جمعرات، 3 اگست، 2023

کمر خمیدہ -شہید کربلا -حبیب ابن مظاہر

 

روائت ہے کہ جب میدان کر بلا سے امام عالی مقام نے صحا بہ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ  وسلم (حبیب ابن مظاہر)کو خط لکھ کر جنگ کی صورتحال بتائ تو آپ نے فوراً سامان سفر باندھا اور نصرت امام کے لئے نکل کھڑے ہوئے-کوفہ کا ماحول اتنا ناسازگار تھا کہ آپ دن کو چھپ جاتے اور رات کو مخفی طور پر سفر کرتے -اس طرح آپ امام علیہ السلام سے کربلا میں جا ملےآپ کا شمار کوفہ کے ان زعمائے شیعہ میں ہوتا ہے جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھاتھا۔ آپ نے مسلم بن عقیل کو امام علیہ السلام کے لئے یہ کہہ کر جواب دیا تھا : قسم ہے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں میں بھی وہی کہتا ہوں جو انھوں نے کہا اور عابس بن شبیب شاکری کی کی طرف اشارہ کیاتھا ( طبری ،ج٥، ص ٣٥٥ ) کربلا میں عمر بن سعد کے پیغام رساں قرہ بن قیس حنظلی تمیمی سے آپ نے کہا تھا : واے ہو تجھ پر اے قرہ بن قیس ! تو ظالموں کی طرف کیوں کر پلٹ رہاہے، تو اس ذات کی مدد کر جس کے آباء واجداد کی وجہ سے اللہ نے تجھے اور ہمیں دونوں کو کرامت عطا کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤١١ ) جب نو محرم کو شام میں سپاہ اموی عمر بن سعد کی سالاری میں امام حسین علیہ السلام پر حملہ آور ہوئی تھی تو عباس بن علی  بیس (٢٠)سواروں کے ہمراہ ان لوگوں کے پاس گئے جن بیس میں جناب حبیب بھی تھے۔

 حبیب نے اس وقت فرمایاتھا : خدا کی قسم کل قیامت میں وہ قوم بہت بری ہوگی جس نے یہ قدم اٹھایا ہے کہ ذریت و عترت واہل بیت پیغمبرۖ کو قتل کردیا جو اس شہر ود یار کے بہت عبادت گزار ، سحر خیزی میں کوشاں اور اللہ کا بہت ذکر کرنے والے ہیں جب آپ مسلم بن عوسجہ کے زخمی جسم پر آئے اور مسلم نے امام علیہ السلام کی نصرت کی وصیت کی تو آپ نے فرمایا : رب کعبہ کی قسم میں اسے انجام دوں گا ۔(طبری ،ج٥، ص ٤٣٦ )امام حسین علیہ السلام نے آپ کو بائیں محاذ کا سالار بنایا تھا ۔( طبری، ج٥،ص ٤٢٢ ) حصین بن تمیم آپ کے قتل پر فخر و مباہات کررہا تھا اور آپ کے سر کو گھوڑے کے سینے سے لٹکا دیا تھا۔ آپ کے بیٹے قاسم بن حبیب نے قصاص کے طور پر آپ کے قاتل بدیل بن صریم تمیمی کو قتل کردیا ،یہ دونوں با جمیرا کی جنگ میں مصعب بن زبیر کی فوج میں تھے ۔اسی گیرودار میں حصین بن تمیم تمیمی نے حسینی سپاہیوں پر حملہ کردیا۔ادھر سے حبیب بن مظاہر اس کے سامنے آئے اور اس کے گھوڑے کے چہرے پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ اچھل پڑا اور وہ گھوڑے سے نیچے گر پڑا تو اس کے ساتھیوں نے حملہ کرکے اسے نجات دلائی ۔

آپ میدان جنگ میں دلیرانہ رجز پڑھتے ہوئے حملہ آور ہوئےأ میں حبیب ہوں اورمیرے باپ مظاہر ہیں۔ جب آتش جنگ بر افروختہ ہوتی ہے تو ہم بڑے بہارد اورمرد میدان ہیں۔ تم اگر چہ تعداد میں بہت زیادہ ہو لیکن وفاداری میں ہم تم سے بہت آگے ہیں اور مصیبتوں میں بہت صابر ہیں ۔ہم حجت و برہان میں سربلند ،حق و حقیقت میں واضح تر اورتقوا کے میدان میں تم سے بہت بہترہیں اور ہم نے تم پر حجت تمام کردی۔پھر فرمایا :خدا کی قسم اگر ہم تعداد میں تمہارے برابر ہوتے یا تم سے کچھ کم ہوتے توپھر دیکھتے کہ تمہاری جماعتوںکو کتنے پیچھے کردیتے ،اے حسب ونسب کے اعتبار سے بدترین لوگو!اس کے بعد آپ نے بڑا سخت جہاد کیا۔جنگ کے دوران بنی تمیم کے ایک شخص بدیل بن صریم نے آپ پر حملہ کیا اور ایک نیزہ مار ا جس سے آپ زمین پر گر پڑے اور چاہا کہ اٹھیں لیکن فوراً حصین بن تمیم نے آپ کے سر پرتلوارسے وار کردیا۔ آپ زمین پر گرپڑے، تمیمی نیچے اترا اوراس نے آپ کاسر قلم کردیا۔

۔ابو مخنف نقل کرتے ہیں کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے ۔۔ جب بدیل نے سر کاٹ لیا تو حصین اس سے بولا : میں بھی اس کے قتل میں شریک ہوں۔ بدیل بولا : خدا کی قسم میرے علاوہ کسی دوسرے نے اسے قتل نہیں کیا ہے تو حصین نے کہا اچھا یہ سر مجھے دے دو تاکہ میں اسے گھوڑے کی گردن میں لٹکادوں تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں اور جان لیں کہ میں بھی اس کے قتل میں شریک ہوں . پھر تم اسے لے کر عبیداللہ بن زیاد کے پاس چلے جانا۔ وہ جو تمہیں اس کے قتل پر عطا'یا اور بخشش سے نوازے گا مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ہے لیکن بدیل نے اس سے انکار کیا تو پھر ان کی قوم نے اس مسئلہ میں ان دونوں کے درمیان صلح کرائی جس کے نتیجے میں اس نے حبیب بن مظاہر کا سر حصین بن تمیم کو سونپ دیا اور حصین اپنے گھوڑے کی گردن میں جناب حبیب کا سر لٹکائے پوری فوج میں چکر لگانے لگا پھر اس کے بعد یہ سر بدیل کو لوٹا دیا . جب یہ لوگ کوفہ لوٹے تو بدیل نے اپنے گھوڑے کے سینے سے حبیب کے سرکو لٹکا دیا اوراسی حال میں ابن زیاد کے محل میں حاضری دی ۔

قاسم بن حبیب جوابھی جوان تھے انہوں نے یہ منظر دیکھا تواس سوار کے ساتھ ساتھ ہوگئے اوراسے کسی طرح نہیں چھوڑرہے تھے تو بدیل مشکوک ہوگیااور بولا : اے بچے تجھے کیا ہوگیا ہے کہ میرا پیچھا پکڑے ہے ؟ قاسم نے کہا : یہ سر جو تمہارے ساتھ ہے یہ میرے بابا کا سر ہے۔ کیا تم مجھ کو عطا کروگے تاکہ میں اسے دفن کردوں ؟ بدیل: اے بچے امیر اس سے راضی نہ ہوگا کہ یہ سر دفن کیا جائے۔ میں تو یہ چاہتا ہوںکہ ان کے قتل پر امیر مجھے اس کی اچھی پاداش دے۔اس نوجوان بچے نے جواب دیا : لیکن خدا اس پر تمہیں بہت برا عذاب دے گا ،خدا کی قسم تم نے اپنی قوم کے بہترین شخص کو قتل کردیا اور پھر وہ بچہ رونے لگا ۔ یہ واقعہ گزر گیا اور روزگار اسی طرح گزرتے رہے یہاں تک کہ جب مصعب بن زبیر نے'' با جمیرا'' میں جنگ شروع کی تو قاسم بن حبیب بھی اس کے لشکر میں داخل ہوگئے تو وہاں آپ نے اپنے باپ کے قاتل کو ایک خیمے میں دیکھا۔ جب سورج بالکل نصف النہار پر تھا آپ اس کے خیمے میں داخل  ہوئے تو وہ سورہا تھا تو آپ نے تلوار سے اس پر وارکر کے اس کو قتل کردیا۔  جب حبیب بن مظاہر شہید ہوگئے تو حسین علیہ السلام کے دل پربڑا دھکا لگا؛ آپ نے فرمایا : ''أحتسب نفس وحما  أصحاب'' خود کو اور اپنی حمایت کرنے والے اصحاب کے حساب کو خدا کے حوالے کرتا ہوں اور وہیں ذخیرہ قرار دیتاہوں

خدائے مہربان آپ پر جنت کے باغوں کا سایہ عطا فرمائے آمین۔

بدھ، 2 اگست، 2023

قدم گاہ مولا علی علیہ السّلام

 

 یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ نبئ کریم حضرت محمد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واِ لہ وسلّم کے زمانے سے ہی سفیران اسلام کی دنیا میں آمدورفت شروع ہو گئ تھی-اور مولائے کائنات کی برّصغیر آمد کے بارے میں بھی رویات موجود ہیں -انہی روایات میں سے ایک روائت آپ کے پاء مبارک کے نشان بھی بتائے جاتے ہیں جن کو قدم گاہ مولا علی کہا جاتا ہے آئے قدم گاہ  کی زیا  ر ت کر تےہیں -محمد حسین خان شائع شدہ اگست 19، 2021 1 زیر تعمیر قدم گاہ  تاریخی قدم گاہ مولا علی کی طرف جاتا ہے مذہبی ہم آہنگی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے سینٹ کے دور میں شہر کے سب سے پرانے علاقوں میں حکام کی توجہ کا مرکز شہر کے تجارتی علاقوں میں سے ایک ہے۔ رام جب مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے، شیعہ اور غیر شیعہ، اس جگہ پر جمع ہوتے ہیں۔ قدم گاہ اس وقت بھی امن کا گڑھ رہا ہے جب حیدرآباد نسلی فسادات سے دوچار تھا۔ یہ سنی مکتبہ فکر کے بزرگ حضرت وہاب شاہ جیلانی کے مزار کے قریب واقع ہے، جس پر بہت سے وفادار بھی آتے ہیں،

 جنہیں اپنے مقدس مقامات تک پہنچنے کے لیے ایک ہی تنگ گلی کا استعمال کرنا پڑتا ہے لیکن انھوں نے اس پر کبھی لڑائی نہیں کی۔ اگرچہ دونوں اطراف کے انتظامی راستے کے استعمال پر اختلاف رکھتے تھے، لیکن اس سے کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ قدم گاہ مزار کا تعمیراتی کام 2009 سے جاری ہے۔ قدم گاہ درحقیقت پتھر کا 4-5 انچ کا سلیب ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک نمازی چٹائی ہے جس پر سجدہ کی حالت میں حضرت علی کے ماتھے، ہاتھ، گھٹنوں اور پاؤں کے نشانات ہیں۔ مشہور روایت ہے کہ یہ چٹائی ایران کے شاہ فتح شاہ کچار کی طرف سے تحفہ ہے جنہوں نے اسے 1805 میں تالپوروں کے ایک سفیر سید ثابت علی شاہ کو پیش کیا تھا، لیکن شیعہ محققین جیسے پروفیسر ڈاکٹر مرزا امام علی اور زوار عبدالستار درس میں اختلاف ہے جس پر تالپور حکمران نے دراصل اپنا سفیر ایران بھیجا تھا۔

 سید ثابت علی شاہ 1208 ہجری میں اہل بیت سے محبت کے لیے متعدد تحائف کے ساتھ ایران گئے۔ تحائف میں گھوڑے، قرآنی نسخے، زیورات، تلواریں اور سجی ہوئی چھوٹی چھریاں شامل تھیں۔ ان تحفوں کے بدلے میں کتاب کہتی ہے کہ شاہ ایران نے انہیں وہ نمازی چٹائی پیش کی جس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقش تھے۔ لیکن درس کا استدلال ہے کہ یہ میر غلام علی تالپور تھا جس نے سبط علی شاہ کو بھیجا تھا۔ درس کہتے ہیں کہ ’’دراصل وہ دور جس میں ثابت نے ایران کا سفر کیا وہ دور ہے جب میر غلام علی نے سندھ پر حکومت کی تھی۔ "وہ جگہ جہاں نماز کی چٹائی مومنین کی 'زیارت' کے لیے محفوظ کی گئی ہے وہ اس کی تیسری آرام گاہ ہے۔ میر نصیر علی نے اسے 1841 میں قلعہ سے موجودہ قدم گاہ میں منتقل کیا تھا جہاں اسے پہلی بار محفوظ کیا گیا تھا۔ کاظم واجد مرزا، جنہوں نے قدم گاہ کے جنرل سیکرٹری کے طور پر 11 سال (1994-2005) تک خدمات انجام دیں، کہا کہ قدم گاہ کے بارے میں مشہور کہانیوں کی تاریخی طور پر تصدیق کی ضرورت ہے۔

 وہ درس اور ڈاکٹر امام سے متفق نہیں ہیں کہ سبط علی شاہ ہی نماز کی چٹائی لائے تھے۔ "سبط علی شاہ نے اپنا ایران کا سفرنامہ لکھا اور اس میں کہیں نہیں لکھا کہ یہ آثار وہی لائے تھے، حالانکہ انھوں نے اپنے سفر کی بہت سی معمولی تفصیلات بھی بتا دی تھیں۔ وہ اپنے سفر کے اس اہم پہلو سے کیسے محروم رہ سکتا ہے؟" وہ کہتے ہیں. اس کا دعویٰ ہے کہ یہ تالپوروں کا ایک وزیر اسماعیل شاہ تھا، جو ایران سے آثار لایا تھا، اور عظیم دانشور مرزا قلیچ بیگ (1853-1909) کی تیار کردہ معلومات پر انحصار کرتا ہے۔ کاظم مرزا قلیچ بیگ کی اولاد ہیں جو کاظم کے والد کے نانا تھے۔ "قلیچ کے نانا خسرو بیگ میر نصیر تالپور کے دور حکومت میں وزیر تھے اس لیے ان کا دور ان کے قریب ہے۔ سطحی کی بجائے مستند معلومات ہونی چاہئیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ مرزا افسوس کرتے ہیں کہ پکے قلعہ کے اندر قدم گاہ کی پہلی آرام گاہ محفوظ نہیں تھی۔ قلعہ سے منتقلی کے دوران نمازی چٹائی کو بھی نقصان پہنچا۔ وہ کمرہ جہاں تالپوروں نے رکھا تھا اسے محفوظ رکھا جانا چاہیے تھا۔" وہ کہتے ہیں۔ قدم گاہ کو اب تیسری آرام گاہ میں منتقل کر دیا گیا ہے جو ابھی زیر تعمیر ہے، درس کہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کوفی رسم الخط میں لکھے گئے قرآن کے 15 سپارے بھی ثابت علی شاہ کو پیش کیے گئے۔ "ہم نے انہیں محفوظ کر لیا ہے۔ باقی 15 کو امام علی رضا کے مقبرے میں رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر امام علی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ نماز کی چٹائی سب سے پہلے تالپوروں نے موجودہ حیدرآباد کے ایک کمرے میں (پکے قلعہ) کے لیے رکھی تھی جب اسے ایران سے لایا گیا تھا۔ تالپور قدم گاہ کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے اور اسے عوام کے لیے نہیں کھولا جاتا تھا۔

لیکن اسے 1841 میں موجودہ قدم گاہ کے احاطے میں منتقل کر دیا گیا تاکہ عقیدت مندوں کو خراج عقیدت پیش کر سکیں۔" وہ کہتے ہیں کہ 1843 میں انگریزوں کے ہاتھوں تالپوروں کو شکست دینے اور جلاوطن ہونے کے بعد، ان کے نوکروں نے قدم گاہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھال لی، درس کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1908 میں انجمن امامیہ وجود میں آئی جو اب قدم گاہ چلا رہی ہے۔ موجودہ قدم گاہ کا سنگ بنیاد 1993 میں رکھا گیا تھا۔ اس کا ڈیزائن نجف اشرف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مزار سے مشابہ ہے۔ اس کا زیادہ تر کام مکمل ہو چکا ہے۔ احاطہ شدہ علاقہ 3,134 مربع گز پر پھیلا ہوا ہے جس میں دکانیں، ہسپتال، صحن وغیرہ شامل ہیں۔ "ہم قدم گاہ کو نجف سندھ سمجھتے ہیں،" درس نے نجف سندھ کے عنوان سے اپنی کتاب دکھاتے ہوئے کہا۔ قدم گاہ کا گنبد اس کے دائیں اور بائیں میناروں ے ساتھ مکمل ہو چکا ہے۔ "گنبد کا فینسی کام اس وقت کیا جانا ہے جب اس کا تعمیراتی کام مکمل ہو  نے کے قر یب  ہے"

پیر، 31 جولائی، 2023

ایلی کاٹ کا ذ وا لجنا ح کا جلو س

 

یہ قیام پاکستان سے قبل کی بات ہے ایک قابل لیڈی ڈاکٹر کے یہاں شادی کے پانچ برس بعد تک اولاد کی نعمت نہیں تھی لیکن وہ محرم کی مجا لس میں بہت    عقید ت سے شريک ہو تی تھیں- ایک بار انہوں نے یوم عاشور پر عورتوں کو دعائیں کرتے دیکھا تو اپنی دوست سے پوچھا کہ یہ خواتین کیا کر رہی ہیں دوست نے بتایا کہ یہ ا ولاد ہونے کی منت مان رہی ہیں چنانچہ لیڈی ڈفرن نے بھی دوست سے سب پوچھ کر اپنے یہاں اولاد ہونے کی منّت مان لی اور پھر ان کی گود امام حسین علیہ السّلام کے وسیلے سے ہری بھری ہوگئ -اب میں یہاں سے بی بی سی کا مضمون پرنٹ کر رہی ہوں 

صوبہ سندھ کے ضلع حید-ر آباد میں گذشتہ 52 سال سے محرم کی آٹھ تاریخ کو ایلی کاٹ کے نام سے بھی ایک ماتمی جلوس نکالا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایلی کاٹ کون تھے اور اُن کی کہانی کیا ہے۔حیدرآباد کے چند عمر رسیدہ لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ ایلی کاٹ سفید فام تھےاور وہ ہر سال محرم الحرام میں سیاہ کپڑے زیب تن کیے عزاداری میں پیش پیش ام آتے تھے۔بیلے ڈانس کے دلدادہ ایلی کاٹ اپنے ڈرائیور کی زبانی واقعہ کربلا سُن کر ایسے مسلمان ہوئے کہ انھوں نے گھر بار اور بیوی بچے سب کچھ چھوڑ دیا اور مرتے دم تک ’غم حسین‘ کو سینے سے لگائے رکھا۔چارلی ایلی کاٹ جنھوں نے مسلمان ہونے کے بعد اپنا نام علی گوہر رکھا، ان کا جنم کہاں ہوا اس کا کوئی ریکارڈ موجود حکومت سندھ کے مرتب کردہ انسائیکلوپیڈیا سندھیانہ کا دعویٰ ہے کہ ایلی کاٹ عرف علی گوہر کی والدہ لیڈی ڈفرن ہسپتال حیدرآباد میں میڈیکل سپرنٹینڈنٹ تھیں اور ان کے والد آرتھر سڈنی کاٹ حیدرآباد اور میرپورخاص میں کلیکٹر تھے۔ ۔ ایلی کاٹ کی والدہ کے منشی محمد علی کی بیگم سے اچھے مراسم تھے۔ ان کی اولاد نہیں تھی تو ایک بار جب اشرف شاہ کے پڑ سے جلوس آرہا تھا تو سب کو دعا مانگتا ہوا دیکھ کر انھوں نے بھی دعا مانگی اور اسی سال ان کو اولاد نرینہ ہوئی۔ چارلی ایلی کاٹ کی والدہ بچے کی پید  ا ئش کے بعد  حیدرآباد کے ہر ماتمی جلوس میں نذر و نیاز کرتی تھیں

انسائکلوپیڈیا سندھیانہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر لیڈی ڈفرن محرم میں ایلی کاٹ کو سیاہ کپڑے پہناتی تھیں۔ بعد میں ایلی کاٹ نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام علی گوہر رکھا۔وہ سندھ کے محکمہ ایکسائز میں انسپکٹر بھی رہے۔ وہ اپنا وقت قدم گاہ ا اشرف شاہ کے پڑ میں گزارتے تھے۔وہ لندن بھی گئے جہاں والد نے ان کی شادی کرائی۔ ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا بھی تھا۔قیام پاکستان کے بعد انھوں نے واپس جانے سے انکار کیا اور یوں ماں بیٹا یہاں مقیم ہو گئے۔ ایلی کاٹ کی وفات 1971 میں ہوئی اور اشرف شاہ کے پڑ کا نام ایلی کاٹ کے نام سے مشہور ہوا۔واضح رہے کہ پڑ سندھی میں اس علاقے کو کہتے ہیں جہاں علم لگایا جاتا ہے اور ذوالجناح کا جلوس نکالا جاتا ہے۔ قدیم حیدرآباد میں ہر علاقہ وہاں کے رہائشی افراد کے پیشے کے لحاظ سے آباد ہوا اور تالپور حکومت میں ہر جگہ پڑ اور علم بنائے گئے۔حیدر آباد میں گذشتہ 54 سال سے محرم کی آٹھ تاریخ کو ایلی کاٹ کے نام سے بھی ایک ماتمی جلوس نکالا جاتا ہے-ایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی سے کہا وہ ’مومن‘ ہونا چاہتے ہیں ایلی کاٹ کے ڈرائیور کا نام عبدالغفور چانڈیو تھا اور ان سے ہی واقعہ کربلا اور حضرت علی کے حالات زندگی کے بارے میں سُن کر ایلی کاٹ کو بھی حسینی قافلے میں شامل ہونے کا شوق ہوا۔

عبدالغفور چانڈیو کے بیٹے غلام قادرچانڈیو نے سنہ 2004 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایلی کاٹ نے اُن کے والد عبدالغفور سے کہا تھا کہ وہ بھی ماتمی جلوس نکالنا چاہتے ہیں لیکن عبدالغفور چانڈیو گریز کرتے رہے اور کہتے رہے کہ اس کے لیے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔بقول غلام قادر، چارلی اپنے فیصلہ پر اٹل رہے۔ بالآخر عبدالغفور نے چارلی ایلی کاٹ کی سرپرستی میں ماتمی جلوس نکالنے کے لیے حامی بھر لی، جس پر چارلی کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔حیدرآباد کے پکے قلعہ میں چانڈیوں کی امام بارگاہ سے پہلی بار ذوالجناح کا جلوس نکالنے کی تیاری کی گئی۔ یکم محرم الحرام کو جب یہ جلوس روانگی کے لیے تیار تھا تو عجیب اتفاق یہ ہوا کہ چارلی کی والدہ کی وفات ہو گئی۔غلام قادر بتاتے ہیں کہ بابا عبدالغفور نے ایلی کاٹ کو یاد دلایا کہ انھیں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ اس کام میں بڑی قربانی دینی پڑتی ہے جس سے ایلی کاٹ کا ایمان اور پختہ ہو گیا۔ایلی کاٹ نے صبح کو والدہ کی حیدرآباد کے شمال میں واقع گورا قبرستان میں تدفین کی اور شام کو اپنے غم کو بھول کر اور سیاہ کپڑے پہن کر ننگے پاؤں ماتم میں شامل ہو گئے۔غلام قادر جو ایلی کاٹ کے ساتھی رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ ایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی کو بتایا کہ وہ ’مومن‘ ہونا چاہتے ہیں۔ اس لیے اُن کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا یہ کہ وہ بھی مسلمان ہو جائیں اور دوسرا یہ کہ واپس انگلینڈ چلی جائیں اور اپنی زندگی گزاریں۔

اُن کی بیوی نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور وہ بچوں سمیت انگلینڈ چلی گئیں، جہاں سے وہ کبھی بھی چارلی کے لیے لوٹ کر نہیں آئیں۔چارلی اب علی گوہر بن چکے تھے۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر چلے گئے جہاں انھوں نے چھ ماہ تک ملنگوں والی زندگی گزاری۔ چھ ماہ بعد حیدرآباد لوٹ آئے اور بقیہ تمام زندگی اپنے ڈرائیور عبدالغفور کے پاس رہ کر گزار دی۔ اپریل 1971 کو چارلی ایلی کاٹ کی وفات ہوئی اور انھیں اُسی ماتمی گنبد میں دفن کر دیا گیا، جہاں وہ رہتے تھے۔حیدرآباد میں ماتمی جلوسوں کی منزل قدم گاہ ہوتی ہے اور یکم محرم سے لے کرعاشورہ تک جلوس یہاں پر سلامی دیتے ہیں کراچی سے قبل حیدرآباد سندھ کا دارالحکومت تھا۔ انگریزوں نے جب سندھ کو فتح کیا تو اس وقت سندھ پر تالپور خاندان کی حکومت تھی جو حیدرآباد، میرپور خاص اور خیرپور ریاستوں میں تقیسم تھی۔ تالپور شیعہ مسلک کے پیروکار تھے۔

 

 

 

بی بی زینب کا خطبہ دربار ابن زیاد میں

 

محرّم کی دس تاریخ کربلا کی وہ قیامت خیز رات تھی جس میں خاندان رسالت مآب کے تمام  لاشہائےشہداء مقتل میں بے گوروکفن کھلے آسمان تلے جلتی ریت پر تھے اور خنہء شرف کی عفّت مآب بیٹیاں بے مقنع و چادر ایک بیمار اور ننھّے بچّوں کے ہمراہ جلتے ہوئے خیموں سے کچھ فاصلے پر بیٹھی ہوئ تھیں -رات بسر ہوئ اور سورج کی تمازت جیسے ہی بڑھی ویسے ہی یزید کی افواج کے سپاہی رسیّاں لئے ہوئے  بیبیوں کی جانب آتے ہوئے چیخنے لگے کہ سب اپنے ہاتھ بندھوالیں اتنے میں بی بی زینب نے پر جلال آواز میں کہا کوئ ہمیں ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرے ہم خود اپنے ہاتھ بندھوائین گیے اوراس طرح بی بی اینب سلام اللہ علیہا نے سب بیبیوں کے ہاتھ باندھے اور سب سے آخر میں جناب سید سجّاد نے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے ہاتھ باندھے اور پھر کربلا سے کوفہ کا ہولناک سفر شروع ہوا-اور پھر قافلہ کوفہ کے دروازے تک جب پہنچا تو بیبیوں نے اور بیمار امام نے ایک مانوس آواز سنی ،اسّلام علیک یا رسول ا للہ ،،بیبیوں کی شرم سے جھکی ہوئ نگاہیں اس مانوس آواز پر بے اختیار اٹھیں تو سامنے سفیر کربلا جناب حضرت مسلم بن عقیل کا تن بریدہ سر باب کوفہ کی بلندی پر آویزاں نظر آیا

اب بی بی زینب نے دیکھا کہ شہر کوفہ میں جشن کا سمان   ہےلوگ جوق درجوق باغیوں کا تماشہ دیکھنے ہجوم کی شکل میں امڈے چلے آرہے ہیں اور یہ ہجوم خوشی کے شادیانے بجاتا ،،باغیون کے خلاف نعرے لگاتا قافلے کے گرد جمع ہورہا ہے تو بی بی زینب نے بالون میں چھپے نوران اور پر جلال لہجے میں ہجوم کو للکار کر کہا ،،خاموش ہو جاؤ ،،،زینب کی للکار کے جواب میں مجمع پر سکوت طاری ہوگیا اور زینب نے خطاب شروع کیا ،،جو علی علیہ السّلام کو سن چکے تھے انہوں نے سنا وہی ہیبت و جلال ،،تمام تعریفیں اللہ کی بزرگی و جلالت کے لئے ہیں اور سلام ہو میرے جدّ اعلٰی محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پر اور اپنے آبائے طاہرین پر اور ان کی پاکیزہ تر آل پر جن

کو اللہ نے ہر عیب سے مبرّا رکھّا اور منزّہ قرار دیا-آپ پھر گویا ہوئین ،بد بخت اور شقی لوگوں آگاہ ہو جاؤ کہ قیامت کے دن کے واسطے تم نے اپنے لئے آگ کے الاؤ دہکا کر تیّار رکھّے ہیں ،اس دن وہ کامران ہوں گے جنہوں نے اس کے سچّے دین کے لئے قربانیاں دیں اور حق کا پرچم بلندکیا زینب کا خطاب تھا اور مجمع پر سکوت طاری تھا کہ قیدیون کی تشہیر کا حکم نامہ آگیا ،کوچہ بکوچہ قیدیو ن کا قافلہ گزارا جانے لگا اور پھر دربار ابن زیاد میں پیشی کا حکم آ یا  بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے دربا ابن زیاد میں ایک تاریخی خطبہ اہل دربار کے سامنے دیا اور اہل دربار کی ضمیروں کی بتایا کہ ابن زیاد نے کس طرح خاندان رسالت کے چمن کو تاراج کیا ہے آپ پر جلال لہجے میں گویا ہوئیں

اے کوفیو! اے مکروفریب اور دھوکہ دینے والو! اللہ نے ہم اہل بیت  کے ذریعے تمہارا امتحان لیا اور تم کو ہمارے ذریعے آزمایا اور ہماری آزمائش کو حسن قرار دیا۔ اللہ نے اپنا علم ہمیں ودیعت فرمایا، ہم اس کے علم کے امانتدار ہیں اور ہم ہی اللہ کی حکمت کے مخزن ہیں اور ہم ہی آسمان و زمین پر اللہ کی حجت ہیں اللہ نے ہمیں اپنی کرامت سے شرف بخشا اور ہمیں ہمارے جد محمد ص کے ذریعے اپنی ساری مخلوق پر فضلیت بخشی۔ تم نے ہمیں جھٹلا کر اللہ سے کفر کیا اور تم نے ہمارا قتل حلال جانا اور ہمارے مال کو لوٹا گویا ہم اولاد رسول نہیں، کہیں اور کے رہنے والے ہیں اور جس طرح کل تم لوگوں نے ہمارے دادا کو قتل کیا تھا تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپکا ہے کیونکہ تمہارے سینوں میں ہمارا بغض و کینہ بہت عرصے سے پرورش پا رہا تھا تم نے ہمیں قتل کرکے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی ۔

اور تمہارے دل خوش ہوئے تم نے اللہ پر افتراء باندھا اور تم نے فریب کیا، اللہ فریب کرنے والوں کے فریب کو ناکام بنانے والا ہے تم نے جو ہمارا خون بہایا ہے اس سے اپنے نفسوں کو خوش نہ کرو اور جو تم نے ہمارا مال لوٹا ہے اس سے بھی تمہیں کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے کیونکہ ہمیں جو مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا ہے یہ اللہ کی محکم کتاب میں پہلے سے ہی مذکور تھا، ہم پر ظلم و ستم ڈھا کر خوش نہ ہو بےشک اللہ تکبر اور غرور کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے۔ تمہارے لیے ہلاکت ہو عنقریب تم لعنت اور عذاب نازل ہو گا اور وہ تمہارا مقدر بن گیا ہے اور آسمان سے کثرت کے ساتھ تم پر عذاب آئیں گے اور تم عذاب عظیم دیکھو گے اور سختی کا تلخ ذائقہ چکھو گے اللہ کی ظالمین پر لعنت ہو۔ تمہارے لیے ویل (جھنم) ہے ہم جانتے ہیں کہ کس نے ہماری اطاعت کی کس نے ہمارے ساتھ جنگ کی کون ہماری طرف خود چل کر آیا تم تو ہمارے ساتھ جنگ چاہتے تھے تمہارے دل سخت ہوگئے تمہارے جگر غلیظ ہوگئے اللہ نے تمہارے دلوں ،کان،آنکھوں پر مہر لگا دی تمہارا پیشوا شیطان ہے جس نے تمہاری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور تم ہدایت سے دور ہو گئے۔

اے کوفیو! تمہارے لیے ہلاکت ہے، رسول اللہ نے تمہارے ساتھ کیا برا کیا تھا جس کے بدلے میں تم نے اس کے بھائی اور میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلامکے ساتھ اتنا برا سلوک کیا اور اس کی پاک عزت کے ساتھ کیا؟ ہمارے قتل اور ہمیں قیدی بنا کر تم فخر کرتے ہو کیا یہ امت اس پاک گھرانے کے قتل پر فخر محسوس کرتی ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا اور ہر رجس کو ان سے دور رکھا ؟ہر شخص کو وہی ملتا ہے جسے وہ کسب کرتا ہے اور جو وہ آگے بھیجتا ہے ۔تمہارے لیے ویل ہے تم نے ہم پر حسد کیا جو اللہ نے ہمیں عظمت و فضیلت عطا کی تھی وہ تمہارے حسد کا نشانہ بنی اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے وہ صاحب فضل عظیم ہے جس کے لیے اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور ہو ہی نہیں سکتا ۔نبوت اور امامت کی پروردہ نے اپنے اس عظیم خطبے میں چند اہم امور پر گفتگو فرمائی: بی بی نے اپنے بابا امیرالمومنین  علیہ السلامکی ولایت کے عہد کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا اور آپ علیہ السلام کے مصائب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جو حق ہے اور زمین پر مجسمہ عدل ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے گھر میں شہید کر دئیے گئے۔ امیرالمومنین علیہ السلاموہ شخصیت ہیں جن کو اللہ نے چن لیا اور اپنی صفات و فضائل و مناقت سے آپ علیہ السلام کو مخصوص کر دیا 

 نے اہل بیت علیہ السلام کے مصائب کا ذکر فرمایا، ان پر اللہ کا سلام ہو وہ امت کے روحانی پیشوا ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ کس نے ان کی نصرت کی اور کس نے دشمنی اور امت نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور جس طرح آل محمد   کا خون بہایا اور جس طرح آل محمد نے مصائب و آلام برداشت کئے ۔ ۳۔ اہل بیت علیہ السلام    پر کی جانے والی زیادتیوں کا بیان کیا کہ ظالم افراد جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، نے کتنا ظلم ڈھایا اور ان کو اللہ کے سخت ترین عذاب کی  بھی سنائی۔ لوگوں کے نفوس میں اس خطاب کا گہرا اثر ہوا جس سے لوگوں کے دل جلنے لگے اے طاہرین کی بیٹی! خدارا اپنے کلام کو روک دیجئے آپ نے ہمارے دلوں میں آگ لگا دی اور ہماری سانسیں ہمارے حلق میں اٹک گئی ہیں حتی کہ اس مجمعے میں موجود بعض افراد نے یزید ملعوں اور اس کے افواج کے خلاف علم جہاد اٹھا کر جام شہادت نوش کیا۔  

ہفتہ، 29 جولائی، 2023

شہادت حضرت عباس علمدار علیہ السلام

 

ہر تشنہ ہدایت کے لیے ہادی برحق   وہ نہ صرف شجاعت اور جنگ کے میدان میں نمونہ اور سرمشق ہیں۔ بلکہ ایمان اور اطاعت حق کی منزل میں، عبادت اور شب زندہ داری کے میدان میں اور علم اور معرفت کے مقام پر بھی انسان کامل ہیں-مولائے  کائنات حضرت علی علیہ السّلام  کی خصوصی تربیت نے  شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا جناب عباس  علیہ السّلامکا وہ عظیم فہم و ادراک اسی تربیت کا نتیجہ تھا۔ ایک دن مولاءے کائنات حضرت علی علیہ السّلام  عباس کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے تھے حضرت زینب(س) بھی موجود تھیں امام نے اس بچے سے کہا: کہو ایک۔ عباس نے کہا : ایک۔ فرمایا : کہو دو۔ عباس نے دو کہنے سے منع کر دیا۔ اور کہا مجھے شرم آتی ہے جس زبان سے خدا کو ایک کہا اسی زبان سے دو کہوں۔ امام، عباس کی اس زیرکی اور ذہانت سے خوش ہوئے اور پیشانی کو چوم لیا۔ آپ کی ذاتی استعداد اور خاندانی تربیت اس بات کا با عث بنی کہ جسمی رشد و نمو کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معنوی رشد و نمو بھی کمال کی طرف بڑھی۔ جناب عباس   علیہ السّلامنہ صرف قد و قامت میں ممتاز اور منفرد تھے بلکہ خرد مندی، دانائی اور انسانی کمالات میں بھی منفرد تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کس دن کے لیے پیدا ہوئے ہیں تاکہ اس دن حجت خدا کی نصرت میں جانثاری کریں۔ وہ عاشورا ہی کے لیے پیدا ہوئے تھے۔

جنگ صفّین اور حضرت عبّاس علمدار- 

حضرت علی علیه السلام نے حضرت عباس علمدار کی تربیت و پرورش کی تهی۔ حضرت علی علیه السلام سے انهوں نے فن سپه گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجه اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقه حاصل کئے۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وه ثانی حیدر کهلانے لگے۔ حضرت عباس علیه السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکهتے تهے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے هوئی تهی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بهبود کے لئے خاص طور پر مشهور تهے۔ اسی وجه سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل هوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ هے جو ان کے روحانی کمال کی بهترین دلیل هے۔ وه اپنے بهائی امام حسین علیه السلام کے عاشق و گرویده تهے اورسخت ترین حالات میں بهی ان کا ساته نهیں چهوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساته وابسته هوگیا هے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شهنشاهِ وفا هے ۔ 

جنگ صفین حضرت علی علیه السلام اور شام کے گورنر معاویه بن ابی سفیان کے درمیان مئی۔جولائی 657 ء میں هوئی۔ اس جنگ میں حضرت عباس علیه السلام نے حضرت علی علیه السلام کا لباس پهنا اور بالکل اپنے والد علی علیه السلام کی طرح زبردست جنگ کی حتیٰ که لوگوں نے ان کو علی هی سمجها۔ جب علی علیه السلام بهی میدان میں داخل هوئے تو لوگ ششدر ره گئے ۔ اس موقع پر علی علیه السلام نے اپنے بیٹے عباسؑ کا تعارف کرواتے هوئے کها که یه عباسؑ هیں اور یه بنو هاشم کے چاند هیں۔ اسی وجه سے حضرت عباس علیه السلام کو قمرِ بنی هاشم کها جاتا هے۔  مروی ہے کہ ابو الشعثاء نے انتہائی غیظ و غضب کی حالت میں نکل کر رجز خوانی کرتے ہوئے نکلا اور کہا: اے نوجوان تم نے میری پوری اولاد کو قتل کیا خدا کی قسم میں تمہارے باپ اور ماں کو تمہاری عزا میں بٹھا دوں گا۔ چنانچہ لڑا اور مارا گیا اور جب یہ نقاب پوش نوجوان واپس لشکرگاہ میں آیا تو امیرالمؤمنین علیه السلام نے اس کے چہرے سے نقاب ہٹایا اور سب نے دیکھا کہ وہ عباس بن علی علیه السلام تھے۔ 

شائد علی  علیہ السّلام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ کی تمام اولاد آپ کے اطراف میں نگراں وپریشاں اور گریہ کناں  حالت میں جمع تھی، عباس کا ہاتھ حسین کے ہاتھ میں دیا ہوگا اور یہ وصیت کی ہوگی عباس تم اور تمہارا حسین کربلا میں ہوں گے کبھی اس سے جدا نہیں ہونا اور اسے اکیلا نہ چھوڑنا۔شہادت حضرت عباس علمدار علیہ السلام-لشکر حسینی کا علمبردار قمر بنی ہاشم-ایمان ،شجاعت اور وفا کی بلندیوں پر جب نگاہ کرتے ہیں تو وہاں ایک شخص نظر آتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی جو فضل و کمال میں ، قوت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہے۔جو اخلاص ،استحکام ، ثابت قدمی اور استقلال میں نمونہ ہے اور ہر اچھی صفت جو انسان کی بزرگی کو عروج عطا کرتی ہے اس شخص میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک لشکر کا علمبر دار نہیں بلکہ مکتب شہادت کا سپہ سالار ہے جس نے تمام دنیا کی نسل جوان کو درس اطاعت،وفاداری ،جانثاری اور فداکاری دیا ہے۔ اور وہ حیدر کرار کا لخت جگر عباس ہے۔ شدید پیاس کے عالم میں جانے کس ادا سے علم اٹھایا کہ علم کا نام سنتے ہی بے ساختہ غازی عباس علیہ اسلا م کا نام گرامی ذہن میں آتا ہے- غازی، جری، شیر ،پیکر ایثار ، باوفا، سقہ سکینہ ، حسین علیہ اسلام کی ہمت ، لشکر حسینی کا علمبردار،بچوں کی آس ،عباس علمدار علیہ اسلام ہیں 

جب اطفال  کربلا پیاس کے سبب  ناله و زارى کررہے تهے، تب عباس  علیہ السّلام پانى لانے کے لئے اجازت طلب کرنے تب اعباس  علیہ السّلام پانى لانے کے لئے اجازت لینےمو لا حسین  کے پاس تشریف لاۓ اس وقت امام مظلوم کے چہرے پر افسردگی چھا گی اور آپ نے فرمایا بھائی ،، تم ہمارے لشکر کے علم بردار ھو، اور تم بھی ہم کو چھوڑے جارہے ہو۔ غازی نے ایک طرف گرم ریت پر پائمال لاشوں کی طرف اشارہ کیا مولا جس لشکر کا میں علمبردار تھا وہ تو زمیں کربلا کی گرم ریت پر پائمال ہوگیا ہے مجھہ سے سکینہ اور چھوٹے بچوں کی پیاس نہین دیکھی جاتی ۔ معصوم سکینہ اپنی چھوٹی سی خشک مشکیزہ اٹھا کر لائ اور چچا کے گلے میں ڈال دی ۔بی بی سکینہ نے سارے پیاسوں بچوں کو جمع کیا اور کہا اپنے اپنے کوزے لے آؤ میرے عمو اب پانی لینے جاتےہیں ۔ تین دن کے بھوکے پیاسے بچے اپنے اپنے ۔کوزے اٹھا کر در خیمہ پر بیٹھ گئےادھر علم لیکر لشکر حسینی کا علمبردار چلا ۔ امام نے حکم دیا تھا ،عباس جنگ نہیں کرنی ۔ حکم امام نے غازی کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں صرف ایک تلوار لی ، حضرت عباس کو دیکھتے ھی لشکر یذید میں ہیبت پھیل گی –

حضرت عباس باوفا نے اپنی تلوار کی طاقت سےیزیدی فوجوں میں انتشار پیدا کیا اور فرات کی جانب پیش قدمی کی ایک طرف ہزاروں کی تعداد میں تازہ دم لشکر ایک
   طرف تین دن کا بھوکا پیاسہ   عباس باوفا نے اسد اللہی طاقت کا مظاہرہ کیا کہ فوج بھاگ گی ۔غازی نے فرات پر قبضہ کیا مشکیزہ بھرا ، ایک دفعہ پانی چلو میں لیا اور پھر پھینک دیا سکینہ کی علی اصغر کی پیاس یاد آئی۔مشک بھر کر کے گھوڑے پر سوارہوۓ آگے بڑھنے لگے ۔ لشکر یذیذ کو شکست کا یقین ہوگیا -چنانچہ کمیں گاہ سے تیروں کی بارش ہونے لگی پہلے دایاں ہاتھہ قلم کیا گیا پھر بایاں ہاتھہ قلم ہوا تب آپنے دانتوں سے مشک پکڑ لی - آپ ّپھر بھی بہادری سے مشک کی حفاظت کرتے ہوے   آگے بڑھتے گے یہاں تک کے ایک تیر مشک سکینہ پر لگا اور سارا پانی بہہ گیااس کے ساتھ سر پر پپیچھے سے گرز کا وار ہوا اور آپ نے مولا حسین کو آواز دی- غازی کے جسم میں اس قدر تیر ونیزے تھے کہ اب گھوڑے پر ٹکنا مشکل ہوگیا تھا۔ کوئی بھی سوار جب گھوڑے سے زین سے زمین پر آتا ہے تو اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتا ہے    غازی کی اس مصبیت کو کیسے بیان کروں حسین کا شیر زمین پر کیسے آیا

۔ امام دریا کی ترائ میں پہنچے اور ذخموں سے چور 'چور بھائ کا سر اپنے زانو پر رکھّا مولا عباس نے امام حسین  سے کہا مولا میری لاش خیمہ    میں مت لے جایئےگا میں سکینہ سے شرمندہ ہوں پھر آپ نے کہا  کہ آقا میں نے آنکھیں کھول کر سب سے پہلے آپکی زیارت کی تھی  اب دنیا سے جاتے ہوے بھی آپکی زیارت کرنا چاھتاہوں- ایک  ایک آنکھہ میں خون بھرا ہے اور دوسری آنکھ بھی زخمی ہے مولا حسین نے اپنی عبا کے دامن سے مولا عباس کی آنکھ کا لہو صاف کیااور پھر   امام اعلی مقام نے فرمایا ، اے میرے باوفا بھائی ساری زندگی ھم کو آقا کہہ کر پکارا ہے ایک بار بھائی کہہ دو۔ حضرت عباس بھی ان اولیاء الٰہی میں سے ایک ہیں جو ہر سالک الی اللہ کے لیے مشعل راہ بنتے ہیں مولا عبّاس نے بھائ کہ کر چہرہ ءامام کی زیارت کی اور آخری ہچکی کے ساتھ اور خلد بریں کو سدھار گئے 

بعد شہادت آپ کا سر مبارک بھی اور شہدا کے سروں کے ہمراہ دربار یزید میں بھیجا گیا۔  اور جسمِ مبارک کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کیا گیا۔   روضہ اقدس عراق کے شہر کربلا میں ہے جہاں پہلے ان کا جسم دفن کیا گیا اور بعد میں شام سے واپس لا کر ان کا سر دفنایا گیا۔ دریائے فرات جو ۔ غازی کے روضے سے کچھ فاصلے پر تھا اب   قبر مبارک کے اردگرد چکر لگاتا ہے۔ 

جمعہ، 28 جولائی، 2023

شہادت پسران زینب عون و محمّد

 

 

 

 

 

 روائت ہے کہ بعد از ولادت امام حسین علیہ السّلام حضرت جبرئیل امیں تشریف لائے اور جناب رسول خدا کو نومولود بچّے کی مبارکباد کے ساتھ اس کی شہادت کی سے بھی آگاہ کیا تو رسول اللہ نے بے اختیار گریہ کیا -جب بی بی سیّدہ نے آپ کے گریہ کرنے کا سبب پوچھا تب آ پ نے جبرئیل امیں کا پیغام بی بی سیدہ کو بتایا تب بی بی سلام للہ علیہ  روئیں اور پھر اپنے بابا جان سے دریافت کیا کہ جب میں آپ اور علی علیہ السّلام کوئ بھی دنیا میں نہیں ہو گا میرے بچّے کی نصرت کے لئے کون ہو گا  فرمایا کہ جب دنیا میں آپ وعلی مرتضےٰ کوئی نہ ہوں۔تو اللہ ایک قوم پیدا کرے گا جو تا قیامت تمھارے حسین پر گریہ کرے ۔یہ تمہاری نور نظر زینبؑ اپنے بھائی کی عزادار ہو گی۔اور اپنے دو جگر کے ٹکڑے حسینؑ پر قربان کرئے گی  -الغرض جب وہ زمانہ آیا اور امام ؑ مظلوم دشمنوں کے ظلم وجور سے تنگ آکر مدینہ سے کربلا پہنچے اور نرغہ کفار میں گھر گئے۔ تو آخر صبح عشرہ محرم بعد فراغت نماز ناخدائے جہاز آل نبیؑ یعنی فرزند زہراؑ وعلیؑ مع عزیز وانصار آمادہ پیکار ہوا۔

  بعد شہادت اصحاب باوفا جب عزیزان  ماہ لقا کی باری آئی ۔تو حضرت عون و محمدؑ کو جوش شجاعت نے بے تاب کیا تو جناب امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر اجازت جہاد طلب کی۔مگر آپ ادھر عون محمدؑ جناب امام حسینؑ سے رخصت پر مصر تھے۔آخر دونوں کو لیے ہوئے امام کون ومکان داخل عصمت سرائے ہوئے۔ان کے پیچھے پیچھے جناب علی اکبرؑ بھی تشریف لائے۔ حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مقدسہ جس طرح کائنات کی اعلیٰ ترین ہستی ہیں اسی طرح اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے آپ کی قربانیاں بھی سب سے اعلیٰ ہیں جیسے آپ کی قربانیاں سب سے اعلیٰ ہیں ویسے ہی آپ کے خاندان کی قربانیاں بھی سب سے اعلیٰ ہیں ۔کربلامیں معرکہ آرائی ان کی کم عمری کے باوجود بھی بے مثال اور لازوال ہے ۔ حضرت امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام جب مکۃ المکرمہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت یہ دونوں صاحبزادگان ہمراہ نہ تھے لیکن جب حضرت امام عالی مقام کا قافلہ مکہ سے ابھی تھوڑی دور ہی پہنچا تو اس وقت حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک غلام کے ہمراہ ان دونوں شہزادوں کو آپ کے پیچھے روانہ کیا

  مشہور مفسرو محدث و مؤرخ امام طبری نے اپنی تاریخ میں بایں الفاظ نقل کیا ہے : میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ آگے نہ جائیں کیونکہ میں آپ کے بارے میں اس حوالے سے انتہائی پریشان ہوں کہ آپ نے کوفہ جانے کا قصد کیا ہے تووہاں آپ کے لئے اور باقی اہل بیت کے لئے انتہائی ابتلاو تکالیف ہیں اگر خدا نخواستہ آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو روئے زمین سے نور ہدایت بجھ جائے گا ۔ آپ ہدایت یافتہ لوگوں کے پرچم ہیں اور مومنوں کے لئے امید ہیں سفر میں جلدی نہ کریں ۔ ۔ میں بھی اپنے خط کے پیچھے پہنچ رہا ہوں ۔ ان دونوں شہزادوں نے اپنے والد محترم کا یہ پیغام آپ تک پہنچادیا ۔ چنانچہ اس کے بعد گورنر مکہ سے ضمانت حاصل کرکے حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بھی آ پہنچے ۔ آپ کو مکہ میں روکنے کے لئے تمام معاملات آپ کے گوش گذار کئے تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ میں نے خواب میں نانا جان کی زیارت کی ہے اور آپ نے مجھے ایک کام کرنے کا حکم فرمایا ہے اور میں وہ کام ضرور کروں گا خواہ مجھے اس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑے ۔

 انہوں نے پوچھا کہ آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا حکم ارشاد فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں وہ حکم آپ کو جیتے جی نہیں بتا سکتا حتیٰ کہ میں اللہ تعالیٰ سے جا ملوں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں فرزند حضرت عون اور حضرت محمد علیہم السلام کو آپ کے ہمراہ روانہ کردیا اس طرح یہ دونوں شہزادگان امام عالی مقام علیہم السلام کی معیت میں کربلا تک پہنچے ۔ جب معرکہ کربلا شروع ہوا تو اس وقت امام عالی مقام کی غمگسار ہمشیرہ محترمہ حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے اپنے برادر مکرم کی خدمت میں دلگیر انداز میں بصد ادب و احترام عرض گذاری : پیارے بھائی جان اس وقت جب کہ ہم انتہائی مصائب و آلام کا شکار ہیں نانا جان نے ارشاد فرمایا تھا کہ صدقہ مصیبتوں کو ٹالتا ہے تو کیوں نہ ہم بھی صدقہ پیش کریں ؟

۔ آپ نے ارشاد فرمایا پیاری بہن اس بے سرو سامانی کے عالم میں ہم کیا پیش کرسکتے ہیں تو حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے عرض کی کہ یہ میرے دونوں شہزادے ہیں میں انہیں آپ پر صدقہ کے لئے قربان کر رہی ہوں ۔ آپ انہیں میدان جنگ میں جانے کی اجازت مرحمت فر ما دیں ۔ آپ نے تڑپ کر ارشاد فرمایا تمہارا بھائی اپنی جان بچانے کے لئے کبھی بھی اپنے بہن کے گھر کو ویران نہیں کرسکتا۔ سیدہ نے عرض کی آپ نے زندگی میں کبھی بھی میری کوئی بات نہیں ٹالی اس لئے آج بھی میری بات ضرور مان لیں میں یہ کیسے گوارہ کرسکتی ہوں کہ دشمن آپ کی شہادت کے درپے ہو اور میں اپنے بچوں کو بچاتی پھروں ۔ بہر حال آپ کے اصرار بالتکرار سے مجبور ہو کر آپ نے اشکبار آنکھوں سے اجازت مرحمت فرمادی ۔ چنانچہ حضرت عون و محمدعلیہما السلام تیار ہو کر میدان کارزار میں پہنچ گئے اور دشمن کو للکارا ۔ان دونوں نے لشکر یزید پر دائیں اور بائیں دونوں اطراف سے زوردار حملہ کر دیا ہر چند کہ عمرو بن سعد ، شمر اور دیگر کچھ لوگوں نے انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوششیں رائگاں ہو گئی کہ جب انہوں نے اپنی تمام تر قوت مجتمع کرکے ان پر حملہ کر دیا اور یوں ہاشمی شیروں نے کشتوں کے پشتے لگانے شروع کردئیے قوتِ خیبر شکن کا بھر پور اظہار ہو رہا تھا اور دشمن ان اچانک حملوں سے حیران و ششدر تھا کہ کس طرح ان بچوں کو روکا جائے جبکہ دوسری طرف یہ بچے تھے کہ بجلی کی سی سرعت کے ساتھ حملہ آور ہو رہے تھے اور دشمن گاجر مولی کی طرح کٹتے جارہے تھے ۔

چشم فلک عجیب نظارہ کر رہی تھی کہ دو بچوں کے آگے ایک تجربہ کار فوج بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگی پھر رہی تھی اور ان بچوں کے حملے تھے کہ تھمنے کانام نہیں لے رہے تھے اچانک دشمنوں نے یکبارگی حملہ کر دیا جبکہ اس دوران اکتیس دشمن ان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو چکے تھے ۔ اشقیاء میں سے عبد اللہ بن قطنہ نے حضرت عون علیہ السلام اور عامر بن نہشل تمیمی نے صاحبزادہ محمد علیہ السلام کو اپنی اپنی تلواروں کے وار سے شہید کر دیا یوں ان جان نثار بھانجوں نے اپنے پیارے ماموں جان پر اپنی اپنی جانیں نثار کرکے اپنے ننھیالوں کو حق وفاداری ادا کرکے شہیدانِ کربلا میں شامل ہوتے ہوئے ایک عظیم داستان رقم کر دی اور درجہ شہادت پر فائز ہوتے ہوئے ہمیشہ کی زندگی پاتے ہوئے جنت کی راہ لی اوراللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی رضا حاصل کر لی ۔ حضرت عون و محمد علیہم السلام نے اپنے کردار سے ثابت کردیا کہ کامیابی طاقت کے ساتھ نہیں بلکہ جرأت ایمانی کے ساتھ حاصل ہوتی ہے ۔

جمعرات، 27 جولائی، 2023

حضرت مسلم ابن عقیل ا ورکو فیو ں کے خطو ط

 

حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو  حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید بن معاویہ نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے آل رسول صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم پر حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان مظالم کی انتہا کر دی اور جس نے آپ کے خانوادے کا ساتھ دینا چاہا  اس کو بھی شہید کر دياکا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو  حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید بن معاویہ نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے آل رسول صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم پر مظالم کی انتہا کر دی اور جس نے آپ کے خانوادے کا ساتھ دینا چاہا  س ا

کوفیوں کے خطوط امام حسین کے نام سے مراد کوفیوں کے وہ خطوط ہیں جو کوفہ کے رہنے والوں نے معاویہ بن ابی سفیان کی وفات کے بعد، یزید کے تخت نشین ہونے پر فرزند رسول حضرت امام حسین کو لکھے ۔کوفہ کے بزرگوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کے بعد یہ خطوط اس وقت امام حسین کو لکھے جب آپ مکہ میں قیام پزیر تھے اور ان خطوط میں امام کو کوفہ آنے کی دعوت دی نیز ان خطوط میں اپنی مدد کی یقین دہانی کروائی۔ان خطوط کے لکھنے والوں میں سلیمان بن صرد خزاعی، حبیب بن مظاہر اور رفاعہ بن شداد جیسے کوفہ کے اشراف اور شیعہ شامل تھے۔لیکن عبید اللہ بن زیاد نے کوفہ میں آنے کے بعد کوفہ کے لوگوں پر نہایت سختی گیری کی اور کوفہ میں خوف وہراس کو پھیلا دیا جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں نے امام کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جس کے نتیجے میں واقعۂ کربلا رونما ہوا اور فرزند رسول کو ان کے اہل خانہ اور ان کے اصحاب کے ہمراہ شہید کر دیا گیا۔ انھوں نے امام حسینؑ کو خط لکھا جو کچھ یوں تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم حسین بن علی علیہما السلام کے نام، سلیمان بن صرد، مسیب بن نجبہ، رفاعہ بن شداد، حبیب بن مظاہر اور شیعیان و مؤمنین و مسلمینِ کوفہ کی طرف سے۔سلام ہو آپ پر اور ہم آپ کی طرف حمد و ثناء کرتے ہیں اس خدا کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے امّا بعد، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے مختص ہیں  جس نے اس امت پر حملہ کیا اور خلافت کو غارت کر دیا اور امت کے اموال کو غصب کر دیا اور ان کی رضا کے بغیر ان کی فرمانروائی پر قبضہ کیا، بعد ازاں اس نے اس امت کے نیک انسانوں کو قتل کر دیا اور اشرار اور برے انسانوں کو   مسلط کر دیا اور اللہ کے مال کو ظالموں اور صاحبان ثروت کے درمیان بانٹ دیا۔ پس دور رہے اللہ کی رحمت سے جس طرح کہ قوم ثمود خدا کی رحمت سے دور ہو گئی۔بے شک ہمارے اوپر کوئی امام و پیشوا نہیں ہے، پس ہماری طرف آئیں شاید اللہ آپ کے واسطے سے ہمیں حق کے گرد متحد کرلے اور نعمان بن بشیر امارت کے محل میں ہے اور ہم نہ تو جمعہ کے دن اس کے ساتھ نماز بجا لاتے ہیں اور نہ ہی عید میں اس ک

ے ساتھ باہر نکلتے ہیں؛ اور جب بھی خبر ملے کہ آپ ہماری طرف آئے ہیں تو ہم اس کو شہر سے نکال باہر کریں گے حتی کو اس کو شام کی طرف روانہ کریں۔ ان شاء اللہ۔ انھوں نے خط عبداللہ بن مسمع ہمدانی اور عبداللہ بن وائل کے ہاتھوں روانہ کیا ۔ وہ تیزرفتاری سے روانہ ہوئے حتی کہ 10 رمضان سنہ 60 ہجری کو مکہ پہنچے۔پہلے خط کے دو روز بعد اہلیان کوفہ نے قیس بن مسہر صیداوی، عبد الرحمٰن بن عبداللہ ارحبی اور عمارہ بن عبد سلولی کو امام حسینؑ کے پاس روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں تقریبا 150 خطوط ارسال کیے۔ ان خطوط میں بعض ایک ایک شخص کی طرف سے تھے اور بعض دو اور چار افراد نے مل کر لکھے تھےدوسرا خط بھجوانے کے بعد ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کو امام حسینؑ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں ایک خط ارسال کیا جس کا مضمون کچھ یوں تھا:بسم اللہ الرحمن الرحیم-یہ خط ہے حسین بن علی کے نام، آپ کے پیروکاروں کی جانب سے جو مؤمنین اور مسلمین میں سے ہیں۔ہماری طرف آئیے کیونکہ لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور سب آپ کے آنے پر متفق  ہیں، ! والسلام۔

چوتھا خط-شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، یزید بن حارث بن رویم، عروہ بن قیس، عمرو بن حجاج زبیدی اور محمد بن عمرو تیمی نے امام حسینؑ کو خط لکھا کہ اغات ہرے بھرے ہیں اور پھل پکے ہوئے ہیں، پس جب بھی ارادہ کریں ہماری طرف آجائیں کیونکہ یہاں تیار سپاہی آپ کی نصرت کے لیے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ والسلام۔کوفیوں کے قاصدین سب امام حسین ؑ کے ہاں جمع ہوئے اور آپؑ نے سب کے خطوط پڑھ لیے اور قاصدوں سے لوگوں کا حال پوچھا۔ اور پھر ایک خط لکھا اور ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ہاتھوں ـ جو کوفیوں کے آخری قاصد تھے ـ، اہل کوفہ کے لیے روانہ کیا۔ خط کا متن کچھ یوں تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم، حسین بن علی کی طرف سے مسلمین اور مؤمنین کی جماعت کے نام۔اما بعد، ہانی اور سعید تمہارے خطوط لے کر میرے پاس آئے اور یہ دو افراد تمہارے آخری ایلچی تھے جو میرے پاس آئے اور میں سمجھ گیا کہ جو کچھ تم نے بیان کیا اور جس چیز کا تم نے ذکر کیا اور تمہاری اکثریت کا بیان کہ: ہمارا کوئی امام نہیں ہے پس ہماری طرف آؤ تاکہ شاید خداوند متعال تمہارے سبب ہمیں حق کے گرد متحد کر دے۔ اب میں اپنے بھائی اور چچا زاد اور میرے خاندان کے قابل اعتماد فرد کو تمہاری جانب روانہ کررہا ہوں؛ چنانچہ، اگر وہ میرے لیے لکھے کہ تمہاری اکثریت کی رائے اور تمہارے دانا افراد اور اکابرین کی رائے مطابقت رکھتی ہے اس چيز کے ساتھ جو میں نے تمہارے خطوط میں پڑھا، بہت جلد تمہاری طرف آؤں گا۔ ان شاء اللہ۔ کیونکہ میری جان کی قسم! امام کوئی بھی نہیں ہے سوا اس فرد کے جو کتاب خدا کے مطابقت حکم کرے اور فیصلہ کرے اور عدل و انصاف کی خاطر قیام کرے اور دین حق کا پابند ہو اور اور اپنے آپ کو اللہ کے کلام اور اس کے احکام کا پابند کر دے۔ والسلام۔اس کے ساتھ اما م عالی مقام نے حضرت مسلم بن عقیل کو اپنی جانب سے سفیر کی حیثیت سے روانہ کیا تاکہ  وہ  تمام حالات سے آگاہ کریں  اور یہ  ابتداء تھی کربلا کے سانحہ کو وقوع پذیر ہونے کی 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر