جمعرات، 9 فروری، 2023

پاور آف اٹارنی- پاکستانی عوام کے لئے یہ ایک خوشخبری ہے

 

  بیرون ملک رہنے والے پاکستانی عوام کے لئے یہ ایک خوشخبری ہے 

پاکستان کی حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ایک اور سہولت ان کی دہلیز پر پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانی بہت جلد گھر بیٹھ کر صرف 25 ڈالر فیس ادا کرکے پاور آف اٹارنی (اتھارٹی لیٹر) بنوا سکیں گے۔اردو نیوز کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان کی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور نادرا نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے پاور آف اٹارنی کا نیا نظام متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس آٹومیشن نظام کے ذریعے پاور آف اٹارنی کا نظام آن لائن اور آٹومیشن پر ہوگا اور کسی کو سفارت خانے یا سرکاری دفاتر کے چکر نہیں کاٹنا پڑیں گے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ٹیکس گوشواروں کے لیے ایف بی آر کے نئے لنک کا اجرا-صرف یہی نہیں بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کے اندر جس کو بھی اتھارٹی تفویض کر رہے ہوں گے اسے بھی کسی دفتر جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ اس نئے نظام کے تحت پاور آف اٹارنی کا پورا نظام آٹومیشن پر منتقل ہو جائے گا۔ اس طرح پاور آف اٹارنی کا دستاویزی سلسلہ ختم کر دیا جائے گا۔

اس حوالے سے وزارت خارجہ نے ضروری قانونی ترامیم کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری حاصل کر لی ہے جب کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے آٹومیشن کا نظام تیار کرنے کے لیے نادرا کو 83 اعشاریہ تین ملین روپے کی تکنیکی گرانٹ فراہم کرنے کی منظوری بھی دے دی ہے۔اردو نیوز کو دستیاب سرکاری دستاویز کے مطابق وزیر اعظم کی ہدایت پر پاور آف اٹارنی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے نادرا کو آٹومیشن کا نظام لانے کی ہدایت کی گئی۔

اس حوالے سے مشاورتی اجلاسوں میں معلوم ہوا کہ پاور آف اٹارنی کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں خاص طور پر وقت اور پیسے کا ضیاع سب سے اہم ہیں۔ اسی طرح بہت سے ممالک میں پاکستانی شہریوں کا ایک شہر سے سفر کرکے دوسرے شہر میں سفارت خانوں میں جانا پڑتا ہے جو ان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی کسی وکیل سے پاور آف اٹارنی لکھواتے ہیں۔ 

اس حوالے سے طے پایا کہ نادرا آٹومیشن ک نظام لائے گا جس پر ابتدائی کام مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ وزارت خارجہ وزارت قانون سے مشاورت کے بعد ضروری قانونی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے رولز میں ترامیم کرے گی جو کہ مکمل کر لی گئی ہیں اور اس پر مزید مشاورت بھی جاری ہے تاکہ کسی قسم کی کوئی کمی باقی نہ رہے۔اس حوالے سے معاملہ جب وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا گیا تو وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے آٹومیشن کے نظام کے غلط استعمال کو روکنے کے حوالے سے کچھ تجاویز دیں جن پر اتفاق کرتے ہوئے ان پر عمل در آمد کے حوالے سے مزید مشاورت کی ہدایت کی گئی۔ آف اٹارنی کا نیا نظام حتمی مرحلے پر پہنچنے پر نادرا اور وزارت خارجہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پائے گا جس کے تحت نادرا ایک پاور آف اٹارنی کے لیے درخواست دہندہ سے 25 ڈالر فیس وصول کرے گا۔ یہ فیس بھی آن لائن ہی نادرا کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرنا ہوگی۔

پاور آف اٹارنی کیا ہے؟پاور آف اٹارنی ایک قانونی دستاویز ہے جس کے ذریعے ایک فرد کسی دوسرے فرد کو اپنی نمائندگی کا حق دیتا ہے اور ایسا بالخصوص قانونی معاملات یا دستاویزات کی تصدیق وغیرہ کے لیے کیا جاتا ہے۔Aٹومیشن نظام کے ذریعے پاور آف اٹارنی کا نظام آن لائن اور آٹومیشن پر ہوگا۔ عموماً بیرون ملک مقیم پاکستانی کسی وکیل سے پاور آف اٹارنی لکھواتے ہیں اور سفارت خانے میں جا کر مجاز افسر کے سامنے اس پر دستخط کرتے ہیں اور پاکستان میں اس کو قانونی حیثیت دینے کے لیے سفارت خانے سے تصدیق کرواتے ہیں۔پاور آف اٹارنی بنوانے کا طریقہ کار خاصا پیچیدہ اور وقت طلب ہے۔ اس کے لیے ہر ملک میں فیس الگ اور وکیلوں کی فیسیں الگ دینا پڑتی ہیں۔

سعودی عرب میں پاور اٹارنی کی کم از کم فیس 18 ریال جبکہ زیادہ سے 136 ریال ہے۔ یورپ میں پاور آف اٹارنی کی کم از کم فیس 16 اور زیادہ سے 48 یورو، امریکہ میں 8 سے 16 ڈالر،  انڈیا میں 300 سے 600 انڈین روپے ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانی آٹومیشن نظام پاور آف اٹارنی اتھارٹی لیٹر قانون اب کس مرحلے میں ہے اس لئے آپ جس ملک میں بھی رہتے ہوں وہاں کے پاکستانی قونصلیٹ سے رابطہ کر کے معلومات لے سکتے ہیں 


بدھ، 8 فروری، 2023

آہ ! پرویز مشرّف الوداع

  ہر اچھّے شوہر کی خواہش وتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کا دل خوش کرنے لئے اس کی پسند کا تحفہ دے -چنانچہ صدر پرویز مشرف نے اپنی مسز صہبا مشرف کے لئے چک شہزاد فارم ہاوس میں ایک خوبصور ت ولا کا تحفہ دیا -تعمیر شروع ہوئ اوربرسوں کی محنت کے بعد ولا تیّار ہو گیا -لیکن مقدّرکس نے دیکھا ہے -یہ ولا اپنے مکینوں کی راہ دیکھ ہی رہا تھا کہ اجل کا فرشتہ اس محل کی چھت اڑا لے گیا-aپنے خوابوں کے محل کے تعمیراتی مراحل میں ابتداً کئی بار دونوں ایک ساتھ فارم ہاؤس جایا کرتے تھے، بعد میں پرویز مشرف کی مصروفیات کے باعث اس میں طویل وقفے آنے لگے۔ پھر ایک موقع پر جنرل صاحب نے اپنی بیگم صاحبہ سے کہا کہ ’نقشہ آپ کی مرضی سے بنا ہے اب تزئین و آرائش کی ذمہ داری آپ کی ہے اس لئے اسٹرکچر مکمل ہونے کے بعد ہی آپ کا کام شروع ہوگا‘۔

 فارم ہاؤس پر تعمیراتی کام تیزی سے جاری رہا، اس پُرتعیش فارم ہاؤس میں سوئمنگ پول، پھلوں کے باغات، بطخوں اور دیگر آبی پرندوں کے لیے پول، جاگنگ ٹریک، بیٹھنے کے لیے بینچز نصب کی گئیں، فول پروف سیکیورٹی سے لیس اس رہائش گاہ پر سواتِ اور کشمیر سے منگائی گئی قیمتی لکڑی کا کام کئی مہینوں تک ہوتا رہا۔ صہبا مشرف کے خوابوں کا ’تاج محل‘ ویران ہوگیا واضح رہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے اس گھر کے باہر ابتداً سیکورٹی نہ ہونے کے برابر تھی اور اُن کی رہائش گاہ کے باہر پولیس کا کوئی اہلکار موجود نہیں ہوتا۔ ایک رپورٹ میں مقامی پولیس نے بتایا کہ اس زیر تعمیر فارم ہاؤس میں سکیورٹی صرف اُس وقت لگائی جاتی تھی جب سابق صدر اپنے فارم ہاؤس پر آتے تھے۔ فارم ہاؤس کے اندر کچھ افراد موجود ہوتے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اہلکار ہیں۔
 جب سابق صدر پرویز مشرف کی جان کو سنگین خطرات لاحق ہوئے تو اس کے پیش نظر ان کے فارم ہائوس کے ارد گرد بم پروف دیواروں کی تعمیر بھی کی گئی ہے۔ فارم ہائوس کے اندر مشرف کے رہائشی کمروں کے گرد بوریوں میں ریت بھر کر دیوار بنائی گئی تاکہ بارود سے بھری گاڑی سے حملے کی صورت میں نقصان کو کم کیا جاسکے۔ حفاظتی انتظامات کو مزید موثر بنانے کے لیے فارم ہاؤس کے تینوں اطراف میں دیوار بنائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ سابق صدر کی ریٹائر منٹ کے بعد سے ان پر حملوں کے کئی منصوبوں کا انکشاف ہوچکا تھا۔ یاد رہے کہ 2013 میں ججز نظر بندی کیس کے دوران پرویز مشرف کے اس فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دیا گیا تھا۔ 2016 میں سنگین غداری کیس کے میں ان کا اسلام آباد کا چک شہزاد فارم ہاؤس اور ڈی ایچ اے اسلام آباد کا پلاٹ بحق سرکار ضبط کر لیا گیا تھا۔ 

بعدازاں ان کی اہلیہ صہبا مشرف نے دعویٰ کیا کہ پرویز مشرف نے یہ فارم ہاؤس انہیں تحفے میں دیا ہے۔ پرویز مشرف اور ان کی اہلیہ صہبا مشرف کے (خوابوں کا یہ فارم ہائوس) آج ویران ہوگیا، جتنی محبتوں اور چاہتوں کے ساتھ انہوں نے اپنے اس ’’تاج محل‘‘ کی تعمیر کی تھی اس میں انہیں ایک ساتھ زندگی گزارنے کا موقع نہیں ملا۔ گذشتہ برس پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے اورسیز صدر افضال صدیقی نے میڈیا کو بتایا تھا کہ سابق صدر کو ایک نادر بیماری لاحق ہے جس کا نام ایمالوئڈوسس (amyloidosis) ہے۔ یہ بیماری کتنی عام ہے اور اس کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟ ایمالوئڈوسس ایسی بیماری ہے جس میں پروٹین کے مالیکیول درست طریقے سے تہہ نہیں ہوتے اس لیے اپنا کام نہیں کر پاتے۔ اسے یوں سمجھیے جیسے کسی ورق کو آپ مختلف طریقوں سے تہہ کر کے ان سے مختلف کام لے سکتے ہیں۔ اس سے جہاز بنا کر ہوا میں اڑا سکتے ہیں یا پھر کشتی بنا کر پانی میں چھوڑ سکتے ہیں۔ کاغذ وہی ہے لیکن اس کے تہہ کرنے کے طریقے سے اس کی شکل اور کام بدل جاتا ہے۔ پروٹین کے مالیکیول بھی کچھ اسی طریقے سے کام کرتے ہیں۔ وہ صرف اسی صورت میں اپنے مختلف افعال سرانجام دے سکتے ہیں اگر وہ درست طریقے سے فولڈ ہوئے ہوں، ورنہ وہ مقررہ کام ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔یمالوئڈوسس میں بھی یہی ہوتا ہے کہ پروٹین کا مالیکیول بنتا تو درست طریقے سے ہے، لیکن فولڈنگ میں گڑبڑ ہو جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پروٹین جسم میں کرتی کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے: سب کچھ۔ مختصراً یہ کہ جسم جو بھی کام کرتا ہے، اس میں پروٹین انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں، چاہے وہ دل کا دھڑکنا ہو، پھیپھڑوں کا سانس لینا ہو، گردوں کا خون صاف کرنا، یا دماغ کا سوچنا، کوئی بھی کام پروٹین کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ایملوئیڈوسز بیماری کیا ہے؟ بہت کم افراد کو متاثر کرنے والی ’Amyloidosis‘ ایک نایاب بیماری ہے جس میں پورے جسم کے اعضاء دل، دماغ، گردے، تلی اور جسم کے دیگر حصوں کے سیلز میں ’ایملوئیڈ‘ (amyloid) نامی غیر معمولی پروٹین جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس پروٹین کی غیر معمولی افزائش کے نتیجے میں متاثرہ شخص کے اعضاء کی کارکردگی ناصرف متاثر ہوتی ہے بلکہ مریض ہلنے جلنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ بیماری مریض میں اعضاء کے ناکارہ ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ واضح رہے کہ 2018ء میں پرویز مشرف میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی تھی جس پر ڈاکڑوں نے اُن کی حالت تشویش ناک قرار دی تھی۔ ایملوئیڈوسز بیماری کے لاحق ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟ جانس ہاپکنز میڈیسن کے مطابق اس بیماری کے لاحق ہونے کی وجوہات تاحال دریافت نہیں کی جا سکی ہیں 

 بعض ماہرین کی جانب سے جین میں تبدیلی کو اس بیماری کا وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ ایملوئیڈوسز بیماری کی اقسام املوئیڈوسز بیماری کی کئی اقسام ہیں۔ لائٹ چین (AL) Amyloidosis، اس قسم میں سر، دل، گردے، تلی اور جسم کے دیگر اعضاء متاثر ہوتے ہیں، یہ قسم زیادہ تر ہڈیوں کےدرد میں مبتلا افراد کو متاثر کرتی ہے۔AAAmyloidosis، اس قسم میں مریض کے جسم کے مختلف اعضاء میں مخصوص پروٹین ’ایملوئیڈ‘ کی غیر معمولی افزائش ہونے لگتی ہے جس کے نتیجے میں یہ ایملوئیڈوسز بیماری کی اس قسم میں مبتلا مریض کے 80 فیصد گردے

منگل، 7 فروری، 2023

یو گی کے استھان سے من مندر کے استھان تک-افسانہ

 

 

وہ بہت چھوٹی سی تھی جب سے سوچنا  شروع کیا تھا پوجا پاٹ کے لئے چھوٹے بچّے بچّیاں اپنی ماوں کی انگیا ں تھامے ہوئے مندر آتے جاتے ہیں اور پھر اس کے ننھّے سے زہن نے اپنے آپ سے سوال کیا تھا میرے لئے وہ ہاتھ کہاں ہیں میں جس کی انگلی تھام کر مندر کی سیڑھیا ں چڑھتی اور اترتی مندر کا پجاری اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا پھر بھی اس نے ایک دن جا کر اس سے سوال کر ہی لیا تھا  پجاری جی میری ماتا میرے پتا کون تھے ؟ پھر پجاری نے اسے بتا یا تھا کہ  اُس کو اس کی ماں نے اپنی کوئ منّت پوری کرنے پر دان میں دیا تھا پر تیری ماتا پھر لوٹ کر کبھی بھی مندر نہیں آئ اور دیوداسی نے اپنا سر جھکا لیا تھا - مندر کے  بوڑھے پجاری  کے چرنوں میں بیٹھی اس کی  جوانی جب جوبن پر آئ  تب پجاری  کو اس کی ضرورت نہیں رہی تھی لیکن پھر بھی وہ اسی کے چرنوں میں ہی  بیٹھی  ہوئ تھی  -

-پجاری  بوڑھا ہو گیا تھا   اور تب بھی اس نے اس سے ایک بار بھی نہیں کہا تھا کہ وہ کہیں جا کر باہر کی دنیا دیکھ آئے  - لیکن ایک روز ایک اجنبی اس کے من مندر میں آ پہنچا  اس نے پجاری کو بتایا  تو پجاری اس کو  اپنے جھرّیوں بھرے  چہرے میں دھنسی  ہوئ  آنکھوں سےدیکھتے ہوئے   پہلے تو  ایک دم  آگ بگولہ سا گرم ہو اٹھا  پھر نا جانے کیا سوچ کر ایک دم ہی سنبھل کر  بولا  دیکھ   دیوداسی میں تجھ کو منع نہیں کروں گا -چل تو خود دیکھ لے  ،،یہاں تو تُو اپنے  من کے رشتے سے رہتی ہے ،،وہاں تو تن کے رشتے سے رہے گی ،،لیکن پجاری جی  وہ مجھ سے بہت محبّت کرتا ہے ،،ہاں میں کب کہ رہا ہوں  کہ وہ محبّت نہیں کرتا ہے ،،اچھّا جا اب  آزما لے پھر آ جایئو ، پھر اسی شام ڈھلے مندر کی بتّیاں جلنے کے بعد وہ اسے لینے آ گیا 

دیکھ دیوداسی یہ میرے دوست کا گھر ہے وہ بدیس گیا ہوا جب آئے گا تب ہم اپنا ڈیرہ کہیں اور جما لیں گے- پھر اس نے من مندر کے دیوتا کے لیئے  اپنی سیج سجا لی اور ایک  گھر آنگن کا خیالی تصّوراپنے دل میں بسا کربیٹھ  گئ،،وہ حسبِ وعدہ  ہر رات آنے لگا  وہ  شادی شدہ تھا اس لئے دن کے اجالے میں نہیں آسکتا تھا  بس رات ہی اس کے لئے  موزوں تھی اس لئے وہ ہر رات بلا دھڑک آتا تھا  -لیکن یہ رات اور راتوں سے زرا مختلف رات تھی  اس رات وہ بہت سخت بیمار تھی  اورتیز بخار میں پھنک رہی تھی لیکن اس کی نظریں  ہر پل دروازے کی جانب دیکھ رہی تھیں کہ اب وہ آ ئے گا  اور پھر ہر رات کی طرح آج کی رات بھی وہ آگیا تھا لیکن آ ج کی رات   اُس آنے والے کے لئے  بے قیمت  تھی کیونکہ آنے والے کو ایک خوف لاحق تھا 'کوئ مخبر اس کی خبر اُس کی گھر والی تک پہنچا سکتا تھا جس کے بدلے میں اس کا آنگن  ویران ہو جاتا ،اس لئے اس نے آکراسے دیکھا اور چپ چاپ اس کی چارپائ پر زرا سا ٹک کر کہنے لگا دیوداسی میرے گھر میں تیرے کارن طوفان آ گیا ہے میری گھر والی نے اپنے میکہ کا جرگہ بلا نے کی دھمکی دی ہے اب تُو صبح پَو پھٹنے پر مندر چلی جا ایسا نا ہو کہ کوئ تیری سن گن لینے یہاں آ جائے پھر وہ الٹے  قدموں سے واپس لوٹ گیا  ،،

 بخار کی حدّت میں وہ پوری طرح ہوش میں نہیں تھی پھر بھی اس نے اپنے دل میں ایک موہوم سی خواہش  جاگتی  محسوس کی تھی کہ آنے والا اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بہت آہستہ سے پوچھے  گا  کہ کیا ہوا؟لیکن آنے والا تو کب کا جا چکا تھا  اس کے دل کے کواڑباقی تمام رات اذیّت سے بجتے رہے  اور لمبی کالی وہ ایک  رات اس کے  دل کی تنہائیوں میں  سسکتی ہوئ  دھیرے دھیرے کھسکتی  رہی  صبح دم وہ اس قابل تو نہیں تھی لیکن اپنے آ پ کو زبردستی اٹھا کر  یوگی کے استھان پر جا پہنچی  ابھی تو مندر  کے سنہرے کلس پر دھوپ کی پہلی کرن پر بھی نہیں پڑی تھی ،کلس  ابھی اجلا نہیں میلا نظر آرہا  تھا اور کلس کی مانند اس کا دل بھی میلا تھا ،  مندر کی سیڑھیوں پر اس نے پہلا قدم رکھّا ہی تھا کا مندر کی گھنٹیاں گھونگھر بجانے لگیں اور  سیڑھیا ں چڑھتے ہی  مندر  کے پجاری  نے اس کو دیکھا جو گھنٹیا ں بجا کر ہٹ رہا تھا  اس   کی بھی پہلی نظر پجاری پر پڑی اور  پھر اس نے  ہولے ہولے آگے بڑھتے ہوئے  بلکل مریل آواز میں پجاری کے قدموں میں جھک  کراسے پرنا م کیا  جو اس کو آتا دیکھ کر وہیں ٹھٹھک کر  کھڑا ہو گیا تھا  وہ سیدھی ہوئ  ،تو پجاری نے کہا  بول دیو داسی  کیا ہوا ،وہ کچھ نہیں بول سکی  کیونکہ آنسو اس کے دل  سے نکل کر گلے میں اٹک گئے تھے   پجاری نے اپنی بوڑھی گردن کو ایک  جانب ہلکا سا جھٹکا دیا   اور معنی خیز لہجے میں بولا جان گیا 'کیا ہوا ،،ہرجائ نہیں  آیا 

پجاری کی بات کا جواب دینے کے بجائے وہ مندر کے فرش پر پاؤں پسار کر بیٹھ گئ  اور پجاری سے روتے ہوئے کہنے لگی-پجاری جی  مجھے بتاؤ کیا دنیا کی ہر عورت اتنی بے قیمت ہوتی ہے  جتنی مندر کی دیوداسیاں ہوتی ہیں اور پھر اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور آنسووں کی قطاریں اس کے چہرے کو بھگونے لگیں -ہاں مرد کی زات ایسی ہوتی ہےبوڑھے  پجاری نے اپنی جہاںدیدہ  نظروں سے آسمان کو دیکھتے ہوئے  کہا  ،،،،دیکھ  دیوداسی   میں نے پہلے بھی تجھے سمجھایا تھا  کہ تو بھو گی سنسار کے  ان  ظالم جھمیلوں میں   نا جا -پر تو مانی ہی نہیں  ،،، خیر  ابھی بھی  خیر ہے ---،  تو جا  تیرا  مسکن سونا ہے جا کر اسے آباد کر ،،میں جانتا تھا   یہی ہونا تھا ،،پجاری بڑبڑاتا ہوا وہاں سے ہٹ کر  چلا گیا اور دیو داسی اپنی ساری کے پلّو سے اپنے آنسوؤں  کو صاف کرتے ہوئے مندر کے سونے مسکن میں  واپس چلی گئ  - اب اُس کی سمجھ میں آگیا تھا کہ دیو داسیاں صرف استھانوں پر دان کے لئے ہوتی ہیں اُن کے من کے استھان میں کوئ سچّا پریمی بسیرا کرنے نہیں آتا ہے  

افسانہ نگار زائرہ عابدی

 

 

پیر، 6 فروری، 2023

ترکی اور شام میں 7.8 شدت کا بھیانک زلزلہ

ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں پیر کو آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے سے ترکی اور شام میں 529 سے زائد اموات ہوئیں اور سینکڑوں افراد زخمی ہیں۔ متعدد عمارتیں تباہ ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہےفرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے ترکی کے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ترکی میں تاحال 284 اموات اورپانچ سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ترک شہرمالتیا کے گورنر کا کہنا ہے کہ زلزلے سے 140 عمارتیں منہدم ہوگئیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے شام کے سرکاری میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زلزلے سے ملک میں 245 اموات اور چھ سو سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سرچ آپریشن ابھی جاری ہے۔ 
 
 شام کے شمال مشرقی شہر افرین میں زلزلے سے تباہ حال عمارت کا ملبہ ہٹانے کی کوشش جاری ہے (اے ایف پی) امریکی جیولوجیکل سروے کا کہنا ہے کہ پیر کو جنوب مشرقی ترکی میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، جن کی شدت 7.8 تھی۔ اس زلزلے سے کئی شہروں میں عمارتیں منہدم ہوگئیں اور ہمسایہ ملک شام میں بھی نقصان ہوا۔امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلہ مقامی وقت کے مطابق صبح 4 بج کر 17 منٹ پر 17.9 کلومیٹر کی گہرائی میں آیا جبکہ 15 منٹ بعد 6.7 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ترک ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امدادی کارکن کاہرمانماراس اور غازی انتیپ شہر میں زمین بوس عمارتوں کا ملبہ ہٹا رہے ہیں۔ 
  
 ترک صدر رجب طیب اردوان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا، ’میں زلزلے سے متاثر ہونے والے تمام شہریوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ہم امید کرتے ہیں کہ ہم جلد از جلد اور کم سے کم نقصان کے ساتھ مل کر اس آفت سے نکل جائیں گے۔‘

شام کے صدر بشار الاسد نے زلزلے کے بعد صبح ہنگامی اجلاس بلایا ہے تاکہ امدادی سرگرمیوں کی سمت کا تعین کیا جائے۔شام کے فلاحی ادارے وائٹ ہیلمٹس کا کہنا ہے کہ شمال مغربی شام میں متعدد عمارتیں زمین بوس ہونے بعد ان کی ٹیمیں لاشوں اورزخمیوں کو ریسکیو کر رہی ہیں -اور ابتدائ طبّی امداد بھی فراہم کر رہی ہیں 
ترکی میں گذشتہ 80 سال کا سب سے بڑا زلزلہ
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترکی اور شام میں حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ ہےترک سرحد کے قریب باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھی کام کرتی ہیں) متاثرین کو مدد فراہم کر رہی ہیں۔

شام میں کئی سال تک جاری جنگ، سست رفتار تعمیر نو اور دمشق میں قائم مرکزی حکومت پر سخت عالمی پابندیوں کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔دونوں ملکوں میں مجموعی طور پر 500 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں یہ ممکنہ طور پر ترکی کا سب سے بڑا زلزلہ ہے جس کے بعد 40 سے زیادہ جھٹکے بھی محسوس کیے گئے ہیں -زلزلے کے مقام کے قریب شامی پناہ گزین کی بڑی تعداد مقیم ہے۔ ترکی نے عالمی سطح پر سب سے زیادہ شامی پناہ گزین کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد 37 لاکھ ہے
کئی لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جبکہ خراب موسم کی وجہ سے بھی امدادی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں برطانیہ میں قائم سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شام بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 320 تک جا پہنچی ہےاور لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے اورچارں جانب آہ بکا کا سماں ہے

 زلزلے کے وقت سے لگتا ہے کہ زیادہ تر لوگ ابھی گھروں میں سو رہے تھے، جس سے ممکنہ ہلاکتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ کچھ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ برف میں پاجامہ پہنے کھڑے، تباہ شدہ گھروں کے ملبے کو ہٹانے والے امدادی کارکنوں کو دیکھ رہے ہیں۔ این ٹی وی ٹیلی ویژن کا کہنا ہے کہ ترکی کے شہر ادیمان اور مالتیہ شہروں میں بھی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔سی این این ترک ٹیلی ویژن کے مطابق زلزلے کے جھٹکے وسطی ترکی اور دارالحکومت انقرہ کے کچھ حصوں میں بھی محسوس کیے گئے۔ ’سب سے بڑا زلزلہ‘ اے ایف پی کے نامہ نگاروں کے مطابق اس زلزلے کے جھٹکے لبنان، شام اور قبرص میں بھی محسوس کیے گئے۔’ہمیں آدھی رات کو جگا دیا‘شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اطلاع دی ہے کہ شام کے مغربی ساحل پر لاذقیہ کے قریب ایک عمارت منہدم ہو گئی ہے۔حکومت کے حامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ وسطی شام کے شہر حما میں متعدد عمارتیں جزوی طور پر منہدم ہو گئیں اور شہری دفاع اور فائر فائٹرز ملبے سے زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ شام کے قومی زلزلہ مرکز کے سربراہ راید احمد نے حکومت کے حامی ریڈیو کو بتایا کہ یہ تاریخی طور پر مرکز کی تاریخ میں ریکارڈ کیا جانے والا سب سے بڑا زلزلہ تھا

۔ترکی کا شمار دنیا کے ایسے علاقوں میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ ترکی کے صوبہ دوزسے میں 1999 کے اندر 7.4 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ اس زلزلے میں17 ہزار سے زیادہ اموات ہوئی تھیں، جن میں سے تقریبا ایک ہزار اموات استنبول میں ہوئیں۔جنوری 2020 میں ایلازگ میں 6.8 شدت کا زلزلہ آیا، جس میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی برس اکتوبر میں بحیرہ ایجین میں 7.0 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں 114 اموات اور ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ماہرین نے طویل عرصے سے متنبہ کر رکھا ہے کہ ایک بڑا زلزلہ استنبول کو تباہ کر سکتا ہے، جس نے حفاظتی احتیاطی تدابیر کے بغیر بڑی عمارتوں کی اجازت دے رکھی ہے۔

اتوار، 5 فروری، 2023

ڈاکٹر عبد القدیر خان کی خوش رنگ زاتی زندگی



ڈاکٹر عبد القد یر خان کی زاتی زندگی کیسی تھی?-تو میری اسٹڈی کے مطابق وہ ایک خوش مزاج انسان تھے -اور اس طرح ان کی زاتی زندگی بھی خوش رنگ تھی--آج انٹر نیٹ کے مطالعہ کے دوران اپنے وطن عزیز کے اور پاکستانی قوم کے محسن ڈاکٹر عبد القدیر کے لئے ان کے کسی پرستار کی جانب سے لکھا ہوا ایک مضنون نظر سے گزرا -میں کوشش کے با وجود صاحب مضمون کا نام نہیں معلوم کر سکی جس کے لئے معذرت خواہ ہوں

- یہ مضمون ڈاکٹر صاحب کی زاتی زندگی کے پہلوں پر روشنی ڈال رہا ہے یقیناً آپ کو بھی پسند آئے گا مجھے بڑے لوگوں کے کارناموں سے زیادہ ان کی شخصیت پر غور کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ کارنامے ساری دنیا دیکھتی ہے لیکن شخصیت کسی کسی پر ظاہرہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے لئے جو کارنامہ انجام دیا وہ سب کے سامنے ہے کیونکہ ہمارا میڈیا کارناموں ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ اگر ہمارا میڈیا بڑے لوگوں کی شخصیت کے مخفی پہلوؤں پر روشنی ڈالے تو ناخدائوں کی خدائی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ انہیں اپنا قد چھوٹا محسوس ہونے لگتا ہے۔

 انہیں لگتا ہے کہ کل یہی شخص ان کی جگہ لے لے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جونہی کسی شخصیت پر قوم کا اتفاق ہونے لگتا ہے، وہیں اسے متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔ ہمارے محسن، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ہمارے ہاں عام سے وزراء کا پروٹوکول دیکھ کر عام لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ 
ڈاکٹر صاحب کا پروٹوکول یہ تھا کہ انہیں دیکھ کر شہری احتراماً کھڑے ہو جاتے تھے۔ ان سے ہاتھ ملاتے اور نہیں تو نظریں ملا کر ہی خوش ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ان سائنس دانوں میں سے نہیں تھے جو دو جمع دو چار پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو سکوت لالہ و گل سے کلام کرتے ہیں۔ شعر و سخن ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ ان کے کالموں میں کلاسیکی شاعروں کے ساتھ ساتھ جدید شاعروں کے اشعار پڑھنے کو ملتے تھے۔ غالب، مومن، مصحفی، جگر، جوش، اقبال، مجاز، اختر شیرانی، فیض، عدم اور فراز کی شاعری کے وہ رسیا تھے۔ وہ چونکہ سخن شناس تھے اس لئے کسی ایک شاعر کی شاعری کے اسیر ہو کر نہیں رہے۔ کہتے تھے کہ ہر شاعر کی دو چار غزلیں یا نظمیں ایسی ضرور ہوتی ہیں جو مجھے پسند آتی ہیں۔ سائنس کے بیش تر لوگ، کسی شاعر کا شعر لکھتے ہوئے ناانصافی کر جاتے ہیں۔ لفظوں کو یوں آگے پیچھے کرتے ہیں کہ آسودئہ خاک شاعر کی روح تڑپنے لگتی ہے لیکن ہمارے ڈاکٹر صاحب نے شاعروں کی روحوں کو کبھی نہیں تڑپایا۔ 

مجھے ان کے گھر جانے کا موقع نہیں ملا لیکن جو احباب ان کے در دولت پر جاتے رہتے تھے، وہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے اردگرد ہر وقت شاعری کی کتابیں دھری رہتی تھیں۔ سوانح عمریاں وہ شوق سے پڑھتے تھے۔ لوگ انہیں اپنی کتابیں تحفتاً بھیجتے تو ان کی باقاعدہ رسید دیتے۔ کبھی کالم میں تبصرہ کرکے، کبھی خط لکھ کر، ایک بار وہ لاہور کے فائیواسٹار ہوٹل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں آئے تولوگوں کا حصار توڑ کر میں اسٹیج پر ڈاکٹر صاحب کے پاس جا پہنچا اور اپنا لکھا ہوا عمرے کا سفرنامہ ’’پہلی پیشی‘‘ انہیں پیش کر دیا۔ جب ساری تقریریں ہو گئیں تو ڈاکٹر صاحب کی باری آئی۔ انہوں نے میری کتاب کی رسید وہیں دے دی۔ وہ کتاب کی ورق گردانی کر چکے تھے۔

 سو تحسینی کلمات کہنے میں دیر نہ لگائی۔ کتابیں ان کی تنہائی کی دوست تھیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص شاعری کا ذوق رکھتا ہو، موسیقی سے دور رہے؟ ڈاکٹر صاحب اقبال بانو، منی بیگم، عابدہ پروین، ملکہ پکھراج اور غلام علی جیسے گلوکاروں کے عاشق تھے۔ حسرت موہانی کی غزل جو غلام علی نے گائی تھی، ڈاکٹر صاحب کی پسندیدہ غزل تھی۔ کیوں نہ ہوتی؟ ڈاکٹر صاحب بھی تو برسوں سے چپکے چپکے رات دن آنسو بہاتے رہے تھے۔ 28 مئی 1998کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی دھماکے کر دیئے تو ڈاکٹر صاحب کی نیک نامی اور شہرت کا گراف یک دم بلندیوں کو چھونے لگا۔ غیر کیاہمارے کچھ اپنوں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ طعنہ زنی ہوئی،الزام لگے۔ ڈاکٹر صاحب بجا طور پر سمجھتے تھے کہ ایٹمی توانائی کو استعمال کرکے ملک کو اندھیروں سے نکالا جا سکتا ہے 

لیکن وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ دروغ گو حکمرانوں کی موجودگی میں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ان کے اندر ایک غصہ پایا جاتا تھا۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ کیا آپ پاکستانی قوم سے ناراض ہیں؟ وہ کہتے کہ میں احسان فراموش اور نمک حرام لوگوں سے ناراض ہوں۔ عام پاکستانیوں سے مجھے پیار ہے۔ وہ بھی مجھے پیار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے دل میں ہمیشہ یہ پچھتاوا رہا کہ سائنس کی طرف آنے کی بجائے وہ پروفیسر کیوں نہ بن گئے؟ کتابیں پڑھتے، کتابیں لکھتے، مزے کی زندگی گزارتے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب! آپ اگرپروفیسر بن جاتے تو میں آپ کے بارے میں یہ تحریر شاید کبھی نہ لکھتا۔ پروفیسر تو ہزاروں ہیں لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ہی ہے۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب کیلئے دو تازہ شعر؎ اک آہنی انسان بنایا تھا خدا نے آیا تھا ہمیں جرم ضعیفی سے بچانے دشمن کی نگاہوں سے وطن آج ہے محفوظ محسن تھا ہمارا، کوئی مانے کہ نہ مانے

آخر میں ڈاکٹر صاحب کیلئے دو تازہ شعر؎

اک آہنی انسان بنایا تھا خدا نے

آیا تھا ہمیں جرم ضعیفی سے بچانے

دشمن کی نگاہوں سے وطن آج ہے محفوظ

محسن تھا ہمارا، کوئی مانے کہ نہ مانے

ہفتہ، 4 فروری، 2023

جشن ولادت مولا علی علیہ السّلام

 جشن ولادت مولا علی علیہ السّلام

رجب المرجّب کی 13 جشن ولادت مولا علی علیہ السّلام  تاریخ کے آتے ہی  مولود کعبہ، جانشین پیغمبر، فاتح خیبر و خندق، مولائے متقیان، مولی الموحدین- امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں جشن و محافل کا سلسلہ جاری ہو جاتا  ہے۔اور عالم اسلام میں کیوں نا جشن منایا جائے کہ اس تاریخ کو ان کے جلیل القدر پیشوا کی خانہ ء خدا میں آمد دن ہے-

تمام عالم اسلام کوجشن ولادت باسعادت مولود کعبہ، فاتح خیبر، امام المتقین، شیر خدا، ولی خدا، نائب رسول، جانشین رسول ص، فرزند ابوطالب ع، وارث الانبیاء، اسداللہ یداللہ، عین اللہ، وصی رسول، مشکل کشاء، حیدر کرار، ابوتراب، مظھرالعجائب، ، امام ال اولیاء، لساناللہ، ، نفس رسول ص، فاروق اعظم، صدیق اکبر، ابو الائماء، علی المرتضی مولاء کائنات امام علی علیہ السلام مبارک

دنیا میں یہ مقام اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت ابوطالب کے لعل حضرت علی علیہ السلام کو عطا کیا ہے کہ 13 رجب کے دن آپ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی جبکہ 21 رمضان کو شہادت بھی خانہ خدا مسجد کوفہ میں ہوئی اور یوں ولادت سے شہادت تک علی علیہ السلام  کا ہر لمحہ رضائے الٰہی اور خوشنودی پروردگار کے لئے بسر ہوا۔پیغمبر اسلام   صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے آپ کا نام علی رکھا،حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔

آپ کے مشہور القاب امیر المومنین، مرتضی، اسداللہ،یداللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں حضرت علی علیہ السّلام کی مشہور کنیت ابوالحسن و ابو تراب ہیں۔آپ کے سلسلہ میں بہت زیادہ فضائل نقل ہوئے ہیں؛ آنحضرت نے دعوت ذوالعشیرہ میں آپ کو اپنا وصی و جانشین معین کیا۔ شب ہجرت جب قریش رسول خدا کو قتل کرنا چاہتے تھے، آپ نے ان کے بستر پر سو کر ان کی جان بچائی۔ اس طرح حضورؐ نے مخفیانہ طریقہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ میں جب مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم ہوا تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ شیعہ و سنی مفسرین کے مطابق قرآن مجید کی تقریبا 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔ جن میں سے آیہ مباہلہ و آیہ تطہیر و بعض دیگر آیات آپ کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔

آپ جنگ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شریک تھے۔ جنگ تبوک میں رسول اللہؐ نے مدینے میں آپ کو اپنے جانشین کے طور پر مقرر کیا۔ آپ نے جنگ بدر میں بہت سے مشرکین کو قتل کیا۔ جنگ احد میں آنحضرت کی جان کی حفاظت کی۔ جنگ خندق میں عمرو بن عبدود کو قتل کرکے جنگ کا خاتمہ کر دیا اور جنگ خیبر میں در خیبر کو اکھاڑ کر جنگ فتح کر لی۔

رسول خدا نے اپنے آخری حج سے واپسی پر آیہ تبلیغ کے حکم خدا کے مطابق، غدیر خم کے مقام پر لوگوں کو جمع کیا۔ خطبہ غدیر پڑھنے کے بعد حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کیا اور فرمایا؛ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں۔ خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے، اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔ اس خطبے کے بعد صحابہ میں سے بعض جیسے عمر بن خطاب نے آپ کو مبارک باد پیش کی اور امیرالمومنین کے لقب سے خطاب کیا۔ شیعہ و بعض اہل سنت مفسرین کے مطابق، آیہ اکمال اسی دن نازل ہوئی ہے۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق، من کنت مولاہ فعلی مولاہ کی روز غدیر کی تعبیر، جانشین معین کرنے کے معنی ہے۔ اسی بنیاد پر شیعہ دوسرے فرق کے مقابل اپنا امتیاز آنحضرت کی جانشینی کے لئے حضرت علی کے اللہ تعالی کی طرف سے منتخب ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اہل سنت اسے عوامی انتخاب مانتے ہیں۔

حضرت  علی علیہ السلام ھاشمی خاندان کے وه پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور والده دونوں ہاشمی ہیں،جواں مردی، دلیری، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت  علی علیہ السلام کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ پیغمبر اکرم ا۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پنی زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سے مدینے کی طرف پلٹ رہے تھے،جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین آیہ بلغ لیکر نازل ہوئے،پیغمبر اسلام ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے قافلے کو ٹہرنے کا حکم دیا،پیغمبر اکرم  ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور حضرت علی علیہ السلام  کے ہاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا،” ایھا الناس ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں“،رسول اللہ  ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی۔

حضرت علی علیہ السّلام کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول خدا ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے،کبھی یہ کہتے تھے کہ “علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں”۔ کبھی یہ کہا کہ “میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے”۔ کبھی یہ کہا “آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے”۔ کبھی یہ کہا “علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی”۔ کبھی یہ کہ “وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں”یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا،عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے،سب کے دروازے بند ہوئے تو علی علیہ السّلام کا دروازہ کھلا رکھا گیا،

جب مہاجرین و انصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے اپنا بھائی قرار دیا۔سن ۳۵ ہجری قمری میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کا منصب حضرت علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا تو پہلے تو آپ نے انکار کردیا،لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھا تو آپ نے اس شرط سے منظور کرلیا کہ میں قرآن اور سنت پیغمبر  ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رعایت سے کام نہ لوں گا،جب مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کرلیا تو آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی

کراچی اپنے ماضی کے جھروکوں سے

کراچی اپنے  ماضی کے جھروکے سے- شہر کے بیشتر پرانے لوگوں کو اس چیز کا علم ہوگا کہ یہاں کبھی سڑکوں پر ٹن ٹن کرتی ٹرام دوڑا کرتی تھیں جو ٹرانسپورٹ کا انتہائی اہم ذریعہ تھیں-قیام پاکستان کے بعد لوگوں کا اندرون ملک سفر کا بڑا ذریعہ ریل گاڑی تھی لیکن اندرون شہر کے لئے آمد و رفت کا اہم ذریعہ ٹرام ہوا کرتی تھی گو کہ اس وقت مالی اعتبار سے مضبوط افراد کے پاس ہی گاڑیاں ہوا کرتی تھیں لیکن عام شہری تانگوں یا ٹرام میں ہی سفر کیا کرتے تھے۔ جن راستوں سے دن میں کم از کم ایک بار ہمارا گزر ہوتا ہے وہاں کبھی ٹرام بھی چلا کرتی تھی لیکن آج اس کی باقیات کا بھی کوئی وجود نہیں لیکن وہ سڑکیں آج نئے ناموں سے جانتے ہیں - 

 ٹرام ایک چھوٹی ریل گاڑی نما سفری گاڑی تھی جو پٹڑیوں پر چلتی تھی جس میں 60 سے 70 افراد کی بیک وقت بیٹھنے کی گنجائش تھی اور مسافروں کے بیٹھنے کے لئے چاروں اطراف سیٹیں تھیں جب کہ درمیان میں مسافروں کے کھڑے ہونے کی جگہ۔ ٹرام میں کوئی شیشے نہیں بلکہ صرف ایک چھت اور کھڑکیوں کی جگہ بڑ ے بڑے ہوادان ہوتے تھے جو ہنگامی صورت میں ایگزٹ ڈور کا بھی کام دیتے تھے، اگر یوں کہا جائے کہ ٹرام اپنے زمانے کی جدید مسافر گاڑی تھی تو یہ غلط نہ ہوگا۔ آج کراچی آبادی اور رقبے کے اعتبار سے پھیل چکا ہے لیکن آج سے 50 سال قبل کراچی کے نقشے پر اولڈ سٹی ایریا ہی تھا اور یہیں ٹرام چلا کرتی تھی۔ 

بندر روڈ جسے آج ایم اے جناح روڈ کہا جاتا ہے یہاں ٹرام کا ایک طویل ٹریک تھا جو گرو مندر سے شروع ہوکر ٹاور پر ختم ہوتا تھا اور اسی ٹریک سے مزید دو ٹریک نکلتے تھے ایک کیپری سینما سے سولجر بازار کو جاتا تھااور وہاں سے سیدھا گرومندر اور اسی طرح ایک ٹریک کینٹ اسٹیشن سے سیدھا بندر روڈ پر آکر ملتا تھا۔ ایم اے جناح روڈ کے عین وسط میں جہاں آج دونوں سڑکوں کو تقسیم کرنے کے لئے ڈیوائڈر بناہے وہیں ٹرام کی پٹڑیاں بچھی تھیں اسی طرح کینٹ اسٹیشن سے ایمپریس مارکیٹ اور وہاں سے سیدھا ایم اے جناح روڈ تک سڑک کے بیچ و بیچ پٹڑیاں آتی تھیں۔ کراچی کےبزرگ شہری ٹرام کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ٹرام اپنے زمانے کی تیز ترین اور پرکشش سواری ہوا کرتی تھی جو شہر کے مرکز میں چلا کرتی تھی اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا کا کوئی اسٹاپ نہیں ہوتا تھا اس لئے مسافر چلتی ٹرام پر چڑھا کرتے، جس طرح آج اگر آپ کسی مسافر بس ڈبلیو گیارہ، یا جی سترہ میں سفر کریں تو ان میں بھی مسافروں کو اکثر چلتی بس سے اترنا پڑتا ہے ایسا ہی کچھ ٹرام میں بھی تھا۔

 مشتاق سہیل کے مطابق جب کبھی ہمیں تغلق ہاؤس سے ٹاور جانا ہوتا تو تبت سینٹر تک پیدل چلا کرتے اور وہاں ٹرام کا انتظار کرتے اور پھر 10 سے 15 منٹ میں ٹاور پہنچ جایا کرتے تھے، ٹرام میں سفر کرنے کے کچھ اصول تھے کہ آپ کو بھاری بھرکم سامان لے جانے کی ہرگز اجازت نہیں تھی ہاں اگر ایک آدھ بیگ ہو جسے گود میں ہی رکھ لیا جائے تو اسکی اجازت تھی۔ ٹرام کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں ڈرائیور کے لئے کوئی الگ سے ڈرائیونگ سیٹ نہیں تھی اور وہ بالکل اگلے حصے میں کھڑا ہوکر ایک ہاتھ سے گھنٹی بجاتا رہتا اور دوسرے ہاتھ سے پٹڑی پر چلنے والے لوگوں کو ہٹنے کا اشارہ کرتا رہتا اور دن بھر یہی سلسلہ جاری رہتا تھا۔ 1975 تک جب تک ٹرام چلتی رہی اس کا کرایہ دس پیسے تھا اگر آپ کو گرومندر سے ٹاور جانا ہو یا کینٹ اسٹیشن سے ٹاور یا صدر آنا ہو تو اس کا کرایہ دس پیسے ہی تھا اور اس زمانے میں چونکہ کوچز اور بسیں نہیں تھیں تو اکثر لوگ ٹرام سے ہی سفر کیا کرتے تھے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں کراچی مختصر اور بہت پرامن شہر ہوا کرتا تھا جو اولڈ سٹی ایریا اور لالو کھیت دس نمبر تک ہی محیط تھا، سوک سینٹر کے قریب قریب اور پیرکالونی سے آگے کچھ نہیں تھا اور اس وقت بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ شہر سے 12 میل پرے ہے کیکل بیلی بستی یونیورسٹی اور یونیورسٹی جانے کے لئے 40 فٹ کی کچی سڑک تھی جس پر نہ لائٹ تھی اور نہ ہی اسے پکا کیا گیا تھا اور آج جہاں سوئی گیس کا دفتر ہے وہاں لائٹ ہوا کرتی تھی لیکن قریبی علاقے ویران تھے جب کہ طالبعلم عموماً تانگوں پر یونیورسٹی جایا کرتے تھے۔ 60

 کی دہائی میں اہم سڑکوں پر ٹرام کے علاوہ ڈبل ڈیکر، بھگیاں اور تانگے چلا کرتے تھے اور انتہائی محدود تعداد میں چند ایک بسیں بھی تھیں اور وہ یہی خستہ حال ون ڈی، فور ایل وغیرہ بسیں تھیں جو آج بھی مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جارہی ہیں جو اسی دور کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ عام طور پر بھگیاں اور تانگے بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) سے سولجر بازار سے قائداعظم کے مزارسے ہوتے ہوئے خداداد کالونی اور لائنز ایریا میں چلتے تھے اور لائنز ایریا میں سینٹ پیٹرکس اسکول سے چند قدم کے فاصلے پر اس وقت بھی گھوڑوں کا اصطبل موجود ہے جو اسی دور کی یادگار ہے۔ مشتاق سہیل نے ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ اس زمانے میں کراچی کی سڑکیں دھلا کرتی تھیں جن راستوں پر تانگے اور بھگیاں چلا کرتی تھیں وہاں صبح سویرے پانی سے بھرے ٹینکر آتے اور پھر بڑے بڑے پائیپوں کے ذریعے سڑکوں کی دھلائی کا کام علی الصبح مکمل کرلیا جاتا جس کے بعد سورج نکلنے تک جمع شدہ پانی خشک ہوجاتا اور یہ مشق ہفتہ وار بنیاد پر کی جاتی تھی۔ پورے شہر میں حکومت کی جانب سے گھوڑوں کو پانی پلانے کے لئے خاص خاص جگہوں پر پیاو بنائے گئے تھے جس سے تانگہ بان وہاں ٹہر کر اپنے گھوڑوں کو پانی پلایا کرتے تھے -آج کراچی کی جم غفیر آبادی میں سب کچھ درہم برہم ہو چکا ہےاور اس بے ہنگم دور میں پرانا کراچی کہیں دور گم ہو چکا ہے باقی رہے نام اللہ کا

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر