پیر، 13 نومبر، 2023

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا


آج میں اپنی قلم کہانی  میں اپنی زندگی کے وہ اوّلین دن بتانے چلی ہوں جو بہت پر مشقّت تو تھے لیکن بچپن کی انوکھی آرزؤں سے معمور تھے ،پہلے یہ بتا دوں کہ میں اپنے بچپن میں ایک اچھّی طالبہ ہرگز نہیں تھی ،مجھے زندگی نے بعد مین یہ سبق پڑھایا کہ علم کے بغیر دنیا اندھیری ہے ،میرا رزلٹ گھر میں ہمیشہ تھرڈ نمبر پر ہوتا تھا جبکہ دوسرے بہن بھائ اوّل اور دوئم ہوتے تھے ،لیکن پھر مجھے کچھ رعائت اس لئے مل جاتی تھی کہ میں گھر کا کام سب سے زیادہ کرتی تھی اور اپنے چھوٹے بہن بھائ کو بھی سنبھالتی تھی-بہر حال میرا بچپن کا ایک انتہائ شوق تھا کہ میں کسی طرح ڈھولک بجانا سیکھ جاؤں اس زمانے میں جب کسی گھر میں شادی ہوتی تھی تو رات کے وقت ڈھو لک کی محفل ضرور سجتی تھی اور میرے پیروں میں پہئے لگ جاتے تھے کہ کس طرح میں اس گھر میں پہنچ جاؤں جہاں ڈھولک بج رہی ہے ،مقصد واحد ہوتا تھا کہ ڈھول بجانے ولی لڑکی کی انگلیاں کس طرح چل رہی ہیں خود دیکھوں اور سیکھوں مگر یہ شوق آ ج بھی ناتمام ہی ہے

ابّا جان تو  دن کے وقت گھر سے قدم نکالنے کے ہی سخت مخالف تھے  چہ جائیکہ رات ،اور امّی جان ابّا جان کے تابع تھیں ، میری عمر یہی کوئ سات یا آٹھ برس کے دور میں تھی ایسے میں ہمارے سامنے والے محلّے کے ایک گھر سے مجھے دن کے وقت ڈھولک بجنے کی آواز آئ اور میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ ابّا جان تو گھر پر نہیں ہیں مجھے اجازت دے دیجئے

بس امّی جان نے اجازت د ی اور میں نے جھٹ پٹ چھوٹے بھائ کوگود میں اٹھایا اور چند منٹ میں کلّو چھولے والے کے گھر پہنچ گئ ،میں بھائ کے بغیر گھر سے قدم نکالنے کی بھی مجاز نہیں تھی کیونکہ وہ ڈھائ برس کی جان میری واپسی تک امّی جان کا جینا حرام کردیتا ،اس وقت کلٰو چھولے والے کا گھر مجھے دور سے ہی پرستان کے شہزادے کا گھر دکھا ئ دینے لگا گھر کے اندر باہر بلاروک ٹوک آنا جانا لگا ہوا تھا مین  بھی اسی آپا دھاپی میں اندر پہنچ کر شادی کے گھر کے مناظر کے مشاہدے میں لگ گئ کچّے آنگن میں ایک طرف کوری ہانڈی میں پانی کے اندر ننھی ننھی مچھلیاں تیر رہی تھیں میں نے ہانڈی میں جھانکا اور پھر گود میں موجود بھائ کو مچھلیاں دکھائیں دوسری طرف بڑے سے تھال میں سل پر پیسی گئ کچّی مہندی بھیگی ہوئ تھی جس کی سوندھی خوشبو گلی کے اندر دور تک مہک رہی تھی اور ساتھ ہی مہکتے چنبیلی کے تیل میں ابٹن کی خوشبو بھی ملی جلی تھی

گھر کے کچّے آنگن کی ملتانی مٹّی سے شائد رات کو ہی لپائ کی گئ تھی آنگن بلکل صاف ستھرا تھااور اب اس پرگھر کی عورتیں ایک رسم  ادا کرنے جا رہی تھیں یعنی لال رنگ کے بھیگے ہوئے گیرو اور صندل کے آمیزے میں سات سہاگنوں کے ہاتھ ڈبو کر ان کو آنگن کی دیوار پر چھاپنا تھا ،بڑی بوڑھی کا سختی سے حکم تھا کہ خبر دار ہاتھ الگ الگ تھال پر نا پڑے اور ٹیڑھا میڑھا بھی نا پڑے یہ سب بد شگونیاں سہاگ بھرے بھاگ کے گھر میں بد شگونیاں مانی جاتی ہیں

،اس رسم کو پہلی دفعہ ہی دیکھنے کا میرا اتّفاق تھا گھر کی سب سے بڑی بوڑھی خاتون کو لا کر چار پائ پر بٹھا یا گیا اور گیرواور صندل کا سرخ آمیزے سے بھرا تھال ان کے آگے رکھ دیا گیا ساتھ ہی گڑ کا اور مرمروں کا بڑا سا تھا ل آیا اور پھرڈھولک کی تھاپ پر عورتوں نے کوئ اپنی دیہاتی زبان میں گیت گانا شروع کیا ساتھ ہی آوازیں بھی دی جانے لگیں اری او کہاں ہے آ ری آ ،آج ہمرے دوارے سہاگن آئ گیو رے ، عورتیں آتی گئیں ڈھول بجتی رہی اور صندل اور گیرو کے چھاپے دیوار کو سجاتے رہے-ارے کلّو چھولے والے کا تعارف تو رہ ہی گیا یہ ایک بمشکل بیس بائیس سال کا انتہائ درجے کا سانولا لیکن دلکش نقوش والا نوجوان تھا ،جو ٹھیک دس بجے دوپہر سے پہلے اپنی ماں کے ہاتھ کے تیّار کئے ہوئے مزیدار چٹ پٹے چھولے کا ٹھیلا لے کر لب سڑک ہمارے گھر سے کچھ فاصلے کھڑا ہوجاتا تھا اور اس کے چھولے اتنے مذیدار ہوتے تھے کہ دوپہر کو یہ گھر واپس چلاجاتا تھا مجھے یا د ہے جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا تو بڑی حیرت سے دیکھتی رہی تھی سرسوں کے تیل میں چپڑا ہوا سرجس کے بال بلکل جٹ سیاہ اس پر سرسوں کے تیل کی اس کے ماتھے تک آئ ہوئ بہار، بڑی بڑی آنکھیں جن میں بہتا کاجل رچا ہوا ،لیکن وہ اپنے اطراف سے بیگانہ اپنے چھولوں کی دنیا میں مگن سر جھکا کے آتا اور سر جھکا کے واپس جا تا-جب اس کی شادی ہوئ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی ماں نانی اور خالائیں اس کی شادی پر اپنے اپنے ارمان پورے کر رہی تھیں-

خیر میری دلچسپی کا ساما ن اس گھر کی رسمیں تھیں میں جن کو دل و جان سے دیکھ بھی رہی تھی اور نگاہوں کے راستے حفظ بھی کر رہی تھی-اب صاف ستھری دیوار پر سات سہاگنو ں کے چودہ ہاتھوں کے لال لال نقش لہلہا رہے تھے میں نے ان نقوش کو بار بار دیکھا ،کوئ خاص بات تو نظر نہیں آئ لیکن اب میں سوچتی ہوں شادی کے گھر میں ان معصوم لوگوں کے کتنے ہزار ارمان تو ہاتھوں کے ان نقوش میں ہی نہاں ہوتے ہوں گے-ہاتھوں کے چھاپے پورے ہو گئے اور تمام مہمانوں میں گڑ اور مرمرے تقسیم کئے گئے ،مین نے بھی وہ گڑ اور مرمرے کھائے اپنے بھائ کو بھی کھلائے سنہرا گڑ اور سفید مرمرے وہ مٹھا س آج بھی منہ میں محسوس ہورہی ہے-اگلا دن شادی کا تھا اور میری خوشی ٹھکانہ کیاتھا میں بتانے سے قاصر ہوں ایسا لگ رہا تھا کلّو چھو لے والا دنیا میں میرا سب سے بڑا عزیز تھا جس کی شادی میں شرکت مجھے بہر طور کرنی تھی ویسے بھی سارے مہاجر اس دور میں جی رہے تھے جب سب کی خوشی غمی اپنی خوشی غمی سمجھی جاتی تھی اب میرا بھائ میری گود میں کچھ بے چینی محسوس کر رہا تھا اس لئے میں گھر واپس آگئ-اب اگلا دن اس حسین شہزادے کی بارات کا تھا جس میں بلکل بن بلائ مہمان بن کر محلّے کے تمام بچّوں کے کی ریل پیل میں جا نے کو بے چین تھی کہ ابّا جان بے وقت گھر آگئے ،ابّا جان کو دیکھ کر میرے اوپربلاشبہ عالم نزع طاری ہوگیا   -کچھ دیر کے لئے گلے کے اندرگھگّھی سی بندھ گئ 

میں نے گھڑونچی پر رکھّی صراحی سے پانی پیا میری چھوٹی بہن شائد میری بے چینی کو بھانپ گئ تھی اس نے مجھ سے پوچھا بجّو کیا ہوا میں نے کہا کچھ نہیں مجھے کلّو چھولے والے کی شادی میں جانا تھا اور ابّا جان گھر آ گئے ہیں چھوٹی بہن نے انداز بے نیازی سے کہا تو چلی جائے ،نہیں اب میں نہیں جا سکتی ہوں کیونکہ ابّا جان نے کہا ہے کہ یہ واہی تواہی پھرے گی تو اس کی ہڈّیا ں توڑ دوں گا،ہاہاہاہاہاہاہا، آج میں سوچتی ہوں کہ میری سرگرمیاں یقیناً میرے پیارے ابّا جان کواتنی گراں محسوس ہوتی ہوں گی جو انہوں نے مجھے یہ دھمکی دی تھی ،جبکہ میرے والد زبان کے معاملے میں انتہائ نفیس انسان تھے-کچھ ہی دیر میں مجھے امّی جان جب اکیلی نظر آئیں میں نے ان سے خوشامد کرتے کہا امّی جان بس آج کا دن اور اج تو کلّو چھولے والے کی بارات ہے مجھے جانے دیجئے ،امّی جان نے مجھ سے کہا تم قلم اور کاپی ساتھ میں لے لو تمھارے ابّا پوچھیں گے تو میں کہ دوں گی کہ صالحہ کے پاس پڑھنے گئ ہے ،میں نے اپنی امّی جان کو لپٹ کر پیار کیا اور کاپی قلم لے کر اپنی دوست کے گھر رکھوایا اور دوست کو بھی ساتھ لے کر بارات کا منظر دیکھنے پہنچ گئ بیچارے دولہا کا چھوٹا سا تو مکان تھا اس وقت اس میں چھوٹے بڑے بلائے گئے اور میری طرح بن بلائے سب کی دھکّم پیل مچی ہوئ تھی کلّو چھولے والے نے سرخ ڈھڈھاتے رنگ کا ٹول کا کرتا اور سفید شلوار زیب تن کی ہوئ تھی اور اس  کےدونو ن ہاتھ سرخ رنگ کی مہندی سے رچے ہوئے تھے اور بس بارات روانہ ہو گئ

مگر کیسے ؟

دولہا سہرا باندھے اپنے عزیزوں کے ساتھ پیدل آگے آگے اور باقی باراتی اس کے پیچھے پیچھے شائد میں نے کسی سے پوچھاتھا کہ سب پیدل کیوں جارہے ہیں تو جواب ملا تھا دلہن ورلی گلی میں تو رہتی ہے ،ورلی گلی میں؟ میں نے حیران ہو کر کہا ، لیکن میں تو اس گلی کی سب لڑکیوں کو جانتی ہوں   بہر حال بارات جا چکی تھی اس لئے میں اپنی دوست کے ساتھ اس کے گھرآ گئ اصولاً مجھے اپنے گھر آنا چاہئے تھا لیکن دوست نے کہا کہ اس نے کاغذ کو رنگ کر پھول بنائے ہیں بس اسی بہانے میں اس کے ساتھ آئ ،یہ بھی بتا دوں کہ میری اس دوست کا دروازہ ہمارے گھر سے تیسرا دروازہ تھا اور مجھے گلی کے بس چند ہی گھروں میں آنے جانے کی اجازت تھی ،خیر ابھی تو ہم دونوں سہیلیا ں باتیں ہی کر رہے تھے کہ پھر ڈھول ڈھمکّا اور شہنائ کی آوازیں ہمارے کانوں میں گونجنے لگیں اور ہم دونو ہی اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر بھاگے مشکل سے پون گھنٹے میں دلہن بیاہ کر لائ جارہی تھی مگر گھوڑے جتے ہوئے ٹانگے میں آگے بھی بینڈ باجا تھا اور پیچھے باراتی پیدل پیدل،ہجوم اتنا تھا کہ ہم دونوں دولہا کے گھر کی دیوار سے چپک کر کھڑے ہوگئے ،ٹانگہ رکا اور ( جسے ہم مان گون اور نیگ کہتے ہیں ) یہ ان کی زبان میں بیل اور بدھائیا ں تھیں ناچنے والے ناچ رہے تھےگانے والے گا رہے تھے اور اور بینڈ باجا سونے پر سہاگے کا کام کر رہا تھا بدھائیوں کی رسم دلہن کو ٹانگے سے اتارنے سے پہلے گھر کے دروازے پر ہوئ ،اور دولہا سے کہا گیا کہ وہ دلہن کو گود میں لے کر اتارے،دولہا کچھ کسمسایا کچھ شرمایا لیکن پھر کسی نے ڈانٹ کر کہا کہ دلہن کو جلدی اندر لاؤ رسمیں ریتیں کرنا ہے تب دولہا نے دلہن کو تانگے کی دہلیز پر کھڑا کیا اور پھر اپنے کندھے پر لا دا اور مجھے لگا کہ د لہن ایک منحنی سی سرخ گٹھری نما کوئ شئے ہے ،دولہا بہت تیزی سے گھرکے اندر داخل ہوا 

اور میں اپنی دوست کا ہاتھ پکڑ دولہا کے پیچھے ہی گھر کے اندر داخل ہو گئ;جاری ہے


ہفتہ، 11 نومبر، 2023

ڈینگی بخار -بس مچھروں سے بچئے

     حقیقت یہ ہے کہ ڈینگی بخار کا نام سن کر ہی دل دہل جاتا ہے    یہ بیماری فلو جیسی علامات کے ساتھ تیز بخار سے ہوتی ہے۔ تاہم خون بہنے اور موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ محققین ڈینگی ویکسین پر کام کر رہے ہیں، لیکن یہ ابھی تک تیار نہیں ہے، اس لیے جن علاقوں میں یہ بیماری عام ہے، وہاں اپنے آپ کو بچانے کا بہترین طریقہ مچھروں سے بچنا ہے۔ دل کی بیماری. کیا آپ بیماری کی عام علامات سے واقف ہیں؟ لیکن کسی کو کیسے پتہ چلے گا کہ کوئی ڈینگی میں مبتلا ہے؟ تو اس کی علامات جانیں۔ علامات - بیماری کے آغاز میں، زیادہ تر لوگوں میں کوئی علامات نہیں ہوتی ہیں۔ فلو کے نتیجے میں۔ کیا آپ اکثر کھانے کے بعد تھکاوٹ اور نیند محسوس کرتے ہیں؟ ڈینگی بخار کی علامات میں سر درد، پٹھوں، ہڈیوں یا جوڑوں کا درد، متلی، قے، آنکھوں کے اندر درد، غدود کا سوجن اور خارش شامل ہیں۔ زیادہ تر مریض ایک ہفتے کے اندر ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن کئی بار علامات خراب ہو جاتی ہیں اور بیماری جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ خون بہنا شروع ہو جاتا ہے، جبکہ خون کے جمنے میں مدد کرنے والے خلیات (پلیٹلیٹس) کی تعداد بہت کم ہو جاتی

  شدید ڈینگی جان لیوا ہے اور بخار کے اترنے کے ایک یا دو دن بعد انتباہی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں، بشمول شدید پیٹ میں درد بار بار الٹی آنا، اور ناک یا مسوڑھوں سے خون بہنا۔ قابل ذکر علامات میں پیشاب میں خون، قے، سانس لینے میں دشواری یا سانس کی قلت، تھکاوٹ اور چڑچڑاپن شامل ہیں۔ ڈاکٹر سے کب مشورہ کریں؟ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے، ڈینگی مہلک ہے اگر یہ بگڑ جائے، تو ایسی صورت میں فوری طبی امداد حاصل کریں۔ آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور ٹیسٹ کروانا چاہیے، خاص طور پر جب آپ کے آس پاس ڈینگی کے کیسز ہوں، بخار ہو اور اگر آپ میں دیگر علامات ہوں۔ اگر آپ ماضی میں ڈینگی کا تجربہ کر چکے ہیں، تو آپ کو دوبارہ اس بیماری کا زیادہ سنگین کیس آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، جبکہ مدافعتی نظام کے کمزور ہونے کا خطرہ بھی وہی ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ڈینگی ایک شخص سے دوسرے میں منتقل نہیں ہوتا بلکہ صرف مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ ہارٹ اٹیک کی عام عادات اور وجوہات۔ ڈینگی سے بچاؤ کے لیے مچھر بھگانے والی ادویات کا استعمال کریں۔

اگر آپ کے گھر میں اے سی ہے تو اسے چلائیں، مچھروں کو کھڑکیوں اور دروازوں سے داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کریں، بازوؤں والی قمیض پہنیں اور پاؤں میں موزے۔ گھر میں ڈینگی ہے۔ اپنی اور خاندان کے دیگر افراد کی حفاظت کے لیے اضافی احتیاطی تدابیر اختیار کریں کیونکہ اگر کسی مریض کو عام مچھر کاٹ لے تو بھی ڈینگی وائرس مریض میں منتقل ہو سکتا ہے جس سے وائرس مزید پھیل سکتا ہے۔ گھروں کے قریب کھڑے رہیں اور اگر کوئی ضرورت ہو تو کھڑے پانی میں تھوڑا سا مٹی کا تیل ڈال دیا جائے تاکہ وہاں مچھروں کی افزائش نہ ہو سکے۔ ہسپانوی فلو (ہسپانوی: la gripe española) جسے 1918 کی وبائی بیماری بھی کہا جاتا ہے  اور  ایک غیر معمولی طور پر مہلک انفلوئنزا وبائی مرض تھا۔ جنوری 1918 سے دسمبر 1920 تک اس عالمی وبا نے 500 ملین افراد کو متاثر کیا جو اس وقت دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی تھی۔ اس کی ہلاکتوں کی تعداد کا تخمینہ 17 ملین سے 50 ملین اور ممکنہ طور پر 100 ملین تک ہے، جو اسے بلیک ڈیتھ کے بعد انسانی تاریخ کی سب سے مہلک وبا ہے۔

حوصلے کو برقرار رکھنے کے لیے، جرمنی، برطانیہ، فرانس اور ریاستہائے متحدہ میں پہلی جنگ عظیم کے بعد خبروں کے سنسروں نے بیماری اور موت کی ابتدائی رپورٹیں شاذ و نادر ہی ظاہر کیں۔ اخبارات غیر جانبدار اسپین میں وبا کے اثرات کی اطلاع دینے کے لیے آزاد تھے، جیسا کہ کنگ الفونسو X کی سنگین بیماری، اور اسی طرح کی رپورٹس نے خاص طور پر سخت متاثرہ اسپین کے بارے میں غلط تاثر پیدا کیا۔ متاثر ہوتا ہے. اس نے وبائی بیماری، ہسپانوی فلو کو جنم دیا۔ تاریخی اور وبائی امراض کے اعداد و شمار اس وبا کی جغرافیائی اصل کی قطعی طور پر شناخت کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ زیادہ تر انفلوئنزا کی وبا سے نوجوان اور بہت بوڑھے افراد ہلاک ہوتے ہیں، اور درمیانی عمر کے لوگوں میں زندہ رہنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے، لیکن ہسپانوی فلو کی وبا کے نتیجے میں اموات کی شرح بہت زیادہ متوقع رہی۔ .

 

بدھ، 8 نومبر، 2023

یہ مضمون طاہر محمود آسی ٹیچر کے نام


حضور صلی اللہ علیہِ وسلم نے فرمایاہے :۔

’’تمہارے تین باپ ہیں‘‘

  ایک وہ جو تمہیں اس دنیا میں لا یا، دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی، اور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم دیا۔ اور فرمایا کہ ان سب میں سے افضل تمہارے لیے وہ ہے جس نے تم کو علم دیا۔ میرے خیال میں استاد کا مقام ومرتبہ اور استاد کی عظمت اس سے زیادہ کوئی بیان نہیں کرسکتا۔استاد کسی بھی قوم یا معاشرے کا معمار ہوتا ہے…وہ قوم کو تہذیب وتمدن،اخلاقیات اور معاشرتی اتار چڑھاؤ سے واقف کرواتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ استاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی قوم کامستقبل اس قوم کے استاد کے ہاتھ میں ہو تا ہے، استاد ہی قوم کو تربیت دیتا ہے، وہی اسے بتاتا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔ گویا کسی بھی قو م کو کوئی حکومت تربیت نہیںدیتی بلکہ ایک استاد تربیت دیتا ہے۔ خدا لگتی بات کی جا ئے تو قوم کی تباہی یاقوم کی سرفرازی دونوں کا باعث استا د ہی ہوتا ہے۔

                        اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا ۔اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب ﷺ نے ’’انمابعثت معلما‘‘(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے ) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیا تک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے ۔      انسان کی زندگی میں استاد کا مقام ومرتبہ اہم ہوتا ہے۔ قوموں کی ترقی و بقا میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے۔ استاد ہی نو نہالانِ قوم کی تعلیم و تربیت کا ضامن ہوتا ہے۔ انسان چاہے کوئی بھی ہو کاروباری ہو درزی ہو سیاستداں ہو فنکار ہو یا وکیل یا پھر کھیل کود سے دلچسپی رکھنے والاہو یا مذہبی رجحان رکھنے والاہی کیوں نہ ہو ہر کسی کو علم کی ضرورت پڑتی ہے ۔ علم حاصل کرنے کے لئے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ والدین کے بعد اگر دنیا میں انسان کسی شخصیت کی دل و جان سے عزت و احترام کرتا ہے تو وہ استاد ہے۔ ہاں استاد!   استاد علم کا گہوارہ ہوتا ہے۔ قوموں کی ترقی میں اساتذہ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔ استاد کو نئی نسل کی ترقی دینے، معاشرے کی فلاح و بہبود اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ استاد اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان ہر وقت اپنے پیڑ پودوں کی کانٹ چھانٹ نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول فاروق آباد میں ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر کا طلباء کے سامنے سئنر سائنس ٹیچر طاہر محمود آسی کیساتھ ہتک آمیز رویہ ٹیچر کے جوتے اتروادئیے 

سوشل میڈیا ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کوریج پر وزیر اعلی پنجانب کا ایکشن ڈی سی شیخوپورہ سے رپورٹ طلب کرلی جس پر سئنر ٹیچر کی داد رسی کی بجائے انتظامیہ اور محکمہ تعلیم افسران ڈی ایم او سمیرا عنبرین کو بچانے کیلئے ٹیچروں دبائو ڈالنے لگے-سی ای او ایجوکیشن جب انکوائری کے سلسلہ میں گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول فاروق آباد پہنچے تو وہاں موجود ٹیچروں نے جب ڈی ایم او کے رویہ اور سئنر ٹیچر کیساتھ ہتک آمیز رویہ پر احتجاج کیا تو سی ای او کمرہ سے باہر نکل گئےسیئنر ٹیچر نے ننگے پائوں قوم کے معماروں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا اعلان کردیا اور اس وقت تک ننگے پائوں رہیں گے جب تک ڈی ایم او ان کا خود جوتا واپس نہیں کریں گی -سیئنر سائنس ٹیچر انتظامیہ اور محکمہ افسران کے رویہ سے دلبرداشتہ ہوکر بچوں کو پڑھاتے ہوئے دھاڑے مار مار کر رو پڑےکیا استاد کی تزلیل کا یہ عمل ختم ہوگا ؟ جبکہ ترکی کے ایک جہاز کے پائلٹ  کو معلوم ہوتا ہے کہ اس  جہاز میں اس کےپرائمری سکول کے ایک استاد سفر کررہے ہیں۔ معلوم ہونے پر جہاز کے پائلٹ اعلان کرتا ہے کہ ہمارے جہاز میں  میرے محترم استاد سفر کررہے ہیں۔ اعلان سنتے ہی سارے مسافر احتراما کھڑے ہوجاتے ہیں اور جہاز کا عملہ پھول لاکے استاد کو پیش کرتا ہےاور پائلٹ خود آکر استاد کے گلے لگتا ہے۔

ہمارے بہت مشہور استاد اور رائٹر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ مجھے جاپان کی ترقی کا اندازہ اس دن ہوا جب جاپان میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے مجھے ٹریفک چلان ہوا اور میں مصروفیت کی وجہ سے عدالت میں مقررہ وقت پہ پیش نہ ہو سکا۔ عدالت کے لیٹ ہونے کی وجہ پوچھنے پر جب اس نے بتایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور مصروفیت کے بنیاد پہ عدالت میں پیش نہ ہوسکے۔ استاد کا نام سن کے جج نے کہا ”A teacher is in court“ اور جج سمیت تمام لوگ احتراما کھڑے ہوگئے اور مجھے عزت و توقیر سے رخصت کیا۔آج اگر ہم تعلیمی، تہذیبی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی پستی کے شکار ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہیں کہ ہمارے یہاں پہ کرپٹ اور نالائق دنیادار شخصیات کو تو عزت دی جاتی ہے لیکن یہاں پہ اساتذہ کی تذلیل کی جاتی ہے اور اساتذہ کو چھری مار کے قتل کیا جاتا ہے۔ یقینا جب تک ہمارے معاشرے میں اساتذہ کو سربلند نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہمارا معاشرہ زوال پذیر رہے گا   

  امام شافعی بڑے اعلیٰ درجہ کے فقیہ ومحدث گزرے ہیں جبکہ آپ ایک اہلسنت طبقہ کے امام بھی کہے جاتے  ہیں، یہ حصول ِ علم کے لیے مدینہ پہنچے،آ پ غریب  تھے، امام مالک نے اپنے اس ہونہار شاگرد کو خود اپنا مہمان بنایا او رجب تک مدینہ میں رہے، ان کی کفالت کرتے رہے، پھر جب امام شافعی نے مزید کسب ِ علم کے لیے کوفہ کا سفر کرنا چاہا تو سواری کا نظم بھی کیا اور اخراجات ِ سفر کا بھی اور شہر سے باہر آ کر نہایت محبت سے آپ کو رخصت کیا، امام شافعی کوفہ آئے اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد رشید امام محمد کی درس گاہ میں بحیثیت طالب علم شریک ہو گئے، یہاں بھی امام محمد  نے ذاتی طور پر امام شافعی کی کفالت فرمائی، بلکہ بھرپور تعاون فرمایا، امام شافعی اس حال میں کوفہ پہنچے کہ نہایت ہی معمولی کپڑا آپ کے جسم پر تھا،امام محمد  نے اسی وقت ایک قیمتی جوڑے کا انتظام فرمایا،جو ایک ہزار درہم قیمت کا تھا، پھرجب امام شافعی کو رُخصت کیا تو اپنی پوری نقدی جمع کرکے تین ہزار درہم حوالہ کیے-   ہمارے معاشرے میں اس قدر قابل عزّت طبقے کو حکومت بھی ان آسانیوں سے محروم رکھتی جو وہ اپنے دیگر سرکاری ملازمین کو دیتی ہے اور جب یہ اپنا جائز حق مانگنے سڑکوں پر آتے ہیں تو پولیس ان پر لاٹھی چارج کر ان کو لہو لہان بھی کرتی ہے اس پر سے ان پر مقدمات بھی بنائے جاتے ہیں -اللہ ہمارے سماج پر رحم فرمائے

   میں محترم سائنس ٹیچر طاہر محمود آسی کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کرنے والوں کی بھرپور مزمت کرتی ہوں 



پیر، 6 نومبر، 2023

موتیابند-آنکھوں کی حفاظت کیجئے

  ریٹنا ایک ہلکا حساس ٹشو ہے جو آنکھ کو استر کرتا ہے اور آنکھ کے پچھلے حصے میں واقع ہوتا ہے۔ یہ بادل اس وقت ہوتا ہے جب آنکھ کے عینک میں موجود کچھ پروٹین شکل بدلنا شروع کر دیتے ہیں اور بینائی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ موتیابند ان کے ابتدائی مراحل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوسکتا ہے اور بادل چھا جانا عینک کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ تاہم، وقت کے ساتھ موتیا بڑا ہو سکتا ہے اور عینک کو زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اسے اس طرح دیکھنا مشکل ہے۔ جب کم روشنی ریٹینا میں داخل ہوتی ہے تو اسے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور بصارت دھندلی اور دھندلی ہو سکتی ہے۔ موتیا ایک آنکھ سے دوسری آنکھ میں نہیں پھیلتا لیکن بہت سے لوگوڈاکٹر ابھی تک نہیں جانتے کہ موتیابند کی وجہ کیا ہے، ان سے بچنے کا کوئی ثابت شدہ طریقہ نہیں ہے۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی آنکھوں کا باقاعدگی سے معائنہ کرائیں کیونکہ موتیا بند اور دیگر حالات جیسے گلوکوما بڑی عمر کے بالغوں میں عام ہیں۔ اگر آپ کی آنکھوں کے مسائل 

موتیا ایک ایسی حالت ہے جہاں قدرت کا عطا کردہ شفاف لینس آ پ کی آنکھ میں مبہم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور روشنی کا راستہ روکتا ہے جو اکثر بینائی میں خلل ڈالتا ہے۔ایک اور کلاسیکی مسئلہ جس کا سامنا ہر روشنی پر مبنی شے کے گرد روشنی کا ایک حلقہ ہے جو اکثر روشنی کے پھیلاؤ کی وجہ سے مختلف رنگوں میں ہوتا ہے۔ موتیا ایک سے زیادہ اقسام کے ہوتے ہیں اور آپ کی بینائی پر مختلف اثرات مرتب کرتے ہیں۔ نہ صرف اثر کا سبب بھی مختلف ہو جائے گا. عام موتیابند نیوکلیئر، کورٹیکل، پوسٹیریئر سب کیپسولر، پیدائشی، تکلیف دہ، تابکاری وغیرہ ہیں۔تشخیص کے لیے سرجن موتیابند کی قسم کا تعین کرنے کے لیے ریٹنا ویژول ایکیوٹی ٹیسٹ، سلٹ لیمپ ایگزامینیشن اور ریٹینل ایگزام کا استعمال کر سکتا ہے۔

یا ذیابیطس جیسی دیگر بیماریوں کی تاریخ ہے تو اس سے آنکھوں کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔:آنکھوں کے معائنے سے موتیا بند اور آنکھوں کے دیگر مسائل کا جلد پتہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اپنے ڈاکٹر سے اس بارے میں بات کریں کہ آپ کو کتنی بار اپنی آنکھوں کا معائنہ کرانا چاہیے۔ سگریٹ نوشی چھوڑیں: تمباکو نوشی چھوڑنے کے بارے میں مشورہ کے لیے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ کوئی بھی دواؤں، مشاورت اور دیگر طریقوں سے مدد لے سکتا ہے۔ صحت کے دیگر مسائل کا انتظام کریں: اگر آپ کو ذیابیطس یا کوئی اور طبی حالت ہے جس سے آپ کے موتیا بند ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے تو علاج کے منصوبے کو جاری رکھیں۔ پھلوں اور سبزیوں سے بھرپور غذائیت سے بھرپور غذا کا انتخاب کریں: ایک غذا شامل کریں۔ آپ کی خوراک میں مختلف قسم کے رنگ برنگے پھل اور سبزیاں جو آپ کو وٹامنز اور معدنیات کی ایک وسیع رینج فراہم کرتی ہیں اور آپ کی آنکھوں کو صحت مند رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔

دھوپ کا چشمہ پہننا:سورج کی روشنی سے نکلنے والی الٹرا وائلٹ شعاعیں موتیابند کی تشکیل کا باعث بن سکتی ہیں۔ اگر آپ باہر ہیں تو دھوپ کے چشمے پہنیں جو الٹرا وایلیٹ B (UVB) شعاعوں کو روکتے ہیں۔الکحل کی کھپت کو کم کریں: بہت زیادہ الکحل کا استعمال موتیابند کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ تشخیص، یا اس بات کا تعین کریں کہ آیا آپ کو موتیا بند ہے، آپ کا ڈاکٹر آپ کی تمام علامات کے بارے میں جاننا چاہے گا۔ وہ آپ کی آنکھوں کو قریب سے دیکھیں گے اور کچھ ٹیسٹ کر سکتے ہیں، بشمول:بصری تیکشنتا ٹیسٹ: یہ "آئی چارٹ امتحان" کہنے کا ایک عمدہ طریقہ ہے۔ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آنکھیں کتنی صاف ہیں، ڈاکٹر دور سے مریض کو خط پڑھے گا۔ ایک آنکھ سے شروع کریں اور پھر دوسری آنکھ سے۔ اس کے بعد وہ ایک چکاچوند ٹیسٹ کر سکتے ہیں، جس میں وہ آنکھوں میں ایک روشن روشنی ڈالتے ہیں اور آپ سے حروف کو پڑھنے کو کہتے ہیں۔
سلٹ لیمپ ٹیسٹ:یہ ٹیسٹ روشن روشنی کے ساتھ ایک خاص خوردبین کا استعمال کرتا ہے جو ڈاکٹر کو آنکھ کے مختلف حصوں کا معائنہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ کارنیا، آنکھ کی شفاف بیرونی تہہ کا معائنہ کریں گے۔ وہ آئیرس، آنکھ کے رنگین حصے کے ساتھ ساتھ اس کے پیچھے موجود عینک کو بھی دیکھیں گے۔ آنکھ میں داخل ہوتے ہی لینس روشنی کو موڑتا ہے، جس سے مریض واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ریٹنا امتحان: ڈاکٹر شاگردوں کو پھیلانے کے لیے آنکھوں میں قطرے ڈالے گا، جو اس بات کا تعین کرے گا کہ کتنی روشنی داخل ہوتی ہے۔

 اس سے وہ ریٹنا، آنکھ کے پچھلے حصے کے ٹشوز اور موتیابند کو بہتر طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ایپلی کیشن ٹونومیٹری:یہ ایک ٹیسٹ ہے جو آنکھ میں سیال کے دباؤ کا تعین کرتا ہے۔ اس کو پورا کرنے کے لیے کئی ٹولز اور طریقے ہی۔علاج - موتیابند کا واحد علاج موتیابند کی سرجری ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ مریضوں کو اس کی فوری ضرورت نہ ہو۔ اگر آپ اس مسئلے کو جلد ہی پکڑ لیتے ہیں، تو آپ شیشے کے لیے ایک نیا نسخہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک مضبوط لینس عارضی طور پر مجموعی بصارت کو بہتر بنا سکتا ہے۔ پڑھتے وقت روشن لیمپ یا میگنفائنگ گلاس استعمال کرنے پر غور کریں۔ اگر چمک آپ کو پریشان کرتی ہے تو، اینٹی چکاچوند کوٹنگ والے خصوصی شیشے چیک کریں۔ رات کو گاڑی چلاتے وقت وہ کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ موتیابند بینائی کو کس طرح متاثر کرتا ہے اس پر گہری نظر رکھیں۔ جب بصارت کے مسائل آپ کی روزمرہ کی زندگی میں مداخلت کرنے لگتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ ڈرائیونگ کو غیر محفوظ بناتے ہیں، تو یہ سرجری کے بارے میں ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کا وقت ہے۔  

پاکستان میں منشیات کا اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ا ستعمال

 پاکستان میں منشیات کا   اعلیٰ تعلیمی اداروں میں استعمال -پاکستان میں آئے روز منشیات کے بڑھتے دلدل نے ہماری نوجوان نسل کے روشن مستقبل کو داؤ پر لگا کر لاکھوں پڑھے لکھے معزز خاندانوں کا سکون برباد کر رکھا ہے۔ نوجوان نسل خاص طور پر کالجوں، یونیورسٹیوں، ہاسٹلوں کے طلباؤ طالبات، جیلوں کے قیدیوں میں آئیس، ہیروئن، کوکین، چرس، افیون، شراب، مارفین کے ٹیکے سگریٹ نوشی، شیشہ نوشی کے استعمال میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو تا جار ہا ہے۔ جس پر والدین کے ساتھ ساتھ تمام حکومتی ادارے بری طرح ناکام نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان نارکاٹکس کنٹرول پولیس، ایکسائز پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات کی بھاری کھیپ قبضے میں لے کر قانونی کاروائی کرتے رہتے ہیں۔ سزاؤں کے قانون میں سخت ترامیم کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں دھشت گردی کے بعد دوسرا سب سے سنگین جرم منشیات کی فیکٹریاں اور سمگلنگ ہے۔

بس رواں دواں چلتے ہوئے ایک جگہ حسب عادت رک گئ اور ڈرائور اتر کر چلا گیا ڈرائور کے جانے کے بعد بس کے دروازے پر ایک ہیروئنچی آ کر کھڑا ہو گیا جیسے ڈرائور کا انتظار کر رہا ہو پھردروازے سے ہٹ کر بس کے اندر آکر مسافروں سے بھیک مانگنے لگا مسافروں میں کسی نے اسے خیرات دی کسی نے نہیں دی- جب بس کے تمام مسافروں سے بھیک مانگ چکا تو دوبارہ بس ڈرائور کے دروازے پر جا کر کھڑا ہو گیا - اب چند ثانیوں میں ڈرائور آ گیا,,,اس نے دیکھا کہ بس کے دروازے پر بھکاری کھڑا ہے تو ٹیڑھا منہ بنایا اور اس کے ساتھ بھکاری نے ڈرائور سے کہا اللہ کے نام پر ایک روپیہ دے دے ڈرائور نے بھکاری سے سوال کیا ایک روپی کا کیا کرے گا بھکاری نے فوراً کہا ہیروئن پیوں گا ڈرائور نے بھکاری کو جھڑک کر کہا دیکھ تو اگر مجھ سے کھانا کھانے کو مانگتا تو میں تجھ کو ایک روپیہ نہیں پانچ 'دس روپئے دے دیتا 'لیکن تو مجھ سے زہر پینے کو مانگ رہا ہے اس لئے تجھ کو ایک دھیلا بھی نہیں دوں چل جا بس کا ڈنڈا چھوڑ دے 'ڈرائور نے غصّے سے کہا لیکن ڈرائور کے غصّے کی پرواہ نہیں کی اوردروازہ پکڑے رکھّا تو ڈرائور نے بس کو ایک جھٹکا دیا اور پھر بھکاری نے دروازہ تو چھوڑ دیا لیکن جاتے جاتے کہنے لگا اللہ تیرا بیڑہ غرق کرے اور بھکاری کے اس کوسنے سے مجھے لگا جیسے میرا دل مٹھّی میں آ گیا ہو

 بھکاری ڈرائور کو کوسنا دے کر چلا گیا اور بس ڈرائور نے بس چلا دی لیکن ہوا یہ کہبس معمول کے مطابق چلتی ہوئ اچانک ڈرائور کا ہاتھ اسٹئرنگ پر سلپ کرنے کی وجہ سے ایک دم فٹ پاتھ پر چڑھ گئ اور پھر پہلے ڈرائوراور کنڈکٹر بس سے نیچے اترا پھر ایک ایک مسافر کر کے اترے پھر ڈرائور نے بس کو ہلکا کرنے کے لئے سارے مسافروں کو بس اتار کر بس کو فٹ پاتھ سے اتارنے کی کوشش کی اس کی کوشش میں سارے مسافروں نے بھی ساتھ دیا لیکن بس اڑیل گھوڑے کی طرح ٹس سے مس نہیں ہوئ اب ڈرائور فٹ پاتھ پر کھڑا خجل لہجے میں کہہ رہا تھا 'مجھے فقیر ککو خیرات دے دینی چاہئے تھی ،میرا بھی زاتی یہی خیال ہے کہ کوئ سوالی جب اللہ کے نام پر مانگ رہا ہو تواس کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاو 'اسوقت ہیروئن بھکاری کے لئے کھانے سے بڑھ کر اہم تھی ن محفوظ رہیں آمین اس وقت منشیات کی وبا نے ملک کی نوجوان نسل کی صحت پر شب خون مارا ہے ،کوئی شہر ،کوئی دیہات ، اسکول، کالج، جامعات منشیات کے مختلف آئٹموں سے محفوظ نہیں۔ چرس عام بکتی ہے، کرسٹل، لوشن ، کوکین ، افیون ، بھنگ گلی کوچوں میں دستیاب ہے، منشیات کے عادی افراد کے لیے سرکاری اسپتالوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، 

 ۔ضروری ہے کہ لیاری ، روتھ فاؤ سول اسپتال،جناح اسپتال اور ملک کے سرکاری اسپتالوں میں منشیات کے وارڈ اور اس کے معالجاتی شعبہ قائم ہونا چاہئیں، پاکستان میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2013 میں 70لاکھ کے قریب لوگ منشیات کے عادی تھے تاہم ایک اندازے کے مطابق اب یہ تعداد بڑھ کر ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے-اقوام متحدہ کے ادارے UNODC کی 2020 ورلڈ ڈرگ رپورٹ کے مطابق، 35 ملین سے زیادہ لوگ منشیات کے استعمال کے نتائج سے دوچار ہوئے۔ ڈبلیو ایچ او کےمطابق دنیا میں تمباکو کے استعمال سے ہر سال 8 ملین سے زیادہ لوگ مرتے ہیں جن میں سے 1.2 ملین اموات صرف غیر فعال تمباکو نوشی سے ہوتی ہیں۔ پاکستان میں 8.1 ملین افراد منشیات کے عادی ہیں، سالانہ 50 ہزار نئے منشیات استعمال کرنے والوں کومنشیات کے عادی افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین شامل ہیں۔

 شامل اعداد و شمار اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ منشیات کے عادی افراد میں سے 55 فیصد کا تعلق پنجاب اور 45 فیصد ملک کے دیگر صوبوں سے ہے-بتایا جاتا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں اب اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیاں ان خطرناک نشوں کے عادی ہو رہے ہیں جن کا نجام بس موت کی گہری کھائ ہے-انسداد منشیات مہم پنجاب کے کنسلٹنٹ ذوالفقار حسین کے مطابق اپریل میں لاک ڈاؤن کے دوران لاہور کی مختلف سڑکوں، باغوں اور پارکوں میں منشیات کے عادی افراد کی 51 لاشیں ملیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے کیونکہ اس سے قبل ہر ماہ 24 سے 28 منشیات کے عادی افراد کی لاشیں لاہور کے مختلف علاقوں سے ملتی تھیں۔ مضمون کے آخر میں اپنے معاشرے کے والدین سے گزارش ہے کہ خدارا اپنی اولاد کو دوست بن کر ان کا ساتھ دیں تاکہ وہ جرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے نا چڑھ سکیں -آپ کی اولاد نا صرف آپ کی بلکہ پورے سماج کی دولت ہے اللہ آپ کا حامئ و مددگار ہو آمین-ثمّہ آمین   

اتوار، 5 نومبر، 2023

پاکستان میں گلابی سونے کا شہر کھیوڑہ

 

  پاکستان میں گلابی نمک کے بڑے ذخائر ہیں جن کی سالانہ آمدنی 12ارب ڈالر ہے ملک کے پاس تقریباً 22.22ارب ٹن قدرتی وسائل موجود ہیں، جو زیادہ تر کالا باغ، ورچہ کھیوڑہ اور بہادر خیل کے سالٹ رینج کے علاقوں میں مرکوز ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد بھی 60سال تک بھارت دنیا کا بہترین معدنی نمک پاکستان سے کوڑیوں کے داموں خرید کر پروسیسنگ کے بعد اسے ہمالیائی گلابی نمک کا نام دے کر عالمی مارکیٹ سے اربوں ڈالر کماتا رہا جس کا عقدہ ابھی چند برس قبل کھلنے پر پاکستان نے اسے نمک کی برآمد روک دی۔ ایک حالیہ میڈیا رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں امریکی تجارتی وفد نے پاکستان کے سفیر سے ملاقات کر کے کھیوڑہ سے نمک نکالنے، اس کی پروسیسنگ اور عالمی سطح پر تقسیم میں 20کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے۔  گلابی نمک کے ذخائر پاکستان میں ضلع جہلم سے کو ہاٹ کے درمیان پہاڑی سلسلے میں کم و بیش تین سو کلو میٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جن کے حجم کا کوئی اندازہ نہیں ۔ اس ضمن میں متذکرہ سرمایہ کاری اپنی جگہ اہم ہے۔ اس قیمتی دولت کو معاشی بہتری اور بحالی کی خاطر زیادہ سے زیادہ کام میں لانے کی ہر ممکن سعی کی جانی چاہئی ۔ اسے بدقسمتی سے قرار دیا جائے گا کہ پاکستان میں موجود قدرتی وسائل سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کی کماحقہ سعی ہی نہیں ہوتی قدرت نے ملک کو قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے لیکن کسی دور حکومت میں پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنے وسائل سے استفادے کی سنجید کی نظر نہیں آئی جہاں اس طرح کی کوششیں ہوئیں بھی وہاں روڑے اٹکائے گئے ریکوڈک کا منصوبہ اس کی بڑی مثال ہے عالمی طور پر بھی پاکستان کو سازشوں میں الجھا کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا

 حالیہ ماہ و سال میں پاک چین اقتصادی راہداری امید کی ایک کرن ہے پاکستان کے پاس موجودہ حالات سے نکلنے اور تجارتی خسارہ میں کمی لانے کے لئے ایسے منصوبوں پر خاص طور پر توجہ کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں بر آمدات میں اضافہ ہو اور قیمتی زرمبادلہ کمایا جاسکے نیز تجارتی خسارہ میں بھی کمی آئے۔ حالانکہ قدرت نے وطن عزیز کو کیسی بے نظیر، نایاب، شاندار اور بیش بہا قیمتی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے انسان اس پر غور کرے تو حیران و ششدر رہ جاتا ہے کہیں کوئلے کے بے پناہ معدنی ذخائر موجود ہیں تو کہیں پر سونے کے پہاڑوں سے رب تعالیٰ کی ذات کریم نے اس لازوال اور بلند اقبال دھرتی کو سجا رکھا ہے اس پاک دھرتی میں سے کہیں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوتے ہیں تو کہیں’’ گلابی سونا‘‘ یعنی کھیوڑہ کی کان جیسے خوردنی نمک کے وسیع و عظیم خزانے موجود ہیں جوکہ جنوبی ایشیا میں قدیم ترین اور دنیا میں خوردنی نمک کا دوسرا بڑا ذخیرہ ہے اس عظیم ذخیرے کی یہ کان زیر زمین 110کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے اس میں انیس منزلیں بنائی گئی ہیں جن میں گیارہ منزلیں زیر زمین ہیں اس ذخیرے کی بلندی 2200فٹ سے 4490فٹ تک ہے یہاں سے نمک نکالتے وقت 50فیصد نمک نکالا جاتا ہے جبکہ 50فیصد بطور ستون اور دیوار میں باقی رکھا جاتا ہے اس کان میں سے سالانہ 370000ٹن نمک حاصل ہو رہاہے۔ کھیوڑہ کے مقام پر موجود نمک کی ان کانوں کو ارضیاتی عجائب گھر قرار دیا گیا ہے کہا جاتا ہے کہ نمک کے ان ذخائر کا تعلق کرہِ ارض کے قدیم ترین دور پری کیمبیرین سے ہے -

 کھیوڑہ میں نمک کی دریافت 222ق م میں اس وقت ہوئی جب دریائے جہلم کے کنارے سکندر اعظم اور راجہ پورس کے درمیان جنگ لڑی گئی سکندر اعظم کی فوج کی کھیوڑہ کے پتھروں میں دلچسپی کے سبب اس مقام پر نمک کی موجودگی کا انکشاف ہواتھا گیارھویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی نے ہندؤوں کو شکست فاش سے دوچار کیا تو جنجوعہ خاندان کو حکمران بنا دیا تب یہ نمک کا خزانہ بھی ان کے دائرہ اختیار میں رہا جب کہ مغلیہ دور حکومت میں یہ کانیں شاہی خاندان کی تحویل میں رہیں تاریخ پر لکھی گئی معروف کتاب’’ آئین اکبری ‘‘ میں یہاں سے حاصل کیے جانے والے نمک کو باہر کے ممالک بر آمد کرنے کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ پاکستان پر کل قرضہ تقریباً 100ارب ڈالر ہے۔ انڈیا کی پاکستانی نمک بیچ کر سالانہ کمائی 129ارب ڈالر ہے۔ اس وقت پاکستان کو اپنا زرمبادلہ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سمندر میں ڈرلنگ سے تیل نہیں ملا تو کیا ہوا، اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو نمک جیسی معدنیات دی ہے، آپ لوگوں نے اس کا کونسا فائدہ اٹھایا ہے۔

 ۔ جیسے عربوں کو اللہ نے تیل دیا ہے ویسے پاکستان کو گلابی نمک دیا ہے۔ اگر کسی کو علم ہو تو دنیا آپ کے قدموں میں آسکتی ہے۔ اللہ نے پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اگر ہم صرف اپنی نمک کی کان کی طرف توجہ دیں تو یہ یہاں پہ آنے والے سیاح اور یہاں سے نکلنے والا خوبصورت گلابی نمک کی فروخت ایک منافع بخش آمدنی کا ذریعہ ہوگی۔ بھارت پاکستان سے 35پیسے فی کلو کے حساب سے کھیوڑہ کا گلابی نمک لے رہا تھا۔ اور آگے خود 19یورو (3373روپے) فی کلو دوسرے ملکوں کو بیچ رہا تھا۔ کھیوڑہ کے مقام سے نکلنے والا یہ گلابی نمک معدنیات اور تیل کے ذخائر سے بھی زیادہ قیمتی  ہے ایک حالیہ میڈیا رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں امریکی تجارتی وفد نے پاکستان کے سفیر سے ملاقات کر کے کھیوڑہ سے نمک نکالنے، اس کی پروسیسنگ اور عالمی سطح پر تقسیم میں 20کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے۔ اس سے اور نہیں تو کم از کم قدرت کی عطا کردہ اس بے بہا نعمت کی قدر و قیمت کا اندازہ کر لینا مشکل نہیں جس کا فائدہ پاکستان سے زیادہ اس کے دشمن نے اٹھایا۔ حیرت کا مقام ہے کہ اس حوالے سے جیو فزیکل انڈیکیشنر ( جی آئی) قوانین تاخیر سے بنے جس کا مقصد اپنے حقوق دنیا پر واضح کرتے ہوئے ان کی حفاظت کرنا ہے۔ گلابی نمک کے ذخائر پاکستان میں ضلع جہلم سے کو ہاٹ کے درمیان پہاڑی سلسلے میں کم و بیش تین سو کلو میٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جن کے حجم کا کوئی اندازہ نہیں ۔ اس ضمن میں متذکرہ سرمایہ کاری اپنی جگہ اہم ہے۔ اس قیمتی دولت کو معاشی بہتری اور بحالی کی خاطر زیادہ سے زیادہ کام میں لانے کی ہر ممکن سعی کی جانی چاہئی  

جمعہ، 3 نومبر، 2023

حضرت بری اما م سرکار رحمۃ اللہ علیہ

 

   برّصغیر کی تاریخ  گواہ ہے کہ ابتدائے اسلام سے ہی بے شمار اولیائے کرام کے قدموں نے اس خطّہءزمین کو اپنے مبارک قدموں سے فیضیاب کیا  -ان اولیائے دین میں ایک بڑا نام حضرت بری امام سرکار کا بھی ہے-بری امام  رحمۃ  اللہ علیہ(عیسوی اور (1026) ہجری میں ضلع چکوال کے علاقے چولی کرسال میں ایک معزز سادات کاظمیہ کے خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام  مبارک سید سخی محمودؒ بادشاہ کاظمی اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ غلام فاطمہ کاظمی تھا۔ آپ کے والد گرامی بھی ایک ولی تھے بری امام سرکار نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سید محمود بادشاہ سے حاصل کی ۔ آپ نے فقہ و حدیث اور دیگر علوم اسلامی کی تعلیم نجف اشرف عراق میں حاصل کی ۔ سید محمود بادشاہ جو کہ نجف اشرف سے فارغ التحصیل تھے-حضرت سید شاہ عبداللطیف المشہدی کاظمی المعروف بری امام ؒ سرکار برصغیر پاک و ہند کے ان اولیاء کرام اور صوفیاء کرام میں شامل ہیں جنہوں نے مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں اس ملک کے مختلف اطراف میں نور اسلام پھیلانے کیلئے انتھک جد و جہد کی یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام کی تبلیغ میں جہاں اس کے اعلی اصولوں اور لاثانی ضابطہ حیات کا حصہ ہے وہاں بزرگان دین کی جد و جہد اور روحانی کمالات کا بھی بڑا کردار ہے ۔ سید عبدالطیف بری امام کاظمی تھے نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی تھی ۔ حضرت سید شاہ عبداللطیف المشہدی کاظمی نے مقدس اسلامی شہروں نجف اشرف ٗ کربلا ٗ سامرہ ٗ مشہد مقدس میں مختلف علماء سے دینی علوم کے علاوہ روحانی فیض بھی حاصل کیا ۔جب ایران و عراق کے بارہ سال کے طویل سفر کے بعد آپ  کسران میں واپس آئے تو آپ کی کشف و کرامات کا تذکرہ ہر طرف ہونے لگا جس کی وجہ سے آپ کی شہرت ہر سو پھیل گئی لوگ دور دراز علاقوں سے بری سرکار کی خدمت اقدس میں حاضری دیتے اور آپ کی تعلیم و تبلیغ ٗ و عظ و نصیحت اور پند و نصائح سے فیض یاب ہوتے ۔

 کچھ عرصہ یہاں گزارنے کے بعد بری سرکار نے اس وقت کے ضلع راولپنڈی کے شمالی علاقے کا رخ کیا اور باغ کلاں ( موجودہ آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد ) میں اقامت پذیر ہوئے ۔باغ کلاں کے باشندوں نے عزت و احترام کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا اور کچھ اراضی بطور نذرانہ عقیدت پیش کی ۔ بری امام کاظمی ؒ نے کچھ عرصہ یہاں قیام کیا اور تبلیغ دین میں مصروف رہے یہاں بسنے والے سب لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے- شاہ عبدالطیف بری امام سرکار کی نظر فیض بار نے نہ صرف چوروں کو سیدھا راستہ دکھایا بلکہ آپ کے فیض و برکات کا نور پھیلنے لگا تو یہ علاقہ "نور پور "بن گیا ۔ اور یہ بھی حضرت بری سرکار کی زندہ کرامت ہے کہ نور پور پھیل کر "اسلام آباد "بن گیا ٗ آپ کا عرس ہر سال مئی کے مہینے میں منایا جاتاہے-بر صغیر میں اسلام کی تبلیغ اور پھیلانے میں اولیاء کرام اور صوفیائے عظام کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے ہندوستان کے اونچ نیچ اور چھوت چھات کے معاشرے میں ان صوفیاء نے ہر مذہب ٗ ملت اور قوم کے افراد کو نہ صرف اپنے قریب کیا بلکہ انسانیت کا درس دے کر ہر قسم کے تعصب کا خاتمہ کیا یہی وجہ تھی کہ ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ اسلام کی طرف راغب ہوئے ان ہی بزرگان پاک طینت نے مخلوط معاشرے اور کثیر المذاہب خطے میں امن ٗ بھائی چارے اور رواداری قائم کی ٗ آج ہم ان بزرگوں کے سبق اور درس سے دور ہو چکے ہیں اسی لیے مذہبی ٗ قومی اور نسلی تعصب نے معاشرے کو بے سکون اور بے امان کر دیاہے اس کے تدارک کیلئے پاکستان میں سینکڑوں صوفیائے عظام اور بزرگان دین کی خانقاہیںموجود ہیں جہاں دلوں کو گداز اور محبت سے لبریز کیا جاتا ہے ۔ 

یہاں پر آپ سے کئی کرامات ظاہر ہوئیں ۔ ان ہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک روز آپ عبادت الہی میں مشغول تھے ٗ توجہ کے ارتکاز کی وجہ سے آپ کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ کس وقت آپ کے مویشی زمیندار کے کھیت میں گھس گئے اور انہوں نے ساری فصل تباہ کر دی ۔ فصل کا مالک شکایت لے کر آپ کے والد بزرگوار سید محمود شاہ ؒ کے پاس آیا ۔ آپ کے والد زمیندار کے ہمراہ آپ کے پاس آئے اور سرزنش کی کہ آپ کی بے توجہی کی وجہ سے زمیندار کی ساری فصل برباد ہوگئی ہے اس پر تھوڑی دیر آپ خاموش رہے ۔ آپ کے والد نے انہیں مزید ڈانٹا جب آپ کے والد نے اچھی طرح سرزنش کرنے کے بعد خاموشی اختیارکی تو آپ نے بڑے سکون کے ساتھ آہستہ سے سر اوپر اٹھایا اور نہایت ٹھہرے ہوئے انداز میں گویا ہوئے ۔ابا جی ذرا فصل کی طرف تو دیکھئے ٗ جونہی آپ کے والد محترم نے فصل کی طرف دیکھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چند لمحے پہلے جو فصل تہس نہس تھی اب ایک سر سبز و شادات کھیت کی صورت میں لہلہاتی ہوئی نظر آ رہی تھی ۔ یہ دیکھنا تھا کہ زمیندار کی حالت عجب ہوگئی وہ آپ کے قدموں میں گر کر گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا ۔شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف بری امام سرکار نے آج سے ساڑھے تین سو سال پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ نور پور پوٹھوہار ( اسلام آباد ) کا یہ خطہ ایک دن نہ صرف فرزندان توحید کا مرکز بلکہ عالی شان چمکتا دمکتا شہر بن جائے گا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں ہوگا ۔

حضرت بری امام سرکار کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور یہاں اسلام آباد کے نام سے ایک شہر بن گیا جو آج مملکت خداداد پاکستان کا دار الحکومت ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سطح پر ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ترجمان کے عظیم شرف سے ہمکنار ہے ۔ حضرت بری امام سرکار کو قطب الاقطاب اور ولی اللہ کا مقام حاصل ہوا ۔ یہ مقام تصوف میں بڑی کاوشوں ٗ محنتوں ٗ جانشفانیوں ٗ محبت ٗ لگن اور عشق حقیقی سے حاصل ہوتا ہے ۔ آپ ؒ نے فقہ اور حدیث کی تعلیم نجف اشرف سے حاصل کی اور اس کے بعد آپ مقدس مقامات کی زیارت کیلئے مکہ معظمہ ٗ مدینہ منورہ ٗ کربلائے معلی اوردوسرے اسلامی ممالک میں تشریف لے گئے اور وہاں موجود جید علماء اور اولیائے سے مزید دینی علوم اور روحانی فیوض حاصل کئے ۔ بری امام یہ سفر بارہ سال پر محیط ہے ۔ آپ مستقلاً وہاں ولی کامل حضرت حیات المیر ؒ سے بیعت تھے ۔ انہیں بری امام کا لقب ان کے مرشد حضرت حیات المیر ؒ ہی نے عطاء کیا تھا -     

اسلام آباد ٗ نام ہی ایسا ہے کہ کسی اللہ والے کی منظوری کی دلالت کرتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسلام آباد جیسے پاکستان کے خوبصورت ترین اور دنیا کے بے مثال دارالخلافوں میں شامل شہر کی بنیاد گیارہویں صدی عیسوی میں حضرت شاہ عبدالطیف المعروف بری امام سرکار نے رکھی تھی ٗ آج بھی مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں آپ کا دربار مرجع خلائق ہے جہاں روزانہ ہزاروں لوگ پیٹ کی بھوک اور روح کی پیاس بجھاتے ہیں ٗ بری امام سرکار نے اس جگہ اس وقت ڈیر جمایا جب پنجاب سے کشمیر جانے والی سڑک کے نزدیک اس جنگل میں چور اور لٹیرے رہا کرتے تھے جو کشمیر جانے والے قافلوں کو لوٹ کر یہاں چھپ جاتے مگر مارگلہ کی پہاڑی کے اور ایک غار ( لوہی دندی ) میں آپ نے چلہ مکمل کیا اور تصوف و سلوک کے رمز آشنا ہوئے تو مرشد کے حکم سے اس جگہ قیام کرنے کا فیصلہ کیا جب یہ جگہ "چور پور "کہلاتی تھی مگر شاہ عبدالطیف بری امام سرکار کی نظر فیض بار نے نہ صرف چوروں کو سیدھا راستہ دکھایا بلکہ آپ کے فیض و برکات کا نور پھیلنے لگا تو یہ علاقہ "نور پور "بن گیا ۔ اور یہ بھی حضرت بری سرکار کی زندہ کرامت ہے کہ نور پور پھیل کر "اسلام آباد "بن گیا ٗ                                                            

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر