ہفتہ، 31 مئی، 2025

فن لینڈ کی خوشحالی کا کیا راز ہے

 


 فن لینڈ   کی خوشحالی کا کیا راز  ہے؟آ ئیے جانتے ہیں ' پالیسی ساز ریاست خوشحال معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔‘مسلسل ساتویں سال فن لینڈ دنیا کے خوشحال ترین ممالک میں سرفہرست ہے۔ ساتھ ہی یہ دنیا کے محفوظ ترین ممالک کی فہرست میں 13ویں نمبر پر براجمان ہے۔ورلڈ ہیپی نیس‘ رپورٹ میں فن لینڈ کو مسلسل چھ برسوں تک دنیا کا سب سے زیادہ خوشحال ملک قرار دیا گیا ہے۔فن لینڈ کو خوشحال ملک اس لیے قرار نہیں دیا جاتا کہ وہاں کے لوگ ہر وقت مسکراتے رہتے ہیں یا اُنہیں کبھی کوئی پریشانی پیش نہیں آتی، فن لینڈ اس لیے بھی خوشحال ملک قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ وہاں کے عوام کو اعلیٰ معیار کی جمہوریت اور معاون عوامی اداروں سے عوام دوست پالیسیز حاصل ہیں۔فن لینڈ میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک غیر ملکی طالبِ علم محمد الاسلام نے دنیا کے خوشحال ترین ملک سے متعلق بات کی ہے۔محمد الاسلام  نے 2016ء سے 2019ء تک فن لینڈ کے ایک اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ظالب علم کے مطابق فن لینڈ کی حکومت اور اُن کی جانب سے بنائی گئی عوام دوست پالیسیاں ملک میں خوشحالی میں کتنی  مددگار ہیں۔


طالبِ علم محمد الاسلام کی گفتگو سے ظاہر تھا کہ اُس نے کتنی راحت اور پرسکون زندگی کا تجربہ کیا ہے۔ محمد الاسلام کا کہنا ہے کہ فن لینڈ کے لوگ عام طور پر اپنے پڑوسیوں پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اُنہیں بھی پُراعتماد اور پرسکون محسوس کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔طالبِ علم کے مطابق اُس نے کبھی سڑک پر کھڑے ہوئے اپنے لیے کسی دوسرے کی آنکھوں میں اجنبیوں والی غیریقینی کی سی کیفیت یا بدنیتی پر مبنی ارادے محسوس نہیں کیے، اُس نے وہاں خود کو ہر طرح سے آزاد محسوس کیا، اُس نے محسوس کیا کہ یہاں وہ کسی بوجھ یا ذبردستی کے بغیر اپنی سیاسی رائے (مثبت یا منفی) کا آزادانہ اظہار کر سکتا ہے۔فن لینڈ کے عوام بھی اپنے مقامی سیاست دانوں پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں، وہاں انتخابات کا عمل بہت پرسکون ماحول میں آزادانہ ہوتا ہے۔طالبِ علم کا بتانا ہے کہ فِن لینڈ کی سب سے اچھی بات اُنہیں یہ لگی کہ وہاں کا تعلیمی نظام بالکل مفت ہے، انہوں نے فن لینڈ میں 2016ء میں اسکول شروع کیا تھا، اس لیے اُنہیں اور دیگر بین الاقوامی طلبہ کو مفت تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تھا جبکہ 2017ء میں پالیسی میں تبدیلی کے بعد بعض طلبہ کو ٹیوشن فیس ادا کرنا پڑ سکتی ہے جو کہ ہر اسکول کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔



طالبِ علم نے بتایا کہ مفت تعلیم اُن کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی مگر اُنہیں اپنی رہائش اور کھانے پینے کے اخراجات خود اٹھانے تھے جس کے لیے نوکری ڈھونڈنے میں اُنہیں تھوڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔طالبِ علم نے بتایا کہ انہوں نے وہاں ایک صحت سے متعلق پالیسی بھی خرید لی تھی اور صحت کی مفت خدمات بھی حاصل کی تھیں۔فن لینڈ کے سابق طالبِ علم کا کہنا ہے کہ اِس ملک میں رہتے ہوئے تحفظ کا زبردست احساس ہی فن لینڈ کو خوشحال بناتا ہے۔محمد الاسلام کے مطابق فن لینڈ کی خوشحالی کے پیچھے وسیع فلاحی پالیسیاں بھی ہے جو پیدائش سے لے کر قبر تک بہت سی بنیادی ضروریات کا احاطہ کرتی ہیں اور رہائشیوں کو تحفظ کا اعلیٰ احساس فراہم کرتی ہے۔محمد الاسلام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں عوام کو اپنی خوشی اور بہتر زندگی کے لیے مکمل طور پر خود ذمہ دار نہیں ہونا چاہیے، پالیسی ساز ریاست خوشحال معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔‘عالمی دہشتگردی کے انڈیکس میں اس کا 89واں نمبر ہے جو اس فہرست میں نچلے درجے کی نشاندہی کرتا ہے۔



اگرچہ یہ دنیا کے محفوظ ترین ملک میں سے ایک ہے لیکن اس کے باوجود پُرتشدد انتہاپسندی پر قابو پانا فن لینڈ کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔انتہاپسندی روکنے کا فن لینڈ کا پہلا نیشنل ایکشن پلان 2012ء میں تیار کیا گیا جبکہ اس کا دوسرا ورژن 2016ء میں ڈرافٹ کیا گیا تھا۔ بیرونی مشاہدین نے اس کا جائزہ لیا اور 2019ء میں تشخیصی رپورٹ شائع ہوئی۔ منصوبے کے مقاصد میں پُرتشدد انتہاپسندی کو کم کرنا اور اس سے لاحق خطرات، مساوات، آزادی اظہار، دیگر آئینی حقوق کے نفاذ کو فروغ دینا، نفرت انگیز جرائم کا پتا لگانا اور ان کی تحقیقات کرنا شامل تھا۔فن لینڈ کی وزارت داخلہ اب پُرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کی ذمہ دار ہے اور وہ نیشنل کوآپریشن نیٹ ورک کی قیادت بھی کرتی ہے جبکہ فن لینڈ کی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس سروس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پولیس اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔ فن لینڈ کا یہ منصوبہ، معاشرے کی سمت کا تعین کرنے اور پُرتشدد انتہاپسندی کے حوالے سے رائے عامہ اور رویوں کو متاثر کرنے والی اقدار کی وضاحت کرنے میں سیاست دانوں کے اثرورسوخ کا بھی معترف ہے۔



ہر سال یو این او کی سرپرستی میں دنیا بھر کا سروے کیا جاتا ہے اور پھر اس کی سالانہ رپورٹ شائع کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سات برس سے یورپ کا ایک چھوٹا ملک فن لینڈ خوش ترین ملک کا اعزاز حاصل کر رہا ہے۔ یہ پڑھ کر مجھے تجسس ہوا کہ میں فن لینڈ کی خوشی کا راز کیا ہے؟یو این او کے سروے کے تحت جو معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اُن میں دیکھا جاتا ہے کہ وہاں اوسط عمر کیا ہے۔ خوشحالی اور سوشل سکیورٹی کتنی ہے۔ لوگوں کو کتنی فریڈم حاصل ہے۔ اس فریڈم میں سیاسی‘ صحافتی‘ سماجی اور ذاتی آزادی سب شامل ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم کیا جاتا ہے کہ ملک میں گورننس کیسی ہے اور کرپشن کتنی ہے۔فن لینڈ خوشحال ہے مگر دنیا کے پہلے بیس امیر ترین ممالک میں اس کا شمار نہیں ہوتا۔ فن لینڈ ایک ویلفیئر سٹیٹ ہے۔ اس کی آبادی صرف 55 لاکھ ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی 56 ہزار ڈالر ہے۔ یہاں کے باسیوں کی خوشی کا ایک نہیں‘ کئی رازہیں۔ فن لینڈ میں کسی شہری کو بے بسی کا ہرگز کوئی احساس نہیں ہوتا۔ لوگوں کی آمدنی اور قیمتوں کے درمیان کوئی بڑا تفاوت نہیں۔ یہ نہیں کہ راتوں رات گیس چھ سو فیصد بڑھا دی جائے۔ اگر کسی شخص کو اپنے شعبے کا کام نہیں ملتا تو حکومت اسے نہایت معقول وظیفہ دیتی ہے۔ یو این او کے مقرر کردہ خوشحالی اور خوشی کے تمام معیارات پر فن لینڈپورا اترتا ہے۔ اس ملک کے خوش ترین ہونے کے رازوں تک رسائی حاصل کرتے کرتے بعض دلچسپ انکشافات بھی ہمارے سامنے آئے ہیں۔ بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ فن لینڈ میں مقبولِ عام 'سونا باتھ‘ وہاں کے شہریوں کی خوشی میں بڑا بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ فن لینڈ میں جھیلیں اور جنگل بہت ہیں۔ یہاں 40 نیشنل پارک ہیں۔ لوگ سیرو سیاحت اور قدرتی  مناظر کے دلدادہ ہیں فضائ آلودگی کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ غرض یہ کہ فن لینڈ ایک  بے پناہ خوبصورت  ملک ہے  جس کے  دامن آنے والا ہر شہری اپنے آپ کو پُرسکون محسوس کرنے لگتا ہے

 

جمعہ، 30 مئی، 2025

جدید تعلیم میں سیلانی ویلفئر مددگار

 



ایک طرف جہاں تعلیمی معیار کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے وہیں انتظامی امور کے لئے بھی تعلیمی ادارے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ اسکول کی سطح پر ایسا سافٹ ویراستعمال کیا جارہا ہے۔ جس کی مدد سے طالب علم کے داخلے سے لے کر اس کے اسکول چھوڑنے تک تمام ریکارڈ ایک داخلہ نمبر کے ساتھ محفوظ ہوتا ہے۔ طلبا کے پروگریس کارڈ اور امتحانی پرچے اور ماڈل پیپر وغیرہ بھی کمپیوٹر کی مدد سے تیار کئے جارہے ہیں۔ مجموعی طور پر تعلیم کے فروغ میں ٹیکنالوجی اہم رول ادا کر رہی ہےسیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے بانی و چیئرمین مولانا بشیر فاروقی قادری کے مطابق سیلانی ٹرسٹ ملک بھر میں ایک کروڑ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے پرعزم ہے اور ٹرسٹ نے میگا آئی ٹی ٹیسٹ کی تقریبات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہےجس کے دوران ہاکی اسٹیڈیم کراچی میں حال ہی میں ایک اور میگا آئی ٹی ٹیسٹ اور ایس ایم آئی ٹی پروگرام کے تحت انتظامات کے لیے منعقدہ تقریب میں سندھ کے گورنر نے بھی شرکت کی۔جس میں سیلانی ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی قادری نے کہا کہ ملک کی ترقی کا انحصار آئی ٹی کی تعلیم کے حصول میں ہے اور سیلانی ٹرسٹ اس سلسلے میں مصروف عمل ہے


 اور ٹرسٹ 2035 تک پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے سرگرداں ہے جس کے تحت ہی ملک بھر میں آئی ٹی ٹیسٹ ہو رہے ہیں جہاں بلامعاوضہ ٹرسٹ آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے اور حالیہ ٹیسٹ میں بھی دس ہزارنوجوانوں کے ٹیسٹ لیے گئے ہیں۔موجودہ دور آئی ٹی کا دور ہے جس کی اہمیت کو پاکستان سے پہلے بھارت نے تسلیم کیا تھا جس کے تحت انٹرنیٹ کے سلسلے میں دنیا بھر میں ایک عالمی طاقت بن کر ابھرا ہے جس کے مقابلے میں آئی ٹی کی اہمیت کو دیر سے تسلیم کیا گیا جس کی وجہ سے ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے اور حکومتوں کی طرف سے آئی ٹی کی تعلیم پر دیر سے توجہ دی گئی۔ اب حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ کی تعلیم دینے کے لیے جو اقدامات ہوئے وہاں ملک کے نجی اداروں نے بھی ملک کے بچوں کو آئی ٹی کی تعلیم کے حصول پر راغب کیا جن میں ملک میں ایک بہت بڑا فلاحی ادارہ سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ ہے جہاں بلا معاوضہ آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرکے نوجوان میدان میں آنا شروع ہوگئے ہیں اور لاکھوں روپے ماہانہ کمانے لگے ہیں، جو کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔


سیلانی آئی ٹی پروگرام سے منسلک ہزاروں نوجوانوں نے عہد کیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک سے حاصل کردہ اپنی آمدنی کو پاکستان میں ترسیلات زر کی شکل میں لائیں گے تاکہ ملک کے کروڑوں ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی میں مدد دے سکیں، موہٹہ پیلس میں سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے تحت آئی ٹی تربیتی پروگرام کے گریجویٹس کے پہلے اجتماع کا انعقاد کیا گیا ،تقریب کے مہمان خصوصی محمد علی ٹبہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا اقتصادی بحران آئی ٹی پروفیشنلز کی تیاری سے ختم ہوسکتا ہے، حکومت پرائیویٹ سیکٹر اور غیر منافع بخش اداروں کے آئی ٹی پروگراموں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرے،،بینکار یوسف حسین، تاجر عارف حبیب نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، مولانا بشیر فاروق قادری نے تقریب میں موجود آئی ٹی لرننگ پروگرام کے گریجویٹس کو اپنی نشستوں سے اٹھ کر عہد کرنے کی دعوت دی ۔تفصیلات کے مطابق سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے تحت فالکن سوسائٹی کے قریب بلوچ کالونی پل سے متصل جدید ترین عمارت میں زیتون اشرف آئی ٹی پارک قائم کردیا گیا ہے ۔


 زیتون اشرف آئی ٹی پارک کا افتتاح بدھ(کل)  سہ پہر ساڑھے تین بجے ہوگا۔گورنر سندھ کامران ٹیسوری افتتاح کریں گے ۔تقریب میں سیلانی کے بانی اور چیئرمین مولانا بشیر فاروق قادری کے علاوہ اہم کاروباری شخصیات بھی شرکت کریں گی سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے بانی و چیئرمین مولانا بشیر فاروقی قادری کے مطابق سیلانی ٹرسٹ ملک بھر میں ایک کروڑ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے پرعزم ہے اور ٹرسٹ نے میگا آئی ٹی ٹیسٹ کی تقریبات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے دوران ہاکی اسٹیڈیم کراچی میں حال ہی میں ایک اور میگا آئی ٹی ٹیسٹ اور ایس ایم آئی ٹی پروگرام کے تحت انتظامات کے لیے منعقدہ تقریب میں سندھ کے گورنر نے بھی شرکت کی۔جس میں سیلانی ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی قادری نے کہا کہ ملک کی ترقی کا انحصار آئی ٹی کی تعلیم کے حصول میں ہے اور سیلانی ٹرسٹ اس سلسلے میں مصروف عمل ہے اور ٹرسٹ 2035 تک پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے سرگرداں ہے جس کے تحت ہی ملک بھر میں آئی ٹی ٹیسٹ ہو رہے ہیں جہاں بلامعاوضہ ٹرسٹ آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے اور حالیہ ٹیسٹ میں بھی دس ہزارنوجوانوں کے ٹیسٹ لیے گئے ہیں۔


آئی ٹی میں نوجوانوں کا رجحان جس طرح تیزی سے بڑھ رہا ہے اس لحاظ سے کمرشل ادارے بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور من مانی فیسوں پر نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینے لگے ہیں مگر سیلانی ٹرسٹ کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو مفت میں آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے بلکہ اس کی ترجیح ہی آئی ٹی کی تعلیم زیادہ سے زیادہ نئی نسل کو فراہم کرنا ہے۔ ملک بھر میں طلبا اور طالبات کو آئی ٹی کی جدید تعلیم دینے کے لیے سیلانی ٹرسٹ نے مختلف انتظامات کر رکھے ہیں جہاں آئی ٹی کی تعلیم کے حصول کے خواہش مند تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔آئی ٹی کے تعلیم کا بڑھتا رجحان اب نئی نسل کی مجبوری بن چکا ہے اور لوگ آئی ٹی کی تعلیم کے سینٹروں کا رخ کر رہے ہیں جس کو دیکھ کر نوجوانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمرشل اداروں نے منہ مانگی فیسوں پر آئی ٹی کی تعلیم دینا شروع کر دی ہے جن کا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے اور ان کا اس سلسلے میں طریقہ معیاری نہیں۔سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ جو گزشتہ 20 سالوں سے زندگی کے 63 شعبوں پیدائش سے موت تک سہولیات فراہم کر رہا ہے۔

جمعرات، 29 مئی، 2025

ریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کا حصہ

     معدنی دولت سے مالا مال بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا مگر پسماندہ صوبہ ہے، جہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہونے کے باوجود عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔بلوچ عوام کی محرومیوں کی بنیادی وجوہات میں مقامی سیاست دانوں کی بے حسی، سرداری نظام اور وسائل کا غلط استعمال شامل ہیں۔مقامی سیاست دان عوامی فلاح و بہبود کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، آپ اندازہ لگا یئے کہ  سوئ کے مقام سے گیس برامد ہوتی ہے جو تمام ملک کے طول عرض میں بھیجی جاتی ہے لیکن بلوچ عورت آج بھی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر  اس کا گٹھا سر پر رکھ کر لاتی ہے تب اس کے گھر کا چولہا جلتا ایسے میں  احساس محرومی پیدا ہو گا کہ نہیں -دراصل سرداری نظام عوام کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے،   اب آیئے دیکھتے ہیں کہ ریکوڈیک   کیا ہے،  اہم معدنی منصوبے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں تاہم بلوچستان میں اس منصوبےکو لے کر خدشات اور تحفظات ہیں۔ اس اربوں ڈالر کے منصوبے سے آخر یہ منصوبہ ہے کیا اور اس سے کیا فوائد اٹھائے جا سکتے ہیں؟ ریکوڈک پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع ایک اہم معدنی منصوبہ ہے، جس میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔خود اس صوبے کے اندر اس منصوبےکو لے کر خدشات ہیں تحفظات ہیں۔ اس اربوں ڈالر کے منصوبے سے کیا فوائد اٹھائے جاسکیں گے؟ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو ہر طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔لیکن غریب تر صوبہ ہے -حالانکہ  یہاں تیل، قدرتی گیس، سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں 


 ء2024 میں ایک فزیبلٹی سٹڈی نے ریکوڈک میں 15 ملین ٹن تانبے اور 26 ملین اونس سونے کی موجودگی کی تصدیق  ہو چکی ہے۔وزیر برائے توانائی پیٹرولیم ڈویژن علی پرویز ملک نے گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کو بتایا کہ ریکوڈک سے پہلے مرحلے میں پیداوار 2028 میں شروع ہوگی جوکہ سالانہ سونے کی تین لاکھ اونس اور تانبے کی دو لاکھ ٹن ہوگی۔ دوسرے مرحلے میں پیداوار 2034 میں شروع ہوگی جو کہ سالانہ سونے کی بڑھ کر پانچ لاکھ اونس اور تانبے کی چار لاکھ ٹن ہو جائے گی۔سعودی کمپنی منارہ ریکوڈک میں سرمایہ کاری کر سکتی ہے: پاکستانی وزیر-سعودی عرب کی ریکوڈک مں ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری کا امکان: میڈیا-ریکوڈک سے بندرگاہ تک آمدورفت کی سکیورٹی یقینی بنائیں گے: حکومت ریکوڈک معاہدہ: ’بلوچستان کے لیے 25 فیصد حصہ قابلِ قبول نہیں‘یہ پاکستان میں سب سے بڑا مغربی سرمایہ کاری کا منصوبہ ہو گا اور اس سے موجودہ مائن پلان کی تقریباً 37 سالہ زندگی میں 75 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی مفت کیش فلو پیدا کرنے کی توقع کی گئی ہے۔


یہ اعداد و شمار حقیقی کیش فلو پر مبنی ہیں، جو محتاط ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر مفت کیش فلو 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی پیداوار بھی کر سکتا ہے۔اس وقت کینیڈا کی بیرک گولڈ کارپوریشن حکومت پاکستان کے اشتراک سے اس منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ حکومت پاکستان کے پاس اس کے 25 فیصد حصص ہیں۔ایک اہم حالیہ پیش رفت سعودی عرب کے ریاستی سرمایہ کاری کے فنڈ، منارا منرلز، کی بظاہر دلچسپی ہے۔ اس کی طرف سے ریکوڈک منصوبے میں 10-20 فیصد حصص حاصل کرنے کی توقع ہے۔بلوچستان کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے یقینی بنایا کہ صوبے کی ترقی کے لیے وہاں کام کرنے والی کمپنی صوبائی حکومت کو پہلے سال 50 لاکھ ڈالر جبکہ دوسرے سال 75 لاکھ ڈالر قبل از وقت رائلٹی کی ادائیگی کرے گی جو تیسرے سال اور اس کے بعد تجارتی پیداوار تک ایک کروڑ ڈالر سالانہ کی ہو گی۔


وفاقی حکومت کے علاوہ بلوچستان حکومت کا بھی 25 فی صد حصہ ہو گا، ٹیکس اور رائلٹی کی مد میں دیگر معاشی فوائد بھی ملیں گی۔بلوچستان کی حکومت کو پانچ فیصد رائلٹی کی ادائیگی ہوا کرے گی۔ملازمتوں کی مد میں بھی بلوچستان کو کافی فائدہ متوقع ہے۔ منصوبے کے عروج کے دوران  لازمتیں پیدا ہوں گی۔حکومتی بیان کے مطابق فی الحال ریکوڈک مائنگ کمپنی کے ملازمین میں 77 فیصد بلوچستان سے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فوائد پہنچانے کے لیے دیگر مختلف اقدامات کیے گئے ہیں: جس کے ذریعے علاقے میں صحت، تعلیم اور دیگر  انفراسٹرکچر پر کام جاری ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ  مقامی طلبہ کو بھی سکالر شپس بھی فراہم کی جا رہی ہیں-حکومت کی ان سکیموں کا بظاہر مقصد مقامی افراد کو اس اہم منصوبے کا شراکت دار بنانا اور وسائل کے غلط استعمال کے بارے میں شکوک و شبہات دور کرنا ہے۔


ایک تجویز یہ بھی دی جا رہی ہے کہ اس منصوبے سے ملنے والی آمدن میں بلوچستان کے حصے کا 75 فیصد اس کے اردگرد اضلاع پر ہی خرچ کیا جائے۔وفاقی حکومت کا اصرار ہے کہ ریکوڈک منصوبے میں جائز تقسیم اور جواب دہی کو یقینی بنانے کے لیے ایک مضبوط نگرانی کا طریقہ کار موجود ہے۔ریکوڈک مائننگ کمپنی کی نگرانی ایک بورڈ کے ذریعے کی جاتی ہے جس کی صدارت بلوچستان کے چیف سیکرٹری کرتے ہیں، جس میں سیکرٹری معدنیات اور دیگر وفاقی ریاستی اداروں کے نمائندے شامل ہیں۔یہ بورڈ منصوبے کی ترقی جانچنے کے لیے سہ ماہی اجلاس منعقد کرتا ہے اور شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔بس اب دیکھنا ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی ادائگی کیسے ہوتی ہے  

مضمون انٹرنیت کی مدد سے لکھا گیا 

پیر، 26 مئی، 2025

شاہرا ہ بلتستان کی اندھی کھائیاں اور اندھے موڑ

 

  خوبصورت  وادیاں  'بل کھاتی سڑکیں 'تاحد نظر سرسبز لہلاتی  سطح مرتفع  یہ مناظر کس قدر رومان پرور ہو سکتے ہیں       -اور  وہ  ہر دم    ساتھ ساتھ  رہنے والے مر نے  کے لئے بھی ساتھ چل دئے -یہ     تینو ں دوست قریبی رشتہ دار بھی تھے۔ عمر احسان، کوٹ گھکہ کا اکیس سالہ نوجوان، اسکول ٹیچر احسان کا لخت جگر تھا۔ اس کے ساتھ اس کا پھوپھی زاد سلیمان نصراللہ، جسوکی کا رہائشی، جو چند ماہ قبل اٹلی سے چھٹیاں گزارنے آیا تھا۔ ان کے ہمراہ عمر کا بہنوئی، بیالس سالہ واصف شہزاد بھی تھا، جو دو معصوم بیٹیوں کا باپ تھا۔ چوتھا دوست عثمان، ساروکی کا رہائشی، ان سب کا پرانا ہمسفر تھا۔ سب نے ایک ساتھ سفر کیا، ایک ساتھ ہنسے، ایک ساتھ خواب دیکھے — اور اب ایک ساتھ موت کی وادی میں اتر گئے۔حادثہ گنجی پڑی کے قریب پیش آیا جہاں بل کھاتی سڑکیں اور اندھی کھائیاں اکثر موت کا باعث بنتی ہیں۔ بلتستان شاہراہ کو بلاوجہ خونی سڑک نہیں کہا جاتا۔ یہ سڑک کسی کالی سانپ کی مانند پہاڑوں میں لپٹی، بل کھاتی، موت کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔



یہاں گاڑیوں کو آہستہ، ہوشیاری اور چوکسی سے چلانا لازم ہے، مگر بعض اوقات ذرا سی لغزش انسان کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتی ہے۔حادثے کی منظرکشی دل دہلا دیتی ہے۔ سامنے آنے والی تصاویر کے مطابق تین دوست گاڑی کے اندر ہی کچلے گئے، جب کہ چوتھا دوست گاڑی سے نکل کر کسی چٹان کے سائے میں ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور شاید آخری سانسوں تک زندگی کیلئے لڑتا رہا۔ ممکن ہے اس نے بچاؤ کے لیے کچھ سوچا ہو، خدا کو یاد کیا ہو، یا بس آخری لمحے خاموشی سے موت کا سامنا کیا ہو۔ مگر قدرت نے اسے بھی نہیں بخشا۔ایک تصویر میں ممکنہ طور پر تھکن سے چور نوجوان کو گاڑی کی کھڑکی سے سر ٹکائے سوتے بھی دیکھا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان تھکے ہوئے تھے۔جائے حادثہ کا معائنہ کرنے والے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ ڈرائیور کی ناتجربہ کاری، ڈرائیونگ کے دوران نیند آنے اور تیز رفتاری کے باعث پیش آیا ہوگا۔ لیکن جس مقام پر حادثہ پیش آیا  وہاں ایک حفاظتی    دیوار یا جنگلے کا کوئ وجود  نہیں ہے اور سڑک کا یہ حصہ خونی موڑ کہلاتا ہے ۔


 اہلکاروں نے کہا کہ اگر اس جگہ مناسب حفاظتی انتظامات ہوتے تو شاید حادثے میں قیمتی جانوں کا نقصان نہ ہوتا یا کم از کم وہاں حادثے کے آثار ملنا ممکن ہوتا۔سات دن گزر گئے۔ پہاڑوں میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ چیلیں اور گِدھیں ہی وہ پہلا اشارہ بنیں جنہوں نے انسانوں کو متوجہ کیا۔ پرندوں کی غیر معمولی موجودگی نے ان کی موجودگی کا راز کھول دیا۔ لاشیں نکال لی گئیں، مگر گھروں میں جو صف ماتم بچھی، وہ کبھی ختم ہونے والی نہیں۔گجرات کے ان گھروں میں جہاں کبھی ان نوجوانوں کی قہقہے گونجتے تھے، اب صرف آہ و بکا باقی ہے۔ جو ایک لمحے کے حادثے نے چھینا، وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔اس حادثے نے ایک بار پھر گلگت بلتستان کی سڑکوں کی خطرناکی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سیاحوں سے گزارش ہے کہ یہاں گاڑی چلاتے وقت انتہائی احتیاط کریں۔ ایک طرف بلند پہاڑ، دوسری طرف گہری کھائیاں، اور درمیان میں صرف ایک گاڑی کی گزرگاہ۔ ایسے میں ذرا سی بےاحتیاطی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ کسی کو جلدی پہنچنے کی نہیں، بلکہ محفوظ پہنچنے کی ضرورت ہے۔


 ایل ای ڈی لائٹس کا بےجا استعمال، تیز رفتاری اور مسلسل ڈرائیونگ، یہ سب کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔زندگی ایک امانت ہے۔ یہ راستے، یہ پہاڑ، یہ وادیاں خوبصورت ضرور ہیں، مگر ان کے سینے میں بے شمار راز دفن ہیں۔ کہیں ان چار دوستوں کی طرح کسی اور کا ہنستا کھیلتا چہرہ نہ خاموش ہو جائے۔ اس لیے سفر کریں، دیکھیں، محظوظ ہوں، مگر ہمیشہ محتاط رہیں۔ کیونکہ ایک لمحے کی بے خبری، ایک قدم کی لغزش، اور سب کچھ ختم۔ہمیشہ کے لیے گلگت بلتستان کی بلند و بالا چٹانوں، دلکش وادیوں اور جادوئی فضاؤں نے ایک بار پھر اپنے پاس آنے والوں کو ہمیشہ کیلئے اپنے پاس ہی روک لیا۔ پنجاب کے شہر گجرات سے شمالی علاقہ جات کی سیاحت کے لیے آنے والے چار دوست، جو خوشیوں سے بھرے گھر سے نکلے تھے، اب سرد لاشوں کی صورت واپس لوٹ رہے ہیں۔ وہ جو ہنستے کھیلتے گلگت کی وادیوں میں داخل ہوئے تھے، وہ جو زندگی کی رنگینیوں سے لبریز تھے، وہ اب زندگی کی سب سے تاریک کہانی بن چکے ہیں۔


سلیمان نصراللہ، واصف شہزاد، عمر احسان اور عثمان کا تعلق گجرات سے تھا۔ یہ نوجوان 12 مئی کو سفید رنگ کی ہونڈا سیوک نمبر 805-ANE پر اپنے شہر سے روانہ ہوئے تھے۔ ابتدا میں ان کا سفر حسین اور یادگار رہا۔ دنیور میں قیام کے بعد انہوں نے 15 مئی کی رات گلگت سے سکردو کا رخ کیا، مگر پھر ایسا اندھیرا چھایا جو ایک ہفتے تک چھٹ نہ سکا۔ 16 مئی کی صبح ان کا آخری بار رابطہ ہوا، اس کے بعد ان کے موبائل بند ہو گئے، اور جیسے وہ زمین کھا گئی ہو یا آسمان نگل گیا ہو — کوئی سراغ، کوئی آواز، کچھ نہ بچا۔پولیس، ریسکیو ٹیمیں، سیکیورٹی ادارے دن رات انہیں تلاش کرتے رہے۔ گلگت سے سکردو تک کے تمام راستے چھان مارے گئے، لیکن زندگی کے ہر شور سے دور وہ موت کی آغوش میں سو چکے تھے۔بالآخر گنجی پڑی کے مقام پر ان کی گاڑی سیکڑوں فٹ گہری کھائی میں ملی۔ چاروں دوست موقع پر ہی دم توڑ چکے تھے۔ گاڑی کا کچھ پتہ نہ چلنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ایسے مقام پر گری جہاں سے نیچے دیکھنا بھی ممکن نہ تھا ۔چنانچہ جب گدھ آسمان پر نظر آئے تب عوام کو ان کی گاڑی اور خود ان کی لاشوں  کا سراغ ملا 


ہفتہ، 24 مئی، 2025

روحانی عظمت کا حامل شہر''اچ شریف""

 



دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی قدیم تاریخی ثقافتی ورثہ کے حامل شہر موجود ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں، انہی میں پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل احمد پور شرقیہ کا شہر اُچ شریف بھی شامل ہے، جسے اولیاء و بزرگان دین کی دھرتی کہا جاتا ہے۔  جنوبی پنجاب کی داستان بیان کرتا ہوا تاریخی شہر1998ء میں یونیسکو نے اچ شریف کے دو مقامات کو اپنی لسٹ میں شامل کیا اولڈ بگ سٹی کے خطاب سے بھی نوازابہاولپور سے 73 کلو میٹر دور جنوب مغرب میں 5 دریائوں کے سنگم میں واقع اُچ شریف کسی زمانہ میں سات آبادیوں میں تقسیم تھا، 36 میل لمبائی اور 24 میل چوڑائی پر پھیلا یہ شہر بزرگان دین کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، 400 عیسوی میں وسطی ایشیاء سے یہاں آنے والی ہن قوم اس شہر پر حملہ آور ہوئی اور اس کو نیست و نابود کر ڈالا، زمانے کے بے رحم ہاتھوں یہ شہر کئی بار اجڑ اور آباد ہو کر کئی نشیب و فراز دیکھے، قدامت اور تہذیبی لحاظ سے اس کے تانے بانے ہڑپہ اور موہنجودڑو سے ملتے ہیں، صدیوں پرانی تہذیب کے حامل اس شہر اُچ شریف نے بہت سے عروج و زوال دیکھے،  راوی کہتا ہے کہ اُچ شریف دریائے ہاکڑا کے کنارے آباد ہوا، جس کے آثار اب بھی نظر آتے ہیں،



 چولستان میں تعمیر شدہ پرانے قلعے اور ان کی یادیں اس بات کی عکاس ہیں کہ کبھی یہاں دریائے ہاکڑا بہتا تھا اور یہ خطہ زرخیزی اور خوشحالی کا ایک باب تصور ہوتا تھا۔بر صغیر میں احیائے اسلام سے پہلے سندھ ہندو ریاست کا حصہ تھا اور اُچ اس کا اہم شہر، اس دوران علاقہ میں بہت سے قلعے اور فصیلیں تعمیر کرائی گئیں، سلطان محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کی آمد سے ہندو سلطنت تباہ و برباد ہوئی اور پھر اس کے بعد اُچ شریف کو عروج اور لازوال ترقی ملی، اس شہر میں علوم اسلامی کی ابتداء 370 ہجری میں حضرت سید صفی الدین گاذرونی کے پہنچنے سے ہوئی، وہ پہلے صوفی بزرگ تھے جو برصغیر میں اُچ شریف میں تشریف لائے اور بر صغیر کی پہلی اسلامی یونیورسٹی جامعہ فیروزیہ کی بنیاد رکھی، جس نے اس وقت برصغیر میں اسلامی تعلیم کے فروغ اور ترویج کا فریضہ سر انجام دیا۔ جب ہندوستان کی فضا مسلمانوں کے لئے پوری طرح سازگار نہیں تھی‘ جامعہ فیروزیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مشہور ایرانی مؤرخ قاضی وقت علامہ منہاج سراج جیسے عالم اس ادارہ کے صدر تھے‘ اس مدرسہ میں ایک وقت میں اڑھائی ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے‘ سلطان ناصر الدین قباچہ کے دور میں اُچ کو سلطنت کے دارالحکومت کا درجہ ملا اور یہ عرصہ اُچ شریف کیلئے خوشحالی کا دور تھا‘ منگولوں کے حملے کے باوجود اس شہر کی اہمیت برقرار رہی، لیکن باد شاہ شمس الدین  التمش نے اس شہر پر حملہ کیا اور مشہور زمانہ یونیورسٹی سمیت کئی مدرسوں و کتب خانوں کو نیست و نابود کر دیا‘ تباہی کے بعد جب وہ حاکم وقت بنا تو اس نے دہلی کو اپنا دارالحکومت بنا لیا‘ جس کے بعد اُچ شریف کو کبھی اس کی کھوئی ہوئی حیثیت واپس نہ مل سکی‘ یہاں اب صرف کھنڈرات اور روحانی عظمت کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔



اس شہر میں علوم اسلامی کی ابتداء 370 ہجری میں حضرت سید صفی الدین گاذرونی کے پہنچنے سے ہوئی، وہ پہلے صوفی بزرگ تھے جو برصغیر میں اُچ شریف میں تشریف لائے اور بر صغیر کی پہلی اسلامی یونیورسٹی جامعہ فیروزیہ کی بنیاد رکھی، جس نے اس وقت برصغیر میں اسلامی تعلیم کے فروغ اور ترویج کا فریضہ سر انجام دیا۔ جب ہندوستان کی فضا مسلمانوں کے لئے پوری طرح سازگار نہیں تھی‘ جامعہ فیروزیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مشہور ایرانی مؤرخ قاضی وقت علامہ منہاج سراج جیسے عالم اس ادارہ کے صدر تھے‘ اس مدرسہ میں ایک وقت میں اڑھائی ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے‘   حضرت صفی الدین گاذرونیؒ‘ حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ‘ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ‘ حضرت صدر الدین راجن قتالؒ‘ حضرت فضل الدین لاڈلا ؒ‘ حضرت جلال الدین خنداں روؒ‘ حضرت کبیر الدین حسن دریاؒ‘ حضرت غوث بندگیؒ‘ حضرت بہاول حلیم ؒجیسی عظیم ہستیاں اُچ شریف میں آسودہ خاک ہیں۔ اس شہر میں ایسے نوادرات اور تبرکات بھی موجود ہیں جو اس علاقہ کے تقدس میں اضافہ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔


  بتایا جاتا ہے کہ ہمایوں کی بادشاہت کے دور میں اُچ شریف پر مرزا کامران کی حکمرانی تھی، جب مرزا کامران اور مغلوں کی سلطنت اکٹھی ہوئی تو اُچ شریف کو مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا دیا گیا، اس دور حکومت میں بہت سے مقبروں، مزارات کی تعمیر و مرمت کرائی گئی، جب بہاولپور میں عباسی ریاست کی بنیاد رکھی گئی تو اُچ شریف اس ریاست کا حصہ بن گیا۔  1817ء میں آنے والے سیلاب نے اس تاریخی اہمیت کے حامل شہر کے قدیم آثار کو بری طرح تباہ کیا اور اپنے ساتھ بہت سی نشانیاں بہا کر لے گیا لیکن اس کی چند باقیات آج بھی منہدم ہونے سے پہلے آخری نشانی کی صورت میں موجود ہیں۔ تین مشہور مقبرہ جات اپنی خستہ حالی کے باعث کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتے ہیں، ان میں پہلا ادھورا مقبرہ حضرت بی بی جیوندی ؒکا ہے، جو حضرت مخدوم جہانیاں جہان گشت ؒکی درویش پوتی تھیں، اس مقبرے کو خراساں کے حکمران محمد دلشاد نے پندرہویں صدی میں تعمیر کروایا تھا، دوسرا مقبرہ حضرت جہانیاں جہان گشت ؒکے استاد حضرت بہاول حلیم ؒکا ،تیسرا ان اکابر کے استاد نوریہ کا ہے، جن کی خوبصورت کاریگری نے اس عہد گم گشتہ میں ان مقبروں کو شان و شوکت بخشی تھی، یہ تینوں نادر و نایاب مقبروں کے در و دیوار آج حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اچ شہر خوبصورت اور سفید رنگت والی آریائی قوم نے آباد کیا اور یہ نسل ہندو آبادی سے کافی ترقی یافتہ تھی، اس وقت اس علاقہ میں ذات پات کا نظام تھا، جو اچ شہر کی تعمیرات میں بھی نمایاں نظر آتا تھا، آریائی قوم کے نقوش آج بھی علاقہ میں موجود ہیں لیکن اس ورثہ کو بچانے والا کوئی مسیحا موجود نہیں، 1998ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اچ شریف کے دو مقامات کو اپنی لسٹ میں شامل کیا۔ فن تعمیر کے بہترین شاہکار مقبرہ بی بی جیوندیؒ کی وجہ سے ایک امریکی کمپنی نے اچ شریف کو اولڈ بگ سٹی کے خطاب سے نوازا۔


 ملتانی فن تعمیر کا شاہکار یہ مقبرہ 2000ء میں ہونے والے سروے میں دنیا بھر کی 100 قدیم تاریخی عمارات کی فہرست میں سرفہرست تھا، امریکی قونصلیٹ برائن ڈی ہنٹ نے 2006ء جبکہ پیٹر سن نے 2008ء میں اس شہر کا دورہ کیا اور اس کے عظیم تاریخی ورثہ کو محفوظ بنانے کیلئے 50 ہزار امریکی ڈالر عطیہ بھی کیا، جس کا کچھ حصہ بھی اچ شریف کے آثار قدیمہ پر لگا ہوتا تو ان کی حالت بدل گئی ہوتی۔اچ شریف کو 1959ء میں اس وقت کے صدر ایوب خان کے نافذ کردہ بنیادی جمہوری نظام میں پہلی بار میونسپل کمیٹی کا درجہ دے کر محمد اعظم خان کو اس کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا، بعد ازاں مخدوم الملک مخدوم سید حامد محمد شمس الدین گیلانی انتخابات کے بعد پہلے چیئر مین منتخب ہوئے، صدر ضیاء الحق کے دور حکومت میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ 1979ء کے تحت اُچ شریف کو میونسپل کمیٹی سے ٹاون کمیٹی میں تبدیل کر دیا گیا، 2001ء میں صدر پرویز مشرف کے نافذ کردہ بلدیاتی نظام میں اس شہر کوجو کبھی سلطنت کا دارالخلافہ تھا سے نامناسب سلوک کرتے ہوئے اسے یونین کونسل کا درجہ دے دیا گیا، 2 جنوری 2017ء کو لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013 کے تحت اُچ شریف کی میونسپل کمیٹی کی حیثیت بحال کی گئی، نومبر 2019 کو تحریک انصاف کے وضع کردہ نئے بلدیاتی نظام میں بھی اس میونسپل کمیٹی کی حیثیت قائم رکھی گئی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اولیاء و بزرگان دین کی دھرتی کے حوالے سے دنیا بھر میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے اُچ شریف میں کسی دور حکومت میں کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام نہیں ہوئے، یہاں نہ تو نوجوانوں کے کھیلنے کیلئے کوئی مناسب گراؤنڈ ہے اور نہ ہی کوئی قابل ذکر طبی سہولت کا ہسپتال، نہ ہی یہاں کوئی قابل ذکر تعلیمی ادارہ ہے اور نہ ہی یہاں شہریوں کے پینے کیلئے صاف پانی کی سہولت۔ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور بوسیدہ حال گلیاں اس شہر کی شناخت ہیں حالانکہ یہ شہر جنوبی پنجاب کی ایک داستان ہے۔حکومت وقت کو اُچ شریف پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ اولیاء اورولیوں کا تاریخی ورثہ محفوظ رہ سکے۔

  

جمعہ، 23 مئی، 2025

نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار-کینیڈا

 

  کینیڈا تمام دنیا کی خوابوں کی سرزمین   ہے آج ہم اس پیاری سرزمین کے  ایک صوبے  نیو فاؤنڈ لینڈ کی بابت   اس مضمون میں  اس کی تاریخ پڑھیں گے -نیو  فاؤنڈ لینڈ دراصل انگریزی زبان  کا لفظ ہے جس کا مطلب نئی دریافت شدہ زمین ہے۔جبکہ  لیبرے ڈار پرتگالی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب زمین کا مالک ہے۔ اسے پرتگالی مہم جوآؤ فریننڈس لیوروڈور نے دریافت کیا۔نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کینیڈا کا ایک صوبہ ہے جس نے دسویں نمبر پر یعنی سب سے آخر میں الحاق کیا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے صوبہ نیو فاؤنڈ لینڈ جزیرہ اور لیبرے ڈار جو کہ بقیہ ملک سے جڑا ہوا ہے۔ 1949 میں کینیڈا میں شمولیت کے وقت پورا صوبہ نیو فاؤنڈ لینڈ کہلاتا تھا لیکن تب سے یہاں کی حکومت خود کو نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کی حکومت کہتی ہے۔ 6 دسمبر 2001 کو کینیڈا کے آئین میں ترمیم کر کے صوبے کا نام سرکاری طور پر بدل کر نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار رکھ دیا گیا۔ کینیڈا کے باشندے ابھی تک اسے نیو فاؤنڈ لینڈ کے صوبے کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ لیبرے ڈار کے حصے کو لیبرے ڈار کہتے ہیں۔اکتوبر 2007 کے مطابق صوبے کی آبادی 507475 نفوس ہے۔ نیو فاؤنڈ لینڈ کے لوگ نیو فاؤنڈ لینڈر کہلاتے ہیں اور لیبرے ڈار کے لوگ لیبرے ڈارین کہلاتے ہیں۔ 


نئو فاؤنڈ لینڈ کا انگریزی، فرانسیسی اور آئرش زبانوں کے لئے اپنے لہجے ہیں۔ لیبرے ڈار میں بولی جانے والی انگریزی کا لہجہ نیو فاؤنڈ لینڈ سے بہت ملتا جلتا ہے۔نیو فاؤنڈ لینڈ تاریخی اعتبار سے کئی چیزوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ مثلاً براعظم امریکہ میں یورپیوں کی طرف سے بسائی جانے والی پہلی کالونی یہاں ہے۔ یہ جگہ تقریباً 1000 عیسوی میں دریافت کی گئی تھی۔ اس دور کے کھنڈرات اور نمونے ابھی تک اس جگہ موجود ہیں اور اسے اب عالمی وراثتی جگہ کا نام دیا گیا ہے۔یہ جزیرہ پہلے بیوتھک اور پھر میکماک سے آباد رہا۔جان کبوٹ وائی کنگ کے بعد یہاں آنے والا پہلا یورپی تھا جو 24 جون 1497 میں ادھر پہنچا۔ 5 اگست 1583 کو سر ہمفرے گلبرٹ نے نیو فاؤنڈ لینڈ کو باقاعدہ طور پر انگلستان کی بیرون ملک پہلی نو آبادی کا بنانے کا اعلان کیا۔1610 سے 1728 تک مالکانہ حقوق کے ساتھ گورنر متعین کئے جاتے رہے تاکہ جزیرے پر نئی آبادیاں بنتی رہیں۔ جان گائے کوپر کوؤ میں بننے والی پہلی نو آبادی کا گورنر تھا۔ دوسری نو آبادیوں میں برسٹلز ہوپ، ری نیوز، ساؤتھ فاک لینڈ اور آوالون شامل ہیں۔


 آوالون بعد ازاں 1623 میں صوبہ بنی۔ وہ پہلا گورنر جسے نیو فاؤنڈ لینڈ پر مکمل قبضہ دیا گیا سر ڈیوڈ کرکے تھے۔ انہیں یہ اختیار 1638 میں ملا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ کا جزیرہ 1690 میں فرانسیسیوں نے تقریباً فتح کر لیا تھا۔نیو فاؤنڈ لینڈ کو نو آبادیاتی اسمبلی1832 میں دی گئی جسے ابھی تک ہاؤس آف اسمبلی کہتے ہیں۔ یہ ولیم کارسن، ایڈورڈ موریس اور جان کینٹ جیسے انقلاب پسندوں کی کاوش تھی جنہوں نے جنگ لڑ کر اسے پایا۔ نئی حکومت غیر مستحکم تھی اور اس کے اراکین مذہبی اور سیاسی طور پر منقسم ہو گئے۔صورتحال اتنی بری ہو گئی کہ 11 جنوری 1841 کو دی ٹائمز، لندن نے اسے اتنی بری مثال کے طور پر پیش کیا کہ مستقبل میں آئر لینڈ ایسا ہو سکتا ہے۔ 1842 میں منتخب شدہ ہاؤس آف اسمبلی کو متعین کردہ قانون ساز کونسل سے ملا دیا گیا۔ 1848 میں یہ صورتحال پھر تبدیل ہوئی۔ اس کے بعد ذمہ دار حکومت کی تشکیل کے لئے تحریک شروع ہوئی جس میں بشپ ملوک نے کافی اہم کردار ادا کیا۔


نیو فاؤنڈ لینڈ کی ڈومینن-1854 میں نیو فاؤنڈ لینڈ کو برطانوی حکومت کی طرف سے ذمہ دار حکومت سونپ دی گئی۔ 1855کے انتخابات میں فلپ فرانسز لٹل جو کہ پرنس ایڈورڈ کے جزیرے کا باشندہ تھا، نے ہف ہوئلز اور کنزریویٹو پر برتری حاصل کر لی۔ لٹل نے اپنی پہلی حکومت 1855 سے 1858 تک بنائی۔ 1861 میں تاہم گورنر بینرمین نے لبرلز کو ہٹا دیا اور کانٹے دار انتخابات کے بعد، جس میں بہت بدمزگی اور ہنگامے ہوئے، ہف ہوئلز نے حکومت بنا لی جس میں اس نے مذہبی لوگوں کو ساتھ ملایا اور نوکریوں وغیرہ کو اپنی مرضی سے دینا شروع کیا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ نے کینیڈا سے الحاق کی تجویز کو 1869 کے عام انتخابات میں مسترد کر دیا۔ اس کے بعد وہ ترقی ہوئی کہ بلیک وڈز کے میگزین نے آئرلینڈ میں نیو فاؤنڈ لینڈ کی مثالیں دینی شروع کر دیں۔لیبرے ڈار کی ملکیت کا تنازعہ کیوبیک اور نیو فاؤنڈ لینڈ کے بیچ چلتا رہا حتیٰ کہ برطانوی پریوی کونسل نے مغربی سرحد کو الگ کر کے لیبرے ڈار کا رقبہ بڑھا دیا اور اسے نیو فاؤنڈ لینڈ کو دے دیا۔


 نیو فاؤنڈ لینڈ وزیر اعظم سر رابرٹ بانڈ کے زیر انتظام اپنے عروج کو پہنچا۔ یہ لبرل پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔1934 میں معاشی مسائل کے باعث ڈومینن کو اپنی خود مختار حکومت کو ترک کرنا پڑا اور حکومتی کمیشن قائم ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیشن نے ایک انتخابات منعقد کرائے جس میں 1946 تا 1947 ڈومینن کے مستقبل پر بحث کی گئی۔ دو ریفرنڈموں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیو فاؤنڈ لینڈرز نے کمیشن کو ختم کر کے 1949 میں کینیڈا کی کنفیڈریشن سے الحاق کو چنا۔نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کا صوبہ-1946 کے نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبرے ڈار کے کمیشن کے لئے ہونے والے انتخابات میں نیو فاؤنڈ لینڈ کے مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا۔ برطانوی حکومت کی طرف سے اس میں تجاویز پیش کی گئیں جن کے تحت یہاں کے باشندوں کو مختلف صورتیں دی گئیں۔ بہت سارے ممبران نے صرف گورنمنٹ کمیشن کو جاری رکھنے یا ذمہ دار حکومت کی بحالی کی حد تک اس ریفرنڈم کو مخصوص کرنے کی حمایت کی۔

پیر، 19 مئی، 2025

جب مجھے چندراوتی سے محبت ہوئی-حسہ دوم

  


 ہنستے ہنستے میں آس پاس بیٹھے ہوئے زائرین کو روندتا ہوا باہر بھاگ آیا۔‘اگلے روز ہاتھ جوڑ کر چندراوتی سے معافی مانگی لیکن وہ بدستور روٹھی رہی۔ اس پر ناک سے لکیریں نکالنے کا ڈرامہ رچایا، آشرم کے دروازے پر ایسی حرکت سے جگ ہنسائی کا خطرہ تھا اس لیے وہ مان گئی اور دونوں سائیکل پر لارنس گارڈن چلے گئے۔ اس روز چندراوتی کچھ کھوئی کھوئی سی تھی۔ اس نے دو 3 بار شہاب کا سانس سونگھنے کی کوشش کی کہ کہیں نشہ تو نہیں کرنے لگا۔سائیکل کی سواری سے اس کا جی بھر گیا تھا۔ شالیمار باغ، مقبرہ جہانگیر اور لارنس گارڈن کی کشش ختم ہوگئی تھی۔ بیڈن روڈ کے دہی بھلوں اور گول گپوں کا شوق بھی پورا ہوگیا تھا۔ کامران کی بارہ دری میں اکٹھے بیٹھ کر گھنٹوں راوی کی لہریں گننے کا مشغلہ بھی دم توڑ گیا تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی بات پر الجھنے لگی تھی۔ ایک روز وہ کسی دکان سے قمیص کا کپڑا خرید رہی تھی۔ شہاب نے رنگوں کے انتخاب پر کچھ بات کی تو وہ خریداری چھوڑ کر پیدل ہی آشرم کو لوٹ گئی۔ اگلے روز علم ہوا کہ اس نے آشرم چھوڑ دیا ہے اور وہ ایمن آباد چلی گئی تھی۔شہاب اس کے تعاقب میں بھاگم بھاگ ایمن آباد پہنچے


وہ ایک چٹائی پر بیٹھی کپڑے سی رہی تھی، نظریں سلائی پر گاڑے خاموشی سے مشین چلاتی رہی اور سر اوپر اٹھائے بغیر اس نے دھیمے لہجے میں کہا کہ وہ گرمیوں کی چھٹیاں کپڑے سی کر کچھ پیسے جمع کرے گی اور ستمبر میں ماتا کو لیکر گنگا اشنان کے لیے بنارس چلی جائے گی۔ پھر آدھا گھنٹہ دونوں خاموش بیٹھے رہے پھر شہاب یہ کہہ کر چلا آیا کہ ‘اب میں جاتا ہوں پھر کسی روز آؤں گا۔‘ چندراوتی نے جلدی سے کہا ’اب چھٹیوں میں بالکل نہ آنا، میرے کام میں ہرج ہوتا ہے۔‘شہاب نے گرمیوں کی چھٹیوں میں 2 مہینے کے لیے کیمبل پور میں ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ منت سماجت کرکے 100 روپیہ پیشگی وصول کرلیا اور چندراوتی کی خدمت میں بھیج دیا۔ لکھا کہ سلائی مشین پر وقت ضائع نہ کریں بلکہ اپنے امتحان کی تیاری کریں، بنارس یاترا کے لیے 2 سو روپیہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔ لیکن چند روز بعد منی آرڈر جوں کا توں واپس آ گیا۔ اگلے مہینے 2 سو روپے کا منی آرڈر بھیجا وہ بھی واپس آ گیا۔چھٹیاں ختم ہوتے ہی شہاب ایمن آباد گیا۔ وہ چارپائی پر بیمار پڑی تھی، اس کی ماں پاس بیٹھی پنکھا جھول رہی تھی۔ شہاب کو دیکھتے ہی چندراوتی اٹھ کر بیٹھ گئی اور تنک کر بولی ’منی آرڈر کیوں کیا تھا؟ خود کیوں نہیں لائے؟‘۔ شہاب نے جواب دیا کہ ’خود کیسے لاتا؟ تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ چھٹیوں میں یہاں نہ آنا میرے کام میں ہرج ہوتا ہے۔‘ چندراوتی نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا ’ہائے رام، تم میری ہر بات کو سچ کیوں مان لیتے ہو؟‘۔چندراوتی نے بستر پر بیٹھے بیٹھے بیماری کی رام کہانی سنائی۔


ایک روز اسے ہلکی حرارت شروع ہوئی پھر کھانسی کے ساتھ تیز بخار ہو گیا۔ وید ٹھنڈے شربتوں سے علاج کرتا رہا لیکن کھانسی بڑھتی گئی، 21 دن بعد بھی بخار نہ ٹوٹا تو گوجرانوالہ میں سول سرجن کو دکھایا جس نے تپ دق تشخیص کی۔ ٹی بی کی خبر سن کر جگدیش چندر نے چندراوتی کی ماں کو گھریلو ملازمت سے نکال دیا۔ محلے والوں نے بھی ان کے ہاں آنا جانا بند کر دیا تھا۔ ماں بیٹی سلائی مشین بیچ کر کھانا پینا اور دوا دارو کر رہی تھیں۔شہاب ہر دوسرے تیسرے دن ایمن آباد چلے جاتے تھے۔ سارا دن ماں بیٹی کے ساتھ تاش کھیلتے اور گپیں ہانکتے اور شام کو سائیکل پر لاہور آ جاتے۔ رفتہ رفتہ چندراوتی کی کھانسی کے دورے بڑھنے لگے تھے اور وہ بے سدھ ہو کر بستر پر گر جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر شہاب ایمن آباد آ گئے دن بھر چندراوتی کے پاس رہتے اور رات کو مقامی مسجد کے صحن میں سو جاتے تھے۔ایک دن چندراوتی کھانس رہی تھی تو پچکاری کی طرح منہ سے خون نکل آیا۔ اب نہ وہ اٹھ سکتی تھی، نہ بیٹھ سکتی تھی۔ چندراوتی کا حال دیکھ کر شہاب گوجرانوالہ کے سول سرجن کے پاس گئے، احوال سننے کے بعد بھی سرجن نے ایمن آباد آنے انکار کر دیا لیکن 16 روپے فیس لیکر نئے مکسچر کا نسخہ لکھ دیا۔ شہاب مسکچر بنوا کر ایمن آباد پہنچے تو چندراوتی دنیا چھوڑ چکی تھی۔شام گئے شمشان میں اڑھائی من سوکھی لکڑی کی چتا بنائی گئی۔ چندراوتی کو اس میں لٹا کر بہت سا گھی چھڑکا اور صندل کے چھوٹے سے ٹکڑے سے اسے آگ دکھا دی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ لڑکی جل کر راکھ ہو گئی جس نے کبھی شہاب کے ہاتھ کا چھوا پانی تک نہ پیا تھا۔ چندراوتی کی ماں نے لالٹین کی مدھم روشنی میں بیٹی کے پھول چنے اور راکھ پوٹلی میں باندھ لی۔ شہاب نے سائیکل بیچ کر چندراوتی کی ماں کو بیٹی کے ’پھول‘ گنگا میں بہانے کے لیے بنارس جانے والی گاڑی میں سوار کرا دیا تھا۔لاہور ریلوے سٹیشن سے ٹرین روانہ ہوئی تو اس کی پچھلی سرخ بتی دور تک اندھیرے میں خون آلود جگنو کی طرح ٹمٹماتی رہی۔ شہاب کئی روز تک دن رات ان شاہراہوں پر پا پیادہ گھومتے رہے جہاں وہ سائیکل پر چندراوتی کو گھماتے تھے۔ چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑ گئے جب مزید چلنے کی سکت باقی نہ رہی تو گورنمنٹ کالج کے لان میں پہلا افسانہ لکھنے بیٹھ گئے۔ افسانے کا عنوان تھا ’چندراوتی‘ اور اس کا پہلا جملہ تھا 

’جب مجھے چندراوتی سے محبت ہوئی، اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا۔‘

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر