پیر، 19 مئی، 2025

جب مجھے چندرا وتی سے محبت ہوئ حصہ اول

 


   قدرت اللہ  شہاب  کوزمانہ طالب علمی میں لاہور میں ایک ہندو لڑکی سے محبت ہو گئی تھی، جسے وہ تاحیات بھُلا نہ پائے۔ شہاب نامہ میں بھی اس لڑکی کا ذکر ’چندراوتی‘ کے نام سے درج ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ان کے پہلے افسانے کا نام بھی ’چندراوتی‘ ہے۔ انہوں نے ’چندراوتی‘ اختر شیرانی کو بھجوایا جو انہوں اپنے رسالے ’رومان‘ میں شائع کیا۔ 1938 میں شائع ہونے والا افسانہ ’چندراوتی‘ قدرت اللہ شہاب کی کسی بھی کتاب شامل نہیں۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’افسانہ لکھتے لکھتے میں کئی بار رویا کئی بار ہنسا، جب میں افسانہ لکھ رہا تھا تو پروفیسر ڈکنسن کلاس لے کر حسب معمول کالج کے لان سے گزرے تو مجھے دیکھ کر رک گئے اور بولے:

“Hello, roosting alone? Where is your golden girl?”

میری آواز مچھلی کے کانٹے کی طرح گلے میں پھنس گئی اور میں نے سسکیاں لے کر کہا:

“Sir. She has reverted to the gold mine.”

چندراوتی لیڈی میکلیگن کالج کی سٹوڈنٹ تھی اور موہنی روڈ پر آشرم میں رہتی تھی۔ دونوں کی پہلی ملاقات پنجاب پبلک لائبریری میں ہوئی، شہاب نے اپنے نام جاری کروائی کتاب بصد اصرار اسے دیدی پھر کیا تھا کہ وہ گورنمنٹ کالج آنے جانے لگی، شہاب کلاس چھوڑ کر اس کے ساتھ لان میں بیٹھ جاتے اور اسے بڑی محنت سے پڑھاتے رہتے تھے۔ایک دن دونوں لان میں بیٹھے تھے کہ پروفیسر ڈکنسن قریب سے گزرے تو شہاب کو دیکھ کر رک گئے اور مسکرا کر بولے۔ ’تمہارے لیے یہی مناسب مقام ہے کلاس روم میں تو ایک بھی ایسی گولڈن گرل نہیں۔‘چندراوتی نے نہ جہانگیر کا مقبرہ دیکھا تھا، نہ نورجہاں کے مزار پر گئی تھی اور نہ ہی شالیمار باغ کی سیر کی تھی۔ شہاب ہر اتوار سائیکل کرائے پر لیتے اور اسے کیریر پر بٹھا کے تاریخی مقامات کی سیر کرا لاتے۔ وہ بھی آشرم سے آلو کی بھجیا اور پوریاں بنا لاتی پھر کہیں نہ کہیں بیٹھ کر پکنک منا لی جاتی تھی۔شہاب نے کرائے سے بچنے کے لیے اپنی سائیکل خریدنے کا تہیہ کیا اور ٹیوشن پڑھا پڑھا کر 72 روپے کی فلپس سائیکل خرید لی تھی۔ لاہور میں کسی ٹریفک سارجنٹ نے بھی اتنی گشت نہیں کی ہوگی جتنی ان دونوں نے کی۔ ایک اتوار چندراوتی آشرم میں اداس بیٹھی تھی اور اپنی ماں کے لیے فکر مند تھی۔ شہاب نے اسے کیریر پر بٹھایا اور ایمن آباد کی راہ لی، 27 میل کا فاصلہ باتوں ہی باتوں میں کٹ گیا۔


ایمن آباد کی تنگ و تاریک گلی میں چھوٹا سا بوسیدہ گھر جہاں چندراوتی کی بیوہ ماں رہتی تھی جو ایک آڑھتی کے ہاں برتن مانجھنے کپڑے دھونے اور گھر کی صفائی پر مامور تھی۔ جگدیش چندر اسے معقول تنخواہ دیتا تھا اس وجہ سے کہ اس کی بیٹی خوبصورت تھی۔ جب کبھی وہ لاہور آتا تو چندراوتی کو اس کی ماں کی خیر خیریت بتانے آشرم ضرور جاتا تھا۔ جب کبھی چندراوتی آلو کی بھجیا اور پوریوں کے ساتھ مٹھائی لاتی تھی تو شہاب سمجھ جاتے تھے کہ جگدیش چندر آیا ہوگا۔تیسرے پہر دونوں لاہور کے لیے روانہ ہوئے تو سائیکل کے پیڈل اس طرح گھومنے لگے جیسے دھنکی ہوئی روئی کے گالے ہوا میں اڑتے ہیں۔ شہاب نے ترنگ میں عاشقانہ شاعری موزوں کرنا شروع کر دی، دو 3 بار چندراوتی نے سختی سے ٹوکا لیکن جب شہاب نہ مانا تو اس نے چلتی ہوئی سائیکل سے چھلانگ لگا دی، وہ منہ کے بل گری اور اس کی بائیں کہنی چھل گئی۔ شہاب نے اپنا رومال پیش کیا تو اس نے جھٹک کر زمین پر پھینک دیا۔ چندراوتی کا اصرار تھا کہ وہ پیدل لاہور جائے گی سائیکل پر نہیں بیٹھے گی۔ شہاب نے اپنے کان کھینچے ہاتھ جوڑے، معافی مانگی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ شہاب زمین پر ناک سے لکیریں کھینچنے لگے تو وہ کھکھلا کر ہنس دی اور سڑک پر پھینکا ہوا رومال اٹھا کر دیا کہ اپنی ناک صاف کرلو۔


چندراوتی کی حسرت تھی کہ وہ کسی طرح بنارس جا کر گنگا اشنان کرلے لیکن شہاب کا کہنا تھا کہ پہلے وہ پاپ کمائے پھر گنگا میں نہائے، اشاروں، کنایوں، تلمیحوں، تشبیہوں، استعاروں اور طرح طرح کی ترکیبوں سے اس کا ذہن برانگیختہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار منہ کی کھانا پڑتی۔ یوں شہاب کا مزاج چڑچڑا ہوتا گیا، چھوٹی چھوٹی باتوں میں چندراوتی کے ساتھ جھگڑا کرنا معمول بن گیا۔ دن بھر سائیکل پر گھومنا احمقانہ حرکت محسوس ہونے لگی، وہ گناہ بے لذت سے جھنجھلانے لگے تھےشہاب ایک رات نیند نہ آنے پر بے وضو ہی داتا دربار چلے گئے اور مزار کی محراب سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، آنکھیں بند کرکے انتہائی انہماک کے ساتھ ’چندراوتی، چندراوتی‘ کا ورد کرتے رہے۔ پھر ایکایک دبی خواہشات کا کھولتا ہوا لاوا ابل کر روئیں روئیں سے پرنالوں کی طرح بہنے لگا اور وہ بڑی دیر تک محراب کے کونے میں سر دیے بلک بلک کر روتے رہے۔شہاب کہتے ہیں ’میرے گرد و پیش میں کئی لوگ بڑے خضوع و خشوع سے اپنی مرادیں مانگ رہے تھے، میں نے بھی یکسوئی سے اپنی مراد مانگنے کی تیاری کی لیکن میرے دل کی آرزو اس قدر ننگی تھی، کہ الفاظ کا کوئی جامہ اس پر پورا نہ اترتا تھا، ایک فقرہ بھی ایسا نہ تھا جو دراصل چندراوتی کو بے آبرو نہ کرتا ہو، اس قسم کی تمنا سے مجھے حجاب آ گیا، داتا صاحب بھی کیا سوچیں گے، کہ یہ بیوقوف میرے سامنے کیسی الٹی باتیں کر رہا ہے، تصور ہی تصور میں مجھے داتا صاحب ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ میں جوتا اٹھائے اپنی جانب لپکتے ہوئے نظر آئے تو مجھے زور سے ہنسی آ گئی،

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر