،سارا سارا دن چارپائ پر پڑے پڑے روٹیاں توڑتا رہتا ہے یا نشے میں دھت پڑا رہتا ہے ،اس سے تو اچھا ہے میں خود گھروں میں کام کاج کر کے دوروٹی کھا لوں گی شنّو کی بات بہت غور سے سن کر راحیل نا شتہ ختم کر کے آفس چلاگیا ,,,,اور پھر ایک دن وہ انیتا سے چھپا کر بازار سے شنّو کی گھڑی لے کرآیا اور پھر گھر فون کیا تو معلوم ہوا کہ انیتا گھر پر نہیں ہے اور شنّوکیلی ہی کام کر رہی ہے ،،تو وہ گھر آگیا اور آتے ہی اس نے شنّو کو گھڑی نکال کر دی تو وہ خوشی سے کھل اٹھی اور اس نےگھڑی دیکھ کرکہا ہائے ربّا-میں تو خواب میں بھی ایسی گھڑی نہیں خرید سکتی تھی پھر اس نے شنّو سےکہا بھاگ کر یہ گھڑی کواٹر مین چھپا کر آجاؤ بیگم صاحب کو پتا نا چلے اورشنّو چھلاوے کی مانند گھڑی رکھ کر پھر اس کے حضور حاضر تھی -ارے شنّو تو نے مجھ سے پوچھا نہیں ،کھانا چائے شربت ،راحیل نے شوخی سےکہا تو بولی ارے معاف کرنا صاب جی ،،بتادو کی لاواں چاء- شربت،کھانا شانا-راحیل نے اس کے جواب میں کہا کچھ نہیں صرف دو گلاس شربت لے آؤ ،اور شنّو نے پھر ٹوکا 'ناں صاب جی ،دو گلاس مت پینا میں تو صرف ایک گلاس ہی لاواں گی اور راحیل نے اس سے کہا ،دو ہی گلاسلانا ایک تیرا ایک میرا ،شنّو شربت سے بھرے گلاس لے کر آگئ اور راحیل کےقریب ہی زمین پربیٹھنے لگی تو اس نے کہا
و وہاں نہیں یہاں بیٹھو اس نےاپنے روبرو کرسی کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا تو شنّو کچھ جھجھکتی ہوئ اس کے ربرو کرسی پر بیٹھ گئ,,,,راحیل کو اب ایو گونہ تو اطمینان ہو گیا تھا کہ شنّو کی کہیں بات نہیں ہوئ ہئے اس لئے اس نے منصوبہ بندی شروع کر دی تھی,,,,ابھی ان دونو ں نے شربت پینا شروع بھی نہیں کیاتھا کہ انیتا گھر واپس آگئ اور دروازے پر بیل ہوتے ہی شنّو نے اپنا شربت کابھرا گلاس بھاگ کربرتن دھونے والے سنک میں الٹ دیا اور پھر دروازہ کھولنےگئ،اس بیچ راحیل اٹھ کر اپنے کمرے میں جا چکاتھا ،انیتا نے شنّو سے کہا تیری نانی کہاں ہے-ایک تو انیتا کو راحیل کی گاڑی بے وقت کھڑی ملی اور اس پرسے گھر میں شنّو بھی اکیلی ہی ملی تو پھر اس کا غصّہ ابال کھا گیا ،،تیری نانی کہاں ہے وہ پھنکاری ،بیگم صاب اسے تو رات ہیضہ ہو گیاتھا ابھی بھی وہ کمزوری میں غش کھائ پڑی ہئے ،تم کہوتومیں واپس چلی جاؤں ،،اور انیتا نےپھر اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے کہا چل جا میرا دماغ مت کھا اور میرےلئے چائے بنا کر لا سر درد سے پھٹا جارہا ہے ,,
,راحیل سے الجھنا انیتانے بہتر نہیں جانا اس لئے خاموش ہوگئ ،اور راحیل نے اب یہ دستور ہی بنالیا کہ وہ گھر پر فون کر کے انیتا کی مصروفیات کا اندازہ لگا لیتا اوراسی حساب سے اس طرح گھر آجاتا جس مین اس کو شنّو سے تنہائ میں کچھ وقت ملاقاتک کا مل جاتھا ،اس طرح انیتا راحیل سے دور ہونے لگی اور شنّو اس سے قریب ہونے لگی ایسے میں ایک دن راحیل کچھ دوپہر کے بعد گھر لوٹ آیا شنّو کام کر کےواپس کواٹر جاچکی تھی ،اس نے کواٹر کی بیل کی تو اس کی نانی اپنی چندھیائ ہوئ آنکھوں کو اوڑھنی کے پلّو سے صاف کرتی ہوئ دروازے پر آئ نانی کو دیکھتے ہی راحیل نے کہاوہ زرا شنّو کو بھیج دیں کام ہے،اور کہ کر واپس بنگلے میں آگیا اورشنّو کچھ ہی دیر میں اس کے پاس آ گئ،، کی گل ائے صاب جی شنّو نےادائے بے نیازی سے اس سے پو چھا ،میرے کپڑے الماری سے لے کر استری کر دو اس نےبہانہ بنایا ،تو شنّو بولی صاب جی کل ہی تو سارے کپڑے استری کر کے ٹانگے ہیں،ٹھیک ہئے لیکن مجھے تو جو دوسرے کپڑے پہننے ہیں وہ استری کے بغیر ہیں ،
راحیل نےاس کو جواب دیا تو وہ کہنے لگی چلو بتادو کون سے پہننے ہیں وہی استری کر دوں-پھر راحیل اس کے ساتھ کمرے میں آگیا شنّو اب کھلی الماری کے دونوں پٹوں کےدرمیان کھڑی کپڑے دیکھ رہی تھی کہ راحیل نے اس قریب پہنچ کر اس کے نکلنے کاراستہ مسدود کر دیا اور شنّو موقع کی نزاکت دیکھ کر رونے لگی ،صاب جی میری چنری کو داغ مت لگا نا-میری ماں نے نانی کے بھروسے پر تمھارے گھر بھیجا اگر مجھے کچھ ہوا تو میری ماں مجھ سے پہلے جیتے جی مر جائے گی ،شنو نے فریاد کی شکل میں رونا جو شروع کیاتو راحیل نے بھی بہت محبّت کے ساتھ اس سے کہا میں بازاری آدمی نہیں ہوں،میں تیرے بھروسے کا مان نہیں توڑوں گا ،پر تجھ کو اپنی دلہن ضرور بناؤںگا ،تجھے اپنے پیار کا دوشالہ اڑھاؤں گا ،میں تو تجھے تیرے کپڑے دکھانےلایا ہوں الماری کے اندر دیکھ تو سہی ،،شنّو روتے بولی صاب جی ہم کمّی کمین لوگ تمھارے قابل کہاں دیکھو تمھاری بیگم کتنی حسین ہیں اور میں چمارن ،شنّوبس کر راحیل نے اسے جواب دیا اور دل ہی دل میں کہنے لگا تو ،تو میرےلیئے حسینہء عالم ہے تجھے کیا پتا اب مجھے ہر کام کیا کرایا مل جاتا ہے ور شنّو سسکیاں بھربھر کر راحیل کی بتائ ہوئ جگہ سے اپنے کپڑے اور گہنے پاتے نکالتی گئ لہنگا ٹیکہ جھومر کنگن اور پھر شنّو دلہن بن گئ
،راحیل اسے لے کر ہواکے دوش پر گاڑی اڑاتامولوی کے پاس حاضر ہو ا ،،اس نےحجلہء عروسی سرو نٹ کواٹر کے ایک کمرے کو بنادیا ،،شام کو انیتا واپس آئ تو شنّو کو دیکھ کر حیرانی سے بولی یہ تو کیا دلہن بنی پھر رہی ہئے ،شنّو نے جھٹ اس کو جواب دیا ہا ں جی میں تمھارے صاحب کی دلہن ہی تو بن گئ ہوں اور انیتا ایک چیخ مار کر وہیں فرش پر گر کر بے ہوش ہو گئ ،،انیتا کے گرنے کی آواز پر راحیل دوڑا ہوا آیا اور شنّو سے بولاارے شنّو جلدی پانی لا ،،،شنّو راحیل کے بلانے پرانیتا کے پاس آئ توسہی لیکن پانی نہیں لائ بلکہ کہنے لگی صاب جی جوتی سنگھا دو ابھی ہو ش آ جائےگا ،پانی تو ایسے میں نقصان کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی شنّو اپنے پیر کی جوتی اتار کر انیتا کو سنگھا کر ہوش میں بھی لے آئ ,,,انیتا ہوش میں آ کر مسلسل روئے جا رہی تھی ،اب چپ ہو جاؤ ،راحیل نے اسے تنبیہ ک ی تو کہنے لگی کیسے چپ ہو جاؤں تم نے میرے سینے پر سوکن بٹھا دی وہ بھی ماسی،،یہ کیسی محبّت تھی تم کو مجھ سے ،،تو راحیل نے اس سے کہا انیتا بیگم شادی عورت کی کل وقتی جاب ہوتی ہے اس جاب کا اوّلین فرض شوہر کی خدمت اور اس کا خیال ہوتا ہے جو تم کو ناگوار گزرتاتھا سو میں نے تمھاری محبّت کوبہت ہی مجبور ہو کر ففٹی،ففٹی تمھارے اور شنو کےدرمیان تقسیم کر لیا
بظاہر یہ افسانہ ہے -لیکن اس کے پس منظر میں حقیقت عیاں ہے
جواب دیںحذف کریں