Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
پیر، 6 فروری، 2023
ترکی اور شام میں 7.8 شدت کا بھیانک زلزلہ
اتوار، 5 فروری، 2023
ڈاکٹر عبد القدیر خان کی خوش رنگ زاتی زندگی
آخر میں ڈاکٹر صاحب کیلئے دو تازہ شعر؎
اک آہنی انسان بنایا تھا خدا نے
آیا تھا ہمیں جرم ضعیفی سے بچانے
دشمن کی نگاہوں سے وطن آج ہے محفوظ
محسن تھا ہمارا، کوئی مانے کہ نہ مانے
ہفتہ، 4 فروری، 2023
جشن ولادت مولا علی علیہ السّلام
جشن ولادت مولا علی علیہ السّلام
رجب المرجّب کی 13 جشن ولادت مولا علی علیہ السّلام تاریخ کے آتے ہی مولود کعبہ، جانشین پیغمبر، فاتح خیبر و خندق، مولائے متقیان، مولی الموحدین- امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں جشن و محافل کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔اور عالم اسلام میں کیوں نا جشن منایا جائے کہ اس تاریخ کو ان کے جلیل القدر پیشوا کی خانہ ء خدا میں آمد دن ہے-
تمام عالم اسلام کوجشن ولادت باسعادت مولود کعبہ، فاتح خیبر، امام المتقین، شیر خدا، ولی خدا، نائب رسول، جانشین رسول ص، فرزند ابوطالب ع، وارث الانبیاء، اسداللہ یداللہ، عین اللہ، وصی رسول، مشکل کشاء، حیدر کرار، ابوتراب، مظھرالعجائب، ، امام ال اولیاء، لساناللہ، ، نفس رسول ص، فاروق اعظم، صدیق اکبر، ابو الائماء، علی المرتضی مولاء کائنات امام علی علیہ السلام مبارک
دنیا میں یہ مقام اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت ابوطالب کے لعل حضرت علی علیہ السلام کو عطا کیا ہے کہ 13 رجب کے دن آپ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی جبکہ 21 رمضان کو شہادت بھی خانہ خدا مسجد کوفہ میں ہوئی اور یوں ولادت سے شہادت تک علی علیہ السلام کا ہر لمحہ رضائے الٰہی اور خوشنودی پروردگار کے لئے بسر ہوا۔پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے آپ کا نام علی رکھا،حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔
آپ کے مشہور القاب امیر المومنین، مرتضی، اسداللہ،یداللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں حضرت علی علیہ السّلام کی مشہور کنیت ابوالحسن و ابو تراب ہیں۔آپ کے سلسلہ میں بہت زیادہ فضائل نقل ہوئے ہیں؛ آنحضرت نے دعوت ذوالعشیرہ میں آپ کو اپنا وصی و جانشین معین کیا۔ شب ہجرت جب قریش رسول خدا کو قتل کرنا چاہتے تھے، آپ نے ان کے بستر پر سو کر ان کی جان بچائی۔ اس طرح حضورؐ نے مخفیانہ طریقہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ میں جب مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم ہوا تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ شیعہ و سنی مفسرین کے مطابق قرآن مجید کی تقریبا 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔ جن میں سے آیہ مباہلہ و آیہ تطہیر و بعض دیگر آیات آپ کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔
آپ جنگ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شریک تھے۔ جنگ تبوک میں رسول اللہؐ نے مدینے میں آپ کو اپنے جانشین کے طور پر مقرر کیا۔ آپ نے جنگ بدر میں بہت سے مشرکین کو قتل کیا۔ جنگ احد میں آنحضرت کی جان کی حفاظت کی۔ جنگ خندق میں عمرو بن عبدود کو قتل کرکے جنگ کا خاتمہ کر دیا اور جنگ خیبر میں در خیبر کو اکھاڑ کر جنگ فتح کر لی۔
رسول خدا نے اپنے آخری حج سے واپسی پر آیہ تبلیغ کے حکم خدا کے مطابق، غدیر خم کے مقام پر لوگوں کو جمع کیا۔ خطبہ غدیر پڑھنے کے بعد حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کیا اور فرمایا؛ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں۔ خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے، اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔ اس خطبے کے بعد صحابہ میں سے بعض جیسے عمر بن خطاب نے آپ کو مبارک باد پیش کی اور امیرالمومنین کے لقب سے خطاب کیا۔ شیعہ و بعض اہل سنت مفسرین کے مطابق، آیہ اکمال اسی دن نازل ہوئی ہے۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق، من کنت مولاہ فعلی مولاہ کی روز غدیر کی تعبیر، جانشین معین کرنے کے معنی ہے۔ اسی بنیاد پر شیعہ دوسرے فرق کے مقابل اپنا امتیاز آنحضرت کی جانشینی کے لئے حضرت علی کے اللہ تعالی کی طرف سے منتخب ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اہل سنت اسے عوامی انتخاب مانتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام ھاشمی خاندان کے وه پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور والده دونوں ہاشمی ہیں،جواں مردی، دلیری، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی علیہ السلام کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ پیغمبر اکرم ا۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پنی زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سے مدینے کی طرف پلٹ رہے تھے،جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین آیہ بلغ لیکر نازل ہوئے،پیغمبر اسلام ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے قافلے کو ٹہرنے کا حکم دیا،پیغمبر اکرم ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا،” ایھا الناس ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں“،رسول اللہ ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی۔
حضرت علی علیہ السّلام کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول خدا ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے،کبھی یہ کہتے تھے کہ “علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں”۔ کبھی یہ کہا کہ “میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے”۔ کبھی یہ کہا “آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے”۔ کبھی یہ کہا “علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی”۔ کبھی یہ کہ “وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں”یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا،عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے،سب کے دروازے بند ہوئے تو علی علیہ السّلام کا دروازہ کھلا رکھا گیا،
جب مہاجرین و انصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے اپنا بھائی قرار دیا۔سن ۳۵ ہجری قمری میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کا منصب حضرت علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا تو پہلے تو آپ نے انکار کردیا،لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھا تو آپ نے اس شرط سے منظور کرلیا کہ میں قرآن اور سنت پیغمبر ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رعایت سے کام نہ لوں گا،جب مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کرلیا تو آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی
کراچی اپنے ماضی کے جھروکوں سے
رام باغ آرام باغ کیسے بنا ؟
کراچی کے قدیم رام باغ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ باغ 1939 میں ایک مخیر ہندو شخص دیوان جیٹھانند نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ باغ اب بھی سوامی نارائن مندر کے قریب برنس روڈ پر موجود ہے۔-لیکن تقسیم برّصغیر کے بعد اس کا نام آرام باغ ہو گیا ہے -تقسیم سے قبل کراچی میں مسلمانوں اور دوسری قومیتوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے اس وقت کے مستند لکھنے والوں نےاپنی تحریروں میں لکھا کہ کراچی کے ہندو و مسلمان باہم مل جل کے رہتے تھے اور دونوں آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ ماہ محرم میں شیعہ مسلمان کراچی کی سڑکوں پر تعزیوں اور علم کے جلوس نکالتے تھے اور ہندو دسہرے کے تہوار میں نہایت دھوم دھام سے کالی مائی کا جلوس نکالتے تھے۔جبکہ پارسی قوم بھی آزادی سے اپنی عبادت گاہ فائر ٹیمپل پر جاتی تھی-سکھوں کو اپنی عبادت گاہ گردوارے جانے میں کسی دقّت کا سامنا نہیں تھا-
"رام باغ" کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ کراچی کا ایک پرانا تفریحی باغ اور گراؤنڈ ہے۔ اس کے کچھ حصے پر سبزہ اور پھولوں کی کیاریاں ہیں۔ یہ قیام پاکستان سے قبل ہندوؤں کے مذہبی اجتماعات کے لیے مخصوص تھا تاہم یہاں کبھی کبھی سیاسی جلسے بھی منقعد ہوتے تھے۔ اس باغ کے بارے میں ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں درج ہے کہ رام نے ہنگلاج (بلوچستان) جاتے ہوئے یہاں ایک رات قیام کیا تھا۔ مُنشی لام پرشاد ماتھُر کی کتاب "ہندو تیوہاروں کی دلچسپ اصلیت" کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ'رام رام رام' کے عنوان سے "ہندوؤں نے پاک نام اور دعائے خیر کو بات بات پر ملانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاََ دو شخص مل کر "جے رام جی" یا "جے شری کرشن" کرتے ہیں۔ یعنی فتح یا بھلا ئی کی دعا کر کے بے غرضانہ طور پر اِس کو رام یا کرشن کو ارپن کر دیتے ہیں اور ذاتی نفع کی خواہش معیوب سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ صرف رام رام ہی کہہ دیتے ہیں جس میں اِس بے غرضی کا ذکر بھی نہیں ہونے پاتا۔ اگر تکلیف ہوتی ہے تو "ہائے رام" اگر خوشی ہوئی تو رام نے سُن لی، یا رام نے دَیا کی کہتے ہیں۔ بلکہ نفرت کے وقت بھی 'رام رام رام' کہنے لگتے ہیں"
۔ رام کا کردار ہندو مذہب میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ نامور قانون دان اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین امر ناتھ موٹو مل نے ہمیں اس حوالے سے بتایا کہ شری رام اپنے والد راجا دسرتھ کی بڑی اولاد تھے اور دسرتھ کے بعد تاج کے حقدار تھے۔ رامائین کے مُطابق ایک بار جب راجا دسرتھ جنگل میں شکار کر رہے تھے تو ایک سانپ نے اُنھیں ڈس لیا۔ اس موقع پر رام کی سوتیلی ماں رانی کیکئی نے اُن کی جان بچائی۔ راجا نے اس کے صلے میں رانی کو کہا کہ وہ کیا مانگنا چاہتی ہیں۔ رانی نے راجا کو کہا کہ وہ اس وقت کُچھ نہیں چاہتی لیکن وقت آنے پر راجا کو اس کے دو وعدے پورے کرنے ہوں گے۔ راجا نے حامی بھرلی۔ جب راجا دسرتھ مرنے کے قریب تھا اور اُس نے اپنے بڑے بیٹے رام کو راجا بنانا چاہا تو رام کی سوتیلی ما ں نے راجا کو اپنے وعدے یاد دلائے-
رانی نے راجا سے کہا کہ "رام" کے بجائے اُس کے بیٹے "بھرت" کو راجا بنائے اور "رام" کو چود ہ سال کے لیے بن واس (جنگل بدری) بھیج دے۔ راجا دسرتھ نے نہ چاہتے ہوئے بھی رانی کی دونوں خواہشیں پوری کیں۔ رام نے ایک فرماں بردار بیٹا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے باپ کے حُکم پر تخت و تاج چھوڑ کر جنگل کی راہ لی۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ رام نے چودہ سال جنگل میں گذارے۔ راون سے جنگ لڑی اور کامیاب ہوکر چودہ سال بعد واپس اپنے وطن لوٹا۔ اس موقع پر رام کی آمد کی خوشی میں دیپ جلائے گئے۔ اس تہوار کو دیپا والی کہا جاتا تھا۔ جو رفتہ رفتہ بگڑ کر دیوالی بن گئی۔ رام کی قربانی، فرماں برداری اور راون کو شکست دینے کی کہانی کو دسہرے کے تہوار کے دوران منایا جاتا ہے۔ تقسیم سے قبل اوراس کے بعد بھی کراچی میں رام لیلا کی کہانی اسٹیج پر پیش کی جاتی تھی۔ کراچی میں یہ کہانی رام باغ میں پیش کی جاتی تھی۔ جس میں رام کے بن واس (جنگل بدری) جانے اور واپسی تک کے تمام مراحل کو ڈرامائی شکل میں پیش کیا جاتا تھا۔-
اور اس اسٹیج ڈرامے کو دیکھنے لئے آنے والےتماشائیو ں سے رام باغ بھر جایا کرتا تھا -اب اس باغ کے اطراف فرنیچر مارکیٹ، جوسر، پنکھے، واشنگ مشینیں ٹھیک کرنے والے کاریگر اور دیگر اشیاء مثلاً ریڈی میڈ گارمنٹس- کپڑوں کی رنگ سازی اور فوم وغیرہ کا کاروبار پھل پھول رہا ہے -اور اس تمام گہما گہمی کے باوجودآج بھی پچھتّر سال گزرنے کے بعد بھی آرام باغ اپنی آغوش وا کیئے ہوئے ہر آنے جانے والے کو پناہ میں لینے کا منتظر نظر آتا ہے ۔-
تقسیم سے پہلے شہر میں تانگے چلتے ہیں جن میں سواری کے لئے آگے کی طرف اور پیچھے کی طرف نشست کا انتظام ہوتا ہے اور آرام باغ کے اطراف کی سڑکوں پر ٹرام سروس جو انگریز بہادر نے بنوائ ہے ہر چند منٹ کے وقفہ سے شہریوں کے نقل و حمل کے کام آتی ہے اور اس وقت کے عروس البلاد کراچی کی گھوڑا گاڑیاں دوسرے شہروں سے اپنی خوبصورتی کے باعث ہمیشہ ممتاز آتی ہیں آرام دہ نشستیں، سواریوں کے لئے آمنے سامنے بیٹھنے کا انتظام ،سر پر دھوپ سے بچنے کے لئے سایہ، گاڑی بان کی نسبتا اونچی نشست اور ساتھ ہی تیل سے جلنے والے دو لالٹین روشنیوں کے شہر کی انفرادیت تھے-جبکہ انگریزوں نے اپنے خاندانو کے لئے بہترین لگژری گھواڑا گاڑیوں کا انتظام کر رکھاہےجنکو وکٹوریہ کہا جاتا ہے-
-اسی باغ کے ایک قطعہ زمین پر تقسیم ہند کے بعد یہاں کے شہریوں نے نہائت دیدہ زیب مسجد بنوائ ہے جسے اب آرام باغ والی مسجد کہا جاتا ہے
جمعہ، 3 فروری، 2023
دنیا کا عظیم ورثہ بشکل عجوبہ -دیوار چین-
چین کے شمال میں واقع 21 ہزار کلومیٹر طویل عظیم دیوار (دیوارِ چین) دنیا کے عجائبات میں شامل ایک عجوبہ ہے دیوارِ چین کو سنہ 1987 میں یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ دنیا بھر سے جب سیاح بیجنگ پہنچتے ہیں تو وہاں سے بسیں بھر بھر کر وہ طویل دیوارِ چین کے مختلف اہم مقامات کا رُخ کرتے ہیں۔ سیاحوں میں سے چند عظیم دیوار کے اِس مقام پر بھی آتے ہیں جسے ’جیان کاؤ‘ کہا جاتا ہے۔دیوارِچین کا ’جیان کاؤ‘ نامی حصہ سبز پہاڑیوں کے اُوپر ایک کنگری دار خط کی طرح 20 کلومیٹر طویل علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ نیچے وادی سے یہ پہاڑ کی ہر چوٹی پر ایک سجاوٹی خط کی طرح نظر آتی ہے۔
دراصل یہ دیوار بنانے کی نوبت اس لئے پیش آئ کہ اس زمانے کے ملک چین کے دشمن بادشاہ آس پڑوس اپنی فوجیں لے کر آتے تھے اور چین کے باشندوں کا قتل کرتے اوربھاگ جاتے تھے-چنانچہ اس دیوار کی تعمیر سے دشمنوں سے بچاو کا انتظام کیا گیا -یہ دیوار حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت سے دو سو سال پہلے بنائ گئ
یہ بیجنگ کے شمال میں سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ لیکن یہ اپنے معروف ہمسایہ علاقوں، بڈالنگ اور میوٹیانیو، سے بالکل مختلف ہے۔اس علاقے میں نہ کوئی سووینیئر فروخت کرنے کی دکان ہے اور نہ ہی کافی کی مشہور دکان سٹاربکس ہے اور نہ ہی کوئی کیبل کار۔ نہ یہاں کوئی اس جگہ کی سیاحت کے لیے ٹکٹیں فروخت کرتا ہوا نظر آئے گا اور نہ ہی دیوار کے اِس حصے تک لے جانے والا کوئی ٹور گائیڈ۔-دیوارِ چین کے اس حصے تک جانے کے لیے آپ کو 45 منٹ تک پہاڑ پر چڑھنا ہو گا۔
دیوارِ چین کے جیان کاؤ والے حصے میں پہاڑ کے اوپر ایک سفید رِبن کی طرح نظر آنے والا 20 کلومیٹر لمبا کنگری دار خط۔ ہے۔ پندرھویں اور سولہویں صدی میں تعمیر ہونے والے دیوار کے اس حصے پر صدیوں تک زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔اس حصے سے منسلک سات کلومیٹر لمبی دیوار کافی خستہ حال ہو گئی تھی۔ طویل وقت گزرنے کی وجہ سے اس کے کئی مینار اینٹوں اور پتھروں کے ڈھیر اور کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے جبکہ دیوار کے کچھ حصے تو اس طرح منہدم ہو گئے یہ باقی بچ جانے والی دیوار پر بمشکل ایک شخص ہی چل سکتا تھا۔
درخت اور جھاڑیاں اس طرح اُگ آئیں تھیں کہ یہ دیوار فصیل کی بجائے ایک جنگل دکھائی دینے لگی تھی۔ اگرچہ یہ نظارہ بھی اچھا لگتا تھا لیکن یہ قدیم دیوار بہت خطرناک ہو چکی تھی۔ٹینیسیٹ چیریٹی فاؤنڈیشن، جس نے دیوارِ چین کے اس حصے کی بحالی کے کام کو سرانجام دیا ہے، کے پراجیکٹ مینیجر ما یاؤ کہتے ہیں کہ ’ہر برس ایک یا دو سیاح دیوار کے اس حصے پر چلتے ہوئے گر کر ہلاک ہوتے تھے۔ کچھ لوگ تو ہائیکنگ کرتے ہوئے گرتے اور ہلاک ہو جاتے۔ اور کچھ بجلی گرنے سے ہلاک ہوتے تھے۔‘انھوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی نے ہمیں ممکنہ حد تک اس دیوار کی روایتی حالت بحال کرنے میں مدد دی۔
مزید حادثات کو روکنے کے لیے اور جیان کاؤ حصے کی دیوار کو مزید خستہ حال ہونے سے روکنے کے لیے اس کی بحالی کا کام سنہ 2015 میں شروع ہوا۔ یہ کٹھن کام، جو 750 کلومیٹر طویل دیوار کے اس حصے پر پھیلا ہوا تھا، سنہ 2019 میں مکمل ہوا۔جب یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ رہا تھا تو اس وقت موسم بہار کے ایک روشن دن میں ما کے ساتھ اس دیوار کے کام پر بات چیت کرنے لیے نشست کا موقع ملا۔
ہماری جہاں تک بھی نظر جا رہی تھی ہمارے ارد گرد فصیل نما دیواریں ہمیں گھیرے ہوئے تھیں۔ ما نے مجھے بتایا کہ ’آپ یہاں ان پہاڑوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ یہاں بھاری بھاری مشینیں نہیں لائی جا سکتی ہیں۔ ہمیں یہاں انسانوں سے کام لینا پڑا۔ لیکن ہمیں ٹیکنالوجی کا استعمال انسانوں سے یہ کام زیادہ بہتر کروانے کے لیے کرنا چاہیے۔‘سنہ 2019 میں اس منصوبے پر جو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی اس میں خطے کی سہ جہتی (تھری ڈائی مینشنل) نقشہ بندی اور کمپیوٹر کا ایک ایلگورِدھم شامل تھا جو انجینیئروں کو یہ بتاتا تھا کہ انھیں کسی شگاف کی مرمت کے لیے وہاں اُگے ہوئے درخت کو نکالنا ہے یا صرف اس شگاف کو بھر دینا ہے یا اس حصے کو محفوظ طریقے سے بغیر کچھ کیے چھوڑ دینا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرے کہ کبھی ان دیواروں پر جنگلی نباتات اُگ آئی تھیں۔
دیوارِ چین ایک بہت بڑی تعمیر ہے۔ اس کی تاریخ بھی اسی کی طرح عظیم ہے۔ اس کی تعمیر میں دو ہزار برس لگے، تیسری صدی قبل مسیح سے لے کر سترھویں صدی عیسوی تک، اسے سولہ مختلف شاہی خاندانوں نے تعمیر کیا۔اس دیوار کی تعمیر کے سب سے لمبے اور سب سے زیادہ مشہور حصے کی تعمیر مِنگ خاندان کے زمانے میں ہوئی جنھوں نے دیوار کی تعمیر (یا تعمیرِ نو) سنہ 1368 سے لے کر سنہ 1644 کے درمیان کے عرصے میں کی جس میں جیان کاؤ نامی حصہ بھی شامل ہےحکومت کے آثارِ قدیمہ کے ایک ادارے ’سٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف کلچرل ہیریٹیج اینڈ سٹیٹ بیورو آف سروے اینڈ میپنگ‘ نے بتایا کہ مِنگ دور کی دیوار 8851 کلومیٹر بشمول 6259 کلومیٹر طویل دیوار اور 359 لمبی خندقیں، 2232 کلومیٹر لمبی قدرتی رکاوٹیں اور 25 ہزار حفاظتی ٹاور اسی شاہی خاندان کے زمانے میں تعمیر ہوئے تھے۔
اس تعمیر میں ایک مقام سے لے کر دوسرے مقام بی تک صرف ایک دیوار کی تعمیر ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ اس میں سیڑھیاں، دوہری دیواریں، متوازی دیواریں اور دیواروں کی مہمیزیں بھی شامل تھیں۔آج مِنگ خاندان کی جانب سے تعمیر کردہ ایک تہائی فصیل کی تعمیر مٹ چکی ہے۔
جمعرات، 2 فروری، 2023
بابا بلھے شاہ-پنجابی زبان کا نابغہءروزگار صوفی شاعر
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...