بُرّندہ وصیقل زدہ ، رَ وشن و برّاق!
کافر کی یہ پہچان کہ ، آفاق میں گُم ہے!
مومن کی یہ پہچان کہ ، گُم اُس میں ہیں آفاق!
Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
بُرّندہ وصیقل زدہ ، رَ وشن و برّاق!
کافر کی یہ پہچان کہ ، آفاق میں گُم ہے!
مومن کی یہ پہچان کہ ، گُم اُس میں ہیں آفاق!
یا الٰہی! ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل شہِ مشکل کشا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو
شادیِ دیدارِ حُسنِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی! گورِ تیرہ کی جب آئے سخت رات
اُن کے پیارے منھ کی صبحِ جاں فزا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب پڑے محشر میں شورِ دار و گیر
امن دینے والے پیارے پیشوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب زبانیں باہر آئیں پیاس سے
صاحبِ کوثر شہِ جود و عطا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! سرد مہری پر ہو جب خورشیدِ حشر
سیّدِ بے سایہ کے ظِلِّ لِوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! گرمیِ محشر سے جب بھڑکیں بدن
دامنِ محبوب کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! نامۂ اعمال جب کھلنے لگیں
عیب پوشِ خلق، ستّارِ خطا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں
اُن تبسّم ریز ہونٹوں کی دُعا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب حسابِ خندۂ بے جا رُلائے
چشمِ گریانِ شفیعِ مُرتجٰی کا ساتھ ہو
یا الٰہی! رنگ لائیں جب مِری بے باکیاں
اُن کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب چلوں تاریک راہِ پل صراط
آفتابِ ہاشمی نور الہُدیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب سرِ شمشیر پر چلنا پڑے
رَبِّ سَلِّمْ کہنے والے غم زُدا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جو دعائے نیک میں تجھ سے کروں
قدسیوں کے لب سے آمیں رَبَّنَا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب رؔضا خوابِ گراں سے سر اٹھائے
دولتِ بیدار عشقِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو
میثَم تمّار اَسَدی کوفی، صحابی رسول صلی علیہ وآلہ وسلم ہیں ساتھ ہی آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی اور اہلبیت رسول کے جان نثاروں میں شامل ہیں۔ سن 61 ہجری میں واقعہ کربلا کے قریب آپ کو حق گوئی کے جرم میں یزید کے کارندے ابن سعد کے حکم پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اس سے قبل آپ کو قید میں رکھا گیا جہاں آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی تاہم آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ علی علیہ السلام نے آپ کے متعلق شہادت سے کئی برس پہلے فرما دیا تھا کہ اے میثم تمھیں میری محبت میں دار پر چڑھا دیا جائے گا اور اس سے قبل تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی، اس وقت میثم نے کہا تھا کہ میری زبان بھی کاٹ دی جائے تو میں حق بات اور آپ کی محبت سے دست بردار نہیں ہوں گا۔
امام علی علیہ السلام کے نامی گرامی صحابی ہیں۔ میثم کی ابتدائی زندگی کی تفصیلات کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ہاں اتنا ملتا ہے کہ نبی پاک کو بہت پسندتھے اور ام المؤمنین ام سلمہ کے بقول، رسول اللہؐ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیرالمؤمنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے۔میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کئے۔ وہ کوفہ میں کھجور فروخت کرتے تھے۔میثم گرچہ ایک غریب کھجور فروش تھے مگر پروردگار کی عبادت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے یہی وجہ تھی کہ آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی رہے۔ بہت سی کرامات اور پیشنگوئیاں ان سے منسوب کی گئی ہیں۔ سانحہ عاشورا سے پہلے یا بعد میں انہیں ابن زیاد کے حکم پر لٹکا کر شہید کیا گیا۔میثم حاضر جواب اور شعلہ بیان اور نڈر خطیب تھے۔ جب انھوں نے بازار کوفہ کے معترضین کے نمائندے کے عنوان سے ابن زیاد کے دربار میں خطا کیا، ابن زیاد ان کی منطق، خطابت، فصاحت اور بلاغت سے حیرت زدہ ہوکر رہ گیا۔امویوں کی حکومت کے خلاف ان کے بلیغ خطبات نے انہیں حکومت کے مخالفین میں ممتاز شخصیت کے طور پر نمایاں کردیا
میثم تمّار نے کئی موضوعات میں کتب لکھی ہیں جن میں تفسیر بھی شامل ہے۔ میثَم تمّار اَسَدی کوفی، صحابی رسول صلی علیہ وآلہ وسلم ہیں ساتھ ہی آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی اور اہلبیت رسول کے جان نثاروں میں شامل ہیں۔ سن 61 ہجری میں واقعہ کربلا کے قریب آپ کو حق گوئی کے جرم میں یزید کے کارندے ابن سعد کے حکم پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اس سے قبل آپ کو قید میں رکھا گیا جہاں آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی تاہم آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ علی علیہ السلام نے آپ کے متعلق شہادت سے کئی برس پہلے فرما دیا تھا کہ اے میثم تمھیں میری محبت میں دار پر چڑھا دیا جائے گا اور اس سے قبل تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی، اس وقت میثم نے کہا تھا کہ میری زبان بھی کاٹ دی جائے تو میں حق بات اور آپ کی محبت سے دست بردار نہیں ہوں گا۔ام المؤمنین ام سلمہ فرماتی ہیں کہ، رسول اللہؐ ﷺ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیرالمؤمنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کئے۔وہ کوفہ میں کھجور فروخت کرتے تھے۔میثم گرچہ ایک غریب کھجور فروش تھے مگر پروردگار کی عبادت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے یہی وجہ تھی کہ آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی رہے۔ بہت سی کرامات اور پیشنگوئیاں ان سے منسوب کی گئی ہیں۔ سانحہ عاشورا سے پہلے یا بعد میں انہیں ابن زیاد کے حکم پر لٹکا کر شہید کیا گیا۔
میثم کو پہلے تین ائمۂ شیعہ یعنی امام علی، حسن اور حسین علیہم السلام، کے اصحاب میں گردانا گیا ہے؛ تاہم ان کی شہرت زیادہ تر حضرت علیؑ کی شاگردی کی وجہ سے ہے میثم بہت زیادہ حبدار اہل بیت رسولؑ تھےاہل بیتؑ بھی میثم کی طرف سخاص توجہ دیتے تھے۔ ام المؤمنین ام سلمہ کے بقول، رسول اللہؐ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیرالمؤمنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے۔ میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کئے۔ امامؑ ان کے ساتھ زیادہ بات چیت کرتے تھے۔ آپؑ نے میثم کو "اسرارِ وصیت" سمیت بہت سے علوم سکھائے اور انہیں غیبی امور سے آگاہ کیا اور انہیں ان "آزمائے ہوئے مؤمنین" کے گروہ میں قرار دیا جو رسول اللہؐ کے اوامر اور اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کے ادراک اور تحمل کے سلسلے میں اعلی ترین مقام و منزلت سے بہرہ ور تھے۔ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ میثم روحانی ظرف اور اہلیت کے بلند مراتب پر فائز تھے۔
علیہ السلام کے شاگرد تھےمروی ہے کہ ایک دفعہ میثم تمّار نے عبداللہ بن عباس سے مخاطب ہوکر کہا: "میں نے تنزیل قرآن امام علیؑ سے سیکھی اور امامؑ نے ہی مجھے قرآن کی تاویل سکھائی ہے"۔ چنانچہ میثم تمّار عمرہ بجا لانے کے لئے جب حجاز گئے تو ابن عباس سے کہا: "جو چاہیں تفسیر قرآن کے بارے میں مجھ سے پوچھیں"۔ ابن عباس نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور کاغذ اور دوات منگوا کر میثم کے کہے ہوئے الفاظ کو تحریر کیا۔ لیکن جب میثم نے انہیں ابن زیاد کے حکم پر اپنی شہادت کی خبر دی تو ابن عباس ان پر بےاعتماد ہوئے اور گمان کیا کہ گویا انھوں نے کہا یہ خبر صداقت پر مبنی نہیں ہے بلکہ دل سے گڑ ھ کر سنائی ہے چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ انھوں نے ان سے سن کر لکھا ہے، اس کو پھاڑ کر ضائع کرے لیکن میثم نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا اور کہا: "فی الحال ہاتھ روکے رکھیں اور انتظار کریں، اگر ان کی پیشنگوئی نے عملی صورت نہ اپنائی تو متذکرہ تحریر کو تلف کریں"۔ ابن عباس مان گئے اور کچھ ہی عرصے میں مستقبل کے بارے میں میثم تمار کی پیشینگو ئی پوری ہو گئیامام علیؑ نے میثم کو ان کی شہادت کی کیفیت، ان کے قاتل اور کھجور کے درخت پر ـ جو آپؑ نے انہیں دکھا دیا تھا ـ
اپنے آپ کو خدا کے خلاف مت کرو، کیونکہ نہ تو تم میں طاقت ہے کہ وہ اس کی ناراضگی کے خلاف اپنے آپ کو ڈھال سکے، اور نہ ہی تم اپنے آپ کو اس کی رحمت اور بخشش کے دائرے سے باہر رکھ سکتے ہو۔ معافی کے کسی عمل پر نادم نہ ہوں اور نہ ہی کسی ایسی سزا پر خوش ہوں جس سے آپ کسی کو مل سکیں۔ تحریر کنندہ علی ابن طالب
اور اس کے ساتھ فائزہ وہیں صوفے پر بیٹھ کر چائے تھرماس سے پیالیوں میں ڈالتے ہوئے کہنے لگیں ارے چھوڑو نصیر شاہ کیا یاد دلادیا ، نا تمھاری ا...