منگل، 21 جنوری، 2025

عزم و ہمت کا پیکر ڈاکٹر فاطمہ شاہ

     

فاطمہ شاہ 21 جنوری 1914ء میں پنجاب کے شہر بھیرہ،  موجودہ  پنجاب پاکستان میں  ایک انتہائ اعلیٰ تعلیم یافتہ  گھرانے  میں  پیدا ہوئیں۔ ان کے والد پروفیسر عبد المجید قریشی علی گڑھ یونیورسٹی میں شعبہ ریاضی کے چئیرمین تھے۔  فاطمہ شاہ نے 1928 میں چودہ سال کی عمر علی گڑھ یونیورسٹی کی زیر نگرانی میٹرک کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اس کے بعد لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج دہلی سے فاطمہ شاہ نے ایم بی بی ایس کیا۔ یہاں بھی انھیں میکڈونلڈ اسکالر شپ ملا۔فاطمہ شاہ کو ڈاکٹر کی ڈگری پالینے کے بعد لکھنؤ کے ڈفرن ہسپتال میں ہاؤس سرجن کی نوکری مل گئی۔1937 میں ان کی شادی گورکھپور ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت جواد علی شاہ سے ہو گئی۔ اب وہ دو بیٹیوں کی ماں بن چکی تھیں  اسی زمانہ میں وہ کچھ دنوں کے لیے پاکستان گھر خریدنے آئیں تو یہا ں کی مٹی نے انہیں واپس نہیں جانے دیا  1947 ء کے بعد انھوں نے مہاجر خواتین کی صحت اور آباد کاری کے سلسلے میں خدمات انجام دینا شروع کیں۔ انھوں نے اپوا کے تحت کام کیا اور سول ہسپتال، کراچی میں کافی عرصہ تک خدمات انجام دیں۔ 1952 میں وہ اپنی آنکھوں میں الرجی اور موتیا کے باعث دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئیں۔ 


حالانکہ فاطمہ اس وقت ڈاکٹر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ لیکن ایک دن صبح چار بجے ان کی آنکھ کھلی تو انھیں لگا کہ اب وہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گی۔ بینائی سے محرومی کے صدمہ کی وجہ سے انھوں نے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا۔ اسی دوران میں ڈاکٹر فاطمہ شاہ سے ملنے ازبیلا گرانٹ نامی ایک 60 سالہ امریکی خاتون آئیں اور انھوں نے ڈاکٹر فاطمہ شاہ کو اس بات پر راضی کر لیا کہ انھیں پاکستان میں نابیناؤں کی اپنی ایک جماعت بنانی ہو گی ۔ اس جماعت کی لیڈر فاطمہ شاہ ہوں گی۔ جو نابینا افراد کے لیے سماجی کام ( سوشل ورک ) کریں گی۔ڈاکٹر فاطمہ شاہ کو بچپن سے ہی سوشل ورک کا شوق تھا لہذا انھیں اپنی اس صلاحیت کو آزمانے کا موقع مل گیا۔ انھوں نے اس سلسلے میں نہ صرف ملکی سطح پر ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں بلکہ بہت سے بین الاقوامی سیمینارز اور کانفرنسز میں بھی شرکت کی۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے اپنے کسی بھی سفر کے دوران میں کسی گائیڈ کو ساتھ نہیں لیا۔فاطمہ  شاہ نے آدھی زندگی تو دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، مگر ایک روز وہ بصارت سے محروم ہوگئیں



!پیدائشی طور پر اندھے پن کا شکار افراد کے مقابلے میں تن درست انسان کا اچانک بینائی سے محروم ہوجانا اس کے لیے کرب ناک حقیقت ہوتا ہے، ڈاکٹر فاطمہ شاہ ایسی ہی نابینا خاتون تھیں جن کی معذوری کے بعد زندگی کسی معجزے سے کم نہیں۔ فاطمہ شاہ نے پاکستان میں ڈاکٹر کی حیثیت سے سول اسپتال میں‌ نوکری کا آغاز کیابعد میں جب وہ بینائی سے محروم ہوگئیں تو نابینا افراد کی مدد اور ان کی دیکھ بھال میں مشغول رہیں۔ اس کے لیے وہ متعدد تنظیموں سے وابستہ ہوئیں، اور مختلف اداروں کی بنیاد رکھی۔ڈاکٹر فاطمہ شاہ پاکستان میں آزادی کے ابتدائی زمانہ ہی میں‌ ایک رضا کار کی حیثیت سے متحرک ہوگئی تھیں۔ 1947 کے بعد وہ مہاجر خواتین کی صحت اور آباد کاری کے سلسلے میں خدمات انجام دیتی رہیں فاطمہ شاہ کو سماجی خدمات پر ملکہ الزبتھ دوم کی تاج پوشی کے موقع پر ایم بی ای (برطانوی سلطنت کی رکن) کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ سول اسپتال، کراچی میں کافی عرصہ تک کام کرنے والی فاطمہ شاہ کی بینائی 1952 میں اچانک آنکھوں میں الرجی اور موتیا کے باعث متاثر ہوئی اور چند برس میں وہ مکمل طور پر دونوں آنکھوں‌ کی روشنی سے محروم ہو گئیں۔


 ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے 1960 میں ملک میں پاکستان ایسویسی ایشن آف دی بلائنڈ ‘‘ قائم کی۔ اور 1984 تک اس کی سربراہ رہیں-وہ ’’ انٹرنیشنل فیڈریشن آف دی بلائنڈ، نیویارک، امریکا ‘‘ کی بانی رکن تھیں۔انھوں نے ڈس ایبلڈ پپلز فیڈریشن آف پاکستان ( Disabled People’s Federation of Pakistan ) کو منظم کیا۔ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انھیں ملکہ الزبتھ کی تاجپوشی کی موقع حکومتِ برطانیہ سے پر ایم بی ای (Member of the British Empire) کا اعزاز ملا۔وہ ’ ’ ورلڈ بلائنڈ یونین ‘‘ کے علاوہ ’’فیڈرل کونسل نیشنل پارلیمنٹ ‘‘کی ممبر بھی رہیں۔ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے اپنی جدوجہد سے پاکستانی حکومت کا یہ قانون ختم کروا دیا جس کی وجہ سے باوجود صحت مندی، ذہانت اور قابلیت کے معذور لوگ کام نہیں کر سکتے۔ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے تعلیمی اداروں میں بریل طریقہِ تعلیم شروع کروایا۔اس کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی سفر کرنے والے بینائی سے محروم افراد کے کرایوں میں پچاس فیصد رعایت کی پابندی بھی کروائی۔ایک عالمی ادارے ورلڈ بلائنڈ یونین (World Blind Union )کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ڈاکٹر فاطمہ شاہ پاکستان کی پہلی رکن دستور ساز اسمبلی تھیں جو بصارت سے محروم تھیں

 

انہوں  نے 1960 میں پاکستان ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ کی بنیاد بھی رکھی جو ایک قومی سطح‌ کی تحریک ثابت ہوئی جس میں فاطمہ شاہ نے 25 سال تک بحیثیت صدر خدمات انجام دیں۔ وہ پہلی خاتون بھی تھیں‌ جو انٹرنیشنل فیڈریشن آف بلائنڈ کی صدر رہیں ڈاکٹر فاطمہ شاہ کی کوششوں سے پاکستان میں حکومت نے یہ قانون ختم کیا کہ ذہنی صحت، ذہانت اور قابلیت کے باوجود جسمانی معذور لوگوں کو نوکری نہیں دی جاسکتی۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے تعلیمی اداروں میں بریل طریقۂ تعلیم متعارف کروانے کی تجویز دی اور اس کا آغاز کروایا۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ پاکستان کی بصارت سے محروم پہلی رکن دستور ساز اسمبلی بھی تھیں۔ تحریکِ آزادی کی عظیم راہ نما بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ڈاکٹر فاطمہ شاہ کو ایک کورس کرنے کے لیے امریکہ بھیجا تھا جہاں‌ انھوں نے بصارت سے محروم افراد کی عالمی تنظیم کے ساتھ بھی کام کیا اور وہیں سے واپس آنے کے بعد ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے حکومت کو معذور افراد کی نوکری سے متعلق شق ختم کرنے پر مجبور کیا تھا۔ ۔88 سال کی عمر میں ڈاکٹر فاطمہ شاہ طویل علالت کے بعد 12 اکتوبر 2002ء کو کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ وہ ڈیفنس کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔


1 تبصرہ:

  1. پیدائشی طور پر اندھے پن کا شکار افراد کے مقابلے میں تن درست انسان کا اچانک بینائی سے محروم ہوجانا اس کے لیے کرب ناک حقیقت ہوتا ہے، لیکن ان میں سے بعض لوگ جلد ہی خود کو حالات سے لڑنے کے لیے تیّار کر لیتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ دوسروں کے لیے بھی عزم و ہمّت اور بہادری کی مثال بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ ایسی ہی نابینا خاتون تھیں جن کی معذوری کے بعد زندگی کسی معجزے سے کم نہیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر