یونان کشتی حادثہ
-انسانی اسمگلروں کا یہ تمام دنیا میں
اتہائ منظّم طریقہ پر پھیلا ہوا وہ نیٹ ورک ہے جو یونان کشتی کوئ نِا حادثہ تو نہیں
تھا چند مہینوں کے اندر یہ تیسرا بڑا حادثہ تھا حکومتی کارندوں کی خفیہ سرپرستی میں
سالانہ بنیادوں پر کئ ارب روپئے کا بزنس کر رہا ہے -ٹوٹی کشتیاں کرائے پر لے کر کسی
بھی ملک کے نوجوانوں کو اپنےکمیشن پر رکھّے ہوئے ایجنٹوں کے زریعہ ورغلا کر لاکھوں
روپے بٹور کر معصوم نوجوانوں کو موت کے غار میں دھکیل کر پھر اگلے شکار کرنے نکل
پڑتا ہے- یہ وہی مافیا ہے جس کو اقوام متحدہ نے اپنے ایک کنونشن کے مطابق اس کو
آرگنائز کرائم قرار دیا ہے۔ جنرل اسمبلی کے ریزولیشن نمبر 54/212 میں تمام
حکومتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ اس آرگنائز کرائم کے سرغنوں اور گینگز کو پکڑا
جائے تاکہ ہیومن اسمگلنگ کا قلع قمع ہو - اس ضمن میں تمام ممالک کواپنی لاان فورسز
ایجنسیزکو فعال کرنا ہو گاتاکہ اس مافیا کا خاتمہ ہوسکے۔
یونان کشتی
کوئ نِا حادثہ تو نہیں تھا چند مہینوں کے اندر یہ تیسرا بڑا حادثہ تھا -اس سے قبل
چند ہفتوں کے کے فرق سے اٹلی کے پانیوں میں اور لیبیا کے سمندر میں بھی کافی بڑِ
تعداد میں پاکستانی جاں بحق ہوئےلیکن مجال ہے جو کسی فرد یا کسی ادارے نے ان
حادثات کا نوٹس لیا ہو-جہاں پائلوس کے جنوب میں 50کلو میٹر کے فاصلے پر یہ کشتی ڈوب
گئی۔حادثہ کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ملاح تارکین وطن کو سمندر کے درمیان چھوڑ
کر خود ایک چھوٹی کشتی میں فرار ہو گیا تھا۔ معلومات کے مطابق صوبہ پنجاب کے اضلاع
منڈی بہائو الدین، گجرات، گوجرانوالہ، شیخوپورہ کے نوجوان بھی اس کشتی میں سوار
تھے یونان میں پاکستانی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی ایک ٹیم یونانی
حکام سے رابطے میں ہے اور ابتدائی معلومات کے بعد 12پاکستانیوں کو بچالیا گیا ہے
۔جن پاکستانیوں کو بچایا گیا ہے ان میں محمد عدنان بشیر اور حسیب الرحمن کا تعلق
کوٹلی سے ہے ۔یونان کی عبوری حکومت نے کشتی کے اس بڑے حادثے کے پیش نظر ملک میں
3دن سوگ منانے کا اعلان کیا ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ یونان
میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے بعد 500سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں خوشحال خان
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کیل سیکٹر کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ ان کا دعویٰ
ہے کہ یونان کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والوں میں اُن کا بھتیجا شبہاز محمود اور تین
پڑوسی چوہدری آزاد، چوہدری ناصر اور نبیل بٹ بھی شامل ہیں۔وہ یاد کرتے ہیں کہ
شہباز کو ’اس کے والد نے منع کیا، والد ہی نہیں بلکہ سب جاننے والوں نے منع کیا
تھا کہ یہ کام نہ کرو۔مگر وہ لگ بھگ دو ماہ پہلے سعودی عرب سے واپس (پاکستان) آیا،
گھر میں صرف پانچ دن رہا اور پھر یورپ سفر
پر روانہ ہو گیا۔‘خوشحال کے مطابق ان کے بھتیجے شہباز کے دو بچے ہیں اور وہ اپنے
خاندان کا واحد سہارا تھا۔انھوں نے کہا کہ ان کا بھتیجا بھی اُسی کشتی پر سوار تھا
جسے یونان کے قریب حادثہ پیش آیا۔ شہباز نے کشتی پر روانہ ہونے سے قبل اپنے گھر
والوں کو اس بابت آگاہ کیا تھا۔یاد رہے کہ 14 جون کو جنوبی یونان کے ساحل پر ماہی
گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا تھا جسے یورپ میں تارکین
وطن کو پیش آنے والے بدترین واقعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔کشتی ڈوبنے کے
اس واقعے میں اب تک کم از کم 78 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 104 افراد
کو بچایا جا چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے کہا کہ اس واقعے میں خواتین اور بچوں سمیت
لگ بھگ 500 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔
یونان میں
پاکستانی سفارتخانے کے اہلکاروں کے مطابق جس جگہ کشتی ڈوبی ہے وہاں سمندر انتہائی
گہرا ہے۔بچائے جانے والے 104 افراد میں 12 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں جن کا تعلق
گجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گجرات اور پاکستان کے زیر
انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے۔رپورٹس کے مطابق اس کشتی پر 750 سے زیادہ افراد
سوار تھے جن میں سے 100 کے لگ بھگ بچے سوار کیئے گئے تھے-یونان نے اسے تاریخ کے
بڑے کشتی حادثوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔دوسری
جانب یونان میں پاکستان کےسفارتخانے نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر یونانی حکام کے
ساتھ رابطے میں ہیں اور انھوں نے ایسے تمام پاکستانیوں سے گزارش کی ہے کہ اگر ان
کا کوئی رشتہ دار یا جاننے والا اس کشتی پر سوار تھا تو اس سے متعلق شناختی تفصیلات
ایتھنز میں پاکستانی سفارتخانے کو فراہم کی جائیں۔یونان میں کشتی حادثے میں
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی کے کیل سیکٹر کے علاقے کے متعدد نوجوان
سوار ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مقامی لوگ اس بارے میں متفرق اعداد و
شمار بتا رہے ہیں۔تاہم بی بی سی نے کوٹلی میں تین ایسے خاندانوں سے رابطہ کیا جن
کے قریبی رشتہ داروں کو خدشہ ہے کہ ان کے پیارے اس کشتی پر سوار تھے اور اب وہ
لاپتہ ہیں۔محمد مبشر کوٹلی کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے
چچا آفتاب قاسم اور ایک قریبی عزیز انعام شفاعت ماہ رمضان کے بعد اٹلی کے سفر پر
روانہ ہوئے تھے۔ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ پہلے پاکستان سے لیبیا پہنچیں گے، جس کے
بعد ان کی منزل اٹلی تھی۔ وہ کافی عرصے سے گھر سے نکلے ہوئے تھے اور گاہے بگاہے
اپنی خیریت سے آگاہ کرتے رہے تھے۔‘محمد مبشر کے مطابق ’چند دن قبل ہمیں اطلاع ملی
کہ اُن کو لیبیا میں مسائل کا سامنا ہے اور فی الحال وہ لیبیا ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اس کے بعد پتا چلا کہ انعام شفاعت کشتی میں بیٹھ کر اگلی منزل کی جانب روانہ ہو
گئے ہیں جبکہ آفتاب قاسم ابھی بھی لیبیا میں ہیں۔ جب ہمیں اس حادثے کا پتا چلا تو
ہم نے آفتاب قاسم سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ وہی کشتی ہے جس میں انعام
شفاعت سوار تھے۔
محمد مبشر
بتاتے ہیں کہ ان کے لیبیا میں موجود کزن آفتاب قاسم نے یہ بھی بتایا کہ اس کشتی میں
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کیل سیکٹر کے کافی لوگ سوار تھے۔ انھیں
تعداد کا اندازہ نہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ کشتی میں سوار کافی نوجوانوں کا تعلق
ان ہی کے علاقے سے تھا اور وہ سب تقریباً ساتھ ہی اپنے علاقے سے نکلے تھے۔مبشر نے
بتایا کہ گذشتہ دو روز سے ان کا لیبیا میں موجود آفتاب قاسم سے بھی رابطہ قائم نہیں
ہو رہا ہے محمد مبشر کہتے ہیں کہ انھوں نے گاؤں کے لوگوں سے بات کی ہے اور ان کو
جو تفصیلات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق کیل سیکٹر کے ایک گاؤں سے کافی تعداد میں
افراد یورپ جانے کے لیے نکلے تھے۔کوٹلی ہی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے مقصود نگڑیال
نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انھیں خدشہ ہے کہ اس کشتی پر ان کے پانچ قریبی
رشتہ داروں کے علاوہ علاقے کے دو درجن کے لگ بھگ افراد سوار ہو سکتے ہیں۔مقصود نگڑیال
نے بتایا کہ پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اسی علاقے سے تعلق
رکھنے والے دو نوجوانوں حسیب اور عدنان بشیر کو بچا لیا گیا ہے۔ ’حسیب اور عدنان
ہمارے ہی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘مقصود نے دعویٰ کیا کہ اُن کی بچنے والے دونوں
نوجوانوں سے بات ہوئی ہے جنھوں نے بتایا ہے کہ ’ہمارے علاقے کے 30 نوجوان کشتی پر
سوار تھے۔‘مقصود نگڑیال کا کہنا تھا کہ ان لاپتہ افراد میں ان کے خاندان کے پانچ
قریبی لوگ موجود ہیں جن میں شہباز محمود (چچا زاد بھائی)، حمید حسین (داماد)، خادم
حسین (تایا زاد)، یوسف حسین (چچا زاد بھائی) اور مسکین (تایا زاد بھائی) شامل ہیںاگر
حکومت قانونی طریقے سے باعزت طور پر ان نوجوانوں کو بیرون ملک بھجوانے کا بندوبست
کر ے تو اس سے نہ صرف ایسےحادثات سے بچا جاسکتا ہے بلکہ آئی ایم ایف جیسے اداروں
کی چوکھٹ پر ناک رگڑ نے سے بھی نجات مل سکتی ہے ۔اس کیلئے کوئی لمبا چوڑا بجٹ بھی
درکار نہیں ۔ضرورت صرف اتنی ہے کہ نوجوانوں کو مختلف ممالک میں کار آمد ہنر
سکھائے جائیں اور متعلقہ ممالک کی زبانیں سکھا کر سفارتی ذرائع سے زیادہ سے زیادہ
ہنر مندوں کو باہر بھیجا جائے ۔ جس طرح 2دہائیوں سے فلپائن ،بنگلہ دیش اور بھارت
کر رہے ہیں۔ یقین رکھیں حکومت اگر اپنے نوجوانوں کا ہنر ایکسپورٹ کرنے کی منصوبہ
بندی کرلے تو زرمبادلہ کے معاملہ میں خود کفیل ہو سکتی ہے۔۔