’ یہ اب سے بہت دور نہیں چالیس پچاس برس پہلے کا زمانہ تھا جب گھروں میں لڑکے 'لڑکیاں جوان ہو تے تو ان کی شادیاں ان کے بڑے گھر میں ہی طے کر دیتے تھے - نا تعلیم کی پر سش نا اور کو ئ سوال جواب بس بڑوں نے جو کہ دیا وہ پتھر کی لکیر ہوتا تھا -پھر آہستہ 'آہستہ زمانہ بدلا اور لڑکیوں میں تعلیم عام ہونی شروع ہوئ اور یہیں سے گھروں کے اندر کا تمدن بدلنے لگا 'اور سرگوشی سنائ دی ہمیں کزن میرج نامنظور ہے -پھر یہ آواز گونج بن گئ اور اب یہ حال ہے کہ لڑکیاں اور لڑکے شادی ایپس پر اپنے لئے شریک زندگی تلاش کر رہے ہیں -ٹنڈر ایک شادی ایپ ہے جس کی تفصیل بی بی سی اردو نے دی ہےمیں آ پ سے شئر کرتی ہوں کیا پاکستان میں بھی ٹنڈر پر رشتے ہوتے ہیں؟تجزیہ نگار کہتی ہیں ‘ گذشتہ مہینے جب میری نظر زرق برق لباس میں ملبوس ایک نوجوان جوڑے کی تصویر پر پڑی تو میرے منھ سے بے اختیار یہی نکلایہ جان کر مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ حیرانی بھی تھی کہ ’ہم نے ٹنڈر پر سوائپ رائٹ کیا اور کہا قبول ہے‘ کے عنوان اور ’وی میٹ آن ٹنڈر‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ تصویر پوسٹ کرنے والی لڑکی کوئی بیرونِ ملک مقیم پاکستانی نہیں بلکہ کراچی میں ہی رہنے والی تھی۔پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں زیادہ تر رشتے ہمیشہ ماں، خالہ، پھوپیوں اور رشتہ آنٹیوں کے ذریعے ہی طے پاتے تھے، حالیہ چند برسوں میں اس حوالے سے کچھ حد تک تبدیلی آئی ہے اور اب اکثر یہ سُننے کو ملتا ہے کہ کسی کا رشتہ فیس بک گروپ کے ذریعے ہو گیا یا کسی نے خود اپنے پارٹنر کو کسی آن لائن فورم پر پسند کیا۔
مگر آج بھی ڈیٹنگ ایپ کا نام سنتے ہی لوگ آپ کو ایسی نظروں سے گھورنے لگتے ہیں جیسے خدانخواستہ آپ نے پتا نہیں کون سا گناہ کر لیا ہو۔ اس کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ اس خبر کی اشاعت تک پاکستان میں ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر پابندی ہے لیکن تجسس کے مارے میں نے بھی ایک دو ایپس ڈاؤن لوڈ کیں مگر استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ یہی ڈر رہتا تھا کہ کہیں آس پاس کوئی دیکھ نہ رہا ہو کہ میں لڑکوں کی پروفائلز پر لیفٹ رائٹ کر رہی ہوں۔پاکستان میں ٹنڈر اور اس جیسی دوسری ڈیٹنگ ایپس کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور اکثر یہی تاثر لیا جاتا ہے کہ یہ ہک اپ ایپس (جنسی تعلقات کے لیے ساتھی تلاش کرنے والی ایپس) ہیں، شاید اسی لیے جب اس رپورٹ کے لیے ہم نے بمبل، ٹنڈر، مز میچ وغیرہ پر ملنے والے کئی جوڑوں سے رابطہ کیا تو وہ آف کیمرہ اپنی کہانی شئیر کرنے کو تو تیار تھے مگر اپنے اردگرد کے لوگوں کے ردِعمل کے ڈر سے باعث بیشتر جوڑوں نے آن کیمرہ بات کرنے سے معذرت کر لی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسرے کئی آن لائن پلیٹ فارمز کی طرح ان ڈیٹنگ ایپس پر پاکستانی لڑکے لڑکیاں اپنے لیے پارٹنر خود چُن رہے ہیں۔ایسی ہی ایک مثال کراچی کے رہائشی پلوشہ سکندر اور فوزان محمد خان کی ہے جو ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر ایک سوائپ رائٹ سے ملے اور گذشتہ ہفتے یہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے (ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر سوائپ رائٹ کا مطلب ہے کہ آپ اس شخص یا خاتون کو پسند کرتے ہیں جبکہ لیفٹ کا مطلب ہے آپ کو ان کی پروفائل پسند نہیں آئی)۔ٹنڈر،تصویر کا ذریعہCourtesy Palwasha/Fozan
’ڈیٹنگ ایپس پر ایسا کچھ نہیں ہے جیسی لوگوں نے باتیں بنائی ہوئی ہیں‘پاکستانی معاشرے میں ڈیٹنگ ایپس کے بارے میں پائے جانے والے منفی تاثر کے باوجود پلوشہ نے کیا سوچ کر ٹنڈر استعمال کرنا شروع کیا؟ پلوشہ بتاتی ہیں کہ یہ سنہ 2019 کی بات ہے۔ ان کے دو چھوٹے بہن بھائیوں کی شادی ہو چکی تھی اور خود ان کا شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا، مگر کزنز اور دوست ان کے پیچھے لگے رہتے تھے کہ ’تم شادی نہیں کرنا چاہتی تو ٹنڈر ڈاؤن کرو، لوگوں سے ملو،ان سے بات کرو، نہیں سمجھ آیا تو وہ الگ بات ہے لیکن ایک بار کوشش تو کرو۔‘کزنز اور دوستوں نے یہ بھی سمجھایا کہ ’ڈیٹنگ ایپس پر ایسا کچھ نہیں ہے جیسی لوگوں نے باتیں بنائی ہوئی ہیں۔‘ ہر جگہ ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں اور اچھے بُرے لوگ تو آپ کو ہر جگہ ہی ملتے ہیں۔لہذا پلوشہ نے کزنز کی باتوں میں آ کر جون 2019 میں ڈیٹنگ ایپ انسٹال کی۔جبکہ ان کے شوہر فوزان بتاتے ہیں کہ وہ بس دیکھنا چاہتے تھے کہ یہ ایپ ہے کیا اور انھوں نے نیٹ ورکنگ کے لیے ٹنڈر انسٹال کیا تھا۔پلوشہ
،31 سالہ پلوشہ کراچی کی ایک نجی کمپنی میں پی آر مینیجر ہیںتو دونوں میں سے سوائپ رائٹ کس نے کیا؟پلوشہ کے مطابق فوزان آج تک یہ نہیں مانتے کہ پہل انھوں نے کی تھی۔ ’وہ کہتا ہے تم نے پہلے سوائپ رائٹ کیا تھا، جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔‘وہ بتاتی ہیں کہ ایک رات بوریت کا شکار سوائپ لیفٹ کر رہی تھیں کیونکہ عجیب و غریب پروفائلز سامنے آ رہی تھیں پھر اچانک فوزان کی پروفائل سامنے آئی جس پر انھوں نے سوائپ رائٹ کیا تو لکھا آیا کہ ’فوزان آل ریڈی لائکس یو‘ یعنی فوزان پہلے ہی آپ کو پسند کرتے ہیں اور آپ دونوں ایک دوسرے کا میچ ہیں‘۔ اور اس طرح اُن کی بات چیت شروع ہوئی۔فوزان کی پروفائل میں کیا چیز پلوشہ کو پسند آئی تھی؟پلوشہ کے مطابق ’فوزان نے بائیو (اپنے تعارف) میں صرف ایک لائن لکھی ہوئی تھی، ایک تصویر تھی اور بس نام لکھا تھا۔۔۔ کچھ لوگوں نے لمبے لمبے پیراگراف لکھے ہوتے ہیں اور اتنے لمبے مضمون مجھ سے نہیں پڑھے جاتے۔‘ اور بس یہی بات انھیں بھا گئی۔دوسری جانب فوزان کو پلوشہ کی پروفائل خاصی پُراسرار لگی جس پر کچھ بھی نہیں لکھا تھا اور ساتھ ساتھ تصویر بھی پسند آئی، اسی لیے انھوں نے اس پر سوائپ رائٹ کیا تاکہ انھیں جان سکیں۔
کیا ایک دوسرے سے ملنے سے پہلے وہ ٹنڈر پر اور لڑکے لڑکیوں سے بھی ملے؟پلوشہ کے مطابق کہ اپنے شوہر فوزان سے ملنے سے پہلے ان کا کافی لوگوں سے میچ ہوا، اچھی بات چیت رہی، موبائل نمبرز کا تبادلہ ہوا، ملاقاتیں بھی ہوئیں اور اچھا تعلق بنا مگر بات آگے نہیں بڑھی۔‘فوزان کہتے ہیں کہ وہ کسی سے ملے تو نہیں البتہ ان کی کئی اور لڑکیوں سے بات چیت رہی، مگر بقول ان کے زیادہ تر وہ بور ہی ہوئے اور کسی سے ’کلک نہیں کر پائے۔‘تو پلوشہ کو کب لگا کہ لڑکا سیریس ہے؟لوشہ بتاتی ہیں کہ بات چیت کا آغاز ہونے کے ایک دو دن بعد انھوں نے موبائل نمبروں اور سوشل میڈیا کا تبادلہ کیا اور ان میں بہت اچھی دوستی ہو گئی جو چھ سے سات ماہ تک چلی اور وہ ہر روز گھنٹوں بات کرتے، ہر بات، ہر مسئلہ ایک دوسرے سے شئیر کرنے لگے اور رومانوی رشتہ شروع ہونے سے پہلے ہی ان کا مضبوط تعلق بن چکا تھا۔پھر ایک دن فوزان نے انھیں کہا کہ ’میں تمھیں پسند کرتا ہوں۔۔۔ تم سے محبت کرتا ہوں۔‘
ماہرین عمرانیا ت کا کہنا ہے کہ 20سے 25 برس میں تمدن ہر حال میں اپنی پرانی ڈگر چھوڑ کر نئ راہیں اور نئے طور طریقے اپنا تا ہے
جواب دیںحذف کریں