اتوار، 9 فروری، 2025

کمبوڈیا میں جرائم پیشہ گروہوں کے جال میں پھنسے پاکستانی

 

یونان اٹلی اور بے شمار یورپی ملکوں کے لئے اخبارات خبروں سے بھرے ہوتے ہیں لیکن کمبوڈیا کے لئے پہلی مرتبہ انڈیپنڈنٹ اردو سے معلوم ہوا کہ انسانی اسمگلروں نے وہاں بھی پنجے گاڑے ہوئے ہیں -میں انڈپنڈنٹ سے ہی یہ آرٹیکل دے رہی ہوں -کمبوڈیا جانے والے پاکستانی اغوا برائے تاوان کا نشانہ کیسے بنے؟پاکستانی شہریوں محمد حسنین اور حسن رضا سے کمبوڈیا میں اغوا کرنے والوں نے تکئی ہزار ڈالر تاوان طلب کیا جس کی ادائیگی کے بعد انہیں پاکستان آنے کے لیے رہائی ملی۔روزگار کی تلاش میں کمبوڈیا جانے والے کئی پاکستانی شہری وہاں اغوا برائے تاوان کا شکار ہوگئے جن کی واپسی تاوان ادا کر کے ہوئی جبکہ کئی تاحال کمبوڈیا کی جیلوں میں قید یا اغوا کاروں کے پاس ہیں۔پاکستان کے مشکل معاشی حالات اور ملک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث تقریباً ہر شہری نقل مکانی کا خواہاں ہے اور ملک سے باہر کہیں بھی بہتر روزگار ڈھونڈنا چاہتا ہے۔ان ہی میں سے ایک محمد حسنین طلحہ بھی ہیں جن کا تعلق ملتان سے ہے۔


 اُنہوں نے دو ماہ قبل ایک ایجنٹ کو چھ لاکھ روپے دے کر کمبوڈیا کا ویزا حاصل کیا۔ جس میں انہیں دھوکہ دہی کا سامنا کرنا پڑا۔انڈپینڈنٹ اردو کو آپ بیتی سناتے ہوئے محمد حسنین کہا کہ ’مجھے کمبوڈیا کا ویزا دیے جانے سے قبل یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں اردو کال سینٹر میں ملازمت دی جائے گی جس کے عوض ڈالر میں تنخواہ ملے گی جو پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے بہترین تنخواہ ہو گی۔‘بقول حسنین: ’کمبوڈیا جاتے ہی ہوائی اڈے پر پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا اس کے بعد ہمیں نامعلوم مقام پر لے جایا گیا جہاں بہت سارے کمپیوٹر سسٹم تھے اور اردو کال سینٹر کے نام پر ہمارے ساتھ فرا ڈ کیا گیا اور ہمیں من چاہے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا جس کی ہمیں سمجھ بھی نہیں آ رہی تھی۔’کام نہ آنے پر وہاں کے ویتناموں نے مجھ پر تشدد کیا اور دو دو روز تک کھانا بھی نہیں دیتے تھے۔ ہمارے اغوا کار نے یہ کہا کہ اس نے ہمارے ایجنٹ کو دو ہزار ڈالر دے کر ہمیں کمبوڈیا بلوایا ہے۔یہ بات سن ہماری بے چینی بڑھ گئی اور ہھر پتہ لگا کہ ہم اب اغوا ہو گئے ہیں مجھ سمیت بہت سے پاکستانی نامعلوم جگہ پر اغوا کاروں کے شکنجے میں ہیں۔


‘محمد حسنین طلحہ کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے یہ کہا گیا کہ اپنے گھر سے چار ہزار ڈالر ہمیں لے کر دو اور پاسپورٹ حاصل کر لو۔ میں 20 روز سے زائد وہیں رہا اور میرے گھر والوں نے قرض ادھار لے کر مجھے تین ہزارڈالر بھیجے تب جا کر میں اپنے گھر کو پہنچا۔‘کمبوڈیا میں ہمیں کرنٹ لگا کر تشدد کیا گیا: متاثرین حسن رضا کا تعلق لاہور سے ہے اور انہیں بھی کمبوڈیا بھی جھانسہ دے کر بھیجا گیا کہ یہ ’سنہری موقع‘ہے پیسے کمانے کا۔حسن رضا نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے آٹھ لاکھ دے کر ویزا حاصل کیا اور چھ ستمبر کو کمبوڈیا پہنچتے ہی وہ لوگ اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گئے۔ ان سے پاسپورٹ چھینے گئے اور جاتے ہی جیل خانے میں یہ کہہ کر ڈال دیا گیا کہ اگر آزاد ہونا ہے تو چار ہزار ڈالر دو اور چلے جاؤ۔حسن رضا نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی یعقوب نے مویشی بیچ کر انہیں اغوا کرنے والوں سے نجات دلائی۔


کمبوڈیا میں پاکستانی جرائم پیشہ گروہوں کے جال میں کیسے پھنسے؟آج کل پاکستانیوں کو افریقی ممالک میں چند ماہ یا ایک سال کا ویزا لگا کر یورپ میں سیٹل کرانے کا شارٹ کٹ راستہ دکھایا جا رہا ہے جس کا نتیجہ سینکڑوں پاکستانیوں کے کمبوڈیا میں پھنسنے کی شکل میں سامنے آیا۔روزگار کی تلاش میں کمبوڈیا جانے والے پاکستانی شہریوں کا کہنا ہے کہ پاکستان سے ٹریول ایجنٹس کے ذریعے ان کو کمبوڈیا لایا جا رہا ہے جنہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہاں آئی ٹی کی کمپینوں کو نوجوانوں کی ضرورت ہے مگر وہاں پہنچنے پر صورت حال یکسر مختلف ہوتی ہے۔محمد حسنین اور حسن رضا کی طرح اشرف علی کے صاحبزادے احمد علی بھی ایسے ہی حالات کا شکار ہوئے جو اب بھی کمبوڈیا میں پھنسے ہوئے ہیں۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اشرف علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے 20 سالہ صاحبزادے احمد علی اس وقت کمبوڈیا کے کسی نامعلوم  مقام پر ہیں جہاں باقی کے دو پاکستانی متاثرین یرغمال بنے ہوئے تھے۔


اشرف علی نے بتایا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ بھی نوکری کا وعدہ کیا گیا اور مجبور کیا گیا کہ وہ غیر قانونی کام کریں۔ ’کمپیوٹر پر اس کو تنگ کیا جا رہا ہے کے وہ چار ہزار  ڈالر بھی دے اس معاملے پر کئی بار دفتر خارجہ رابطے کی کوشش کی گئی لیکن در بدر بھٹکتے ہی رہ گئے۔‘احمد علی، محمد حسنین اور حسن رضا کی طرح سینکڑوں پاکستانی شہری کمبوڈیا میں ایسے غیر قانونی گروہوں کے شکنجے میں پھنس کر لاکھوں روپے کی ادائیگی کرنے کے باوجود کمبوڈیا سے وطن نہیں آ پا رہے۔اس سارے معاملے کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ کمبوڈیا میں پھنسے پاکستانی شہریوں سے غیر قانونی کام کرایا جا رہا ہے اور احکامات نہ ماننے والوں پر تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔ترجمان پاکستان وزارت خارجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس سارے معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’کمبوڈیا میں موجود ہمارے سفارتی مشن نے پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے اقدامات کیے ہیں جس میں سے کچھ پاکستانیوں کی وطن واپسی ہوئی ہے۔ صرف چند پاکستانی ہی ایسے گروہوں کے شکنجے میں ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے ہمارا سفارتی مشن کام کر رہا ہے۔‘ترجمان پاکستان دفتر خارجہ کے مطابق: ’جنوری 2023 سے لے کر اب تک ایسے 90 پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کو ممکن بنایا جا چکا ہے۔‘دوسری جانب اس وقت بہت سے پاکستانی کمبو ڈیا کی جیل میں ہیں انہوں نے اپنے ویڈیو بیان انڈپینڈنٹ اردو سے شیئر کیے ہیں جن میں انہوں نے اعلی حکام سے درخواست کی ہے کہ ان کی وطن واپسی کے اقدامات کو تیز تر بنائیں

کراچی میں ڈمپر لوڈر'واٹر ٹینکر'' ٹرالراور بسز کی دہشت گردی

 

   

ٹریفک حادثات میں مزید5افراد زندگی کی بازی ہارگئےکراچی، 2 ماہ میں ٹریفک حادثات میں 96 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں -کراچی  شہر میں بے قابو ڈمپروں اور دیگر گاڑیوں کی ٹکر سے مزید 5افراد جاں بحق ہوگئے ‘خاتون اورکمسن بہن بھائی سمیت 4افراد زخمی‘2دن میں 9افراد زندگی کی بازی ہار گئے ۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں ڈمپر کی ٹکر سے شہریوں کی ہلاکت کاتیسرا واقع سعود آباد تھانے کی حدود ملیر ہالٹ خالد لیبارٹری کے قریب پیش آیا جہاں تیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل کو ٹکر مار کر باپ اور بیٹے کی جان لے لی جبکہ ایک خاتون زخمی ہو ئی ۔ ڈمپر کی ٹکر سے جاں بحق افراد کی شناخت 50سالہ محمد سلیم ولد محمد امین اور 13سالہ عفان احمد ولد محمد سلیم کے نام سے ہوئی ہے جبکہ زخمی خاتون کا نام30سالہ روبینہ زوجہ محمد سلیم ہے۔حادثے کے بعد ڈمپر ڈرائیور فرار ہوگیا۔


 اہل خانہ کا کارروائی سے انکار ۔علاوہ ازیںگلشن معمار ایوب حسن شاہ مزار کقریب تیز رفتار گاڑی نے موٹر سائیکل کو ٹکر ماردی، حادثے میں موٹر سائیکل سوار نوجوان جاں بحق ہوگیا جبکہ اس کے 3 کمسن بہن بھائی زخمی ہو گئے ۔جاں بحق نوجوان کی شناخت 20 سالہ اسماعیل ولد رحیم کے نام سے ہوئی، زخمیوں میں 4 سالہ دعا، 5 سالہ ریحان اور 6 سالہ انس شامل ہیں۔قریب ہی موجود افراد اس بات کا تعین نہ کر سکے کہ حادثے میں ملوث تیز رفتار کون سی گاڑی یا ٹرک تھا ۔ سکھن تھانے کی حدود لانڈھی بھینس کالونی زیرو روڈ کے قریب تیز رفتار گاڑی کی زد میں اکر 50سالہ محمد سعید نامی شخص جاںبحق     ہوگیا ، متوفی کی لاش کو قانونی کارروائی کے لیے جناح اسپتال منتقل کر دیا گیا ۔ علاوہ ازیں سولجر بازار کے علاقے میں دو روز قبل حادثے میں زخمی ہونے والے معمر شخص 75 سالہ عیسیٰ سول اسپتال میں دوران علاج دم توڑ گیا


۔شہر قائد میں ڈمپر گردی لہر کا آغاز ہوگیا کورنگی میں مزید 3 افراد جان کی بازی ہار گئے ، نادرن بائی پاس پر حادثے میں45 سالہ عبدالمجید ولد محمد حسین کی زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی ۔مشتعل افراد نے ڈمپر کو آگ لگا دی ہمیشہ کی طرح ڈرائیور فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ۔تفصیلات کے مطابق ہیوی ٹریفک کے خونی کھیل کو روکا نہ جاسکا، کورنگی ابراہیم حیدری سے کراسنگ جاتے ہوئے CBM کالج کے قریب آنے والی سڑک پر تیز رفتار دندناتے رانگ سائیڈ سے آنے والے ڈمپر نے موٹرسائیکل سوار افراد کو روند ڈالا ، تینوں افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ جاں بحق دوافرادکی شناخت 25سالہ آصف ولد حضور بخش ، 27سالہ امجد جیلانی ولد غلام جیلانی اور 24سالہ نوجوان کے نام سے ہوئی ہے۔حادثے کے بعد مشتعل افراد نے ڈمپر کو آگ لگا دی جبکہ ڈمپر ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔


جاں بحق ہونے والے تینوں افراد کی میتوں کو جناح ہسپتال سے قانونی کارروائی کے بعد چھیپا سرد خانے منتقل کر دیا گیا ۔ٹریفک سیکشن افسر نے واقعے کو اتفاقیہ حادثہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ڈمپر تیزرفتاری سے رانگ وے پر جارہا تھا، حادثہ اتفاقیہ طور پر پیش آیا۔ جاں بحق ہونیوالے2افرادپنجاب سے آئے مہمان تھے، جاں بحق تیسرا شخص موٹرسائیکل پر مہمانوں کو گھمانے کیلئے لیکر نکلاتھا، حادثے میں جان سے ہاتھ دھونے والا تیسرا شخص اسٹیل آئرن شاپ پر ملازم تھا۔کورنگی کراسنگ پر ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کا احتجاج کیا ،مظاہرین نے سڑک پر پرانا سامان جلا کر بند کر دی،کراسنگ اور اطراف کی سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام ہوگیا ، احتجاج کے باعث دفاتر سے گھر کو جانے والے افراد ٹریفک جام میں پھنس گئے۔

موقع پر موجود ایک شہری نے کہا کہ ڈمپر دن دیہاڑے رانگ سائیڈ تیز رفتاری کے ساتھ جارہا تھا، ریتی لے جانے والا حادثے کا ذمے ڈمپر ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔کراچی میں ڈمپر ڈرائیورز نے حکومتی اقدامات اور دعووں کو ہوا میں اْڑادیا، حکومتی احکامات کے باجود دن کے اوقات میں بھی ڈمپرز اور بھاری گاڑیاں شہر کی سڑکوں پر دندناتی نظر آرہی ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ بیشتر ڈمپر اور واٹر ٹینکر ڈرائیور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان میں کم عمر اور نشے کے عادی ڈرائیور بھی شامل ہیں، جو بغیر لائسنس ڈرائیونگ کرتے ہیں، جب کہ یہ دن کے اوقات میں بھی انتہائی تیز رفتاری سے ڈمپر اور ٹینکر دوڑاتے ہیں۔کراچی میں ٹریفک نظام کی بربادی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سال جنوری سے اب تک ہیوی گاڑیوں کے مختلف حادثات میں 33افراد جاں بحق ہوچکے جن میں 10 افراد ٹریلر، 8 افراد ڈمپر، 8 افراد واٹر ٹینکر، 6 بس اور ایک منی بس کی ٹکر سے جاں بحق ہوئے ہیں ،یاد رہے خونیں ٹریفک حادثوں میں گذشتہ دو روز میں 14 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔دو روز قبل بھی کراچی کے علاقے ملیر ہالٹ میں ڈمپر کی ٹکر سے باپ اور بیٹ جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اس واقعے سے چند گھنٹے قبل گلستان جوہر میں ملینیئم شاپنگ مال کے قریب ڈمپر کی ٹکر سے میاں بیوی سمیت 3 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔


 گذشتہ روز شیر شاہ کے علاقے میں موٹر سائیکل سوار شہری زندگی کی بازی ہار گیا تھا، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتی مسافر بس نے بیچ سڑک پر بس روک کر تیزی سے آنے والا موٹر سائیکل سوار شہری کو اوورٹیک کیا جس کے باعث موٹر سائیکل سوار بیلنس برقرار نہ رکھ سکا اور 22 ویلر ٹینکر کے ٹائروں کی زد میں آ گیا ۔واضح رہے کہ کراچی میں ٹینکرز، ڈمپرز اور دیگر گاڑیوں کی غفلت کے باعث ٹریفک حادثات تشویش ناک حد تک بڑھ گئے ہیں، جس میں قیمتی انسانی جانیں تلف ہو رہی ہیں، جن کی روک تھام کے لیے انتظامیہ بھی متحرک ہو گئی ہے۔علاوہ ازیں سندھ حکومت نے بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی روک تھام اور ٹریفک کی بہتری کے لیے ایک اہم اقدام اٹھاتے ہوئے دن کے اوقات میں ڈمپرز کے کراچی میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نئے فیصلے کے تحت ڈمپرز کو صرف رات 11 بجے سے صبح 6 بجے تک شہر میں داخلے کی اجازت ہوگی۔یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر چیف سیکریٹری سندھ آصف حیدر شاہ کی زیر صدارت ٹریفک حادثات کے حوالے سے ایک ہنگامی اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس، کمشنر کراچی، ایڈیشنل آئی جی کراچی، سیکریٹری ٹرانسپورٹ، ڈی آئی جی ٹریفک اور دیگر متعلقہ حکام شریک ہوئے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں چلنے والی تمام بڑی گاڑیوں اور ان کے ڈرائیوروں کی جسمانی تصدیق (فزیکل ویری فکیشن) کی جائے گی تاکہ روڈ سیفٹی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔ اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ شہر میں چلنے والی تمام گاڑیوں کو محکمہ ٹرانسپورٹ سے QR کوڈ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازمی ہوگا۔


ہفتہ، 8 فروری، 2025

بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے- امریکہ بدری ۔


 

 امریکہ بدری کی کہانی کوئ نئ تو نہیں زرا یہ تفصیل بھی ملاحظہ کیجئے-30 ستمبر کو ختم ہونے والے مالی سال میں امریکہ نے 271,484 غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کیا۔ملک بدر کیے گئے لوگوں کی تعداد میں رواں سال میں اضافہ ڈی پورٹیشن پروازوں کو زیادہ تعداد میں چلانے، اور گوئٹے مالا، ہنڈوراس اور ایل سلواڈور کے ملکوں کو واپس بھیجے جانے والے لوگوں کے لیے سفری طریقہ کار کو ہموار کرنے سے ممکن ہوا۔جمعرات کو امریکی سرحدوں پر کام کرنے والے ادارے "یو ایس کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن" نے کہا کہ حکام نے رواں سال نومبر میں میکسیکو سے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے 46,612 لوگوں کو گرفتار کیا۔  غیرقانونی انڈین تارکین وطن کو لے کر ایک امریکی فوجی طیارہ انڈیا کے صوبہ پنجاب کے شہر امرتسر کے گرو رویداس ایئر پورٹ پہنچ گیا ہے۔


ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار میں امریکہ میں مقیم انڈین افراد کی یہ پہلی ملک بدری ہے۔اس سے قبل سیکیورٹی حکام نے بی بی سی کے صحافی رویندر سنگھ رابن کو بتایا کہ انھوں نے آنے والے افراد کی فہرست چیک کی ہے اور اس میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جس پر امریکہ میں کوئی جرم ثابت ہوا ہو۔رویندر سنگھ رابن کے مطابق امرتسر پہنچنے والے کچھ لوگوں کو پولیس کی گاڑیوں میں ان کے گاؤں لے جایا جائے گا۔ باقی ریاستوں کے لوگوں کو فلائٹ سے بھیجا جائے گا۔میڈیا کو ایئرپورٹ کے اندر جانے کی اجازت نہیں لیکن صحافی ایئرپورٹ کے باہر ان لوگوں سے بات کر سکیں گے۔اس سے قبل انڈیا کے معروف وکیل اور ایوان بالا کے رُکن کپل سبل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر انڈین وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’مودی جی، ٹرمپ 104 غیر قانونی تارکین وطن کو انڈیا واپس بھیج رہے ہیں۔ بظاہر انھیں انڈیا جانے والے طیارے میں بٹھانے سے پہلے ہتھکڑیاں لگائی گئی ہیں۔


 در اصل امریکہ نے منگل کے روز فوجی طیارے ’سی 17‘ کی ایک پرواز کے ذریعے 104 غیر قانونی انڈین تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے بعد انڈیا روانہ کیا تھا۔ اور جب سے وہ وائٹ ہاؤس کے مکین بنے ہیں تب سے اس فیصلے پر پوری شدت کے ساتھ عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔امریکہ میں رہنے والے دنیا بھر کے غیر قانونی تارکین وطن کو کمرشل اور فوجی طیاروں کے ذریعے اُن کے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔ امریکی ایئرفورس کا طیارہ سی 17 جنگی سازوسامان اور فوجیوں کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتا ہےتاہم امریکہ میں غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے لیے فوجی طیاروں کا استعمال غیر معمولی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کی فلائیٹ عام کمرشل پرواز کی نسبت بہت مہنگی پڑتی ہے۔یاد رہے کہ حال ہی میں کولمبیا اور میکسیکو نے اپنے اپنے غیر قانونی تارکین وطن کو لانے والی امریکی فوجی پروازوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا


 کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے کہا تھا کہ وہ صرف سویلین طیاروں کے ذریعے آنے والے ہی اپنے شہریوں کو قبول کریں گے۔لیکن امریکہ کی جانب سے ’سی 17‘ فوجی طیارے کے ذریعے غیرقانونی انڈین تارکین وطن واپس انڈیا بھیجے جانے کے اعلان کے بعد سے حکومت ہند کی جانب سے اس نوعیت کا کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا۔ماضی میں انڈین حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں کو اُن کی شناخت کے بعد قبول کر لیتے ہیں۔ گذشتہ سال بھی بہت سے غیر قانونی تارکین وطن کو یورپی ممالک سے انڈیا واپس بھیجا گيا تھا   رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 18 ہزار غیر قانونی انڈین تارکین وطن کو واپس انڈیا بھیجنے کی نشاندہی کی ہے، اور اب 104 تارکین وطن پر مشتمل پہلی کھیپ امریکہ سے انڈیا کے لیے روانہ کر دی گئی ہے۔


انڈیا میں سوشل میڈیا پر امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ساتھ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پوچھا جا رہا ہے کہ اُن کی ’دوستی میں یہ کیسا مرحلہ آ گیا ہے۔‘بہت سے صارفین انڈین تارکین وطن کو ہتھکڑیوں میں امریکہ بدر کرنے پر بھی غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔عالمی خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ نے اس حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے کہ امریکہ کی جانب سے غیرملکی تارکین وطن کو مہنگے فوجی طیارے پر بھیجنے پر کتنی لاگت آ سکتی ہے۔روئٹرز کے مطابق امریکہ غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے لیے عموماً کمرشل طیارے استعمال کرتا ہے اور یہ طیارے امریکی کسٹمز اینڈ امیگریشن انفورسمنٹ (آئی سی ای) کی نگرانی میں روانہ کیے جاتے ہیں۔امریکہ سے ملک بدری کا عمل برسوں سے جاری ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے اب جبکہ یہی کام بڑے جنگی جہاز کے ذریعے کیا جا رہا ہے تو اس کا نوٹس لیا جا رہا ہے اور اس کے اخراجات بھی زیادہ ہیں۔سی 17 طیارے کی ایک ایسی ہی پرواز کے گواٹیمالا جانے کے متعلق روئٹرز نے تخمینہ لگایا ہے کہ ہر مسافر پر کم از کم 4675 امریکی ڈالر کا خرچ آ رہا ہے جبکہ ایک مسافر طیارے یا کمرشل پرواز میں یہ کام محض 853 ڈالر میں ہو سکتا ہے اور وہ بھی فرسٹ کلاس میں۔روئٹرز کے مطابق امریکی کسٹمز اینڈ امیگریشن انفورسمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ٹائی جانسن نے امریکی قانون سازوں کو ایک سماعت کے دوران بتایا تھا کہ اُن کے ادارے کی نگرانی میں چلنے والی ڈپورٹیشن فلائٹس (فوجی طیاروں پر نہیں بلکہ کمرشل مسافر طیاروں پر) پر فی گھنٹہ 17،000 امریکی ڈالر کا خرچ-امریکہ سے ملک بدری کا عمل برسوں سے جاری ہے  ماہرین کا کہنا ہے اب جبکہ یہی کام بڑے جنگی جہاز کے ذریعے کیا جا رہا ہے تو اس کا نوٹس لیا جا رہا ہے اور اس کے اخراجات بھی زیادہ ہیں۔

 

جمعہ، 7 فروری، 2025

ٹک ٹاک پر ’قابل اعتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی قتل

  یہ کیسا ظلم عظیم ہے-بھلا 14سال کی عمر بھی کوئ عمر ہوتی ہے ابھی بچپن بیت رہا ہوتا ہے بھی تو سمجھداری کی پہلی سیڑھی پر بچے کا پہلا قدم ہی ہوتا ہے کہ اس کے خواب کو ریوالور کی چند گولیوں سے موت کی نیند سلا دیا جائےمعصوم چودہ برس کی حرا   کہانی یہ ہے کہ اس کے والدنے اچھی زندگی گزارنے کے لئے ویسٹرن کنٹری کا انتخاب تو کر لیا لیکن وہ یہاں کے ماحول سے مطابقت رکھنے والی تربیت اپنی اولاد کو فراہم نہیں کر سکے اور جب اولاد نے سر اٹھایا تو بس اس کو مارڈالا-.عتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی کے قتل کے الزام میں والد اور ماموں گرفتار-قتل کا یہ واقعہ 27 جنوری کی شب  کوئٹہ میں واقع بلوچی سٹریٹ کے مقام پر پیش آیا تھابلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس نے ایک 14 سالہ پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کے قتل کے الزام میں اس لڑکی کے والد اور ماموں کو گرفتار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ملزمان نے ’لڑکی کے رہن سہن اور ٹک ٹاک پر قابل اعتراض ویڈیوز پوسٹ‘ کرنے کی وجہ سے اِس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔قتل کا یہ واقعہ 27 جنوری کی شب سوا گیارہ بجے کوئٹہ میں واقع بلوچی سٹریٹ کے مقام پر پیش آیا تھا جس کی ابتدائی ایف آئی آر ہلاک ہونے والی لڑکی کے والد کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کروائی گئی تھی۔لڑکی کے والد بھی امریکی شہریت کے حامل ہیں اور وہ اپنے بچوں کے ہمراہ چند روز قبل ہی امریکہ سے پاکستان آئے تھے۔ لڑکی کے قتل میں گرفتار والد اور ماموں کو گذشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پولیس کی استدعا پر عدالت نے دونوں ملزمان کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ’سیریس کرائمز انویسٹیگیشن ونگ‘ کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔


کرائمز انویسٹیگیشن یونٹ کوئٹہ سے منسلک ایس ایس پی ذوہیب محسن نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’ابتدائی تفتیش میں یہ سامنے آیا ہے کہ لڑکی کے والد کو اپنی بیٹی کے رہن سہن اور سماجی سرگرمیوں پر اعتراض تھا۔‘نھوں نے مزید کہا کہ اس کیس میں مزید تفتیش جاری ہے اور ابھی اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ 14 سالہ لڑکی کا واقعی کوئی ٹک ٹاک اکاؤنٹ تھا بھی یا نہیں اور اگر تھا تو اس پر کیا مواد موجود ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ لڑکی کا موبائل پولیس کی تحویل میں ہے جس کا لاک کھولنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔سول ہسپتال کوئٹہ کی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ مقتولہ کو چار گولیاں ماری گئی تھیں جبکہ ان کے اہلخانہ کی درخواست پر باقاعدہ پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا تھا۔جبکہ کیس کی تفتیش سے منسلک ایک اہلکار نے بتایا کہ مجسٹریٹ کی عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران ملزمان کی جانب سے کوئی وکیل پیش نہیں ہوا۔


کوئٹہ میں قتل ہونے والی پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کون تھیں؟مقامی عدالت لڑکی کے قتل میں گرفتار والد اور ماموں کو گذشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیاکوئٹہ میں پولیس نے قتل ہونے والی پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کی شناخت حرا انوار کے نام سے کی ہے جن کی عمر 14 سال کے لگ بھگ بتائی گئی ہے۔مقامی پولیس کے مطابق لڑکی کے خاندان کا تعلق کوئٹہ سے ہی ہے اور وہ یہاں بلوچی سٹریٹ میں عرصہ دراز سے رہائش پذیر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لڑکی کے والد 27 سال پہلے امریکہ گئے تھے اور پھر وہی آباد ہو گئے تھے۔پولیس حکام کے مطابق حرا کی پیدائش بھی امریکہ میں ہوئی اور انھوں نے امریکہ ہی میں تعلیم حاصل کی تھی۔حرا رواں ماہ کی 15 تاریخ کو اپنے والد کے ہمراہ امریکہ سے لاہور آئی تھیں جہاں چند روز گزارنے کے بعد یہ خاندان 22 جنوری کو کوئٹہ آیا تھا۔ملزم والد ہی مدعی مقدمہ بنے: ’حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں‘غیرت کے نام پر قتل،حرا کے بائیں بازو پر زخم کا نشان تھا جو جسم کے آر پار تھا جبکہ سینے کے بائیں جانب بھی آر پا رزخموں کے نشانات تھے


حرا کے قتل کا ابتدائی مقدمہ اُن کے والد ہی کی مدعیت میں 28 جنوری کو درج کیا گیا تھا۔لزم نے ایف آئی آر میں بتایا کہ وہ گذشتہ 28 سال سے اپنے بچوں کے ہمراہ امریکہ میں مقیم ہیں یف آئی ار میں کہا گیا کہ ’میں 15 جنوری کو اپنے بچوں کے ہمراہ امریکہ سے لاہور پہنچا تھا جہاں چند روز گزارنے کے بعد 22 جنوری کو کوئٹہ آ گیا۔ 27 جنوری کی شب میں اپنی بیٹی حرا کے ہمراہ اپنے برادرِ نسبتی کے گھر جانے کے لیے نکلا۔ میں اور حرا ابھی گھر سے نکلے ہی تھے کہ مجھے معلوم ہوا کہ میری جیب میں میرے بھائی کا فون رہ گیا تھا جسے واپس کرنے کے لیے میں دوبارہ گھر میں داخل ہوا۔ جیسے ہی میں گھر کے اندر گیا تو باہر سے اچانک فائرنگ کی آواز آئی جبکہ میری بیٹی حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں۔‘ملزم والد کی جانب سے ایف آئی آر میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ ’یہ آوازیں سُن کر میں باہر نکلا تو حرا شدید زخمی حالت میں گیٹ کے پاس پڑی تھی


۔ میں نے محلہ داروں کے ہمراہ حرا کو ہسپتال پہنچایا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئی۔‘والد نے پولیس سے نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی جس پر پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت یہ مقدمہ درج کر لیا۔پولیس ٹیم کی جانب سے ایف آئی آر میں لکھا گیا کہ جب وہ اطلاع موصول ہونے کے بعد ہسپتال پہنچے تو وہاں حرا کی خون میں لت پت لاش موجود تھی۔’سرسری جسمانی معائنے میں معلوم ہوا کہ حرا کے بائیں بازو پر زخم کا نشان تھا جو جسم کے آر پار تھا جبکہ سینے کے بائیں جانب بھی آر پار زخموں کے نشانات تھے۔  

جمعرات، 6 فروری، 2025

ڈاکٹر مجھے خوبصور ت بنا دو- کاسمیٹک سرجریز

   قران کریم  میں  ارشاد رب العزت ہے   ہم نے انسان  کو بہترین  صورت پر پیدا کیا - پھر بھی   اور خوبصورتی چاہنے کی  خواہش  بہت سوں کو      کلینک کا راستہ سجھا دیتی ہے! لیکن اگر خوبصورت لگنے کے لیے مختلف قسم کےکاسمیٹک سرجریز کروانا پڑے تو  کوئ حرج تو نہیں ہے ۔اسی لئے پُرکشش لگنے کی آزو کی تکمیل لیے دینا بھر میں کاسمیٹک کلینکس اپنے عروج پر جا رہے ہیں -اگر دیکھا جا ئے تو سرجری اور ایستھیٹک پروسیجرز کا سہارا کچھ عرصے پہلے تک تو صرف سلیبرٹیز  لیا کرتے تھے لیکن اب یہ شوق عام لوگوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے،سیف الاسلام ڈرمٹالوجسٹ  کاکہنا  ہےکہ ’پاکستان میں پچھلے تین چار سالوں میں یہ رجحان بڑھا ہے اور اب ہر عمر اور جنس کے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی جلد کے مسائل یا پھر بیماری کی وجہ سے ہمارے پاس علاج کے لیے آتے ہیں۔


لیکن ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی جو ایسے پروسیجر کروانا چاہتے ہیں جن کے بعد وہ مزید خوبصورت لگ سکیں-کاسمیٹک پروسیجر کسی طبی وجہ کے بجائے اپنے جسم کے مخصوص حصّے میں تبدیلی لانے کے لیے کروائے جانے والے والے میڈیکل پروسیجر یا آپریشن کاسمیٹک سرجری کہلاتا ہے۔یہ عموماً لوگ اس وقت کرواتے ہیں جب وہ اپنے جسم کے کسی حصّے کی ساخت سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔ یا پھر وہ اپنی نظرکے مطابق خوبصورت نظر آنا چاہتے ہیں۔ کسی کو اپنے جبڑے پسند  نہیں   ہوتے تو کوئی جبڑ ے چھوٹے  کرنا چاہتا ہے۔ کچھ لوگوں کو اپنی ناک پسند نہیں ہوتی اور وہ اسے من پسند ناک  بنانے کے لیے سرجری کروا تے ہیں۔لیکن وہ اس پروسیجر کے نتیجے میں  آ نے والے وقت کے نتائج سے بلکل بے خبر ہوتے ہیں قارئین جان لیں اکثر  یہ سرجریز کامیاب ہونے بجائے ناکام بھی ہوجاتی ہیں کاسمیٹک پروسیجر  رجحان   میں   زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خواتین ہی پُرکشش لگنے کے  لیے ان چیزوں کا سہارا لیتی ہیں لیکن آج کل مرد بھی ایسے تمام پروسیجرز کرواتے ہیں۔


اسحاق کرمانی  کا شمار بھی ایسے ہی مردوں میں ہے جو مختلف قسم کے استھٹیک اور کاسمیٹک پروسیجرز سے گزر چکے ہیں۔ان کے بقول ’ویسے تو یہ کام ہمارے ارد گرد اکثرلوگ کرواتے لیکن مانتے نہیں ہیں۔ ان سے جب پوچھو کہ آپ نے کچھ کروایا تو ایسے محسوس کرواتے ہیں کہ وہ تو پیدا ہی ایسے ہوئے تھے اور ان میں جو بھی تبدیلی آئی ہے وہ قدرتی ہے۔‘ان کا مزید دعویٰ تھا کہ زیادہ تر مرد ماڈل اور اداکار یہ پروسیجرز کرواتے ہیں تاہم عام مرد حضرات بھی اس کام میں پیچھے نہیں ہیں۔درجنوں قسم کے پروسیجرز میں مردوں میں سب سے مقبول ہیئر ٹرانسپلانٹ ہے، جو مرد اپنے گنج پن کو کم کرنے کے لیے کرواتے ہیں۔حال ہی میں اس سرجری سے گزرنے والے محمدعتیق    کا  کہنا   ’ ہےیہ ایک تکلیف دہ سرجری ہے جو تقریبا تیرہ سے چودہ گھنٹے طویل ہے۔ اس میں ڈاکٹر آپ کے سر کے حصے پر بال لگاتے ہیں جہاں گج پن ہوتا ہے اور اس پر کم سے کم ڈھائی سے تین لاکھ روپے تک لاگت آتی ہے۔‘دوسری جانب خواتین میں مختلف اقسام کے فیشل، لپ فلرز، 


لیزر پروسیجرز، مصنوعی پلکیں لگوانے کے علاوہ رنگ گورا کرنے والے انجیکشن لگوانے کا ٹرینڈ زیادہ پایا جاتا ہے۔کاسمیٹک پروسیجرز آپ کو خوبصورت بنانے میں کیسے مدد کرتے ہیں؟ماہرین کے مطابق ان ٹریٹمینٹس سے جہاں آپ ایک طرف خوبصورت دکھائی دے سکتے ہیں تو وہیں ان کے نقصانات بھی موجود ہیں۔ اس لیے ایسے پروسیجرز میں رسک موجود ہوتا ہے۔  جو کئی قسم کے کاسمیٹک پروسیجرز سے گزر چکے ہیں، ان کے مطابق ان کے بیشتر پروسیجرز کے منفی نتائج آئے۔ جیسا کہ سلیمہ  کا کہنا ہے کہ آنکھوں کے گرد حلقوں کو لیزر کے ذریعے کم کروانا چاہا تو ان کو آنکھوں میں جلن اور خارش کی شکایت ہونے لگی جس کی وجہ سے انھوں نے اس پروسیجر کو روک دیا۔سلیمہ کا کہنا ہے کہ آنکھو ں کا پروسیجر تکلیف کے باعث ترک کرنے کے بعد میں نے چہرے کے زیدہ بالوں سے چھٹکارا حاصل کرن چاہاتو یہاں بھی مسلہ دوگنا ہی ہو گیا اب میرے پاس یہی راستہ ہے کہ یا تو میں تھریڈنگ کرواؤں یا پھر سے لیزر کرواؤں۔‘جہاں ایک طرف کچھ لوگوں کے لیے یہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں وہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو ان پروسیجرز سے فائدہ بھی ہوا ہے۔ ایک لڑکی کا کہنا ہے کہ ’میرے کیس میں مجھے تو بہت فائدہ ہوا ہے۔ میرے چہرے پر دانے نکلنے کی وجہ سے جلد خراب ہو گئی تھی۔ اس کے لیے میں نے لیزر ٹریٹمنٹ کروائی اور وہ ٹھیک ہو گئے۔نہ صرف  بلکہ پاکستان میں اداکاراؤں کی ایک بڑی تعداد کاسمیٹک سرجریز کروا رہی ہے۔ جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں۔ لیکن ان سب کے تجربات اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ 



کاسمیٹک سرجری  کروانے کے بعد مشہور انفلوئنسر کی موت ہوگئی، 
میکسیکو سٹی (ڈیلی پاکستان آن لائن) میکسیکو سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ مشہور انفلوئنسر ڈینیز ریس ایک غیر مجاز کلینک میں کاسمیٹک سرجری کروانے کے تین دن بعد دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئیں۔ ڈینیز ریس نے چیاپاس کے شہر ٹکسٹلا گوٹیریز میں واقع سان پابلو میڈیکل کلینک میں لائپوسکشن سرجری کروائی تھی۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا فالوورز کو اطلاع دی تھی کہ وہ سرجری کے بعد صحت یاب ہو رہی ہیں۔ان کے چچا اماو روڈریگز نے ڈیلی میل کو بتایا کہ سرجری کرنے والے ڈاکٹر اورلینڈو گامبوا نے اگلے دن  انہیں ایک دوا دی جس سے ری ایکشن پیدا ہوا۔ چچا کے مطابق "ڈینیز نے طبیعت بگڑنے کی شکایت کی اور انہیں اچانک دل کا دورہ پڑا، جس کے بعد انہیں فوری طور پر کلینک کے کمرے سے باہر نکال دیا گیا۔"ریس کی ایک دوست، جو ان کے ساتھ کلینک گئی تھی، کو ریکوری روم کے باہر انتظار کرنے کو کہا گیا اور بتایا گیا کہ ان کی طبیعت "نازک" ہے۔ بعد ازاں ریس کو مانزور ہسپتال منتقل کر دیا گیا کیونکہ سان پابلو کلینک میں انتہائی نگہداشت کی سہولت موجود نہیں تھی۔ بدقسمتی سے ان کی حالت مزید بگڑتی گئی اور وہ  دو دن بعد  انتقال کر گئیں۔ ان کے چچا نے بتایا کہ ڈینیز ریس سرجری سے پہلے مکمل طور پر صحت مند تھیں اور انہیں کوئی بیماری لاحق نہیں تھی۔اب ان کے اہلِ خانہ نے چیاپاس کے صحت حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ ڈاکٹر گامبوا کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔ روڈریگز نے مطالبہ کیا کہ "حکام ڈینیز کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ازالہ کریں اور ڈاکٹر کو اس کے کیے کی سزا دی جائے۔"

 

منگل، 4 فروری، 2025

انڈر پاس کریم آباد 'سندھ حکومت توجہ دے

 42 -رپورٹ:منیر عقیل انصاری)42 دنوں کی ریکارڈ مدت میں جناح ایونیو انڈر پاس کی تکمیل

اسلام آباد (نمائندہ جنگ)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے منگل کے روز جناح ایونیو انٹرچینج انڈر پاس منصوبے کو ریکارڈ 42 دنوں میں مکمل کرنے پر وزیر داخلہ، چیئرمین سی ڈی اے سمیت متعلقہ اداروں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبہ سے راولپنڈی، اسلام آباد کی ٹریفک کو بڑا فائدہ ہو گا۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی بھی اسی برق رفتاری سے آگے بڑھائیں گے اور پاکستان کو عظیم ملک بنائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو جناح ایونیو انٹرچینج انڈر پاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں وزیر داخلہ سید محسن نقوی، وزیر اطلاعات و نشریات عطا اﷲ تارڑ ، ارکان قومی اسمبلی حنیف عباسی ۔ طارق فضل چوہدری۔ راجہ خرم نواز اور انجم عقیل خان اورچیئر مین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا۔ ممبر انجنئرنگ سی دنفاست رضا ۔ ڈائریکٹر روڈز رانا طارق محمود سمیت سی ڈی اے افسران نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس انڈر پاس کا 5 نومبر کو سنگ بنیاد رکھا گیا تھا یہ خوشی کا موقع ہے کہ یہ انڈر پاس 42 دنوں میں مکمل کرکے ریکارڈ قائم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قومیں اسی طرح ترقی کرتی ہیں، شبانہ روز محنت کا اﷲ تعالیٰ پھل ضرور عطا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین سی ڈی اے، ان کی ٹیم، ٹھیکیداروں، انجینئرز اور کام کرنے والے ورکرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔


 وزیر داخلہ محسن نقوی کی قیادت میں ان کی ٹیم نے انہونی کر دکھائی، ان کی ذاتی نگرانی کے باعث یہ منصوبہ بروقت پایہ تکمیل کو پہنچا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس منصوبہ سے راولپنڈی، اسلام آباد کی ٹریفک کو بڑا فائدہ ہو گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سرینا چوک انڈر پاس منصوبہ بھی اسی برق رفتاری سے مکمل ہو گا۔ جبکہ  صوبہ سندھ پر پیپلز پارٹی کی مکمل گرفت ہے تو پھر کراچی کو لاوارث کیوں چھوڑ دیا گیا  ہے -روزنامہ جسارت  نے دکانداروں کی بے بسی تحریر کی ہے آپ  بھی پڑھئے -سندھ حکومت کی عدم توجہی کے باعث کریم آباد انڈر پاس کی تعمیر دکانداروں کے لیے وبال جان بن گیا ہے انڈر پاس کی تعمیرات کے باعث رمضان المبارک کے دوران تاجراور دکاندار اپنا کاروبار مکمل طور پر نہیں کر سکیں گے دکانداروں کو اپنی دکان کا کرایہ اور سیلز مین کی ماہانہ تنخواہ نکالنا مشکل ہو گیا۔دکانداروں اور سیلز مینوں کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔ کریم آباد مارکیٹ کے تاجر شدید پریشان ہیں کہ یہ انڈر پاس کب مکمل ہوگا، کریم آباد کے اطراف میں موجود مارکیٹوں کے تاجر اور رہائشی ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔کریم آباد مارکیٹ کے دکاندار نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری دکان میں 6 سیلزمین تھے جس میں سے چار سیلز مین کو فارغ کر دیا ہے ہمیں اپنی دکان کا کرایہ نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔


دکانوں کے کرائے 80 ہزار روپے تک ہیں جب ہمارے پاس کسٹمر نہیں آئیں گے تو ہماری دکانداری کیسے چلے گی ؟دکانوں کا کرایہ سیلزمین بجلی کا بل اور دیگر اخراجات کیسے پورا کریں گے ؟کریم آباد انڈر پاس کی تعمیرات کے باعث ہمارا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہوگیا ہے ہمارے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے ۔انہوں کہا کہ کریم آباد انڈر پاس کے اطراف میں 35 سے زاید صرف اسپورٹس کی دکانیں ہیں اس کے علاوہ مینا بازار فوٹو اسٹیٹ کی مشینیں فیصل بازار اور اس طرح کے دیگردکانیں اور بازار موجود ہیں سب کا کاروبار تباہ ہو گیا ہے جس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کریم آباد انڈر پاس کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلا وجہ انڈر پاس کے نام پر سڑک کو کھود کر چھوڑ دیا گیا ہے ۔تاجروں کا کہنا ہے کہ جب سندھ کا وزیر اعلیٰ پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے ،پاکستان کا صدر پیپلز پارٹی کا ہے ،وزیر بلدیات پیپلز پارٹی کا ہے اور میئر کراچی بھی پیپلز پارٹی کا ہے تو اب کسی فنڈز کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے،


 جب جناح ایونیو اسلام آباد کا انڈر پاس 42 دنوں میں مکمل ہوسکتا ہے تو کیوں کراچی کا کریم آباد انٹر پاس ڈیڑھ سال بعد بھی نا مکمل ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم دکاندار بے روزگاری کے آخری نہج پر آچکے ہیں ،ہمارا گزارا مشکل ہو گیا ہے ہمارا معاشی قتل عام بن کیا جائے اور ہمیں اپنی دکانوں میں اسانی کے ساتھ دوکانداری کرنے دی جائے جتنی جلدی ہو سکے سندھ حکومت کے ڈی اے اس منصوبے کو مکمل کریں دوکاندار نے کہا کہ میئر کراچی بھی کریم آباد انڈر پاس چورنگی پر تشریف لائے تھے اور فوٹو سیشن کر کے چلے گئے پیپلز پارٹی کا المیہ ہے کہ یہ پارٹی خود کوئی کام نہ کرتی ہے اور نہ کسی اور کو کرنے دیتی ہے انہوں نے کہا کہ ہم اپنی مدد اپ کے تحت سڑکوں کو ٹھیک کرنے کے لیے ملبے ڈال رہے ہیں میری بلاول بھٹو زرداری سے گزارش ہے کہ وہ یہاں آئیں اور دیکھیں کہ دکاندار کتنے پریشان ہیں رمضان المبارک کی امد امد ہے اور ہمارا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہے ہمیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے روزی روٹی کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں ہمارے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔


انہوں نے کہا کہ کریم آباد کراچی کی مشہور مارکیٹ ہے لیکن انڈر پاس کی تعمیرات میں تاخیر اور سڑکوں پر پڑے گڑھوں کے باعث لوگوں نے کریم آباد مارکیٹ کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔واضح رہے کہ کریم اباد چورنگی پر عثمان میموریل اسپتال سے ضیاء الدین اسپتال جانے اور انے والے دونوں ٹریک کے لیے تقریبا ایک کلومیٹر طویل انڈر پاس بنایا جا رہا ہے کریم اباد چورنگی پر زیر تعمیر انڈر پاس کی تاخیر کے باعث لاگت میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے منصوبہ شروع ہوتے وقت اصل تخمینہ ایک ارب 35 کروڑ روپے تھا جو بڑھ کر 4 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے کریم اباد انڈر پاس منصوبہ کے لیے فنڈ محکمہ لوکل گورنمنٹ سندھ فراہم کر رہی ہے اور کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈی اے انڈر پاس کی تعمیر کر رہی ہے جبکہ کام کا اغاز اپریل 2023 میں ہوا تھا اور اپریل 2025 پہ مکمل کیا جانا ہے تاہم اب تک 35 فیصد کام مکمل ہوا ہے اورابھی تک انڈر پاس کی کھدائی کا کام بھی مکمل نہیں ہوا سکا ہیتقریبا ایک کلومیٹر طویل انڈر پاس کو 24 ماہ میں مکمل کرنے کا دعوی کیا گیا تھا جو تاحال نامکمل ہے اس حوالے سے روزنامہ جسارت نے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان سے انڈر پاس کے حوالے سے موقف جاننے کی کوشش کی تاہم انہوں نے فون کال اٹینڈ نہیں کی۔

عمر خیام شہرت کی آفاقی بلندی پر

   خیام 427 ہجری شمسی میں خراسان کبیر کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئےخیام بن ابراہیم نیشا پوری،ایران کے عظیم شاعر، دانشور، ریاضی داں، منجم اور فلاسفرہیں جن کی شہرت  ایران کی قلمرو سے ماورا ہے اور آج بھی شعرو ادب اور علم وحکمت کے شیدائیوں کے قلب وذہن پر ان کی حکمرانی باقی ہے۔  اگر غور کیا جائے تو دنیا میں کسی شاعر کو اتنی مقبولیت نہ ملی  ہو گی  جتنی خیّام خیمہ دوز کو ملی۔‘‘ دراصل خیّام کے معنی، خیمہ بنانے والے کے ہیں اور یہ اُن کا خاندانی پیشہ تھا۔ اُردو نظم کے عظیم شاعر، میراجی نے جہاں دنیا بھر کے عظیم شعراء کے کلام کے تراجم کیے، وہیں ’’خیمے کے آس پاس‘‘ کے نام سے ’’رباعیاتِ خیّام‘‘ کا ترجمہ بھی کیا اور یہ وہی کام ہے، جو انگریزی میں فٹز جیرالڈ نے سرانجام دیا تھا؎ جاگو، سورج نے تاروں کے جھرمٹ کو دُور بھگایا ہے..... اور رات کے کھیت نے رجنی کا آکاش سے نام مٹایا ہے..... جاگو، اب جاگو، دھرتی پر اس آن سے سورج آیا ہے.....راجا کے محل کے کنگورے پر اجول کا تیر چلایا ہے۔


 خیام کا شمار دنیا کے عظیم شاعروں ، دانشوروں، حکما اور فلاسفروں  میں ہوتا ہے  اور انہیں ریاضی اور علم نجوم میں بھی مہارت حاصل تھی ۔عمرخیام کی رباعیات کا دنیا کی تقریبا سبھی قابل زکر زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ انھوں ابتدا تعلیم منجملہ،قرآن پڑھنا، عربی ، فارسی، ریاضی اور فقہی احکام کی تعلیم نیشا پور میں حاصل کی-  ایک   شاعرنے خیّام  کے لئے کہا ہےکس کی کھوج میں گُم صُم ہو، خوابوں کے شکاری، جاگو بھی.....اب آکاش سے پورب کا چرواہا ریوڑ ہانک چُکا۔آغا شاعر قزلباش نے 1932ء میں ’’خم کدۂ خیّام‘‘ کے عنوان سے خیّام کی200رباعیوں کا ترجمہ کیا،جن میں سے ایک رباعی کا ترجمہ اس طرح ہے؎ آئی یہ صدا صبح کو مئے خانے سے..... اے رندِ شراب خوار، دیوانے سے.....اُٹھ جلد بھریں شراب سے ساغر ہم..... کم بخت چھلک نہ جائے پیمانے سے۔ اِسی طرح برصغیر پاک و ہند کے درجنوں شعراء نے خیّام کی شاعری کے ترجمے اُردو زبان میں علم حضوری  کے مراحل  میں خواجہ ابولحسن انباری سے ریاضیات اور ہندسہ کے بنیادی اصول سیکھے


اور پھر حکمت، فلسفے، عرفان اور اخلاقی علوم نیز قرآن کریم کی تعلیم مکمل کرنے کے لئے مکتب امام موفق نیشابوری میں داخلہ لیا اور زیور علم ودانش اور اخلاقیات سے آراستہ ہوئے۔     خیام نے نوجوانی میں ہی فلسفے اور علوم ریاضی میں تبحر حاصل کرلیا اور مزید علوم حاصل کرنے کے لئے 461 ہجری میں  نیشاپور سے سمر قند گئے ۔وہ سمرقند سے اصفہان گئے جہاں اپنے اٹھارہ سا لہ قیام کے دوران ملک شاہ کے فرمان پر بننے والی رصد گاہ میں علم نجوم کی تحقیقات میں مصروف رہے۔   پھر جب ملک شاہ کے ورثا میں سلطنت کے لئے لڑائی شروع ہوئی اور علمی فروغ کے مسائل پس پشت ڈال دیئے گئے تو خیام اصفہان سے خرسان روانہ ہوگئے اور اپنی عمر کے باقی ایام مرو سمیت خراسان کے اہم شہروں میں گزارے اور ان کے زیادہ تر علمی کارنامے اصفہان سے واپسی پرخراسان میں ہی  انجام پائے ہیں۔عمرخیام نیشاپوری کا فلسفہ ہمیشہ  پرکشش رہا ہے ۔ جب کہ مغرب میں جیرالڈ کی وجہ سے خیّام کی شہرت اس قدر پھیلی کہ اُن کا نام خمریات کی علامت بن گیا۔


 یوں بھی شراب ان اقوام کی زندگی کا جزوِ لازم، تو خیّام کی شاعری کا بنیادی استعارہ تھی۔خیّام نے مئے خانہ، جام، پیمانہ، پیالہ اور ساقی جیسی لفظیات سے ذکرِ معرفت، سرمستی اور عشق میں ڈوب جانے کی کیفیات کو رباعیات کا موضوع بنایا، تو عیش و عشرت کی دل دادہ یورپ کی اقوام نے اسے مئے نوشی اور وہ بھی بلانوشی سے تعبیر کیا، لہٰذا خیّام کے نام سے شراب خانے، جوا خانے اور نائٹ کلب بناڈالے،عمر خیّام کی سحر انگیز شخصیت پر متعدد ناولز بھی لکھے گئے پورے یورپ میں ایک عرصہ دراز تک انکی  رباعیات کی دھوم رہی ۔ اُن کے اشعار پر انگریزی کے معروف ادیبوں یوجین اونیل، اگاتھا کرسٹی، اسٹیون کنگ اور دیگر نے جہاں اپنی تصانیف کے نام رکھے، وہیں معروف افسانہ نگار ہیکٹر ہیومنرو نے عمر خیّام سے متاثر ہو کر اپنا قلمی نام ہی ’’ساقی‘‘ رکھ لیا۔ اور خیّام کی شہرت صرف یہیں تک محدود نہیں، اُن کی زندگی پر ہالی وڈ کی متعدد فلمیں بھی بن چکی ہیں۔


خیّام کی کتب کے قدیم نسخےعمر خیّام نے اپنی کئی کتب کی نقول تیار کروا کر اپنے عہد کے نام وَر اہلِ علم کو بھیجیں۔ بادشاہوں کے درباروں تک اُن کی رسائی کا اہتمام کیا۔ کتب خانوں تک پہنچائیں، مگر اپنی رباعیات کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ اس وقت دنیا میں اُس کی رباعیات کا جو سب سے پرانا نسخہ موجود ہے، وہ 1207ء کا ہے  -گوگل ڈوڈل نے کو معروف عالم، فلسفی اور شاعر ابوالفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشاپوری کو عالمی سطح پر ان کے 971 ویں یوم پیدائش پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔عمر خیام کا اصل میدان علم ہیت یا علم نجوم، ریاضی اور فلسفہ رہا لیکن ان کی عالمی شہرت کا باعث ان کی رباعیاں بنیں۔یہ پہلا موقع نہیں کہ عمر خیام کی ایک ہزار سال بعد بھی پزیرائی ہو رہی ہے۔ سنہ 1970 میں چاند کے ایک گڑھے کا نام عمر خیام رکھا گیا۔ یہ گڑھا کبھی کبھی زمین سے بھی نظر آتا ہے جبکہ سنہ 1980 میں ایک سیارچے (3095) کو عمر خیام کا نام دیا گیا۔عمر خیام کے اشعار پر انگریزی کے معروف شاعر یوجین او نیل، اگاتھا کرسٹی اور سٹیون کنگ وغیرہ نے جہاں اپنی تصانیف کے نام رکھے وہیں معروف افسانہ نگار ہیکٹر ہیو منرو نے عمر خیام سے متاثر ہوکر اپنا قلمی نام ہی 'ساقی' رکھ لیا۔خیام کا انتقال 1123 عیسوی میں نیشاپور میں ہوا اور وہیں سپردخاک کئے گئے ۔نیشاپور میں خیام کی آخری آرامگاہ آج بھی سیاحوں اور علم دوست حلقوں کا مرکز  نگاہ مانی جاتی ہے

مضمون انٹر نیٹ سے حاصل کردہ معلومات نیز اپنی یاداشت میں محفوظ یادوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے-کیونکہ میری والدہ اور دادی محترمہ کا تعلق ایران سے تھا جس کے سبب ہمارے گھر میں اردو کے ساتھ فارسی ادب بھی موجود تھا

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر