ہفتہ، 1 اپریل، 2023

سرکار فتویٰ آ گیا ہے

 

 

سرکار فتویٰ آ گیا ہے۔ فتویٰ کیا ہوتا ہے۔ ہم دین اسلام کے پیروکاروں میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو اس کے معانی اور مفہوم سے نا آشنا ہو لیکن وہ محترم علمائے دین جن کے کاندھوں پر قوم کی پیشوائی کی فریضہ ہوتا ہے کیا اس کے جاری کرنے کے اثرات و ثمرات سے واقف ہوتے ہیں۔فتویٰ دینا ایک بہت اہم منصب ہے اس منصب کو پانے کے لئے علمائے کرام کو بہت علمی محنت کرنا ہوتی ہے تب جا کر ان کو فتویٰ دینے کا منصب عطا ہوتا ہے لیکن تاریخ کی ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے جب میں نے برصغیر کے غیر منقسم ہندوستان میں انگریز کے آنے کے بعد کی تاریخ پڑھی تو مجھے حیرت اور دلی تکلیف سے گزرنا پڑا۔اس زمانے میں پہلا فتویٰ دیا گیا کہ ایک بدیسی قوم کے آ جانے کے بعد اب ہندوستان رہنے کے قابل ملک نہیں ہے اس لئے رہائش کے لئے کسی اسلامی ملک کا انتخاب کرنا ہو گا چنانچہ نگاہ انتخاب نے افغانستان کو جائے رہائش کے لئے موزوں قرار دیا اس فتوے کی پیروی پچیس ہزار خاندانوں نے کی اور اپنا مال و اسباب لہلہاتے کھیت و کھلیان بیچے اور اور بیل گاڑیوں پر اپنی نقل مکانی کا آغاز کیا۔

یہ سفر اپنے آغاز میں اچھا تھا لیکن جب یہ قافلہ افغانستان کی سرحد کے قریب پہنچا تو سردیاں شروع ہو چکی تھیں اور قافلہ کے لوگوں پر راستہ کی مسافت کی تھکن بھی طاری ہو گئی تھی۔ ایک اور اہم قابل غور بات یہ تھی کہ میدانی علاقے کے لوگوں کی جسمانی ساخت پہاڑی علاقہ کے کے لوگوں کی ساخت کی نسبت مختلف ہوتی ہے میدانی علاقہ کے لوگ سخت جان نہیں ہوتے ہیں جس طرح پہاڑی علاقوں کے لوگ ہوتے ہیں چنانچہ یوں ہوا کہ  لکھوکھا کی تعداد میں جب یہ قافلہ افغانستان کی سرحد کے قریب پہنچا اور وہاں کی حکومت کو معلوم ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ افغانستان میں پناہ کے لئے پہنچ چکے ہیں وہاں کی حکومت سے اپنی سرحدوں پر پہرے بٹھا دیے اور سختی سے حکم نافذ کیا کہ جو بھی سرحد کے پاس آئے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ 

اب قافلہ کے پاس واپسی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور واپسی کا سفر بڑا ہی درد ناک تھا برف باری میں شدت تھی اور چھوٹے بچے اور ضیف افراد پر برفانی موسم موت بن کر وارد ہو رہا تھا یہاں تک پھر جوانوں کی بھی قوت مدافعت ساتھ چھوڑ گئی اور یہ قافلہ جب دوبارہ اپنے ٹھکانوں کو لوٹا تو بس چند ہزار خستہ بدن اور مفلوک الحال لوگ زندہ بچے تھے باقی راستے کی ایسی خاک بن چکے تھے جس پر کوئی فاتحہ بھی پڑھنے کو نہیں موجود تھا۔

اب دیکھئے جو مر کھپ گئے وہ تو زندگی کے ہر آزار سے فراغت پا گئے لیکن جو زندہ بچے ان کا کیا انجام ہوا ہوگا، اور اس تمام قصہ کا مآخذ صرف ایک فتویٰ ہی تو تھا کہ ہندوستان چھوڑ دو، کوئی ان نادانوں سے پوچھتا کہ جب تمھارے پرکھے ہندوستان آئے تھے تو کیا ہندوستان ایک اسلامی ملک تھا جو انگریز کے آنے سے رہنے کے قابل نا رہا-

اب ایک اور فتویٰ-

اس فتوے کا تعلق بھی برصغیر کے مسلمانوں سے ہے اس ایک فتوے مسلمانوں کی کئی نسلوں کو پسماندگی کی دلدل میں دھکیل دیا- ہوا یہ کہ انگریز نے ہندوستان پر جب اپنا قبضہ مستحکم کر لیا اور اس کو اب مزاحمت کا خوف نہیں رہا تو اس نے ہندوستان کے طول و عرض میں فارسی زبان کی جگہ انگلش زبان رائج کر دی اور ہندوستان کی تمام قومیتوں کے لوگوں بے چوں چرا انگلش سیکھنے پر توجہ مبذول کر لی لیکن مسلمان وہ واحد قوم تھی جس کے پیشواوں نے اس قوم پر فتویٰ لاگو کر دیا کہ انگلش زبان سیکھنا حرام ہے۔ یہ فتویٰ اس زمانے کے کسی مفتی محترم نے یا متفق علیہ مفتیان نے دیا تھا اس فتوے کے آنے کے بعد مسلمانوں پر ہر قسم کی اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہوتے گئے اور ہندو قوم کا بچہ، بچہ فرفر انگلش بولنے اور لکھنے لگا اور جب ہند و اور مسلم قوم کے یہ بچے جوان ہوئے تو ہندو انگلش زبان کی بنیاد پر مسلمانوں سے سبقت لے گیا اور مسلمانوں کی قسمت میں کلرکی لکھی گئی اس فتوے کے اثرات پاکستان بننے کے بعد بھی مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ 

جیسا کہ ابھی حالیہ ماضی میں اسلامی مملکت سعودی عرب کے مفتی نے فتویٰ جاری کیا کہ مجاہدین کے لئے ان حالات میں جہاد النکاح کے لئے نکاح کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ مجاہدین کی ضرورت ہے اس فتوے کے آتے ہی ساری دنیا سے داعش کے بنا نکاح کے حرم میں شامل ہونے لئے لڑکیاں دیوانہ وار شام کی جانب دوڑ پڑیں۔

ان میں صرف لڑکیاں ہی نہیں تھیں کئی، کئی بچوں کی مائیں بھی تھیں جنہوں اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں داعش کے لئے اپنی جنسی خدمات پیش کرنا تھیں ان میں پاکستان کے طول عرض کی لڑکیاں اور خواتین تھیں جو اپنے شوہروں کی لاعلمی میں اپنے بال بچوں سمیت غائب ہو چکی تھیں۔ شوہروں کے آنگن ویران کر کے جانے والی ان لڑکیوں اور خواتین کو اب اپنے شوہروں سے طلاق کے بغیر اپنی خدمات داعشی دہشت گردوں کو خوشی فراہم کرنا تھیں اور اس خدمت کے عوض ان کے لئے جنت کی نوید تھی۔

شامی کیمپ اور بچوں کی ہلاکتیں 

رواں برس مئی میں ایک آٹھ سالہ لڑکا گندے نالے میں گر کر ہلاک ہو گیااسی سال نومبر میں دو لڑکیوں کی سربُریدہ لاشیں گٹر میں سے برآمد ہوئی ان میں سے ایک کی عمر 12 اور دوسری کی 15 سال تھی۔ مبینہ طور پر ان کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور بعد ازاں ان کے سر کاٹ کر ان کی لاشیں گٹر میں ڈال دی گئیں

شمال مشرقی شام میں واقع الہول کیمپ جسے اکثر ''دنیا کا سب سے خطرناک کیمپ‘‘ کہا جاتا ہے، 53 ہزار سے زیادہ افراد کا مسکن ہے۔ اگرچہ اس کیمپ کے تمام رہائشی  اسلامک اسٹیٹ کی حمایت نہیں کرتے ہیں، لیکن یہ  آئی ایس گروپ کی طرف سے اُس وقت یہاں پہنچے تھے جب اس سفاک انتہا پسند گروپ کو اس کے عراق اور شام کے مضبوط گڑھوں میں شکست دی جا رہی تھی۔الہول کے کیمپ میں مقیم زیادہ تر افراد کا تعلق عراق یا شام سے ہے۔  تاہم اس کیمپ میں قریب دس سے گیارہ ہزار  افراد ایسے ہیں جن کا تعلق امریکہ، کینیڈا، اور یورپی ممالک سے ۔ الہول کیمپ کی آبادی کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ امدادی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق کیمپ کی آبادی کا 60 تا  64 فیصد بچوں پر مشتمل ہے جو زیادہ تر 12 الہول کا سب سے پُرتشدد سال

الہول کیمپ میں گنجائش سے کہیں زیادہ انسان رہ رہے ہیں اور انہیں طبی دیکھ بھال کی کمی، روزمرہ کی ضروری اشیاءکی قلت اور تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کے برابر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ الہول کیمپ کے بچوں کی یہ ناگفتہ بہ صورتحال پہلے ہی تھی کہ گزشتہ سال یعنی 2021 ء کے دوران قتل اور پُرتشدد واقعات نے ان بچوں کے اذہان کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ یہاں محض اس ایک سال میں 126 افراد قتل ہوئے اور 41 بار قتل کی کوششیں ریکارڈ کی گئیں۔ اس طرح یہ سال اس کیمپ کا سب سے پُر تشدد سال قرار پایا۔ خوفناک امر یہ کہ امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ رواں سال پچھلے برس سے بھی بد تر رہا۔ مزید یہ کہ پڑوسی ملک ترکی کی طرف سے اس علاقے پر فضائی حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا کیا یہ سب کچھ جاننے کے بعد کبھی  ماں باپ یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ ان کے بچے اسی کسمپرسی کی صورتحال کا سامنا کرتے رہیں اور ایسے کسی علاقے میں پھنسے رہیں؟ انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی ماؤں نے اپنے بچوں کے لیے اسی مستقبل کا خود انتخاب کر رکھا ہے۔ یعنی وہ اس کیمپ سے نکلنے کے لیے تیار نہیں۔

بچوں کی واپسی کا عمل

ہیومن رائٹس واچ نے نومبر کی ایک رپورٹ میں بتایا کہ 30 سے زائد ممالک، جن میں کئی یورپی ممالک بھی شامل ہیں، نے اپنے شہریوں کو الہول سے واپس بلایا ہے، اور مجموعی طور پر تقریباً 1500 بچوں کو وطن واپس لایا گیا ہے۔ ان ممالک کی حکومتوں نے چند خواتین کو وطن واپسی کی پیشکش کی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مثلاً جرمن دفتر خارجہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آخری خاتون جو جرمنی واپس جانا چاہتی تھی نومبر میں اپنے چار بچوں کے ساتھ واپس لائی گئی تھی۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا، ''ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اب بھی درجنوں جرمن مائیں اور بچے روج اور الہول کیمپوں میں موجود ہیں۔ ان میں سے چند خواتین جرمنی واپس نہیں آنا چاہتیں۔‘‘ 

 ان کیمپوں میں رہنے کی وجوہات

 ہیومن رائٹس واچ HRW میں بچوں کے حقوق کے لیے ایڈوکیسی ڈائریکٹر جو بیکر کے مطابق جو مائیں گھر نہیں جانا چاہتی تھیں، انہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر یہ فیصلہ کیا۔انہوں نے کہا، ''کچھ ایسی ہیں جو کسی غیر مسلم ملک میں نہیں رہنا چاہتیں یا انہیں اپنے ساتھ امتیازی سلوک اور مظالم کا خوف ہے یا خود پر مقدمہ چلنے جیسے خدشات سے بچنا چاہتی ہیں۔ دیگر ایسی خواتین ہیں جن کے شوہر جیل میں ہو سکتے ہیں اور وہ ان کی رہائی کا انتظار کرنا چاہتی ہیں، یا ان کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتیں۔‘‘ جو بیکر کہتی ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ ان کے بچوں کے لیے یہ فیصلہ ان کے بہترین مفاد میں  ہو۔ 

جمعہ، 31 مارچ، 2023

ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی

 

 

دین اسلام کا جونہی بول بالا ہوا ویسے ہی بڑی بڑی نامور مسلمان ہستیاں دنیا کے منظر عام پر آئیں -جیسے فارابی-ابن الہیشم'الکندی'بوعلی سینا -ابو ریحان البیرونی اور بھی کئ قابل زکر نام لیکن اسی کے ساتھ کمزور -بودے دماغ والے کند زہن ملّاوں کا گروہ بھی وجود میں آ گیا جو علم کے شجر کو جڑ سے کاٹ دینے کے لئےکلہاڑے لے کر  قابل لوگوں کے مد مقابل آ گئے- یہ خیر و شر کی جنگ تھی جس کو صاحبان عقل و دانش کہیں روپوش ہو کر- کہیں اور کسی طریقہ سے جان بچا کر ہم کو وہ علم دے گئے جن پر زمانہ آج بھی ناز کرتا ہے الکندی بھی انہی نامور لوگوں کے قبیلے کے ایک فرد تھے جن کے لئے آپ اس مضمون میں پڑھِین گے-

ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی کا شمار اسلامی دنیا کے اوّلین حکما اور فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ فلسفہ کے علاوہ انہوں نے حساب، طب، فلکیات اور موسیقی میں بھی مہارت حاصل کی۔ الکندی کے نمایاں کارناموں میں سے ایک کارنامہ، اسلامی دنیا کو حکیم ارسطو کے خیالات سے روشناس کرنا تھا۔ قرون وسطیٰ کے زمانے میں ان کو چند بڑی اور نمایاں شخصیات میں شمار کیا جاتا تھا۔ یعقوب کندی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے اس لیے ان کی تحقیق کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ریاضی، طبیعیات، فلسفہ، ہیئت، موسیقی، طب اور جغرافیہ جیسے علوم پر انہوں نے اعلیٰ پائے کی کتب تحریر کیں۔ وہ یونانی و سریانی زبانوں پر بھی مہارت رکھتے تھے۔

الکندی 801ء میں عراق کے شہر کوفہ میں ایک صاحب ثروت خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہیں ’’عربوں کا فلسفی‘‘ اور ’’عربی فلسفہ کا باپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ الکندی مسلمانوں میں ارسطو کی تتبع میں جاری ہونے والی فلسفیانہ روایت کے بانیان میں شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے دنیائے اسلام میں یونانی فلسفے کے لیے فضا تیار کی اور اس کے فروغ کے لیے کوشش کی۔ نہ صرف یہ بلکہ یونانی فلسفیانہ مزاج سے اسلامی مزاج کو ہم آہنگ کرنے کے لیے انہوں نے علمی سطح پر کاوشیں کیں اور فلسفہ اور مختلف اسلامی علوم جیسے الہٰیات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ابتدائی تعلیم الکندی نے بصرہ میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ بغداد منتقل ہو گئے۔ الکندی کا انتقال 873ء میں ہوا۔

فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھ۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین ‏عوام قہقہہ لگاتے تھے۔مسلم سائنس دانوں کا جو حشرمسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخرسے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے‏ -

وقت کے ظلم کو دیکھتے ہوئےکندی نے اپنے کام کو دو نکات تک محدود رکھا، پہلا: فلسفیانہ کتابوں کی تلاش جس کا اس کے ترجمہ کے ذرائع نے براہ راست ذکر نہیں کیا، جو کہ دیگر فلسفیوں کے کاموں کی وضاحتیں، مخففات، تبصرے یا ترجمے ہیں۔ دوسرا: اس کے سائنسی کاموں پر بحث کرنا جو اس کے ترجمے کے ماخذ کی فہرست میں شامل نہیں تھے، جن میں شاید سب سے نمایاں النادیم کا فہرست ہے۔ دونوں محققین نے مطالعہ کی تیاری میں تاریخی تجزیاتی طریقہ پر عمل کیا، اور ان کا مطالعہ نتائج کے ایک سیٹ کے ساتھ ختم ہوا، جن میں سب سے اہم ہیں: الکندی کے فلسفیانہ اور سائنسی متن کے درمیان علمی تقاطع کو جاننے کی ضرورت۔ ہمیں فلسفہ اور سائنس پر الکندی کی کتابوں کی مکمل کتابیات نہیں ملتی ہیں اور کچھ کتابیں الکندی نے  لکھی تھیں لیکن زمانے کے ظلم سے بچنے کے لئے ان کو اپنے شاگردوں سے معنون کیا-الکندی نے مختلف مضوعات پر 260 کتابیں لکھیں. ان میں ہندسہ پر 32 ، طب اور فلسفہ پر 22 ، منطق پر 9 اور طبیعیات پر 12 کتابیں لکھیں.

اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرۃ (آیت 269) میں ’’حکمت‘‘ کو ’’خیرکثیر‘ ‘ کہا ہے۔ اس خیرکثیر کو حاصل کرنے والے دانشمند لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے رہے اسلام کے سنہری دور میں ایسے عظیم لوگوں کی کثرت تھی جو ہر قسم کے علم کا احاطہ کرتے رہے۔ مسلمانوں نے علم کی وحدت کو سمجھا اور اس کو قائم رکھا۔ مسلمان سائنسدان بیک وقت ماہر طبیعات ، فلکیات ، فلسفی، طبیب، ریاضی دان، کیمیادان، جغرافیہ دان، مورخ اور شاعر ہوتے تھے۔

اسحاق الکندی (801-873ئ) وہ ریاضی، فلسفی، طبیعات، موسیقی، فلکیات، فلسفہ طب، جغرافیہ وغیرہ جیسے مختلف النوع مضامین پر دو سو ستر (270) کتابوں کے مصنف میں کندی نے آسمان کا نیلا رنگ ہونے کے اسباب پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ کندی نے ان قوانین کی تصدیق کی جو اجسام کے گرنے کے متعلق ہیں۔ کندی کو بجا طور پر نیوٹن (1652-1727ئ) کے نظریۂ تجاذب (Gravitation)کا پیشرو کہا جاتا ہے۔ وہ کئی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے اور انہیں دنیائے اسلام کے چار عظیم مترجمین میں شمار کیا جاتا ہے۔

 الکندی کہتا ہے کہ ایک کائناتی قانون کا وجود ہے جس کی تعمیل مادے کے تمام جاندار اور غیرجاندار انواع پر فرض ہے وہ قدیم فلسفیوں میں شمار ہونے والے واحد عرب مسلم فلسفی  ہیں-اس سے قطع نظر کہ اب یورپ مسلمانوں سے سائنسی لحاظ سے صدیوں آگے نکل چکا ہے تاہم مسلم تاریخ کے اس روشن دور کی چند ایسی اہم ایجادات کا احوال جاننا یقیناً دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا جس نے آج کی جدید ترین دنیا کی بنیاد رکھی اور آج ٹیکنالوجی کے لحاظ سے انسانی تاریخ کے سب سے اہم ترین دور سے مستفید ہو رہے ہیں۔

 

جمعرات، 30 مارچ، 2023

اسپ وفادار-راہوار امام عالی مقام حسین علیہ السّلام

 حضرت موسی ع اور ذوالجناح -کوہ طور پر بھی ذوالجناح کی وفا کا چرچا تھا حضرت موسی ع کوہ طور پر مناجات کے لیے جا رہے تھے کہ ایک اسرائیلی گناہ گار نے کہا اے خدا کے نبی ع میں بہت بڑا عاصی ہوں آپ خدا سے میری سفارش کیجیے گا تاکہ میری عفو ہو جائے کلیم اللہ نے اسکی وکالت کی جواب ملا اے موسی ع آپ جو مانگو دوں گا اور جسکی طلب مغفرت مانگو بخش دوں گا مگر قاتل حسین ع کی بخشش نہیں ہے عرض کیا حسین ع کون ہے خطاب ہوا وہ ہی جسکا ذکر کوہ طور پر ہو چکا ہے کہا انکو کون قتل کرے گا فرمایا انکے نانا ع کی بدبخت اور سرکش امت میدان کربلا پر گھوڑا انکا صحیہ کرتا ہوا ( در خیمہ ) پر آئے گا اور بزبان بے زبانی اعلان ظلم بیان کرے گا اور امت کے ہاتھ سے ان کے پغیمبر ع کی دختر کے لال پر جو ستم ہوئے آسمانی صحیفے کی بھی وہ حدیث ہے حسین ع کی شہادت عظمی سے سیکڑوں برس پہلے اولوالعزم پغیمبر موسی ع کے سامنے بیان فرمایا جو ان پر رؤے یا رؤلائے یا رونے والے کی شکل بنائے اس کے جسم کو میں آگ پر حرام کر دوں گا (ناسخ التواریخ ج.٦) شجرہ نسب -ایک روایت کے مطابق ذوالجناح کا شجرہ حضرت اسماعیل ع کے گھوڑے سے جاکر ملتا ہے.-دوسری روایت ہے کہ حضرت ابراہیم ع جس گھوڑے پر فلسطین سے مکے آیا کرتے تھے اسی گھوڑے کی نسل سے ہے

بعض کے نزدیک ذوالجناح بھی جنت کی سواریوں میں سے ایک سواری ہے جو رسول خدا اور اہل بیت ع کے لیے براق کی طرح خدا نے بھیجا تھا.بعض کے مطابق یہ ذوالجناح کوئی عام گھوڑا نہ تھا بلکہ ایک جن تھا جو اللہ کے حکم کے مطابق اہل بیت ع کی خدمت پر مامور تھا اور اپنے فرض کی تکمیل کے بعد ٦١ ہجری کو واپس لوٹ گیا.بعض کے نزدیک ذوالجناح اک فرشتہ تھا جسے یوم عاشور کے واقعات کا گواہ بننا تھا جیسا کہ حجراسود بھی ایک فرشتہ ہے جو عہد الست کا گواہ ہے اور اللہ نے پھتر کی صورت میں اس فرشتہ کو دنیا میں بھیجا تاکہ اس بات کی گواہی دے سکے کہ کون لوگ عہد الست پر قائم رہے ذوالجناح بھی قانون قدرت کے مطابق واقعہ کربلا کا گواہ ہے-مورخ یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ راہوار حسینی گھوڑا نہیں کسی اور دنیا کی مخلوق نظر آتا ہے ذوالجناح رسول اکرم ع کے پاس کیسے آیا-ذوالجناح کو رسول ع کی خدمت میں تحفے کے طور پر پیش کیا گیا واقعہ کے مطابق مصر کے علاقے اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے رسول اکرم ع کی خدمت میں ایک خاتون سودہ بنت زمعہ کو اور ایک بے مثال گھوڑا روانہ کیا تھا رسول اکرم ع نے سودہ بنت زمعہ کو عقد کے زریعے داخل حرم کیا اور گھوڑے کو پرورش کے لیے حضرت علی ع کے سپرد کیا

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے ایک بادشاہ اپنے وقت کی سب سے بااثر شخصیت کو جو تحفہ پیش کر رہا ہے لازمی اس میں کوئی خاص بات ہو گی کہا جاتا ہے اسکندریہ کے علاقے میں جو مصر کے شمال اور بحریہ روم کے جنوبی کناروں پر واقع ہے ایک گھوڑا جو آزادانہ پھرتا دیکھا گیا یہ گھوڑا افسانوی کردار کا مالک تھا بہت سے بہادروں اور مہم جوؤں نے اسکو گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے اسطرح اس گھوڑے کا قصہ زبان ذدعام ہو گیا ایک طرح گھوڑے کا ذکر مافوق الفطرت داستان کے طور پر ہونے لگا بادشاہ مقوقس نے رسول ع کی خدمت میں بے مثال تحفے بھیجنے کی خاطر اپنے کارندوں کو اس گھوڑے کو پکڑنے کی خاصر روانہ کیا-مقوقس کے کارندے اس گھوڑے کو پکڑنے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن اس میں سوار ہونے پر ناکامی ہوئی چناچہ اس گھوڑے کو اسی طرح رسول اکرم ع کی خدمت میں روانہ کیا گیا اسکندریہ سے مدینے تک کہ تمام راہ میں اس گھوڑے کو بڑے بہادر افراد قابو میں رکھتے جب اس منہ زور گھوڑے کو رسول ع کی خدمت میں حاضر کیا گیا تو رسول ع نے اس جانور کو انتہائی پسند فرمایا جب رسول ع نے اسکی گردن پر ہاتھ پھیرا تو اس نے خوشی کا اظہار کیا اسکے ساتھ ہی اسکی منہ زوری اطاعت میں تبدیل ہو گئ رسول ع نے اس وقت اسکو ذوالجناح کا لقب عطا فرمایا اور پرورش کے لیے اسکی رسی مولا علی ع کو دے دی اسطرح یہ ان کے ساتھ ایسے چل پڑا جیسے صدیوں سے منزل کی تلاش میں بھٹکنے والے مسافر کی روح کو منزل پا لینے کے بعد قرار آگیا ہو   کا رنگ بے داغ موتی کی طرح سفید تھا لہذا پتہ چلا یہ ذوالجناح حقیقت میں رسول اللہ ع کا ہے

 اس میں قدرت کا راز یہ ہے آئندہ جب بھی ذکر ذوالجناح ہو فقط راہوار حسینی کی وجہ سے نہ پہچانا جائے بلکہ اسکا ذکر ہو تو یاد رسول ع بھی تازہ ہو اور ذوالجناح کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ اسکی پشت پر سب سے پہلے رسول اللہ ع سوار ہوئے اس کے بعد مولا علی ع پھر امام حسن ع اور آخر میں امام حسین ع نے سواری کی ذوالجناح مرتجز عقاب میمون وغیرہ یہ وہ گھوڑے تھے جو پغیمبر اکرم ع کو مختلف ملکوں حکمرانوں نے تحفتا" بھجوائے تھے اور یہ گھوڑے رسول اللہ ع کے استمعال میں بھی رہے یہ نبوت امامت کا معجزہ ہے کہ ان سے مربوط منسوب کسی بھی شے پر زمانے کی کثافتیں اثر انداز نہیں ہوتیں اسی لیے 61 ہجری میں یہ گھوڑے اسی آب و تاب کے ساتھ امام حسین ع اور اقربا کی سواری بنے ہوئے تھے -بعض مورخین کے نزدیک حضرت عبدالمطلب ع کو یمن کے بادشاہ سیف بن ذی یزن نے چار گھوڑے ہدیہ کیے تھے اس وقت رسول اکرم ع کی عمر آٹھ برس تھی بادشاہ یمن کی خواہش تھی کہ آپ ان گھوڑوں کو اپنے پوتے کو دے دیجیے گا وہ بڑا ہو کر نبی ع بنے گا میں نے آسمانی کتابوں میں اسکی پہچان پڑھی ہے حضرت عبدالمطب ع نے وہ گھوڑے اپنے پوتے حضرت محمد ع کو پیش کیے اور آپ ع نے کم سنی کے عالم میں باری باری ہر گھوڑے کی سواری کی ایک گھوڑے کا نام مرتجز رکھا ایک گھوڑے کا نام میمون رکھا ایک کا نام ذوالجناح رکھا ایک کا نام طاویہ رکھا سیف بن ذی یزن نے گھوڑے دینے کے بعد حضرت محمد ع سے اپنی شفاعت کی دعا کی التجاء کی تھی -

 روائت ہے کہ حمیری خاندان میں سے باذان تبع یمن تھا جو سیف بن ذی یزن کی اولاد میں سے تھا جس وقت رسول ع کا گرامی نامہ خسرو پرویز کے پاس پہنچا اس نے گرامی نامہ کی کوئی عزت نہیں کی اور ساتھ ہی بادشاہ یمن باذان کو خط لکھا کہ تجھے معلوم ہو گا کہ عرب کی بنجر زمین میں اللہ کی رحمت کا نزول ہوا ہے وہاں جناب محمد بن عبداللہ ع رسالت کے داعی ہیں اور ایک نئے دین کی ترویج فرما رہے ہیں تو انہیں گرفتار یا شہید کرکے انکا سر اطہر میری طرف روانہ کر جس وقت یہ خط باذان کو پہنچا اس نے یہ خط رسول اکرم ع کی طرف روانہ کیا اور عرض کیا آپ ع مجھے آگاہ فرمائیں اب میں اسے جواب میں کیا لکھوں ؟ رسول اکرم ع نے جوابا" اسے آگاہ فرمایا کہ تمہیں اب جواب لکھنے کی ضرورت نہیں ہے جواب اللہ کی طرف سے آچکا ہے خسروپرویز کو قتل کر دیا جائے گا جس دن تیرے پاس خط پہنچے گا اسکے دو دن بعد اسکے قتل کی خبر تیرے پاس پہنچ جائے گی یہ فیصلہ آسمان پر ہو چکا ہے جب خسرو پرویز قتل ہوا اسکی اطلاع باذان کے پاس حسب فرمان پہنچ گئ اس وقت باذان نے بارگاہ رسالت میں عریضہ لکھا میں آپکا مذہب قبول کر چکا ہوں چند دن بعد جب باذان کا انتقال ہوا تو اسکے بڑے بیٹے شہر بن باذان کو تخت پر بٹھادیا گیا اور شہنشاہ انبیاع جشن تاج پوشی میں شرکت کی دعوت دی گئ شہنشاہ انبیاع جناب امیر کائنات ع سے فرمایا اسکی دل شکنی کرنا مناسب نہیں ہے آپ یمن تشریف لے جائیں جس وقت امیر کائنات یمن تشریف لے گئے تو شہر بن باذان نے شایان شان استقبال کیا اور اپنے محل میں لے گئے امیر کائنات ع نے ایک ہفتہ تک یہاں قیام فرمایا اور تمام اہل یمن اسلامی تعلیمات سے مستفید ہوتے رہے ایک ہفتہ کے بعد امیر کائنات ع نے واپسی کا ارادہ فرمایا جب آپ واپس روانہ ہوئے تو شہنشاہ یمن شہر بن باذان نے بہت سے تحائف بارگاہ میں پیش کیے ان تحائف میں ایک گھوڑی بھی شامل تھی

 جسکے بارے میں شہنشاہ یمن نے عرض کیا آقا ہمارا حمیری قبیلہ گھوڑوں کے معاملے میں بہت خوش نصیب ہے کہ عرب کی اعلی ترین نسل کے گھوڑے ہمارے پاس موجود ہیں انہی میں سے ایک یہ گھوڑی بھی ہے امیر کائنات ع نے فرمایا ہم وہ گھوڑی دیکھنا چاہتے ہیں شہر بن باذان کے حکم پر اسکا ایک غلام گھوڑی دربار کے باہر لے آیا امیر کائنات ع نے باہر جاکر گھوڑی کو دیکھا اور دریافت فرمایا اسکا نام کیا ہے شہر بن باذان نے بتایا کہ اسکا نام مجلی ہے -امیر کائنات ع نے اس غلام سے فرمایا ذرا اسکو ہمارے سامنے دوڑاؤ تاکہ ہم اسکے قدم دیکھیں غلام نے حکم کی تکمیل کی اس دوران امیر کائنات ع نے نگاہ فرمائی گھوڑی چار قدم چلتی ہے پھر پیچھے دیکھتی ہے اور بوجہ فراق ہنہناتی ہے پھر چند قدم آگے چلی پھر ہنہناتی ہوئی پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے امیر کائنات ع نے شہنشاہ یمن کی طرف دیکھ کر فرمایا اس گھوڑی کے انداز بتاتے ہیں جیسے اسکا کوئی بچہ پیچھے رہ گیا ہے کیا واقعہ ہی اسکا کوئی بچہ پیچھے ہے اس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیے حضور واقعی ہی اسکا ایک بچہ ہے امیر کائنات ع نے فرمایا وہ تم نے ساتھ کیوں نہ دیا ؟شہنشاہ یمن نے کہا حضور ہمیں دینے سے انکار تو نہیں ہے مگر اسکا بچہ بیمار ہے امیر کائنات ع نے فرمایا بتاو کیا بیماری ہے اسے شہنشاہ یمن نے عرض کیا حضور ہمیں خود نہیں معلوم اسے کیا بیماری ہے مگر اس کی عادات بہت عجیب ہیں امیر کائنات ع نے فرمایا ہمیں تفصیل بتاو اس نے کہا آقا یہ تو ہمیں نہیں معلوم اسے کیا بیماری ہے مگر جس دن سے پیدا ہوا ہے ہمیشہ اداس رہتا ہے تین دن تک تو اس نے ماں کا دودھ نہیں پیا تھا ہر وقت اسکی آنکھوں سے آنسو برستے رہتے ہیں ہمارے شہر سے ریت کا ایک ٹیلہ ہے جس وقت سخت گرمی ہوتی ہے گرم لو چل رہی ہوتی ہے زمین گرمی سے جل رہی ہوتی ہے تو اکثر وہ زوال آفتاب کے وقت وہ شہر چھوڑ دیتا ہے دانہ پانی چھوڑ کر دوڑ جاتا ہے گرم ٹیلے پر جا کر کھڑا ہوتا ہے پہلے زمین پر گھٹنے ٹیکتا ہے پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے پھر پہلے دائیں پہلو پھر بائیں پہلو کے بل گرم زمین پر سوتا ہے پھر کھڑا ہو جاتا ہے مدینہ کی جانب منہ کرکے تین مرتبہ ہنہناتا ہے پھر دوڑ پڑتا ہے شہنشاہ یمن جب تفصیل بتاتا رہا امیر کائنات ع روتے رہے پھر فرمایا شہنشاہ یمن وہ تو ہمارے کام کا ہے چلو ہم اسکو دیکھتے ہیں اس نے کہا حضور وہ اب بھی اس ٹیلے پر ہو گا امیر کائنات ع شہر سے باہر تشریف لائے ریت کے پاس ٹیلے پر دیکھا تو وہ دائیں پہلو کے بل سویا ہوا تھا مولا ع جب اسکے قریب آئے تو وہ مولا ع کی خوشبو محسوس کرتے ہی دوڑ کر حضور ع کے قریب آکر کھڑا ہوا -

امیرکائنات ع نے اسکے گلے میں اپنی باہیں ڈال دیں درد کے دریا نے صبر کے بند توڑ کر بہنا شروع کردیا امیر کائنات ع کافی دیر تک اسکے گلے میں باہیں ڈالے گریہ کرتے رہے اسے پیار کرتے ہوئے فرمایا تم نے ابھی سے یہ تیور اپنا لیے ہیں وہ وقت ابھی بہت دور ہے -امیر کائنات ع نے پوچھا کہ مجلی کے اس بچے کا نام کیا ہے ؟انہوں نے عرض کیا حضور اسکا نام مرتجز ہے یہ نام سن کر امیر کائنات ع نے فرمایا اے شہنشاہ یمن ہم اسے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں اس نے عرض کیا آقا ہر چیز کے آپ مالک ہیں جو چیز چاہیں ساتھ لے جائیں مولا ع نے کہا ہمیں صرف یہ بچہ اپنے چھوٹے شہزادے کے لیے ضرورت ہے القصہ امیر کائنات ع مرتجز کو یمن سے مدینے اپنے ساتھ لے آئے دستور کے مطابق شہر سے باہر قیام ہوا رسول پاک ع استقبال کی خاطر شہر سے باہر تشریف لائے مگر انداز یہ تھا آپ ناقہ پر تشریف فرما تھے حسنین شریفین ع اپنے نانا کے ساتھ ناقہ پر سوار تھے امیر کائنات ع نے شہنشاہ انبیا ع کا استقبال کیا تحائف پیش کیے اس وقت امام حسین ع پاک بابا کے پاس آکر عرض کی بابا ع جان جو تحفہ آپ ع میرے لیے لائے ہیں وہ مجھے دیں امیر کائنات ع نے گھوڑی مجلی منگوائی ابھی گھوڑی کچھ دیر تھی مرتجز نے ماں کو چھوڑ دیا اور دوڑ کر امام حسین ع کے قدموں پر منہ رکھ دیا اس وقت اسکی عجیب کفیت تھی کسی وقت قدموں پر منہ لگاتا کسی وقت سرکار ع کے ہاتھوں پر آنکھیں لگاتا جس طرح مدت سے بچھڑےہوئے دوست ملتے ہیں بالکل اسی انداز میں دونوں ایک دوسرے کو پیار کرنے میں مصروف تھے امام حسین ع نے مرتجز کے گلے میں باہیں ڈال کر اسے بہت پیار ارباب تاریخ لکھتے ہیں اس وقت مرتجز کی عمر تین سال تھی -ذوالجناح امام حسین ع کے پاس-رسول پاک ع اکثر مسجد سے نکل کر اپنے گھوڑے کو دیکھنے جایا کرتے تھے ایک دن مسجد سے نکلے اور اصطبل کی طرف پہنچے تو دیکھا کہ ذوالجناح کے قریب مولا حسین علیہ السلام کھڑے ہیں اور اسکی گردن اور چہرے پر ہاتھ پھیر رہے ہیں اور ذوالجناح بار بار اپنے سر کو امام حسین ع کے قدموں میں جھکاتا ہے امام حسین ع اسکو پھر پیار کرتے جاتے ہیں کافی دیر تک رسول اکرم ع کھڑے یہ منظر دیکھتے رہے پھر رسول ع امام حسین ع کے قریب آئے اور کہا حسین ع یہ گھوڑا تمہیں اچھا لگتا ہے ناں کہا نانا یہ گھوڑا ہم سے بہت پیار کرتا ہے رسول ع نے فرمایا جبھی تو تم اس سے پیار کرتے ہو ہم نے آج سے تمہیں دے دیا یہ آج سے تمہارے نام ہو گیا

اس دن سے امام حسین ع نے جب ذوالجناح کی سواری کرنا چاہی قریب آتے تو ذوالجناح فورا" بیٹھ جاتا جب چاروں ہاتھوں پیروں سے بیٹھ جاتا تو امام حسین ع اس پر سوار ہو جاتے تھے بہت آہستہ اٹھتا کہیں امام حسین ع ڈگمگا نہ جائیں آہستہ آہستہ چلتا اور جب امام حسین ع اترنا چاہتے تو گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جاتا کہیں اترنے میں زحمت نہ ہو ذوالجناح دس محرم کے بعد کدھر گیا-جب دس محرم کو امام مظلوم علیہ السلام نے ریت کربلا پر سجدہ کے لیے سر جھکایا تو تو ذوالجناح نے پروانے کی طرح شمع امامت کا طواف کرنا شروع کر دیا ہر آگے بڑھنے والے کم بخت کا راستہ کاٹا کسی کو ضرب لگائی کسی کو دولتی کے مزے سے آشنا کیا اگر کوئی بہت قریب آیا تودانتوں سے اسکی خبر لی اس دوران اس کے جسم پر تیر پیوست ہوتے رہے سنگ باری ہوتی مگر یہ اپنے جسم پر کھاتا رہا اس دوران شہزادی سکینہ ع محبت پدر میں بیقرار ہو کر بابا کے پاس آگئیں امام علیہ السلام نے ذوالجناح کو حکم دیا کہ جنگ بند کر دے اور شہزادی سکینہ ع کو خیام تک پہنچا یہاں یہ روایت بھی بیان کی جاتی ہے جب امام ع نے سجدہ شکر ادا کیا تو امام ع نے غیب سے سورہ فجر کی آخری آیت کی آواز سنی تو ذوالجناح سے کہا جنگ کو چھوڑ دے کیونکہ اب رب نے اپنے سے راضی نفس کو راضی ہو کر بلا بھیجا ہے آگے بڑھا آقا کے بہتے ہوئے خون سے پیشانی کو رنگین کیا سرپٹ دوڑتا ہوا خیام میں آیا اور کربلا کی شیر دل خاتون کو امامعلیہ السلام کی شہادت کی خبر سنا دی اس خبر کو سن کر مستورات نے ذوالجناح کے گرد حلقہ بنا کر ماتم کرنا شروع کر دیا اکثر روایات کے مطابق ذوالجناح اس حلقہ ماتم کے درمیان سے ہی غائب ہو گیا بعض روایات کے مطابق ذوالجناح مستورات کے حلقہ ماتم سے نکل کر نہر علقمہ کی جانب گیا جہاں حضرت عباس ع کا لاشہ تھا اور خود کو نہر علقمہ کے پانی میں اتار کر غائب ہو گیا چند مورخین کا خیال ہے کہ ذوالجناح خیمہ گاہ سے واپس مقتل میں جہاں جنگ کرتے کرتے شہید یا غائب ہو گیا بعض اہل علم کا نظریہ ہے کہ ذوالجناح پردہ غائب میں ہے جب امام ع کا ظہور ہو گا تو ذوالجناح ان کی خدمت کے لیے دوبارہ حاضر ہو گا بعض کے نزدیک ذوالجناح نے دس محرم شام غریباں کو بحکم امام علیہ السلام بی بی شہر بانو ع کو پشت پر سوار کیا اور انکو  رے جہاں پر بی بی شہر بانو کا مزار ہے تک پہنچایا اور خود غائب ہو گیا اور امام ع کے ظہور پر دوبارہ آئے گا

 بعض کا خیال ہے ذوالجناح زندہ ہے اور امام زمانہ ع کی اقامت گاہ پر موجود ہے جب امام ع ظہور فرمائیں گے تو یہ انکے ساتھ ہو گا -غرض کہ حاصل کلام یہ ہے کہ ذوالجناح حکم رب سے محمد و آل محمد ع کی خدمت کے لیے بطور خاص خلق ہوا تھا اور فرض کی ادائیگی کے بعد حکم ربی اپنی دنیا میں واپس چلا گیا آغاز شبیہ ذوالجناح-ذوالجناح کی شبیہ نکالنے کا آغاز برصغیر پاک و ہند کے علاقوں سے ہوا برصغیر پاک و ہند میں جب اسلام پھیلا اور مجالس و عزاداری کا سلسلہ قائم ہوا تو عقیدت کی بنا پر لوگ مزارات آل محمد ع تک تو نہیں پہنچ سکتے تھے لہذا روحانی القا کی خاطر شبیہ حرم بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جسکو تعزیہ کا نام دیا گیا اکی طرح مصائب اہل بیت ع میں غیر انسانی کردار ذوالجناح کی شبیہ کا سلسلہ شروع ہوا عام روایات کے مطابق اکثر لوگوں کو بذریعہ بشارت اس شبیہ کو نکالنے کے احکامات ملے یقینا" اس بشارت میں کوئی راز قدرت موجود ہے برصغیر میں شبیہ ذوالجناح کا آغاز تعزیہ داری کے ساتھ ہی ملتان سے شروع ہوا پھر لاہور جس شہر کو ہمشیرہ امام حسین ع کی جائے سکونت کا اعزاز بھی حاصل ہے شبیہ عزاداری کا آغاز ہوا اسکے بعد یہ سلسلہ ریاست اودھ اور دکن کے علاوہ بنگال اور بہار تک پھیل گیا دکن میں شیعہ ریاستیں قائم ہوئیں پھر لکھنو اور دہلی میں عزاداری کو فروغ ملا امیر تیمور نے برصغیر پر جب چڑھائی شروع کی تو یہاں عزاداری پوری طرح قائم ہو چکی تھی مگر عہد تیمور میں باقاعدہ شبیہ تعزیہ ذوالجناح برآمد کرواگیا-کیا اسلام میں جانور کی شبیہہ کا تصور موجود ہے ؟ اسلام میں جانور کی شبیہہ کا تصور موجود ہے اسکی مثال قربانی کے جانور ہیں جو اس دنبے کی شبیہہ ہیں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ذبح ہوا تھا آج اس دنبے کی شبیہہ بنا کر ہر سال لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں حالانکہ ہم خود ہی ان جانوروں کو اس دنبے سے نسبت دیتے ہیں پھر اسکے احترام میں اسکی رسی یا کیل کو جس جگ جسکے ساتھ اسماعیل نبی ع کی جگہ پر ذبح ہونے والے دنبہ کی شبیہہ بندھی ہو ہم گستاخی نہیں کرتے ایسی کامل شبیہہ بناتے ہیں کہ اسطرح اسے ذبح بھی کرتے ہیں یہاں اس سوال کا بھی جواب مل جاتا ہے کہ ذوالجناح تو ایک تھا پھر ہر شہر ہر گاؤں سے الگ الگ شبیہہ کیوں نکالی جاتی ہیں کیوں جسطرح حضرت اسماعیل ع کی یاد میں ذبح ہونے والا دنبہ بھی ایک ہی تھا لیکن اس کی یاد میں لاکھوں جانور شبیہہ بنا کر ذبح کیے جاتے ہیں لہذا جسطرح اس دنبے کی شبہییہ کا مقصد ہے کہ قربانی حضرت اسماعیل ع یاد رہے اس

ی طرح شبیہہ ذوالجناح کا مقصد ہے قربانی امام حسین ع یاد رہے ذوالجناح کو سجانا اور گردن میں دو پٹے ڈالنے کی وجہ-جب امام حسین ع نے ذوالجناح پر سوار ہو کر مقتل کی طرف رخ کیا تو تمام مستورات نے دررویہ قطار بنا لی جیسے ہی ذوالجناح نے مستورات کی قطار کے درمیان چلنا شروع کیا تو تمام مستورات نے اپنے سروں پر بندھے کپڑےکھول کر ذوالجناح کی گردن میں باندھنے لگئیں اور کہتی گئیں ہمارے سر کے اس بندھے کپڑے کی لاج رکھنا اور مشکل وقت میں امام حسین ع کو نہ چھوڑنا یاد رہے عرب خواتین برقعے کو سر پر سنبھالنے کے لیے دوپٹے کی طرح کا ایک کپڑا استمعال کرتی تھیں جو ماتھے سے سر کی پشت کی جانب باندھا جاتا تھا یہ بالکل دوپٹے کی مانند ہوتا تھا یوم عاشور مستورات نے ذوالجناح کی گردن میں یاددہانی کے طور پر سر کے دو پٹے باندھے آج خواتین نے ان مظلوم مستورات کی یاد میں بطور منت شبیہہ ذوالجناح کی گردن پر دوپٹہ باندھتی ہیں اور اللہ راہوار حسینی کے صدقے میں خواتین کی شرعی حاجات مستجاب فرماتا ہے ذوالجناح کے پاؤں کی خاک-اللہ نے سورہ العادیات میں مجاہدین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اٹھنے والے غبار کی قسم کھائی ہے جب مجاہدین کے گھوڑوں کے پاؤں کی خاک اتنی متبرک ہے کہ اللہ قرآن میں اسکی قسمیں کھاتا ہے تو رسول خدا صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم اور امام حسین علیہ السلام کے گھوڑے کے سموں کی خاک کتنی متبرک ہو گی کوئی بھی بیماری کیوں نہ ہو اس کی خاک سے انسان کو شفا مل جاتی ہے جس قسم کا زخم ہو اسکے قدموں سے مس کردہ خاک لگائیں زخم ختم ہو جاتا ہے جس عورت کی اولاد نہ ہوتی ہو وہ عورت اپنے دوپٹے کے دامن میں جو یا چنے کی نیاز پیش کرکے ذوالجناح کو کھلائے اور ذوالجناح کے پاؤں کی خاک سر میں لگائے آئندہ سال بچہ انشااللہ اسکی گود میں ہو گا متعرض کے لیے تجربہ شرط ہے کے مطابق بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے والد ذوالجناح پونجا کی والدہ نے عاشور کے دن اپنے یہاں لڑکا ہونے کی منت مانی اور بیٹا ہونے پر امام حسین علیہ السلام کی سواری ذوالجناح کے نام پر اپنے بیٹے کا نام ذوالجناح پونجا رکھا کثرت استمعال سے ذوالجناح صرف جناح رہ گیا اور یہ ہی قائداعظم کا خاندانی نام قرار پایا (ذوالجناح)ذوالجناح ہندوؤں کی کتابوں میں- مرحوم غیاث الدین مدیر معارف اسلام اور شہید نینوا نمبر جلد ١٣ نمبر شمارہ ١ محرم الحرام ١٣٨٤ ہجری میں لکھتے ہیں راقم الحروف کے زیر مطالعہ اہل ہنود کی چند کتب کے بیانات تھے پڑھتے پڑھتے یجروید کی مندرجہ ذیل عبارت پر آنکھیں رک گئیں جو یقینا" قارئین معارف اسلام اور اہل تحقیق کے لیے ہیں "نمے سبھا بھیم پتی بھشیج وونمو شو بھیر " ترجمعہ:"مجلسوں اور مجلسوں کے مالکوں کو بار بار نمسکار ہے گھوڑں اور گھوڑوں والوں کو بھی بار بار سجدہ ہو" ترجمعہ از شری پنڈت آتما جی بحوالہ یجروید ادھیائے ١٦ منتر ٢٤ کتاب ویدرتھ پرکاش حصہ اول ص ٢١٧ مطبوعہ ١٨٣٥ء ساٹی برقی پریس ہال لازارا امرتسر فاضل مضمون نگار نے لکھا ہے ہندؤ تہذیب یہ ہے کہ وہ جس کو تعظیم کے لائق سمجھتے ہیں اس کے سامنے ہاتھ ہاتھ جوڑتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں لہذا یہاں ہندوؤں کی کتابوں میں امام حسین ع اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ گھوڑوں کو بھی سجدہ نمسکار کے ساتھ عزت و تکریم کی جا رہی ہے کلکتہ میں دس محرم کو جب جلوس عزا گزرتا ہے تو مسلم اور غیر مسلم ہندو عورتیں اور مرد ذوالجناح کے آگئے گھڑوں میں پانی لاکر زمین پر بہاتے ہیں اور آب جاری ظاہر کرکے بتاتے ہیں ہم اپنے مہمان کو پیاسا نہیں رکھتے بے زبان جانور کے لیے پانی بھی حاضر ہے اور یہ تعلیم بھی اس پیشوائے اعظم کا اسوہ حسنہ ہے جس نے حر ع نامدار کے لشکر کو مع راکب مرکب سیراب کیا. یہ متبرّک مضمون میں نے حرف بہ حرف درس اہل بیت سے لیا ہے -   شکر گزار ی درس اہل بیت   مبران کی-جزاک ا

بدھ، 29 مارچ، 2023

SIUT کے میر کا رواں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ..part 1


SIUT کے  میر کا رواں  ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی -گردوں اور ان سے متعلق امراض کے علاج کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے ادارے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے سربراہ ڈاکٹر رضوی کی کوششوں سے اب تک ایک کروڑ سے زائد افراد مستفید ہو چکے ہیں۔   دس سالہ ابوبکر کا تعلق پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور سے ہے۔ گردوں کی تکلیف میں مبتلا اس بچے کو ہفتے میں تین مرتبہ گردوں کی صفائی یا ڈائیلیسز کی ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ تین برس سے اس بچے کو یہ سہولت کراچی میں گردوں کے علاج کے سب سے بڑے مرکز ’سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن‘ میں فراہم کی جا رہی ہے۔ زندگی بچانے کے لیے ضروری ڈائیلیسز پرائیویٹ کرانے پر چونکہ کافی رقم خرچ ہوتی ہے، اس لیے اس مہنگے علاج کا بوجھ اٹھانا اس بچے کے والدین کے بس میں نہیں تھا۔ اس بچے کے علاج پر اب تک پندرہ لاکھ روپے کے اخراجات آچکے ہیں۔ تاہم ایس آئی یو ٹی کی طرف سے اس بچے اور اس جیسے دیگر سینکڑوں مریضوں کو یہ سہولت مفت فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ ادارہ صرف ابوبکر ہی نہیں بلکہ گزشتہ چالیس برسوں میں ابوبکر جیسے ایک کروڑ کے قریب افراد کے لیے جینے کی امید بنا۔

 یہ ہی وجہ ہے کہ اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر ادیب رضوی کو یہاں آنے والے افراد اپنا مسیحا مانتے ہیں اور انہیں ’میریکل ڈاکٹر‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ان کا ادارہ SIUT کا آغاز کیسے ہوا اور اس کے پیچھے کیا خیال یا جذبہ کار فرما تھا، اس حوالے سے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ادیب کا کہنا تھا، ’’میں ڈی جے سائنس کالج میں جن دنوں زیر تعلیم تھا، ان دنوں ایک تحریک بہت زور و شور سے جاری تھی۔ اس تحریک کا نعرہ تھا کہ تعلیم اور صحت ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ شروع میں ہم صرف نعرے لگاتے تھے لیکن آگے جا کر احساس ہوا کہ اس پر عمل بہت ضروری ہے۔ جب میں نے میڈیکل کی تعلیم لینا شروع کی تو لوگوں کی پریشانیاں دیکھیں کہ کس طرح وہ اپنے عزیز و اقارب کو ہسپتال میں داخل کرانے کے لیے پریشانیاں اٹھاتے تھے،

علاج کے لیے پریشان ہوتے تھے۔ ان دنوں بھی پرائیویٹ اسپتالوں کی فیسیں زیادہ تھیں جس کا بوجھ ہر کوئی نہیں اٹھا پاتا تھا۔ میں نے غریب خواتین کو کانوں کی بالیاں اور دیگر ساز و سامان بیچتے دیکھا تو ان مسائل کا شدت سے احساس ہوا۔ میں سوچتا تھا کہ لوگوں کو بلا معاوضہ صحت کی سہولیات ملنی چاہییں تو لوگ کہتے تھے کہ ایسا کرنے کا تصور صرف خام خیالی ہے ڈاکٹر رضوی کے مطابق ایم بی بی ایس کرنے کے بعد وہ اسپیشلائیزیشن کے لیے برطانہ چلے گئے، جہاں قیام کے آٹھ نو برس کے دوران انہوں نے وہاں کی نیشنل ہیلتھ سروس کا جائزہ لیا۔ اس نظام کے تحت صحت کی سہولیات ہر ایک کے لیے یکساں اور بلامعاوضہ تھیں، ’’اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ صحت کی مفت سہولیات دینا قابل عمل ہے۔‘‘ اپنے ملک اور اپنی دھرتی کے عوام کی محبت اور ان کی خدمت کا یہی جذبہ انہیں 1971ء میں وطن واپس لے آیا۔

برطانیہ سے یورولوجی کے شعبے میں اسپیشلائزیشن کے بعد لوٹنے والے ڈاکٹر رضوی نے پرائیویٹ پریکٹس شروع کرنے کی بجائے کراچی کے سرکاری سول اسپتال میں ملازمت کو ترجیح دی۔ وہاں انہوں نے گردے کی بیماریوں اور تکالیف کے علاج کے لیے آٹھ بستروں پر مشتمل ایک وارڈ کا آغاز کیا اور ساتھی ڈاکٹروں کے ساتھ لوگوں کا علاج شروع کر دیا۔ یہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ان کے ساتھیوں کا جذبہ خدمت اور انتھک محنت ہی تھی کہ چند بستروں سے شروع ہونے والا یہ وارڈ آج سندھ انسٹیٹوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ بن چکا ہے اور پاکستان بھر میں نو مختلف مراکز کی شکل میں گردوں اور جگر کے امراض مں مبتلا افراد کو علاج اور دیگر سہولیات مہیا کرنے والا پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ ڈاکٹر رضوی کہتے ہیں کہ انہیں لفظ چیریٹی ناپسند ہے۔ ان کے مطابق یہ چیریٹی نہیں شئیرنگ ہے، ’’بس اسی خیال کو لے کر ہم آگے بڑھتے گئے اور کارواں بڑھتا گیا۔ ہم کبھی حکومت کی طرٖف سے فنڈز کے لیے نہیں رکے بلکہ نجی سیکٹرز اور لوگوں کی طرف سے کی جانے والی مدد کے تحت ہم اس کام کو اور ادارے کو بڑھاتے چلے گئے۔‘‘ ڈاکٹر رضوی کے مطابق پینتالیس برس قبل آٹھ بستروں پر شروع ہونے والا وارڈ آج آٹھ سو بیڈز پر مبنی ہسپتال ہے، ’’اس وقت ہمارے پاس ہسپتال کا ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جبکہ اب دو ملٹی اسٹوری عمارتین ہیں جبکہ تین مزید زیر تعمیر ہیں۔‘‘ SIUT پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا میں گردوں کے علاج کے حوالے سے ایک مستند ادارہ مانا جاتا ہے۔ پاکستان کے اکثر سرکاری ہسپتالوں کے برعکس جو بات اس ادارے کو خاص بناتی ہے وہ ہر خاص و عام کے لیے علاج کی یکساں سہولیات ہیں۔

 یہاں آنے والے ایسے مریضوں کا علاج بھی پوری ذمہ داری، محبت اور شفقت سے کیا جاتا ہے، جو مالی مشکلات کے باعث اپنا معیاری علاج کروانے سے قاصر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اس بات پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اس کے لیے چار دہائیوں سے زائد عرصے سے کوشاں بھی ہیں کہ مفت علاج ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے مطابق، ’’ہم نے ابتدا صرف گردوں کے امراض سے کی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سہولیات اور شعبہ جات میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس وقت ایس آئی یو ٹی میں یورولوجی، نیفرولوجی، جی آئی، پیڈیاٹرک، کینسر اور ٹرانسپلانٹیشن کے شعبے کام کر رہے ہیں۔ ہماری ہر ممکن یہی کوشش ہوتی ہے کہ جو کر سکتے ہیں وہ کریں اور جو کریں وہ بلا معاوضہ مگر عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کریں۔‘‘ ایس آئی یو ٹی میں گردے کی پیوندکاری کے ہر سال قریب پانچ سو پچپن آپریشن ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس کے دوران 30 لاکھ مریضوں کا او پی ڈی میں علاج ہوا جب کہ آٹھ لاکھ 25 ہزار مریض مختلف شعبوں میں علاج کے لیے داخل کیے گئے

ادیب الحسن رضوی معروف بہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی پاکستان کے ایک طبیب ہیں جو سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے سربراہ ہیں۔ یہ ادارہ مفت گردوں کی پیوندکاری اور ڈائلیسس کرتا ہے۔ جبکہ 2003ء میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کا کام بھی اس ادارے میں متعارف کیا گیا۔ اس ادارے میں ہر سال دس لاکھ سے زائد مریض ایس آئی یو ٹی کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی خدمات-ڈاکٹر ادیب نے طب کے شعبے میں گردوں کے علاج کے لیے بہت گراں قدرخدمات انجام دی ہیں-

منگل، 28 مارچ، 2023

محبّ ا ہل بیت تاریخ کی امر ملکہ‎‎ زبیدہ

 

 


محبّ ا ہل بیت  تاریخ کی امر ملکہ‎‎  زبیدہ-ام جعفر زبیدہ بنت جعفر بن ابو جعفر منصور ہاشمی خاندان کی چشم و چراغ تھیں۔ یہ خلیفہ ہارون الرشید کی چچا زاد اور بیوی تھیں۔ یہ نہایت خوبصورت اور ذہین و فطین تھیں۔ جب جوان ہوئیں تو خلیفہ ہارون الرشید سے ان کی شادی ہو گئی۔ یہ شادی بڑی دھوم دھام سے ذوالحجہ 165ھ مطابق جولائی 782ء میں ہوئی۔ ہارون الرشید نے اس شادی کی خوشی میں ملک بھر سے عوام و خواص کو دعوت پر بلایا اور مدعوین کے درمیان میں اس قدر زیادہ مال تقسیم کیا جس کی مثال تاریخ اسلامی میں مفقود ہے۔ اس موقع پر خاص بیت المال سے اس نے پانچ کروڑ درہم خرچ کیے۔ ہارون الرشید نے اپنے خاص مال سے جو کچھ خرچ کیا وہ اس کے علاوہ تھا۔ہارون الرشید ملکہ زبیدہ سے بہت محبت کرتا تھا۔

ملکہ زبیدہ نے دریائے د جلہ سے نہر نکال کر مکرمہ مکرمہ تک لانے کا کارنامہ انجام دیا۔ نہر کے لئے مکہ مکرمہ کے قریب وادی نعمان سے پانی لانے کا بندوبست کیا گیا تاہم ملکہ زبیدہ نے بغداد سے مکہ مکرمہ تک حاجیوں کے قافلوں کے لئے جو گزر گاہ بنائی اسے درب زبیدہ کہاجاتا ہے ۔ نہر زبیدہ 1200سال تک مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ میں فراہمی آب کا بڑا ذریعہ ہی ہے۔ اسے بلاشبہ انجینئرنگ کا شاہلکار اور عرب تہذیب کے سنہری دور کی یادگار قرار دیاجاسکتا ہے۔ تاریخ میں نہر زبیدہ کی تعمیر کے حوالے سے بہت کم معلومات موجود ہیں۔ اس زمانے میں ریکارڈ رکھنے کا رواج نہیں تھا۔ نہر زبیدہ کی بحالی اور مرمت کے حوالے سے آخری ریکارڈ 1928ء کا دستیاب ہے۔ اس وقت سیلاب کے باعث نہر سے پانی کی فراہمی بند ہوگئی ۔ کنگ عبدالعزیز نے مصری ماہرین کو بحالی کا پراجیکٹ دیا۔ اس پراجیکٹ کی تحریری رپورٹ شاید وہ واحد دستاویز ہے جو دستیاب ہے۔ 1950ء میں نہر سوکھ جانے کے بعد اس کی بحالی پر توجہ نہیں دی گئی تاہم مکہ مکرمہ میں فراہمی آب کے دیگر ذرائع تلاش کئے گئے۔ سعودی حکومت نے خصوصی دلچسپی لیکر مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ میں پانی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کیا ہے اس کیلئے مکہ مکرمہ سے 100کلو میٹر دور ڈی سیلینیشن پلانٹ لگایا گیا ۔ یہ پلانٹ حج موسم میں پانی کی ضروریات پورا کرنے کیلئے کافی ہے۔ اگرچہ اب مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ میں پانی کا مسئلہ حل ہوچکا تاہم نہر زبیدہ جو صدیوں تک حاجیوں کو پانی کی فراہمی کا بڑا ذریعہ رہی ہے اسے بھلایا نہیں جاسکتا-

سرزمین حجاز کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے یہاں کئی تاریخی مقامات کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ ان میں ایک نہر زبید ہ بھی ہے جو اسلامی ورثے کا نادر نمونہ اور انجینئرنگ کا شاہکار ہے۔ آج کے دور میں ماہر آرکیٹکٹ اور انجینئرحیران ہیں کہ صدیوں پہلے فراہمی آب کے اس عظیم الشان منصوبے کو کیسے تکمیل تک پہنچایاگیا۔ نہر زبیدہ کا منصوبہ اس وقت کے ماہرین نے 10سال کے عرصے میں مکمل کیا۔ اس کی کُل لمبائی 38کلومیٹر ہے ۔ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے پر 170 ملین دینار لاگت آئی تھی۔ آج اس کاحساب لگایا جائے تو ایک دنیار10گرام سونے کے برابر ہوگا جو بہت بڑی رقم بنتی ہے۔ نہر زبیدہ صدیوں تک مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ میںحاجیوں کی پانی کی ضروریات کو پورا کرتی رہی۔ یہ نہر 1950ء تک چلتی رہی۔ بعدازاں پمپوں کے ذریعے پانی کھینچے جانے کے باعث خشک ہوکر بند ہوگئی۔ آج بھی اس کا ایک بڑا حصہ محفوظ حالت میں ہے۔ سعودی کمیشن برائے سیاحت اور آثار قدیمہ کے چیئر مین پرنس سلطان بن سلمان اور میئر مکہ مکرمہ اسامہ ا لبار نے مفاہمتی یاداشت پر دستخط کئے۔ جس کا مقصد نہر زبیدہ ، جبل نور، جبل ثور، دیگر تاریخی مقامات اور مکہ مکرمہ کے تار یخی کنوئوں کو محفوظ بنانے اور ترقی دینے کے لئے تعاون کوفروغ دینا ہے۔کمیشن برائے سیاحت اورآثار قدیمہ تاریخی مقامات کو ترقی دینے کے لئے تحقیق، دستاویزات کی تیاری، ماہرین کی مدد اور ٹیکنیکل سپورٹ فراہم کرے گا۔ مکہ مکرمہ میونسپلٹی تاریخی مقامات کے قریب رئیل اسٹیٹ کی ڈیولپمنٹ کو بھی کنٹرول کرے گی۔ نہر زبیدہ کے تاریخی ورثے کے تحفظ اور بحالی کے لئے مکہ مکرمہ میونسپلٹی نے کام شروع کر رکھا ہے۔ اس سے پہلے نہر زبیدہ کی بحالی کے لئے کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ کے پروفیسر محمد سراج ابو رزیزہ کو پراجیکٹ کا سربراہ مقرر کیا گیاتھا پھر معروف پاکستانی آرکیٹیکٹ سلیم بخاری نے نہر کی بحالی کے لئے سروے کیا اور ایک دستاویزی فلم تیار کی۔

نہر زبیدہ کی تاریخ

عباسی خلیفہ ہارون رشید انتقال کے بعد ملکہ زبیدہ حج کے لئے آئیں تو مکہ مکرمہ میں پانی کی قلت کا نوٹس لیا۔ بغداد واپسی پر ماہر انجینئروں اور آرکیٹکٹ کو بلا کر پانی کا مسئلہ حل کرنے کا حکم دیا۔ ماہرین نے ملکہ کو سروے کے بعد رپورٹ دی کہ نہر کی تعمیر کاکام انتہائی مشکل ہے۔تاریخ کے حوالوں میں ملکہ زبیدہ کایہ جملہ مشہور ہے کہ ہر قیمت پر نہر کی تعمیر کی جائے خواہ ہرکدال کی ضرب پر ایک دینار ہی کیوں نہ دینا پڑے۔ اس وقت کے انجینئروں نے سروے کے بعد وادی حنین اوروادی نعمان سے پانی میدان عرفات اور پھر مکہ مکرمہ لانے کا فیصلہ کیا۔ ان دونوں وادیوں میں بارش اورپہاڑوں سے پانی آنے کے باعث زمین میں پانی کا لیول زیادہ تھا ۔ ابتدا میں وادی حنین میں کنویں کھود کر پانی لایا گیا۔وادی میں پانی جمع کرنے کے لئے بڑے حوض بنائے گئے ان کے آثار اب بھی موجود ہیں ۔ تاریخ میں آتا ہے کہ وہاں موجود درخت کاٹ کر ایک چھوٹا ڈیم بھی بنایاگیا ۔ بارش کا پانی جمع کر کے اسے استعمال میں لایاگیا۔ کچھ عرصہ بعد وادی حنین میں پانی کی سطح کم ہوئی تو وادی نعمان سے پانی کی فراہمی شروع ہوئی۔

عرفات سے 10کلومیٹر مشرق میں طائف کی طرف ہے جبل کرا کے دامن میں وادی نعمان واقع ہے۔ یہاں زمین میں پانی کی سطح خاصی بلند ہے جبکہ اس علاقے میں بارش کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ نہر کی تعمیر کے لئے وادی نعمان میں 4سے5کنویں کھودے گئے۔ ان کی گہرائی 34میٹر ہے۔ تمام کنوئوں کا پانی ایک جگہ جمع کرنے کے لئے سرنگیں بنائی گئیں پھر مرکزی کنویں سے جسے امیہ کہاجاتا ہے۔ وادی نعمان سے پانی پہلے عرفات لے جایا گیا اس کے لئے ڈھلوان کی شکل میں پختہ قناۃ بنائی گئی تاکہ پانی خود بخود بہتا ہوا جاے۔ پانی کا لیول یکساں رکھنے کے لئے کہیں یہ قناۃ نہر زمین سے اوپر ہے اور کہیں زمین سے نیچے ہے ۔ مزدلفہ کی پہاڑیوں کے ساتھ کئی کلومیٹر تک یہ قناۃزمین کے اوپر ہے ۔آج بھی اس کا بیشتر حصہ محفوظ ہے۔ قناۃ2فٹ چوڑائی ہے، اس کی اونچائی ایک آدمی کے برابر تھی۔ قناۃ کی صفائی کے لئے تقریبا 50میٹر پر ایک کنواں کھودا گیا جسے خاریز کہا جاتا ہے۔ خرازات کا نظام پاکستان کے علاقے بلوچستان میں بھی ہے جنہیں کاریزکہاجاتا ہے۔ خاریز میں نیچے جاکر قناۃ کھودی جاتی ہیں اس کا فائدہ یہ ہے کہ صفائی کے کام کے ساتھ ہوا کا بھی گزر ہوتا ہے تاہم قناۃ اور خرازات کی صفائی کا کام بھی آسان نہیں تھا۔ اس زمانے میں چھوتے قد کے لوگوں کو استعمال کیا جاتا تھاجو اندر جا کر صفائی کرتے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ خرازات اور قناۃ کو پتھر اور چونے کی مدد سے پختہ کیا گیا تاکہ زمین سے حاصل ہونے والا پانی دوبارہ جذب نہ ہوجائے یعنی پوری نہر زبیدہ کو خواہ وہ زمین کے اوپر ہے یا اندر پتھروں کو چونے سے جوڑ کر پلاسٹر کیا گیا ۔

یہ ایک الگ کہانی ہے کہ پتھروں کو جوڑنے کے لئے چونا کہاں سے لایا گیا کیونکہ اس علاقے میں چونا موجود نہیں ۔ عین زبیدہ کو وادی نعمان سے پہلے میدان عرفات، مزدلفہ اور پھر مکہ مکرمہ تک ایک ڈھلوان کی صورت میں لایا گیا۔ آج عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس وقت کس طرح یہ کام انجام دیاگیا۔ سروے کے بغیر اتنا درست حساب کیسے لگایا گیا ۔ نہر اونچے نیچے راستوں سے گھومتی ہے لیکن اس کا لیول برقرار رہتا ہے پھر قناۃ کھودتے وقت کہیں پتھریلی زمین ہے تو کہیں ریت ہے قناۃ سیدھی نہیں ہے۔ وادی نعمان سے نکلنے والی نہر زبیدہ پہلے میدان عرفات میں جبل رحمۃ کی طرف آتی ہے۔ جبل رحمۃ پر یہ نہر زمین سے 10فٹ اونچی ہے۔ اسی نہر کے ساتھ جبل رحمۃ پر ایک سبیل بنائی گئی۔ انجینئرنگ کی یہ خوبصورتی ہے کہ نہر اتنے دُرست لیول پر تھی کہ سبیل میں پانی خود بھرتاتھا اور اس لیول پر تھا کہ لوگ اسے پی سکتے تھے۔ جبل رحمۃ پر حاجیوں کے لئے 3حوض بنائے گئے تھے جو حج کے زمانے میں بھرے جاتے تھے تاکہ حجاج کے قافلے انہیں استعمال کرسکیں ۔ پھر میدان عرفات سے نہر زبیدہ سیدھی مزدلفہ نہیں آتی بلکہ ڈھلوان کی صورت میں عرفات اور مزدلفہ کے درمیان واقع وادی عرنہ کراس کرتی ہے انجینئرنگ کی ایک خوبصورتی یہ ہے کہ نہربرج کی صورت میں وادی عرنہ کراس نہیں کرتی بلکہ نہر شمال کی طرف گھوم کر وادی عرنہ کے نیچے سے گئی ہے اور وہاں اسے مزدلفہ لے جایاگیا۔ مزدلفہ میں نہر زبیدہ مسجد مشعر الحرام کے قریب کنویں کی شکل میں تھی اور وہاں سے لوگ پانی نکاتے تھے۔ منیٰ کو بھی پانی یہاں سے فراہم کیا جاتا تھا بعد میں نہر پر پمپ لگاکر پانی منیٰ تک پہنچانے کا بندوبست کیاگیا اور منیٰ میں بھی حوض بنائے گئے۔

ایک اندازے کے مطابق نہر زبیدہ سے 600سے 800کیوبک میٹرپانی روزانہ مکہ مکرمہ آتا تھا آج کے حساب سے لگائیں تو 160ٹینکر یومیہ۔ اس وقت کی آبادی کے حساب سے پانی کافی تھا۔ یہ میٹھا اور تازہ پانی تھا۔ 1950ء تک نہر چلتی رہی۔ آبادی بڑھی تو لوگوں کی پانی کی ضروریات بھی بڑھیں۔ انہوں نے پمپ لگا کر زمین سے پانی نکالنا شروع کیا۔ کئی مقامات پر قناۃ پر پمپ لگا کر پانی کھینچا گیا اس کے نتیجے میں زمین میں پانی کا لیول گرگیا اور یوں نہر خشک ہوگئی۔

پیر، 27 مارچ، 2023

عجائبات کی دنیا 'لاہوت لامکاں

 

 

جب میں  لاہو ت لا مکاں کی تفصیل میں گئ تو 

میرے لئے یہ ایک انتہائ حیران کن بات ہے کہ جس غار میں صرف ایک انسان اتنی مشقّت اٹھا کر اکیلا اندر داخل ہوتا ہے اس

 غار میں بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا  کی چکّی اور چند دیگر تبرّکات کیسے اندر جا سکے ہوں گے

لاہوت لامکاں (انگریزی: Lahoot La Makan) پاکستان کے ضلع خضدار کی تحصل وڈھ میں ایک حسین ترین اور

 قدیم ترین زیارت گاہ اور صوفی بزرگوں، یوگیوں اور اللہ لوک ولیوں کے چلہ کشی کا متبرک مکان اور غار ہے۔ غار تک پہنچنے اور

 غار میں جا کر واپس آنے والا لاہوتی کہلاتا ہے۔ لاہوت کراچی سے شمال مغرب کی جانب تقریباً ایک سو پچیس (125) میل کے

 فاصلے پر بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقہ ”سارونہ “ میں ایک بلند پہاڑی کے اندر واقع ہے۔ فقیروں کے قریب لاہوت ایک بہت بلند منزل کا نام ہے جس تک پہنچنے کے لیے انہیں مرشد کی رہنمائی میں مختلف ریاضتیں اور عبادات کرنی پڑتی ہیں  

محل وقوع لاہوت لامکاں ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کے جنوب میں سارونہ کے علاقے میں واقع ہے۔ لاہوت لامکاں کا پہاڑ ایک بڑا حسین ترین آبشار معلوم ہوتا ہے۔ لاہوت لامکاں کا پہاڑ کراچی سے آنے والے روڈ سے مغرب میں اور سید بلاول شاہ نورانی اورمحبت فقیر کے مزارات سے جنوب میں واقع ہے۔ لاہوت لامکاں کا خوبصورت ترین پہاڑ بہت بلندہے۔ یہ بہاڑ سطح سمندر سے اندازہ 4000 ہزار فٹ بلند ہے۔ لاہوت کا پہاڑ پیدل عبور ہی کیا جاتا ہے۔ لاہوت لا مکاں کا پہاڑ دو اطراف سے عبور کیا جا سکتا ہے۔ ایک راستہ سید بلاول شاہ نورانی کے مزار سے پہاڑیاں سر کرتے ہوئے لاہوت لامکاں کی طرف جاتا ہے جو کچھ زیادہ مشکل ہے۔ دوسرا راستہ محبت فقیر کے مزار تک پہچنے سے پہلے روڈ سے نکلتا ہے جہاں لاہوت لامکاں کا سائن بورڈ نصب ہے۔ یہاں روڈ کے قریب ایک چھوٹا سا ہوٹل اور مسجد ہے جہاں سے سفر شروع ہوتاہے۔ یہ راستہ بھی آسان نہیں مگر اکثر لاہوتی اسی راستے سے جاتے ہیں۔ لاہوت لامکان کی غار کی طرف یہ راستہ پہاڑیوں میں سے بل کھاتا ہوا اوپر غار کی طرف جاتا ہے۔ اس خطرناک راستے میں کہیں کہیں لوہے کی سیڑھیاں بھی لگی ہوئی ہیں۔ لاہوت لامکاں کی غار سے پہلے ایک ہوٹل ہے جہاں کچھ لمحے جانے والے بیٹھ کر چائے پیتے ہیں اور تھکن دور کرتے ہیں۔ راستے میں ایک دکان بھی ہے جہاں سے لوگ تبرک کے طور پر چیزیں لیتے ہیں۔ پھر لاہوت لامکاں کی زیارت گاہیں شروع ہوتی ہیں۔ 

لاہوت لامکاں کی جگہسجدہ گاہ کے بعد لاہوت لامکاں کی چٹان آتی ہے جہاں چھوٹی سی جگہ یا پلاٹ ہے۔ اوپر پہاڑ چھت کی طرح ہے۔ ٹھنڈی ہوائیںچلتی ہیں۔ اوپر چھت نما پہاڑ میں نوکدار پتھر ایسے نظر آ رہے ہیں جیسے بھینس یا گائے کے تھن ہوں۔ ان میں سے پانی کی بوندیں ٹپکی رہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پہلے ان میں سے دودھ ٹپکتا تھا۔ لوگوں نے وہ دودھ بیچنا شروع کیا تو پھر وہ پانی ہو گیا۔ لوگ تبرک کے طور پر وہ ٹپکتی بوندیں جھپک کر ہاتھوں، بازؤوں اور منہ کو لگاتے ہیں۔ ایک عجیب سا سحر انگیز ماحول ہوتا ہے۔ علی علی کے نعروں سے لاہوت لامکاں کی پہاڑی گونج اٹھتی ہے۔ اس جگہ سے ایک لوہے کی سیڑھی ہے جو غار کے منہ تک جاتی ہے۔لاہوتلاہوت کے لغوی معنی یہ ہیں: ”وہ جگہ جو فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ (اولیاء کرام) والے لوگوں کا آستانہ ہو“ اسے لاہوت کہتے ہیں۔ 

روحانی لاہوت (ایک صوفی اصطلاح)Crystal Clear app kdict.png تفصیلی مضمون کے لیے لاہوت ملاحظہ کریں۔شیخ عبد الرحمنٰ چشتی کے بیان کے مطابق اس لاہوت کا روحانی لاہوت سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ چند صوفیائے کرام نے اس مقام پر آکر سخت چلہ کشی اور مجاہدے کیے، جس کے بعد مقامی افراد نے ان چلہ گاہوں کا نام لاہوت لامکاں رکھ دیا۔ 

لاہوت کے راستےلاہوت لامکاں تک جانے کے لیے دو راستے اہم ہیں پہلا راستہ لی مارکیٹ، کراچی سے ہے۔ اور دوسرا راستہ سیہون شریف سے پیدل محبت فقیر تک ہے۔(یعنی سندھ سے بلوچستان تک پیدل سفر)۔ 

 پہلا راستہلی مارکیٹ سے محبت فقیر تک:

اس راستہ سے دو یا تین کلو میٹر آگے چل کر تمام راستہ کچا اور دشوار گزارش ہے۔ اور تمام راستہ پہاڑوں کے درمیان میں سے ط

کرنا پڑتا ہے۔ محبت فقیر پر پہنچ کر اگلا تمام راستہ پیدل کرنا پڑتا ہے یا مخصوص امریکی گاڑیاں جس کو مقامی افراد ”کیکڑا“ کہتے ہیں۔

 کیکڑے پر کرایہ دے کر سفر کرنا پڑتا ہے۔ اور شاہ نورانی درگاہ پہنچنے کے بعد درگاہ شاہ نورانی سے پیدل سفر کیا جاتا ہے 

دوسرا راستہ

سیہون سے محبت فقیر تک:

سیہون میں جب شہباز قلندر کے عرس کا اختتام ہوتا ہے تو زائرین قافلے کی شکل میں ”لال باغ“ میں آکر جمع ہوتے ہیں۔ او

ر ہر قافلہ وقفہ وقفہ سے لاہوت کے لیے روانگی اختیار کرتا ہے۔ سیہون سے چل کر پہلی منزل ”جھانگارا باجارا“ آتی ہے دوسری

 منزل ”صالح شاہ“، تیسری منزل ”باغ پنج تن پاک“، چوتھی منزل ”چھنگھن“۔ اس کے علاوہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کچھ

 دیر آرام کرنے کی منزلیں ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں؛ سید آری پیر ۔علی کا کنواں: جہاں انسان کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن جب زائرین ”مولا علی“ کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو پانی تیزی سے اوپر آ جات ہے تمام زائرین حاجت کے مطابق پانی پی لیتے ہیں۔ بعد میں پھر پانی اپنی نچلی سطح پر واپس چلا جاتا ہ

آہوت جبل

بہلول دیوانے کا آستانہ: اس کے مطابق کہا جاتا ہے کے ایک شخص حضرت علیؓ کے شیدائی تھے وہ کچھ اشیاء بیچ کر پیسہ جمع کر کے

 لوگوں کو کہتے تھے علی کا نعرہ بلند کرو جب لوگ ایسا کرتے تو وہ اپنی کمائی ہوئی رقم ان لوگوں کو تقسیم کر دیتے تھے اس لیے ان کو

 بہلول دیوانہ کہا جاتا ہے۔

مسجد لطیف

بولالکلطیف جی کھوئی۔ اس کے بعد زائرین محبت فقیر پر حاضری دیتے ہیں۔ اور شاہ نورانی درگاہ پہنچ کر قافلہ کی شکل میں لاہوت کا سفر شروع کرتے ہیں -نورانی سے لاہوت کا راستہ

غارِ لاہوت کا اندرونی نظارا 

لاہوت لامکاں سے زائرین آتے ہوئے

غار کے منہ سے اندر کی جانب رسے کی مدد سے اترنا پڑتا ہے۔ غار میں اترتے وقت سب سے پہلا پاؤں ”پتھر کے دیو قامت

 شیر“ پر پڑتا ہے مقامی روایت کہ مطابق، یہ شیر حضرت علیؓ کی سواری ہوا کرتا جب آپؓ یہاں سے ہجرت کر گئے تو یہ پتھر کا بن

 گیا۔ (حضرت علی جب خلیفہ تھے تو وہ اپنے عہد میں سفر طے کرتے رہتے تھے جس کا ثبوت مختلف روایات سے ملتا ہے) پھر اس

 کے بعد غار کے اندر داخل ہونے پر کچھ دکھائی نہیں دیتا تو زائرین فرش پر جمع ہوئے پانی سے منہ کو دھوتے ہیں جس کے بعد ان کو

 سب کچھ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس غار نما ہال یا ہال نما غار کی چھت چودہ فٹ اونچی ہے۔ غار میں ہوا اور روشنی کے لیے ایک ہی

 سوراخ ہے جس سے زائرین داخل ہوتے ہیں اور باہر جاتے ہیں۔

 

اس کے علاوہ مقامی راویات کے مطابق، حضرت علی کا تخت، پنجتن پاک کی چلہ گاہ۔ حضرت علی کی پتھر کی شکل میں اونٹنی بھی

 موجود ہے جس کو لعل شہباز قلندر نے 21 دن کے استخارہ کرنے کے بعد ثابت کیا کہ یہ حضرت علی کی اونٹنی ہے جو ادھر آئی اور

 پتھر کی بن گئی۔۔[12](دوسری روایات کے مطابق، حضرت علی کی ایک اونٹنی تھی جو اپ کی وفات کے بعد کہیں غائب ہو گئی

 تھی اس کا کسی کو علم نہیں کہ وہ اونٹنی کہاں گئی)۔ 

علی بن ابی طالب سے منسوب اونٹنی

اس کے علاوہ مقامی روایات کے مطابق خاتون جنت کی چکی اور بی بی فاطمہ سے منسوب صابن پتھر کی شکل میں موجود ہے جس

 صابن نما پتھر سے آج بھی خوشبو آتی ہے۔ اور حضرت علی کی اونٹنی کے اردگرد چھوٹے چھوٹے پیروں کے نشانات بھی موجود

 ہیں۔ یہاں کہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ امام حسن و حسین کے پیر ہیں۔ جو اپنے والد ماجد کے ساتھ اونٹنی پر گھوما کرتے تھے۔

 (حضرت علی سفر طے کرتے رہتے تھے جس کا ثبوت مختلف روایات سے ملتا ہے)۔ اس کے ساتھ ہی پنجتن پاک کی چلہ گاہ موجود

 ہے۔ آپ کی چلہ گاہ کے قریب ایک سرنگ بنی ہوئی جس میں ایک راستہ بنا ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ راستے سات دن کے سفر

 کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں نکلتا ہے۔

    اس کمرے کے اندر ایک غار ہے جس میں راستہ بنا ہوا ہے اور اس کی کوئی انتہا یا حد نہیں۔ کہتے ہیں کہ اس راہ سے ڈھائی دن کے

 عرصے میں حجاز کی سرزمین پر پہنچا جا سکتا ہے کچھ لوگ سات دن کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں درویشوں نے اس راستے سے سیر

 کی۔ کمرے میں ایک طشت کا سا پتھر بھی رکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ قدیمی زمانے میں اہل اللہ میں سے چالیس فقرا کا ایک دانہ اس میں

 پس کر سب کے سب شکم سیر ہوئے تھے“

 

    لاہوت دراصل ایک گلاس کی شکل کا نہایت تنگ اور گہرا گڑھا ہے۔ اس کے نیچے اترنا گویا ایک آتش فشانی دہانے میں اترنے

کے مترادف ہے۔ دونوں ہاتوں کو پتھر پر لٹکا کر ایک سال کے بچے کی طرح گھسیٹ گھسیٹ کر اور پھسل پھسل کر نیچے اترنا پڑت

 ہے۔ بعض جگہوں پر لوہے کی سیڑھیاں لگی ہوئی ہیں لیکن وہ بھی انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ان سیڑھیوں کے ڈنڈے ریل کی پٹری

 کے بنے ہوئے ہیں۔ زائرین کے لیے اپنے ہمراہ معمولی سامان لے کر نیچے اترنا مشکل ہے، میں اپنے ٹیپ ریکارڈ کی ڈوری کو

 دانتوں میں پکڑ کر نیچے اترا (مصنف)۔ جب میں اندر اترا تو ایک عجیب سی روحانیت کا منظر تھا۔ میں نے جیسے ہی منہ پانی سے دھویا

 مجھے لاہوت کی تمام چیزیں دکھائی دیں۔ ان پتھر کے مجسموں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے اوپر والی ذات نے ان ما فوق الفطرت

 اشیاء کو تھوڑی دیر کے لیے روکے رکھا ہے مگر وہ پتھر کے ہی تھے۔“ 

آدم و اماں حوا کی مسجد

    ملنگ کی گدی کے بالکل سامنے جس پتھر پر جھرنا گر رہا ہے وہ پتھر ایک بہت بڑے سانپ کی شکل کا ہے جس نے اپنے پھن کو

 اوپر کو اٹھایا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے ایک چھوٹا سا سانپ ہے جسے وہ اس بڑے سانپ کی مادہ بتاتے ہیں۔ مقامی ملنگوں کا کہنا ہے کہ

 'اس جگہ امام حسین اور حسن کھیل رہے تھے ان سانپوں نے انہیں ڈسنے کی کوشش کی لہٰذا یہ پتھر کے ہو گئے'۔ پتھر کے

 سانپوں اور ملنگ بابا کی گدی کے درمیان میں عین ملنگ کے سامنے ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہے جس کے اوپر ”مسجد آدم اور حوا“

 کی تختی لگی ہوئی ہے، کہتے ہیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں آدم و حوا کو دنیا میں سب سے پہلے اتارا گیا۔ اس مسجد میں، میں نے اکثر

 زائرین کو نفل ادا کرتے دیکھا۔

سجدہ گاہ لاہوت لامکاں کی غار کے طرف جانے والے راستے میں ہے۔ کہتے ہیں کہ لاہوت لامکاں کائنات میں پہلی جگہ ہے جو

 زمین پر رونما ہوئی۔ اس کا ثبوت یہاں سجدہ گاہ کی جگہ سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام جب زمین پر یہاں اتارے گئے

 تھے تو انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں یہاں پہلا سجدہ کیا تھا۔ وہ جگہ سجدہ گاہ کہلاتی ہے۔ یہاں تعمیر کی گئی چھوٹی سی مسجد یا سجدہ گاہ

 آدم علیہ السلام سے منسوب ہے۔ 

لاہوت، کے مقامی لوگ

لاہوت، شاہ نورانی اور اس کے آس پاس مقامی آبادی براہوئیوں کی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر خانہ بدوش ہیں۔ بھیڑ، بکریاں چرانا اور

 اونٹوں پر باربرداری کرنا ان کا آبائی پیشہ ہے۔ یہ لوگ انتہائی محنت کش، طاقتور، بہادر اور ایماندار ہیں۔ انتہائی غریب ہیں۔ یہ

 لوگ چھوٹے موٹے کاروبار اور مزدوری کے علاوہ اور کسی چیز میں دلچسپی نہیں لیتے مقامی لوگوں کے اس رویہ کی وجہ سے انہیں

 بیرونِ بلوچستان سے آئے ہوئے لوگ ”مکے کے بدو“ کہتے ہیں۔ کئی مقامی لوگ دیہات سے لائے ہوئے بکری کے بچے،

 دودھ، خالص شہد، گھی اور کھجور کے پتوں کی بنی چٹائیاں، ببول کی گوند، پتھر کی گونڈیاں اور سپاریوں کی مدد سے تیار کردہ گلے کے

 ہار وغیرہ لاہوت لامکاں اور شاہ نورانی درگاہ پر فروخت کرتے ہیں۔ 

لاہوت کے پہاڑوں میں پیداوار

لاہوت کے پہاڑوں پر پکھراج اور زہر مہرہ کافی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ ان پہاڑوں میں آنکھ کی بیماری کے لیے ”سرمے“ میں

 کام آنے والی بوٹی جسے ”ممیری“ کہتے ہیں عام پائی جاتی ہے۔ بروہی لوگ اس نایاب بُوٹی کی چھوٹی چھوٹی گھچیاں لا کر زائرین

 کے ہاتھ نہایت ارزاں قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نایاب قسم کی جڑی بوٹیاں درگاہ شاہ نورانی اور لاہوت کے

 راستوں میں دستیاب ہیں اس کے علاوہ ”سلاجیت“ بھی کافی مقدار میں لاہوت کی پہاڑیوں میں پایا جاتاہے۔ 

لاہوت لامکاں کے قِصّے

قِصّہ اول :

ایک دفعہ کچھ زائرین شاہ نورانی سے لاہوت کے لیے راونہ ہوئے اور لاہوت کر کے شاہ نورانی واپس جانے کے لیے نکلنے لگے تو

 ان میں سے ایک شخص نے ضد کی کہ وہ ایک رات یہاں ضرور گزارے گا۔ (شام پانچ بجے کے بعد لاہوت میں انسانوں کے

 جانے پر پابندی عائد ہے کیونکہ پانچ بجے کے بعد جنات کا لاہوت کرنے کا وقت ہوتا ہے اور دوسرے روز صبح اٹھ کر شاہ

 نورانی واپس جائےگا اس کے دوستوں نے اسے بہت منع کیا مگر وہ نہ مانا۔ اگلے روز جب اس کے دوست وہاں اسے واپس لانے

 کے لیے گئے تو دیکھا رجب علی بہکی بہکی اور عجیب سی حرکات کر رہا ہے۔ اس کو صرف یہی کہتے سنا گیا ”وہ یہاں تھے کدھر

 گئے؟“۔ رجب علی کو زبردستی بیٹھا کر اس کے دوستوں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ رات کو جب 'رجب' کی آنکھ کھلی تو دیکھتا ہے کہ 

    ایک شخص اونٹ پر سوار ہے جو عربی لباس زیب تن کئے ہوئے ہے اور ایک دوسرا شخص بھی عربی لباس میں تھا۔ اونٹی کی رسی

 پکڑ کر آگے آگے جارہا ہے۔ یہ دیکھ کر رجب علی اٹھا اور ان کا پیچھا کیا۔ بظاہر تو اونٹ کی رفتار بہت کم تھی لیکن فاصلہ ایک

 دوسرے کا کم نہیں ہو رہا تھا ۔جب کافی آگے نکل گیا تو ایک دہشت ناک آواز پہاڑیوں کے درمیان میں گونچتی ہوئی اس کو سنائی

 دی؛”ہمارا پیچھا مت کرو!“

تب بھی رجب علی ان کا پیچھا کرتا رہا۔ آخر ایک جگہ ایسی آئی کہ دو پہاڑیوں کے درمیان میں اتنا بڑا فاصلہ آ گیا جسے اونٹ نے

 چھلانگ لگا کر پار کر لیا۔ اور رجب علی دیکھتا ہی رہ گیا اور چھلانگ نہ لگا پ یا۔ اپنے دوستوں کو یہ بات بتانے کے بعد رجب علی بے ہوش ہو گیا۔ اور دوبارہ ہوش میں آیا تو وہی بہکی حرکتے کرنے لگا اس کے بعد رجب علی اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا۔ مقامی لوگوں نے قصہ سنا تو فوراً کہنے لگے کے وہ اونٹنی علی کی تھی جو شام پانچ بجے کے بعدزندہ ہوتی ہے اور وہاں دو عربی افراد اور کوئی نہیں بلکہ علیؓ اور حسینؓ تھے۔ (واللہ اعلم بالصواب) 

قِصّہ دوم :

ایک مرتبہ کسی زائر نے یہ سوچا کہ لاہوت کرنے کے لیے ان دشوار راستوں سے گزرنا اور ان پہاڑوں کے ٹیڑے میڑھے اور

 تنگ راستوں سے گزرنا تو بہت ہی مشکل ہے تو پیدل چلنے سے بہتر ہے کہ کوئی سواری مثلاً اونٹ کرائے پر لے کر لاہوت کیا

 جائے۔ اونٹ کرائے پر لے کر وہ شخص لاہوت روانہ ہو گیا اور پہلا پہاڑ پار کر لیا۔ دوسرا پار کرنے ہی والا تھا کہ اس پہاڑ کے موڑ

 پر ایک درویش دیکھا۔ جس نے اس شخص کو آگے جانے سے روکا اور کہا کہ

”سواری چھوڑ دو اور پیدل جاؤ ایسے تمہارا لاہوت قبول نہیں ہوگا!“

لیکن اس شخص نے بہانہ کیا کہ میری ٹانگ میں تکلیف ہے۔ اس وجہ سے پیدل نہیں چل سکتا۔ درویش نے اسے کہا”اگر تم نے اسی طرح جبل پار کرنے کی کوشش کی تو پھر ہونے والے نقصان کے زمہ دار تم خود ہوگے“وہ پھر بھی نہ مانا اب جیسے ہی پہاڑ پار کرنے لگا تو اونٹ کے پیر میں کیل گھس گئی اور اونٹ کے ساتھ وہ اچانک سے زمین پر آگر اور ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ پھر اس 

شخص کی سمجھ میں آیا یہ درویش نہیں بلکہ کوئی اللہ جل جلالہ کی ولی شخصیت تھی۔

فقیر قطب علی شاہ ایک ولی بزرگ گزرے ہیں۔ ان کو بچپن ہی سے لاہوت کی پہاڑوں کا بڑا شوق تھا۔ فقیر قطب 17 برس کی

 عمر سے 40 کی عمر تک لاہوت جاتے رہے۔ چالیس چالیس دنوں تک وہاں وقت گزارتے تھے۔ ایک دن والد صاحب نے پوچھا

 کیوں بیٹا کیا بات ہے کہ اتنا عرصہ وہاں جاکر کیوں رہتے ہو۔ تو فقیر قطب نے جواب دیا۔ ابا جان جو بات ان جبال میں ہے وہ

 کہیں نہیں ہے سارا سچ یہاں ہے میرا دل اب کہیں نہیں لگتا ہے۔ لاہوت میں فقیر قطب کا کھانا قدرتی تھا کیوں کہ ان پہاڑوں

 میں ایک قسم کا پھل پیدا ہوتا ہے جسے ”منگھو“ پھل کہا جاتا ہے وہ کھا کر فقیر قطب وقت گزارتے تھے۔ منگھو پھل پہاڑوں میں پیدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ سخی سلطان کا نام منگھو پھل کی وجہ سے منگھو پیر پڑ گیا۔

علی بن ابی طالب کی بلوچستان آمد

علی بن ابی طالب کی بلوچستان آمد سے متعلق جو باتیں روایت میں آچکی ہیں۔ ان کا تاریخی طور پر کوئی ثبوت نہیں ملتا سوائے اس

 کے کہ بلوچستان میں آپ کی آمد کے متعلق بلوچستان۔ ماضی۔ حال۔ مستقبل کے مصنف اس عنوان سے ”مسلمانوں کی ان

 علاقوں میں آمد“ میں لکھتے ہیں کہ؛    تقریباً چھٹی صدی عیسوی میں پہلی دفعہ مسلمانوں کا بلوچستان اور سندھ سے تعلق ہوا  

مشہور تاریخ دان بلاذری کے بیان کے مطابق

    حضرت عثمان نے عراق کے گورنر عبداللہ بن عامر کو ہدایت کی کہ بلوچستان اور سندھ کی طرف بحریہ کا ایک مشن روانہ کیا

 جائے تاکہ وہاں کے حالات سے واقفیت ہوسکے۔ چنانچہ حضرت عثمان کو خبر ملی کہ اس علاقے میں پانی بالکل ناپید ہے۔ پھل ہیں

 مگر کھانے کے قابل نہیں۔ چور و ڈاکو بلا روک ٹوک ظلم ڈھاتے ہیں۔ جیسے ظالم ڈاکو ہیں ایسا ہی ظالم علاقہ۔ تھوڑی فوج کے

 ذریعے مقابلے میں کامیابی ناممکن ہے۔ بڑا لشکر بغیر رسہ نہیں ٹھہر سکتا۔ حضرت عثمان کو تعجب ہوا اور انہوں نے اس علاقے پر

 حملے کا ارادہ ترک کر دیا۔حضرت علی کے خلافت کے دور میں حارث بن مرو العبدی نے بلوچستان کی سرحد پر چڑھائی کی۔ بیش بہا مال غنیمت ہاتھ آیا۔

نورانی سے لاہوت لامکاں جانے کے لیے تمام پہاڑی سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ جن میں مندرجہ ذیل پہاڑیاں شامل ہیں۔ 

چار پائی پہاڑ

کشتی نما پہاڑ

پیالہ یا لوٹا نما پہاڑ

دال پہاڑ

مزید تین اور پہاڑیں ہیں جن کا کوئی نام نہیں۔ یہ سفر طے کرکے لاہوت کی منزل آجاتی ہےمیرے پاس اس بارے میں کوئ

 اپنی معلومات نہیں تھیں -اس لئے میں نے یہ مضمون انٹرنیٹ سے تیّار کیا ہے۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر