پیر، 6 فروری، 2023

ترکی اور شام میں 7.8 شدت کا بھیانک زلزلہ

ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں پیر کو آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے سے ترکی اور شام میں 529 سے زائد اموات ہوئیں اور سینکڑوں افراد زخمی ہیں۔ متعدد عمارتیں تباہ ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہےفرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے ترکی کے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ترکی میں تاحال 284 اموات اورپانچ سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ترک شہرمالتیا کے گورنر کا کہنا ہے کہ زلزلے سے 140 عمارتیں منہدم ہوگئیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے شام کے سرکاری میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زلزلے سے ملک میں 245 اموات اور چھ سو سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سرچ آپریشن ابھی جاری ہے۔ 
 
 شام کے شمال مشرقی شہر افرین میں زلزلے سے تباہ حال عمارت کا ملبہ ہٹانے کی کوشش جاری ہے (اے ایف پی) امریکی جیولوجیکل سروے کا کہنا ہے کہ پیر کو جنوب مشرقی ترکی میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، جن کی شدت 7.8 تھی۔ اس زلزلے سے کئی شہروں میں عمارتیں منہدم ہوگئیں اور ہمسایہ ملک شام میں بھی نقصان ہوا۔امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلہ مقامی وقت کے مطابق صبح 4 بج کر 17 منٹ پر 17.9 کلومیٹر کی گہرائی میں آیا جبکہ 15 منٹ بعد 6.7 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ترک ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امدادی کارکن کاہرمانماراس اور غازی انتیپ شہر میں زمین بوس عمارتوں کا ملبہ ہٹا رہے ہیں۔ 
  
 ترک صدر رجب طیب اردوان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا، ’میں زلزلے سے متاثر ہونے والے تمام شہریوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ہم امید کرتے ہیں کہ ہم جلد از جلد اور کم سے کم نقصان کے ساتھ مل کر اس آفت سے نکل جائیں گے۔‘

شام کے صدر بشار الاسد نے زلزلے کے بعد صبح ہنگامی اجلاس بلایا ہے تاکہ امدادی سرگرمیوں کی سمت کا تعین کیا جائے۔شام کے فلاحی ادارے وائٹ ہیلمٹس کا کہنا ہے کہ شمال مغربی شام میں متعدد عمارتیں زمین بوس ہونے بعد ان کی ٹیمیں لاشوں اورزخمیوں کو ریسکیو کر رہی ہیں -اور ابتدائ طبّی امداد بھی فراہم کر رہی ہیں 
ترکی میں گذشتہ 80 سال کا سب سے بڑا زلزلہ
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترکی اور شام میں حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ ہےترک سرحد کے قریب باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھی کام کرتی ہیں) متاثرین کو مدد فراہم کر رہی ہیں۔

شام میں کئی سال تک جاری جنگ، سست رفتار تعمیر نو اور دمشق میں قائم مرکزی حکومت پر سخت عالمی پابندیوں کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔دونوں ملکوں میں مجموعی طور پر 500 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں یہ ممکنہ طور پر ترکی کا سب سے بڑا زلزلہ ہے جس کے بعد 40 سے زیادہ جھٹکے بھی محسوس کیے گئے ہیں -زلزلے کے مقام کے قریب شامی پناہ گزین کی بڑی تعداد مقیم ہے۔ ترکی نے عالمی سطح پر سب سے زیادہ شامی پناہ گزین کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد 37 لاکھ ہے
کئی لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جبکہ خراب موسم کی وجہ سے بھی امدادی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں برطانیہ میں قائم سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شام بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 320 تک جا پہنچی ہےاور لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے اورچارں جانب آہ بکا کا سماں ہے

 زلزلے کے وقت سے لگتا ہے کہ زیادہ تر لوگ ابھی گھروں میں سو رہے تھے، جس سے ممکنہ ہلاکتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ کچھ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ برف میں پاجامہ پہنے کھڑے، تباہ شدہ گھروں کے ملبے کو ہٹانے والے امدادی کارکنوں کو دیکھ رہے ہیں۔ این ٹی وی ٹیلی ویژن کا کہنا ہے کہ ترکی کے شہر ادیمان اور مالتیہ شہروں میں بھی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔سی این این ترک ٹیلی ویژن کے مطابق زلزلے کے جھٹکے وسطی ترکی اور دارالحکومت انقرہ کے کچھ حصوں میں بھی محسوس کیے گئے۔ ’سب سے بڑا زلزلہ‘ اے ایف پی کے نامہ نگاروں کے مطابق اس زلزلے کے جھٹکے لبنان، شام اور قبرص میں بھی محسوس کیے گئے۔’ہمیں آدھی رات کو جگا دیا‘شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اطلاع دی ہے کہ شام کے مغربی ساحل پر لاذقیہ کے قریب ایک عمارت منہدم ہو گئی ہے۔حکومت کے حامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ وسطی شام کے شہر حما میں متعدد عمارتیں جزوی طور پر منہدم ہو گئیں اور شہری دفاع اور فائر فائٹرز ملبے سے زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ شام کے قومی زلزلہ مرکز کے سربراہ راید احمد نے حکومت کے حامی ریڈیو کو بتایا کہ یہ تاریخی طور پر مرکز کی تاریخ میں ریکارڈ کیا جانے والا سب سے بڑا زلزلہ تھا

۔ترکی کا شمار دنیا کے ایسے علاقوں میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ ترکی کے صوبہ دوزسے میں 1999 کے اندر 7.4 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ اس زلزلے میں17 ہزار سے زیادہ اموات ہوئی تھیں، جن میں سے تقریبا ایک ہزار اموات استنبول میں ہوئیں۔جنوری 2020 میں ایلازگ میں 6.8 شدت کا زلزلہ آیا، جس میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی برس اکتوبر میں بحیرہ ایجین میں 7.0 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں 114 اموات اور ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ماہرین نے طویل عرصے سے متنبہ کر رکھا ہے کہ ایک بڑا زلزلہ استنبول کو تباہ کر سکتا ہے، جس نے حفاظتی احتیاطی تدابیر کے بغیر بڑی عمارتوں کی اجازت دے رکھی ہے۔

اتوار، 5 فروری، 2023

ڈاکٹر عبد القدیر خان کی خوش رنگ زاتی زندگی



ڈاکٹر عبد القد یر خان کی زاتی زندگی کیسی تھی?-تو میری اسٹڈی کے مطابق وہ ایک خوش مزاج انسان تھے -اور اس طرح ان کی زاتی زندگی بھی خوش رنگ تھی--آج انٹر نیٹ کے مطالعہ کے دوران اپنے وطن عزیز کے اور پاکستانی قوم کے محسن ڈاکٹر عبد القدیر کے لئے ان کے کسی پرستار کی جانب سے لکھا ہوا ایک مضنون نظر سے گزرا -میں کوشش کے با وجود صاحب مضمون کا نام نہیں معلوم کر سکی جس کے لئے معذرت خواہ ہوں

- یہ مضمون ڈاکٹر صاحب کی زاتی زندگی کے پہلوں پر روشنی ڈال رہا ہے یقیناً آپ کو بھی پسند آئے گا مجھے بڑے لوگوں کے کارناموں سے زیادہ ان کی شخصیت پر غور کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ کارنامے ساری دنیا دیکھتی ہے لیکن شخصیت کسی کسی پر ظاہرہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے لئے جو کارنامہ انجام دیا وہ سب کے سامنے ہے کیونکہ ہمارا میڈیا کارناموں ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ اگر ہمارا میڈیا بڑے لوگوں کی شخصیت کے مخفی پہلوؤں پر روشنی ڈالے تو ناخدائوں کی خدائی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ انہیں اپنا قد چھوٹا محسوس ہونے لگتا ہے۔

 انہیں لگتا ہے کہ کل یہی شخص ان کی جگہ لے لے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جونہی کسی شخصیت پر قوم کا اتفاق ہونے لگتا ہے، وہیں اسے متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔ ہمارے محسن، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ہمارے ہاں عام سے وزراء کا پروٹوکول دیکھ کر عام لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ 
ڈاکٹر صاحب کا پروٹوکول یہ تھا کہ انہیں دیکھ کر شہری احتراماً کھڑے ہو جاتے تھے۔ ان سے ہاتھ ملاتے اور نہیں تو نظریں ملا کر ہی خوش ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ان سائنس دانوں میں سے نہیں تھے جو دو جمع دو چار پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو سکوت لالہ و گل سے کلام کرتے ہیں۔ شعر و سخن ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ ان کے کالموں میں کلاسیکی شاعروں کے ساتھ ساتھ جدید شاعروں کے اشعار پڑھنے کو ملتے تھے۔ غالب، مومن، مصحفی، جگر، جوش، اقبال، مجاز، اختر شیرانی، فیض، عدم اور فراز کی شاعری کے وہ رسیا تھے۔ وہ چونکہ سخن شناس تھے اس لئے کسی ایک شاعر کی شاعری کے اسیر ہو کر نہیں رہے۔ کہتے تھے کہ ہر شاعر کی دو چار غزلیں یا نظمیں ایسی ضرور ہوتی ہیں جو مجھے پسند آتی ہیں۔ سائنس کے بیش تر لوگ، کسی شاعر کا شعر لکھتے ہوئے ناانصافی کر جاتے ہیں۔ لفظوں کو یوں آگے پیچھے کرتے ہیں کہ آسودئہ خاک شاعر کی روح تڑپنے لگتی ہے لیکن ہمارے ڈاکٹر صاحب نے شاعروں کی روحوں کو کبھی نہیں تڑپایا۔ 

مجھے ان کے گھر جانے کا موقع نہیں ملا لیکن جو احباب ان کے در دولت پر جاتے رہتے تھے، وہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے اردگرد ہر وقت شاعری کی کتابیں دھری رہتی تھیں۔ سوانح عمریاں وہ شوق سے پڑھتے تھے۔ لوگ انہیں اپنی کتابیں تحفتاً بھیجتے تو ان کی باقاعدہ رسید دیتے۔ کبھی کالم میں تبصرہ کرکے، کبھی خط لکھ کر، ایک بار وہ لاہور کے فائیواسٹار ہوٹل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں آئے تولوگوں کا حصار توڑ کر میں اسٹیج پر ڈاکٹر صاحب کے پاس جا پہنچا اور اپنا لکھا ہوا عمرے کا سفرنامہ ’’پہلی پیشی‘‘ انہیں پیش کر دیا۔ جب ساری تقریریں ہو گئیں تو ڈاکٹر صاحب کی باری آئی۔ انہوں نے میری کتاب کی رسید وہیں دے دی۔ وہ کتاب کی ورق گردانی کر چکے تھے۔

 سو تحسینی کلمات کہنے میں دیر نہ لگائی۔ کتابیں ان کی تنہائی کی دوست تھیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص شاعری کا ذوق رکھتا ہو، موسیقی سے دور رہے؟ ڈاکٹر صاحب اقبال بانو، منی بیگم، عابدہ پروین، ملکہ پکھراج اور غلام علی جیسے گلوکاروں کے عاشق تھے۔ حسرت موہانی کی غزل جو غلام علی نے گائی تھی، ڈاکٹر صاحب کی پسندیدہ غزل تھی۔ کیوں نہ ہوتی؟ ڈاکٹر صاحب بھی تو برسوں سے چپکے چپکے رات دن آنسو بہاتے رہے تھے۔ 28 مئی 1998کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی دھماکے کر دیئے تو ڈاکٹر صاحب کی نیک نامی اور شہرت کا گراف یک دم بلندیوں کو چھونے لگا۔ غیر کیاہمارے کچھ اپنوں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ طعنہ زنی ہوئی،الزام لگے۔ ڈاکٹر صاحب بجا طور پر سمجھتے تھے کہ ایٹمی توانائی کو استعمال کرکے ملک کو اندھیروں سے نکالا جا سکتا ہے 

لیکن وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ دروغ گو حکمرانوں کی موجودگی میں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ان کے اندر ایک غصہ پایا جاتا تھا۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ کیا آپ پاکستانی قوم سے ناراض ہیں؟ وہ کہتے کہ میں احسان فراموش اور نمک حرام لوگوں سے ناراض ہوں۔ عام پاکستانیوں سے مجھے پیار ہے۔ وہ بھی مجھے پیار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے دل میں ہمیشہ یہ پچھتاوا رہا کہ سائنس کی طرف آنے کی بجائے وہ پروفیسر کیوں نہ بن گئے؟ کتابیں پڑھتے، کتابیں لکھتے، مزے کی زندگی گزارتے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب! آپ اگرپروفیسر بن جاتے تو میں آپ کے بارے میں یہ تحریر شاید کبھی نہ لکھتا۔ پروفیسر تو ہزاروں ہیں لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ہی ہے۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب کیلئے دو تازہ شعر؎ اک آہنی انسان بنایا تھا خدا نے آیا تھا ہمیں جرم ضعیفی سے بچانے دشمن کی نگاہوں سے وطن آج ہے محفوظ محسن تھا ہمارا، کوئی مانے کہ نہ مانے

آخر میں ڈاکٹر صاحب کیلئے دو تازہ شعر؎

اک آہنی انسان بنایا تھا خدا نے

آیا تھا ہمیں جرم ضعیفی سے بچانے

دشمن کی نگاہوں سے وطن آج ہے محفوظ

محسن تھا ہمارا، کوئی مانے کہ نہ مانے

ہفتہ، 4 فروری، 2023

جشن ولادت مولا علی علیہ السّلام

 جشن ولادت مولا علی علیہ السّلام

رجب المرجّب کی 13 جشن ولادت مولا علی علیہ السّلام  تاریخ کے آتے ہی  مولود کعبہ، جانشین پیغمبر، فاتح خیبر و خندق، مولائے متقیان، مولی الموحدین- امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں جشن و محافل کا سلسلہ جاری ہو جاتا  ہے۔اور عالم اسلام میں کیوں نا جشن منایا جائے کہ اس تاریخ کو ان کے جلیل القدر پیشوا کی خانہ ء خدا میں آمد دن ہے-

تمام عالم اسلام کوجشن ولادت باسعادت مولود کعبہ، فاتح خیبر، امام المتقین، شیر خدا، ولی خدا، نائب رسول، جانشین رسول ص، فرزند ابوطالب ع، وارث الانبیاء، اسداللہ یداللہ، عین اللہ، وصی رسول، مشکل کشاء، حیدر کرار، ابوتراب، مظھرالعجائب، ، امام ال اولیاء، لساناللہ، ، نفس رسول ص، فاروق اعظم، صدیق اکبر، ابو الائماء، علی المرتضی مولاء کائنات امام علی علیہ السلام مبارک

دنیا میں یہ مقام اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت ابوطالب کے لعل حضرت علی علیہ السلام کو عطا کیا ہے کہ 13 رجب کے دن آپ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی جبکہ 21 رمضان کو شہادت بھی خانہ خدا مسجد کوفہ میں ہوئی اور یوں ولادت سے شہادت تک علی علیہ السلام  کا ہر لمحہ رضائے الٰہی اور خوشنودی پروردگار کے لئے بسر ہوا۔پیغمبر اسلام   صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے آپ کا نام علی رکھا،حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔

آپ کے مشہور القاب امیر المومنین، مرتضی، اسداللہ،یداللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں حضرت علی علیہ السّلام کی مشہور کنیت ابوالحسن و ابو تراب ہیں۔آپ کے سلسلہ میں بہت زیادہ فضائل نقل ہوئے ہیں؛ آنحضرت نے دعوت ذوالعشیرہ میں آپ کو اپنا وصی و جانشین معین کیا۔ شب ہجرت جب قریش رسول خدا کو قتل کرنا چاہتے تھے، آپ نے ان کے بستر پر سو کر ان کی جان بچائی۔ اس طرح حضورؐ نے مخفیانہ طریقہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ میں جب مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم ہوا تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ شیعہ و سنی مفسرین کے مطابق قرآن مجید کی تقریبا 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔ جن میں سے آیہ مباہلہ و آیہ تطہیر و بعض دیگر آیات آپ کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔

آپ جنگ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شریک تھے۔ جنگ تبوک میں رسول اللہؐ نے مدینے میں آپ کو اپنے جانشین کے طور پر مقرر کیا۔ آپ نے جنگ بدر میں بہت سے مشرکین کو قتل کیا۔ جنگ احد میں آنحضرت کی جان کی حفاظت کی۔ جنگ خندق میں عمرو بن عبدود کو قتل کرکے جنگ کا خاتمہ کر دیا اور جنگ خیبر میں در خیبر کو اکھاڑ کر جنگ فتح کر لی۔

رسول خدا نے اپنے آخری حج سے واپسی پر آیہ تبلیغ کے حکم خدا کے مطابق، غدیر خم کے مقام پر لوگوں کو جمع کیا۔ خطبہ غدیر پڑھنے کے بعد حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کیا اور فرمایا؛ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں۔ خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے، اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔ اس خطبے کے بعد صحابہ میں سے بعض جیسے عمر بن خطاب نے آپ کو مبارک باد پیش کی اور امیرالمومنین کے لقب سے خطاب کیا۔ شیعہ و بعض اہل سنت مفسرین کے مطابق، آیہ اکمال اسی دن نازل ہوئی ہے۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق، من کنت مولاہ فعلی مولاہ کی روز غدیر کی تعبیر، جانشین معین کرنے کے معنی ہے۔ اسی بنیاد پر شیعہ دوسرے فرق کے مقابل اپنا امتیاز آنحضرت کی جانشینی کے لئے حضرت علی کے اللہ تعالی کی طرف سے منتخب ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اہل سنت اسے عوامی انتخاب مانتے ہیں۔

حضرت  علی علیہ السلام ھاشمی خاندان کے وه پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور والده دونوں ہاشمی ہیں،جواں مردی، دلیری، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت  علی علیہ السلام کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ پیغمبر اکرم ا۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پنی زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سے مدینے کی طرف پلٹ رہے تھے،جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین آیہ بلغ لیکر نازل ہوئے،پیغمبر اسلام ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے قافلے کو ٹہرنے کا حکم دیا،پیغمبر اکرم  ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور حضرت علی علیہ السلام  کے ہاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا،” ایھا الناس ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں“،رسول اللہ  ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی۔

حضرت علی علیہ السّلام کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول خدا ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے،کبھی یہ کہتے تھے کہ “علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں”۔ کبھی یہ کہا کہ “میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے”۔ کبھی یہ کہا “آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے”۔ کبھی یہ کہا “علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی”۔ کبھی یہ کہ “وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں”یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا،عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے،سب کے دروازے بند ہوئے تو علی علیہ السّلام کا دروازہ کھلا رکھا گیا،

جب مہاجرین و انصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے اپنا بھائی قرار دیا۔سن ۳۵ ہجری قمری میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کا منصب حضرت علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا تو پہلے تو آپ نے انکار کردیا،لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھا تو آپ نے اس شرط سے منظور کرلیا کہ میں قرآن اور سنت پیغمبر  ۔صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رعایت سے کام نہ لوں گا،جب مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کرلیا تو آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی

کراچی اپنے ماضی کے جھروکوں سے

کراچی اپنے  ماضی کے جھروکے سے- شہر کے بیشتر پرانے لوگوں کو اس چیز کا علم ہوگا کہ یہاں کبھی سڑکوں پر ٹن ٹن کرتی ٹرام دوڑا کرتی تھیں جو ٹرانسپورٹ کا انتہائی اہم ذریعہ تھیں-قیام پاکستان کے بعد لوگوں کا اندرون ملک سفر کا بڑا ذریعہ ریل گاڑی تھی لیکن اندرون شہر کے لئے آمد و رفت کا اہم ذریعہ ٹرام ہوا کرتی تھی گو کہ اس وقت مالی اعتبار سے مضبوط افراد کے پاس ہی گاڑیاں ہوا کرتی تھیں لیکن عام شہری تانگوں یا ٹرام میں ہی سفر کیا کرتے تھے۔ جن راستوں سے دن میں کم از کم ایک بار ہمارا گزر ہوتا ہے وہاں کبھی ٹرام بھی چلا کرتی تھی لیکن آج اس کی باقیات کا بھی کوئی وجود نہیں لیکن وہ سڑکیں آج نئے ناموں سے جانتے ہیں - 

 ٹرام ایک چھوٹی ریل گاڑی نما سفری گاڑی تھی جو پٹڑیوں پر چلتی تھی جس میں 60 سے 70 افراد کی بیک وقت بیٹھنے کی گنجائش تھی اور مسافروں کے بیٹھنے کے لئے چاروں اطراف سیٹیں تھیں جب کہ درمیان میں مسافروں کے کھڑے ہونے کی جگہ۔ ٹرام میں کوئی شیشے نہیں بلکہ صرف ایک چھت اور کھڑکیوں کی جگہ بڑ ے بڑے ہوادان ہوتے تھے جو ہنگامی صورت میں ایگزٹ ڈور کا بھی کام دیتے تھے، اگر یوں کہا جائے کہ ٹرام اپنے زمانے کی جدید مسافر گاڑی تھی تو یہ غلط نہ ہوگا۔ آج کراچی آبادی اور رقبے کے اعتبار سے پھیل چکا ہے لیکن آج سے 50 سال قبل کراچی کے نقشے پر اولڈ سٹی ایریا ہی تھا اور یہیں ٹرام چلا کرتی تھی۔ 

بندر روڈ جسے آج ایم اے جناح روڈ کہا جاتا ہے یہاں ٹرام کا ایک طویل ٹریک تھا جو گرو مندر سے شروع ہوکر ٹاور پر ختم ہوتا تھا اور اسی ٹریک سے مزید دو ٹریک نکلتے تھے ایک کیپری سینما سے سولجر بازار کو جاتا تھااور وہاں سے سیدھا گرومندر اور اسی طرح ایک ٹریک کینٹ اسٹیشن سے سیدھا بندر روڈ پر آکر ملتا تھا۔ ایم اے جناح روڈ کے عین وسط میں جہاں آج دونوں سڑکوں کو تقسیم کرنے کے لئے ڈیوائڈر بناہے وہیں ٹرام کی پٹڑیاں بچھی تھیں اسی طرح کینٹ اسٹیشن سے ایمپریس مارکیٹ اور وہاں سے سیدھا ایم اے جناح روڈ تک سڑک کے بیچ و بیچ پٹڑیاں آتی تھیں۔ کراچی کےبزرگ شہری ٹرام کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ٹرام اپنے زمانے کی تیز ترین اور پرکشش سواری ہوا کرتی تھی جو شہر کے مرکز میں چلا کرتی تھی اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا کا کوئی اسٹاپ نہیں ہوتا تھا اس لئے مسافر چلتی ٹرام پر چڑھا کرتے، جس طرح آج اگر آپ کسی مسافر بس ڈبلیو گیارہ، یا جی سترہ میں سفر کریں تو ان میں بھی مسافروں کو اکثر چلتی بس سے اترنا پڑتا ہے ایسا ہی کچھ ٹرام میں بھی تھا۔

 مشتاق سہیل کے مطابق جب کبھی ہمیں تغلق ہاؤس سے ٹاور جانا ہوتا تو تبت سینٹر تک پیدل چلا کرتے اور وہاں ٹرام کا انتظار کرتے اور پھر 10 سے 15 منٹ میں ٹاور پہنچ جایا کرتے تھے، ٹرام میں سفر کرنے کے کچھ اصول تھے کہ آپ کو بھاری بھرکم سامان لے جانے کی ہرگز اجازت نہیں تھی ہاں اگر ایک آدھ بیگ ہو جسے گود میں ہی رکھ لیا جائے تو اسکی اجازت تھی۔ ٹرام کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں ڈرائیور کے لئے کوئی الگ سے ڈرائیونگ سیٹ نہیں تھی اور وہ بالکل اگلے حصے میں کھڑا ہوکر ایک ہاتھ سے گھنٹی بجاتا رہتا اور دوسرے ہاتھ سے پٹڑی پر چلنے والے لوگوں کو ہٹنے کا اشارہ کرتا رہتا اور دن بھر یہی سلسلہ جاری رہتا تھا۔ 1975 تک جب تک ٹرام چلتی رہی اس کا کرایہ دس پیسے تھا اگر آپ کو گرومندر سے ٹاور جانا ہو یا کینٹ اسٹیشن سے ٹاور یا صدر آنا ہو تو اس کا کرایہ دس پیسے ہی تھا اور اس زمانے میں چونکہ کوچز اور بسیں نہیں تھیں تو اکثر لوگ ٹرام سے ہی سفر کیا کرتے تھے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں کراچی مختصر اور بہت پرامن شہر ہوا کرتا تھا جو اولڈ سٹی ایریا اور لالو کھیت دس نمبر تک ہی محیط تھا، سوک سینٹر کے قریب قریب اور پیرکالونی سے آگے کچھ نہیں تھا اور اس وقت بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ شہر سے 12 میل پرے ہے کیکل بیلی بستی یونیورسٹی اور یونیورسٹی جانے کے لئے 40 فٹ کی کچی سڑک تھی جس پر نہ لائٹ تھی اور نہ ہی اسے پکا کیا گیا تھا اور آج جہاں سوئی گیس کا دفتر ہے وہاں لائٹ ہوا کرتی تھی لیکن قریبی علاقے ویران تھے جب کہ طالبعلم عموماً تانگوں پر یونیورسٹی جایا کرتے تھے۔ 60

 کی دہائی میں اہم سڑکوں پر ٹرام کے علاوہ ڈبل ڈیکر، بھگیاں اور تانگے چلا کرتے تھے اور انتہائی محدود تعداد میں چند ایک بسیں بھی تھیں اور وہ یہی خستہ حال ون ڈی، فور ایل وغیرہ بسیں تھیں جو آج بھی مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جارہی ہیں جو اسی دور کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ عام طور پر بھگیاں اور تانگے بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) سے سولجر بازار سے قائداعظم کے مزارسے ہوتے ہوئے خداداد کالونی اور لائنز ایریا میں چلتے تھے اور لائنز ایریا میں سینٹ پیٹرکس اسکول سے چند قدم کے فاصلے پر اس وقت بھی گھوڑوں کا اصطبل موجود ہے جو اسی دور کی یادگار ہے۔ مشتاق سہیل نے ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ اس زمانے میں کراچی کی سڑکیں دھلا کرتی تھیں جن راستوں پر تانگے اور بھگیاں چلا کرتی تھیں وہاں صبح سویرے پانی سے بھرے ٹینکر آتے اور پھر بڑے بڑے پائیپوں کے ذریعے سڑکوں کی دھلائی کا کام علی الصبح مکمل کرلیا جاتا جس کے بعد سورج نکلنے تک جمع شدہ پانی خشک ہوجاتا اور یہ مشق ہفتہ وار بنیاد پر کی جاتی تھی۔ پورے شہر میں حکومت کی جانب سے گھوڑوں کو پانی پلانے کے لئے خاص خاص جگہوں پر پیاو بنائے گئے تھے جس سے تانگہ بان وہاں ٹہر کر اپنے گھوڑوں کو پانی پلایا کرتے تھے -آج کراچی کی جم غفیر آبادی میں سب کچھ درہم برہم ہو چکا ہےاور اس بے ہنگم دور میں پرانا کراچی کہیں دور گم ہو چکا ہے باقی رہے نام اللہ کا

رام باغ آرام باغ کیسے بنا ؟

کراچی کے قدیم رام باغ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ باغ 1939 میں ایک مخیر ہندو شخص دیوان جیٹھانند نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ  باغ اب بھی سوامی نارائن مندر کے قریب برنس روڈ پر موجود ہے۔-لیکن تقسیم برّصغیر کے بعد اس کا نام آرام باغ ہو گیا ہے -تقسیم سے قبل  کراچی میں مسلمانوں اور دوسری قومیتوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے اس وقت کے مستند لکھنے والوں نےاپنی تحریروں میں لکھا  کہ کراچی کے ہندو و مسلمان باہم مل جل کے رہتے تھے اور دونوں آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ ماہ محرم میں شیعہ مسلمان کراچی کی سڑکوں پر تعزیوں اور علم کے جلوس نکالتے تھے اور ہندو دسہرے کے تہوار میں نہایت دھوم دھام سے کالی مائی کا جلوس نکالتے تھے۔جبکہ پارسی قوم بھی آزادی سے اپنی عبادت گاہ فائر ٹیمپل پر جاتی تھی-سکھوں کو اپنی عبادت گاہ گردوارے جانے میں کسی دقّت کا سامنا نہیں تھا-  

"رام باغ" کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ کراچی کا ایک پرانا تفریحی باغ اور گراؤنڈ ہے۔ اس کے کچھ حصے پر سبزہ اور پھولوں کی کیاریاں ہیں۔ یہ قیام پاکستان سے قبل ہندوؤں کے مذہبی اجتماعات کے لیے مخصوص تھا تاہم یہاں کبھی کبھی سیاسی جلسے بھی منقعد ہوتے تھے۔ اس باغ کے بارے میں ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں درج ہے کہ رام نے ہنگلاج (بلوچستان) جاتے ہوئے یہاں ایک رات قیام کیا تھا۔  مُنشی لام پرشاد ماتھُر کی کتاب "ہندو تیوہاروں کی دلچسپ اصلیت" کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ'رام رام رام' کے عنوان سے  "ہندوؤں نے پاک نام اور دعائے خیر کو بات بات پر ملانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاََ دو شخص مل کر "جے رام جی" یا "جے شری کرشن" کرتے ہیں۔ یعنی فتح یا بھلا ئی کی دعا کر کے بے غرضانہ طور پر اِس کو رام یا کرشن کو ارپن کر دیتے ہیں اور ذاتی نفع کی خواہش معیوب سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ صرف رام رام ہی کہہ دیتے ہیں جس میں اِس بے غرضی کا ذکر بھی نہیں ہونے پاتا۔ اگر تکلیف ہوتی ہے تو "ہائے رام" اگر خوشی ہوئی تو رام نے سُن لی، یا رام نے دَیا کی کہتے ہیں۔ بلکہ نفرت کے وقت بھی 'رام رام رام' کہنے لگتے ہیں"

۔ رام کا کردار ہندو مذہب میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ نامور قانون دان اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین امر ناتھ موٹو مل نے ہمیں اس حوالے سے بتایا کہ شری رام اپنے والد راجا دسرتھ کی بڑی اولاد تھے اور دسرتھ کے بعد تاج کے حقدار تھے۔ رامائین کے مُطابق ایک بار جب راجا دسرتھ جنگل میں شکار کر رہے تھے تو ایک سانپ نے اُنھیں ڈس لیا۔ اس موقع پر رام کی سوتیلی ماں رانی کیکئی نے اُن کی جان بچائی۔ راجا نے اس کے صلے میں رانی کو کہا کہ وہ کیا مانگنا چاہتی ہیں۔ رانی نے راجا کو کہا کہ وہ اس وقت کُچھ نہیں چاہتی لیکن وقت آنے پر راجا کو اس کے دو وعدے پورے کرنے ہوں گے۔ راجا نے حامی بھرلی۔ جب راجا دسرتھ مرنے کے قریب تھا اور اُس نے اپنے بڑے بیٹے رام کو راجا بنانا چاہا تو رام کی سوتیلی ما ں نے راجا کو اپنے وعدے یاد دلائے-

 رانی نے راجا سے کہا کہ "رام" کے بجائے اُس کے بیٹے "بھرت" کو راجا بنائے اور "رام" کو چود ہ سال کے لیے بن واس (جنگل بدری) بھیج دے۔ راجا دسرتھ نے نہ چاہتے ہوئے بھی رانی کی دونوں خواہشیں پوری کیں۔ رام نے ایک فرماں بردار بیٹا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے باپ کے حُکم پر تخت و تاج چھوڑ کر جنگل کی راہ لی۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ رام نے چودہ سال جنگل میں گذارے۔ راون سے جنگ لڑی اور کامیاب ہوکر چودہ سال بعد واپس اپنے وطن لوٹا۔ اس موقع پر رام کی آمد کی خوشی میں دیپ جلائے گئے۔ اس تہوار کو دیپا والی کہا جاتا تھا۔ جو رفتہ رفتہ بگڑ کر دیوالی بن گئی۔ رام کی قربانی، فرماں برداری اور راون کو شکست دینے کی کہانی کو دسہرے کے تہوار کے دوران منایا جاتا ہے۔ تقسیم سے قبل اوراس کے بعد بھی کراچی میں رام لیلا کی کہانی اسٹیج پر پیش کی جاتی تھی۔ کراچی میں یہ کہانی رام باغ میں پیش کی جاتی تھی۔ جس میں رام کے بن واس (جنگل بدری) جانے اور واپسی تک کے تمام مراحل کو ڈرامائی شکل میں پیش کیا جاتا تھا۔-

اور اس اسٹیج ڈرامے کو دیکھنے لئے آنے والےتماشائیو ں سے رام باغ بھر جایا کرتا تھا -اب اس باغ کے اطراف فرنیچر مارکیٹ، جوسر، پنکھے، واشنگ مشینیں ٹھیک کرنے والے کاریگر اور دیگر اشیاء مثلاً ریڈی میڈ گارمنٹس- کپڑوں کی رنگ سازی اور فوم وغیرہ کا کاروبار پھل پھول رہا ہے -اور اس تمام گہما گہمی کے باوجودآج بھی پچھتّر سال گزرنے کے بعد بھی آرام باغ اپنی آغوش وا کیئے ہوئے ہر آنے جانے والے کو پناہ میں لینے کا منتظر نظر آتا ہے ۔-

تقسیم سے پہلے شہر میں تانگے چلتے ہیں جن میں سواری کے لئے آگے کی طرف اور پیچھے کی طرف نشست کا انتظام ہوتا ہے  اور آرام باغ کے اطراف کی سڑکوں پر ٹرام سروس جو انگریز بہادر نے بنوائ ہے ہر چند منٹ کے وقفہ سے شہریوں کے نقل و حمل کے کام آتی ہے اور اس وقت کے عروس البلاد کراچی کی گھوڑا گاڑیاں دوسرے شہروں سے اپنی خوبصورتی کے باعث ہمیشہ ممتاز آتی ہیں  آرام دہ نشستیں، سواریوں کے لئے آمنے سامنے بیٹھنے کا انتظام ،سر پر دھوپ سے بچنے کے لئے سایہ، گاڑی بان کی نسبتا اونچی نشست اور ساتھ ہی تیل سے جلنے والے دو لالٹین روشنیوں کے شہر کی انفرادیت تھے-جبکہ انگریزوں نے اپنے خاندانو کے لئے بہترین لگژری گھواڑا گاڑیوں کا انتظام کر رکھاہےجنکو وکٹوریہ کہا جاتا ہے-

-اسی باغ کے ایک قطعہ زمین پر تقسیم ہند کے بعد یہاں کے شہریوں نے نہائت دیدہ زیب مسجد بنوائ ہے جسے اب آرام باغ والی مسجد کہا جاتا ہے

جمعہ، 3 فروری، 2023

دنیا کا عظیم ورثہ بشکل عجوبہ -دیوار چین-


چین کے شمال میں واقع 21 ہزار کلومیٹر طویل عظیم دیوار (دیوارِ چین) دنیا کے عجائبات میں شامل ایک عجوبہ ہے دیوارِ چین کو سنہ 1987 میں یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ دنیا بھر سے جب سیاح بیجنگ پہنچتے ہیں تو وہاں سے بسیں بھر بھر کر وہ طویل دیوارِ چین کے مختلف اہم مقامات کا رُخ کرتے ہیں۔ سیاحوں میں سے چند عظیم دیوار کے اِس مقام پر بھی آتے ہیں جسے ’جیان کاؤ‘ کہا جاتا ہے۔دیوارِچین کا ’جیان کاؤ‘ نامی حصہ سبز پہاڑیوں کے اُوپر ایک کنگری دار خط کی طرح 20 کلومیٹر طویل علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ نیچے وادی سے یہ پہاڑ کی ہر چوٹی پر ایک سجاوٹی خط کی طرح نظر آتی ہے۔

دراصل یہ دیوار بنانے کی نوبت اس لئے پیش آئ کہ اس زمانے کے ملک چین کے دشمن بادشاہ آس پڑوس اپنی فوجیں لے کر آتے تھے اور چین کے باشندوں کا قتل کرتے اوربھاگ جاتے تھے-چنانچہ اس دیوار کی تعمیر سے دشمنوں سے بچاو کا انتظام کیا گیا -یہ دیوار حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت سے دو سو سال پہلے بنائ گئ

یہ بیجنگ کے شمال میں سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ لیکن یہ اپنے معروف ہمسایہ علاقوں، بڈالنگ اور میوٹیانیو، سے بالکل مختلف ہے۔اس علاقے میں نہ کوئی سووینیئر فروخت کرنے کی دکان ہے اور نہ ہی کافی کی مشہور دکان سٹاربکس ہے اور نہ ہی کوئی کیبل کار۔ نہ یہاں کوئی اس جگہ کی سیاحت کے لیے ٹکٹیں فروخت کرتا ہوا نظر آئے گا اور نہ ہی دیوار کے اِس حصے تک لے جانے والا کوئی ٹور گائیڈ۔-دیوارِ چین کے اس حصے تک جانے کے لیے آپ کو 45 منٹ تک پہاڑ پر چڑھنا ہو گا۔

دیوارِ چین کے جیان کاؤ والے حصے میں پہاڑ کے اوپر ایک سفید رِبن کی طرح نظر آنے والا 20 کلومیٹر لمبا کنگری دار خط۔ ہے۔ پندرھویں اور سولہویں صدی میں تعمیر ہونے والے دیوار کے اس حصے پر صدیوں تک زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔اس حصے سے منسلک سات کلومیٹر لمبی دیوار کافی خستہ حال ہو گئی تھی۔ طویل وقت گزرنے کی وجہ سے اس کے کئی مینار اینٹوں اور پتھروں کے ڈھیر اور کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے جبکہ دیوار کے کچھ حصے تو اس طرح منہدم ہو گئے یہ باقی بچ جانے والی دیوار پر بمشکل ایک شخص ہی چل سکتا تھا۔

درخت اور جھاڑیاں اس طرح اُگ آئیں تھیں کہ یہ دیوار فصیل کی بجائے ایک جنگل دکھائی دینے لگی تھی۔ اگرچہ یہ نظارہ بھی اچھا لگتا تھا لیکن یہ قدیم دیوار بہت خطرناک ہو چکی تھی۔ٹینیسیٹ چیریٹی فاؤنڈیشن، جس نے دیوارِ چین کے اس حصے کی بحالی کے کام کو سرانجام دیا ہے، کے پراجیکٹ مینیجر ما یاؤ کہتے ہیں کہ ’ہر برس ایک یا دو سیاح دیوار کے اس حصے پر چلتے ہوئے گر کر ہلاک ہوتے تھے۔ کچھ لوگ تو ہائیکنگ کرتے ہوئے گرتے اور ہلاک ہو جاتے۔ اور کچھ بجلی گرنے سے ہلاک ہوتے تھے۔‘انھوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی نے ہمیں ممکنہ حد تک اس دیوار کی روایتی حالت بحال کرنے میں مدد دی۔

مزید حادثات کو روکنے کے لیے اور جیان کاؤ حصے کی دیوار کو مزید خستہ حال ہونے سے روکنے کے لیے اس کی بحالی کا کام سنہ 2015 میں شروع ہوا۔ یہ کٹھن کام، جو 750 کلومیٹر طویل دیوار کے اس حصے پر پھیلا ہوا تھا، سنہ 2019 میں مکمل ہوا۔جب یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ رہا تھا تو اس وقت موسم بہار کے ایک روشن دن میں ما کے ساتھ اس دیوار کے کام پر بات چیت کرنے لیے نشست کا موقع ملا۔

ہماری جہاں تک بھی نظر جا رہی تھی ہمارے ارد گرد فصیل نما دیواریں ہمیں گھیرے ہوئے تھیں۔ ما نے مجھے بتایا کہ ’آپ یہاں ان پہاڑوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ یہاں بھاری بھاری مشینیں نہیں لائی جا سکتی ہیں۔ ہمیں یہاں انسانوں سے کام لینا پڑا۔ لیکن ہمیں ٹیکنالوجی کا استعمال انسانوں سے یہ کام زیادہ بہتر کروانے کے لیے کرنا چاہیے۔‘سنہ 2019 میں اس منصوبے پر جو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی اس میں خطے کی سہ جہتی (تھری ڈائی مینشنل) نقشہ بندی اور کمپیوٹر کا ایک ایلگورِدھم شامل تھا جو انجینیئروں کو یہ بتاتا تھا کہ انھیں کسی شگاف کی مرمت کے لیے وہاں اُگے ہوئے درخت کو نکالنا ہے یا صرف اس شگاف کو بھر دینا ہے یا اس حصے کو محفوظ طریقے سے بغیر کچھ کیے چھوڑ دینا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرے کہ کبھی ان دیواروں پر جنگلی نباتات اُگ آئی تھیں۔

  دیوارِ چین ایک بہت بڑی تعمیر ہے۔ اس کی تاریخ بھی اسی کی طرح عظیم ہے۔ اس کی تعمیر میں دو ہزار برس لگے، تیسری صدی قبل مسیح سے لے کر سترھویں صدی عیسوی تک، اسے سولہ مختلف شاہی خاندانوں نے تعمیر کیا۔اس دیوار کی تعمیر کے سب سے لمبے اور سب سے زیادہ مشہور حصے کی تعمیر مِنگ خاندان کے زمانے میں ہوئی جنھوں نے دیوار کی تعمیر (یا تعمیرِ نو) سنہ 1368 سے لے کر سنہ 1644 کے درمیان کے عرصے میں کی جس میں جیان کاؤ نامی حصہ بھی شامل ہےحکومت کے آثارِ قدیمہ کے ایک ادارے ’سٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف کلچرل ہیریٹیج اینڈ سٹیٹ بیورو آف سروے اینڈ میپنگ‘ نے بتایا کہ مِنگ دور کی دیوار 8851 کلومیٹر بشمول 6259 کلومیٹر طویل دیوار اور 359 لمبی خندقیں، 2232 کلومیٹر لمبی قدرتی رکاوٹیں اور 25 ہزار حفاظتی ٹاور اسی شاہی خاندان کے زمانے میں تعمیر ہوئے تھے۔

اس تعمیر میں ایک مقام سے لے کر دوسرے مقام بی تک صرف ایک دیوار کی تعمیر ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ اس میں سیڑھیاں، دوہری دیواریں، متوازی دیواریں اور دیواروں کی مہمیزیں بھی شامل تھیں۔آج مِنگ خاندان کی جانب سے تعمیر کردہ ایک تہائی فصیل کی تعمیر مٹ چکی ہے۔ 


تحریر و تلخیص سیّدہ زائرہ عابدی

جمعرات، 2 فروری، 2023

بابا بلھے شاہ-پنجابی زبان کا نابغہءروزگار صوفی شاعر


حضرت بابا بلھے شاہ کے والد کا نام سخی شاہ محمد درویش تھا جن کا خاندانی سلسلہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے جاملتا تھا۔ حضرت بلھے شاہ کے اجداد چوتھی صدی میں حلب سے ہجرت کرکے اُچ گیلانیاں میں آباد ہوگئے تھے۔ اُچ گیلانیاں بہاولپور کی تحصیل شجاع آباد کی سب تحصیل جلال پور پیر والا میں واقع ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ کے والد ایک متقی درویش تھے اور اچ گیلانیاں کی مسجد کے امام تھے ۔ روایت ہے کہ بعض برے حالات کی وجہ سے وہ اچ گیلانیاں سے نقل مکانی کر کے ملک وال چلے گئے۔ وہاں بھی ان کی درویشی اور صوفیانہ مسلک کی وجہ سے انہیں امام مسجد بنادیا گیا۔ انہوں نے وہاں مذہبی اور روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔ روایت ہے کہ موضع پانڈو کے کا ایک بڑا زمیندار پانڈو خان جس کی بیٹی ملک وال میں بیاہی ہوئی تھی وہ ملک وال میں حضرت بلھے شاہ کے والد سید سخی سے ملا۔ ان کی پرہیز گاری اور معزز شخصیت سے متاثر ہوکر ان سے درخواست کی کہ وہ موضع پانڈو کے مسجد کے امام بن جائیں کیونکہ وہاں کوئی سید نہیں ہے۔ پانڈو خاں کی اس فرمائش پر حضرت بلھے شاہ کے والد پانڈو کے میں بمعہ خاندان کے منتقل ہوگئے


کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھی جبکہ دوسرے یہ اصرار کرتے ہیں کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت بلھے شاہ کے مرشد حضرت شاہ عنایت نے ایک کتاب نافع السالکین مرتب کی تھی جس میں بلھے شاہ کے بارے میں قدرے تفصیلی نوٹ ہے جس کے مطابق حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھیں۔ 

حضرت عنایت شاہ سے حضرت بلھے شاہ کا تعلق بہت قریبی تھا اس لئے ان کے ورشن کو قبول کرنے میں کوئی تعرض نہیں ہوناچاہئے۔ ڈاکٹر لاجونتی راما کرشنا نے اپنی کتاب پنجابی صوفی شعرا میں اوسبورن کی بیان کردہ تواریخ پر اعتماد کیا ہے۔ یہی غلطی تاجونتی راما کرشنا نے بلھے شاہ پر اپنے مضمون میں کی ہے۔اس نے بھی غالباً اوسبورن کا مضمون نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے حضرت بلھے شاہ کی عمر کے تعین کے بارے میں اردو کے اہم محقق مولوی محمد شفیع کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے ایک پرانامسودہ تعویذات اور فالناموں وغیرہ کے بارے میں دیکھا ہے جس کی تحریر میں حضرت بلھے شاہ کی اجازت بھی شامل ہے

بلھے شاہ نے اپنی زندگی میں اورنگزیب عالمگیر کی تنگ نظری دیکھی، قصور کے حاکم حسین خان خویشگی اور اس کے مذہبی رہنما شہباز خان کی چیرہ دستیاں برداشت کیں۔ اپنے ہی مہربان مولوی محی الدین کی زبان سے قوالی کے خلاف فتویٰ سنا پھر ان کو پچھتا کر فتویٰ واپس لیتے دیکھا۔ شہر بدری کے احکام سنے، دوسروں کے ڈیروں پر زندگی کے مشکل دن بھی کاٹے۔لاہور اور قصور کو بار بار تباہ ہوتے دیکھا۔ سکھ جہادی بندہ بہادر کی تباہیوں کا تجربہ کیا اور پھر بندہ بہادر کے بیٹے کو اسی کی گود میں بٹھا کر اس کے ہاتھوں سے بوٹی بوٹی کروانے کی دردناک داستان سنی، اپنے زمانے کے ہر بادشاہ کے ہاتھوں سگے بھائیوں اور بھتیجوں کے قتل ہونے کا بار بار دہرایا جانے والا ڈرامہ دیکھا، بیٹے کو باپ اور بیٹی کو ماں کے خلاف سازشوں میں ملوث پایا اور زمانے کے اسی الٹ پلٹ ہوتے شب و روز میں 
زندگی کا راز پایا۔اور کہہ اٹھے
الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھید سجن دے پائے
کاں لگڑنوں مارن لگے، چڑیاں جرے ڈھائے
پیوپتراں اتفاق نہ کائی، دھیاں نال نہ مائے
(الٹے زمانے آگئے ہیں اور اسی سے ہم نے سجن یا زندگی کا بھید پایا ہے۔ زمانے اتنے بدلے ہیں کہ کوے الٹا شکاری پرندوں کو مار رہے ہیں اور چڑیوں نے شہبازوں کو فتح کر لیا ہے۔ باپ بیٹے میں اتفاق نہیں ہے اور مائیں بیٹیوں کا ساتھ چھوڑ گئی ہیں۔)وہ زندگی میں ہر جگہ کشمکش دیکھتے ہیں۔ وہ انسانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ جاری جنگ کو حلوائی کی دکان پر رکھی مٹائیوں کی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں 
لیکن بلھے شاہ اس کشمکش کے راز سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہتے ہیں۔
کتے رام داس کتے فتح محمد ایہوقدیمی شور
نپٹ گیا دوہاں دا جھگڑا وچوں نکل پیا کوئی ہور
ان کی جسمانی موت پر ملاؤں نے ان کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر کے ان کے امر ہونے پر مہر تصدیق کر دی۔ بلھے شاہ نے تو خود کہا تھا ’بلھے شاہ اسیں مرنا نا ہیں گور پیا کوئی ہور‘ (بلھے شاہ ہم مرنے والے نہیں، قبر میں کوئی اور پڑا ہے)۔
 جہاں تک حضرت بلھے شاہ کی جائے پیدائش کا تعلق ہے اس بارے میں دو ورشن ہیں۔ اوسبورن اور لاجونتی راما کرشنا کے نزدیک بلھے شاہ پانڈو کے میں پیدا ہوا تھا۔ پانڈو کے میں بلھے شاہ کے ڈیرے پر قابض 103 سالہ متولی درباری بیانی ہے کہ اس کے اجداد بلھے شاہ کے والد سخی شاہ کے مرید تھے وہ جھنگ کے رہنے والے تھے۔ان کی حضرت بلھے شاہ کے والد سے ملاقات ملک وال میں ہوئی تھی، وہ پشت در پشت بلھے شاہ کے خاندان سے منسلک رہے ہیں پہلے وہ قصور میں حضرت بلھے شاہ کے مزارکے مجاور تھے جہاں سے محکمہ اوقاف نے انہیں بے دخل کردیا تھا اور وہ وہاں سے پانڈو کے آگئے تھے۔اس نے بڑے وثوق سے بتایا کہ اس کی خاندانی روایت کے مطابق حضرت بلھے شاہ اس کی دو بہنوں کی ولادت پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ اس نے حضرت بلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کی کرامتوں کو پانڈو کے حوالے سے بیان کیا جبکہ یہی باتیں اُچ گیلانیاں کے حوالے سے بھی بیان کی جاتی ہیں-
۔پانڈو کے لاہور سے 28 کلو میٹردور قصور کی طرف جاتی ہوئی سڑک سے دائیں جانب چار پانچ کلو میٹر اندر واقع ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا حضرت بلھے شاہ کے زمانے میں ہوگا، آج بھی لوگ کھیتوں کی منڈیروں پر بیکار بیٹھے ہوتے ہیں یا نوجوان مویشی چراتے ہیں۔ گاﺅں کے وسط سے قدرے ہٹ کےحضرت بلھے شاہ کا موروثی گھر ہے جس کی شکل بدلی ہوئی ہے۔ایک بڑا سا طویلہ ہے جسے دو تین کمروںمیں تقسیم کیا گیا ہے اس میں 103 سالہ متولی درباری رہتا ہے جو بلھے شاہ کے خاندان کے بارے میں بہت سی کہانیاں بیان کرتا ہے جو اس نے بڑوں سے سنی تھیں۔
اللہ مغفرت فرمائے با با بلھے شاہ کی آمین


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر