بدھ، 29 نومبر، 2023

مکھانے اور آپ کی صحت

  مکھانے کاپودا تالابوں میں پیداہوتاہے۔اس کے پھول اور پتے نیلوفر کے پھول اور پتوں سے مشابہ ہوتے ہیں۔اس کی جڑ چھوٹے چقندر کے برابر ہوتی ہے۔اس کا بیرونی چھال سیاہ اور کھردری ہوتی ہے۔اس کے جوف میں خانے ہوتے ہیں اور ہرایک خانے کے اندر سے سیاہ رنگ کے گول بیج نکلتے ہیں جن کا مغز سفید اور قدرے شیریں لیس دارہوتاہے۔خام ہونے کی حالت میں ان کا مغز نکال کر کھاتے ہیں اور خشک شدہ کو مرکبات میں شامل کرتے ہیں۔مزاج سردتر ہے تازہ مکھانا مقوی بدن،مقوی باہ اورمولدمنی خیال کیاجاتاہے۔جبکہ خشک بھونے ہوئے مکھانے قابض اورغذائیت سے بھرپو رہوتے ہیں۔ مکھانے زیادہ تر مستورات کو بچے کی پیدائش کے بعدک مزوری کو دور کرنے کے لئے حلووں یا سفوف میں شامل کرکے کھلاتے ہیں۔مکھانے میں شامل کیمیائی اجزا:پھول مکھانے میں کیلشیم، میگنیشیم اور فاسفورس کی وافر مقدارپائی جاتی ہے۔ جن لوگوں کو  ہائی بلڈپریشر کا مسئلہ ہے انہیں مکھانہ کا استعمال باقاعدگی سے کرنا چاہیئے:پھول مکھانے خواتین کے بعض دوسرے مسائل کا حل بھی ہے۔اس نسخے کو تیار کرنے کے لئے آپ کو تھوڑا تردد کرنا پڑے گا۔ لیکن آپ کے بہت سے مسائل اس سے حل ہوجائیں گے۔جن خواتین کو پرانی لیکوریا ہو کمر ٹانگوں اور پنڈلیوں میں ایسا درد ہو کہ درد کی گولیاں کھا کر عاجز آگئی ہوں۔ دوسری طرف بلڈ پریشر ہو۔گرم چیزیں نہ کھاسکتی ہوں اور تیسری طرف موٹاپا بہت زیادہ ہو۔ ایسی خواتین اس نسخے کا استعمال کریں۔حیران کن فائدہ ہوگا۔اسی طرح وہ خواتین جو کمزور ہیں۔ جن میں خون کی کمی ہے۔ پٹھے اعصاب اور جسم دکھتا ہے۔ ہر وقت سانس پھولتا ہے۔طبیعت اکتاہٹ اور بیچینی کا شکار رہتی ہے۔ وہ بھی یہ نسخہ استعمال کرسکتی ہیں۔ اسی طرح مہوروں کا مسئلہ،ڈسک پرابلم،اعصابی کھنچاؤ،اس نسخے کے سامنے ایسے ہیں جیسے آٹے میں سے بال نکل جائے۔کے بیج ہیں   

مکھانوں سےجریان،ضعف باہ اور رقت منی کے لئے سفوفات میں شامل کرتے ہیں۔ان کو کھانے کیلئے فرائینگ پین ہلکی آنچ پر رکھ کر چھوڑ دیجئے اور جب پین گرم ہوجائے تو پھول مکھانے اس پر ڈال کر ان کو پانچ منٹ تک پکاتے رہیں۔تیل وغیرہ کچھ بھی نہیں ڈالنا۔صرف پھول مکھانے کو روسٹ کرنا ہے اس دورا ن آپ نے چمچ کے ساتھ ان کو ہلاتے رہنا ہے تا کہ یہ ہر طرف سے پک جائیں۔ان کو روسٹ کرنے کے بعد آپ نے انہیں اتار لینا ہے۔ ایک برتن میں آپ نے ایک گلاس گرم دودھ لینا ہے اور اس میں پھول مکھانے شامل کر لینے ہیں۔ اور ان کو تقریبا دس منٹ تک رکھ کے چھوڑ دینا ہے تا کہ مکھانوں میں دودھ اچھی طرح سے جذب ہوجائے۔یہ لیجئے آپ کا یہ نسخہ تیارہوگیا۔اس کو آپ کھا لیں اور اگر ذائقے کے لئے آپ نے شہد شامل کرنا ہے تو آپ حسب ذائقہ شامل کرسکتے ہیں۔یہ نسخہ ایسا قیمتی ہے کہ اس سے آپ کی ہر طرح کی کمزوری دورہوجائے گی۔آپ اپنے آپ کو تندرست اور توانا محسوس کریں گے۔ بدن میں موجود ہر طرح کے دردوغیرہ دور ہوجائییں گے۔ نہ آپ کبھی تھکاوٹ محسوس کریں گے اور نہ ہی سستی۔

   یہ نہ صرف انکے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ دراصل مکھانے میں میگنیشیم کی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا منرل ہے جو جسم کے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے-بزرگ لوگ دن میں دو بار مکھانہ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ۔یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔مکھانےبلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ دراصل مکھانے میں میگنیشیم کی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا منرل ہے جو جسم کے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے-بزرگ لوگ دن میں دو بار مکھانہ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ۔یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔جسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے۔جریان، ضعف باہ کا علاج -اس نسخے کو کچھ عرصے تک استعمال کرنا شرط ہے۔ اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی نسخہ ہو ایک یا دو بار استعمال کرنے سے ان کے مسائل حل ہوجائیں۔ تو ایسا نہیں ہوتا۔ کسی بھی نسخے کا مستقل استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی خواتین جن میں بے اولادی کے مسائل ہوں اور وہ اپنی بے اولادی کے لئے مختلف ادویات استعمال کر چکی ہوں۔

ان کو فائدہ نہ ہوتا ہو تو انہیں یہ نسخہ ضرور استعمال کرنا چاہئے۔وہ مرد جن کا مادہ تولید اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں اور ہر ٹیسٹ ان کا ناکام ہوتا ہے اور وہ مایوس ہوچکے ہیں وہ بھی یہی مرکب دودھ کے ساتھ ضرور استعمال کریں۔ چند دن چند ہفتے اور چند مہینے کا استعمال انہیں بے اولادی کے روگ سے نکال کر اولاد کی خوشیاں دے گا۔نسخہ تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے: ،ثابت مونگ ایک کلو۔بادام گری ایک پاؤ۔،پسی ہوئی چینی یا دیسی شکر ایک کلو۔پستہ ایک چھٹانک۔سونف آدھا پاؤ۔ناریل ایک پاؤ۔پھول مکھانے آدھا پاؤ۔چھوٹی الائچی۔ایک تولا۔چاروں گوندیں ایک پاؤ۔ نشاستہ ایک پاؤ۔اسپغول کا چھلکا آدھا پاؤ۔دیسی گھی ڈیڑھ کلو۔ ثابت مونگ کو بھون لیں۔ بعد میں اس کا آٹا بنا لیں۔ دیسی گھی میں چاروں گوندیں براؤن کریں اور کوٹیں۔ پھر پھول مکھانے بھی دیسی گھی میں براؤن کریں اور کوٹیں۔ بادام گھی میں براؤن کر کے کوٹ لیں۔ سونف کو بھی براؤن کر کے اس کا آٹا بنا لیں۔ یعنی سب دیسی گھی میں نشاستے کو بھی گھی میں براؤن کریں۔باقی پستہ اور چھوٹی الائچی کو براؤن کئے بغیر ہلکا کوٹ لیں۔آخر میں تمام اجزاء کو ملا کر گھی میں بھون لیں اور پسی ہوئی چینی شامل کردیں۔خوب مکس کریں۔ اس کے بعد ناریل کھوپرا اور اسپغول کا چھلکا ملالیں۔تمام اشیاء ملانے کے بعد ایک کھلے برتن میں ٹھنڈا کریں اور ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔بے اولاد افراد توجّہ دیںجسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے

مکھانے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ دراصل مکھانے میں میگنیشیم کی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا منرل ہے جو جسم کے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے-بزرگ لوگ دن میں دو بار مکھانہ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ۔یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔جسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے۔  -اس نسخے کو کچھ عرصے تک استعمال کرنا شرط ہے۔ اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی نسخہ ہو ایک یا دو بار استعمال کرنے سے ان کے مسائل حل ہوجائیں۔ تو ایسا نہیں ہوتا۔ کسی بھی نسخے کا مستقل استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی خواتین جن میں بے اولادی کے مسائل ہوں اور وہ اپنی بے اولادی کے لئے مختلف ادویات استعمال کر چکی ہوں۔ان کو فائدہ نہ ہوتا ہو تو انہیں یہ نسخہ ضرور استعمال کرنا چاہئے۔وہ مرد جن کا مادہ تولید اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں اور ہر ٹیسٹ ان کا ناکام ہوتا ہے اور وہ مایوس ہوچکے ہیں وہ بھی یہی مرکب دودھ کے ساتھ ضرور استعمال کریں۔

 چند دن چند ہفتے اور چند مہینے کا استعمال انہیں بے اولادی کے روگ سے نکال کر اولاد کی خوشیاں دے گا۔نسخہ تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے: پہلے اجزاء نوٹ فرمائیے،ثابت مونگ ایک کلو۔بادام گری ایک پاؤ۔،پسی ہوئی چینی یا دیسی شکر ایک کلو۔پستہ ایک چھٹانک۔سونف آدھا پاؤ۔ناریل ایک پاؤ۔پھول مکھانے آدھا پاؤ۔چھوٹی الائچی۔ایک تولا۔چاروں گوندیں ایک پاؤ۔ نشاستہ ایک پاؤ۔اسپغول کا چھلکا آدھا پاؤ۔دیسی گھی ڈیڑھ کلو۔ ثابت مونگ کو بھون لیں۔ بعد میں اس کا آٹا بنا لیں۔ دیسی گھی میں چاروں گوندیں براؤن کریں اور کوٹیں۔ پھر پھول مکھانے بھی دیسی گھی میں براؤن کریں اور کوٹیں۔ بادام گھی میں براؤن کر کے کوٹ لیں۔ سونف کو بھی براؤن کر کے اس کا آٹا بنا لیں۔ یعنی سب دیسی گھی میں نشاستے کو بھی گھی میں براؤن کریں۔باقی پستہ اور چھوٹی الائچی کو براؤن کئے بغیر ہلکا کوٹ لیں۔آخر میں تمام اجزاء کو ملا کر گھی میں بھون لیں اور پسی ہوئی چینی شامل کردیں۔خوب مکس کریں۔ اس کے بعد ناریل کھوپرا اور اسپغول کا چھلکا ملالیں۔تمام اشیاء ملانے کے بعد ایک کھلے برتن میں ٹھنڈا کریں اور ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔ 

پیر، 27 نومبر، 2023

ملتان میں تعزیہ داری کی ابتدا


ملتان میں تعزیہ داری کی تاریخ بہت قدیم ہے۔اور ملتان وہ  واحد شہر ہے جہاں یوم عاشور پر ایک سو سے زائد تعزیوں کے ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں ان سب تعزیوں میں بناوٹ اور تاریخی لحاظ سے استاد اور شاگرد کے تعزیے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ امیر تیمور کے دور میں شروع ہونے والی تعزیہ داری اپنی تاریخی روایات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ آغاز میں کھجور کی چھڑیوں اور بانسوں سے تعزیہ تیار کیا جاتا تھا ماتمی جلوس امام بارگاہوں تک محدود تھے۔ رفتہ رفتہ تعزیوں کی تیاری میں لکڑی‘ کاغذ اور دیگر اشیاءاستعمال ہونے لگیں۔ انگریز دور میں ہندووں کی جانب سے اس روایت کی مخالفت کی گئی تو شیعہ سنی متحد ہو گئے۔ انگریز حکومت نے 1845ءمیں تعزیوں کے لائسنس کے اجراءکے ساتھ ساتھ باقاعدہ روٹس متعین اور جلوس کے آغاز اور اختتام کے وقت مقرر کئے۔ہر تعزیہ ملتان دستکاری کا خوبصورت نمونہ ہے لیکن استاد اور شاگرد کے تعزیے تعزیہ داری کی تاریخ میں خاص مقام رکھتے ہیں۔کسی دور میں تعزیہ سازی میں چنیوٹ خاصا مشہور تھا یہاں کے چوب کار زیارتیں تیار کرتے تھے استاد پیر بخش اور شاگرد محکم الدین کا رشتہ بھی اسی کام کے دوران پختہ ہوا۔

استاد کا تعزیہ۔استاد پیر بخش نے 1810میں تعزیے کا کام شروع کیا گیا اور 1835ءمیں اسے مکمل کیا۔بعد از اسے ملتان میں زیارت کے لئیے رکھوایا گیا۔یہ خالص ساگوان کی لکڑی سے تیار کیا گیا ہے۔بناوٹ کے لحاظ سے اس تعزیہ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی صرف اوپر والی منزل کے جھروکوں کو نئے انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔  تعزیے کی اونچائی 27 فٹ اور چوڑائی 8 فٹ ہے۔ اس کی سات منزلیں 35 حصوں پر مشتمل ہیں۔اس کا وزن 70 من ہے۔اور اسے 50 آدمی مل کر بانسوں کی مدد سے اٹھاتے ہیں۔شاگرد کے تعزیہ۔شاگرد محکم الدین نے  یہ تعزیہ اپنے استاد کے تعزیے کے کچھ عرصہ بعد تیار کیا۔ایک روایت کے مطابق شاگرد دن کو استاد کے ساتھ تعزیہ تیار کرتا اور رات کو اپنا تعزیہ تیار کرتا۔اس تعزیے کی پہلی زیارت بوسیدہ ہو گئی تو استاد علی احمد نے دوسری زیارت تیار کی وہ 1943 میں آگ لگنے سے خاکستر ہو گئی تو اس کا تیسرا اور موجودہ تعزیہ استاد عنایت چنیوٹی نے تیار کیا۔ پہلے دو تعزیے دستکاروں نے تیار کئے جبکہ موجودہ تعزیہ کی تیاری میں مشینی کام کا بہت عمل دخل ہے۔شاگرد کے تعزیے کی اونچائی تقریباً 25 فٹ اور چوڑائی 12 فٹ ہے۔ اس تعزیے کو ایک سو کے قریب عزادار مل کر اٹھاتے ہیں۔

تعزیوں کی بناوٹ میں چوب کاری کا فن نمایاں نظر آتا ہے جو خاصا محنت طلب ہے۔ دستکاروں نے نفاست‘ مہارت اور مذہ عقیدت کے ساتھ لکڑی کے کٹ ورک سے شاہکار زیارتیں تخلیق کی ہیں۔ تعزیوں کو بغور دیکھیں تو اس کی ہر منزل‘ ہر کونہ اور گوشہ محرابوں‘ کھڑکیوں‘ کبڑوں اور آرائشی میٹریل سے مزین ہوتا ہے۔ نقش کاری‘ مینا کاری‘ شیشہ کاری میں اتنی مہارت دکھائی گئی ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے روضہ مبارک کی شبیہ کے طور پر سجائے گئے یہ استاد اور شاگرد کے تعزیے دستکاروں کی جادوئی انگلیوں کا کمال ہیں جن میں مذہبی عقیدت اور محنت کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔کسی کے مرنے پر صبر کی تلقین اور اظہار ہمدردی کرناتعزیت کہلاتا ہے۔ (عربی تعزیة) اہل تشیع کے نزدیک شہید کربلا اور دیگر شہدا کا ماتم جو ان کے روضے پر، گھروں یا امام بارگاہوں میں محرم کی پہلی تاریخ سے دسویں تک کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر کہیں تابوت، کہیں ان کے روضے کی تصویر، جسے تعزیہ کہتے ہیں، کہیں دُلدُل یا علم نکالے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ شہدا کا ماتم بھی کرتے ہیں۔ مجالس عزا میں مرثیہ، نوحہ، سلام پڑھتے اور شہادت کا حال بیان کرتے ہیں۔ ہرملک میں تعزیت کے مختلف طریق رائج ہیں۔ اسلامی ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں شہدا کا ماتم ضرور کیا جاتا ہے۔

عراقی اسے شبیہ کہتے ہیں، کیونکہ وہ لوگ حادثہ کربلا کی نقل پیش کرتے ہیں۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری امام حسین منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی۔ ایران میں دولت صفویہ کے عہد سے یعنی سولہویں صدی کے شروع سے تعزیہ داری کا رواج ہوا۔ اور پھر رفتہ رفتہ برصغیر پاکستان و ہندوستان میں بھی تعزیہ داری ہونے لگی۔امام  حسین علیہ السلام  کے روضہ مبارک کی شبیہہ کو اردو میں  تعزیہ کہا جاتا ہے۔ تعزیہ سونے، چاندی، لکڑی، بانس، کپڑ اسٹیل  اور کاغذ  سے تیار کیا جاتا ہے۔ اہل تشیع تعزیہ کو غم اور  سوگ کی علامت کے طور پر جلوس کی شکل میں نکالتے ہیں۔ جلوس تعزیہ امام بارگاہ سے برآمد ہو کر کربلا پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تعزیہ کی ابتدا تیمور کے دور میں ہوئی۔ بناوٹ کے لحاظ سے تعزیہ کی مختلف اقسام ہیں ؛

 

بدھ، 22 نومبر، 2023

سرخ یاقوت برج سرطان اور عقرب' کےلئے

  سرخ یاقوت برج سرطان اور عقرب کیلئے بھی سعد سمجھا جاتا ہے۔ جو حضرات ساڑھ ستی کے دور سے گزر رہے ہوں وہ یہ پتھر پہنیں تو ان کے حالا ت  بہتر ہو سکتے ہیں۔یاقوت پتھر کی شناخت اور خرید کیسے کی جائے:اصلی یاقوت کی شناخت کا تیز ترین طریقہ نیوڈائمیم مقناطیس  کے استعمال کا ہے۔یاقوت  نیوڈائمیم مقناطیس کی طرف کشش رکھتا ہے کیونکہ یہ آئرن یا مینگنیز کی زیادہ مقدار پر مشتمل ہوتا ہے ۔اصلی یاقوت قدرے سخت ہوتے ہیں اسے   سکہ کی مدد ر گڑیں اگر پتھر پر خراش پڑ جائے تو سمجھ لیں کہ پتھر نقلی ہے۔اصلی یاقوت کو اگر  انتہائی قریب سے دیکھا جائے تو قوس قزح کی مانند پیٹرن جھلکتے دکھائی دیں گے یہ پیٹرن بہت واضح ہوتے ہیں کیونکہ یاقوت پتھر کی واحد رفریکٹو خصوصیت ہوتی ہے۔ اصلی یاقوت پتھر کو اگر ہتھیلی پر رکھا جائے تو بھاری محسوس ہوگا اور اس سے ہلکی سی حرارت بھی محسوس ہوگئی۔

قیمتی پتھر ہمیشہ ایسے قابل اعتماد پیشہ ورجوہری سے کریں جو اصلی جواہرات کیاعلیٰ پرکھ رکھتا ہو،۔یاقوت پتھر کی قیمت:یاقوت پتھر کی قیمت اس کی اقسام کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے، یاقوت پتھر چونکہ عام دستیاب ہوتا ہے اسلئے یہ دوسرے جواہرات کی نسبت کم مہنگا ہے۔پہننے کی ترکیب:اس پتھر کو صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے چاندی یا سونے کی انگوٹھی میں جڑوا کر پہنا جائے۔نگ کا وزن تین، پانچ،سات ، نویا گیارہ رتی تک ہونا چاہیے۔ اس پتھر کی انگوٹھی کو مختلف انگلیوں میں پہننے سے مختلف نتائج حاصل ہو سکتے   ہیں اگر انگوٹھے میں پہنی جائے تو یہ آپکی جنسی زندگی اور مجموعی صحت کو بہتر کرے گی۔ اگر آپ اپنی زندگی میں کچھ اہم مقاصد حاصل کرنے چاہتے ہیں تو آپ کو یہ انگوٹھی شہادت کی انگلی میں پہننی چاہیے۔درمیانی انگلی میں پہننے سے آپ کی زندگی میں کامیابی آئے گی اور آپ مالی طور پر مستحکم ہو جائیں گے۔ اس پتھر کی انگوٹھی کو اگر دائیں ہاتھ کی دوسری انگلی (رنگ فنگر) میں پہنا جائے تو یہ آپ کی ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے می کوئی رکاوٹ محسوس ہو رہی ہے وہ یہ پتھر اپنے بائیں ہاتھ کی دوسری انگلی میں پہنیں۔

اگر کوئی شخص مواصلاتی مہارت کو تیز کرنا چاہتا ہے تو وہ یہ انگوٹھی اپنی چھوٹی انگلی میں پہنے۔سرخ یاقوت برج سرطان اور عقرب کیلئے بھی سعد سمجھا جاتا ہے۔ جو حضرات ساڑھ ستی کے دور سے گزر رہے ہوں وہ یہ پتھر پہنیں تو ان کے حالا بہتر ہو سکتے ہیں۔یاقوت پتھر کی شناخت اور خرید کیسے کی جائے:قیمتی پتھر کی خرید ہمیشہ ایسے قابل اعتماد پیشہ ورجوہری سے کریں جو اصلی جواہرات کی اعلیٰ پرکھ رکھتا  نییاقوت پتھر کی قیمت:یاقوت پتھر کی قیمت اس کی اقسام کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے، یاقوت پتھر چونکہ عام دستیاب ہوتا ہے اسلئے یہ دوسرے جواہرات کی نسبت کم مہنگا ہے۔پہننے کی ترکیب:اس پتھر کو صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے چاندی یا سونے کی انگوٹھی میں جڑوا کر پہنا جائے۔نگ کا وزن تین، پانچ،سات ، نویا گیارہ رتی تک ہونا چاہیے۔ اس پتھر کی انگوٹھی کو مختلف انگلیوں میں پہننے سے مختلف نتائج حاصل ہو سکتے ہیںاگر انگوٹھے میں پہنی جائے تو یہ آپکی جنسی زندگی اور مجموعی صحت کو بہتر کرے گی۔ اگر آپ اپنی زندگی میں کچھ اہم مقاصد حاصل کرنے چاہتے ہیں تو آپ کو یہ انگوٹھی شہادت کی انگلی میں پہننی چاہیے۔

درمیانی انگلی میں پہننے سے آپ کی زندگی میں کامیابی آئے گی اور آپ مالی طور پر مستحکم ہو جائیں گے۔ اس پتھر کی انگوٹھی کو اگر دائیںہاتھ کی دوسری انگلی (رنگ فنگر) میں پہنا جائے تو یہ آپ کی ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے میںمدد دے گی(بشر طیکہ دونوں پارٹنرز اس پتھر کی انگوٹھی پہنیں) ، جن افراد کو اپنی شادی میںکوئی رکاوٹ محسوس ہو رہی ہے وہ یہ پتھر اپنے بائیں ہاتھ کی دوسری انگلی میں پہنیں۔

اگر کوئی شخص مواصلاتی مہارت کو تیز کرنا چاہتا ہے تو وہ یہ انگوٹھی اپنی چھوٹی انگلی میں پہنے۔

یاقوت پتھر کے فوائد:

1۔یہ پتھر کام،پیسہ اور رشتہ داری کے معاملات کو بہتر کرنے میںمدد دیتا ہے۔

2۔یہ پتھر خود اعتمادی کو فروغ دیتا ہے۔

3۔دوسروں کے ساتھ اشتراک کی راہیں کھولنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

4۔ہمت، امید اور اعتماد کو مضبوط کرتا ہے۔

بحران کی صورتحال میںمدد کرتا ہے۔

6۔زندگی میں روشنی اور امید لاتا ہے۔

7۔مسائل پر قابوپانے کے لیے ہمت کو بڑھاتا ہے۔

8۔روح کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ غم وپریشانی کو مٹاتا ہے۔

9۔یہ پتھر آپس میںدوستی اور محبت و پیار کے جذبات بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔

10۔سانپ اور دوسرے زہریلے جانوروں کے زہر سے محفوط رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

11۔اس پتھر کے پہننے والے قریب محتاجی نہیں آتی ہے۔

12۔اس پتھر کو گھر میں رکھنے سے بے برکتی دور ہوتی ہے اور لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے۔ درجنوں 

ایک محنت کش قصّاب کی جواں ہمّت بیٹی -Kolinda Grabar Kitarović

 

کم ہمت لوگ اپنی محرومیوں کا رونا رہتے ہیں  خوشی غمی….دکھ اور سکھ….شاید زندگی اِسی سے عبارت ہے۔اس زندگی میں خوشیاں بھی ملتی ہیں اور دکھ بھی اور بعض دکھ ایسے جان لیوا ہوتے ہیں کہ زندگی پانی کی مانند بے رنگ ہو جاتی ہے۔زندگی کا سارا لطف جاتا رہتا ہے اور زندگی بے کیف ہو جاتی ہے۔ اس بیٹی نے آنکھ کھول کر اپنے باپ کو سخت ترین مشقّت کے پاپڑ بیلتے دیکھا تھا -اور دیکھ رہی تھی لیکن بچپن کی ہی عمر میں اس نے جو خواب اپنی پلکوں پر چنے تھے ان خوابوں کو وہ تعبیر کی دہلیز پر لے آئ تھی وہ جانتی تھی کہ یہ سب آزمائش ہے اور یہ کہ رات کے بعد ایک روشن صبح ضرورآئے گی-فیفا کپ کے اسٹینڈ پر موجود اپنے وطن کی ٹیم کے کپتان کے ساتھ کھڑی زارو قطار روتے ہوئے اس نے کہا1979آج تم ہار کر بھی فتح یاب ہو ۔  میرے ملک کے  لئے عزت کا یہ مقام ایک دھات سے بنے کپ کو تھامنے سے بدرجہا بہتر ہے "ا

یہ قصہ ایک محنت کش قصّاب کی جواں ہمّت بیٹی کا ہے جس کی عمر اس وقت محض گیارہ برس تھی-  سخت ترین جاڑے کی ایک اتنی ہی سرد اور اداس شام تھی۔ یوگوسلاویہ کے دورافتادہ اور پسماندہ گاوں میں ایک قصاب بخار میں پھنک رہا تھا۔ پریشانی اس کے چہرے پہ عیاں تھی ۔ کسی نہ کسی طرح ہمت جمع کرکےاس نے گوشت تو بنا لیا- مگر اسے ریستوران تک پہنچانا اسے عذاب لگ رہا تھا۔ اتنے میں اسکی 11 سالہ بیٹی سکول سے لوٹی۔ باپ کو پریشان دیکھ کر ماجرہ سمجھ گئی۔ برفباری میں  گوشت سے لدی  بھاری بھرکم ریڑھی کھینچ کر ریستوران تک چھوڑ آئی۔

وہ مڈل سکول میں گاوں کے سکول میں اول آئی۔ تب امریکہ میں ہائی سکول میں وظیفے کا امتحان منعقد ہوا ۔ وہ اس میں منتخب ہونے والے چند طلبہ میں سے ایک تھی۔ قصاب کی بیٹی کو پڑھنے اور محنت کرنے کا جنون تھا۔ جو بالآخر اسے ہارورڈ یونیورسٹی کے  کینیڈی سکول میں لے گیا۔چند برس کی محنت شاقہ کے نتیجےمیں وہ امور خارجہ میں ماہر سمجھی جانے لگی۔ امریکہ میں اپنے ملک کی پہلی خاتون سفیر مقرر ہوئی اسی خاتون کو چند روز قبل ساری دنیا   FIFA-t shirt  ورلڈ کپ کے فائنل میں اپنی ٹیم کا دیوانہ وار جذبہ بڑھاتے دیکھا۔ وہ  فیفا  کی عام   سرخ شرٹ    زیب تن کئے نعرے بلند کرتی نظر آئی۔ 

یہ کولنڈا گریبر. Kolinda Grabar Kitarović ہے۔ کروشیا کی منتخب صدرکولنڈا ۔ جسے دو ارب سے زائد ٹی وی سے چپکے ناظرین ستائش بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اکانومی کلاس میں خود ٹکٹ خرید کر پہنچی۔ VIP سہولیات شکریہ سے واپس کردیں ۔ اس دورانیہ کی تنخواہ بھی نہیں لیں گی۔ کروشیا کی آبادی محض چالیس لاکھ ہے۔ اسکا ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا ۔ 50 سالہ کولنڈا اپنے ملک کے تمام میچوں میں موجود رہی۔ اس دوران اسنے  NATO کے سربراہ اجلاس میں بھی شرکت کی۔ مگر راتوں رات واپس ماسکو پہنچ گئی۔ میچ کے وقفہ میں وہ اپنے مدمقابل فرانسیسی ٹیم کے  کمرے میں اچانک جاوارد ہوئی۔ اس نے ان کا بھی حوصلہ بڑھایا۔ کروشیا بہتر ٹیم ہونے کے باوجود تجربہ کار فرانس کی ٹیم سے شکست کھا گئی ۔ 

کولنڈا سب کھلاڑیوں سے بغلگیر ہوئی۔ مگر جب کپتان موڈرچ سے ملی تو دونوں پھوٹ پھوٹ کر رودیئے۔ جواں سال موڈرچ جسے Golden ball award یعنی دنیا کے بہترین کھلاڑی کے اعزاز سے نوازا گیا ،بولا  "ماں ، میں نے آج تجھے ساری دنیا کے سامنے شرمسار کردیا"کولنڈا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولی۔ "میرے بچے ،  تم مٹھی بھر جوانوں نے دنیا کے دل جیت لئے ہیں ۔ آج تم ہار کر بھی فتح یاب ہو ۔  میرے ملک کے  لئے عزت کا یہ مقام ایک دھات سے بنے کپ کو تھامنے سے بدرجہا بہتر ہے "اس نے تیز بارش میں چھتری واپس کردی اور بولی میرے بچے بارش میں نہا رہے ہیں ۔ میں بھی انکے ساتھ مسرور ہوں۔ کولنڈا نے کروشیا کو ترقی یافتہ ممالک میں شامل کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ اس نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اسے یورپین یونین کا رکن بنوایا۔ جس سے روزگار اور تجارت کے بے پناہ مواقع میسر آئے  

 اپنے گرد نگاہ دوڑائیں تو ہم غلاموں کی مانند  ارب پتی خانوادوں اور انکے بعد انکی اولاد کی چوکھٹ کو چومتے نظر آتے ہیں۔  ہماری بصارت اور بصیرت سے محروم آنکھ گلے میں پڑے طوق اور پاوں میں بندھی زنجیروں کو محسوس ہی نہیں کر پاتی۔ کیا ہم بھی کسی عام آدمی کو غیر معمولی ذہانت۔اخلاص اور بلند اخلاق کی بنیاد پر اپنا رہبر چنیں گے۔ یقین مانیں ۔۔۔ہمیں بھی چند ایسی قصاب کی بیٹیوں کی ضرورت ہے۔۔۔ جو ہماری بھی قسمت کو بدل دیں ۔  انشاءاللہ وہ سویرا جلد طلوع ہو گا۔

بقول ساحر۔۔۔

جب دھرتی کروٹ بدلے گی 

جب قید سے قیدی چھوٹیں گے

 جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے

جب ظلم کے بندھن پھوٹیں گے۔ 

اس صبح کو ہم ہی لائیں گے  

وہ صبح ہمیں سے آئے گی 

شکریہ انٹرنیٹ

ہفتہ، 18 نومبر، 2023

قاضی علامہ نوراللہ شوستری -شہید ثالث

  قاضی نور اللہ ہمیشہ مخالفین میں تقیہ یا اپنے عقائد کو خفیہ رکھتے تھے وہ اہل سنت کے مذاہب اربعہ کے فقہی مسائل پر مکمل دسترس رکھتے تھے، اس لیے اکبر بادشاہ اور عام لوگ انہیں سنی سمجھتے تھے،آپ متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے - جب اکبر بادشاہ کو ان کے علم و فضل اور لیاقت سے آگہی حاصل ہوئی تو انہیں لاہور میں "قاضی القضاۃ" مقرر کیا۔ شہید نور اللہ نے ایک شرط پر اسے قبول کیا کہ وہ کوئی بھی فتویٰ مذاہب اربعہ یعنی شافعی، حنفی، حنبلی اور مالکی میں سے اپنی رائے اور اجتہاد سے دیں گے کسی ایک فقہ کا پابند نہیں ہوگا۔ بادشاہ نے یہ بات مان لی چنانچہ قاضی نے تمام فتویٰ امامیہ فقہ کے مطابق دینا شروع کیے جو کسی نہ کسی مذاہب اربعہ کے مطابق ہوا کرتے تھےاور آپ کے فیصلے منصفانہ ہوتے تھے -شہید ثالث علامہ نوراللہ شوستری  محبت علی ابن ابی طالب ع میں شہید ہوئے   -

 شہید ثالث، شوستری اور قاضی کی وجہ تسمیہ:دمشق اور استنبول میں دو بزرگوں کی شہادت کے کئی سالوں بعد ہندوستان میں قاضی نور اللہ شوستری شہید ہوئے تو شہید ثالث  -تیسرے شہید کہلائے، یعنی علمائے شیعہ میں شہید ثالث۔ محمد ابن مکی شہید اول، شیخ زین الدین شہید ثانی اور نور اللہ شوستری شہید ثالث ہیں۔ قاضی کا درجہ وہی مقام رکھتا ہے جو دور حاضر میں جسٹس کا ہوتا ہے۔ قاضی نور اللہ شہید شوستر میں پیدا ہوئے تھے اسی نسبت سے وہ شوستری کہلائے۔ مشہد مقدس میں علمِ دین سیکھنے کے بعد ہندوستان تشریف لائے۔-تصانیف:شہید ثالث کی متعدد تصانیف ہیں، جن میں "مجالس المومنین" اور "احقاق الحق" چھپ چُکی ہیں۔ مجالس المومنین ہی آپ کا شاندار شاہکار ہے اور خاص مرتبہ رکھتی ہے، مزید انہوں نے بیسیوں عربی اور فارسی زبان میں رسالے بھی لکھے۔

چیف جسٹس کا عہدہ:قاضی نور اللہ مخالفین میں تقیہ یا اپنے عقائد کو خفیہ رکھتے تھے وہ اہل سنت کے مذاہب اربعہ کے فقہی مسائل پر مکمل  دسترس رکھتے تھے، اس لیے اکبر بادشاہ اور عام لوگ انہیں سنی سمجھتے تھے، جب اکبر بادشاہ کو ان کے علم و فضل اور لیاقت سے آگہی حاصل ہوئی تو انہیں لاہور میں "قاضی القضاۃ" مقرر کیا۔ شہید نور اللہ نے ایک شرط پر اسے قبول کیا کہ وہ کوئی بھی فتویٰ مذاہب اربعہ یعنی شافعی، حنفی، حنبلی اور مالکی میں سے اپنی رائے اور اجتہاد سے دیں گے کسی ایک فقہ کا پابند نہیں ہوگا۔ بادشاہ  نے یہ بات مان لی چنانچہ قاضی نے تمام فتویٰ امامیہ فقہ کے مطابق دینا شروع کیے جو کسی نہ کسی مذاہب اربعہ کے مطابق  ہوا کرتے تھے۔ اکبر بادشاہ کی وفات کے بعد جہانگیر تختِ سلطنت پر بیٹھا تو قاضی نور اللہ اپنے عہدے پر قائم رہے لیکن مخالف علماء کو یہ قبول نہیں تھا، کئی مرتبہ بادشاہ کو بتایا گیا کہ قاضی نوراللہ شیعہ مسلک سے ہیں لیکن وہ اپنا عقیدہ چھپاتے ہیں اور تمام فتاویٰ کو مسلک شیعہ کے مطابق دیتے ہیں۔

شہادت اور مزار -علمائے مخالفین اس گھات میں تھے کہ کسی طرح سے قاضی کی شیعت کو ثابت کیا جائے اور قتل کا حکم جاری کروایا جائے۔ ایک منظم سازش کے تحت ایک شخص کو قاضی نور اللہ کے پاس بھیجا گیا وہ شیعہ بن کر قاضی کی وہ کتابیں حاصل کرے جو وہ خفیہ طور پر رات کو لکھتے ہیں۔ وہ شخص روز بروز اعتماد بناتا رہا اور مجالس المومنین کتاب کے بعض حصے جو علماء کرام کے نزدیک متنازعہ تھے لیکر دربار جہانگیر میں پیش کردیئے۔ اسی شاگرد نما دشمن کی جاسوسی کے باعث دربار میں سزا مقرر ہوئی۔ شہید ثالث کو خار دار دُرے لگائے گئے حتیٰ کہ شہید ہوگئے، آگرہ میں شہادت کے بعد اسی جگہ مزار بنایا گیا۔ مزید روایت ہے کہ شہادت کے بعد کئی دن تک لاش بے گوروکفن رہی اور پھر ایک شخص کے خواب میں جناب سیدہ فاطمہ (س) نے حکم دیا کہ میرے فرزند کو دفن کردیں، جب یہ خواب متعدد افراد کو آیا تو دریا کے قریب سے لاشہ برآمد کرکے کفن و دفن کا انتظام کیا گیا۔ شہادت کے دو سو سال یا ڈیڑھ سو سال  بعد 1774 میں قبر پر روضہ تعمیر ہوا اور باغ بھی لگایا گیا۔  لوگ ان کے مزار پر ہندوستان بھر سے منت ماننے کے لیے سفر کرتے تھے اور اب بھی یہ عمل جاری ہے۔

سلام بر شہیدِ ثالث:شہید ثالث نے مشکل ترین وقت میں عقائد کی ترویج کی، آج اگر برصغیر میں ہمارے پاس حقیقی تشیع اور عقائد پہنچے ہیں تو وہ شہید ثالث قاضی نور اللہ کی تصانیف اور کاوشوں کی بدولت ہیں۔ پروردگار شہید کے درجات بلند کرے۔ آمین شہید ثالث حوزہ/ آگرہ میں موجود آپ کا روضہ اہل ایمان کی زیارت گاہ ہے جہاں سالانہ ہزاروں زائرین زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں  اور آپ کے دشمن تاریخ کے قبرستان میں گمنام ہو گئے۔ شہید سعید فقیہ اہلبیت قاضی سید ضیاء الدین نوراللہ شوشتری المعروف بہ شہید ثالث رحمۃ اللہ علیہ 956 ہجری کو ایران کے صوبہ خوزستان کے شہر شوستر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب سید شریف الدین رضوان اللہ علیہ معقولات و منقولات کے برجستہ اور ماہر عالم تھے۔ قاضی علامہ نوراللہ شوستری کے بچپن کے حالات-قاضی نوراللہ شوستری نے ابتداٸی تعلیم اپنے والد اور دوسرے  فاضل علما سے شوستر میں حاصل کی انہوں نے کتب اربعہ کے علاوہ فقہ اصول اور کلام کی کتابیں پڑھیں۔ 979 ھجری میں آپ مشہد گٸے اور وہاں علامہ محقق عبدالواحد تستری کے دروس میں شرکت کی  ھجری میں مذھب  فقہ  جعفریہ کی اشاعت کے لیے ہندوستان تشریف لاٸے ۔وہ محدث ، فقیہ ، کلام اور مناظرہ کے ماہر ، ادیب ، شاعر اور زاہد تھے۔ ان کی جلالت اور شرافت کے باعث عظیم مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے قاضی نوراللہ شوستری کو قضاوت کے عہدہ کی پیشکشفقہ، اصول، کلام اور ریاضی جیسے علوم کی بنیادی اور ابتدائی تعلیم حاصل کا 

جمعہ، 17 نومبر، 2023

غریب الوطن افغان مہاجرین


رخصت کی  گھڑی آ پہنچی ہے جس کا تصوّ ر بھی نہیں کیا تھا -یہیں پاکستان میں شادی ہوئ یہیں کنبہ بنا  -بچّے تو افغانی بولی بھی نہیں جانتے  ہیں  -ماں  روانگی کا وقت ہو نے والا ہے   مریم  بی بی کے بیٹے  روشن خان  نے آکر  کہا کہ وہ سب تیار ہوجائیں سفر کچھ دیر میں شروع ہوجائے گا۔ مریم کے خاندان کو رخصت کرنے کے لیے آنے والے ہر ایک سے گلے ملتے اور ڈھیروں دعائیں دیتے یہ بہت جذباتی مناظر تھے-جو یہاں رہ گئے تھے ان کے پاس کارڈ تھے۔  مریم  بی بی  نے اپنے پاس آنے والی اینکرسے آخری بار مصافحہ کیا تو ا ینکر نے مریم بی بی  کا  ہاتھ تھام لیا۔ وہ جو بہت دیر سے اپنی بیٹیوں، بہو کی ہمت بڑھا رہی تھی اب  اینکر کا  ہاتھ تھامے بنا کچھ کہے رو رہی تھیں۔اینکر نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے بس اتنا کہا کاش میں آپ کے لیے کچھ کرسکتی۔مریم بی بی  نے اینکر کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور اپنی بھیگی آنکھوں سے لگایا اور آہستہ سے بولی ہمارے لئے دعا کرنا - یہ دعا کر نا اب افغانستان کی مٹّی ہمیں قبول کر لے وہ ہمیں راس آجائے   اور میرے بچوں کو وہ سب خوشیاں ملیں جو انہوں نے اس وطن میں دیکھی ہیں ۔

 مریم  بی بی اور دیگر خواتین اپنے گھر کے مردوں کے ہمراہ بس کی سیٹیوں پر بیٹھ چکی تھیں۔ فاطمہ اور ان کی بہن کی اپنے بھائی سے کچھ سامان ساتھ رکھنے کی بحث جاری تھی یہ سامان وہ اپنے ساتھ سیٹ پر رکھنا چاہتی تھیں جب کہ بھائی اس کے لیے رضامند نہ تھا۔  وہ ایک لکڑی کا ڈبہ تھا جس میں کچھ چوڑیاں اور وہ تحائف تھے جو فاطمہ اور اس کی بہن کو ان کی سہیلیوں نے الوداعی ملاقات پر دیے تھے۔بھائ کہہ رہا تھا کہ وہاں طالبان نے پابندی لگائ ہوئ کو ئ لڑکی بیوٹی سیلون نہیں جا سکتی پھر یہ سامان کس کا م  کا ہو گا ا دھر پاکستان کے نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی نے جمعرات کو تصدیق کی تھی کہ حکومت نے  قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔امکان ہے کہ اس اقدام سے تقریباً 10 لاکھ افغان مہاجرین متاثر ہوں گے، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے دو سال قبل ہمسایہ ملک افغانستان میں سخت گیر طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں پناہ لی تھی۔حکومتِ پاکستان کے اس منصوبےسے ان افغانوں پر اثر پڑ سکتا جنہیں بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت ہے۔ 

اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کے دوران خبردار کیا کہ اگر انہیں زبردستی واپس بھیجا گیا تو ان کی زندگیاں یا آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔اسلام آباد میں اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے وی او اے کو بتایا کہ ان کا ادارہ پاکستانی ہم منصبوں سے نئی پالیسی کے بارے میں وضاحت مانگ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں سے مہاجرین کی فراخدلانہ میزبانی کرنے والے ملک کے طور پر پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے، لیکن اس فراخدلی کو اس کی منزل تک پہنچانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے نگراں وزیرِ خارجہ نے بتایاتھا کہ کابینہ کی طرف سے منظور کردہ نئی پالیسی کا تعلق صرف افغانوں ہی سے نہیں بلکہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تمام لوگوں پر بھی اس کا اطلاق ہو گا جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ سرکاری طور پر رجسٹرڈ افغان مہاجرین اور قانونی طور پر رہنے والوں کو پاکستان چھوڑنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔

قیصر خان آفریدی کہتے ہیں کسی بھی پناہ گزین کی واپسی رضاکارانہ ہونی چاہیے، بغیر کسی دباؤ کے تاکہ ان لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے جو تحفظ کے خواہاں ہیں۔آفریدی نے مزید کہا کہ پناہ گزینوں کا ادارہ ( یو این ایچ سی آر) اپنی سرزمین پر بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت والے لوگوں کو منظم کرنے اور رجسٹر کرنے کے لیے ایک نظام تیار کرنے میں پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے تک، پاکستان نے سرکاری طور پر تقریباً ستائیس لاکھ افغانوں کی میزبانی کی۔ اس میں 13 لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین اور آٹھ لاکھ 80 ہزار وہ لوگ تھے جنہیں سرکاری طور پر معاشی تارکینِ وطن کی حیثیت دی گئی تھی جب کہ باقی مانندہ کو غیر قانونی تارکینِ وطن قرار دیا گیا تھا۔کابل پر طالبان کے قبضے سے مہاجرین کی تازہ آمد کی لہر شروع ہوئی، جس میں سات لاکھ سے زیادہ افغان پاکستان آئے۔ایک اندازے کے مطابق ان میں سے دو لاکھ امریکی زیرِقیادت بین الاقوامی اتحادی افواج کے لیے اپنی خدمات کے واسطےدوبارہ آبادکاری کے خصوصی پروگراموں کے تحت امریکہ اور یورپی ممالک روانہ ہو چکے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق، باقی ماندہ افغانوں میں سے اکثر یا تو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں یا ان کے ویزوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔پشاور میں افغان خواتین سلائی کی تربیت حاصل کر رہی ہیں افغان خواتین کو ہنر مند بنانے کی کوشش، پشاور میں اکیڈمی قائم طالبان نے دوبارہ اقتدار می آنے کے بعد سے افغانستان میں اسلامی قانون کی اپنی سخت تشریح نافذ کر دی ہے اور خواتین پر بہت زیادہ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول یا یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ زیادہ تر خواتین سرکاری ملازمین کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور خواتین امدادی کارکنوں کو انسانی ہمدردی کے گروپوں میں شامل ہونے سے منع کیا گیا ہے۔خواتین عوامی مقامات، جیسے پارکس، جمز اور باتھ ہاوسز وغیرہ نہیں جا سکتیں ہیں اور سڑک پر طویل سفر کے لیے مرد سرپرست کی موجودگی کی ضرورت ہوتی ہے۔بے گھر خاندان کے افراد کے مطابق، خواتین پر پابندیاں پاکستان میں پناہ لینے والے افغانوں کے لیے خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے اپنے وطن واپس جانے میں ایک بنیادی رکاوٹ ہیں۔-


 

منگل، 14 نومبر، 2023

میں سہاگن بنی مگر

اللہ میاں کے دستوربھی کتنے نرالے ہیںہمارےگھر میں صرف پہلوٹھی کے بھیّا کو دینے کے بعد ہم چار بہنوں  فرحت فرحین آپی جن کو میں اور ہم سب بہنیں بڑی آپا کہتے ہیںپھر منجھلی آپا ندرت  ماہین ،ان کے بعد فریال رامین جو ہمارے لئے فریال بجّو ہیں اور ان کے بعد نرگس زرمین  آپی ہیں ،ان چاروں کو او پر تلے  امّاں کے آنگن میں بھیج دیا  ،پھر چار برس تک ان کے آنگن سوکھے دھانوں کوئ پانی ناپڑا کہ میں نصرت نگین کا نام لے کر ان کے آنگن میں اتر آئ،مجھے نہیں معلوم کہ امّاں لڑ  کیوں سے بیزاری کے سبب اتنی تلخ زبان  رکھتی تھیں  یا ان کا مزاج ہی ایسا تھا ،لیکن ابّا بہت مشفق و مہربان تھے ،امّاں عام بات بھی کرتی تھیں تو ہم بہنوں  کو ان کا حکم ہی لگتا تھا ،ابّا  کبھی کبھی کہتے ارے نیک بخت ان کے ساتھ اتنی سختی نا برتو ,,یہ توہما رے آنگن کی چڑیاں ہیں ،دیکھ لینا ایک دن ہمارا آنگن ان کے بنا سائیں سائیں کرتا ہو گا اور امّاں ابّا سے کہتی تھیں تم بلاوجہ ان کے دماغ مت خراب کیا کرو ،آخر ان کو دوسرا گھر اپنا پتّہ  مار کر سنبھانا ہے ابھی سے عادت نہیں ڈالی جائے تو لڑکی نخرے دار اٹھتی ہمیری  سمجھ میں امّاں کی باتیں ہرگز نہیں آتی تھیں ناجانے ابّا سمجھتے تھے کہ نہیں پھر وہ امّاں سے کچھ بولتے نہیں تھے اور امّا ں کے دل شکن نعروں کی گونج میں جب میں کچھ کچھ بڑی ہوئ تو گھر سے بڑی آپا کی رخصت کی گھڑی آ گئ تھی بڑی آپا  ہما رے تایا ابّا کے گھر بچپن کی مانگ تھیں مجھے یاد ہے وداعی والے دن بڑی آپا جب بیوٹی پالر جانے کے لئے گھر سے لگیں تو اچانک ہی گھر کے دروازے سے لپٹ  کر دھا ڑیں مار کر رونے لگیں ،ایسے میں امّا ں بوتل کے جن کی طرح گھر کے کسی کونے سے  برآمد ہو ئیں اور بڑی آپا سےکہنے لگیں بند کرو یہ بین اور جاکر گاڑی میں بیٹھو  اور ہم بہنیں حیران ہو کر امّاں کو دیکھنے لگے

میں نے سو چا کم از کم آ ج کے دن تو امّاں کو بڑی آپا کو اس طرح نہیں ڈانٹنا چاہئے ،،مگر امّا ں تو امّاں تھین جو اپنے ماں ہونے کےفلسفے کے بنیادی اصول اچھّی طرح جانتی تھیں بڑی آپا  گھر کی بڑی بیٹی ہونے کے نا طے بہت زمّہ دار تھیں لیکن مزاج کی  بے حد شرمیلی  اور کم گو بھی تھیں وداعی والے د  دلہن بننے کے بعد وہ میک اپ کے خراب ہونے کی پرواہ کئے بغیر چپکے چپکے گھونگھٹ کی اوٹ میں روئے جا رہی تھیں اور رخصتی کے وقت ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تھے اور دھاڑیں مار کر روئیں تو ہم سب بہنیں بھی بے حد رو ئے تھے ،لیکن حیرت کی بات تھی کہ جب آ پا اگلے دن اپنی سسرال سے ہمارے گھر طلال بھائ کے ساتھ  آئیں تو بہت خوش نظر آرہی تھیں میں بڑی آپا کو حیران ہو کر دیکھ رہی تھی اور پوچھنا بھی چاہ رہی تھی کہ اب وہ رو کیوں نہیں رہی ہیں کہ اچانک میری نظر ا نکی  مہندی لگے ہاتھوں کی کلایوّں پر گئ جہاں امّاں کی پہنائ ہوئ   سہاگ کی ہری اور لال کانچ کی  کھنکتی ہوئ چوڑیوں کے ہمراہ سو نے کے خوبصورت جڑاؤ کنگن  نظر آرہے تھے میں بڑی  آپا سےاو ر سب پوچھنا  بھول گئ ،میں نے ان کے مہندی رچے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا ،بڑی آپا یہ سونے کے کنگن کل تو آپ کے  ہاتھ میں نہیں تھے ،میری بات پر بڑی آپا کا چہرہ شرم سے گلابی ہو گیا اور انہوں نے حیا بار نظریں جھکا کر کہا یہ تمھارے طلال بھائ نے منہ دکھائ میں پہنائے ہیں ہماری تائ امّی کی پوری فیمیلی بہت نیک تھی اور بڑی آپا  بڑی جلدی  اپنی سسرال میں رچ بس گئیں

اب میں نے دیکھا منجھلی آپا ہر وقت امّاں کے نشانے پر رہتی تھیں ،اور بس امّاں کی زبان پر ایک جملہ ہوتا پرائے گھر جانا ہے اپنی  عادتیں سدھار لو ،منجھلی آپا بھی اپنی جگہ اچھّی تھیں لیکن ان کی زبان پر امّاں کی بات کا ہر جواب موجود ہوتا تھا جس سے امّا ں بہت ناراض ہوتی تھیں اور منجھلی آپا کو صبر کی تلقین کا سبق بھی پڑھاتی رہتی تھیں اور بالآخر بڑی آپا کے دو برس بعد منجھلی آ پا بھی گھر سے رخصت ہو کر سدھار گئیں ،مہندی مایوں سے لے کر رخصت کی گھڑی تک منجھلی آپاکی آنکھو ں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی  مین نے نہیں دیکھا ،ناجا نے ان کو کیا ہو گیا تھا ،ان کے دلہناپے کو سکوت ساتھا اور وہ اسی طرح ساکت ہی رخصت ہو گئیں لیکن میرے لئے اچنبھے کی بات تھی کہ اگلے دن منجھلی آپا  کوسسرال جاکر بھیّاانہیں  لے آئے تھے انکے ساتھ ان کے دولہا رفاقت بھائ بھی نہیں آئے تھے ان کے ہاتھوں میں جڑاؤ کنگن بھی نہیں تھے اور وہ بڑی آپا کی طرح خوش بھی نہیں تھیں بلکہ  آنسو انکی آنکھوں میں چھلکے چھلکے آرہے چھلکے چھلکے آرہے تھے امّا ں بیٹی  کے پر ملال چہرے پر نظر ڈال کر کچھ چونکیں تو  ضرور تھیں لیکن انہوں نے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا نا ہی کچھ پوچھ کر ان کو کچھ بول نے کا حوصلہ دیاتھااور پھر شادی کے صرف چند روز بعد منجھلی آپا امّاں کے سامنے بیٹھی رو رو کر کہ رہی تھیں امّا ں آپ نے مجھ کو یہ کیسی سسرال بھیج دیا جس کو گھر نہیں جہنّم کہنا زیادہ بہتر ہے- اور شوہر ایسا ہے جو اپنی امّاں کے پلّو سے بندھا پھرتا ہے جو بات کرو امّاں سے  پوچھ لو ،جو کام کہو امّاں راضی نہیں ہو ں گی ,,جب اسے اپنی امّاں کے پہلو سے لگ کر بیٹھنا اتنا ہی پسند تھا تو پھر شادی کی کیا ضرورت تھی ،

 منجھلی آپا  امّاں کو رو رو کر بتاتی رہیں کہ ان کی ساس ان سے کس طرح گھر کے سارے کام کرواتی ہیں اور کھانا پکا کر سب سے آخر میں کھانا کھانے دستر خوان پر بیٹھتی ہیں تب ان کی ساس  منجھلی آپا کے کھانا کھائے بغیر ہی دستر خوان سمیٹ دیتی ہیں اور بڑی دو بہوؤں کے مقابلے میں ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے ،منجھلی آپا نے یہ بھی بتایا کہ ان کو طبیعت کی خرابی میں بھی ڈاکٹر کے پاس جانے کی اجازت نہیں ہے ،اور رفاقت کا کہتے ہیں کہ ہماری ماں کے حکم کے مطابق ہی گھر چل رہا ہے اب اگر تم کو کوئ اعتراض ہے تو تم میکے جا سکتی ہو -  اب امّاں نے دھیرے دھیرے بولنا شروع کیا دیکھ منجھلی ہر لڑکی انہی حالات سے گزرتی ہے تب جا کر گھر بنتا ہے -امّا ں ہمارا کمرہ اوپر ہے رفاقت دفتر سے آ کر سیدھے اپنی امّاں کے کمرے میں جاتےہیں -ٹھیک ہے امّاں مجھے کوئ حق نہیں کہ میں ان کو منع کروں لیکن جب امّاں کے کمرے سے باہر نکلتے ہیں تو من بھر کا سوجا ہوا چہرہ لے کر نکلتے ہیں اور پھر اوپر جا کرمجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے ہیں میں سارا دن نیچے رہتی ہوں ساس کا حکم ہے کہ دن میں نیچے رہوں اور سارا دن نیچے رہ کر سارے گھر کی خدمت کر کے یہ صلہ ملتا ہے کہ شوہر سیدھے منہ بات نہیں کرتا ہے -منجھلی صبر بھی تجھی کو کرنا ہے خدمت  بھی تجھی کو کرنا ہے اور یہ کہہ کر امّاں منجھلی آپا کے پاس سے بیٹھک میں چلی گئیں 

جاری ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر