پیر، 29 اپریل، 2024

ایک گوہر نایاب'حمایت علی شاعر

 
 زندگی میں کبھی  'کبھی اتنے خوبصورت اتّفاقات آ جاتے ہیں کہ زہن کے پردے پر تمام عمر ان لمحات کا نقش قائم رہتا ہے-تو ہوا یوں کہ انیس ننانوے کی پہلی سہ ماہی چل رہی تھی اور میں الحمد للہ جنوری اور فروری میں تینوں بچّوں کی شادیوں سے فراغت پا کر بیٹھی تھی کہ میرے والد کا نارتھ ناظم آباد سے فون آیا 'و الد کہ رہے تھے کہ اورنگ آباد سےوحید الحسن  بھائ صاحب آئے ہیں اگر تم ملنا چاہو تو آ جاؤ - ابا جان کا فون سن کر میرا دل خوشی سے بھر گیا -اس وقت بڑی بہو اپنے میکے گئ ہوئ تھی اور چھوٹی میرے پاس تھی میں نے چھوٹی بہو سے کہا کہ بیٹا تم ڈرائور کو بلا کر اپنے میکے چلی جاؤ تو میں اپنے والد کے پاس ہوآؤں -بہو نے جواب دیا      آپ اپنے والد کے پاس چلی جائیے میں اکیلے رہ لوں گی  -چنانچہ میں اپنے والد صاحب کے پاس چلی گئ  اور اپنے منجھلے تایا سید وحید الحسن عابدی سے ملی -تایا جان بہت دیر مجھے اپنے سینے سے لگائے رہے اور پھر میں نے اپنے تایا جان سے بہت سی باتیں کیں  انہوں نے  لکھنے کے لئے قلم اور پیپر رکھّا ہوا تھا  وہ جو سوال کرتے گئے میں  ان  کوجواب دیتی گئ  اور وہ لکھتے گئے -بچّوں کی تعلیم بہووں کی تعلیم بیٹیوں کی تعلیم دامادوں کی تعلیم انہوں نے تعلیم پوچھی میں تعلیم کے ساتھ عہدے بھی بتاتی گئ اور  تایاجان سبحا ن اللہ ماشاللہ کہتے گئے -                    پھر تایا جان نے مجھ سے کہا کہ  ان کو حمائت علی شاعر نے اپنے  گھر  بلایا ہے  -اگر تم چلنا چاہو تو ساتھ چلو اور مین بغیر چوں چرا کے اپنے تایا جان اور والد صاحب کے ہمرا جناب حمائت علی شاعر کے گھر پہنچ                 گئ -

 

وہ ملاقات بہت ہی خوبصورت تھی جس میں میرے والد اور حمائت علی شاعر  اور میرے تایا جان  اپنے بچپن کی باتوں اور شرارتوں کو یاد کر کےدل کھول  کر ہنس رہے تھےاسی ملاقات میں مجھے معلوم ہوا کہ  درپن اور سنتوش کی فیمیلی  بھی انہی کی گلی  کی رہائشی تھی  -اس ملاقات کے بہانے  جناب حماءت علی شاعر نے بہت ہی پر تکلف کھانے کا اہتمام کیا تھا -اس نشست میں جناب  حما    ئت علی  شاعر اور میرے درمیان  شاعری اور ادب لطیف پر بہت سیر حاصل گفتگو ہوئ  اور انہوں نے مجھے ہدائت کہ کہ میں  نثری ادب یاد رکھوں یا نہیں یاد رکھوں لیکن مجھے  اپنی  شاعری ضرور یاد رکھنی ہے   ملاقات کے اختتام پر انہون نے اور میں نےدوبارہ ملنے کی خواہش کا اظہار کیا  'لیکن جیسا کہ میں نے اوپر زکر کیا کہ  حال ہی حال میں بچوں کی شادیا  ں ہوئیں تھیں اس لئے  میری گھریلو مصروفیات دوچند تھیں  اور پھر  وہ  کینیڈا آ گئے اور میں بھی  کینیڈا آ گئ  اور ہماری ملاقات کی آرزو تشنہ ہی رہ گئ کیونکہ وہ مسی ساگا میں رہائش پذیر تھے اور میری سکونت ایڈمنٹن  میں تھی  جس کا فاصلہ

 

پانچ گھنٹے کی فلائٹ پر ہے-اب کچھ جناب حمائت  علی شاعر کے بارے میں
                                      میں نے ا      پنے بچپن میں کسی سے سنا تھا کہ حیدر آباد کی سرزمین چونکہ آتش فشانی ہے اس لئے یہاں پر ہیرے بکثرت پائے جاتے ہیں قارئین کو یاد بھی ہو گا کہ شہرہء آفاق ہیرا کوہ نور بھی سرزمین دکن سے برامد ہوا تھا ،،جب آگے میری عمر نے شعور کی سیڑھِی پر قدم رکھّا اور مجھے زمانہ آ شنائ ملی تب معلوم ہوا کہ سر زمین دکن صرف اپنے تہہ زمین خزانوں میں ہی ہیرے نہیں رکھتی بلکہ اس کے اوپر کی  آباد دنیا بھی ہیرے اور جواہرات سے مرصّع ہے جنوبی ہندوستان کے شہرحیدرآباد کے ایک ضلع اورنگ آباد میں ایک میر خاندان سے تعلّق رکھنے والے معزّز فرد سیّد تراب علی کے گھر میں چودہ جولائ سنہء انّیس سو چھبّیس کو   ایک بچہ پیدا   ہوا جس  کا پیدائشی نام حمایت تراب علی رکھّا گیا جو اپنے تخلّص کی بنیا د پر حمائت علی شاعر زبان زد عام ہو گیا ہےجی ہاں تو میں بات کر رہی ہوں اس سرزمین کے شعراء کی جن کا سرا والئ ء دکن قلی قطب شاہ سے شروع ہو ا اور پھر اس قافلے نے اپنا سفر روکا نہیں ہجرت کے قافلے میں شامل ہو کر ہندوستان سے لے کر پاکستان کی سر زمین تک حمائت علی شاعر بن کر محیط ہو گیا '  انہوں نے  پاکستان کی سر زمین  پر اپنی لیاقت اور ہونہاری کے جھنڈے  گاڑے-

 

2002ء میں حکومت ِ پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔۱۹۶۳ء میں سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔حمایت علی شاعر نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے ۔ شاعری میں ایک نیا تجربہ ثلاثی  کے تحت کیا ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔ حمایت سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بھی منسلک رہے۔ گیت نگار اسکرپٹ رائٹر،لاتعداد فِلمی گیتوں کے خالق ، ڈرامہ نگار، ہدایت کار، فلم ساز اور نا جانے کتنے گن جو میری رسائ میں نہیں آ سکے ہیں جبکہ ان کی نثری تصانیف"شیخ ایاز" شخص وعکس کھلتے کنول سے لوگ 'بنگال سے کوریا تک نے اردو بینوں میں بہت پذیرائ ملی مشاعروں میں ان کی خوش الحانی اور ترنّم کا جداگانہ اور دل کو موہ لینے والا انداز لوگ ابھی تک یاد کرتے ہیں انہوں نے روایات سے انحراف بھی نہیں کیا اور معاشرے کی دھڑکتی ہوئ نبض کو بھی سنبھالے رکھاوہ  لاتعداد تصانیف کے مصنّف ہیں اور ان کی کئ تصانیف کے کئ کئ ایڈیشن چھپتے رہے قرض   تشنگی کا سفر آگ میں پھول ، حرف حرف روشنی شکست آرزو د چراغ محفل (مختلف شعرا کے کلام)، عقیدت کا سفر (نعتیہ شاعری کے ساتھ سو سال، تحقیق)،آئینہ در آئینہ (منظوم خودنوشت سوانح حیات)،، کھلتے کنول سے لوگ(دکنی شعرا کا تذکرہ)،ہارون کی آواز (نظمیں اور غزلیں)، تجھ کو معلوم نہیں(فلمی نغمات) محبتوں کے سفیر(پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام)۔ حمایت علی شاعر کونگار ایوارڈ(بہترین نغمہ نگار)، رائٹرگلڈآدم جی ایوارڈ، عثمانیہ گولڈ مڈل (بہادر یار جنگ ادبی کلب) سے نوازا گیا

 

۔ ان کی ادبی اور دیگر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازامحترم حمایت علی شاعر سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بحیثیت استاد درس دیا اور اس کے بعد ریڈیو سے بھی اپنے ہنر کا لوہا منوایا ۔جب وہ بحیثیت استاد کے کھڑے ہوئے تو انہوں نے اپنے طالبعلموں کو صرف زیورعلم نہیں دیا بلکہ درس انسانیت سے بھی بہرہ مند کیا جب انہوں فلمی گیت لکھے تو گیتوں کے بول دل کی گہرائ میں ثبت ہو گئےجب وہ ہدائت کار بنے تو ہیرے تراش کر سماج کو دے دئے مشاعروں میں بلائے گئے تو اسٹیج پر ان کے آنے سے مجمع دم بخود ہو کر سنتا رہا اور سر دُھنتا رہا انہوں نے شاعری کو سخن ملبوس دے دیا اور وہ بیسویں صدی کا ترنّم آمیز دور بن گئے ہجرت کے بعد پہلے کراچی میں سکونت اختیار کی اور اب مستقلاً کینیڈا میں آباد ہیں۱۹۶۳ء میں سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔حمایت علی شاعر نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے ۔ شاعری میں ایک نیا تجربہ ثلاثی کے تحت کیا ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔میں نے جب یہ مضمون لکھا تھا وہ حیات تھے-'اللہ انکو  اپنی رحمت کے سائے میں رکھے -آمین 

1 تبصرہ:

  1. حقیقت یہ ہے کہ مجحے ان کے جیسی شخصیت زمانے میں نایاب ہی نظر آئ

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر