بدھ، 5 اپریل، 2023

امام المتقین حضرت امام محمدتقی علیہ السلام

 

 

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام

ولادت باسعادت

علماء کابیان ہے کہ امام المتقین حضرت امام محمدتقی علیہ السلام بتاریخ ۱۰/ رجب المرجب ۱۹۵ ھ بمطابق ۸۱۱ ء یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ متولد -ہوئے تھے علامہ یگانہ جناب شیخ مفیدعلیہ الرحمة فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کے کوئی اولادآپ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئ لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکاہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولادکیاہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی (ارشاد ص ۴۷۳) ۔علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاتھا کہ میرے یہاں جوبچہ عنقریب پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا (اعلام الوری ص ۲۰۰) ۔

واقعہ ولادت کے متعلق لکھاہے کہ امام رضاعلیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلاکر کہاکہ آج تم میرے گھرمیں قیام کرو،کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کوخدامجھے ایک فرزندعطافرمائے گا ،میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی جب رات آئی توہمسایہ کی اورچندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پریکایک وضع حمل کے آثارنمودارہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن کردیا تھوڑی دیرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پیداہوئے میں نے دیکھاکہ وہ مختون اورناف بریدہ ہیں ولادت کے بعدمیں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگیامگرپھربھی اس حجرہ میں روشنی بدستوررہی ،اوراتنی روشنی رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کونہلادیا،

تھوڑی دیرمیں میرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے میں نے نہایت عجلت کے ساتھ صاحبزادے کوکپڑے میں لپیٹ کر حضرت کی آغوش میں دیدیا آپ نے  آ زان  و اقا مت کے  بعد سراورآنکھوں پربوسہ دیے کرپھرمجھے واپس کردیا، دودن تک امام محمدتقی علیہ السلام کی آنکھیں بندرہیں تیسرے دن جب آنکھیں کھلیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظرکی پھرداہنے بائیں دیکھ کرکلمہ شہادتین زبان پرجاری کیا میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئی اورمیں نے ساراماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا، آپ نے فرمایاتعجب نہ کرو، یہ میرا فرزندحجت خدااوروصی رسول ہدی ہے اس سے جوعجائبات ظہورپذیرہوں ،ان میں تعجب کیا؟ محمدبن علی ناقل ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مہر امامت تھی جس طرح دیگرآئمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مہریں ہواکرتی تھیں(مناقب)۔نام کنیت اورالقاب -آپ کااسم گرمی ،لوح محفوظ کے مطابق  آپ کے والدماجدحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ”محمد“ رکھا  ۔امام محمدتقی کی نشونمااورتربیت

یہ ایک حسرتناک واقعہ ہے کہ امام محمدتقی علیہ السلام کونہایت کمسنی ہی کے زمانہ میں مصائب اورپریشانیوں کامقابلہ کرنے کے لیے تیارہوجانا پڑاانہیں بہت ہی کم اطمینان اورسکون کے لمحات میں ماں باپ کی محبت اورشفقت وتربیت کے سایہ میں زندگی گزارنے کاموقع مل سکا آپ کوصرف پانچ برس تھا،جب حضرت امام رضاعلیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف سفرکرنے پرمجبورہوئے امام محمدتقی علیہ السلام اس وقت سے جواپنے باپ سے جداہوئے توپھرزندگی میں ملاقات کاموقع نہ ملا، امام کوعلم لدنی ہوتاہے --یہ انبیاء کی طرح پڑھے لکھے اورتمام صلاحیتوں سے بھرپورپیداہوتے ہیں انہوں نے سرورکائنات کی طرح کبھی کسی کے سامنے زانوئے تلمذ نہیں تہ کیا اورنہ کرسکتے تھے، یہ اس کے بھی محتاج نہیں ہوتے تھے کہ آباؤاجدادانہیں تعلیم دیں، یہ اوربات ہے کہ ازدیادعلم وشرف کے لیے ایساکردیاجائے، یاعلوم مخصوصہ کی تعلیم دیدی جائے۔

والدماجدکے سایہ عاطفیت سے محرومی-یو ں توعمومی طورپرکسی کے باپ کے مرنے سے سایہ عاطفت سے محرومی ہواکرتی ہے لیکن حضرت امام محمدتقی علیہ السلام اپنے والدماجدکے سایہ عاطفت سے ان کی زندگی ہی میں محروم ہوگئے تھے،ابھی آپ کی عمر ۶ سال کی بھی نہ ہونے پائی تھی کہ آپ اپنے پدربزرگوارکی شفقت وعطوفت سے محروم کردیئے گئے اورمامون رشیدعباسی نے آپ کے والدماجدحضرت امام رضاعلیہ السلام کواپنی سیاسی غرض کے ماتحت مدینہ سے خراسان طلب کرلیا۔اورساتھ ہی یہ شق بھی لگادی کہ آپ کے بال بچے مدینہ ہی میں رہیں گے جس کانتیجہ یہ ہواکہ آپ سب کوہمیشہ کے لیے خیربادکہہ کرخراسان تشریف لے گئے اوروہیں عالم غربت میں سب سے جدامامون رشیدکے ہاتھوں ہی شہیدہوکردنیاسے رخصت ہوگئے۔آپ کے مدینہ سے تشریف لے جانے کااثرخاندان پریہ پڑا کہ سب کے دل کاسکون جاتارہا-

مامون رشیدعباسی اورحضرت امام محمدتقی علیہ السلام کاپہلاسفرعراق

عباسی خلیفہ مامون رشیدحضرت امام رضاعلیہ السلام کی شہادت سے فراغت کے بعدیااس لیے کہ اس پرامام رضاکے قتل کا الزام ثابت نہ ہوسکے یااس لیے کہ وہ امام رضاکی ولیعہدی کے موقع پراپنی لڑکی ام حبیب کی شادی کااعلان بھی کرچکاتھا کہ ولی عہدکے فرزندامام محمدتقی کے ساتھ کرے گا اسے نبھانے کے لیے یااس لیے کہ ابھی اس کی سیاسی ضرورت اسے امام محمدتقی کی طرف توجہ کی دعوت دے رہی تھی ،بہرحال جوبات بھی ہو،اس نے یہ فیصلہ کرلیاکہ امام محمدتقی علیہ السلام کومدینہ سے دعوت نامہ ارسال کیا اورانہیں اسی طرح مجبورکرکے بلایاجس طرح امام رضاعلیہ السلام کوبلوایاتھا ”حکم حاکم مرگ مفاجات“ بالاخرامام محمدتقی علیہ السلام کوبغدادآناپڑا۔

بازاراورمچلی کاواقعہ-امام محمدتقی علیہ السلام اگرچہ مدینہ میں قیام فرماتھے لیکن فرائض کی وسعت نے آپ کومدینہ ہی کے لے محدودنہیں رکھاتھا آپ مدینہ میں رہ کراطراف عالم کے عقیدت مندوں کی خبرگیری فرمایاکرتے تھے یہ ضروری نہیں کہ جس کے ساتھ کرم گستری کی جائے وہ آپ کے کوائف وحالات سے بھی آگاہ ہوعقیدہ کاتعلق دل کی گہرائی سے ہے کہ زمین وآسمان ہی نہیں ساری کائنات ان کے تابع ہوتی ہے انہیں اس کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ کسی سفرمیں طے مراحل کے لیے زمین اپنے قدموں سے نانپاکریں، ا ن کے لیے یہی بس ہے کہ جب اورجہاں چاہیں چشم زدن میں پہنچ جائیں اوریہ عقلا محال بھی نہیں ہے ایسے خاصان خدا کے اس قسم کے واقعات قران مجیدمیں بھی ملتے ہیں۔

آصف بن برخیاوصی جناب سلیمان علیہ السلام کے لیے علماء نے اس قسم کے واقعات کاحوالہ دیاہے ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ مدینہ منورہ سے روانہ ہوکرشام پہنچے، وہاں ایک شخص کواس مقام پرعبادت میں مصروف ومشغول پایاجس جگہ امام حسین کاسرمبارک لٹکایاگیاتھا آپ نے اس سے کہاکہ میرے ہمراہ چلووہ روانہ ہوا، ابھی چندقدم نہ چلاتھا ،کہ کوفہ کی مسجدمیں جاپہنچا وہاں نمازاداکرنے کے بعد جوروانگی ہوئی، توصرف چندمنٹوں میں مدینہ منورہ جاپہنچے اورزیارت ونمازسے فراغت کی گئی، پھروہاں سے چل کر لمحوں میں مکہ معظمہ رسیدگی ہوئی ،طواف ودیگرعبادت سے فراغت کے بعدآپ نے چشم زدن میں اسے شام کی مسجدمیں پہنچادیا۔

اورخود نظروں سے اوجل ہوکرمدینہ منورہ جاپہنچے پھرجب دوسراسال آیا توآپ بدستورشام کی مسجدمیں تشریف لے گئے اوراس عابدسے کہاکہ میرے ہمراہ چلو،چنانچہ وہ چل پڑاآپ نے چندلمحوں میں اسے سال گزشتہ کی طرح تمام مقدس مقامات کی زیارت کرادی پہلے ہی سال کے واقعہ سے وہ شخص بے انتہامتاثرتھا ہی، کہ دوسرے سال بھی ایساہی واقعہ ہوگیااب کی مرتبہ اس نے مسجدشام واپس پہنچتے ہی ان کادامن تھام لیا اورقسم دے کرپوچھا کہ فرمائیے آپ اس عظیم کرامت کے مالک کون ہیں آپ نے ارشادفرمایا کہ میں محمدبن علی (امام محمدتقی ہوں) اس نے بڑی عقیدت اورتعظیم وتکریم کے مراسم ا داکئے۔

آپ کے واپس تشریف لے جانے کے بعد یہ خبربجلی کی طرح تمام پھیل گئی جب والی شام محمدبن عبدالملک کواس کی اطلاغ ملی اوریہ بھی پتہ چلاکہ لوگ اس واقعہ سے بے انتہامتاثرہوگئے ہیں تواس نے اس عابدپر”مدعی نبوت“ ہونے کاالزام لگاکراسے قیدکردیا اورپھرشام سے منتقل کرو اکے عراق بھجوادیا اس نے والی کوقیدخانہ سے ایک خط بھیجا جس میں لکھاکہ میں بے خطاہوں، مجھے رہاکیاجائے، تواس نے خط کی پشت پرلکھاکہ جوشخص تجھے شام سے کوفہ اورکوفہ سے مدینہ اوروہاں سے مکہ اورپھروہاں سے شام پہنچاسکتاہے اپنی رہائی میں اسی کی طرف رجوع کر۔

اس جواب کے دوسرے دن یہ شخص مکمل سختی کے باوجود، سخت ترین پہرہ کے ہوتے ہوئے قیدخانہ سے غائب ہوگیا، علی بن خالدراوی کابیان ہے کہ جب میں قیدخانہ کے پھاٹک پرپہنچا تودیکھاکہ تمام ذمہ داران حیران وپریشان ہیں، اورکچھ پتہ نہیں چلتا کہ عابد شامی زمین میں سماگیا یاآسمان پراٹھالیاگیا، علامہ مفید علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے علی بن خالد جودوسرے مذہب کاپیروتھا، امامیہ مسلک کامعتقدہوگیا (شواہدالنبوت ص ۲۰۵ ،نورالابصار ص ۱۴۶ ، اعلام الوری ص ۷۳۱ ، ارشادمفید ص ۴۸۱) ۔

امام محمدتقی علیہ السلام جن کی عمراس وقت تقریبا ۹ سال کی تھی ایک دن بغدادکے کسی گزرگاہ میں کھڑے ہوئے تھے اورچند لڑکے وہاں کھیل رہے تھے کہ ناگہاں خلیفہ مامون کی سواری دکھائی دی، سب لڑکے ڈرکربھاگ گئے مگرحضرت امام محمدتقی علیہ السلام اپنی جگہ پرکھڑے رہے جب مامون کی سواری وہاں پہنچی تواس نے حضرت امام محمدتقی سے مخاطب ہوکرکہاکہ صاحبزادے جب سب لڑکے بھاگ گئے تھے توتم کیوں نہیں بھاگے انہوں نے بے ساختہ جواب دیا کہ میرے کھڑے رہنے سے راستہ تنگ نہ تھا جوہٹ جانے سے وسیع ہوجاتااورمیں نے کوئی جرم نہیں کیاتھا کہ ڈرتا نیزمیراحسن ظن ہے کہ تم بے گناہ کوضررنہیں پہنچاتے مامون کوحضرت امام محمدتقی کااندازبیان بہت پسندآیا۔

اس کے بعدمامون وہاں سے آگے بڑھا،اس کے ساتھ شکاری بازبھی تھے جب آبادی سے باہرنکل گیا تواس نے ایک بازکوایک چکورپرچھوڑابازنظروں سے اوجھل ہوگیا اورجب واپس آیاتو اس کی چونچ میں ایک چھوٹی سی مچھلی تھی جس کودیکھ کرمامون بہت متعجب ہواتھوڑی دیرمیں جب وہ اسی طرف لوٹاتواس نے حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کودوسرے لڑکوں کے ساتھ وہیں دیکھا جہاں وہ پہلے تھے لڑکے مامون کی سواری دیکھ کرپھربھاگے لیکن حضرت امام محمدتقی علیہ السلام بدستورسابق وہیں کھڑے رہے جب مامون ان کے قریب آیاتومٹھی بندکرکے کہنے لگاکہ صاحبزادے بتاؤ،میرے ہاتھ میں کیاہے انہوں نے فرمایاکہ اللہ تعالی نے اپنے دریائے قدرت مین چھوٹی مچھلیاں پیداکی ہیں اورسلاطین اپنے بازسے ان مچھلیوں کاشکارکرکے اہلبیت رسالت کے علم کاامتحان لیتے ہیں یہ سن کرمامون بولا! بے شک تم علی بن 

موسی رضاکے فرزندہو، پھران کواپنے ساتھ لیتاگیا (صواعق محرقہ ص ۱۲۳

حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے ہدایات وارشادات 

۔ اپنی خواہشات کواتنانہ بڑھاؤکہ دل تنگ ہوجائے۔ ۲۶ ۔ اپنے ضعیفوں پررحم کرو اوران پرترحم کے ذریعہ سے اپنے لیے خداسے رحم کی درخواست کرو۔

 ۔ عام موت سے بری موت وہ ہے جوگناہ کے ذریعہ سے ہو اورعام زندگی سے خیروبرکت کے ساتھ والی زندگی بہترہے۔

 ۔ جوخداکے لیے اپنے کسی بھائی کو فائدہ پہنچائے وہ ایساہے جیسے اس نے اپنے لیے جنت میں گھربنالیا۔

 ۔ جوخداپراعتمادرکھے اوراس پرتوکل اوربھروسہ کرے خدااسے ہربرائی سے بچاتاہے اوراس کی ہرقسم کے دشمن سے حفاظت کرتاہے۔

 ۔ دین عزت ہے، علم خزانہ ہے اورخاموشی نورہے۔ ۳۱ ۔ زہدکی انتہاورع وتقوی ہے۔ ۳۲ ۔ دین کوتباہ کردینے والی چیزبدعت ہے۔

 ۔ انسان کوبربادکرنے والی چیز”لالچ“ ہے۔ ۳۴ ۔ حاکم کی صلاحیت رعایاکی خوشحالی کادارومدارہے۔ ۳۵ ۔ دعاکے ذریعہ سے ہربلاٹل جاتی ہے ۔

 ۔ جوصبروضبط کے ساتھ میدان میں آجائے وہ کامیاب ہوگا۔ ۳۷ ۔ جودنیامیں تقوی کابیج بوئے گا آخرت میں دلی مرادوں کاپھل پائے گا۔(نورالابصار ص ۱۴۸ طبع مصر)۔

امام محمدتقی کی نظربندی، قیداورشہادت

مدینہ رسول سے فرزندرسول کوطلب کرنے کی غرض چونکہ نیک نیتی پرمبنی نہ تھی،اس لیے عظیم شرف کے باوجودآپ حکومت وقت کی کسی رعایت کے قابل نہیں متصورہوئے معتصم نے بغدادبلواکرآپ کوقیدکردیا، علامہ اربلی لکھتے ہیں ، کہ چون معتصم بخلافت بہ نشست آنحضرت راازمدینہ طیبہ بدارالخلافة بغداد آورد وحبس نمود(کشف الغمہ ص ۱۲۱) ۔

ایک سال تک آپ نے قیدکی سختیاں صرف اس جرم میں برداشت کیں کہ آپ کمالات امامت کے حامل کیوں ہیں اورآپ کوخدانے یہ شرف کیوں عطا فرمایاہے بعض علماء کاکہناہے کہ آپ پراس قدرسختیاں تھیں اوراتنی کڑی نگرانی اورنظربندی تھی کہ آپ اکثراپنی زندگی سے بیزارہوجاتے تھے بہرحال وہ وقت آگیا کہ آپ صرف ۲۵/ سال ۳ ماہ ۱۲/ یوم کی عمرمیں قیدخانہ کے اندرآخری ذی قعدہ (بتاریخ ۲۹/ ذی قعدہ ۲۲۰ ہجری یوم سہ شنبہ) معتصم کے زہرسے شہیدہوگئے (کشف الغمہ ص ۱۲۱ ، صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ، روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ، اعلام الوری ص ۲۰۵ ، ارشاد ص ۴۸۰ ، انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ، انوارالحسینیہ ص ۵۴) ۔

آپ کی شہادت کے متعلق ملامبین کہتے ہیں کہ معتصم عباسی نے آپ کوزہرسے شہیدکیا (وسیلة النجات ص ۲۹۷) علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ آپ کوامام رضاکی طرح زہرسے شہیدکیاگیا(صواعق محرقہ ص ۱۲۳) علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ ”گویندیہ زہرشہیدشہ“ کہتے ہیں کہ آپ زہرسے شہیدہوئے (روضة الشہداء ص ۴۳۸) ۔ ملاجامی کی کتاب میں ہے ”قیل مات مسموما“ کہاجاتاہے کہ آپ کی وفات زہرسے ہوئی ہے (شواہدالنبوت ص ۲۰۴) ۔علامہ نعمت اللہ جزائری لکھتے ہیں کہ ”مات مسموما قدسمم المعتصم“ آپ زہرسے شہیدہوئے ہیں اوریقینا معتصم نے آپ کوزہردیاہے، انوارالعنمانیہ ص ۱۹۵)

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ انہ مات مسموما آپ زہرسے شہیدہوئے ہیں ”یقال ان ام الفضل بنت المامون سقتہ ،بامرابیہا“ کہاجاتاہے کہ آپ کوآپ کی بیوی ام الفضل نے اپنے باپ مامون کے حکم کے مطابق (معتصم کی مددسے) زہردے کرشہیدکیا (نورالابصارص ۱۴۷ ،ارحج المطالب ص ۴۶۰) ۔

مطالب یہ ہواکہ مامون رشیدنے امام محمدتقی کے والدماجدامام رضاکواوراس کی بیٹی نے امام محمدتقی کوبقول امام شبلنجی شہیدکرکے اپنے وطیرہ مستمرة اوراصول خاندانی کوفروغ بخشاہے ، علامہ موصوف لکھتے ہیں کہ ”دخلت امراتہ ام الفضل الی قصرالمعتصم “ کہ امام محمدتقی کوشہیدکرکے ان کی بیوی ام الفضل معتصم کے پاس چلی گئی بعض معاصرین لکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے شہادت کے وقت ام الفضل کے بدترین مستقبل کاذکرفرمایاتھا جس کے نتیجہ میں اس کے ناسور ہوگیاتھا اوروہ آخرمیں دیوانی ہوکرمری۔

مختصریہ کہ شہادت کے بعد امام علی نقی علیہ السلام نے آپ کی تجہیزوتکفین میں شرکت کی اورنمازجنازہ پڑھائی اوراس کے بعدآپ مقابرقریش اپنے جدنامدار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے پہلومیں دفن کئے گئے چونکہ آپ کے داداکالقب کاظم اورآپ کالقب جوادبھی تھا اس لیے اس شہرت کوآپ کی شرکت سے ”کاظمین“ اوروہاں کے اسٹیشن کوآپ کے داداکی شرکت کی رعایت سے ”جوادین“ کہاجاتاہے۔


میر ا ا فسا نہ-یو گی کے استھا ن پر

 

وہ بہت چھوٹی سی تھی جب سے سوچنا  شروع کیا تھا پوجا پاٹ کے لئے چھوٹے بچّے بچّیاں اپنی ماوں کی انگیا ں تھامے ہوئے مندر آتے جاتے ہیں اور پھر اس کے ننھّے سے زہن نے اپنے آپ سے سوال کیا تھا میرے لئے وہ ہاتھ کہاں ہیں میں جس کی انگلی تھام کر مندر کی سیڑھیا ں چڑھتی اور اترتی مندر کا پجاری اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا پھر بھی اس نے ایک دن جا کر اس سے سوال کر ہی لیا تھا  پجاری جی میری ماتا میرے پتا کون تھے ؟ پھر پجاری نے اس ے بتا یا تھا کہ  اُس کو اس کی ماں نے اپنی کوئ منّت پوری کرنے پر دان میں دیا تھا پر تیری ماتا پھر لوٹ کر کبھی بھی مندر نہیں آئ اور دیوداسی نے اپنا سر جھکا لیا تھا 

  مندر کے  بوڑھے پجاری  کے چرنوں میں بیٹھی اس کی  جوانی جب جوبن پر آئ  تب پجاری  کو اس کی ضرورت نہیں رہی تھی لیکن پھر بھی وہ اسی کے چرنوں میں ہی  بیٹھی  ہوئ تھی  -

-پجاری  بوڑھا ہو گیا تھا   اور تب بھی اس نے اس سے ایک بار بھی نہیں کہا تھا کہ وہ کہیں جا کر باہر کی دنیا دیکھ آئے  - لیکن ایک روز ایک اجنبی اس کے من مندر میں آ پہنچا   اس نے پجاری کو بتایا  تو پجاری اس کو  اپنے جھرّیوں بھرے  چہرے میں دھنسی  ہوئ  آنکھوں سےدیکھتے ہوئے   پہلے تو  ایک دم  آگ بگولہ سا گرم ہو اٹھا  پھر نا جانے کیا سوچ کر ایک دم ہی سنبھل کر  بولا  دیکھ   دیوداسی میں تجھ کو منع نہیں کروں گا  -

،چل تو خود دیکھ لے  ،،یہاں تو تُو اپنے  من کے رشتے سے رہتی ہے ،،وہاں تو تن کے رشتے سے رہے گی ،،لیکن پجاری جی  وہ مجھ سے بہت محبّت کرتا ہے ،،ہاں میں کب کہ رہا ہوں  کہ وہ محبّت نہیں کرتا ہے ،،اچھّا جا اب  آزما لے پھر آ جایئو ،

پھر وہ اسے لینے آگیا -دیکھ دیوداسی یہ میرے دوست کا گھر ہے وہ بدیس گیا ہوا جب آئے گا تب ہم اپنا ڈیرہ کہیں اور جما لیں گے-پھر اس نے من مندر کے دیوتا کے لیئے  اپنی سیج سجا لی اور ایک  گھر آنگن کا خیالی تصّوراپنے دل میں بسا کربیٹھ  گئ،،وہ حسبِ وعدہ  ہر رات آنے لگا  وہ  شادی شدہ تھا اس لئے دن کے اجالے میں نہیں آسکتا تھا  بس رات ہی اس کے لئے  موزوں تھی اس لئے وہ ہر رات بلا دھڑک آتا تھا  -

لیکن یہ رات اور راتوں سے زرا مختلف رات تھی  اس رات وہ بہت سخت بیمار تھی  اورتیز بخار میں پھنک رہی تھی لیکن اس کی نظریں  ہر پل دروازے کی جانب دیکھ رہی تھیں کہ اب وہ آ ئے گا  اور پھر ہر رات کی طرح آج کی رات بھی وہ آگیا تھا لیکن آ ج کی رات   اُس آنے والے کے لئے  بے قیمت  تھی کیونکہ آنے والے کو ایک خوف لاحق تھا 'کوئ مخبر اس کی خبر اُس کی گھر والی تک پہنچا سکتا تھا جس کے بدلے میں اس کا آنگن اور بچّے رُل جاتے  ،اس لئے اس نے آکر  اسے دیکھا اور چپ چاپ اس کی چارپائ پر زرا سا ٹک کر کہنے لگا دیوداسی میرے گھر میں تیرے کارن طوفان آ گیا ہے میری گھر والی نے اپنے میکہ کا جرگہ بلا نے کی دھمکی دی ہے اب تُو صبح پَو پھٹنے پر مندر چلی جا ایسا نا ہو کہ کوئ تیری سن گن لینے یہاں آ جائے پھر وہ الٹے  قدموں سے واپس لوٹ گیا  ،، بخار کی حدّت میں وہ پوری طرح ہوش میں نہیں تھی پھر بھی اس نے اپنے دل میں ایک موہوم سی خواہش  جاگتی  محسوس کی تھی کہ آنے والا اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بہت آہستہ سے پوچھے  گا  کہ کیا ہوا؟لیکن آنے والا تو کب کا جا چکا تھا  اس کے دل کے کواڑباقی تمام رات اذیّت سے بجتے رہے  اور لمبی کالی وہ ایک  رات اس کے  دل کی تنہائیوں میں  سسکتی ہوئ  دھیرے دھیرے کھسکتی  رہی

  صبح دم وہ اس قابل تو نہیں تھی لیکن اپنے آ پ کو زبردستی اٹھا کر  یوگی کے استھان پر جا پہنچی  ابھی تو مندر  کے سنہرے کلس پر دھوپ کی پہلی کرن پر بھی نہیں پڑی تھی ،کلس  ابھی اجلا نہیں میلا نظر آرہا  تھا اور کلس کی مانند اس کا دل بھی میلا تھا ،  مندر کی سیڑھیوں پر اس نے پہلا قدم رکھّا ہی تھا کا مندر کی گھنٹیاں گھونگھر بجانے لگیں اور  سیڑھیا ں چڑھتے ہی  مندر  کے پجاری  نے اس کو دیکھا جو گھنٹیا ں بجا کر ہٹ رہا تھا  اس   کی بھی پہلی نظر پجاری پر پڑی اور  پھر اس نے  ہولے ہولے آگے بڑھتے ہوئے  بلکل مریل آواز میں پجاری کے قدموں میں جھک  کراسے پرنا م کیا  جو اس کو آتا دیکھ کر وہیں ٹھٹھک کر  کھڑا ہو گیا تھا  وہ سیدھی ہوئ  ،تو پجاری نے کہا  بول دیو داسی  کیا ہوا ،وہ کچھ نہیں بول سکی  کیونکہ آنسو اس کے دل  سے نکل کر گلے میں اٹک گئے تھے   پجاری نے اپنی بوڑھی گردن کو ایک  جانب ہلکا سا جھٹکا دیا   اور معنی خیز لہجے میں بولا جان گیا 'کیا ہوا ،،ہرجائ نہیں  آیا پجاری کی بات کا جواب دینے کے بجائے وہ مندر کے فرش پر پاؤں پسار کر بیٹھ گئ  اور پجاری سے روتے ہوئے کہنے لگی

پجاری جی  مجھے بتاؤ کیا دنیا کی ہر عورت اتنی بے قیمت ہوتی ہے  جتنی مندر کی دیوداسیاں ہوتی ہیں اور پھر اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور آنسووں کی قطاریں اس کے چہرے کو بھگونے لگیں

ہاں مرد کی زات ایسی ہوتی ہےبوڑھے  پجاری نے اپنی جہاں دیدہ  نظروں سے آسمان کو دیکھتے ہوئے  کہا  ،،،،دیکھ  دیوداسی   میں نے پہلے بھی تجھے سمجھایا تھا  کہ تو بھو گی سنسار کے  ان  ظالم جھمیلوں میں   نا جا -پر تو مانی ہی نہیں  ،،، خیر  ابھی بھی  خیر ہے ---   تو جا  تیرا  مسکن سونا ہے جا کر اسے آباد کر ،،میں جانتا تھا   یہی ہونا تھا ،،پجاری بڑبڑاتا ہوا وہاں سے ہٹ کر  چلا گیا اور دیو داسی اپنی ساری کے پلّو سے اپنے آنسوؤں  کو صاف کرتے ہوئے مندر کے سونے مسکن میں   واپس چلی گئ  آج اس  کے  ہرجائ  نے اس سے تن کا رشتہ توڑا  تھا اور اس نے  ہرجائ سے تن اور من دونوں کا رشتہ  توڑ کر یوگی کے استھان  پہ دوبارہ   پناہ لے لی تھی

اب اُس کی سمجھ میں آگیا تھا کہ دیو داسیاں صرف استھانوں پر دان کے لئے ہوتی ہیں اُن کے من کے استھان میں کوئ سچّا پریمی بسیرا کرنے نہیں آتا 

ہے


منگل، 4 اپریل، 2023

گٹھیا اور اس سے لاحق ہونے والی تکالیف

<

 

 

 

گٹھیا اور اس سے لاحق ہونے والی تکالیف کیا ہوتی ہیں اور ان کے تدارک کے لئے ہم کیا کیا کر سکتے ہیں

ان دردوں کا دورانیہ کیا ہوتا ہے کون سے موسم میں ان کا زور ہوتا ہے یہ ہڈیّوں مین ہوتے ہیں یا صرف عضلات کو ہی اپنا مسکن بناتے ہیں،

عام طور پر جو سننے اور دیکھنے میں آیا وہ یہ تھا کہ گٹھیا کے مریض کمر درد گھٹنے کے درد ،غرض جسم کے ہر ہر جوڑ کے چھونے پر کراہ اٹھے ،اس کے لئے سب سے پہلے ہم کو جاننا چاہئے کہ گٹھیا کی شروعات کہا ں سے ہوتی ہیں ،اوراس کو مرض کی نشاندہی ہونے کے ساتھ ہی اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے ،نیز بیماری کو اپنے قریب آنے ہی نہیں دیا جا ئے ،،،یہ کیسے ممکن ہے ؟

ہمارا تمام بدن ہڈ یو ں کے360 جوڑوں پر مشتمل ہے ،ان میں انگلیوں کی پوروں سے لے کر کاسہ سر تک کے جوڑ شامل ہیں-پروردگار عالم نے ان جوڑوں کے ہمارے بدن میں خاص اعمال و افعال رکھّے ہیں ساتھ ہی ان کی کارکاردگی کے جاری رکھنے کے لئے ان کو کچھ خاص قدرتی غذا کے ساتھ وضع کیا ہے یہی قدرتی غذا ہی ان کو متحرّک رکھنے کا سبب بنتی ہے اور جب یہ قدرتی غذا کسی بھی وجہ سے ہڈ یوں میں کم ہو جاتی ہے تو گٹھیا کا مرض انسان پر حملہ آور ہو جاتا ہے-ہڈّیوں کا یہ مظبوط لیکن لچک دار ڈھانچہ ہم کو اپنے وجود پر کھڑا رہنے کے قابل بنائے رکھتا ہے اور اس ڈھانچہ میں زرا سی بھی تکلیف ہم کو بے چین کر دیتی ،،اس لئے ہم بیماری کو پہلے دوا اور پھر غذا کے آئنيے میں لے کر چلتے ہیں تاکہ جن مریضوں کو اللہ نا کرے ہڈّیوں کی تکالیف کی شکایات ہیں ان کو کچھ نا کچھ رہنمائ مل جائے ، 786،،،ھو الشّافی ،

ایل،80 ہومیو دوا ڈ راپس کی صورت میں ہر قسم کے گٹھیاوی دردوں کے لئے( lehning laboratories( made in France ایک اعلٰی دوا مانی گئ ہے-ترکیب استعمال ۔۔۔۔۔۔20 قطرے دن میں 3 بار دو گھونٹ سادہ پانی میں لیں

جسم کو گرم رکھیں اور ٹھنڈک سے ہر ممکن بچیں-

کھٹّی میٹھی اور بادی اشیاءسے پرہیز کے ساتھ ہر موسم میں پانی مٹکے کا استعمال کرنا ہے جبکہ مرض کی شدّت ہو تو پانی کو کچھ نیم گرم کر کے پیا جائے جو لوگ مٹکے کا پانی نہیں استعمال کر سکتے ہیں وہ اپنے گھر میں فرج کا پانی ہرگز استعمال نہیں کریں بلکہ پانی کو معتدل کر کے پئیں ،پانی براہ راست جسم کو متاثر کرتا ہے چاہے ٹھنڈا ہو یا گرم-2

صبح سورج نکلنے کے وقت اس کی ابتدائ شعا ئیں بھی اس مرض کو فائدہ پہنچاتی ہیں-3ڈیڑھ چمچہ کھانے والا کالے چنے لےکر کھولتے ہوئے گرم پانی میں رات کو بھگو دیں اور صبح ان چنوں کو کھا کر اوپر سے پانی بہت ہلکا سا گرم کر کے پی لیں و ٹامن بی سے بھرپور غذا بھی اس مرض کا جلد ازالہ کرتی ہے لیکن دوا جاری رکھنے کے ساتھ انجیر گٹھیا کے مرض میں دیا جانے والا بہترین پھل ہے ایک دن کی خورا ک صرف دو عدد انجیریں ہے-

گٹھیا،،،و جع ا لمفاصل ،،،جسم کے جوڑوں میں درد،جیسا کہ میں نے ابتدا میں ہی زکر کیا کہ اس مرض کی شروعات کہاں سے ہوتی ہیں ،،میں ہرگز ہرگز کوئ معالج نہیں ہوں میں نے جو کچھ بھی قلیل علم سیکھا ہے وہ اپنے سماج سے اور کچھ کتابوں سے سیکھا ہے ،آ ج میں پہلے اپنے کچھ تجربا ت آ پ کے سامنے بیان کرنا چاہوں گی ،میرے بچّے چھوٹے تھے جب فیڈرل بی ایریا نیا نیا آباد ہوا تھا میری گلی میں ایک موصوفہ آئیں ،ہم کو ہمارے بچّوں کے مفادات قریب لائے اور بہت جلد ہم میں اس طرح قریبی دوستی ہو گئ کہ دو نوں طرف سے خاندانی دوستی میں بدل گئ جب اس طرح کی قربت ہو جاتی ہے تو کئ باتیں سامنے آتی ہیں جن میں گھریلو رہن سہن خاص طور پر معلوم ہوتا ہے میں نے دیکھا ،ناشتہ دیر سے کرنا یا صرف چائے پر ہی دوپہر تک رہنا دوپہر میں صرف چاولو ں پر گزارہ کرنا ،کھانے میں بےاعتدالی تھی مچھلی کے کھا نے کا کوئ تصو ّ ر بھی نہیں تھا میں نے قاعدے سے زکر کیا موصو فہ نے ہنستے ہوئے کہا انہیں مچھلی کی بو سے الٹی آتی ہے میں نے ہڈیوں کے بارے میں مچھلی کی افادیت کا زکر کیا انہوں نے میری بات کو بلکل غیر اہم جانا ،،

کہتے ہیں خربو زے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ،میرے گھر میں بھی کسی بچّے نے کہا وہ لوگ بھی مچھلی نہیں کھاتے ہیں ،میں نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا وقت گزرنے دو یہ ان کو وقت بتائے گا کہ انہوں نے اپنےساتھ اور اپنی اولاد کے ساتھ دوستی کی ہے یا دشمنی کی ہے ،پھر واقعئ وقت گزر گیا اور ،ہمارے گھر دور ہو گئے میں اپنی مصروفیات میں وہ اپنی مصروفیات میں مشغول ہو گئے ،لیکن ہمارے دل دور نہیں ہوئے ہم کبھی کبھی ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے ، پھر مجھ کو معلوم ہوا کہ موصوفہ کے بدن میں جگہ جگہ ہڈیاں گلٹیوں کی شکل میں ابھرنی شروع ہو گئں ہیں بچون نے بتایا وہ خود دیکھ کر آ ئے ہیں ،ایک گلٹی کلائ کی ہڈّی پر اور ایک ہڈّی کہنی کی ہڈّی پر نظر آرہی ہے ،تب میں نے بچّون سے کہا دیکھا تم نے؟ میں نے کیا کہا تھا کہ مچھلی نا کھا نے سے کیا نقصان ہوتا ہے اور انسان اس سے آگے ہڈیوں کے ٹیڑھے ہونے کے مرض بیری بیری میں مبتلا ہو جاتا ہے

یہ اس گھر کی کہانی تھی اب ان کے اپنے میکے کی کہانی یہ ہے کہ وہاں بھی یہی طرز زندگی تھا جو ان کا اپنا تھا ،،

وقت کا پنچھی بنا آواز کئے گزر ا تو ہمارے اپنے بچّوں کی شادیاں سر پر کھڑی تھیں ،الحمد للہ شادیاں انجام پائیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان کی قریبی عزیزہ محض تیسرے بچّے کی پیدائش پر گٹھیا کے مرض کا اس طرح شکار ہوئ کہ آ ج بائس برس کے بعد بھی وہ اپنے مڑے ہوئے ہاتھوں اور پیروں کے ساتھ وہیل چئر کی محتاج ہے ،اس کو وہیل چئر پر بٹھا نے اور ا ٹھانے کا کام بھی گھر کے دوسرے افراد کرتے ہیں-پھر مجھے ایک اور گھریلو سماجی تجربی ہوا ،اس میں بھی شعوری علم نا ہونے کی وجہ سے بچّو ں کو کم خوراکی کا عادی بنایا گیا تھا اس کے ناقص نتائج یہ ہوئے کہ آ ج اس گھر کے دو ایسے افراد جو سماج کا حصّہ بن کر اسے اپنی صلاحیتوں سے فیضیاب کرتے خود ہی دوسروں کے رحم و کرم پر آ گئے ہیں-یہ میرا دیکھا ہوا محض تصویر کا ایک رخ ہے -بہر حال کمان سے نکلے ہوئے تیر کو واپس نہیں بلایا جاسکتا ہے ،لیکن تیر سے لگنے والے زخم کو بھرا تو جاسکتا ہے اگر فوراً نہیں تو آہستہ آہستہ طرز زندگی کے ہر شعبہ کو مائل بہ بہتری کی جانب لایا جا سکتا ہے-میں نے کراچی میں د ولت سنگھ کی ہومیو پیتھی کے علم پر کتاب پریکٹس آف میڈیسن  اور پھر میٹیر یا میڈیکا کا مطالعہ بھی کیا اس کے علاوہ جو بھی ہاتھ لگا اس سے بھی استفادہ ا ٹھا نے کی کوشش کی ،اب میں پرانے گٹھیا وی مرض کی جانب آ تی ہوں-گانٹھین،گومڑ ،،گلٹیا ں جوڑوں کے اوپر جب نمودار ہوتی ہیں جب کہ مرض پرانا ہو چکا ہو،یاد رکھئے کہ گٹھیا کا حملہ اچانک نہیں ہوتا ہے پہلے جسمانی درد اشارہ کرتے ہیں کہ ہماری ہڈیوں کو غذائ توجّہ اور علاج کی ضرورت ہے اس کے لئے سردیوں کے موسم میں کم سے کم دوبار پائے ضرور پکائے اور اپنے گھروں میں گائے کی ہڈّیوں کے سوپ کو رواج دیجئے

ہڈ یوں کے عضلات کو بھی غذا چاہیے ہوتی تاکہ وہ خشک نا ہونے پائیں -میری کوشش ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ میں اپنی بات کو مثبت انداز میں ہیش کر سکوں لیکن کبھی کبھی ایسے تلخ واقعا ت کو دہرانا ضروری ہو جاتا ہے کہ جس سے عوا م النا س کو فائدہ پہنچ سکے میں نے مندرجہ بالا تذکرے اسی لئے کئے-

آئے کچھ باتیں ہڈیوں کی مظبوطی کے بارے میں بھی ہو جائیں وٹامن ڈی اور اس کی ہمارے بدن کو ضرورت ،نیز اس کی فراہمی کے زرائع ،،جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سورج کی روشنی وٹامن ڈی کی فراہمی کا ایک انتہائ موثر زریعہ ہے لیکن یورپی ملکوں میں یہی مفت کی نعمت عنقا ہے اس لئے اس کا متبادل کیا ہے یہ دیکھنا ہے ،،وٹامن ڈی کی کمی سے ہڈیوں کے کمزور ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے ،،،وٹامن ڈی اس کیلشیم کو ہمارے بدن کے اندر انجذاب کرنے میں مددگار بنتا ہے جو ہم نے استعمال کیا ہو یہ پٹھو ں اور اعصابی نظام کی مدد کرتا ہے اور دانتوں کو جبڑو ں کو بھی قو ت دینے کا باعث بنتا ،،،ہڈیوں کو بھر بھر ے پن(osteoporosis) سے بچاتا ہے ہڈیوں کے ٹیڑھے ہونے کی بیماری ر کٹس (rickets) سے بھی بچاؤکا زریعہ بن جاتا ہے-وٹا من ڈی کے ہمارے لئے حصول کے زرائع کیا ہیں -دودھ، اور دودھ سے بنی تمام اشیاءکسی بھی شکل میں انڈا، مچھلی ایک خاص مچھلی کا تیل جو کاڈ لیور آئل کہلاتا ہے -ہمارے لئے اپنے بدن کو معمو ل کی سطح پر صحتمند رکھنا ہر لحاظ سے ہی اچّھا ہے اس کے لئے سمجھ لیا جائے کہ ہما رے بدن کی عما رت تو اللہ تعا لٰی رحیم و کریم کی تخلیق کردہ ہے لیکن اب اس کی دیکھ ریکھ کی زمّہ داری اس کے بجائے ہمارے سپرد ہے ،بلکل اس طرح کہ آپ نے ایک مکان بنایا اور اس کو بغیر کسی پرواہ کے یو نہی چھوڑ دیا نتیجہ بہت جلد ظاہر ہو جائے گا اور مکان بوسیدگی کا شکار ہو جائے گا-اس لئے اپنے بدن کے تمام اعضا ئے جسمانی کو جن جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ مہیّا کرنا آ پ کا اپنا کام ہے ،ایسی بات نہیں ہے کہ جی آپ نے کچھ دن کوئ چیز نہیں استعمال کی اور آپ کے بدن میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئ اپنی صحت کی دیکھ بھا ل ایک مسلسل عمل ہے جس کو ہم زرا سی توجّہ سے اپنا معمو ل بنا کر ایک صحت مند زندگی جینے کا سامان بہم پہنچا سکتے ہیں-اس کے لئے غذائ توجّہ کے ساتھ سا تھ اگر آپ کے 

پاس کچھ علم طبّ یونانی ہے اور کچھ علم ہومیو پیتھی ہے تو سمجھ لیجئے کہ آ پ کو ہسپتال کی شکل زرا کم ،کم ہی دیکھنے کو ملے گی انشاللہ

جوڑوں کے درد کے وہ مریض جو ایشیائ ملکو ں میں رہتے ہیں وہ دو پہر سے پہلے انگیٹھی میں کوئلے سلگا کر بان کی چارپائ کے نیچے رکھیں اور کوئلوں پر اجوائن ڈال کر اس کی بھر پور دھونی لیں اور کوئلوں کی سینک میں بیٹھیں چارپائ پر کو کپڑا نا بچھا ہوا ہو اس عمل سے ان کے جوڑوں کے درد کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا دھونی لینے کے بعد ان کو اپنے بدن کو گرم ہی رکھنا ہے اور ہوا سے بچانا ہے اجوائن ایک چٹکی صبح قبل دوپہر لی جائے تو اور بھی اچھا ہے

درد گردن کے وہ مریض خوا ہ وہ کالر نہیں پہنیں یا کالر پہننے پر مجبور ہوں ،قران پاک کی سورۃ سورہ اَ علٰی کی تلاوت کریں اور ہو سکے تو اسی کا تعویز بھی گلے یا بازو پرموم جامہ کر کے پہن لیں انشاللہ بحکم اللہ شفا ءکا منہ دیکھیں گے-جوڑوں کی تکالیف جب حد سے آگے بڑھتی ہیں تب وہ گٹھیا کے مرض میں بدل جاتی ہیں ،اس لئے ہمارے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی تمام مشاغل کو اعتدال کے ساتھ انجام دیتے ہوئے جئیں ،ان مشاغل میں کھانا پینا بھی شامل ہے اس لئے 

میں جوڑوں ، گٹھیا کے مریضوں کے لئے سب سے پہلی سبزی کریلا تجویز کروں گی -یہ گٹھیا اور جوڑوں کے  مسا ئل کے میں پہلے نمبر کی باعث شفاء سبزی ہے اس کے خواص یہ ہیں-خون کی صفائ کر کے یورک ایسڈ کو جوڑوں میں جمع نہیں ہونے دیتا ہے یاد رکھئے کہ یورک ایسڈ ہی جوڑوں میں جمع ہو کراورام ،درداور سوزش کے فساد کا سبب بنتا ہے-

جوڑوں میں ہونے والی گرم سوزش کو دور کر کے مسکّن کرتا ہےفالج اور لقوے سے بچاتا ہے-

بس یہ سمجھ لیجئے کہ گٹھیا سے ہونے والے تمام امراض ،،جوڑو ں کی تمام تکلیف کے لئے اکثیر کا درجہ رکھتا ہے یعنی اورام سوزش ازیّت رساں درد وغیرہ وغیرہ ،

گٹھیا اور جوڑوں کے مریض یہ بھی یاد ر کھیں کہ مرض بتدریج پھیپھڑوں اور دیگر اندرونی اعضا ء رئیسہ تک پہنچنے کی سعی کرتا ہے جسے بروقت علاج سے ہی روکنا ممکن ہوتا ہے

اس کے دیگر خواص -

سردی سے ہونے والے امراض کو دور کرتا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ کریلہ باقاعدگی سے استعمال کرنے والے افراد زکام کھانسی سے بچے ہی رہتے ہیں

سینے کے بلغم کو بدن سے خا رج کرتا ہے دافع بخار ہے ،پھیپھڑوں کو تندرست کر کے دمہ، برانکائٹس اور گلے کی سوجن کو دفع کرتا ہے ،،بھوک لگا تا ہے اور تازہ خون بناتا ہے-دافع بخار ہے ،،

خارش ،کھجلی ،،سورائسس ،برص،جزام چنبل ، پھوڑے پھنسیوں ،اور خون کے غلیظ ہوجانے سبب پیدا ہونے والی تمام جلدی بماریوں میں نافع ہے-شوگر اور کریلے ،،ایک برطانوی یونیورسٹی کی جدید تحقیق کے مطا بق کریلے میں قدرتی طور پر انسولین پائ جاتی ہے جو یورین ،اور بلڈ دونو ں طرح کی شوگر کو کنٹرول کرتی ہےاب سبزیو ں میں نمبر 2 بھنڈی وہ سبزی ہے جو جوڑوں کے ہر مرض کو خوا ہ وہ نیا ہو یا پرانا ہو فائدہ دیتی ہے

اس کو کھانے سے ڈپریشن دور ہوتا ہے،السر کے مرض کو دور کرنے کا باعث ہے پھیپھڑوں کی تمام بیمایوں میں فائدہ رساں ہےگلے کی تکالیف میں بھی باعث شفا ء ہے کو لیسٹرول کو کنٹرول کرتی ہے ،بھنڈی میں وٹامن سی کا خزانہ ہوتا ہے-

ا ب ایک اور اہم ترین گھریلواورآ سان نسخہ ہائے شفاء جو ہے وہ ہے گھیکوار ،یہ پودا یہا ں کینیڈا سمیت دنیا کے ہر ملک میں بآ سانی پایا جانے والا انتہائ سستا لیکن انتہا درجے کا مفید پودا ہے اور اس کو گھر اندر بھی آرام سے پرورش کی جا سکتی ہے ،اس کی خاصیت یہ ہے کہ آپ اس کی شاخیں کاٹتے اور کھاتے رہیں گے اور یہ پھر بھی اپنی شاخیں بڑھاتا رہے گا ،،اس کو کھانے کا طریقہ بھی آسان ہے ، ایک پور برابر جیلی نکال کر یونہی سادے پانی سے کیپسول کی طرح نگل لیجئے ،

جیلی کڑوی بہت ہوتی ہے اس لئے اس کا زائقہ محسوس نہیں کرنا ہے بس نگل لینا ہے یہ جیلی خون میں شامل ہو جانے والے تمام زہریلےان مادّوں کوجو جوڑوں کے درمیان جمع ہو کر درد اور دکھ کا باعث بنتے ہیں جلا دیتی ہے اس طرح بدنی صحت کے لئےوہ لعاب دار جھلیّاں محفوظ ہو جاتی ہیں جن کو یورک ایسڈ جمع ہو کر نقصان پہنچا رہا ہو ،اس جیلی کا یہ بھی فائدہ ہو گا یہ کمر درد کو غائب کر دے گی ایک ایک جوڑ سے سوجن اور سوزش دور کر دے گی اور محض چند مہینوں کے استعمال سے آپ اپنے اندر توانائ کا نیا ا حساس پائیں گے-اللہ آ پ کا حا مئ و نا صر ہو آ مین

اتوار، 2 اپریل، 2023

نوموس۔فیاضی۔سخاوت۔امداد باہمی ۔مالی معاونت کا نام ہے



یہ مضمون میرا نہیں ہے بلکہ ایک نصیب ور انسان شجاعت علی کا ہے،،جس کو میں نے کار خیر سمجھ کر اپنے بلاگ پر جوں کا توں دیا ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود غرضی انسانی فطرت کا حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ دولت اکٹھا کرنے کی خواہش مرتے دم تک انسان کے ساتھ رہتی ہے مادیت پرستی اور نفسا نفسی کے اس دور میں جہاں لوگ خود غرضی کی وجہ سے انفرادی ترقی کے سوچ میں مگن ہے وہاں پاکستان میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جہاں انفرادی اور اجتماعی ترقی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ جہاں صاحب حیثیت لوگ فی سبیل اللہ دل کھول کر ترقیاتی کاموں کے لئے امداد دیتے ہیں تو پورا گاؤں اُن صاحب توفیق افراد کی پکار پر لبیک کہہ کر رضاکارانہ خدمات کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ جہاںآج سرکاری اور غیر سرکاری ادارے عصر حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر دیہی ترقی کے لئے نِت نئے ماڈل متعارف کرارہے ہے وہاں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جسکا اپنا دیہی ترقی کا ایک انوکھا اور کامیاب ماڈل کئی سو سالوں سے قائم ہے اور اس ماڈل کا نام ہے نوموس۔ نوموس بنیادی طور پر وخی ذبان کا لفظ ہے جو قربانی، فیاضی، خدمت اور خود انحصاری کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ وخی پاکستان، افغانستان، تاجکستان، اور چائنہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان میں وخی بولنے والے لوگ ضلع ہنزہ کی تحصیل گوجال، اور ضلع غذر کی تحصیل اشکومن اور گوپس میں رہتے ہیں۔ اُردو میں ناموس کا لفظ عربی ذبان سے اخذکیا گیا ہے۔ جس کے لغوی معنی عزت، نیک نامی، شرم، رواج ، دستور، اور لاج کے ہے۔ ناموس رسالت اس کی ایک مثال ہے۔ وخی ذبان میں استعمال ہونے والا لفظ نوموس (Nomus)تلفظ کے لحاظ سے قدرے مختلف ہیں تاہم معانی کے لحاظ سے دونوں میں کافی مماثلت پایا جاتا ہے۔

نوموس گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ میں واقع وادی شمشال کا قدیم زمانے سے جاری سماجی و معاشی ترقی اور رضاکارانہ خدمات کا ایک انوکھا نظام ہے اس نظام کے تحت گاؤں کے صاحب حیثیت لوگ رضا الہی( اللہ کی خوشنودی) حاصل کرنے کے لئے فی سبیل اللہ اپنے گھر کے کسی فرد یا افراد کے نام سے کسی بھی ترقیاتی منصوبے کی نشاندہی اور اس پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ لگانے کے بعد مالی قربانی کا عطیہ دیتے ہیں مالی قربانی میں منصوبے کے لئے درکار وسائل شامل ہے ۔ منصوبے کی نشاندہی میں گاؤں کے لوگوں کی مشک لات، مسائل اور عوامی ترجیحات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے منصوبے کا آغاذ مخیر حضرات کی گھریلوفرصت مثلاً مالی وسائل کا بندوبست اور اعلان کے بعد ہوتا ہے۔ نوموس کے لئے مختص کی جانے والی مالی وسائل کو گاؤں کے ایک مرکزی مقام میں لا کر دعائے خیر کی جاتی ہے جس میں پورا گاؤں شریک ہوتا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کی دستیابی یا موجودگی، وقت اور موسمی حالات جیسے امور کا جائزہ لینے کے بعد گاؤں کے لوگ منصوبے پر کام کے آغاز کا فیصلہ کرتے ہیں۔ گاؤں کے لوگ اس کار خیر میں شامل ہونے اور ثواب حاصل کرنے کے لئے رضاکارانہ خدمات فری لیبر اور وقت کی صورت میں دیتے ہیں۔ہر گھر اس کار خیر میں شرکت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہے اس لئے کم از کم ایک فرد کی شرکت کو یقینی بنانا سربراہِ خانہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مخیر حضرات جس شخص یا اشخاص کے نام سے منصوبہ مکمل کرنے کے لئے مالی معاونت فراہم کرتے ہیں وہ ایک تو اپنے عزیز( چاہے وہ ذندہ ہو یا وفات پا گیا ہو) کی یاد کو ہمیشہ کے لیے ذندہ رکھنا چاہتے ہیں اور دوسر ا مقصد ثواب کمانا، ذہنی سکون اور اطمینانِ قلب کا حصول ہے۔ جن کے نام سے ترقیاتی منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے اُس منصوبے کو اس شخص یا اشخاص کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے اور گاؤں کے لوگ اس منصوبے کو اُسی نام سے ہمیشہ کے لئے یاد رکھتے ہیں کبھی کبھاراگر انسان کی مالی حالت ساتھ نہ دے تو قریبی عزیز کے وفات کے بعد اُس کی وصیت کے عین مطابق کسی بھی وقت نوموس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے جس طرح حج بیت اللہ کی سعادت صاحب استطاعت لوگ ہی کر سکتے ہیں بلکل اسی طرح نوموس بھی ہر کسی پہ لاذم نہیں بلکہ جس کسی کو خدا نے اس قابل بنایا ہے اور وہ خود سمجھتا ہے کہ اس کی مالی حالت اتنی ہے کہ وہ گاؤں کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ کر سکتا ہے وہی لوگ مالی قربانی کا نذرانہ دے کر اس کار خیر میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔ پس امداد کرنے والااپنا فیصلہ کرنے میں بلکل آذاد ہے۔ اس نظام کے بہت سارے فوائد ہیں مثال کہ طور پر گاؤں میں نوموس کے ذریعے کمیو نٹی موبلائزیشن اور رضاکارانہ خدمات ایک مثبت روایت بن چکی ہے ایک دیرنہ مسئلہ حل ہونے سے گاؤں کے لوگوں کے مشکلات میں کمی آتی ہے بیرونی امداد کے انتظار میں رہنے کی بجائے گاؤں کے لوگ اپنے ہی دستیاب وسائل سے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ نکال لیتے ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا عقیدہ ہے کہ فلاحی اور خیراتی کاموں میں شرکت نیکی اور ثواب کا کام ہے۔ اس نظام کے تحت اب تک کئی ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں ان میں شمشال روڈ کی تعمیر، عبادت گاہوں، سکولوں، ہسپتالوں، مسافر خانوں اور عوامی عمارات کی تعمیر، پلوں اور راستوں کی تعمیرومرمت، نئے نہروں کی کھدائی اور بنجر ذمینوں کی آبادکاری سر فرست ہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ حکومت وقت عوام کے لئے سب کچھ نہیں کر سکتی۔ اپنی مدد آپ ایک بہترین حکمت عملی ہے جو پسماندہ علاقوں کی تقدیر بدلنے میں ممدو معاون ثابت ہو رہی ہے۔

ماضی قریب میں اس ماڈل سے متاثر ہو کر سوئٹزلینڈ سے تعلق رکھنے والے مخیر حضرات نے "نوموس برائے تعلیم و صحت” کے نام سے گوجال ہنزہ کے لوگوں کے لئے ایک پروگرام شروع کیا ہے اس پروگرام کے تحت مستحق اور نادار طلباء کو تعلیمی وظائف دیے جا رہے ہیں مستحق مریضوں کے علاج معالجے کا خرچہ ادا کیا جا رہا ہے اور ہسپتالوں میں طبعی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

شمشال سطح سمندر سے تین ہزار ایک سو میٹر کی بلندی پر واقع پاکستان چائنہ سرحد پر واقع ہے۔ ثمینہ بیگ اور رجب شاہ سمیت کئی نامی گرامی کوہ پیماؤں کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے اسے کوہ پیماؤں کی سرزمین کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ نے اسے شمشال بے مثال کہہ دیا تو سیاحوں نے بام دنیا 

۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ شمشال کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات (جسے آجکل گلگت بلتستان کے نا م سے جانا جاتا ہے)کا انتہائی دور افتادہ، پسماندہ اور کم ترقی یافتہ گاؤں گردانا جاتا ہے مگر اگر نیت صاف ہو، خلوص شامل سفرہو، اتفاق اور بھائی چارگی ساتھ ہو تو جذبے ضرور اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ آج شمشال کے لوگ ذندگی کے کسی شعبے میں دوسروں سے پیچھے نہیں۔ 1985 میں شمشال روڈ کی تعمیر شروع ہوئی اور اٹھارہ سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد 2003 میں شمشال روڈ کی تعمیر مکمل ہوئی۔ایک کام جو بظاہر حکومت وقت کے لئے ناممکن لگتا تھا اسے شمشال والوں نے اپنی انتھک محنت، جذبے اور قربا نیوں سے ا ٹھارہ سال میں ممکن کر دکھایا۔بے شک حکومت، اے کے آر ایس پی اور عوام جب اکٹھے ہوئے توسب کی جیت ہوئی۔

 2003سے قبل یہاں گاڈی کا راستہ نہیں تھا لوگ سودا سلف اور دیگر آسائش ذندگی پیٹھ پہ اُٹھا کے تنگ و تاریک پہاڑوں کے درمیان کئی بار دریا عبور کر کے یخ بستہ راتوں کو گھر پہنچتے تھے ۔ پھسو گوجال سے گاؤں تک پہنچنے میں کم از کم تین دن لگتا تھا۔ یہاں آج بھی بجلی اور ٹیلیفون جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہے۔ ذندگی کی بنیادی سہولتوں سے محرومیت اور حکومت وقت کی عدم توجہی مگر خود انحصاری کے اُصول پر کاربند رہنے سے اس گاؤں کے لوگوں کی ذندگی بدل گئی۔یہاں کے لوگوں کو بہت جلدی احساس ہو گیاتھا کہ 

۔ خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔ نہ ہو جن کو خیال خود آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ شمشال میں آج بھی اپنی مدد آپ کا نظام زندہ و تابندہ ہے وقت اور حالات کو مدنظر رکھ کر نوموس کے اُصول کو جدید خطوط پہ اُستوار کیا جا رہا ہے۔ خود کفیل نظام ذندگی کا حصول ہر گھر کی ضرورت بن چکا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا گُر خوب آتا ہے۔ شمشال کی ماضی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے یہاں کی تاریخ قربانیوں، فلاحی کاموں اور عظیم کامیابیوں سے بھری پڑی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نوموس شمشال کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوموس کے نظام کو گلگت بلتستان کے دوسرے حصوں میں بھی اپنایا جائے کیونکہ یہ عوام ہی ہے جو اپنی مدد آپ کے اُصول کے تحت اپنے ہی دستیاب وسائل کو بہتر اندا ز میں استعمال میں لا کر اپنی تقدیر بدل سکتی ہے اور بلاشبہ وادی شمشال اس کی ایک زندہ مثال ہے

تحریر: شجاعت علی

ممتازصحافی 'ماہررموزعلوم بلند پایہ شاعر-رئیس امروہوی

 

 

 

سید محمد مہدی المعروف رئیس امروہوی نے 'ماہررموزعلوم بلند پایہ ممتازصحافی - 12 ستمبر 1914ء کو ہندوستان کے مردم خیز خطہ یوپی کے شہر امروہہ کے جیّد علمی و ادبی گھرانے میں  آنکھ کھولی۔1936 میں صحافت سے وابستہ ہو گے ہی  امروہہ کے اخبارات قرطاس ا  ور مخبر عالم کی ادارت کی۔ بعدازاں روزنامہ جدت (مرادآباد) کے مدیراعلیٰ رہے۔ آپ سید محمد تقی اور جون ایلیا کےاور ہندوستان کے مشہور گیت نگار کمال امروہوی کے بڑے بھائ تھے  ۔

تقسیم ہند کے بعد 19 اکتوبر 1947ء کو ہجرت کر کے کراچی آگئے یہا ں پر حکومت وقت نے ان کی قدر دانی کرتے ہوئے انہیں کوٹھی عنائت کر دی۔اس طرح وہ یکسوئی ہو کر ادب کی ترویج و ترقی میں مصروف ہو گئے۔اُس زمانے میں گارڈن ایسٹ میں رئیس امروہوی کی وسیع و عریض رہائش گاہ کے مرکزی دروازے اس لیے کھلے رہتے تھے کہ دن بھر ملنے والے افراد کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔اُن کے گھر میں مرکزی دروازے کے فوراً بعد ایک بڑا سا آنگن تھا جس کے بعد پہلے اُن کا دفتر تھا اور پھر اہل خانہ کے رہائشی کمرے وغیرہ تھے۔گھر والوں  کا کہنا تھا کہ گھر میں موجود اہلِ خانہ ملاقاتیوں کی وجہ سے یا لکھنے پڑھنے میں کسی تعطل کے پیشِ نظر گھر میں ہی واقع رئیس امروہوی کے دفتر میں جانے سے گریز کرتے تھے اور اُن کی ضروریات یا کھانے اور چائے وغیرہ کے وقت ہی کوئی اس جانب آیا کرتا تھا۔ روزنامہ جنگ سے منسلک ہونے کے بعد یہاں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ کی ادارت میں جنگ پاکستان کاسب سے کثیرالاشاعت روزنامہ بن گیا۔ صحافتی کالم کے علاوہ آپ کے قصائد، نوحے اور مثنویاں اردو ادب کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ نثر میں آپ نے نفسیات و فلسفۂ روحانیت کو موضوع بنایا۔

رئیس امروہوی دور حاضرہ کے ممتاز شعراءمیں سے تھےوہ تمام اصناف سخن میں قادر الکلام ہیں، پُر گو ہیں، حاضر طبع ہیں، زدو گو ہیں، فکر میں قدرت ہے، طرز ادا میں جدت ہے، زبان میں صفاحت ہے، بیان میں سلاست ہے، نظر میںوسعت ہے، غزل ہو یا نظم قطعات ہوں یا رباعیاں، ادب ہو یا فلسفہ، رندی ومستی ہو یا فقر و تصوف ، سنجیدہ مضامین ہوں یا طنز و مزاح ، وہ ہر میدان کے ”مرد میدان“ نظر آتے ہیں۔ اور جس موضوع پر لکھتے خوب لکھتے ۔ان کی غزل میں قدیم غزل کی روح نئے انداز بیاں کا جامہ پہن کر شاہد معنی کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔وہ شاہد معنی کوزبان شعر میں ”جان گل“ کہتےہیں۔ رنگ کومجاز اور بُو کو حقیقت بنا کر گل کورنگ و بُو دونوں کا جامع کہتے ہیں۔ مگر اس جامعیت کے مشاہدے پر بھی ان کی نظر قانع نہیں، وہ گ میں ”جان گل“ کوخوشبو اوررنگ میں منحصر نہیں سمجھتے بلکہ ”جان گل “ کو”ماورائے رنگ و بو“ تصور کرتے ہیں اور اس سے برافگندہ نقابی کے تمنائی ہیں اگر نقاب الٹ دے توکیا قیامت ہو وہ جان گل کہ کبھی رنگ ہے کبھی خوشب حوادث عالم کی توجیہ عقل کے سپرد کردی جائے گی تو سبب و مسبب اور علت ومعلول کی گتھیاں سلجھانے کے بجائے عقل ان میں الجھ کر رہ جائے گی۔ رئیس مروہوی یہ کام عقل کے سپرد نہیں کرتے، عشق سے حادثات لیل و نہار کا سبب پوچھتے ہیں اورانہیں جواب ملتا ہے کہ یہ حادثات شب و روز بے سبب تو نہیں بدل رہا ہے کوئی خواب ناز میں پہلو محبت میں سب کچھ ہے مایوسی نہیں۔ وہ اپنے محبوب سے شکستہ دل کے باوجود مایوس نہیں۔ وہ ستم میں کرم کے ہزاروں پہلو دیکھتے ہیں۔ یہ انداز عشق کوہوس سے ممتاز کرتا ہے تمہیں فسردہ دلوںکا خیال ہی تو نہیں خیال ہو تو کرم کے ہزارہا پہلو نور و نار اور جمال وجلال ایک ہی حقیقت کمے دو رخ ہیں بس ایک آگ ہے جو حسن میں ہے گرمی نازمزاج عشق میں ٹھہرے اگرتو سوز دروں شدت احساس سے خیال واقعہ بن جاتا ہےدل کو احساس کی شدت نے کہیں کا نہ رکھا خود محبت کو محبت نے کہیں کا نہ رکھا روحانئین کے نزدیک مادہ بھی ہماری شعوری کیفیات کا نام ہے۔ یہ ہمارے

شعور ہی کی تو کیفیات ہیں جن کا ادراک ہم خارج میں کرتے ہیں۔ رئیسامروہوی اس مقام پر اپنے پیکر جسمانی کواپنی روح پر لباس کی صورت میں  مشاہدہ کرتے تو مادہ جواب میں روح بن جاتا۔ مگر وہ جانتے ہیں کہ پیکر حسن بھی شعور ہی کی ایک کیفیت ہے اور یہ شعور ہی بجائے خود لباس جاں ہے، کہتےہیں خود اپنے شعور جاں سے ملبوس بے پیکر و پیرہن ہیں ہم لوگ انسان فطرتاًآزاد پیدا ہوا ہے اس لئے اس کوآزادی محبوب ہے اس حقیقت کی طرف رئیس امروہوی نے کیا خوب توجہ دلائی خود اپنے وجود میں مقید پابستہ بے رسن ہیں

ہم لوگ زمانہ مطلق بھی ہے مقید بھی۔ اچھے مرزانے کتنے سادہ الفاظ میں بیان ہے ہے جس سے ذات باری کے گمان ہونے کا مفہوم ملتا ہے گماں نہ کر کہ زمانہ کبھی نیا ہوگا یہی جو ہے یہی ہوگا یہی رہاہوگا اس مادیت اور لاادریت کے دور میں رئیس امروہوی آخرت کی زندگی پر نہ صرف یقین ہی رکھتے ہیں بلکہ وہ اس یقین کو دوسروں کی طرف منتقل کرنے کےئے موثر یقین آفریں اور دل نشین پیرایہ بیان کے بھی مالک ہیں خلوت قبرسے نکلتی ہے اس طرح بن سنور کے روح حیات جس طرح جشن شب سے جلوہ صبح جس طرح بادلوں سے چاندنی رات یقین اور یقین دھانی کا یہ عالم ہے کہ کثرت الم کی تعبیر وہ کثرت صفات سے کرتے اور کثرت صفات کو ذات و صفات کے چہرےپر رنگا رنگ نقابوں سے تعبیر کرتے ہیں کچھ نہیں اک جمال ذات پہ ہیں صدجابات رنگ رنگ صفات مگر شعر مابعد میں جب وہ کہتے ہیں اور یہ بھی تماموہم و گماں اور یہ بھی تمام معروضات تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ اپنے وجداو عرفان پر جیسے انہیں اعتماد نہ رہا ہو۔رئیس امروہوی کے یہاں علم و ادبمیں جہاں حکمت و فلسفہ کی چاشنی ہے وہیں پر تذبذب اور تشکیک کی ملاوٹ بھیپائی جاتی ہے یہ حقیقت کی تجلّی ہے مری نظروں میں یا فقط سایہ  اوہام ہےمعلوم نہیں انسان اللہ کی صنعت خلاقی کا مظہر ہے اس لئے مجازاً صنعت خلق کا ظہور اس سے ہوتا ہے ہزار عالم و آدم ہزار خالق و خلق ابھی ہیں عرصہ تخلیق میں یہ شکل غبار بصیرت و بصارت میں امتیاز نہ کیا جائے  ۔

 اور پھررئیس امروہوی کو شہید کر دیا گیا

رئیس امروہوی: سادات امروہہ کے چشم و چراغ جن کے قتل نے کراچی کو ہلا کر رکھ دیاقاتل بڑے اطمینان سے گھر میں داخل ہوا، اس سے

 بھی زیادہ اطمینان سے اس نے اپنا کام محض ایک ہی گولی سے مکمل کیا اور اسی آسانی سے واپس بھی چلا گیا۔۔۔‘

اس قتل نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

گھر بڑا ہونے کی وجہ سے آواز بھی اندر تک سُنائی نہیں دیتی تھی۔پولیس افسر نے بتایا تھا کہ ’شاید قاتلوں نے مکمل طور پر یہ معلومات حاصل کر کے ہی قتل کی منصوبہ بندی کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے معلومات اور ماحول کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور واردات بڑے اطمینان اور تسلّی سے انجام دی۔

رئیس امروہوی کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا ہوں یا بھائی سید محمد تقی (ممتاز صحافی و دانشور اور روزنامہ ’جنگ‘ کے مدیر)، دوسرے بھائی شہرت یافتہ شاعر جون ایلیا ہوں یا اُن کے کزن اور معروف انڈین فلمساز کمال امروہوی، اس خانوادے کے جس فرد نے جب اور جس شعبے کا رُخ کیا اپنی کامیابی، صلاحیت اور عبور کے جھنڈے گاڑ دیے۔خود رئیس امروہوی مشہور تو روزنامہ ’جنگ‘ میں شائع ہونے والے اپنے قطعات کی وجہ سے تھے مگر دراصل وہ محقق، فلسفی، دانشور اور روحانی علوم کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔دنیا بھر میں اُن کے عقیدت مند آج بھی اُن سے اپنے تعلق کو اعزاز سمجھتے ہیں رئیس امروہوی کی شہرت کو چار چاند تب لگے جب سنہ 1948 میں اُن کی تخلیق کردہ نظم ’اُردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ سنہ 1972 میں پاکستان کے صوبہ سندھ کی اسمبلی میں لسانی بل کے پیش کیے جانے کے موقع پر روزنامہ جنگ میں دوبارہ شائع کی گئی، اور ملک بھر میں مشہور ہو گئی۔

اُس زمانے میں گارڈن ایسٹ میں رئیس امروہوی کی وسیع و عریض رہائش گاہ کے مرکزی دروازے اس لیے کھلے رہتے تھے کہ دن بھر ملنے والے افراد کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔اُن کے گھر میں مرکزی دروازے کے فوراً بعد ایک بڑا سا آنگن تھا جس کے بعد پہلے اُن کا دفتر تھا اور پھر اہل خانہ کے رہائشی کمرے وغیرہ تھے۔پولیس افسر کا کہنا تھا کہ گھر میں موجود اہلِ خانہ ملاقاتیوں کی وجہ سے یا لکھنے پڑھنے میں کسی تعطل کے پیشِ نظر گھر میں ہی واقع رئیس امروہوی کے دفتر میں جانے سے گریز کرتے تھے اور اُن کی ضروریات یا کھانے اور چائے وغیرہ کے وقت ہی کوئی اس جانب آیا کرتا تھا۔

گھر بڑا ہونے کی وجہ سے آواز بھی اندر تک سُنائی نہیں دیتی تھی۔

۔امروہہ برصغیر ہی نہیں دنیا بھر میں علم و فن اور حکمت و دانش کے لیے مشہور تھا مگر جو علم و حکمت اس شہر میں آباد رئیس امروہوی کے گھرانے کے حصے میں آئی وہ بے نظیر ہے۔رئیس امروہوی کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا ہوں یا بھائی سید محمد تقی (ممتاز صحافی و دانشور اور روزنامہ ’جنگ‘ کے مدیر)، دوسرے بھائی شہرت یافتہ شاعر جون ایلیا ہوں یا اُن کے کزن اور معروف انڈین فلمساز کمال امروہوی، اس خانوادے کے جس فرد نے جب اور جس شعبے کا رُخ کیا اپنی کامیابی، صلاحیت اور عبور کے جھنڈے گاڑ دیے۔خود رئیس امروہوی مشہور تو روزنامہ ’جنگ‘ میں شائع ہونے والے اپنے قطعات کی وجہ سے تھے مگر دراصل وہ محقق، فلسفی، دانشور اور روحانی علوم کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔

دنیا بھر میں اُن کے عقیدت مند آج بھی اُن سے اپنے تعلق کو اعزاز سمجھتے ہیں رئیس امروہوی کی شہرت کو چار چاند تب لگے جب سنہ 1948 میں اُن کی تخلیق کردہ نظم ’اُردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ سنہ 1972 میں پاکستان کے صوبہ سندھ کی اسمبلی میں لسانی بل کے پیش کیے جانے کے موقع پر روزنامہ جنگ میں دوبارہ شائع کی گئی، اور ملک بھر میں مشہور ہو گئی۔

آپ کی اہم شعری تصانیف یہ ہیں۔

مثنوی لالہ صحرا

پس غبار

قطعات (حصہ اول و دوم)

حکایت

بحضرت یزداں

انا من الحسین

ملبوس لباس بہار

آثار

جبکہ نثری تصانیف یہ ہیں۔

نفسیات و مابعد النفسیات ( 3 جلدیں)

عجائب نفس ( 4 جلدیں)

لے سانس بھی آہستہ ( 2 جلدیں)

جنسیات ( 2 جلدیں)

عالم برزخ ( 2 جلدیں)

حاضرات ارواح

ہفتہ، 1 اپریل، 2023

سرکار فتویٰ آ گیا ہے

 

 

سرکار فتویٰ آ گیا ہے۔ فتویٰ کیا ہوتا ہے۔ ہم دین اسلام کے پیروکاروں میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو اس کے معانی اور مفہوم سے نا آشنا ہو لیکن وہ محترم علمائے دین جن کے کاندھوں پر قوم کی پیشوائی کی فریضہ ہوتا ہے کیا اس کے جاری کرنے کے اثرات و ثمرات سے واقف ہوتے ہیں۔فتویٰ دینا ایک بہت اہم منصب ہے اس منصب کو پانے کے لئے علمائے کرام کو بہت علمی محنت کرنا ہوتی ہے تب جا کر ان کو فتویٰ دینے کا منصب عطا ہوتا ہے لیکن تاریخ کی ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے جب میں نے برصغیر کے غیر منقسم ہندوستان میں انگریز کے آنے کے بعد کی تاریخ پڑھی تو مجھے حیرت اور دلی تکلیف سے گزرنا پڑا۔اس زمانے میں پہلا فتویٰ دیا گیا کہ ایک بدیسی قوم کے آ جانے کے بعد اب ہندوستان رہنے کے قابل ملک نہیں ہے اس لئے رہائش کے لئے کسی اسلامی ملک کا انتخاب کرنا ہو گا چنانچہ نگاہ انتخاب نے افغانستان کو جائے رہائش کے لئے موزوں قرار دیا اس فتوے کی پیروی پچیس ہزار خاندانوں نے کی اور اپنا مال و اسباب لہلہاتے کھیت و کھلیان بیچے اور اور بیل گاڑیوں پر اپنی نقل مکانی کا آغاز کیا۔

یہ سفر اپنے آغاز میں اچھا تھا لیکن جب یہ قافلہ افغانستان کی سرحد کے قریب پہنچا تو سردیاں شروع ہو چکی تھیں اور قافلہ کے لوگوں پر راستہ کی مسافت کی تھکن بھی طاری ہو گئی تھی۔ ایک اور اہم قابل غور بات یہ تھی کہ میدانی علاقے کے لوگوں کی جسمانی ساخت پہاڑی علاقہ کے کے لوگوں کی ساخت کی نسبت مختلف ہوتی ہے میدانی علاقہ کے لوگ سخت جان نہیں ہوتے ہیں جس طرح پہاڑی علاقوں کے لوگ ہوتے ہیں چنانچہ یوں ہوا کہ  لکھوکھا کی تعداد میں جب یہ قافلہ افغانستان کی سرحد کے قریب پہنچا اور وہاں کی حکومت کو معلوم ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ افغانستان میں پناہ کے لئے پہنچ چکے ہیں وہاں کی حکومت سے اپنی سرحدوں پر پہرے بٹھا دیے اور سختی سے حکم نافذ کیا کہ جو بھی سرحد کے پاس آئے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ 

اب قافلہ کے پاس واپسی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور واپسی کا سفر بڑا ہی درد ناک تھا برف باری میں شدت تھی اور چھوٹے بچے اور ضیف افراد پر برفانی موسم موت بن کر وارد ہو رہا تھا یہاں تک پھر جوانوں کی بھی قوت مدافعت ساتھ چھوڑ گئی اور یہ قافلہ جب دوبارہ اپنے ٹھکانوں کو لوٹا تو بس چند ہزار خستہ بدن اور مفلوک الحال لوگ زندہ بچے تھے باقی راستے کی ایسی خاک بن چکے تھے جس پر کوئی فاتحہ بھی پڑھنے کو نہیں موجود تھا۔

اب دیکھئے جو مر کھپ گئے وہ تو زندگی کے ہر آزار سے فراغت پا گئے لیکن جو زندہ بچے ان کا کیا انجام ہوا ہوگا، اور اس تمام قصہ کا مآخذ صرف ایک فتویٰ ہی تو تھا کہ ہندوستان چھوڑ دو، کوئی ان نادانوں سے پوچھتا کہ جب تمھارے پرکھے ہندوستان آئے تھے تو کیا ہندوستان ایک اسلامی ملک تھا جو انگریز کے آنے سے رہنے کے قابل نا رہا-

اب ایک اور فتویٰ-

اس فتوے کا تعلق بھی برصغیر کے مسلمانوں سے ہے اس ایک فتوے مسلمانوں کی کئی نسلوں کو پسماندگی کی دلدل میں دھکیل دیا- ہوا یہ کہ انگریز نے ہندوستان پر جب اپنا قبضہ مستحکم کر لیا اور اس کو اب مزاحمت کا خوف نہیں رہا تو اس نے ہندوستان کے طول و عرض میں فارسی زبان کی جگہ انگلش زبان رائج کر دی اور ہندوستان کی تمام قومیتوں کے لوگوں بے چوں چرا انگلش سیکھنے پر توجہ مبذول کر لی لیکن مسلمان وہ واحد قوم تھی جس کے پیشواوں نے اس قوم پر فتویٰ لاگو کر دیا کہ انگلش زبان سیکھنا حرام ہے۔ یہ فتویٰ اس زمانے کے کسی مفتی محترم نے یا متفق علیہ مفتیان نے دیا تھا اس فتوے کے آنے کے بعد مسلمانوں پر ہر قسم کی اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہوتے گئے اور ہندو قوم کا بچہ، بچہ فرفر انگلش بولنے اور لکھنے لگا اور جب ہند و اور مسلم قوم کے یہ بچے جوان ہوئے تو ہندو انگلش زبان کی بنیاد پر مسلمانوں سے سبقت لے گیا اور مسلمانوں کی قسمت میں کلرکی لکھی گئی اس فتوے کے اثرات پاکستان بننے کے بعد بھی مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ 

جیسا کہ ابھی حالیہ ماضی میں اسلامی مملکت سعودی عرب کے مفتی نے فتویٰ جاری کیا کہ مجاہدین کے لئے ان حالات میں جہاد النکاح کے لئے نکاح کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ مجاہدین کی ضرورت ہے اس فتوے کے آتے ہی ساری دنیا سے داعش کے بنا نکاح کے حرم میں شامل ہونے لئے لڑکیاں دیوانہ وار شام کی جانب دوڑ پڑیں۔

ان میں صرف لڑکیاں ہی نہیں تھیں کئی، کئی بچوں کی مائیں بھی تھیں جنہوں اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں داعش کے لئے اپنی جنسی خدمات پیش کرنا تھیں ان میں پاکستان کے طول عرض کی لڑکیاں اور خواتین تھیں جو اپنے شوہروں کی لاعلمی میں اپنے بال بچوں سمیت غائب ہو چکی تھیں۔ شوہروں کے آنگن ویران کر کے جانے والی ان لڑکیوں اور خواتین کو اب اپنے شوہروں سے طلاق کے بغیر اپنی خدمات داعشی دہشت گردوں کو خوشی فراہم کرنا تھیں اور اس خدمت کے عوض ان کے لئے جنت کی نوید تھی۔

شامی کیمپ اور بچوں کی ہلاکتیں 

رواں برس مئی میں ایک آٹھ سالہ لڑکا گندے نالے میں گر کر ہلاک ہو گیااسی سال نومبر میں دو لڑکیوں کی سربُریدہ لاشیں گٹر میں سے برآمد ہوئی ان میں سے ایک کی عمر 12 اور دوسری کی 15 سال تھی۔ مبینہ طور پر ان کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور بعد ازاں ان کے سر کاٹ کر ان کی لاشیں گٹر میں ڈال دی گئیں

شمال مشرقی شام میں واقع الہول کیمپ جسے اکثر ''دنیا کا سب سے خطرناک کیمپ‘‘ کہا جاتا ہے، 53 ہزار سے زیادہ افراد کا مسکن ہے۔ اگرچہ اس کیمپ کے تمام رہائشی  اسلامک اسٹیٹ کی حمایت نہیں کرتے ہیں، لیکن یہ  آئی ایس گروپ کی طرف سے اُس وقت یہاں پہنچے تھے جب اس سفاک انتہا پسند گروپ کو اس کے عراق اور شام کے مضبوط گڑھوں میں شکست دی جا رہی تھی۔الہول کے کیمپ میں مقیم زیادہ تر افراد کا تعلق عراق یا شام سے ہے۔  تاہم اس کیمپ میں قریب دس سے گیارہ ہزار  افراد ایسے ہیں جن کا تعلق امریکہ، کینیڈا، اور یورپی ممالک سے ۔ الہول کیمپ کی آبادی کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ امدادی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق کیمپ کی آبادی کا 60 تا  64 فیصد بچوں پر مشتمل ہے جو زیادہ تر 12 الہول کا سب سے پُرتشدد سال

الہول کیمپ میں گنجائش سے کہیں زیادہ انسان رہ رہے ہیں اور انہیں طبی دیکھ بھال کی کمی، روزمرہ کی ضروری اشیاءکی قلت اور تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کے برابر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ الہول کیمپ کے بچوں کی یہ ناگفتہ بہ صورتحال پہلے ہی تھی کہ گزشتہ سال یعنی 2021 ء کے دوران قتل اور پُرتشدد واقعات نے ان بچوں کے اذہان کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ یہاں محض اس ایک سال میں 126 افراد قتل ہوئے اور 41 بار قتل کی کوششیں ریکارڈ کی گئیں۔ اس طرح یہ سال اس کیمپ کا سب سے پُر تشدد سال قرار پایا۔ خوفناک امر یہ کہ امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ رواں سال پچھلے برس سے بھی بد تر رہا۔ مزید یہ کہ پڑوسی ملک ترکی کی طرف سے اس علاقے پر فضائی حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا کیا یہ سب کچھ جاننے کے بعد کبھی  ماں باپ یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ ان کے بچے اسی کسمپرسی کی صورتحال کا سامنا کرتے رہیں اور ایسے کسی علاقے میں پھنسے رہیں؟ انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی ماؤں نے اپنے بچوں کے لیے اسی مستقبل کا خود انتخاب کر رکھا ہے۔ یعنی وہ اس کیمپ سے نکلنے کے لیے تیار نہیں۔

بچوں کی واپسی کا عمل

ہیومن رائٹس واچ نے نومبر کی ایک رپورٹ میں بتایا کہ 30 سے زائد ممالک، جن میں کئی یورپی ممالک بھی شامل ہیں، نے اپنے شہریوں کو الہول سے واپس بلایا ہے، اور مجموعی طور پر تقریباً 1500 بچوں کو وطن واپس لایا گیا ہے۔ ان ممالک کی حکومتوں نے چند خواتین کو وطن واپسی کی پیشکش کی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مثلاً جرمن دفتر خارجہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آخری خاتون جو جرمنی واپس جانا چاہتی تھی نومبر میں اپنے چار بچوں کے ساتھ واپس لائی گئی تھی۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا، ''ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اب بھی درجنوں جرمن مائیں اور بچے روج اور الہول کیمپوں میں موجود ہیں۔ ان میں سے چند خواتین جرمنی واپس نہیں آنا چاہتیں۔‘‘ 

 ان کیمپوں میں رہنے کی وجوہات

 ہیومن رائٹس واچ HRW میں بچوں کے حقوق کے لیے ایڈوکیسی ڈائریکٹر جو بیکر کے مطابق جو مائیں گھر نہیں جانا چاہتی تھیں، انہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر یہ فیصلہ کیا۔انہوں نے کہا، ''کچھ ایسی ہیں جو کسی غیر مسلم ملک میں نہیں رہنا چاہتیں یا انہیں اپنے ساتھ امتیازی سلوک اور مظالم کا خوف ہے یا خود پر مقدمہ چلنے جیسے خدشات سے بچنا چاہتی ہیں۔ دیگر ایسی خواتین ہیں جن کے شوہر جیل میں ہو سکتے ہیں اور وہ ان کی رہائی کا انتظار کرنا چاہتی ہیں، یا ان کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتیں۔‘‘ جو بیکر کہتی ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ ان کے بچوں کے لیے یہ فیصلہ ان کے بہترین مفاد میں  ہو۔ 

جمعہ، 31 مارچ، 2023

ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی

 

 

دین اسلام کا جونہی بول بالا ہوا ویسے ہی بڑی بڑی نامور مسلمان ہستیاں دنیا کے منظر عام پر آئیں -جیسے فارابی-ابن الہیشم'الکندی'بوعلی سینا -ابو ریحان البیرونی اور بھی کئ قابل زکر نام لیکن اسی کے ساتھ کمزور -بودے دماغ والے کند زہن ملّاوں کا گروہ بھی وجود میں آ گیا جو علم کے شجر کو جڑ سے کاٹ دینے کے لئےکلہاڑے لے کر  قابل لوگوں کے مد مقابل آ گئے- یہ خیر و شر کی جنگ تھی جس کو صاحبان عقل و دانش کہیں روپوش ہو کر- کہیں اور کسی طریقہ سے جان بچا کر ہم کو وہ علم دے گئے جن پر زمانہ آج بھی ناز کرتا ہے الکندی بھی انہی نامور لوگوں کے قبیلے کے ایک فرد تھے جن کے لئے آپ اس مضمون میں پڑھِین گے-

ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی کا شمار اسلامی دنیا کے اوّلین حکما اور فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ فلسفہ کے علاوہ انہوں نے حساب، طب، فلکیات اور موسیقی میں بھی مہارت حاصل کی۔ الکندی کے نمایاں کارناموں میں سے ایک کارنامہ، اسلامی دنیا کو حکیم ارسطو کے خیالات سے روشناس کرنا تھا۔ قرون وسطیٰ کے زمانے میں ان کو چند بڑی اور نمایاں شخصیات میں شمار کیا جاتا تھا۔ یعقوب کندی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے اس لیے ان کی تحقیق کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ریاضی، طبیعیات، فلسفہ، ہیئت، موسیقی، طب اور جغرافیہ جیسے علوم پر انہوں نے اعلیٰ پائے کی کتب تحریر کیں۔ وہ یونانی و سریانی زبانوں پر بھی مہارت رکھتے تھے۔

الکندی 801ء میں عراق کے شہر کوفہ میں ایک صاحب ثروت خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہیں ’’عربوں کا فلسفی‘‘ اور ’’عربی فلسفہ کا باپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ الکندی مسلمانوں میں ارسطو کی تتبع میں جاری ہونے والی فلسفیانہ روایت کے بانیان میں شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے دنیائے اسلام میں یونانی فلسفے کے لیے فضا تیار کی اور اس کے فروغ کے لیے کوشش کی۔ نہ صرف یہ بلکہ یونانی فلسفیانہ مزاج سے اسلامی مزاج کو ہم آہنگ کرنے کے لیے انہوں نے علمی سطح پر کاوشیں کیں اور فلسفہ اور مختلف اسلامی علوم جیسے الہٰیات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ابتدائی تعلیم الکندی نے بصرہ میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ بغداد منتقل ہو گئے۔ الکندی کا انتقال 873ء میں ہوا۔

فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھ۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین ‏عوام قہقہہ لگاتے تھے۔مسلم سائنس دانوں کا جو حشرمسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخرسے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے‏ -

وقت کے ظلم کو دیکھتے ہوئےکندی نے اپنے کام کو دو نکات تک محدود رکھا، پہلا: فلسفیانہ کتابوں کی تلاش جس کا اس کے ترجمہ کے ذرائع نے براہ راست ذکر نہیں کیا، جو کہ دیگر فلسفیوں کے کاموں کی وضاحتیں، مخففات، تبصرے یا ترجمے ہیں۔ دوسرا: اس کے سائنسی کاموں پر بحث کرنا جو اس کے ترجمے کے ماخذ کی فہرست میں شامل نہیں تھے، جن میں شاید سب سے نمایاں النادیم کا فہرست ہے۔ دونوں محققین نے مطالعہ کی تیاری میں تاریخی تجزیاتی طریقہ پر عمل کیا، اور ان کا مطالعہ نتائج کے ایک سیٹ کے ساتھ ختم ہوا، جن میں سب سے اہم ہیں: الکندی کے فلسفیانہ اور سائنسی متن کے درمیان علمی تقاطع کو جاننے کی ضرورت۔ ہمیں فلسفہ اور سائنس پر الکندی کی کتابوں کی مکمل کتابیات نہیں ملتی ہیں اور کچھ کتابیں الکندی نے  لکھی تھیں لیکن زمانے کے ظلم سے بچنے کے لئے ان کو اپنے شاگردوں سے معنون کیا-الکندی نے مختلف مضوعات پر 260 کتابیں لکھیں. ان میں ہندسہ پر 32 ، طب اور فلسفہ پر 22 ، منطق پر 9 اور طبیعیات پر 12 کتابیں لکھیں.

اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرۃ (آیت 269) میں ’’حکمت‘‘ کو ’’خیرکثیر‘ ‘ کہا ہے۔ اس خیرکثیر کو حاصل کرنے والے دانشمند لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے رہے اسلام کے سنہری دور میں ایسے عظیم لوگوں کی کثرت تھی جو ہر قسم کے علم کا احاطہ کرتے رہے۔ مسلمانوں نے علم کی وحدت کو سمجھا اور اس کو قائم رکھا۔ مسلمان سائنسدان بیک وقت ماہر طبیعات ، فلکیات ، فلسفی، طبیب، ریاضی دان، کیمیادان، جغرافیہ دان، مورخ اور شاعر ہوتے تھے۔

اسحاق الکندی (801-873ئ) وہ ریاضی، فلسفی، طبیعات، موسیقی، فلکیات، فلسفہ طب، جغرافیہ وغیرہ جیسے مختلف النوع مضامین پر دو سو ستر (270) کتابوں کے مصنف میں کندی نے آسمان کا نیلا رنگ ہونے کے اسباب پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ کندی نے ان قوانین کی تصدیق کی جو اجسام کے گرنے کے متعلق ہیں۔ کندی کو بجا طور پر نیوٹن (1652-1727ئ) کے نظریۂ تجاذب (Gravitation)کا پیشرو کہا جاتا ہے۔ وہ کئی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے اور انہیں دنیائے اسلام کے چار عظیم مترجمین میں شمار کیا جاتا ہے۔

 الکندی کہتا ہے کہ ایک کائناتی قانون کا وجود ہے جس کی تعمیل مادے کے تمام جاندار اور غیرجاندار انواع پر فرض ہے وہ قدیم فلسفیوں میں شمار ہونے والے واحد عرب مسلم فلسفی  ہیں-اس سے قطع نظر کہ اب یورپ مسلمانوں سے سائنسی لحاظ سے صدیوں آگے نکل چکا ہے تاہم مسلم تاریخ کے اس روشن دور کی چند ایسی اہم ایجادات کا احوال جاننا یقیناً دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا جس نے آج کی جدید ترین دنیا کی بنیاد رکھی اور آج ٹیکنالوجی کے لحاظ سے انسانی تاریخ کے سب سے اہم ترین دور سے مستفید ہو رہے ہیں۔

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر