پاکستان میں سردیوں کا موسم شروع ہونے پرایک مدھم 'مدھم گنگناتا خوشگوار موسم جو شروع ہوتا تھا اب وہ خوشگوار تو کجا ایک خوف کی علامت بن کر آتا ہے-لاہور جیسے بحر زخّار شہر میں چہار جانب اسموگ اتر آتی ہے اور اتنی شدید کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا ہے-اللہ پاک نے جو بھی موسم پیدا فرمائے ہیں سب میں اللہ جل شانہ کی بے شمار حکمتیں موجود ہیں ۔موسم سرما بھی ،دیگر موسموں کی طرح اللہ پاک کی ایک نعمت ہے۔ یہ موسم عبادت کا موسم کہلاتا ہے کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ ے نے ارشاد فرمایا :سردی کا موسم مومن کے لیے موسم بہار ہے اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں تو مومن ان میں روزہ رکھتے ہیں اور راتیں لمبی ہوتی ہیں تو راتوں کو جاگ کر عبادت کرتے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب سردی کا موسم آتا تو فرماتے:سردی کو خوش آمدید ،اس میں اللہ پاک کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں شب بیداری کرنے والے کےلیے اس کی راتیں لمبی اور روزہ دار کے لیے اسکا دن چھوٹا ہوتا ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت ِ علی علیہ السّلام نے فرمایا:’’سردی کا موسم تہجد گزاروں کے لئے رب کا انعام ہے ۔مگر پچھلے چند برسوں سے پاکستان کے کچھ شہروں میں سموگ نے اس خوش گوار تبدیلی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ چند سالوں سے اکتوبر کے آخر دنوں سے سموگ کا آغاز ہوتا ہے جو نومبر کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔اگر نومبر کے مہینے میں بارش ہو جائے تو سموگ جلد ختم ہو جاتی ہے، لیکن بارش نہ ہونے کی صورت میں اس کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارش کا نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے اور بارشوں کے دورانیے میں شدید کمی واقع ہوئی ہے، جس سے سموگ کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔جنوب ایشائی ممالک کو سموگ نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ان ممالک کے کچھ شہروں کو سموگ ہر سال بری طرح متاثر کرتی ہے۔ لاہور، بیجنگ، اور دہلی کا شمار ان شہروں میں کیا جاتا ہے جہاں ہر سال لاکھوں لوگ سموگ کی وجہ سے طبی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔
سموگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہر ملک اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی ادارہ صحت بھی کوشش کر رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں ستر لاکھ لوگ موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سموگ ماحولیاتی آلودگی کا نام ہے، جس سےنجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وجوہات کا تعین کیا جائے۔ وجوہات کے تعین کے بعد اس مسئلے سے چھٹکارا پانا آسان ہو جائے گا۔اور یوں اس فضائ بیماری کا علاج ممکن ہو سکے گا-محکمہ زراعت کی جانب سے شائع کیے گئے تشہیری مواد میں بھی کسانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ گاڑیوں کی ریل پیل، کارخانوں سے پیدا شدہ دھوئیں، اینٹوں کے بھٹوں سے اٹھنے والے گرد و غبار اور فصلوں کی باقیات کو جلانے کی وجہ سے پیدا ہونے والا دھواں سموگ کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ لیکن اسی تشہیری مواد میں اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیم فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کی 2018 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا بھی بار بار ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں زراعت کے شعبے کا سموگ کے بننے میں حصہ محض 20 فی صد ہے جبکہ اس میں صنعتی شعبے کا حصہ 25 فی صد اور ٹرانسپورٹ کا حصہ 45 فی صد ہے۔یہ تشہیری مہم اپنی جگہ ٹھیک لیکن سب سے بڑی اور اہم وجہ تو یہ ہے کہ 9 نومبر تک وسطی پنجاب کے مختلف ضلعوں سے سرکاری طور پر 3297 ایسے واقعات کی نشاندہی ہو چکی تھی جن میں کسانوں نے چاول کی باقیات سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے کھیتوں میں آگ لگائی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ واقعات کی سرے سے نشاندہی ہی نہیں ہوئی۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ زراعت کے
پروفیسر ڈاکٹر راشد احمد کا کہنا ہے کہ ایف اے او کی جس رپورٹ کو بنیاد بنا کر
محکمہِ زراعت سموگ کا الزام دوسرے شعبہ ہائ زندگی پر منتقل کررہا ہے اس کا طریقہِ
کار ہی غیر سائنسی ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'اس طرح سے آلودگی کے بننے میں مختلف انسانی
سرگرمیوں کا تناسب نکالنا اور پھر اس تناسب کو بنیاد بنا کر آلودگی کی روک تھام کے
لیے پالیسیاں بنانا کوئی سائنسی نقطہِ نظر نہیں' فصلوں کی باقیات کو جلانا-پاکستان
میں فصلیں اگانے کے لیے آج بھی قدیم طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ قدیم طریقے
استعمال کرنے کی وجہ سے نہ صرف فصل کی پیداوار متاثر ہوتی ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی
میں اضافہ ہوتا ہے۔موسمِ گرما میں پنجاب کے زیادہ تر اضلاع میں چاول کی فصل کی
کاشت کی جاتی ہے جو کہ اکتوبر کے مہینے میں پک جاتی ہے۔ چاولوں کی فصل کی کٹائی
اکتوبر میں شروع ہوتی ہے اور نومبر تک جاری رہتی ہے۔ اس فصل کی کٹائی کے بعد کھیتوں
میں بہت زیادہ باقیات بچ جاتی ہیں۔جب تک ان باقیات کو تلف نہ کر لیا جائے، اگلی
فصل کاشت نہیں کی جا سکتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس کچرا کو ختم کرنے کے لیے جدید
مشینری استعمال کی جاتی ہے جو کہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث نہیں بنتی۔ اس کے برعکس
وطن عزیز میں اس کچرا کو ختم کرنے کے لیے آگ لگائی جاتی ہے۔بڑے پیمانے پران باقیات
کو جلانے کی وجہ سے دھواں بہت زیادہ فضا میں پھیل جاتا ہے۔ جس سے سموگ کا ماحولیاتی
مسئلہ وطن عزیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
شہر میں فضائ آلود گی کی بہت بڑی وجہ دھواں خارج کرنے والی گاڑیاں
-پاکستان میں ایسی گاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو بہت زیادہ مقدار میں دھواں
خارج کرتی ہیں۔ دھوئیں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا
ہے۔بارشوں میں کمی اور دھواں خارج کرتی گاڑیوں کی وجہ سے سموگ ہر سال شدت اختیار
کرتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے احکامات جاری کیے ہیں کہ ان گاڑیوں پر جلد از جلد
پابندی لگائی جائے تا کہ فضا میں دھواں نہ پھیلے اور سموگ کی شدت اختیار نہ کرے۔ان
وجوہات کی وجہ سے سموگ ہر سال شدت اختیار کر جاتی ہے- جنگلات کا کٹاؤ۔ پاکستان کا
شمار بھی ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں جنگلات کو تیزی سے کاٹا جا رہا ہے۔
ہمارے ہاں پہلے ہی جنگلات بہت تھوڑے رقبے پر اگائے گئے تھے، مگر اب درختوں کی کٹائی
کی وجہ سے ماحول پر بہت برا اثر ظاہر ہو رہا ہے۔جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے بارشیں
کم ہو رہی ہیں اور گرمی کی شدت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اکتوبر اور نومبر میں
بارشیں کم یا نہ ہونے کی وجہ سے سموگ کا مسئلہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔ اس لیے اب بین
الاقوامی تنظیمیں آواز بلند کر رہی ہیں کہ جنگلات کی حفاظت کے لیے حکومتوں کو
اقدامات اٹھانے چاہیں تا کہ سموگ جیسے ماحولیاتی مسائل سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔اس میں
عام آدمی بھی اپنا کردار ادا کرسکتا ہے کہ زیادہ زیادہ درخت لگائے ۔
ان کے مطابق اس سوال کو پیشِ نطر رکھنا اہم ہے کہ ٹرانسپورٹ، صنعتوں اور اینٹوں کے بھٹوں سے سارا سال دھوئیں کا اخراج ہوتا رہتا ہے لیکن سموگ کی تہہ آخر ایک خاص موسم میں ہی کیوں بنتی ہے؟ 'اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے بننے کے لیے ماحول میں بہت زیادہ گرد و غبار موجود ہونا لازمی ہے'۔گرد و غبار ویسے تو فضا میں سارا سال موجود رہتا ہے لیکن چاول کی باقیات کو جلائے جانے سے اس میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ 'آلودہ دھواں گرم ہونے کی وجہ سے ہوا سے ہلکا ہوتا ہے اس لئے وہ عام حالات میں بالائی فضا میں چلا جاتا ہے لیکن جب ہوا میں موجود دھول اور گردوغبار کی تہہ موٹی ہوتی ہے تو یہ دھواں زمین کی سطح سے زیادہ اوپر نہیں جا پاتا اور سموگ کی شکل میں ہمارے ارد گرد کی فضا میں ہی ٹھہر جاتا ہے'۔ 'ان میں فصلوں کا جلایا جانا یقینی طور پر ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے'۔اس بات کو واضح کرنے کے لئے ایک تحقیق سامنے آئ ہے نئ تحقیق کے مطابق ہے چاول کی فصل کے ایک ہزار کلو گرام باقیات جلانے سے تین کلو کثیف دھواں، 60 کلو کاربن مانو آکسائیڈ، 1460 کلو کاربن ڈائی آکسائیڈ، 199 کلو راکھ اور دو کلو سلفر ڈائی آکسائیڈ جیسی زہریلی چیزیں پیدا ہوتی ہے جو خاص طور پر آنکھوں اور جلد کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔اس حساب کتاب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگر یہ فرض کیا جائے کہ ایک ایکڑ چاول کی فصل سے پانچ سو کلو گرام باقیات پیدا ہوتی ہیں تو اس کا مطلب ہے پنجاب میں چاول کے مجموعی طور پر زیرِ کاشت رقبے – چھیالیس لاکھ ایکڑ – سے دو ارب 30 کروڑ کلو گرام باقیات پیدا ہوتی ہیں جن کو جلانے سے پیدا ہونے والی راکھ ہی چار لاکھ 57 ہزار سات سو کلو گرام ہو گی جبکہ اس سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 33 لاکھ 58 ہزار کلو گرام ہو گی۔آلودگی کے ذمہ دار لوگوں کو کون پکڑے گا؟قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے (پی ڈی ایم اے) کی طرف سے نو نومبر کو جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق حکومتی اہل کاروں نے فضا میں زہریلی گیسیں اور آلودہ دھواں خارج کرنے والی فیکٹریوں کو صرف 58000 روپے جرمانہ کیا تھا۔ اسی طرح صوبے کے طول و عرض میں موجود بیسیوں ہزار چھوٹی اور بڑی فیکٹریوں میں سے صرف 487 کو آلودگی پھیلانے کی وجہ سے بند کیا گیا تھا۔ حالانکہ ایف اے او کی رپورٹ کے مطابق ان کا دھواں سموگ کے بننے میں 25 فی صد حصہ ڈالتا ہے -سموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی کو کہا جاتا ہے جو انسانی آنکھ کی حد نظر کو متاثر کرے ۔ سموگ کو زمینی اوزون بھی کہا جاتا ہے ۔یہ سرمئی دھند کی تہہ کی مانند ہوا میں جم سا جاتا ہے۔ سموگ میں موجود دھوئیں اور دھند کے اس مرکب میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین جیسے مختلف زہریلے کیمیائی مادے بھی شامل ہوتے ہیں اور پھر فضا میں موجود ہوائی آلودگی اور بخارات کا سورج کی روشنی میں دھند کے ساتھ ملنا سموگ کی وجہ بنتا ہے ۔ ۔