پاکستان اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایک خُوب صُورت ترین مُلک ہے، جو ہر طرح کے قدرتی مناظر سے پہاڑوں سے دریاؤں سے مالا مال ہے۔ گرچہ رقبے کے اعتبار سے مُلک کے سب سے بڑے صوبے، بلوچستان میں سیّاحت کو زیادہ فروغ نہیں مل سکا، لیکن یہاں ایسے درجنوں تفریحی مقامات موجود ہیں، جو اپنی کشش اور دِل کَشی کے اعتبار سے پاکستان کے کسی مشہور تفریحی مقام سے کم نہیں۔ مُلک کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے بیش تر افراد بلوچستان کے تفریحی مقامات میں سے صرف زیارت سے واقف ہیں، حالاں کہ کوئٹہ، ہرنائی، خضدار، کچھی، گنداوا اور قلاّت میں بھی کئی دِیدہ زیب مقامات موجود ہیں۔
اگر کوئٹہ کے تفریحی مقامات کی بات کی جائے، تو وادیٔ اُڑک کے خُوب صُورت مقامات، ولی تنگی ڈیم اور ہنّہ جھیل کی سیر کے لیے سیّاح دُور دُور سے آتے ہیں۔ وادیٔ اُڑک کی ہنّہ جھیل قدرتی حُسن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے مشرق میں کوہِ زرغون ہے۔ نیز، یہیں سے جونیپر کے جنگلات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جو زیارت تک پھیلا ہوا ہے۔ پھلوں کے باغات سے آراستہ اس وادی کے بیچوں بیچ زندگی بخش، ہنّہ ندی رواں دواں ہے، جس کا پانی ہنّہ جھیل میں جمع ہوتا ہے اور جب کوہِ زرغون کی اوٹ سے طلوع ہونے والا سورج ہنّہ جھیل کے گرد واقع پہاڑیوں میں غروب ہونے لگتا ہے، تو اس کی کرنیں نیلگوں پانی میں سنہرا رنگ بَھر دیتی ہیں۔ وادیٔ اُڑک میں ولی تنگی کے نام سے مشہور ایک چھوٹا سا ڈیم بھی واقع ہے۔ یہ کوئٹہ سے 20کلو میٹر کے فاصلے پر مشرق میں سطحِ سمندر سے 8,350فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ولی تنگی ڈیم 1960ء میں پاک فوج نے کوئٹہ اور وادیٔ اُڑک کو پانی کی ترسیل کے لیے تعمیر کیا تھا۔ یہاں روزانہ ہزاروں سیّاح آتے ہیں اور اکثر مقامات پر مختلف کھانے تیار کرتےیا خوشی سے جھومتے گاتے، رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بلوچستان میں متعدد سیّاحتی و تفریحی مقامات ہیں جن میں تاریخی ریلوے ٹریک، چمن کی مشہور خوجک ٹنل، کھجوری، مچھ کی کوئلہ کانیں، ایشیا کا بلند ترین ریلوے اسٹیشن کان مہتر زئی، کیچ میں سسّی پنّوں کا قلعہ، لسبیلہ میں شیریں فرہاد کا مزار، جبلِ نورالقرآن، اسپن کاریز اور لیاقت پارک جیسے مقامات شامل ہیں-پسنی کے سمندر میں واقع قدرتی جزیرہ استولہ، فاطمہ جناح پارک، نوری نصیر خان کمپلیکس میں قائم عجائب گھر،۔اور پیر غائب رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک-کاش ہماری حکومت ان سیاحتی مقامات کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر متعارف کروائے اور سیّاحوں کو ہر ممکنہ سہولت فراہم کر کے سیاحت سے بے پناہ زرمبادلہ کمائے۔
پیر غائب: کوئٹہ سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑی سلسلے میں واقع وادئ بولان میں ایک پُرفضا سیّاحتی مقام ’’پیرغائب‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں کی زمین کھجور کے درختوں سمیت مختلف درختوں، جڑی بوٹیوں سے آباد ہے۔ نیز جا بجا چھوٹی بڑی آب شاروں سے مزیّن چشمے ہیں، جن کا پانی گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رہتا ہے۔ یہاں کے پُرفضا ماحول میں انسان قدرت کی رعنائیوں میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ دل کشی میں اپنی مثال آپ،چھوٹی بڑی آب شاروں اورکھجور کے باغوں سے مزیّن یہ علاقہ سیّاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔ یہاں آنے کے لیےکوئٹہ سبّی روڈ سے جیپ لینا پڑتی ہے۔ پیر غائب کے مقام پر پانی کا ایک قدرتی چشمہ برسوں سے جاری ہے،جس کے بارے میں روایت ہے کہ کسی زمانے میں پانی کی قلّت کے باعث یہاں کے باشندے ہجرت پر مجبور ہوگئے، تو اسی دوران ایک نیک بزرگ تشریف لائے۔ مقامی باشندوں نے اُن سے پانی کی قلّت کا ذکر کیا، تو بزرگ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگی اور پہاڑ سے پانی کا چشمہ پُھوٹ پڑا، جو آج تک رواں دواں ہے۔ بزرگ کا مزار بھی اس چشمے کے قریب ہی موجود ہے۔ زائرین اور سیّاحوں کے ہجوم کے پیشِ نظر پیر غائب کے مقام پرفرنٹئیر کور (ایف سی) نےحکومت ِبلوچستان اور سدرن کمانڈ کے تعاون سے پختہ سڑکیں، مسجد، پارک اور ایک فُوڈ پوائنٹ بھی قائم کیا ہے۔پیرغائب کے قریب کے مقام سے پہاڑ سے گرتے پانی کا خوب صورت منظر دل کو موہ لیتا ہے
بولان کے علاقے میں پیرغائب کے مزار کی حالیہ تزئین نو سے اس مقام کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔کوئٹہ سے سبی جاتے ہوئے تقریباً 90 کلومیٹر کی دوری پر توبہ کاکڑ کی پہاڑی رینج میں واقع وادی بولان میں پر فضا سیاحتی مقام پیر غائب سیاحت کے شوقین افراد کے لئے راحت کی بڑی جگہ ہے۔یہ مقام پہاڑوں میں گھرے کھجور اور مختلف درختوں اور جڑی بوٹیوں سے بھرے سرسبز مقام قدرتی چھوٹی بڑی آبشاروں اور ان سے جنم لینے والے چشموں سے مزین ہے کہ جن کا پانی گرمیوں میں قدرتی ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رہتاہے، اس ماحول میں پہنچ کر انسان قدرت کی رعنائیوں میں کھو کر رہ جاتاہے۔ اور تم اپنےپروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
پاکستان سیاحوں کی جنت ہے
جواب دیںحذف کریں