بدھ، 8 مارچ، 2023

"خواتین کا عالمی دن"میرا جسم میری مرضی

 

 

"خواتین کا عالمی دن" خواتین اسلام کی نظر میں

8 مارچ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے. غور کریں تو بہت سے سوالات سر اٹھاتے

 ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ آیا اس دن کو کیوں منایا جاتا ہے؟ اس دن کو منانے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ اور اس دن کو منانے کے 

پیچھے کون سے حقائق پوشیدہ ہیں جن کی بنا پر اس دن کو خواتین کے دن سے منسوب کر دیا گیا ہے؟ اگر اس دن کے حوالے سے 

تاریخی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 8 مارچ 1907ء کو امریکا کے شہر نیویارک میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں 1

0 گھنٹے روزانہ کام کرنے والی خواتین نے اوقات کار کم کرنے کے لیے مظاہرہ کیا تھا۔ ان خواتین کا مطالبہ تھا کہ انھیں مردوں

 کے برابر حقوق دیئے جائیں۔ پولیس نے ان خواتین پر تشدد کیا۔ مظاہرہ کرنے والی خواتین کے خلاف گھڑسوار دستوں کو استعمال 

کیا گیا۔ نیویارک پولیس نے مظاہرہ کرنے والی خواتین کو گرفتار کر لیا۔


اس واقعے کے بعد یورپی ممالک میں ہر سال عالمی کانفرنس برائے خواتین کا انعقاد ہونے لگا۔ سب سے پہلے 1909ء میں

 سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے عورتوں کا دن منانے کی قرارداد منظورکی۔ 1913ء تک ہر سال فروری کے آخری اتوارکو عور

توں کا دن منایا جاتا تھا۔ پھر 1913ء میں پہلی دفعہ روس میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین 

نے سرکاری طور پر 8 مارچ کو خواتین کا قومی دن قرار دیا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ 

ریاست کی ذمے داری ہے مگر خواتین دوہرے استحصال کا شکار ہیں۔ پاکستان کے بیشتر خاندانوں میں خواتین کی حیثیت ثانوی ہ

ے۔ اس روایت پر ریاستی اداروں اور غیر ریاستی اداروں میں یکساں طور پر عمل ہوتا ہے۔ اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو 

ان کے حقوق کا تحفظ تقریباً چودہ سو سال پہلے کیا.

اسلام نے عورت کو مقام و مرتبہ عطا فرمایا. ماں ہے تو اس کے قدموں میں جنت رکھ دی. بیٹی ہے تو اس کا اپنا مقام اور بیوی ہے تو

 اس کا الگ مقام رکھا. بہن ہے تو اس کو الگ مقام عطا کیا. جس دور میں عورت کو نفرت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور بیٹی کی پیدائش

 پر افسوس کا اظہار کیا جاتا تھا بلکہ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ ایسے دور میں اسلام کی آفاقی تعلیمات عورت کے عزت و مقام کا پرچار کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں. بلکہ اس کے ساتھ عورت کے حقوق کا تحفظ بھی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں. اسلام نے عمل اور اجر میں مرد و عورت کو مساوی کیا ہے. چنانچہ قرآن پاک میں واضح کردیا گیا کہ'مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کو 

اپنی کمائی کا حصہ ہے اور (دونوں ) اللہ سے اس کا فضل مانگو' (سورۃ النساء 32 )

عورت کے حقوق کے حوالے سے متعدد آیات اور احادیث ملتی ہیں. جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ 'عورتوں

 کےمعاملے میں ﷲ سے ڈرو' (الحدیث)

اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو ہر حقوق عطا کیا. اسلام نے عورت کو ذلت و پستی سے نکال کر شرف انسانیت بخشا

. لیکن ہماری آج کی مسلم خواتین نہ جانے کس روش پر چل نکلی ہیں.! اسلام نے تمام حقوق عطا کیے ہیں یہاں تک کہ جائیداد میں 

بھی حصہ رکھ دیا. مگر آج کی خواتین پھر اپنا حق مانگنے کے لیے مغرب کے دکھائے گئے راستوں پر چل رہی ہیں. اور یہ حق وہی خ

واتین مانگنے کے لیے سڑکوں پر نکل آتی ہیں جو پہلے سے خود مختار ہیں. جن کو انصاف یا حق چاہیے وہ تو آج بھی سفید پوش بنی گھر 

والوں کی عزت کی خاطر ہر ظلم سہہ جاتی ہے اور کوئی اولاد کی خاطر خاموش ہے.آج کی عورت کو اپنے 'عورت ' ہونے کا مفہوم

 سمجھنے کی ضرورت ہے. عورت کا مطلب پردہ ہے. مگر عورت وہ آزادی چاہ رہی ہے جو ہمارے اسلا م میں نہیں ہے

. اسلام نے

 عورت کو تمام تر حقوق عطا کیے ہیں. اس کو ضرورت کے وقت گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کی اجازت دی ہے.عورتیں تمام

 شعبہ ہائے زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں اور کرتی آ رہی ہیں. اگر اسلام میں دیکھا جائے تو غزوات میں بھی 

خواتین شامل تھیں. مگر ہماری آج کی عورت مرد کی برابری چاہتی ہے جب کہ قرآن مجید میں ﷲپاک نے واضح طور پر فرمایا ہے 

کہ ' اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور ﷲتعالی غالب اور حکمت والا ہے.' (سورہ البقرہ آیت 228)اگر دیکھا جائے تو ہما

ری آج کی عورت تربیت چھوڑ کر کفالت کے پیچھے بھاگ رہی ہے.کفالت سے صرف گھر بنتا ہے. جب کہ تربیت عورت کو امن 

کی جگہ پر ٹھہرا کر سنوارتی، سجاتی اور قائم رکھتی ہے. ہماری آج کی عورت مرد کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے کہ اگر مرد نے چار قدم اٹھائ

ے ہیں تو عورت کو پانچ اٹھانے پڑتے ہیں. لیکن عورتیں مقابلے کی زد میں آ کر چار کے مقابلے میں چار اٹھانے کی کوشش میں اپ

اپنا حسن کھو بیٹھے گی. احساس، محبت، شائستگی، حیا، ممتا، نزاکت، یہی تو زن کا حسن ہے. مرد و زن سائیکل کے دو پہیوں کی طرح

 ہوتے ہیں. آگے پیچھے ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے. اگر پچھلا پہیہ آگے والے سے مقابلہ شروع کر دے تو سائیکل تو ٹوٹ جائے گی 

نا. محافظ ہی آگے چلتے ہیں، محبوب نہیں. عورت محبوب اور مرد اس کا محافظ ہے. لیکن آج کی خواتین آزادی کے نام پر بے بہود 

قسم کے پوسٹرز بنا کر اور 'میرا جسم میری مرضی' جیسے نعرے لگا کر مرد کی غیرت کو للکار رہی ہیں.آج کی عورت ہر مرد کو ہرانا چ

اہتی ہے جب کہ ﷲ پاک نے تمام جانداروں کو جوڑوں میں پیداکیا. انسان کے علاوہ کوئی جاندار اپنے ساتھی سے مقابلہ نہیں کرتا

 ہے. ہمارے ہاں مرد و زن نے آپس میں ہی مقابلہ شروع کر رکھا ہے. ہر کوئی انا کا مسئلہ بنا کر چلنا چاہتا ہے. مرد اور عورت مل کر

 معاشرہ بناتے ہیں، دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے لہذا دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق دینے پڑیں گے۔-

خواتین کا عالمی دن ایک مزدور تحریک کے طور پر شروع ہوا تھا اور اب یہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ ایک سالانہ دن

 ہے۔اس کو عالمی سطح پر لے جانے کا خیال کلارا زتکن نامی خاتون کا تھا جو کہ ایک کومیونسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھ

یں۔اس دن کا آغاز 1908 میں نیو یارک شہر سے ہوا جب 15000 خواتین نے کم گھنٹے کام، بہتر تنخواہوں اور ووٹ کے حق 

کے لیے مارچ کیا۔ اس سال بعد سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے پہلا قومی یومِ نسواں منایا۔

اس کو عالمی سطح پر لے جانے کا خیال کلارا زتکن نامی خاتون کا تھا جو کہ ایک کمیونسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھیں۔ انھوں 

نے 1910 میں کوپن ہیگن میں انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن میں یہ خیال پیش کیا۔ وہاں 17 ممالک سے 100

 خواتین موجود تپیں جنھوں نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی- ہ پہلی مرتبہ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں 1911 میں منایا گیا۔ اس کے سو سال 2011 میں منائے گئے چنانچہ اس سال ہم 111واں یومِ خواتین منائیں گے۔سنہ 1975 میں اسے سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے منانا شروع کر دیا۔ سنہ 1996 میں پہلی مرتبہ اس کو ایک تھیم دیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے ‘ماضی کا جشن اور مستقبل کی منصوبہ بندی‘ کے عنوان سے منایا۔

جس دن روس میں خواتین کی ہڑتال شروع ہوئی تھی 

کلارا نے خواتین کے عالمی دن کے لیے کوئی خاص تاریخ منتخب نہیں تھی اور یہ 1917 تک متعین بھی نہیں ہوئی تھی جب پہلی

 عالمی جنگ کے دوران روسی خواتین نے ‘روٹی اور امن‘ کے مطالبات کے ساتھ ہڑتال کر دی اور چار دن کے بعد روسی سربراہ کو 

حکومت چھوڑنی پڑی اور خواتین کو ووٹ کا عبوری حق مل گیا۔جس دن روس میں خواتین کی ہڑتال شروع ہوئی تھی وہ جولیئن 

کیلنڈر میں 23 فروری تھی جو موجودہ کیلنڈر میں 8 مارچ ہے اور اسی لیے یہ آج کی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔

3۔ لوگ جامنی رنگ کیوں پہنتے ہیں؟

جامنی رنگ انصاف اور وقار کی علامت ہے۔

عالمی یومِ خواتین کے رنگوں میں جامنی، ہرا، اور سفید شامل ہیں۔

۔ ہرا رنگ امید ظاہر کرتا ہے۔ سفید پاکیزگی کے لیے رکھا گیا ہے تاہم یہ قدرے متنازع ہے۔ یہ رنگ برطانیہ میں 1908 میں

 ویمنز سوشل این پولیٹیکل یونین سے نکلے ہیں۔

۔ خواتین کا عالمی دن کیسے منایا جاتا ہے؟اٹلی میں اس دن مموسا بلوسمز پھول دیے جاتے ہیں۔ اس روایات کا آغاز کیسے ہوا یہ تو کسی

 کو معلوم نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ یہ روم میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد شروع ہوا۔خواتین کا عالمی دن کئی ممالک میں قومی تعطیل

 کا دن ہے، بشمول روس کے جہاں 8 مارچ کے آس پاس تین چار دنوں میں پھولوں کی فروخت دگنی ہو جاتی ہے۔چین میں

 حکومت کی جانب سے خواتین کو آدھے دن کی چھٹی دی جاتی ہے مگر بہت سی کمپنیاں یہ چھٹی اپنے ملازموں کو نہیں دیتیں۔اٹلی م

یں اس دن مموسا بلوسمز پھول دیے جاتے ہیں۔ اس روایات کا آغاز کیسے ہوا یہ تو کسی کو معلوم نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ یہ روم میں 

دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہوا۔

امریکہ میں مارچ کا مہینہ تاریخِ نسواں کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک صدارتی اعلان بھی کیا جاتا ہے جس

 میں سال بھر کی خواتین کی کامیابیوں کو اعزاز دیا جاتا ہے۔ اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے تقریبات آن لائن کی جانی ہیں۔

کملا ہیرس امریکہ کی تین سو سالہ تاریخ میں نائب صدر بننے والی پہلی خاتون ہیں

اقوام متحدہ نے 2022 کے لیے اس دن کا عنوان رکھا ہے ‘ایک پائیدار کل کے لیے صنفی مساوات‘۔ اس سال تقریبات میں یہ دیکھا جائے گا کہ خواتین ماحولیاتی تبدیلی سے کیسے نمٹ رہی ہیں۔مگر دنیا بھر میں اس کے علاوہ عنوانات بھی رکھے گئے ہیں۔ #BreakTheBias لوگوں کو ایسی دنیا تصور کرنے کا کہہ رہا ہے جہاں امتیازی سلوک، دقیانوسی سوچ اور تعصب نہ ہو۔۔ ہمیں اس کی ضرورت کیوں ہے؟

گذشتہ ایک سال میں دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہم کچھ پیچھے چلے گئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار 

سنبھالنے سے لاکھوں افغان خواتین کی زندگی بدل گئی ہے۔ لڑکیوں کو سکول جانے سے روکا گیا ہے، خواتین کے امور کی وزارت

 ختم کر دی گئی اور بہت سی خواتین کی ملازمتیں ختم ہوئیں۔برطانیہ میں پولیس اہلکار سارہ ایورارڈ کے قتل کے بعد خواتین کے تحفظ

 پر بحث شروع ہوئی۔ امریکہ میں اسقاطِ حمل کے حق پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔کورونا وائرس کی عالمی وبا نے بھی خواتین کے حقوق پر منفی اثر ڈالا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی 2021 کی صنفی رپورٹ کے مطابق صنفی امتاز ختم کرنے کے لیے درکار تحمینے کو 99.5 سال سے بڑھا کر 135.6 سال کر دیا گیا ہے۔

سنہ 2021 میں اقوام متحدہ کی 13 ممالک میں ایک تحقیق میں پتا چلا کہ ہے تقریباً ہر دو میں سے ایک (45 فیصد) خواتین نے  

 تشدد سہا یا پھر کسی جاننے والی خاتون کے بارے میں تشدد کی کہانیاں سنیں۔سنہ 2021 میں کورونا وائرس کی وبا کے باوجود

 عالمی دن کی ریلیاں نکالی گئی تھیں۔تیونس میں پہلی مرتبہ خاتون صدر کو چنا گیا جبکہ ایسٹونیا، سوئیڈن، ساموئا، اور تیونس میں پہلی

 مرتبہ خواتین وزیرِ اعظم کے عہدوں پر پہنچیں

اور اس کے علاوہ می ٹو موومنٹ کو کون بھول سکتا ہے جو کہ 2017 میں ہالی وڈ میں شروع ہوئی تھی مگر اب دنیا بھر میں پھیل چکی 

اس مضمون کی تیّاری میں انٹر نیٹ سے مدد لی ہے!

ممّا ممّم دے دو

 

یوں تو حوادث زمانہ اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن بہر حال کبھی 'کبھی کچھ ایسے حادثے بھی رونما ہو جاتے ہیں جن کے

 رونما ہونے سے پہلے بر وقت اچھے فیصلے کر لئے جائیں تو ان سے بچا جا سکتا ہے ایسے کچھ واقعات جو میری نظروں کے سامنے پیش

 آئے اور پھر زندگی ان کا ازالہ نا کر سکی --پہلی سچّی کہانی-شادی کا گھر تھا ،رات ہوئ توڈھول ڈھمکّے سے فراغت کے بعد منچلے تاش

 کھیلنے بیٹھ گئے ایک لڑکی کے گھر پہلا پھول کھلا تھا جو صرف ایک مہینے کا ہوا تھا بچّے کو برابر کے کمرے میں چار پائ پر سلا کر ماں بھی

 کھیل میں شامل ہونے دوسر ے کمرے میں آگئ اور پھر سب ہی تاش کے پتّو ں میں ایسے گم ہوئے کہ جب کھیل ختم ہوا تب

 خیال  آیا کہ بچّہ دیکھ لیا جائے ،اب تو بہت دیر ہو چکی تھی کیونکہ کسی مہربان نے گھر کے سا رے لحاف گدّ ے اس پلنگ پر لا کر بغیر

 دیکھے ڈ ھیر کر دئے تھے جو جلدی جلد ی ہٹائے گئے تب تک پھول کو مرجھا ئے ہوئے کئ گھنٹے بیت چکے تھے ،کیا تمام عمر اس

 نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے

دوسری  کہانی --ایک لڑکی کے یہاں پہلا بچّہ چند دن کا ہوا تھاکہ ایک دیرینہ سہیلی ملنے آگئ ،بچّے کی ما ن کو ہاسپٹل جانا تھا اس نے

 اپنی سہیلی سے کہا کہ اسٹور میں جھولا رکھا ہے اگر بچّہ روئے تو جھولا نکال کر اس میں لٹا دینا یہ کہ کر بچّے کے ما ں باپ بے فکری

 سے چلے گئے اور جب بچّہ رویا تو سہیلی نے اسٹور سے جھولا نکال کر اس میں بچّے کو  لٹایا لیکن جیسے ہی بچّے کو لٹایا بچّہ ایک دلخراش

 چیخ مار کر رویا پھر نیلا ہو کر ساکت ہو گیا ،جھولے میں بڑا سا سیا ہ رنگ کا بچھّو چھپا ہوا تھا بچّے کے ماں باپ جب گھر آئے تو سہیلی

 قدموں میں گر پڑی اور کہنے لگی میں نے کچھ نہیں کیا ،جو یہ ایسا ہو گیا جب جھولے سے بچّے کو نکالا گیا تو بچھّو اس کی ننھی سی پیٹھ

 سے چپکا ہوا تھا یہ کیس سراسر بچّے کے ماں باپ کی غفلت کی نشاندہی کرتا ہے کہ بچّے کے جھولے کی دیکھ بھال انہی کا فرض بنتا تھا ،

تیسری  کہانی --اس بات کو کافی عر صہ گزرا لیکن میری نظروں میں آج تک اس پھول کا چہرہ محو نہیں ہو سکا بچّی میرے محلّے میں

 اپنے ماں باپ کے ساتھ آئ ،میری اپنی تین برس کی چھوٹی بیٹی جتنی اور اتنی پیاری بھی تھی دونو ں میں خوب دوستی ہوگئ ،بچّی صبح

 سے لے دوپہر تک بھی رہتی تو گھر سے کوئ پوچھنے نہیں آتا تھا کہ بچّی کس حال میں ہے بہر حال وہ دوپہر کو کچھ دیر کے لئے گھر

 چلی جاتی اور پھر واپس آ جاتی ،مجھے بھی اپنی بیٹی کی جانب سے سکون رہتا کہ وہ بھی اس کے آ جانے سےہہلی رہتی تھی اور میں

 سکون سے اپنے کام کاج نمٹا لیتی تھی  ،کئ مہینے یوں ہی گزر گئے


،پھر ایک دن وہ سہ پہر میں میرے گھر نہیں آئ ،مغرب سے کچھ

 پہلے اس کے بڑے بھائ نے آکر اس کے لئے پوچھا تو میں نے بتا یا کہ آج تو سہ پہر میں آئ ہی نہیں ہے،پھر محلّے میں اس کو تلاش

 کیا گیا تو بھی نہیں ملی کسی نے کہا ٹینک تو جھانک لو ،ٹینک دیکھا گیا تو بچّی کی لاش پانی پر تیر رہی تھی،پوچھنے پر معلوم ہواکہ سہ پہر

 میں بچّی کی امّاں کے پاس ان کے ا یک چہیتے دوست آئے ہوئے تھے بچّی امّاں کو بات نہیں کرنے دے رہی تھی تو امّاں صاحبہ نے

 بچّی کے ہاتھ میں کچھ پیسے دے کر کہا جاؤ دکان سے سپاری لے کر کھا لو بچّی نے دکان سے سپاری خریدی اور گھر کے اندر تک آگئ

 لیکن ٹوٹی لکڑی کے ڈھکنے والے ٹینک کے اندر گر کر مر گئ ،داکٹر نے بچّی کی ماں کی سونے کی چوڑیوں سے بھری کلائ دیکھ کر

 طنزیہ کہا تھا کہ محترمہ اگر آپ اپنی ایک چوڑی بھی فروخت کرتیں تو ٹینک کا لوہے کا ڈھکّن خریدا جاسکتا تھا .

ما ں کی بے حسی کی کہانی

ممّا ممّم دے دو ....وہ معصوم جان ما ں سے کہتی رہی ،ماں نے کہا جاؤ بھائ سے لے لو

اس معصو م نے ابھی چند الفاظ ہی بولنے سیکھے تھےگرمیوں کے دنوں کی سخت جلتی دوپہر تھی ما ں باورچی خانے میں کھانا پکا رہی

 تھی ایسے میں ننھی بچّی اپنے پانی پینے کی چھوٹی سی کٹوری لے کر ماں کے پاس آئ اور اس نے ماں سے کہا ممّا ممّم دے دو-ماں نے

 جواب میں کہا جا ؤ بھائ سے لے لو میں کام کر رہی  ہوں بچّی چلی گئ اس نے جا کر بھائ سے پانی کی فرمائش کی بھائ میٹرک کے

 امتحان کی تیاری کر رہا تھا اس نے کہا جا کر ممّا سے کہو ، بچّی بھائ کے پاس سے بھی چلی گئ اب ماں سمجھ رہی تھی بچّی بیٹے کے پاس

 ہئے اور بھائ سمجھا کہ بہن ماں کے پاس ہئے جب ماں کام سے فارغ ہوئ تواس نے بیٹے سے پوچھا کہ بچّی کہاں ہے بیٹے نے کہا میں

 نے تو اس کو آپ کے پاس بھیج دیا تھا اب بچّی جو گھر میں ڈھو نڈی گئ تو گھر کے آنگن میں دھوپ میں رکھّئ ہوئ جلتے پانی کی بالٹی

 میں بچّی کی لاش اپنے پانی پینے کی کٹوری سمیت پڑی ہوئ تھی

 مضمون کے آخر میں معذرت خواہ ہوں اگر کسی ماں کو اس تحریر میں اپنا چہرہ نظر آئے


منگل، 7 مارچ، 2023

جب خون ناحق نے کنوئیں سے پکارا


جب خون ناحق نے کنوئیں سے پکارا

خون ناحق نے کنوئیں سے پکاراجب بلو چستان کے ایک ہی کنوئیں سے دو جوان لڑکوں کی اور ایک تیزاب سے جھلسے چہرے کے ساتھ لڑکی کی لاش برامد ہوئ تب حسب معمول کوئ غلغلہ نہیں اٹھا لیکن جیسے ہی معلوم ہوا کہ یہ مظلوم لاشیں ایک سردار کے انتقام کی بھینٹ چڑھی ہیں تو پورے ملک میں سرداری ظالمانہ نظام پر عوام برانگیختہ ہو گئے اور بالآخر مجرم سردار کھیتران کٹہرے میں کھڑا کیا گیا  آئے دیکھتے ہیں سرداروں کی عملداری میں عوام کے ساتھ کیا کیا مظالم کی داستانیں رقم ہوتی ہیں

پاکستان میں سرداروں کی کی نجی جیلیں

سندھ کی نجی جیلیں: ’20 کلو کی زنجیر ہاتھ اور پاؤں میں ڈال کر کام کرواتے تھے‘

28 فروری 2023

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے بارکھان میں ایک سردار کے مبینہ نجی جیل کی خبروں کے بعد نجی جیلوں کی موجودگی پر ایک بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا ملک میں اس وقت بھی ایسی جیلیں ہیں، ماضی میں ایسی جیلوں سے جو لوگ برآمد ہوئے وہاں کہاں گئے کس حال ہیں-سندھ کی نجی جیلیں: ’لڑکی خوبصورت ہوتی تو منشی اس پر ہاتھ رکھ کر کہتا یہ زمین کا کام نہیں اور کام کرے گی‘مجھے دو تین بار اغوا کیا گیا، مارا پیٹا گیا، رحیم یار خان اور جامشورو میں بھی اغوا ہوئی، زمینداروں نے بہت مارا لیکن میں نے کہہ دیا کسانوں سے دستبردار نہیں ہوں گی، انھیں آزاد ضرور کروائیں گے۔‘

یہ ہیں لالی کولھی جو پہلے خود نجی جیل میں قید تھیں اور اب دیگر کسانوں کی رہائی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔بلوچستان کے علاقے بارکھان میں مبینہ طور پر نجی جیل کی موجودگی اور ایک خاندان کی بازیابی نے پاکستان میں زمینداروں، جاگیرداروں اور سرداروں کی نجی جیلوں کی موجودگی کی بحث کو زندہ کر دیا ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ نجی جیلوں کا کیا یہ پہلا انکشاف ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔دو دہائی قبل صوبہ سندھ میں سینکڑوں کسان نجی جیلوں سے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں سمیت رہا ہوئے تھے، جن میں لالی کولھی بھی شامل تھیں۔زمیندار نے بہن سے ناجائز تعلق بنا لیالالی کولھی اور ان کا خاندان عمرکوٹ کے ایک زمیندار کے پاس بائیس سال جبری مشقت کرتا رہا۔ بقول ان کے زمیندار کے بیٹے نے ان کی بہن سے ناجائز تعلق قائم کر لیا اور بھائیوں اور والد پر سختیاں بڑھا دیں اور کہا کہ یہ لڑکی اس کے حوالے کرو۔’وہ دن رات کام لیتا، گھر آنے نہیں دیتا تھا کسی کی شادی بیاہ اور فوتگی تک میں نہیں جاتے تھے۔ چار پانچ منشی ہوتے تھے، خواتین کا منشی الگ اور مردوں کا الگ، جو جانے نہیں دیتے تھے۔‘

منو بھیل سانگھڑ کے زمیندار کے پاس کسان تھے جہاں سے بعد میں وہ بھاگ نکلے۔وہ بتاتے ہیں کہ اگر کسی کسان کی لڑکی خوبصورت ہوتی تو منشی اس پر ہاتھ رکھ لیتا اور کہتا کہ یہ زمین کا کام نہیں کرے گی بلکہ اور کام کرے گی۔عزت محفوظ نہیں تھی، لڑکی کی نہ گھر والوں اور نہ ہی ماں کی۔ کوئی نہیں تھا جو انصاف کرے اس صورتحال میں کسان بھاگے گا ہی نہ۔‘

پیروں میں آدھے من کی کڑیاں

لالی کولھی کے مطابق یہ ’سنہ 1996 کی بات ہے جب انھیں پورے خاندان کے لیے ایک من آٹا اور سولہ روپے مزدوری دی جاتی تھی۔پیروں میں آدھے من کی زنجیر باندھی جاتی تھی، بالآخر ایک کسان بھاگ نکلا اور اس نے عدالتوں سے رجوع کیا اور لالی کولھی کے خاندان سمیت 60 کسان رہا ہوئے۔‘منو بھیل کے مطابق ’ان سے لوہے کی بیس کلو وزنی زنجیر لگا کر کام کروایا جاتا، صبح فجر سے لے کر رات کو دس گیارہ بجے تک کام لیا جاتا تھا۔‘’ہم وہاں دو سال رہے اس عرصے میں برادری کا کوئی بندہ ہمارے پاس نہیں آتا تھا اگر کوئی آتا تو اس کو بھی پکڑ کر کام پر لگا دیتے تھے۔‘’کوئی شدید بیمار بھی ہو جائے تو ڈاکٹر آ کر دوائی دے جاتا لیکن باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔منو بھیل سنہ 1996 میں جیل سے بھاگ کر پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے دفتر پہنچے اور مدد کی اپیل کی۔ایچ آر سی پی کی حیدرآباد میں ان دنوں میں خصوصی ٹاسک فورس موجود تھی۔ اس کے ایک سابق رکن اور سینئر صحافی ناز سہتو بتاتے ہیں کہ ’منو بھیل کے ساتھ وہ روانہ ہوئے لیکن اس سے پہلے مقامی سطح پر معلومات لی گئیں۔ یہ اس طرح سے کیا گیا تاکہ پولیس کو معلوم نہ ہو سکے۔‘’جب ہم چھپتے چھپاتے زمینوں پر پہنچے تو ہمیں جھٹکا لگا۔ لوگوں کے پیروں میں اور ہاتھوں میں زنجیریں پڑی ہوئی تھیں۔ پہرے پر تین چار گارڈ موجود تھے۔ اس دوران زمیندار بھی پہنچ گئے اور تکرار شروع ہو گئی، ہمارے ہاتھ خالی تھے وہ ہوائی فائرنگ کر رہے تھے لیکن ہم کسانوں کو رہا کروا کے ڈی سی آفس پہنچ گئے اور پولیس مدد کے لیے طلب کر لی۔‘آشو کولھی کا خاندان گذشتہ سال رہا ہوا اور ان کے حصے میں چند برتن اور چارپائیاں آئیں ہر گھر میں ظلم و ستم کی داستان-انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں -ہوتا ہے جہاں ’جدید غلامی‘ موجود ہے یعنی مزدوری میں ناانصافی، کسانوں کو قرضے میں جکڑے رکھنا، ان کو قید و بند میں رکھنا۔سنہ 2020 سے جنوری 2023 تک صرف صوبہ سندھ میں پانچ ہزار سے زیادہ کسان جبری مشقت سے رہائی حاصل کر چکے ہیں۔

کوٹری، حیدرآباد اور عمرکوٹ میں ایسے چار ہاری کیمپس ہیں جہاں نجی جیلوں سے رہا ہونے والے کسان رہتے ہیں۔ ان بستیوں کے ہر گھر میں قید و بند اور ظلم و ستم کی داستان ہے۔آشو کولھی کا خاندان گذشتہ سال رہا ہوا اور ان کے حصے میں چند برتن اور چارپائیاں آئیں۔وہ ہمت نگر نامی کسان کیمپ میں ایک جھونپڑی میں رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’زمیندار مار پیٹ کرتا تھا ہمارے بچے تنگ تھے اور ہم بھی تنگ تھے۔زمیندار ہمارے پیسے کھا گیا اس نے بہت رلایا تنگ کیا، ہم پولیس کے پاس بھی گئے لیکن ہماری کسی نے نہیں سنی بس یہاں آ کر بیٹھے ہیں۔‘

منو بھیل سانگھڑ کے زمیندار کے پاس کسان تھے جہاں سے بعد میں وہ بھاگ نکلےمنو بھیل کی قانونی جنگ منو بھیل کا خاندان ابھی آزادی کی سانس بھی نہیں لے سکا تھا کہ اس کو دوبارہ اغوا کر لیا گیا۔ منو بھیل کے مطابق آزادی کے دو سال کے بعد ان کے خاندان کو کوٹ غلام محمد سے ایک زمیندار کے پاس سے اغوا کیا گیا تھا جہاں وہ گندم کی کٹائی کر رہے تھے۔زمیندار کے لوگ آئے ان کے والد، والدہ، بھائی، بیوی، دو بیٹیوں ایک بیٹے کو اغوا کر کے لے گئے۔ وہ اس روز گھر موجود نہیں تھے، کام سے تھر گئے ہوئے تھے، پھر آٹھ روز بعد واپس آئے تو پتا چلا۔منو بھیل کئی سال تک حیدرآباد پریس کلب کے باہر منو بھیل کئی سال تک حیدرآباد پریس کلب کے باہر علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے۔ اس کے بعد ہائیکورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ تک معاملہ گیا۔عدالت کے یہ ریمارکس بھی آئے کہ ’ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے- لیکن اس کے باوجود منو بھیل کے اہلخانہ بازیاب نہیں ہوئے۔منو بھیل کے مطابق ’میرے بیٹے کانجی کی عمر اس وقت سات سال تھی۔ بیٹی کی عمر تین سال تھی، میرا بیٹا جوان ہوگیا ہو گا۔‘

’میرے والد کی عمر اس وقت ستر سال تھی میری والدہ ساٹھ سال کی تھی، کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس میں لاش مل جاتی ہے لیکن یہ تو حادثہ بھی نہیں اگر ایک آدمی بھی مجھے مل گیا تو میری کہانی سچی ہوجائے گی اور جب تک میں زندہ ہوں یہ شور کرتا رہوں گا کہ میرے ساتھ ناانصافی کی گئی۔‘منو بھیل کوٹڑی میں واقعے ہاری کیمپ میں رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں روڈ حادثے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی تھی لیکن انھیں ابھی تک عدالتوں سے نوٹس آتے ہیں اور ان کے پاس کل اثاثہ ایک فائل ہے جس میں اخباروں کی درجنوں کٹنگز موجود ہیں جو ان کی جدوجہد پر مبنی ہیں۔لالی کولھی جو پہلے خود نجی جیل میں قید تھیں اور اب دیگر کسانوں کی رہائی کے لیے سرگرم عمل ہیں-لالی کا کسانوں کی رہائی کا مشن-کیا آپ نے امریکی سیاہ فاموں کی غلامی پر مشتمل نیٹ فلکس کی فلم ہیریئٹ (Harriet) دیکھی ہے؟حقیقی کہانی پر مشتمل اس فلم میں ایک خاتون فرار ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ اپنے رشتے داروں اور دیگر سیاہ فام افراد کو رہا کرواتی ہے۔ لالی کولھی بھی ایک ایسا ہی کردار ہیں۔لالی کولھی بتاتی ہیں کہ ’ہم جبری مشقت کی شکایت عدالت میں کرتے ہیں پھر عدالت رہائی کی اجازت دیتی ہے اور ہم مدد کے لیے تھانے جاتے ہیں لیکن پولیس زمینداروں کے ساتھ مل جاتی ہے اس لیے انھیں پہلے سے آگاہ کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں متعدد بار اغوا کیا گیا اور مارا پیٹا گیا۔‘

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’ہم بسوں میں سفر کرتے ہیں، اسی طرح عدالتوں میں اور تھانوں میں پہنچتے ہیں۔ زمیندار بااثر ہوتے ہیں، ہمیں بس سٹاپ سے اٹھا لیا جاتا ہے یا سڑک سے لیکن ہم نے کبھی شکست قبول نہیں کی، ہم کولھی اور بھیل کمیونٹی کے لوگوں کے لیے رات ہے اور سویرا ہوا ہی نہیں۔‘آئین پاکستان کی شق 11 غلامی اور جبری مشقت کی ممانعت کرتی ہے تاہم کسانوں کو قید بند رکھنے پر آج تک کسی زمیندار یا سردار کو سزا نہیں ہوئی۔ان میں سے کئی زمینداروں کو سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے۔ بارکھان جیسے واقعات پر ایوانوں اور سڑکوں پر خوب شور مچتا ہے، کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں اور پھر یہ معاملہ سرد خانے کا شکار ہو جاتا ہے۔کراچی میں ناظم جوکھیو کا قتل کیس ایک تازہ مثال ہے جس کی موت ایک سردار کی نجی قید میں ہوئی لیکن بعد میں لواحقین نے سمجھوتہ کر لیا۔

پیر، 6 مارچ، 2023

پاک و ہند کے شہرہ آفاق شاعر'جگر مراد آبادی

 

 

 

پاک و ہند کے شہرہ آفاق شاعر'جگر مراد آبادی جگر مراد آبادی کااصل نام علی سکندر تھا ۔ 6 اپریل 1890ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گھر اور

 مقامی مکتب میں ہوئی، جہاں انہوں نے اردو اور فارسی کے علاوہ عربی کی بھی تعلیم حاصل کی ۔بعد ازاں اپنے چچا کے پاس لکھنؤ چلے گئے، جہاں اسکول میں داخلہ

 لیا ۔ نویں جماعت میں دو مرتبہ فیل ہونے کے بعد حصول تعلیم سے دستبردار ہو گئے۔ ان کو شاعری ورثہ میں ملی تھی، ان کے والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی

 علی ظفر دونوں شاعر تھے۔ اصغر گونڈوی کی صحبت نے جگرکی شاعری کو بہت جلا بخشی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔ بھارتی حکومت نے انھیں ’’پدما بھوشن‘‘ خطاب

 دیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ ان کے آخری مجموعہ کلام ’’آتِش گل‘‘ پر ان کو ’’ساہتیہ اکیڈمی‘‘ سے پانچ ہزار روپیہ انعام اور دو سو روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر ہوا تھا۔ ’آتش گل‘ کے علاوہ ’’داغ جگر‘‘ اور ’’شعلۂ طور‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔اصغر گونڈوی، جگر کے ہم زلف، جنہیں جگر اپنا مربّی اور مرشد جانتے تھے اور کے سامنے کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرتے۔ان کی ہر بات مانتے اور ان کی موجودگی میں نظریں نیچی کئے رہتے۔ نہ صرف اصغر بلکہ ا کے قریبی اور بے تکلف دوستوں کے سامنے بھی اسی رکھ رکھاؤ سے پیش آتے کہ وضع داری شریفوں کی پرانی کمزوری ہے ۔ اب نہ وہ شریف رہے نہ ویسی وضع داریاں۔ خواتین اور لڑکیوں کی موجودگی میں جگر نظریں یوں نیچی رکھتے جیسے وہی ان کی عزت وآبرو کی نگہبان ہیں۔جگر پر تو اصل مشکلیں ترک شراب کے بعد آئیں۔ صحت بگڑتی گئی، مالی حالات دگرگوں ہوگئے، ذمہ داریاں بڑھتی گئیں۔ لیکن وہ اس کا پامردی سے مقابلہ کرتے رہے۔ اپنی کیفیت اوروں سے چھپاتے، ویسے ہی قیمتی کپڑے پہنتے، اور قیمتی چیزیں استعمال کرتے جنھیں یار دوست ہتھیالیتے اور یہ کبھی ان سے نہ کچھ کہتے اورنہ پوچھتے۔جگر کی شراب نوشی کے ذمہ دار بھی یہی دوست تھے جو بقول اصغر گونڈوی، ان کا گوشت کھا رہے تھے۔ انہیں سستی شرابیں پلاکر مشاعروں میں لے جاتے یا نجی محفلوں میں ان سے غزلیں سنتے۔ یہ بھی عجیب سی بات ہے کہ جگر سخت مذہبی آدمی تھے۔ جوش سے اکثر ان کی بے دینی پر الجھتے۔ جگر نہ صرف اللہ اور رسول بلکہ انسانوں کے حقوق بھی پہچانتے تھے ،جبکہ بہت سے پارساؤں کا یہ خانہ اکثر خالی ہی رہتا ہے۔

وہ کسی کا حق نہیں مار سکتے تھے، اسی لئے سب کے محبوب تھے۔ معمولی آدمی کی بدتمیزی برداشت کرلیتے لیکن بڑے لوگوں کی نا واجب حرکت پر کچھ کہے بغیر نہ

 رہتے۔ ان کا شمار کھاتے پیتے لوگوں میں نہیں ہوتا تھا ، تنگی سے بسر ہوتی تھی لیکن مہمانوں کے سامنے آنکھیں بچھائے رکھتے۔ غصے میں کبھی آپے سے باہر نہ

 ہوتے نہ کبھی اپنی بڑائی جتلا کر دوسروں کے عیب بیان کرتے۔مشاعروں میں کبھی اس بات کا تردد نہیں کیا کہ انہیں سب سے پہلے یا سب سے آخر میں پڑھوایا

 گیا۔ منتظمین نے جو کچھ دیا خاموشی سے جیب میں ڈال لیا۔ ایک بار جب وہ سو رہے تھے کسی جاننے والے نے ان کے جیب سے سارے پیسے نکال لئے، جگریہ دیکھ

 رہے تھے۔ جب لوگوں کو علم ہوا تو پوچھا کہ آپ نے کیوں نہیں بتایا، کہنے لگے شریف آدمی کو رسوا کرنا تو کوئی اچھی بات نہیں۔

جگر داغ کے شاگرد تھے اور اصغر کی عزت کرتے تھے لیکن دونوں کا انداز نہیں اپنایا کیونکہ  وہ تو ایک سرمست انسان کا دل رکھتے تھے، جس کے پاس خلوص کی

 دولت اور عشق کی قوت کے سوا کچھ نہ تھا۔ جگر کے ہاں محبت ہی محبت تھی۔انسانی خوشحالی اور آسودگی ان کی آرزو رہی۔جگر آزاد طبیعت کے مالک اور حُسن

 پرست تھے۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ جگر کو اپنے عہد وہ شہرت اور مقبولیت ملی جو بہت کم شاعروں کو نصیب ہوئی۔ اس میں ان کی رنگا

 رنگ شخصیت کے ساتھ ان کے رنگِ تغزّل اور ترنم کا بڑا دخل ہے۔ کئی شعرا نے جگر کا طرزِ شاعری اپنانے اور ان کے ترنّم کی نقل کرنے کی کوشش کی، لیکن

 اس مقام و مرتبے کو نہ پہنچ سکے جو جگر کا خاصّہ تھا۔

جگر مراد آبادی کسی کی تقلید کے قائل نہیں تھے، اسی لیے انہوں نے آغاز میں ہی اپنی روش طے کر لی تھی جو دوسرے شعرا سے الگ ہے۔ وہ خود ہی لکھتے ہیں:

”ہو سکتا ہے میرے کلام میں کہیں کہیں مومن کا اثر غیر شعوری طور پر موجود ہے۔ لیکن واضح رہے کہ میں تقلید کا قائل نہیں۔ البتہ اس کا اعتراف ہے کہ

 میرے ابتدائی کلام پر داغ کا نمایاں اثر موجود ہے۔ غالب کی عظمت اور محبت میرے دل میں ہے لیکن مقلد ان کا بھی نہیں۔“

جگرمراد آبادی کا انتقال نو ستمبر 1960ء کو گونڈا میں ہوا تھا اور وہیں انہیں محمد علی پارک میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ لیکن جگر کی موت کی خبر دو دو بار اخبارات میں

 شائع ہوئی اور ریڈیو سے بھی نشر ہوئی۔ اس کے بعد ان کے عقیدت مندوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ پہلی بار چارمئی سنہ 1938ء کو جب ان کے موت کی خبر شائع

 ہوئی تو بعض اخبارات نے خاص نمبر تک شائع کر دیے۔ ہر جگہ تعزیتی جلسے ہوئے۔ دہلی کی جامع مسجد میں تو تعزیتی جلسے کے ساتھ ساتھ نمازِ غائبانہ بھی ادا کی گئی۔

لیکن چند دنوں بعد لوگوں کو یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ جگر بقید حیات ہیں۔ سنہ 1958ء میں جب جگر کو دل کا شدید دور پڑا تواس وقت بھی ان کے

 انتقال کی خبر ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ لاہور اور کراچی میں متعدد تعزیتی جلسے ہوئے۔ لاہور کے ایک جلسے کی صدارت

 احسان دانش نے کی تھی۔ اس خبر کی تردید ہونے کے بعد مشہور مزاح نگار شوکت تھانوی نے روزنامہ ”جنگ“ میں لکھا تھا کہ پہلی خبرکے بعد جگر صاحب کی عمر

 بیس سال بڑھ گئی تھی اوراب اس خبر کے بعد پھر کم از کم بیس برس کے اضافے کی توقع ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا نو ستمبر 1960ءکو ان کو دل کا دورہ پڑا اور روح

 قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔

جان کر من جملہٴ خاصانِ مے خانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جگر مرادآبادی اور ایک نعتیہ مشاعرہ

رئیس المتغزلین حضرت جگر ؔمردآبادی پچپن ہی سے حسن پرست واقع ہوئے تھے۔ آٹھ نو سال کی عمر تھی جب اپنے چچا کے ایک کرایہ دار کی بیوی کا حسن ان کی

 آنکھوں میںسما گیا تھا۔اس کے بعد وحیدن، روشن فاطمہ،نسیم،سندری ، مندری اور شیرازن جیسی عورتوں کے حسن کاوہ شکار ہوتے رہے ور ان کے عشق میں

 بیمار بھی۔ چودہ پندرہ برس کی عمرمیں انگورکی بیٹی سے تعارف ہوا اور جب یہ کافر ادا منہ لگی تو پھر چھڑائے نہ چھٹی۔ لاکھ توبہ کرتے مگر انگور کی بیٹی ایک بار جب ان

 کے سامنے آجاتی توبہ دھری کی دھری رہ جاتی۔کبھی لہراکے پی جاتے تو کبھی شرماکے پی جاتے اور کبھی رحمت تمام کو باتوں باتوں میں بہلاکے پی جاتے۔شراب

 ان کی گھٹی میں اپنامستقربنا چکی تھی اوران کی شیروانی میں بوتل ہمیشہ پڑی ملتی۔کبھی اپنے مرشد حضرت اصغرؔ گونڈوی سے دعا کی درخواست کرتے اور اپنے ہی

 جیسا مستانہ بنانے کی فرمائش کرتے تو کبھی شاہ عبد الغنی منگلوری کے در پر حاضر ہوکررہنمائی کی التجا کرتے ۔ وہ اپنی رندی وبلانوشی پرنادم بھی ہوتے اور شرمندہ بھی ۔ اسے ترک کرنے کی کوشش بھی کرتے مگرجس دل پر پیہم وار لگے ہوں اس کے کاری زخم کو شراب کے علاوہ اور کس شے سے قرار مل سکتا تھا۔وہ آوارہ ہوگئے تھے، عینک فروشی سے جو کچھ ہاتھ آتا اسے شراب میں لٹادیتے اور عالم مدہوشی      میں  ان کا جذبۂ شوق جدھر لے جاتا وہ پھرتے رہتے۔کئی کئی دن گھر نہیں آتے۔ جانے کہاں کہاں بیٹھ کر شراب پیتے رہتے۔جیسے جیسے دل پر وار ہوتا،ضرب لگتی دل کی آہ شاعری بن جاتی۔بڑی سادگی سے وہ اپنے قلب وجگرکے سوز پنہاں کو شاعری کے پیکر میں ڈھال دیتے۔جیسے جیسے درد بڑھتارہا، شغل مے نوشی اور بادہ نوشی میں اضافہ ہوتا رہا اور شاعری پروان چڑھتی رہی۔جب جگر کے مخصوص ترنم میں ان کا مخصوص کلام سامعین کی سماعتوں سے ٹکراتا تو دلوں میں گھر کرلیتا، سامعین جھوم جھوم جاتے عش عش کر اٹھتے۔وہ دن مشاعروں کے موسم بہار اور اردو شعر وادب کے عروج کے دن تھے۔جگر ؔمرادآبادی کا نام ہی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت بن گیا تھا۔ شاعری کی شہرت کے ساتھ مے نوشی میں بلا کا اضافہ ہوگیا تھا۔ منتظمین مشاعرہ انہیں بھر بھر کر پلاتے اور جی بھر کر سنتے اور حظ اٹھاتے۔کبھی شراب کے لیے انہیں عینکوں کاکاروبار کرنا پڑتا تھا مگراب یہ حالت تھی کہ انہیں شراب پلانے میں لوگ اپنی سعادت سمجھنے لگے تھے۔مشاعرہ جگرؔ اور شراب لازم ملزوم بن گئے تھے۔کوئی مشاعرہ جگرؔ کے بغیر کامیاب تسلیم نہیں کیا جاتا تو جگرؔ شراب کے بغیر کچھ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے اور جب پڑھتے تو ایسا کلام سامنے آتا کہ گلی کوچوں میں مدتوں دہرایا جاتا۔مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ کوئی مذاق میں بھی کہہ دیتا’’ وہ دیکھوجگر صاحب آرہے ہیں‘‘تو بے شمار آنکھیں اس طرف اٹھ جاتیں۔

جگرؔ صاحب نے ہمیشہ شغل مے نوشی کی اور صرف غزلیں کہیں۔جن دنوں بھوپال ہاؤس میں جگر صاحب ٹھہرے ہوئے تھے نعت کے مشہور شاعراور زائرحرم

 کے خالق جناب حمیدؔ صدیقی بھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے اور جگرؔصاحب سے ملنے آیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حمیدؔ صدیقی ان سے ملنے آئے جگر ؔعالم سرشاری

 میں لیٹے ہوئے کوئی غزل گنگنا رہے تھے۔ تپائی پر بوتل رکھی ہوئی تھی۔ جیسے ہی حمیدؔ صدیقی پر نظر پڑی وہ گھبراگئے اور کہا میں نے آپ کو منع کیا تھا کہ ایسے وقت

 میرے پاس نہ آیا کریں۔ انہوں نے کہا حرج ہی کیا ہے۔ میں آپ کے اس شغل سے واقف بھی ہوںاور معترض بھی نہیں۔ جگرصاحب نے کہا بات معترض

 ہونے کی نہیں ہے اس عالم میں اگر میں آپ سے نعت سنوں تو کیسے سنوں۔ اور وہ آب دیدہ ہوگئے۔

جگرؔجیسے شرابی شاعر کا یہ اعلیٰ شعور۔ اللہ اکبر! جگرؔ نے کبھی نعت نہیں کہی صرف غزلیں کہتے رہے اور دل کا غبار کاغذ پر اُنڈیلتے رہے۔جگرؔ صاحب نے پہلی نعت

 اجمیر کے مشاعرے کے لیے کہی۔اس نعت کا عجیب وغریب شان نزول پاکستان کے مشہورومعروف تذکرہ وخاکہ نگار ڈاکٹر ساجد حمید نے کچھ ا س طرح

ہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔

 کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔در اصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔ بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود مولوی حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ  مشاعرے میں شریک ہوں۔آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔکو مدعو کیا جانا چاہیے۔یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی

 عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتاتھا۔جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب

 نہیں‘‘ ۔

اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے

 انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ

 ہوگئے۔سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوںسے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ

 بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، لیکن شراب سے تو نہیں لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس

 زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے،

 شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم ہوجائے، شایدخدا کو مجھ پر ترس آجائے۔ایک دن گزرا، دودن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے

 تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا،  تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔

مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں

 نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے

 تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ

 اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ

 رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گا۔جگر اؔپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوںکو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرارہے تھے ؎

کہاں پھر یہ مستی کہاں ایسی ہستی

جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں

آخر مشاعرے کی رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔

’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادابادی!‘‘

اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا…’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو،جس کے

 پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے

 ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہےجوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہورہا ہے۔نعت کیا تھی

 گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے،

 اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے

 بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی۔ اس نعت کے  اشعار یوں ہیں:,,

 اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ

اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ

اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق

تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ

اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت

دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ

اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید

صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ

کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت

دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ

ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم

شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ

اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا

نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے

کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ

اتوار، 5 مارچ، 2023

ہد ہد ننّھا سا واٹر انجینیر

 

یہ ایسا   پرندہ  ہے جو ہزاروں میل دو ر سفر بغیررکے طے کرنے کی صلاحیت سے بھی لیس ہےاب  اس کی 

 ساخت کے بارے میں یہ لمبی چونچ والا ایک نہایت ہی خوبرو پرندہ ہے یہ لمبی چونچ سے کسی بھی کیڑے کو زمین سے کھود کر نکال

 سکتا ہے ۔اس کے سر پر ایک شاہی تاج کی مانند ایک تاج بناہوتا ہے یہ تاج مالٹا اور کالے کلر پر مشتمل ہوتا ہے اس کا جسم رنگ

 برنگے پنکھوں پر مشتمل ہوتا ہے اس کے جسم پر سفید اور سیاہ دھاریاں نمایاں ہوتی ہیں اس کے دو پنجے ہوتے ہیں اور ہر پنجہ چار

 انگلیوں پر مشتمل ہوتا ہے اس کی لمبائی پچیس سے بتیس سینٹی میٹر اور جب کہ اس کا ونگس پین چوالیس سے اڑتالیس سینٹی میٹر

 تک ہوتا ہے ۔اس کا وزن چھیالیس سے نواسی گرام تک ہوسکتا ہے ۔اس کی اوسطا عمر دس سال تک ہوتی ہے-    فارسی ادب میں

 اسے ایک پراسرار پرندہ تصور کیاجاتا ہے اگر کسی ایک کو کھانے کی چیز مل جائے تودوسرے ساتھی کا انتظارکرتا ہے اور پھر اس چیز

 کو کھایاجاتا ہے ایک ہدہد اپنی پوری زندگی میں صرف ایک بار ہی جوڑا بناتا ہے اگر اس کا ساتھی ساتھ چھوڑ جائے یا کسی حادثے کا

 شکار ہوجائے تو یہ ساری زندگی اکیلا رہنا پسند کرتا ہے کہاجاتا ہے کہ تنہائیوں کے ان لمحات میں ہدہد اتنا رزق لیتا ہے جس سے اس

 کی جان بچ جائے اور ایسی حالت میں اسے باآسانی پکڑاجاسکتا ہے

ہد ہد  اپنی افزائش نسل کس طرح کرتے ہیں- جب ایک میل ہد ہد کو اپنی افزائش نسل کی خواہش ہوتی ہے تب وہ اپنے لئے ایک

 مادہ ہد ہد کو تلاش کرتا ہے جب مادہ مل جاتی ہے -ہد ہد اپنی مادہ کو کھانےوالی کوئی چیز پیش کرتا ہے۔،اگر مادہ وہ چیز کھا لےتو اس کا

 مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ شادی کے لیے راضی ہے۔ پھر نر ہد ہد مادہ کو اپنے گھونسلے میں لے کر جاتا ہےجواکثر اوقات

 کسی درخت میں سوراخ کرکے پہلے سے بنایا ہوتا ہے۔اگر مادہ کو یہ گھونسلہ پسند آ جائے تو پھر دونوں رشتہ زواج میں منسلک ہو

 جاتے ہیں -مادہ ہدہد چھ سے آٹھ انڈے دیتی ہے انڈوں سے بچے نکلنے کے بعد نر اور مادہ دونوں ہی بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش کی

 ذمہ داری نبھاتے ہیں تقریبا تین سے چار ہفتوں کے دورا بچے اپنے گھونسلوں سے باہر آجاتے ہیں پوری طرح خود مختار ہونے کے

 لئے مزید دوہفتے والدین کی زیر نگرانی رہتے ہیں ہد ہد کو درختوں میں سورخ کرنے کی ایک خاص مہارت رکھنے والا ایک خاص

 جانور تصور کیاجاتا ہےکی درختوں میں سوراخ کرنے کی تین وجوہات ہیں ایک تو وہ انڈے دینے کے لئے اپنی رہائش کاانتظام

 کرتاہےاس کی اڑان اونچی نہیں ہوتی لیکن شکاری پرندوں سے بچنے کے لیے یہ آسمان کی انتہائی اونچائی میں بھی اڑ سکتے ہیں۔ یہ

 درختوں کے کٹائو یا دیواروں کے سوراخوں میں رہتے ہیں۔ مادہ چھ تا آٹھ انڈے دیتی ہے۔ ۱۶ تا ۱۹ دن بعد بچے باہر آتے ہیں ان کا

 نر (Male) مادہ اور بچوں کی غذا کا انتظام کرتا ہے۔ بچوں کی پیدائش کے بعد بھی مادہ (Female) ان کو مزید دس دن گرم

 رکھتی ہے تاکہ بچے ماحول سے ہم آہنگی پیدا کر لیں۔

ہد ہد وہ ایک واحد پرندہ ہے جو اپنی پوری زندگی میں صرف ایک ہی بار شادی کرتا ہے۔اور اپنے لائف پارٹنرکے مرنے کے بعد

 اپنی ساری زندگی اکیلے ہی گزاردیتا ہے۔۔ اس پرندے کی ازدواجی زندگی آج کے دور کے انسانوں کیلئے ایک مثال ہے۔کہ عقل

 نہ رکھنے کے باوجود بھی یہ دونوں ایک دوسرے کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔

اور انسانوں کےساری زندگی میں آپس کےجھگڑےہی نہیں ختم ہوتے، جب آپ اپنے ہمسفر کو پا لیں تو پھر اسی پر بس کر دیں اور

 وہ آپ کا ہوجائے اور آپ اس کے ۔دکھ ،سکھ ،بھوک، پیاس،غمی خوشی سب بانٹ کر جئیں۔اس کے علاؤہ اور کوئی آپشن دل و

 دماغ میں نہ رکھیں۔ مادہ ہمیشہ ہر موسم میں عموماً چھ سے آٹھ انڈے دیتی ہے اور پھربچے پیدا ہونے کے بعدباری باری خوراک کا

 بندوست بھی کر لیتی ہے۔ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ اگردونوں میں سے کسی کو بھی خوراک کی کوئی چیز مل جائے تو وہ اسے

 اکیلے نہیں کھاتے، بلکہ دونوں اکھٹے ہونے کے بعد ہی اسے کھا تے ہیں۔ہد ہد پرندے کی چھٹی حس اتنی زیادہ تیز ہوتی ہےکہ وہ

 زمین کے اوپر سے ہی زمین کے اندر پانی کو محسوس کر لیتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہدہد سے زیر زمین پانی

 ڈھونڈنے کا کام لیتے تھے۔ہدہد ایک ایسا پرندہ ہے جوہزاروں میل کا سفر رکے بغیر طے کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔اسی لیے

 حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے دوسرے ملک ملکہ بلقیس کو خط لکھ کر بھیجا تھا۔

  درخت کترنے کے لیے مشہور اس پرندے کا نام قرآن کریم میں بھی موجود ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو یمن کی ملکی سبا

 کے بارے میں اطلاع دیتا ہے۔اس پرندے کی اہم خاصیت درخت کے تنے کو کترنا ہے۔ یہ عمودی طور پر بھی درخت پر چڑھ

 سکتے ہیں، لکڑی کو کترتے ہوئے یہ اسے مضبوطی سے اپنے پنجوں سے پکڑ لیتے ہیں اس کے بعد کترنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔ 

ہدہد کے لکڑی کترنے کی 3 وجوہات ہیں۔ لکڑی کترنا ان کا آپس میں گفتگو کا ذریعہ بھی ہے، لکڑی کترتے ہوئے یہ مخصوص

 آوازوں کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنے پیغامات پہنچاتے ہیں۔

علاوہ ازیں اس عمل کے ذریعے یہ تنوں میں رہنے والے کیڑوں تک پہنچتے ہیں اور انہیں اپنی خوارک کا حصہ بناتے ہیں، جبکہ

 انڈے دینے کے لیے بھی یہ درخت کے تنوں میں سوراخ بناتے ہیں۔ہدہد کی ایک قسم ان سوراخوں میں سردیوں کے لیے

 خوراک بھی محفوظ کرتی ہے۔درخت کترتے ہوئے ان ننھے منے پرندوں کے سر کو زوردار جھٹکا لگتا ہے جیسا کہ آپ اوپر دیکھ سکتے

 ہیں تاہم اس قدر سخت تنے کھودنے کے بعد بھی یہ بالکل چاک و چوبند اور تندرست رہتے ہیں اور ان کے سر کو کوئی نقصان نہیں

 پہنچتا۔دراصل ان پرندوں کے سر میں نرم ٹشوز اور ایئر پاکٹس ہوتے ہیں جس کے باعث ہدہد کسی بھی نقصان سے محفوظ رہتے ہیں

ہد ہد قدیم دنیا کا معروف پرندہ ہے۔  تاج اور پروں کی خاص ترتیب کے باعث اس پرندے کی خوبصورتی میں کافی اضافہ ہوتا ہے۔

 جب کبھی یہ پرندہ تنائو میں رہتا ہے یا خطرہ محسوس کرتا ہے تو اس کے تاج کے پر عمودی حالت میں کھڑے ہو جاتے ہیں جس کی وہ

 سے اس کی خوبصورت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے پیر چھوٹے ہوتے ہیں اور بآسانی زمین پر دوڑ یا چل سکتا ہے۔ یہ چلتے ہوئے بار بار

 اپنی چونچ زمین پر مارتا ہے اور غذا حاصل کرتا ہے‘ بڑے کیڑوں کو چونچ میں لے کر رگیدتا ہے اور اس کا خول علیحدہ کر کے اس کو

 چونچ میں لے کر اچھالتا ہے جو دیکھنے والے کے لیے عجیب دلچسپ منظر ہوتا ہے۔

اس کی چونچ لمبی اور اگلی جانب ہلکی سی مڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کی آواز میں موسیقیت ہوتی ہے اور اس کا نام خود اس کی آواز کی

 دین ہے کہ اس کی آواز کا Rhythm خود اس کا نام بن گیا ہے۔ ہد ہد کا ذکر سورۃ النمل میں موجود ہے۔ اس کو مرغ سلیماں

 بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت سلیمانؑ ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ جن کو اﷲ نے ملک شام اور فلسطین پر حکومت عطا کی تھی۔ ان کی

 فوج میں اﷲ نے انسانوں کے علاوہ جنوں اور پرندوں کو بھی شامل کیا تھا۔ ویسے دنیا میں پرندوں کو فوج میں رکھنے کا عام رجحان پایا

 جاتا ہے تاکہ دشوار گزار علاقوں میں اطلاعات کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک بہ آسانی پہنچایا جاسکے۔ مواصلات کی دنیا میں

 ترقی نے اب ان پرندوں کی اہمیت کو کم کر دیا ہے لیکن بعض ماہرین کے نزدیک محفوظ طریقہ ترسیل آج بھی پرندہ ہی ہے کہ اس

 کے سگنلز کو عام طور پر مقید نہیں کیا جاتا۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ جب حضرت سلیمانؑ نے اپنی فوج کا جائزہ لیا تو ہد ہد کو غائب پایا

 کیونکہ یہ پرندہ فوج میں ایک اہم منصب پر فائز تھا۔ ہد ہد میں زمین کے اندر بہنے والی نہروں کو پہچاننے کی صلاحیت ہوتی ہے اسی

 لیے جب کبھی لشکر کسی علاقے میں ٹھہر جاتا تو حضرت سلیمانؑ ہد ہد کو پانی کی تلاش کا حکم دیتے۔ جب یہ پرندہ پانی کی نشاندہی کرتا تو

 لشکر میں موجود جنوں کے ذریعہ زمین کھود کر پانی کو حاصل کیا جاتا۔ شاید لشکر کو پانی کی ضرورت آن پڑی ہو گی اسی لیے حضرت

 سلیمانؑ نے اس پرندے کو یاد کیا اور غیرموجود پاکر حضرت سلیمانؑ غصہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر وہ معقول وجہ نہ بتا سکے تو اس کو سزا

 دی جائے گی۔ کچھ ہی دیر بعد جب ہد ہد واپس ہوا تو اس نے حضرت سلیمانؑ کو ملکہ سبا کا واقعہ سنایا۔ یہ ملک جنوبی عرب یعنی آج

 کے یمن کے مقام پر واقع تھا۔ اس کا صدر مقام شہر صنعاء سے ۵۰ کلو میٹر دور ’’معارف‘‘ تھا

۔ ہدہد نے اس ملک کی ملکہ کے تخت کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہاں لوگ سورج کی پرستش کرتے ہیں۔ حضرت سلیمانؑ نے ہدہد کی

 سچائی کو جانچنے کے لیے ملکہ سبا کے نام ایک خط بھجوایا۔ یہاں ہر شے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ

 ایک پرندہ کس طرح گفتگو کر سکتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ ہدہد ایک آدمی کا نام رہا ہو گا۔ دراصل وہ خدا کی قدرت سے واقف

 نہیں ورنہ جاندار پر کیا موقوف کہ اگر قدرت چاہے تو بے جان بھی اپنے احساسات کا اظہار کرنے لگیں۔ ویسے اس قدر سائنسی

 ترقی کے باوجود انسان یہ کہنے سے قاصر ہے کہ مختلف جانداروں کی ذہنی صلاحیت کیا ہوتی ہے۔ علاوہ اس کے انسان اس بات کا

 بھی اب تک مکمل طور پر اندازہ نہیں لگا پایا کہ کیا جاندار بھی وہی دیکھتے اور سنتے ہیں جو ایک انسان سنتا ہے اور ان کا دماغ کس طرح

 کام کرتا ہے۔ گذشتہ دنوں مختلف سائنسدانوں نے اپنے مسلسل تجربات کے بعد بتایا کہ پرندے باربط گفتگو کرتے ہیں اور ان کی

 زبان کو برقی لہروں میں تبدیل کر کے انسانی زبان میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے آلات کی تیاری کا کام جاری ہے

 جو برقی لہروں کی توانائی قابلِ فہم زبان کی لہروں میں بدل سکتے

ہدہدکوعموماً ہم 80 کی دہائی کے مقبول کارٹون سیریز ووڈی ووڈ پیکر کے ذریعے جانتے ہیں جس نے اسے ہر خاص و عام میں مقبول بنا دیا۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر