حضور صلی اللہ علیہِ وسلم نے فرمایاہے :۔
’’تمہارے تین باپ ہیں‘‘
ایک وہ جو تمہیں اس دنیا میں لا یا، دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی، اور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم دیا۔ اور فرمایا کہ ان سب میں سے افضل تمہارے لیے وہ ہے جس نے تم کو علم دیا۔ میرے خیال میں استاد کا مقام ومرتبہ اور استاد کی عظمت اس سے زیادہ کوئی بیان نہیں کرسکتا۔استاد کسی بھی قوم یا معاشرے کا معمار ہوتا ہے…وہ قوم کو تہذیب وتمدن،اخلاقیات اور معاشرتی اتار چڑھاؤ سے واقف کرواتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ استاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی قوم کامستقبل اس قوم کے استاد کے ہاتھ میں ہو تا ہے، استاد ہی قوم کو تربیت دیتا ہے، وہی اسے بتاتا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔ گویا کسی بھی قو م کو کوئی حکومت تربیت نہیںدیتی بلکہ ایک استاد تربیت دیتا ہے۔ خدا لگتی بات کی جا ئے تو قوم کی تباہی یاقوم کی سرفرازی دونوں کا باعث استا د ہی ہوتا ہے۔
اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا ۔اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب ﷺ نے ’’انمابعثت معلما‘‘(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے ) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیا تک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے ۔ انسان کی زندگی میں استاد کا مقام ومرتبہ اہم ہوتا ہے۔ قوموں کی ترقی و بقا میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے۔ استاد ہی نو نہالانِ قوم کی تعلیم و تربیت کا ضامن ہوتا ہے۔ انسان چاہے کوئی بھی ہو کاروباری ہو درزی ہو سیاستداں ہو فنکار ہو یا وکیل یا پھر کھیل کود سے دلچسپی رکھنے والاہو یا مذہبی رجحان رکھنے والاہی کیوں نہ ہو ہر کسی کو علم کی ضرورت پڑتی ہے ۔ علم حاصل کرنے کے لئے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ والدین کے بعد اگر دنیا میں انسان کسی شخصیت کی دل و جان سے عزت و احترام کرتا ہے تو وہ استاد ہے۔ ہاں استاد! استاد علم کا گہوارہ ہوتا ہے۔ قوموں کی ترقی میں اساتذہ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔ استاد کو نئی نسل کی ترقی دینے، معاشرے کی فلاح و بہبود اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ استاد اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان ہر وقت اپنے پیڑ پودوں کی کانٹ چھانٹ نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول فاروق آباد میں ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر کا طلباء کے سامنے سئنر سائنس ٹیچر طاہر محمود آسی کیساتھ ہتک آمیز رویہ ٹیچر کے جوتے اتروادئیے
سوشل میڈیا ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کوریج پر وزیر اعلی پنجانب کا ایکشن ڈی سی شیخوپورہ سے رپورٹ طلب کرلی جس پر سئنر ٹیچر کی داد رسی کی بجائے انتظامیہ اور محکمہ تعلیم افسران ڈی ایم او سمیرا عنبرین کو بچانے کیلئے ٹیچروں دبائو ڈالنے لگے-سی ای او ایجوکیشن جب انکوائری کے سلسلہ میں گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول فاروق آباد پہنچے تو وہاں موجود ٹیچروں نے جب ڈی ایم او کے رویہ اور سئنر ٹیچر کیساتھ ہتک آمیز رویہ پر احتجاج کیا تو سی ای او کمرہ سے باہر نکل گئےسیئنر ٹیچر نے ننگے پائوں قوم کے معماروں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا اعلان کردیا اور اس وقت تک ننگے پائوں رہیں گے جب تک ڈی ایم او ان کا خود جوتا واپس نہیں کریں گی -سیئنر سائنس ٹیچر انتظامیہ اور محکمہ افسران کے رویہ سے دلبرداشتہ ہوکر بچوں کو پڑھاتے ہوئے دھاڑے مار مار کر رو پڑےکیا استاد کی تزلیل کا یہ عمل ختم ہوگا ؟ جبکہ ترکی کے ایک جہاز کے پائلٹ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس جہاز میں اس کےپرائمری سکول کے ایک استاد سفر کررہے ہیں۔ معلوم ہونے پر جہاز کے پائلٹ اعلان کرتا ہے کہ ہمارے جہاز میں میرے محترم استاد سفر کررہے ہیں۔ اعلان سنتے ہی سارے مسافر احتراما کھڑے ہوجاتے ہیں اور جہاز کا عملہ پھول لاکے استاد کو پیش کرتا ہےاور پائلٹ خود آکر استاد کے گلے لگتا ہے۔
ہمارے بہت مشہور استاد اور رائٹر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ مجھے جاپان کی ترقی کا اندازہ اس دن ہوا جب جاپان میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے مجھے ٹریفک چلان ہوا اور میں مصروفیت کی وجہ سے عدالت میں مقررہ وقت پہ پیش نہ ہو سکا۔ عدالت کے لیٹ ہونے کی وجہ پوچھنے پر جب اس نے بتایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور مصروفیت کے بنیاد پہ عدالت میں پیش نہ ہوسکے۔ استاد کا نام سن کے جج نے کہا ”A teacher is in court“ اور جج سمیت تمام لوگ احتراما کھڑے ہوگئے اور مجھے عزت و توقیر سے رخصت کیا۔آج اگر ہم تعلیمی، تہذیبی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی پستی کے شکار ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہیں کہ ہمارے یہاں پہ کرپٹ اور نالائق دنیادار شخصیات کو تو عزت دی جاتی ہے لیکن یہاں پہ اساتذہ کی تذلیل کی جاتی ہے اور اساتذہ کو چھری مار کے قتل کیا جاتا ہے۔ یقینا جب تک ہمارے معاشرے میں اساتذہ کو سربلند نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہمارا معاشرہ زوال پذیر رہے گا
امام شافعی بڑے اعلیٰ درجہ کے فقیہ ومحدث گزرے ہیں جبکہ آپ ایک اہلسنت طبقہ کے امام بھی کہے جاتے ہیں، یہ حصول ِ علم کے لیے مدینہ پہنچے،آ پ غریب تھے، امام مالک نے اپنے اس ہونہار شاگرد کو خود اپنا مہمان بنایا او رجب تک مدینہ میں رہے، ان کی کفالت کرتے رہے، پھر جب امام شافعی نے مزید کسب ِ علم کے لیے کوفہ کا سفر کرنا چاہا تو سواری کا نظم بھی کیا اور اخراجات ِ سفر کا بھی اور شہر سے باہر آ کر نہایت محبت سے آپ کو رخصت کیا، امام شافعی کوفہ آئے اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد رشید امام محمد کی درس گاہ میں بحیثیت طالب علم شریک ہو گئے، یہاں بھی امام محمد نے ذاتی طور پر امام شافعی کی کفالت فرمائی، بلکہ بھرپور تعاون فرمایا، امام شافعی اس حال میں کوفہ پہنچے کہ نہایت ہی معمولی کپڑا آپ کے جسم پر تھا،امام محمد نے اسی وقت ایک قیمتی جوڑے کا انتظام فرمایا،جو ایک ہزار درہم قیمت کا تھا، پھرجب امام شافعی کو رُخصت کیا تو اپنی پوری نقدی جمع کرکے تین ہزار درہم حوالہ کیے- ہمارے معاشرے میں اس قدر قابل عزّت طبقے کو حکومت بھی ان آسانیوں سے محروم رکھتی جو وہ اپنے دیگر سرکاری ملازمین کو دیتی ہے اور جب یہ اپنا جائز حق مانگنے سڑکوں پر آتے ہیں تو پولیس ان پر لاٹھی چارج کر ان کو لہو لہان بھی کرتی ہے اس پر سے ان پر مقدمات بھی بنائے جاتے ہیں -اللہ ہمارے سماج پر رحم فرمائے
میں محترم سائنس ٹیچر طاہر محمود آسی کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کرنے والوں کی بھرپور مزمت کرتی ہوں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں