میرے خلیفہ اور میرے دین کے محافظ ہوں گے‘‘۔ایک مقام پر آپ نے فرمایا،’’جب آپ عبادت محراب میں قیام فرما ہوتیں تو آپ کا نور اہل سماء کو روشنی عطا کرتا تھا‘‘،بے انتہا نور کے باعث آپ کو زہرا کا لقب عطا فرمایا گیا۔یہی انوارات مقدسہ آپ کی جبین اقدس سے ظاہر ہوتے رہے یہاں تک کہ جب سیدنا امام عالی مقام امام حسین کی آمد ہوئی تو یہ نور آپ کی پیشانی میں جلوہ فرما ہوااورریگزار کربلا پر آپ کی شہادت عظمیٰ کے بعدسیدنا امام علی زین العابدین سے ہوتا سیدنا ولی العصر مہدیء دوراں کی جبین اقدس میں روشن ہے۔اس باعث مخدومۂ کونین معدن نبوت کے ساتھ معدن امامت بھی ہیں ا  اور قیامت تک دنیا کے گوشے گوشے میں آپ کی ال بشکل سادات موجود ہے اور تا قیامت رہے گی اطہار ،آپ کا فیضان ہیں

جمعہ، 5 جنوری، 2024

ٹوٹی چھت کے طیارے کا خوفناک سفر

 آلوہا۔۔۔‘ یہ لفظ ہوائی زبان میں لوگوں کو سلام کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ لفظ لوگوں کو ’خوش آمدید کہنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر 1988 میں الوہا ایئر لائنز کی پرواز 243 کے مسافروں اور عملے نے ایک ایسا خوفناک تجربہ کیا جس نے نہ صرف ان کی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑے بلکہ فضائی سفر کے حفاظتی معیار، جہازوں کی دیکھ بھال کے معیار کو بھی ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔28 اپریل 1988 کی ایک سہ پہر الوہا ائیرلائنز کا ایک مسافر بردار طیارہ 96 مسافروں اور فضائی عملے کے ساتھ ہوائی کے دو جزیروں کے درمیان ایک مختصر پرواز پر 24 ہزار فٹ کی بلندی پر تھا کہ اچانک سفر کے دوران جہاز کے ایک حصے کی چھت ٹوٹ کر الگ ہو گئی اور اسی دوران اس وقت جہاز میں ڈرنکس پیش کرتی فضائی میزبان مسافروں کی آنکھوں کے سامنے ہوا میں اڑ کر جہاز سے نیچے گر گئی۔جب طیارے کی چھت فضا میں اڑ گئ-

اس واقعے نے ہوائی جہاز کی تیاری، جانچ اور آپریشن کی دنیا میں بہت سی تبدیلیاں کیں اور ہوائی سفر کو پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ بنا دیا۔28 اپریل 1988 کو الوہا ایئر لائنز کے بوئنگ 737 نے ہوائی کے ایئرپورٹ سے ہونولولو بین الاقوامی ہوائی اڈے کے لیے دوپہر 1:25 اڑان بھری تھی۔ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال میں جہاز کو ماؤی ایئرپورٹ پر اترنا تھا، جو اس کا ’متبادل ایئرپورٹ‘ تھا۔دونوں جزیروں کے درمیان یہ تقریباً 35 منٹ کی پرواز تھی جس میں زیادہ تر وقت ٹیک آف اور لینڈنگ میں گزرتا تھا۔ بہت کم وقت کے لیے طیارے کو اپنی مثالی بلندی پر پرواز کرنا تھا اس دن موسم معمول کے مطابق اور خوشگوار تھا۔ کچھ سیاحوں کے لیے یہ ایک نیا اور خوبصورت نظارہ تھا جبکہ ہوائی جزائر میں کاروبار کی غرض سے سفر کرنے والے مسافروں کے لیے یہ معمول کی پرواز تھی۔طیارے کے چیف پائلٹ کیپٹن رابرٹ شورنسٹیمر کی عمر 44 سال تھی، وہ 11 سال سے کمپنی کے ساتھ تھے اور انھیں کل آٹھ ہزار گھنٹے پرواز کا تجربہ حاصل تھا، جس میں سے چھ ہزار سات سو گھنٹے انھوں نے بوئنگ 737 کو اڑاتے گزارے تھے۔کاک پٹ میں فرسٹ آفسر میڈلین ٹاپکنز تھیں۔ 37 سالہ ساتھی پائلٹ کو اپنے قریبی حلقے میں ’میمی‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ انھیں بھی کل آٹھ ہزار گھنٹے پرواز کا تجربہ تھا جس میں سے تین ہزار پانچ سو گھنٹے بوئنگ 737 طیارے اڑاتے گزرے تھے۔وہ دن معمول کے مطابق اور موسم صاف تھا، اس لیے فرسٹ آفیسر میمی نے ہوائی جہاز کے ٹیک آف اور ہینڈلنگ کی ذمہ داری سنبھالی جبکہ کیپٹن رابرٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے رابطے اور دیگر معمول کے کام سنبھالے۔پرواز کا وقت بہت کم ہونے کی وجہ سے جیسے ہی طیارہ اپنی مثالی بلندی پر پہنچا فضائی میزبان کلارایبل لانسنگ نے مسافروں کو مشروبات پیش کرنا شروع کر دیے۔حادثے کے بارے میں یو ایس این ٹی ایس بی (نیشنل ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ) کی رپورٹ جون 1989 میں منظر عام پر لائی گئی تھی، جس میں اس کی تفصیل دی گئی تھی کہ مذکورہ پرواز کے دوران کیا ہوا تھا۔فضائی میزبان فضا میں اڑنے لگے ایرو سپیس انجینئر ولیم فلانیگن اور ان کی اہلیہ جوئے اپنی شادی کی 21ویں سالگرہ منانے کے لیے ہوائی جا رہے تھے۔ جوئے کھڑکی کے پاس دوسری قطار میں بیٹھی تھیں۔58 سالہ فضائی میزبان کلارایبل لانسنگ 37 سال سے ایئر لائن کے ساتھ تھیں۔ وہ اپنے قریبی حلقے میں ’سی بی‘ کے نام سے جانی جاتیں تھیں۔کلارا اگلی قطار میں مسافروں کو مشروبات پیش کر رہی تھی جبکہ جہاز کی پچھلی طرف دو دیگر ائیر ہوسٹس ڈیوٹی پر تھیں۔ انھوں نے جوئے کو بتایا کہ جہاز جلد ہی لینڈ کرے گا اور وہ آخری بار مشروبات پیش کر رہی ہیں۔اس دوران جہاز کا اوپری حصہ اچانک دھماکے سے اڑ گیا اور کلارا دیکھتے ہی دیکھتے جہاز سے باہر گر گئیں۔اس وقت جہاز میں بیٹھے مسافروں کو یقینی موت نظر آنے لگی کیونکہ اوپر کھلا آسمان تھا اور نیچے سمندر، یہ منظر دیکھ کر مسافروں کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ سمجھ نہیں سکے کہ طیارہ ٹوٹ گیا یا کچھ اور ہوا ہے۔

اب آکسیجن ماسک لٹک رہے تھے لیکن آکسیجن کی سپلائی نہیں تھی۔ اس بلندی پر مسافروں کو شدید سردی لگ رہی تھی اور بغیر آکسیجن کے وہ موت کے قریب جا رہے تھے۔وہ کاک پٹ میں پائلٹ کی پوزیشن نہیں دیکھ سکے اور طیارہ آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ پائلٹ کو کچھ ہو گیا ہے یا وہ حالات پر قابو کھو بیٹھے ہیں اور طیارہ سمندر میں گرنے والا ہے۔اچانک طیارہ فضا میں اس بلندی پر آ کر مستحکم ہو گیا جہاں مسافروں کے لیے سانس لینا ممکن تھا۔ چنانچہ کیپٹن اور فرسٹ آفیسر نے کاک پٹ میں ایک دوسرے سے اشاروں میں بات کی اور کیپٹن رابرٹ نے ہوائی جہاز کا کنٹرول سنبھالا جبکہ میمی نے مواصلات اور دیگر امور انجام دیے۔ خوش قسمتی سے ان کے ماسک میں آکسیجن کی سپلائی جاری تھی۔طیارے کے پائلٹ کی جانب سے ہونولولو ہوائی اڈے پر ایک سگنل بھیجا گیا کہ طیارہ ہنگامی صورتحال میں ہے لیکن پیغام ان تک نہیں پہنچا۔ دونوں نے ماؤی ایئرپورٹ پر اترنے کا فیصلہ کیا انھوں نے وہاں کے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے رابطہ کیا اور اترنے کی اجازت طلب کی۔اونچائی اور رفتار میں کمی کے ساتھ اب رابرٹ اور میمی ایک دوسرے کے ساتھ بہتر بات چیت اور رابطہ کرنے کے قابل تھے۔

افراتفری، ہنگامے اور بے ترتیب مواصلات کے درمیان اے ٹی سی کو بمشکل پیغام پہنچا۔ طیارے کو مجبوراً رن وے نمبر دو پر لینڈ کرنا پڑا۔ فائر فائٹرز کو فوری طور پر ممکنہ تباہی سے آگاہ کر دیا گیا۔ جب مسافروں اور عملے کے ارکان سے انٹرکام یا پبلک اناؤنسمنٹ سسٹم کے ذریعے رابطہ نہ ہوسکا تو کو پائلٹ نے ایک بار پھر اے ٹی سی سے رابطہ کیا اور انھیں ’جتنا ممکن ہو مدد کرنے‘ کی ہدایت کی۔چونکہ ہوائی اڈے پر کوئی ایمبولینس یا طبی خدمات دستیاب نہیں تھیں، اے ٹی سی نے صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کمیونٹی سروسز کو فوری طور پر پہنچنے کی اطلاع دی۔تیز ہواؤں کے ساتھ اور تین ہزار میٹر کے دو پہاڑوں کے درمیان طیارے کو رن وے پر اتارنے کا چیلنج تھا۔ کسی بھی غلطی پر سنگین نتائج کے لیے نیچے ایک سمندر تھا۔


ساتھی پائلٹ میمی نے پائلٹ رابرٹ کو تیز م

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر