انیس سو پینسٹھ اپریل کا مہینہ موسم بہار کے دن تھے اور آخری ہفتے میں میری شادی انجام پائ اور میرے شوہر نے مجھ سے کہا چلو کوئٹہ چلتے ہیں انہوں نے اس مقصد کے لئے آفس سے چھٹیا ں بھی لے لی تھیں -یہ سفر میری زندگی میں پاکستان ہجرت کے سولہویں برس پر آیا تھا اور میری عمر بھی تقریباً اتنی ہی تھی -ہم نے کراچی کینٹ سے دن کے دو بجے اپنے اس خوبصورت سفر کا آغازکیا اور اگلے روز کا وقت یاد نہیں کہ کس وقت کوئٹہ پہنچے -کوئٹہ میں میرے ماموں جو سارے جگ کے منے ماموں تھے اور ہمارے منے ماموں میرے شوہر کے خالو تھے -انہوں نے ہماری رہائش کا انتظام کیا ہوا تھا وہاں ہم دونوں نے ناشتہ کیا اور چند گھنٹے آرام کیا پھر ہم نے سب سے پہلے ہنہ جھیل کی سیر کا پروگرام بنا لیا -میں راستے کی خوبصورتی میں محو ہو گئ -میں نے تازہ خوبانیوں سے اور دیگر پھلوں سے لدے باغات دیکھے جو ہمارے دو رویہ سفر میں کافی دیر ہمارے ساتھ رہے پھر جھیل آگئ -
پھلوں کے باغات سے آراستہ اس وادی کے بیچوں بیچ زندگی بخش، ہنّہ ندی رواں دواں ہے، جس کا پانی ہنّہ جھیل میں جمع ہوتا ہے اور جب کوہِ زرغون کی اوٹ سے طلوع ہونے والا سورج ہنّہ جھیل کے گرد واقع پہاڑیوں میں غروب ہونے لگتا ہے، تو اس کی کرنیں نیلگوں پانی میں سنہرا رنگ بَھر دیتی ہیں۔ ہنّہ جھیل کی سیر کے لیے سیّاح دُور دُور سے آتے ہیں۔گرچہ ہنّہ جھیل کی تاریخ کے حوالے سے کوئی مستند حوالہ دست یاب نہیں۔ تاہم، کہا جاتا ہے کہ پہاڑپر پگھلنے والی برف اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کر کے چھائونی میں پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 20ویں صدی کے اوائل میں برطانوی حکومت نے ایک بند تعمیر کر کے اسے جھیل کی شکل دی۔ بند کی تعمیر 1901ء میں شروع ہوئی اور 1908ء میں اس کی تکمیل کے بعد اسے جھیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ بند کے ساتھ ہی موجودہ کلی حاجی عطا محمد کے مقام پر ایک ہیڈ ورکس بھی تعمیر کیا گیا، جسے ’’سرپل‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہاں سے تقریباً ایک کلو میٹر طویل نہر کے ذریعے ہنّہ ندی کا پانی جھیل تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ وادیٔ اُڑک کی ہنّہ جھیل قدرتی حُسن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے مشرق میں کوہِ زرغون ہے۔
۔ برطانوی حکومت نے ہنّہ ندی سے پائپ لائن کے ذریعے چھائونی کو پانی مہیا کیا تھا اور اس پائپ لائن کا ذکر بلوچستان کے تاریخی گزیٹیر میں بھی موجود ہے۔ ماضی میں ہنّہ ندی کوئٹہ کے مضافات میں واقع، نواں کلی سے ملحقہ کلی کوٹوال اور کلی ترین شار میں موجود باغات کو سیراب کرتی تھی۔ ندی کے ارد گرد 20سے 25آٹے کی چکّیاں بھی موجود تھیں، جو کوئٹہ کے عوام کی آٹے کی ضروریات پوری کرتی تھیں ہنّہ جھیل کے درمیان ایک ٹیلے نُما چھوٹا سا مصنوعی جزیرہ بھی بنایا گیا ہے اور اس کی چوٹی پر نگرانی کے لیے ایک چھوٹی سی عمارت تعمیر کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں جھیل کی خُوب صُورتی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سڑک اور جھیل کے درمیان ایک جنگلا نصب کیا گیا ہے۔ہنّہ جھیل میں سیّاحوں کے لیے واٹر اسپورٹس کی سہولتیں اور جھیل کی سیر سے لطف اندوز ہونے کے لیے کشتیاں بھی موجود ہیں۔ ہنّہ جھیل اور وادیٔ اُڑک کے قدرتی نظّاروں کو دیکھنے کے بعد عقلِ انسانی اپنے پروردگار کے جمالیاتی ذوق پر دنگ رہ جاتی ہے۔ جھیل کی چاروں جانب بلند و بالا پہاڑ واقع ہیں، جن کے درمیان یہ ایک بہت بڑے پیالے کی مانند دِکھائی دیتی ہے۔ موسمِ سرما میں ہونے والی بارشوں اور برف باری کی بہ دولت یہ سارا سال پانی سے بَھری رہتی ہے، جسے اطراف میں پھیلے کھیتوں اور باغات تک پہنچایا جاتا ہے۔ یوں اس جھیل کو سیّاحت کے علاوہ زراعت اور باغ بانی کے لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے۔ گرچہ ہنّہ جھیل، مشہور جھیل سیف الملوک سے ملتی جلتی ہے، لیکن اس کے گرد سبزے سے ڈھکے پہاڑ موجود نہیں۔ تاہم، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جھیل کنارے شجرکاری کی گئی ہے اور یہاں کافی تعداد میں کوئٹہ پائن، چنار اور ایش کے درختوں کے علاوہ پَھل دار درخت بھی لگائے گئے ہیں، جس کی بہ دولت جھیل کی دِل کَشی میں مزید اضافہ ہواہے۔ اپنے اس خوبصور سفر کے دوران میرے شوہر مجھے دو بار ہنہ جھیل لے کر گئے اور بوٹ کی سواری بھی کروائ اور جھیل کے قلب میں جزیرے کی سیر بھی کروائ
اصل جھیل سڑک سے تقریباً 30فٹ نیچے واقع ہے اور سڑک اور جھیل کے درمیان موجود ڈھلوان سطح پر سیّاحوں کے لیے سیڑھیاں، راہ داریاں اور ایک پختہ سائبان بنایا گیا ہے۔ ہنّہ جھیل کو ایک قدرتی سیر گاہ اور سیّاحتی مرکز کے طور پر ترقّی دینے کے لیے باضابطہ ترقّیاتی ادارہ قائم کیا گیاہے۔ اس ادارے نے سیّاحوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے علاوہ جھیل کی صفائی کا بھی خصوصی انتظام کیا اور اس سلسلے میں جدید مشینز کے ذریعے خطرناک جھاڑیوں اور دلدلی مٹی کا صفایا کیا گیا۔ یوں غرقابی کا خطرہ ختم ہو گیا اور جھیل، پیراکی کا شوق رکھنے والوں کی توجّہ کا مرکز بن گئی۔ جھیل میں کشتی رانی کا انتظام بھی کیا گیا ہے، لیکن نجی کشتیاں چلانے کی بہ جائے ترقّیاتی ادارے ہی کے زیرِ اہتمام کشتیاں اور موٹر بوٹس چلائی جاتی ہیں ، جو سیّاحوں کو نہ صرف جھیل بلکہ اُس کے وسط میں واقع جزیرے کی بھی سیر کرواتی ہیں۔ جھیل پر ہر موسم میں سیّاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ موسمِ گرما میں سیّاح یہاں نسبتاً سرد اور خوش گوار ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے آتے ہیں، جب کہ موسمِ سرما میں برف باری کے نظارے کے لیے یہاں کا رُخ کرتے ہیں، کیوں کہ برف باری کے موسم میں اس جھیل کی دِل کشی مزید بڑھ جاتی تھی ۔-ہنی مون سے واپس آ کر بڑے عرصے ہنہ جھیل میرے دل میں بسیرا کئے رہی
وہ زمانہ ایسا تھا کہ جس میں ہنی مون کا نام بھی بس کوئ کوئ ہی جانتا تھا
جواب دیںحذف کریں