محبّ ا ہل بیت تاریخ کی امر ملکہ زبیدہ-ام جعفر زبیدہ بنت جعفر بن ابو جعفر
منصور ہاشمی خاندان کی چشم و چراغ تھیں۔ یہ خلیفہ ہارون الرشید کی چچا زاد اور بیوی
تھیں۔ یہ نہایت خوبصورت اور ذہین و فطین تھیں۔ جب جوان ہوئیں تو خلیفہ ہارون الرشید
سے ان کی شادی ہو گئی۔ یہ شادی بڑی دھوم دھام سے ذوالحجہ 165ھ مطابق جولائی 782ء میں
ہوئی۔ ہارون الرشید نے اس شادی کی خوشی میں ملک بھر سے عوام و خواص کو دعوت پر بلایا
اور مدعوین کے درمیان میں اس قدر زیادہ مال تقسیم کیا جس کی مثال تاریخ اسلامی میں
مفقود ہے۔ اس موقع پر خاص بیت المال سے اس نے پانچ کروڑ درہم خرچ کیے۔ ہارون الرشید
نے اپنے خاص مال سے جو کچھ خرچ کیا وہ اس کے علاوہ تھا۔ہارون الرشید ملکہ زبیدہ سے
بہت محبت کرتا تھا۔
ملکہ زبیدہ نے دریائے د جلہ سے نہر
نکال کر مکرمہ مکرمہ تک لانے کا کارنامہ انجام دیا۔ نہر کے لئے مکہ مکرمہ کے قریب
وادی نعمان سے پانی لانے کا بندوبست کیا گیا تاہم ملکہ زبیدہ نے بغداد سے مکہ
مکرمہ تک حاجیوں کے قافلوں کے لئے جو گزر گاہ بنائی اسے درب زبیدہ کہاجاتا ہے ۔
نہر زبیدہ 1200سال تک مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ میں فراہمی آب کا بڑا ذریعہ ہی
ہے۔ اسے بلاشبہ انجینئرنگ کا شاہلکار اور عرب تہذیب کے سنہری دور کی یادگار قرار دیاجاسکتا
ہے۔ تاریخ میں نہر زبیدہ کی تعمیر کے حوالے سے بہت کم معلومات موجود ہیں۔ اس زمانے
میں ریکارڈ رکھنے کا رواج نہیں تھا۔ نہر زبیدہ کی بحالی اور مرمت کے حوالے سے آخری
ریکارڈ 1928ء کا دستیاب ہے۔ اس وقت سیلاب کے باعث نہر سے پانی کی فراہمی بند ہوگئی
۔ کنگ عبدالعزیز نے مصری ماہرین کو بحالی کا پراجیکٹ دیا۔ اس پراجیکٹ کی تحریری
رپورٹ شاید وہ واحد دستاویز ہے جو دستیاب ہے۔ 1950ء میں نہر سوکھ جانے کے بعد اس کی
بحالی پر توجہ نہیں دی گئی تاہم مکہ مکرمہ میں فراہمی آب کے دیگر ذرائع تلاش کئے
گئے۔ سعودی حکومت نے خصوصی دلچسپی لیکر مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ میں پانی کا
مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کیا ہے اس کیلئے مکہ مکرمہ سے 100کلو میٹر دور ڈی سیلینیشن
پلانٹ لگایا گیا ۔ یہ پلانٹ حج موسم میں پانی کی ضروریات پورا کرنے کیلئے کافی ہے۔
اگرچہ اب مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ میں پانی کا مسئلہ حل ہوچکا تاہم نہر زبیدہ جو
صدیوں تک حاجیوں کو پانی کی فراہمی کا بڑا ذریعہ رہی ہے اسے بھلایا نہیں جاسکتا-
سرزمین حجاز کی تاریخ ہزاروں سال پرانی
ہے یہاں کئی تاریخی مقامات کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ ان میں ایک نہر زبید ہ بھی
ہے جو اسلامی ورثے کا نادر نمونہ اور انجینئرنگ کا شاہکار ہے۔ آج کے دور میں ماہر
آرکیٹکٹ اور انجینئرحیران ہیں کہ صدیوں پہلے فراہمی آب کے اس عظیم الشان منصوبے
کو کیسے تکمیل تک پہنچایاگیا۔ نہر زبیدہ کا منصوبہ اس وقت کے ماہرین نے 10سال کے
عرصے میں مکمل کیا۔ اس کی کُل لمبائی 38کلومیٹر ہے ۔ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے
پر 170 ملین دینار لاگت آئی تھی۔ آج اس کاحساب لگایا جائے تو ایک دنیار10گرام سونے
کے برابر ہوگا جو بہت بڑی رقم بنتی ہے۔ نہر زبیدہ صدیوں تک مکہ مکرمہ اور مشاعر
مقدسہ میںحاجیوں کی پانی کی ضروریات کو پورا کرتی رہی۔ یہ نہر 1950ء تک چلتی رہی۔
بعدازاں پمپوں کے ذریعے پانی کھینچے جانے کے باعث خشک ہوکر بند ہوگئی۔ آج بھی اس
کا ایک بڑا حصہ محفوظ حالت میں ہے۔ سعودی کمیشن برائے سیاحت اور آثار قدیمہ کے چیئر
مین پرنس سلطان بن سلمان اور میئر مکہ مکرمہ اسامہ ا لبار نے مفاہمتی یاداشت پر
دستخط کئے۔ جس کا مقصد نہر زبیدہ ، جبل نور، جبل ثور، دیگر تاریخی مقامات اور مکہ
مکرمہ کے تار یخی کنوئوں کو محفوظ بنانے اور ترقی دینے کے لئے تعاون کوفروغ دینا
ہے۔کمیشن برائے سیاحت اورآثار قدیمہ تاریخی مقامات کو ترقی دینے کے لئے تحقیق،
دستاویزات کی تیاری، ماہرین کی مدد اور ٹیکنیکل سپورٹ فراہم کرے گا۔ مکہ مکرمہ میونسپلٹی
تاریخی مقامات کے قریب رئیل اسٹیٹ کی ڈیولپمنٹ کو بھی کنٹرول کرے گی۔ نہر زبیدہ کے
تاریخی ورثے کے تحفظ اور بحالی کے لئے مکہ مکرمہ میونسپلٹی نے کام شروع کر رکھا
ہے۔ اس سے پہلے نہر زبیدہ کی بحالی کے لئے کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ کے پروفیسر
محمد سراج ابو رزیزہ کو پراجیکٹ کا سربراہ مقرر کیا گیاتھا پھر معروف پاکستانی
آرکیٹیکٹ سلیم بخاری نے نہر کی بحالی کے لئے سروے کیا اور ایک دستاویزی فلم تیار
کی۔
نہر زبیدہ کی تاریخ
عباسی خلیفہ ہارون رشید انتقال کے بعد
ملکہ زبیدہ حج کے لئے آئیں تو مکہ مکرمہ میں پانی کی قلت کا نوٹس لیا۔ بغداد واپسی
پر ماہر انجینئروں اور آرکیٹکٹ کو بلا کر پانی کا مسئلہ حل کرنے کا حکم دیا۔ ماہرین
نے ملکہ کو سروے کے بعد رپورٹ دی کہ نہر کی تعمیر کاکام انتہائی مشکل ہے۔تاریخ کے
حوالوں میں ملکہ زبیدہ کایہ جملہ مشہور ہے کہ ہر قیمت پر نہر کی تعمیر کی جائے
خواہ ہرکدال کی ضرب پر ایک دینار ہی کیوں نہ دینا پڑے۔ اس وقت کے انجینئروں نے
سروے کے بعد وادی حنین اوروادی نعمان سے پانی میدان عرفات اور پھر مکہ مکرمہ لانے
کا فیصلہ کیا۔ ان دونوں وادیوں میں بارش اورپہاڑوں سے پانی آنے کے باعث زمین میں
پانی کا لیول زیادہ تھا ۔ ابتدا میں وادی حنین میں کنویں کھود کر پانی لایا گیا۔وادی
میں پانی جمع کرنے کے لئے بڑے حوض بنائے گئے ان کے آثار اب بھی موجود ہیں ۔ تاریخ
میں آتا ہے کہ وہاں موجود درخت کاٹ کر ایک چھوٹا ڈیم بھی بنایاگیا ۔ بارش کا پانی
جمع کر کے اسے استعمال میں لایاگیا۔ کچھ عرصہ بعد وادی حنین میں پانی کی سطح کم
ہوئی تو وادی نعمان سے پانی کی فراہمی شروع ہوئی۔
عرفات سے 10کلومیٹر مشرق میں طائف کی
طرف ہے جبل کرا کے دامن میں وادی نعمان واقع ہے۔ یہاں زمین میں پانی کی سطح خاصی
بلند ہے جبکہ اس علاقے میں بارش کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ نہر کی تعمیر کے لئے
وادی نعمان میں 4سے5کنویں کھودے گئے۔ ان کی گہرائی 34میٹر ہے۔ تمام کنوئوں کا پانی
ایک جگہ جمع کرنے کے لئے سرنگیں بنائی گئیں پھر مرکزی کنویں سے جسے امیہ کہاجاتا
ہے۔ وادی نعمان سے پانی پہلے عرفات لے جایا گیا اس کے لئے ڈھلوان کی شکل میں پختہ
قناۃ بنائی گئی تاکہ پانی خود بخود بہتا ہوا جاے۔ پانی کا لیول یکساں رکھنے کے لئے
کہیں یہ قناۃ نہر زمین سے اوپر ہے اور کہیں زمین سے نیچے ہے ۔ مزدلفہ کی پہاڑیوں
کے ساتھ کئی کلومیٹر تک یہ قناۃزمین کے اوپر ہے ۔آج بھی اس کا بیشتر حصہ محفوظ
ہے۔ قناۃ2فٹ چوڑائی ہے، اس کی اونچائی ایک آدمی کے برابر تھی۔ قناۃ کی صفائی کے
لئے تقریبا 50میٹر پر ایک کنواں کھودا گیا جسے خاریز کہا جاتا ہے۔ خرازات کا نظام
پاکستان کے علاقے بلوچستان میں بھی ہے جنہیں کاریزکہاجاتا ہے۔ خاریز میں نیچے جاکر
قناۃ کھودی جاتی ہیں اس کا فائدہ یہ ہے کہ صفائی کے کام کے ساتھ ہوا کا بھی گزر
ہوتا ہے تاہم قناۃ اور خرازات کی صفائی کا کام بھی آسان نہیں تھا۔ اس زمانے میں
چھوتے قد کے لوگوں کو استعمال کیا جاتا تھاجو اندر جا کر صفائی کرتے تھے۔ اہم بات یہ
ہے کہ خرازات اور قناۃ کو پتھر اور چونے کی مدد سے پختہ کیا گیا تاکہ زمین سے حاصل
ہونے والا پانی دوبارہ جذب نہ ہوجائے یعنی پوری نہر زبیدہ کو خواہ وہ زمین کے اوپر
ہے یا اندر پتھروں کو چونے سے جوڑ کر پلاسٹر کیا گیا ۔
یہ ایک الگ کہانی ہے کہ پتھروں کو
جوڑنے کے لئے چونا کہاں سے لایا گیا کیونکہ اس علاقے میں چونا موجود نہیں ۔ عین زبیدہ
کو وادی نعمان سے پہلے میدان عرفات، مزدلفہ اور پھر مکہ مکرمہ تک ایک ڈھلوان کی
صورت میں لایا گیا۔ آج عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس وقت کس طرح یہ کام انجام دیاگیا۔
سروے کے بغیر اتنا درست حساب کیسے لگایا گیا ۔ نہر اونچے نیچے راستوں سے گھومتی ہے
لیکن اس کا لیول برقرار رہتا ہے پھر قناۃ کھودتے وقت کہیں پتھریلی زمین ہے تو کہیں
ریت ہے قناۃ سیدھی نہیں ہے۔ وادی نعمان سے نکلنے والی نہر زبیدہ پہلے میدان عرفات میں
جبل رحمۃ کی طرف آتی ہے۔ جبل رحمۃ پر یہ نہر زمین سے 10فٹ اونچی ہے۔ اسی نہر کے
ساتھ جبل رحمۃ پر ایک سبیل بنائی گئی۔ انجینئرنگ کی یہ خوبصورتی ہے کہ نہر اتنے
دُرست لیول پر تھی کہ سبیل میں پانی خود بھرتاتھا اور اس لیول پر تھا کہ لوگ اسے پی
سکتے تھے۔ جبل رحمۃ پر حاجیوں کے لئے 3حوض بنائے گئے تھے جو حج کے زمانے میں بھرے
جاتے تھے تاکہ حجاج کے قافلے انہیں استعمال کرسکیں ۔ پھر میدان عرفات سے نہر زبیدہ
سیدھی مزدلفہ نہیں آتی بلکہ ڈھلوان کی صورت میں عرفات اور مزدلفہ کے درمیان واقع
وادی عرنہ کراس کرتی ہے انجینئرنگ کی ایک خوبصورتی یہ ہے کہ نہربرج کی صورت میں
وادی عرنہ کراس نہیں کرتی بلکہ نہر شمال کی طرف گھوم کر وادی عرنہ کے نیچے سے گئی
ہے اور وہاں اسے مزدلفہ لے جایاگیا۔ مزدلفہ میں نہر زبیدہ مسجد مشعر الحرام کے قریب
کنویں کی شکل میں تھی اور وہاں سے لوگ پانی نکاتے تھے۔ منیٰ کو بھی پانی یہاں سے
فراہم کیا جاتا تھا بعد میں نہر پر پمپ لگاکر پانی منیٰ تک پہنچانے کا بندوبست کیاگیا
اور منیٰ میں بھی حوض بنائے گئے۔
ایک اندازے کے مطابق نہر زبیدہ سے
600سے 800کیوبک میٹرپانی روزانہ مکہ مکرمہ آتا تھا آج کے حساب سے لگائیں تو 160ٹینکر
یومیہ۔ اس وقت کی آبادی کے حساب سے پانی کافی تھا۔ یہ میٹھا اور تازہ پانی تھا۔
1950ء تک نہر چلتی رہی۔ آبادی بڑھی تو لوگوں کی پانی کی ضروریات بھی بڑھیں۔ انہوں
نے پمپ لگا کر زمین سے پانی نکالنا شروع کیا۔ کئی مقامات پر قناۃ پر پمپ لگا کر
پانی کھینچا گیا اس کے نتیجے میں زمین میں پانی کا لیول گرگیا اور یوں نہر خشک
ہوگئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں