جمعرات، 26 جنوری، 2023

علامہ اقبال بارگاہِ جناب سید ہ سلام اللہ علیہا میں

علامہ اقبال بارگاہِ جناب سید ہ سلام اللہ علیہا میں 

اپنی عقیدت کے پھول نچھاور  کرتے ہوئے چاہتے ہیں کہ مخدراتِ ملت اس عظیم ہستی کا محض زبانی اکرام و احترام کی حد تک ہی خود کو محدود نہ رکھیں۔ بلکہ 

خاتونِ جنت کی اتباع و پیروی سے اس دنیا کو جنت کا نمونہ بنائیں اور ملت و 

انسانیت کی تقدیر سنوارنے کااہم ترین کام بحسنِ خوبی انجام دیں۔ یہ اہم ترین کام جب ہی ہو گا جب مادرانِ ملت کی آغوش  میں امام حسین علیہ السلام جیسے فرزند پروان چڑھیں گے۔ اس گھرانے میں محمد الرسول اللہ ص جیسے باپ ہیں، علی ع جیسے شوہر اور


 حسنین ع جیسے فرزند ہیں۔  جیسی 

بیٹی اور فاطمۃ الزہرا  سلام اللہ علیہا  جیسی ماں ہیں۔ 


یہ پورا کا پورا گھرانا بارگاہ خداوند کی جانب سےمقدس و مطہر ہے۔ لہٰذا بار بار

 اس گھرکی چوکھٹ پر اپنی جبینِ نیاز جھکانے کو باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں علماء، شعراء اور مفکرین نے اہلبیت علیہ السلام کی مدح سرائی کی ہے لیکن علامہ  اقبال رحمۂ اللہ علیہ کو ان مدح سراحوں میں مخصوص امتیاز حاصل

ہے۔ جب جب علامہ اقبال اہلبیت کی بارگاہِ فیض بخش میں حاضر ہوئے ہیں۔ اُن کا تخلیقی شعور 

اور عقیدت و احترام کاجذبہ عروج پر تھا۔ نتیجتاً مدحتِ اہلبیت علیہ السلام کے

 حوالے سے اقبال کے یہاں مخصوص اندازِ بیان، پاکیزہ

 فکر، اور افراط و تفریط

سے مبرا جذبۂ عشق پایا جاتا ہے۔محمد و آلِ محمد ص کی توصیف و تعریف میں انہوں نے قرآنی معیارات اور

 تاریخی حقائق کوہمیشہ پیشِ نظر رکھا ہے۔ تعظیم و تکریم سے لبریز جذبات کے

 باوجود

 علامہ نے متوازن اصطلاحات اور شایانِ شان الفاظ کے ذریعے اپنی عقیدت کا 

اظہار کیا ہے۔ ثبوت کے طور ان اشعار کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے جو ’’رموز بےخودی‘‘ میں علامہ اقبال نے جناب زہراء کےشان میں کہے ہیں۔ رموز بےخودی

 میں علامہ اقبال نے خواتینِ ملت کے لیے ایک بڑا حصہ وقف کیا ہے۔ان میں سے پہلا باب ’’درمعنی ایں کی بقائے نوع از امومت است و حفظ و احتر

امامومتِ اسلام است‘‘ دوسرا باب ’’درمعنی ایںکہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراؑ اسوہ کاملہ ایست برائے نساءِ اسلام‘‘ تیسرا باب ’’خطاب بہ مخدراتِ اسلام‘‘ عنوان سے قائم کیا گیا ہے۔ ان تینوں ابواب کے مرتبط مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ

 پہلا اور تیسرا باب اُس دوسرے باب کی جانب راجع ہیں جس میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا  کے سیرت و کردار کے حوالے سےلطیف و عمیق نکتے بیان ہوئے ہیں۔ اس

 باب کے آغاز میں علامہ اقبال نے نہایت ہی ادب واحترام کے ساتھ جناب سیدہ  سے اپنی عقیدت کی وجہ بیان کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان 

کی فضیلتِ نسبی اور شرفِ نسبتی کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ اس باب کے آسان تجزیہ و

 تحلیل  کے لئے اس میں درج اشعار کو چند 

عنوانات کے تحت تقسیم کیا جا سکتا ہے۔


علا مہ اقبال رحمۂ اللہ فرماتے ہیں جناب زہراؑ کے حسب و نسب کی پاکیزگی اور

 عظمت کیلئےاتنا کافی ہے کہ وہ رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چہیتی بیٹی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ یہ نسبت محض قریبی رشتہ ہی

 تک محدود نہیں ہے بلکہ

جناب سیدہ اپنے والدِ گرامی رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مشن میں ان کی بہترین معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔ پدرانہ شفقت اپنی جگہ، رسول اللہ اپنی بیٹی کے تئیں جس عزت و تکریم اور انتہائی محبت و شفقت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اس کا

 بنیادی محرک حضرت فاطمہ کی عظیم شخصیت اور اسلام کے تئیں ان کی لامثال 

فداکاریاں تھیں۔ جناب فاطمہ   نے کم سنی میں ہی اپنے عظیم المرتبت باپ کی اولوالعزمانہ شخصیت کو درک کیا تھا۔ آپ کارِ رسالت کی حساسیت اور سنگینی سے بخوبی واقف تھیں۔ فاطمہ سلام اللہ علہا  جانتی

 تھیں کہ ا کے پدربزرگوار پروردگار عالم کی جانب سے مبعوث بہ رسالت ہیں۔ اس الہٰی مسؤلیت کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جو واحد راستہ ہے وہ فدا کاری کا

 راستہ ہے۔ 


یہی وجہ ہے کہ فاطمہ   نے اپنے بچپن کی تمام معصومانہ مشاغل کو تج دیا اور 

اوائل عمری سے ہی اپنےگفتار و کردار کے ذریعے اپنی جلالت و بزرگی کا مظہر

 بن گئیں۔آپ  سلام اللہ علہا  کا ہیولیٰ اور جسمانیپیکر طفلانہ خصائص سے مزّین تھا لیکن آپ کی معنویت

 کا یہ عالم تھا کہ طفلگی میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شانہ بشانہ 

تمام مصائب و آلام کا مقابلہ کیا۔ کفارِقریش کی حشر سامانیوں کا اپنی آنکھوں سے

 مشاہدہ کیا۔ اپنے شفیق والد کے تئیں مخالفینِ اسلام کی ایذا رسانیوں پر انتہائی صبر کیا۔ شعبِ ابی طالب کے تلخ ترین تین سال گرسنگی و تشنگی کے عالم میں گزارے۔ مگر حرفِ اف تک اپنی زبانِ مبارک جاری نہ کیا۔ 


جب کبھی محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھکے ماندے گھر لوٹ آتے تو

 حضرت فاطمہ علیہاالسلام اپنے ننھے منھے ہاتھوں سے وہی کام انجام دیتیں جو کام مادرِ رسول ص جناب آمنہ سلام للہ علیہا کے ہاتھوں انجام پاتا اگر وہ ان ایام میں بقیدِ حیات ہوتیں۔بارہا ایسا ہوتا رہاکہ پیغمبر گرامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گرد آلود اور

 مجروح حالت میں جب گھرتشریف لے آتے تو انکی یہ کم سن بیٹی زخموں پر مرہم لگاتی گرد و غبار کو صاف کرتیں جودشمنانِ پیغمبر ان پر وقتاً فوقتاً ڈال دیتے۔ اس

 پر مستزاد یہ کہ نہایت ہی کم سن بیٹی اپنے پدرِ بزرگوار کو معصومانہ لہجے میں

 کچھ یوں دلاسہ دیتی کہ جیسے فاطمہ سلام اللہ علیہاکے روپ میں  بی بی آمنہ متکلم ہوں ۔ بالفاظِ دیگر کارِ آمنہ بدست فاطمہ انجام پایا تو رسولِ خدا نے اپنی لختِ جگر

 فاطمہ کو ’’ام ابیھا‘‘ یعنی ’’اپنے باپ کی ماں‘‘ کے خطاب سے نوازا۔


اس کے علاوہ رسولِ رحمت دوعالم  رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیش

 نظر وہ تمام قربانیاں بھی تھیں جو اسلام کی حفاظت کے لیے مستقبلِ قریب میں 

حضرت زہراء سلام اللہ علہا بالواسطہ یا بلاواسطہ دینے والی تھی۔ درج ذیل شعر کو اسلام کی ابتدائی تاریخ کے پسِ منظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو باپ بیٹی کے مقدس رشتہ کے پشت پر ایک معنوی تمسک کا بھی کسی حد تک ادراک ہو سکتا ہے۔شاہ ولایت ع اور خاتون جنت   سلام اللہ علہا کی ازدواجی زندگی ہر جہت سے رسولِ کریم ص کے اس قول کی عملی تائید

 ہے کہ ’’اگر علی ع نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی کفو نہ ہوتا‘‘۔ جس شان اور عنوان سے حضرت فاطمہ  نے بحیثیتِ دخترِ رسول فقید المثال کردار پیش کیا اُسی شان

 سے انہوں نے اپنے شوہر حضرت علی علیہ السلام کےساتھ ایک مثالی زوجہ کا رول 

سفینہءنوح اورحضرت نوح علیہ السلام

حضرت نوح علیہ السلام ایک روزاپنی نالائق بیوی کے پاس پہنچے جو اس وقت تندور پر روٹیاں پکا رہی تھی اور اس کو ایمان  لانے کی ترغیب دینے لگے ان کی بیوی نے کہا ہر وقت کہتے رہتے ہو سیلاب آئے گا سیلاب آئے گا یہ تو بتا و کہ اتنا پانی کہاں سے آ ئے گا اس وقت حضرت نوح علیہ السلام ن اس کے تندور کی جانب اشارہ کر کے کہا  یہاں سے  آئے گا  اور پھر جلد ہی اسی بیوی کے تندور سے سیلاب کی ابتدا ء ہو گئی تھی، 

حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی تین سو گز لمبی، 50 گز چوڑی اور تیس گز اونچ
جو 6 ماہ 8 دن تک پانی پر تیرتی رہی اور 10 محرم الحرام کو جودی پہاڑ پر ٹھہری اور پھر آپؑ اپنی قوم کے ساتھ نیچے اترے۔ مسلم محققین کے مطابق کشتی کے رکنے کا مقام ‘جودی پہاڑتھ، اس کشتی کی تین منزلیں ہیں جو کئی میٹر برف کے نیچے دبی رہی۔مورخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب پانی کم ہوا تو حضرتِ نوح نے خسران شہر آباد فرمایا اور مسجد تعمیر کی جسے ’سمانین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے،

 واضح رہے کہ حضرتِ نوح کا مزارِ مبارک لبنان میں واقع ہے  حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر آیا، جس میں حضرت نوح علیہ السلام نے ایک کشتی بنوا کر صالح انسانوں اور جانوروں کو سوار کیا۔ اس طوفان میں زمین مسلسل پانی اگلتی رہی اور آسمان مسلسل بارش برساتا رہا۔ روایات اور سائنسی شواہد کی رو سے یہ طوفان بنیادی طور پر عراق کے علاقے مابین النھرین (میسوپوٹیمیا) میں آیا تھا۔ اس کا ذکر تورات، انجیل اور قرآن تینوں میں آتا ہے۔ کشتی نوح علیہ السلام جس میں حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے خاندان سمیت طوفان سے پناہ لی تھی۔ مختلف مذہبی روایات اور قرآن حکیم (29 : 14) کے مطابق جب آپ کی عمر ساڑھے نو سو برس کی ہو گئی ۔

 اور آپ کی امت نا فرمانیاں کر کے عذاب کی مستحق ٹھہری تو اللہ نے آپ کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا کہ میں دنیا کو طوفان سے تباہ کرنا چاہتا ہوں اور انھیں یہ حکم دیا کہ اپنے خاندان اور مویشیوں کو بچانے کی خاطر ایک کشتی تعمیر کر لیں۔ اس پر آبادی سے بہت دور آپ تشریف لے گئے۔ تختے اور میخیں فراہم کیں اور کشتی بنانے لگے۔ ۔ آخر ایک روز اللہ کے حکم سے التنور کے مقام سے پانی ابلنا شروع ہوا اور اور بہت جلد روئے زمین پر پھیل گیا۔ نوح اور ان کے گھر والے اللہ کا نام لے کر کشتی میں بیٹھ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام قوم تباہ ہو گئی۔ سوائے کشتی والوں کے کہ انھوں نے نسل انسانی کا دوبارہ آغاز کرنا تھا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ نوح کو حکم ملا۔ ”ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بنا۔ اور ان کے بارے میں مجھے کچھ نہ کہہ جو ظالم ہیں غرق کیے جائیں گے ۔ اور وہ کشتی بنانے لگا) (سورة ہود: 37) بائبل میں اس کشتی کو "آرک“ کہا گیا۔

 ڈاکٹر ملکی لکھتے ہیں کہ اس کشتی کی تیاری میں ایک سو برس صرف ہوئے تھے۔ کشتی کا طول 300 ہاتھ, عرض 50 ہاتھ اور اونچائی 30 ہاتھ تھی۔ اور اگر ایک ہاتھ کی لمبائی 22 انچ مانی جائے تو یہ کشتی 547 فٹ لمبی 91 فٹ چوڑی اور 47 فٹ اونچی تھی۔ اس کشتی میں  حضرت نوح علیہ السّلام اور ان کا خاندان سوار ہوئے حیوانات بھی جمع کیے گئے تھے۔ اس کے بعد طوفان شروع ہوا اور آن واحد میں تمام علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، حتی کہ پہاڑیاں بھی پانی میں چھپ گئیں۔ یہ طوفان چالیس دن تک برابر جاری رہا۔ کئی ماہ تک کشتی سمندر میں بہتی رہی اور آخر سات ماہ بعد کوہ ارارات سے جالگی۔ قرآن مجید میں کوہ جودی درج ہے۔ (ہود: 44) مفسرین کے مطابق شام میں جودی نام کا جزیرہ واقع ہے۔ جہاں یہ پہاڑموجود ہیں۔ اکثر علما نے کوہ جودی ہی کو ارارات کہا ہےقدیم سمیری داستانوں میں جو ان کی مٹی کی تختیوں پر رقم کی گئی تھیں، جلج موس کا اور اس کے طوفان کا ذکر ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ کشتی کی چھ منزلیں اور سات درجے تھے۔ اور ہر منزل کے نوحصے اور یہ کشتی کوہ نصر پر جالگی۔ کسدی روایات میں ہے کہ ہیسدار جو اکیلا طوفان سے بچ گیا بیان کرتا ہے کہ ہیاد یوتا مجھے دکھائی دیا۔ اس نے مجھے خبر دی ۔ بنی آدم کو اس کے گناہوں کے سبب تباہ برباد کرنے کی۔ سو تو اتنی لمبی کشتی بنا۔ اپنا اناج اسباب دولت اور باندیاں حیوانات بھی اس میں جمع کر لے اس کا دروازہ میں خور بند کر دوں گا۔ قدیم مصریوں کے نزدیک نوح کی کشتی کا نام ”گل“ تھا جو لکڑی کا ایک بہت بڑا تیرتا ہوا مکان تھا۔  ایک صندوق اس کی حفاظت کے لیے مہیا کیا گیا تھا اور وہ جس وقت اس میں داخل ہو رہے تھے تو تمام جانور چرند پرند بھاگتے ہوئے آئے اور اس میں داخل ہو گئے اور جب طوفان تھم گیا تو کشتی پار ناسس کی چوٹی سے جالگی۔ قدیم پاک و ہند میں ہنود روایات ملتی ہیں۔ مہا بھارت میں طوفان کے ہیرو رشی منو کا ذکر ہے۔ ایک مچھلی نے اسے طوفان سے آگاہی دی۔ اور کشتی بنانے کو کہا۔ طوفان کے بعد کشتی عمارت کی چوٹی سے جا لگی۔ تب منو کو پتہ چلا کہ مچھلی کے روپ میں برہما اس سے مخاطب تھا۔ ایرانی روایات میں بھی ایک طوفان اور ایک جہاز کا ذکر ہے۔ ہر میس کو زیوس دیوتا نے خوفناک بارش کی اطلاع دی تب زیوس نے اپنے ایک بوڑھے شخص کو شاہ بلوط کی لکڑی سے ایک جہاز تیار کرنے اور اس میں وافر مقدار میں اشیائے خوردنی جمع کرنے کا حکم دیا۔ جب اس مرد ضعیف نے اور اس کی بیوی پیرو نے جہاز میں داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا تو زیوس نے طوفان برپا کر دیا۔ چالیس رات مینہ برسا۔ آخرکشی پر ناک کی چوٹیوں سے آن گئی۔ امریکی قبائل نہوا میں بھی بابلی، سیری داستانوں سے ملتی جلتی داستانیں موجود ہیں۔ ان کے دیوتا ططلان نے نتا نامی ایک شخص کو صنوبر کا درخت کھوکھلا کر کے ایک کشتی بنانے کو کہا اور یہ کشتی آرک تھی۔ اس کے آکر رکنے کا محل وقوع ارارات زیادہ قرین قیاس ہے۔ کیونکہ سلسلہ کوہ ارارات کے مشرق کی طرف واقع پہاڑوں سے صاف پا چلتا ہے کہ کسی وقت یہ علاقہ پانی کے نیچے ڈوبا ہوا تھا۔ 

مشہور مورخ ابن خلدون کے خیال کے مطابق یہ طوفان عراق کے علاقوں میں آیا تھا اور اس کا پانی صرف عقب حلوان تک پہنچا تھا۔ آج بھی لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے کوہ ارارات پر چڑھ کر کشتی نوح کا پتا چلایا جائے۔ 1829ء میں جرمنی کے پروفیسر پٹ نے سب سے پہلے آراراط پر چڑھ کر دیکھا تو چوٹی کو گول چبوترے کی مانند پایا جو ٹھوس داگی برف سے دبا ہوا تھا۔ ایک ہوا باز کا کہنا ہے کہ اسے برف کے نیچے بہت دور ایک سیاہ دھبہ دکھائی دیا ہے اور شاید اس میں ”آرک"   قوم نوح پر عذاب جب سب لوگ کشتی میں بیٹھ گئے تو خدا کے حکم سے زمین کے سوتے پھوٹ پڑے اس کے ساتھ ہی موسلا دھار بارش شروع ہو گئی، زمین پر پانی بڑھنے لگا اور نوح علیہ السلام کی کشتی پانی میں تیرنے لگی، پانی بڑھا تو نوح علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کا بیٹا پانی میں ڈوبنے لگا ہے آپ نے اسے آواز دی کہ اب بھی آجاؤ تاکہ خدا کے عذاب سے بچ سکو، مگر اس نے جواب دیا تم جاؤ، میں کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنی جان بچالوں گا۔ پانی تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ دنیا کے نافرمان اور سرکش لوگ اس سیلاب میں فنا کی گھاٹ اتر گئے اور نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑی کی چوٹی پر جا کر ٹھہر گئی۔ اب خدا کے حکم سے سیلاب تھم گیا اور زمین نے سارا پانی اپنے اندر جذب کر لیا۔ اب خدا نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ کشتی سے اتر جاؤ، تجھ پر اور وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائے ہیں ان پر ہماری رحمتیں برکتیں نازل ہوں گی۔ چوں کہ اس طوفان میں دنیا کے تمام لوگ ہی فنا ہو گئے تھے، صرف چند لوگ ہی زندہ بچے تھے، اس لیے نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے، ان ہی کی اولاد اس وقت دنیا میں آباد ہے۔ جودی کی پہاڑی بحیرہ مردار (بحر لوط) کے مغرب میں اسرائیل میں واقع ہے۔ آج کل بحر مردار کے اس علاقے میں سالانہ بارش 2 سے 4 انچ ہوتی ہے۔ لیکن یہ علاقہ دوسرے سمندروں کی سطح سے 1412 فٹ نیچے ہے۔ اگر آج بھی اس علاقے میں شدید ترین بارش ہو جائے تو پانی کے نکل بہنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور یہاں ایک عظیم الشان جھیل بن سکتی ہے۔۔ نوح علیہ السلام کی امت پر جس روز عذابِ طوفان نازل ہوا ہے پہلی رجب تھی، بارش بھی ہو رہی تھی اور زمین سے بھی پانی ابل رہا تھا۔ بحکم رب العٰلمین نوح علیہ السلام نے ایک کشتی تیار فرمائی  اس کشتی پر آدمی سوار تھے ( آدم و نوح علیہم السلام)۔ نوح علیہ السلام نے اس کشتی پر آدم علیہ السلام کا تابوت رکھ لیا تھا اور اس کے ایک جانب مرد اور دوسری جانب عورتیں بیٹھی تھیں۔ پانی اس پہاڑ سے جو سب سے بلند تھا 3٠ ہاتھ اونچا ہوگیاتھا۔ دسویں محرم کو چھ (٦) ماہ کے بعد سفینہ مبارکہ جودی پہاڑ پر ٹہرا۔ سب لوگ پہاڑ سے اترے اور پہلا شہر جو بسایا اس کا ”سوق الثمانین” نام رکھا۔ یہ بستی جبل نہاوند کے قریب متصل ”موصل” شہر (عراق) میں واقع ہے۔ اس طوفان میں دو عمارتیں مثل گنبد ومنارہ باقی رہ گئی تھیں جنہیں کچھ نقصان نہ پہنچا۔ اس وقت روئے زمین پر سوائے ان (دو عمارتوں) کے اور عمارت نہ تھی۔ امیر امومنین علی کرم اللہ تعالٰیٰ وجہہ الکریم سے انہیں عمارتوں کی نسبت منقول ہے۔ ”بنی الھرمان النسر فی سرطان” یعنی دونوں عمارتیں اس وقت بنائی گئیں جب ”ستارہ نسر” نے ”برج سرطان” میں تحویل کی تھی، نسر دوستارے ہیں: ”نسر واقع” و ”نسر طائر” اور جب مطلق بولتے ہیں تو اس سے ”نسر واقع” مراد ہوتا ہے۔ ان کے دروازے پر ایک گدھ (نما) کی تصویر ہے اور اس کے پنجے میں گنگچہ (گرگٹ، کھنکھجورہ، بچھو) ہے جس سے تاریخ تعمیر کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ کہ جب ”نسر واقع برج سرطان میں آیا اس وقت یہ عمارت بنی جس کے حساب سے (12٦4٠) بارہ ہزار چھ سو چالیس سال ساڑے آٹھ مہینے ہوتے ہیں۔ ستارہ (نسر واقع) (64) چونسٹھ برس قمری (7) مہینے، (2٧)ستائیس دن میں ایک درجہ طے کرتا ہے اور اب (ستارہ نسر واقع) برج جدی کے سولہویں (16) درجہ میں ہے تو جب سے چھ (6) برج ساڑھے پندرہ درجے سے زائد طے کرگیا۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی (7770 سال) پونے چھ ہزار برس پہلے کے بنے ہوئے ہیں کہ ان کی (سیدنا آدم علیہ السلام) آفرینش کو (7000) سات ہزار برس سے کچھ زائد ہوئے لاجرم یہ قوم جن کی تعمیر ہے کہ پیدائش آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے (٦٠٠٠٠)ساٹھ ہزار برس زمین پر رہ چکی ہے ”بنی الھرمان النسر فی سرطان” یعنی دونوں عمارتیں اس وقت بنائی گئیں جب ”ستارہ نسر” نے ”برج سرطان” میں تحویل کی تھی، نسر دوستارے ہیں: ”نسر واقع” و ”نسر طائر” اور جب مطلق بولتے ہیں تو اس سے ”نسر واقع” مراد ہوتا ہے۔ ان کے دروازے پر ایک گدھ (نما) کی تصویر ہے اور اس کے پنجے میں گنگچہ (گرگٹ، کھنکھجورہ، بچھو) ہے جس سے تاریخ تعمیر کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ کہ جب ”نسر واقع برج سرطان میں آیا اس وقت یہ عمارت بنی جس کے حساب سے (12٦4٠) بارہ ہزار چھ سو چالیس سال ساڑے آٹھ مہینے ہوتے ہیں۔ ستارہ (نسر واقع) (64) چونسٹھ برس قمری (7) مہینے، (2٧)ستائیس دن میں ایک درجہ طے کرتا ہے اور اب (ستارہ نسر واقع) برج جدی کے سولہویں (16) درجہ میں ہے تو جب سے چھ (6) برج ساڑھے پندرہ درجے سے زائد طے کرگیا۔

منگل، 24 جنوری، 2023

باغ ابن قاسم -کراچی کے ساحل کا جھومر


کسی بھی متمدّن شہر کے لئے باغوں کا وجود کتنا ضروری ہے -یہ جاننے کے لئے ہم زمانہ قدیم میں سفر کرتےہیں تو ہمیں معلّق باغوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے-جبکہ مغل شہنشاہوں نے بھی اپنے اپنے زوق کے مطابق باغ بنوائے جن میں لاہور کا شالا مار باغ آج بھی شہریوں کی تفریح طبع کا ضامن ہے

اب ہم کراچی کے باغ ابن قاسم کا تزکرہ کرتے ہیں 

روشنیوں کے شہر کراچی میں ہر رنگ و نسل کے لوگ بستے ہیں۔ یہاں کا سمندر اور سمندری حیات پوری دنیا میں مشہور ہے‘ کراچی کی ایک خصوصیت اس کا بحیرہ ارب کا طویل ساحل بھی ہے۔کراچی کے اس ساحل کی اہمیت کے پیش نظر یہاں ایک سو تیس ایکڑ اراضی پر باغ ابن قاسم کے نام سے پاکستان کا ایک بڑا پارک واقع ہےجو اپنی وسعت‘ اپنی خوبصورتی اور ڈیزائن کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس وسیع و عریض تفریح گاہ کا نام صوبہ سندھ میں اسلام کی روشنی پھیلانے والے محمد بن قاسم کے نام پر باغ ابن قاسم رکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا پارک بھی بنایا گیا تھا جہاں شہری آکر اس راہداری سے سمندر کا نظارہ کیا کرتے تھے۔یہ کراچی کے ایک مخیر شخص جہانگیر ایچ کوٹھاری کی کوششوں کا نتیجہ تھا - اس پارک کا سنگ بنیاد عزت مآب لیڈی لائڈ(Lady Lloyd)نے رکھا تھا۔ اس پارک پر ہونے والے اخراجات جو تین لاکھ روپے تھے کراچی کے شہریوں نے جہانگیر ایچ کوٹھاری کے توسط سے جمع کیے جو کراچی کے شہریوں کا اپنے شہر سے محبت کا ایک جذبہ اور تحفہ تھا۔ ہر ایکسی لینسی لیڈی لائڈ کو اس کا باقاعدہ افتتاح کیا اور شہریوں کے لیے کھولنے کا اعلان کیا۔ 85سال تک یہی پارک شہریوں کے استعمال میں رہا اور ملک کے کونے کونے سے کراچی آنے والے لوگ کلفٹن میں واقع یہ پارک اور ساحل کا حسین منظر دیکھنے کے لیے ضرور آتے۔کراچی میں بننے والی تقریباً تمام ہی فلموں میں کلفٹن میں واقع اس ڈوم کو کراچی کی پہچان کے طور پر فلمایا گیا۔ فلموں کے کئی گانے اسی پارک میں شوٹ کیے گئے جس سے فلم دیکھنے والے کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ اس فلم کی شوٹنگ کراچی میں کی گئی ہے۔

2005ء میں بلدیہ عظمیٰ کراچی نے فیصلہ کیا کہ اس پارک کو وسعت دی جائے اور یہاں اس کی تعمیرات سے ہم آہنگ ایک وسیع و عریض پارک تعمیر کیا جائے لہٰذا اس مقام کو قابل دید اور پرسکون مقام بنانے کے لیے 2006ء میں اس پارک کی تعمیر کا آغاز کیا ،باغ ابن قاسم کی 1920ء کی تعمیرات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پارک کا نقشہ تیار کیا گیا۔

باغ ابن قاسم -جہاں یہ خوبصورت پارک تعمیر کیا گیا ہے یہاں سینکڑوں کی تعداد میں نہ صرف تجاوزات تھیں بلکہ نام نہاد بڑے بڑے لوگوں نے یہاں کی قطعہ اراضی کو اپنے نام الاٹ بھی کرا  رکھا تھا۔ یوں پارک کا مجموعی رقبہ ایک سو تیس ایکڑ سے کم ہو کر صرف 56ایکڑ رہ گیا تھا۔ اس سلسلے میں سندھ کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان نے پارک کی تعمیر میں اپنی بے انتہا دلچسپی کا اظہار کیا اور تجاوزات کو ختم کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کیا اور مختلف اوقات میں اس پارک کا دورہ کر کے متعلقہ افسران کو ہدایت دی اور تعمیر میں حائل رکاوٹوں کو اپنی ذاتی کوششوں سے ختم کیا‘ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ سابق گورنر سندھ نے اس پاک کی تعمیر کے دوران 63مرتبہ یہاں کا دورہ کیا۔ دنیا کے چالیس سے زیادہ ملکوں کے سفارتکار اس پارک کے تعمیراتی کام کو دیکھنے کے لیے پارک آئے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف 3مرتبہ اس پارک کے کاموں کے معائنہ کے لیے از خود تشریف لائے۔

450سے زائد تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیر کا کام بھی جاری رکھا گیا اور تیزی سے تکمیل کے لیے یہاں24گھنٹے کام کیا گیا‘ یوں ایک سال کی مدت میں یہ پارک تکمیل کے مراحل کو پہنچا۔ پورے باغ میں جہاں جہاں پتھر کا کام کیا گیا وہ سب یہاں پر موجود قدیم کوٹھاری پریڈ کے ڈیزائن اور رنگ کے مطابق ہے۔

پارک میں دونوں جانب گھاس کے بڑے بڑے قطعات بنائے گئے ‘ کناروں پر بیٹھنے کے لیے نشستیں رکھی گئیں‘ ان نشستوں کی کل تعداد (3000) تین ہزار ہے اس کے علاوہ باغ  میں 20پتھر کی کینوپیز(چھتریاں) بھی ایک دلکش منظر پیش کرتی ہیں۔ رات کے وقت معقول روشنی کے لیے پورے باغ میں 1500برقی قمقمے ‘24لائٹ ٹاورز اور ارینہ لائٹس بھی لائی گئیں جن سے پورا باغ رات کے وقت دن کا منظر پیش کرتا ہے۔ باغ ابن قاسم میں صفائی کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے‘ پورے باغ میں 3000ڈسٹ بن نصب ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے ساحلی تفریح پارک باغ ابن قاسم میں بچوں کی تفریح کے لیے دو ایکڑ رقبے پر امیوزمنٹ پارک تعمیر ہے جس میں جدید اور محفوظ جھولے اور دوسری سہولتیں میسر ہیں۔ باغ ابن قاسم میں قدرتی ماحول کو مستقل بنیادوں پر صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے 9000کرونا کارپس کے درخت اور یوفوربیا کے 3000پودے لگائے گئے۔ موسم بہار کے لیے سیزنل فلاورز کی کیاریاں بنائی گئی ہیں۔ اس پارک کی شان و شوکت کو دوبالا کرنے کے لیے تھائی لینڈ سے منگائے گئے بوگن ویلا کے ایسے پودے جن کی عمر 50سال سے زائد ہے لگائے گئے۔

کئی درخت ایسے بھی ہیں جن میں گرافٹنگ کی گئی اب ایک درخت کئی کئی رنگوں کے پھول دیتا ہے۔ اس باغ میں لگائے گئے مختلف اقسام کے درآمد شدہ ایسے پودے جنہیں مختلف جانوروں کی شکل میں تراشا گیا، اس پارک کو سیوریج کے ٹریٹڈ واٹر سے سیراب کیا جاتا ہے جس سے شہر کے میٹھے پانی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بزرگ شہریوں اور ایسے لوگ جو زیادہ چلنے پھرنے کے قابل نہ ہوں اُن کے لیے ریمپ بنائے گئے ہیں۔ یہاں پر 24باتھ رومز ہیں جہاں پر چین سے درآمد شدہ 18واش بیسن ‘ہینڈ ڈرائرز اور سینٹری استعمال کی گئی ہے۔

باغ ابن قاسم میں دو بڑی مساجد ‘ ایک قدیم مندر اور حضرت عبداللہ شاہ غازی کا مزار آنے والے شہریوں کی تسکین کا باعث ہے اور اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی مکمل سہولت موجود ہے۔ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے اردگرد سے بھی تجاوزات کا خاتمہ کر کے اس کے اطراف خوبصورت دیوار تعمیر کی گئی ہے۔جبکہ بحریہ ٹائون کے تعاون سے مزار کی تعمیر کا کام جاری ہے جس پر 50کروڑ روپے لاگت کا تخمینہ ہے۔پارک میں 1960ء سے تعمیر شدہ مچھلی گھر بھی واقع ہے جہاں مختلف اقسام کی سمندری مخلوق کو شیشے کے جاروں میں رکھا گیا ہے ۔

پارک کی تعمیر سے لے کر تاحال یہ مچھلی گھر تزئین و آرائش نہ ہونے کے باعث بند تھا لیکن اب یہ فیصلہ ہواکہ اس مچھلی گھر کو فوری تعمیر کیا جائے۔پارک دیکھتے ہی دیکھتے صحرا سے گلشن میں تبدیل ہوا۔ یہاں روشنیوں کی چمک‘ لہلہاتے درخت‘ حد نظر بچھ اہوا قالین نما سبزہ‘ خوبصورت آہنی دروازہ‘ بہترین واش روم‘ دیدہ زیب پاتھ‘ مہکتے پھول‘ چٹکتی کلیاں ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتی ہیں اور انسان اس باغ کو دیکھ کر بے ساختہ ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ اٹھتا ہے۔

باغ ابن قاسم میں بیک وقت 3لاکھ افراد کو تفریح کی سہولتیں میسر ہیں۔ پارک کے چاروں جانب کار پارکنگ کی سہولت ہے۔ پارک کی تعمیر کا غاز ہوا تو اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اس بات کا اہتمام کیا کہ پارک کی تعمیر پر روز تصاویر اور ویڈیو بنائی جائے تاکہ تمام مراحل کا ریکارڈز رکھا جا سکے۔ پارک کی تکمیل تک اس پارک کی 12ہزار تصاویر اور ویڈیو کیسٹ بنائی گئیں۔ افتتاح کے موقع پر اس پارک سے متعلق دستاویزی فلم اور ایک خوبصورت اور دلکش مجلّہ شائع کیا گیا۔

یہ پارک پورے پاکستان کے لوگوں کے لیے سب سے بڑی تفریح گاہ ہے ۔ اس پارک کی بیرونی دیوار اس انداز سے تعمیر کی گئی ہے کہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی آپ پورے پارک کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہ سمندر کی جانب کراچی کا گیٹ وے ہے اور کراچی کے ساحل کی خوبصورت کو اجاگر کرنے میں انتہائی اہم ہے ‘ اس باغ نے یقینا ساحل سمندر کے اس حصے کو چار چاند لگا دیے ہیں اور یہاں تفریح کی غرض سے آنے والوں کو اب پہلے سے کہیں زیادہ لطف محسوس ہوتا ہے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر