آج تیسری دنیا کا تنہا ہوتا ہو
ا سماج
کیا عجب دستور دنیا ہے -ایک بچّہ جب
اپنے ماں باپ کے آنگن میں پیدا ہوتا ہے تو گھر کے تمام رشتے اس کو اپنا بچّہ کہہ
کر پکارتے ہیں -پھر وہ بچّہ پل بڑھ کر جوان ہو جاتا ہے اور ماں باپ بہت ارمانوں سے
اس کی شادی کرتے ہیں خواہ لڑکی ہو یا لڑکا لیکن موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق یہ
بچّہ جو کہ خود ایک گھر بارمالک بن چکا ہوتا ہے اپنے دیس کو چھوڑ کر پرائے دیس میں
جابسنے کا ارادہ کرتا ہے اور پھر وہ دیس پرائے جا کر اس طرح آباد ہوتا ہے کہ
جانووہ وہیں کے لئے پیدا ہواتھا اور اب اس کے پیچھے رہ جانے والے بوڑھے ماں باپ اس
کی شکل دیکھنے کو ترستے ہیں -آ ج کی تیسری دنیا کا معاشرہ اسی المیہ سے دو
چارہےآئے آپ کو میں انڈیا کے ایک شہر کی کہانی سناوں جس کے بوڑھے مکین تنہا اور اکیلے
ہیں یہ مضمون میں نے بی بی سی اردو سے لیا ہے-دنیا کے سب سے گنجان آباد ملک کا ویران
قصبہ، جہاں ’بڑھاپا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن کر
ایک طرف تو انڈیا چین کو پیچھے چھوڑتا نظر آ رہا ہے لیکن دوسری جانب ملک کے کچھ
حصوں میں آبادی کا بحران ہے جہاں شرح پیدائش بہت نیچے آ گئی ہے اور نوجوانوں کی
ہجرت نے اپنے پیچھے بوڑھوں کی آبادی والے قصبوں کو چھوڑ دیا ہے۔برسوں سے، کیرالہ
کے اس قصبے میں سکولوں کو ایک غیر معمولی مسئلے کا سامنا ہے، یہاں طلبہ کی کمی ہے
اور اساتذہ کو انھیں تلاش کر کے لانا پڑتا ہے۔ طلبا کو سکول لانے کے لیے بھی انھیں
اپنی جیب سے ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔کمباناد میں ایک ڈیڑھ سو سال پرانا گورنمنٹ
پرائمری سکول، جو 14 سال کی عمر تک کے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، وہاں صرف 50 طلبہ ہیں،
جو 1980 کی دہائی کے آخر تک تقریباً 700 تھے۔
ان میں سے زیادہ تر غریب اور پسماندہ خاندانوں
سے ہیں جو شہر کے بالکل کنارے پر رہتے ہیں۔یہاں صرف سات طلبا کے ساتھ، ساتویں
جماعت سب سے بڑی کلاس ہے۔ 2016 میں، اس کلاس میں صرف ایک طالب علم تھا۔ طلبا کو
سکول میں لانا ایک چیلنج ہے۔ اس کے آٹھ اساتذہ میں سے ہر ایک طالب علموں کو گھر سے
سکول لانے اور لے جانے کے لیے آٹو رکشہ کی ادائیگی کے لیے ہر ماہ 2,800 روپے خرچ
کرتا ہے۔وہ گھر گھر جا کر شاگردوں کی تلاش بھی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ علاقے کے چند
نجی سکول بھی اساتذہ کو طلبا کی تلاش کے لیے بھیج رہے ہیں، یہاں کے سب سے بڑے سکول
میں بمشکل 70 طالبِعلم ہیں۔پرائمری سکول میں ایک دھندلی سی دوپہر میں آپ بمشکل ہی
اسباق کی گونج اور بچوں کی آوازیں سن سکتے تھے جو ایک مصروف سکول میں سنی جا سکتی
ہیں۔
وہاں اس کے برعکس، اساتذہ چند بچوں کو نیم اندھیرے
اور خاموش کلاس رومز میں پڑھا رہے تھے۔ باہر، دھوپ سے بھرے صحن میں چند طالب علم
ادھر ادھر گھوم رہے تھے-سکول کی پرنسپل جیا دیوی آر نے کہا ’ہم کیا کر سکتے ہیں؟
اس قصبے میں بچے ہی نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہاں بمشکل ہی کوئی رہتا ہے۔‘تقریباً 15
فیصد گھروں میں تالے لگے ہوئے ہیں کیونکہ رہائشی نقل مکانی کر چکے ہیں یا اپنے
بچوں کے ساتھ بیرون ملک مقیم ہیں-کمباناد کیرالہ کے پٹھانمتھیٹا ضلع کے مرکز میں
واقع ہے جہاں آبادی میں کمی آ رہی ہے اور بزرگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسے
ملک میں ہے جہاں 47 فیصد لوگ 25 سال سے کم عمر ہیں اور ان میں سے دو تہائی 1990 کی
دہائی کے اوائل میں انڈیا میں آزاد معیشت کے دور کے بعد پیدا ہوئے۔
کمباناد اور اس کے آس پاس کے نصف درجن
گاؤں میں تقریباً 25,000 لوگ رہتے ہیں۔ مقامی ویلج کونسل کی سربراہ آشا سی جے کا
کہنا ہے کہ یہاں کے گیارہ ہزار سے زائد گھروں میں سے تقریباً 15 فیصد پر تالے لگے
ہوئے ہیں کیونکہ مالکان اپنے بچوں کے ساتھ بیرون ملک ہجرت کر چکےہیں۔ یہاں 20 سکول
ہیں لیکن طلبہ کی تعداد بہت کم ہے۔ایک ہسپتال، ایک سرکاری کلینک، 30 سے زیادہ تشخیصی
مراکز اور تین اولڈ ایج ہوم اس علاقے کی بزرگ آبادی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دو درجن
سے زیادہ بینک، یہاں آنے والی ترسیلات کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔انڈیا نے پچھلے سال
بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں سے جو 100 ارب ڈالر کی ترسیلات زر جمع کیں، ان میں سے
تقریباً 10 فیصد کیرالہ میں آئے۔ریاست میں 30 سال سے شرح پیدائش فی عورت 1.7 سے
1.9 ہے۔ چھوٹے خاندان اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچوں کی اچھی تعلیم ہو۔ اس سے
نوجوان اپنے والدین کو گھر پر چھوڑ کر مواقع کے لیے ملک کے اندر اور باہر تیزی سے
ہجرت کر رہے ہیں اور ان کے والدین پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اناما جیکب کئی دہائیوں سے اپنے دو
منزلہ گھر میں اکیلی رہ رہی ہیں ممبئی میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار پاپولیشن
سائنسز کے پروفیسر کے ایس جیمز نے کہا کہ ’تعلیم بچوں کو بہتر ملازمتوں اور زندگیوں
کی ہوتی ہے اور وہ نقل مکانی کرتے ہیں۔‘’ان کے آبائی شہروں یا قصبوں میں پھر ان کے
بوڑھے والدین آباد ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر اکیلے رہتے ہیں۔‘74 سالہ اناما جیکب
کمبود میں اپنے دو منزلہ سرخ ٹائل والے گھر میں کئی دہائیوں سے تنہا رہ رہی ہیں۔
ان کے شوہر جو ایک سرکاری تیل کمپنی میں مکینیکل انجینیئر تھے، 1980 کی دہائی میں
انتقال کر گئے۔ ان کا 50 سالہ بیٹا دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ابوظہبی میں کام
کر رہا ہے۔ ایک بیٹی چند میل دور رہتی ہے لیکن بیٹی کا شوہر دبئی میں تین دہائیوں
سے سافٹ ویئر انجینیئر کے طور پر کام کر رہا ہے۔ان کے پڑوسی غائب ہیں، ایک نے اپنے
گھر کو تالا لگا دیا اور اپنے والدین کو بحرین لے گئیں جہاں وہ بطور نرس کام کرتی
ہیں۔ دوسرا دبئی چلا گیا اور اپنا گھر ایک بزرگ جوڑے کو کرائے پر دے دیا۔
یہ محلہ ویرانی کی تصویر پیش کرتا ہے۔انڈیا کے
افراتفری اور ہلچل سے بھرے قصبوں کے برعکس، کمباناد کے کچھ حصے واقعی ویران اور
وقت کے ساتھ آدھے منجمد ہیں۔ یہ ایک ایسا قصبہ ہے جسے اس کے بہت سے باشندوں نے ترک
کر دیا لیکن یہ کھنڈرات میں تبدیل نہیں ہو رہا۔ویران گھروں کو باقاعدگی سے پینٹ کیا
جاتا ہے، تقریباً اسی طرح جیسے کسی بھی دن وہاں کے مکین واپس آ سکتے ہیں حالانکہ
وہ شاذو نادر ہی وہاں آتے ہیں۔ اناما جیکب کا کہنا تھا کہ ’یہاں زندگی بہت تنہا
ہے۔ میری صحت بھی اچھی نہیں۔‘74 سالہ چاکو ممین اپنی خراب صحت کے باوجود کیلے کی
کاشت کر رہے ہیں -دل کی بیماری اور جوڑوں کے درد کے باوجود، جیکب اپنے بیٹے اور
پوتے پوتیوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے بیرون ملک سفر کر چکی ہیں اور اپنے بچوں کے
ساتھ اردن، ابوظہبی، دبئی اور اسرائیل می