اتوار، 26 مارچ، 2023

اسلامی دنیا کے نامور ریاضی دان محمّد بن موسیٰ خوارز می

 

 

، یہ وہ وقت  تھا  جب یورپ تاریک دور سے گزر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خوارزمی کے کام کو ’خطرناک‘ یا ’جادو‘ گردانا گیا تھا۔ان کا عظیم ترین کام یقیناً ان کی الجبرہ سے متعلق کتاب تھی-روائت ہے کہ خوارزمی جیسے بلند و بالا ماہر فلکیات و ماہر ریاضی کے جب یورپ کی دنیا پر جوہر کھلے تو یورپ کی دنیا نے ان کوایک  خطرنا ک ہستی قرار دیا یہ وہ وقت  تھا  جب یورپ تاریک دور سے گزر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خوارزمی کے کام کو ’خطرناک‘ یا ’جادو‘ گردانا گیا تھا۔ان کا عظیم ترین کام یقیناً ان کی الجبرہ سے متعلق کتاب تھی-

لیکن خوارزمی کو ناتو پیچھے دیکھنے کی عادت تھی نا اس کی پرواہ تھی کہ دنیا ان کو کیا کہتی ہے وہ تحقیق  کی  دنیا کے صحرا نورد تھے جوبالآخر اسی صحرا نوردی میں اپنا نام کر   گئے -ترکستان کے مشہور دریا جیحوں کے قریب خوارز م شہر میں اسلامی دنیا کے نامور ریاضی دان محمّد بن موسیٰ خوارز می پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کرنے کے بعد آپ بغداد چلے گئے اور وہاں بیتِ الحکمت کے رُکن بن گئے۔۔خوارزمی کی تحقیقات کا اصل میدان ریاضی ہے۔ ریاضی میں ان کی دو کتابیں "حساب اور جبر و مقابلہ" یعنی الجبر تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ ازمنہ وسطیٰ میں اہلِ یورپ نے جتنا ان دو کتابوں سے سیکھا اُتنا کسی سے نہیں سیکھا۔ یونانیوں اور رومیوں کے زمانہ سے اہلِ مغرب اعداد کو رومن میں لکھتے تھے. جس سے جمع،تفریق، ضرب اور تقسیم پیچدہ ہو جاتے تھے۔ موسیٰ خوارزمی کا "حساب" وہ کتاب تھی جس میں سے اہلِ مغرب نے گنتی کے طریقے کو اخذ کیا اور پھر اسے اپنی علامتوں میں تبدیل کر کے رومن طریقے کی بجائے رائج کیا۔ اور پھر اسی تبدیلی سے انہوں نے سائنس کے میدان میں انقلاب برپا کیا.. اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اہلِ مغرب خوارزمی کے کتنے بڑے احسان مند ہیں۔

۔حساب اور الجبرا کی کُتب کے علاوہ محمّد بن موسیٰ خوارزمی نے ان موضوعات پر بھی تصانیف لکھیں۔ان کا ایک رسالہ اصطزلاب پر بھی ہے۔ جس میں انہوں نی ان آلے کے بارے معلومات درج ہیں۔ ایک رسالہ "دھوپ کی گھڑی" ہے. جس میں اس گھڑی کو قائم کرنے کی تفصیلات درج ہیں۔ ایک اور رسالے میں زاویوں کے (sines) اور جیوب (Tangent) کے نقشے دئیے گئے ہیں۔ جو ٹرگنومیڑی میں ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ۔یہ کتابیں اور رسالے اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن الخوارزمی کے الجبرا کو ان سب پر فوقیت حاصل ہے۔کیوںکہ جن دیگر مو ضوعات پر اس نے قلم کے جوہر دکھاے ان پر اس سے پیش تر بھی رسالے اور کتب موجود تھیں۔لیکن الجبرا پر اس کی کتاب “الجبرا المقابلہ” اپنے موضوع کی پہلی تصنیف ہے۔خوارزمی کا الجبرا اگرچہ لاطینی میں ترجمہ ہو کر ازمنہ وسطیٰ میں یورپ میں پھیل گیا ۔مگر اس کا انگریزی ترجمہ انگریز مصنف روزن نے لندن سے ۱۸۳۱ء میں شائع کیا۔محمد بن موسیٰ کی پہلی دو تصانیف “حساب” اور “الجبرا والمقابلہ” کا حوالہ پہلے دیا جا چکا ہے۔ان کی تیسری تصنیف “زیچ خوارزمی” ہے۔جس میں ہیت اور ٹرگنومیٹری کی بہت سی جدولیں ہیں۔موسیٰخوارزمی کی چوتھی تصنیف”صوتالارض”ہے۔۱۹۲۶ءمیں ایک جرمن فاضل Hans نے اسے عربی میں شائع کیا۔اور چند برسوں بعد اس کا جرمن ترجمہ لسی شہر میں طبع ہوا۔ 

وہ خلیفہ المامون کے لیے کام کرتے تھے۔ خلیفہ مامون جو خود یونانی کتب کے عربی میں تراجم کروانے کے شیدائی اور تاریخ میں سائنسی علوم میں تحقیق اور ان کی اہمیت سمجھنے والی بڑی شخصیات میں سے ایک تھے۔الخوارزمی خلیفہ کے بنائے گئے ’بیت الحکمت‘ میں کام کرتے تھے، جو ایک ایسا ادارہ تھا جو سننے میں بالکل فرضی معلوم ہوتا ہے۔ یہ ترجمے اور سائنسی علوم میں اصلی تحقیق کا مرکز تھا اور یہاں ایک ایسے دور کے عظیم دماغ جمع ہوتے تھے جنھیں عربی سائنس کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔عربی کا لفظ یہاں اس لیے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اس دور میں اکثر کتابیں عربی زبان میں لکھی جاتی تھیں کیونکہ یہ نہ صرف سلطنت کی سرکاری زبان تھی بلکہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن بھی اسی زبان میں نازل ہوئی تھی۔

ان سائنسی کتب میں متنوع سائنسی شعبوں کا احاطہ کیا گیا تھا جس میں فلسفہ، علم طب، ریاضی، علم بصریات اور علم فلکیات وغیرہ شامل ہیں۔ اس دور کی عظیم سائنسی کامیابیوں میں سے ہم کچھ ایسے کارناموں کا ذکر کریں گے جو الخوارزمی سے براہ راست منسلک تھے۔نویں صدی کی دوسری دہائی میں خلیفہ المامون نے بغداد میں علمِ فلکیات پر تحقیق کے لیے رصدگاہیں بنوائیں۔ اس کے ایک، دو سال بعد یونانی علم فلکیات کے تنقیدی جائزے کا آغاز ہوا۔ اس دوران الخوارزمی کی سرپرستی میں متعدد محققین نے مل کر سورج اور چاند سے متعلق متعدد مشاہدے کیے۔اس دوران ایک ہی مقام پر موجود 22 ستاروں کا طول الارض اور طول البلد کا ایک ٹیبل بنایا گیا۔ المامون نے اس دوران جبل قاسیون ک ڈھلوان پر ایک اور رصدگاہ تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں سے دمشق شہر صاف دکھائی دیتا تھا۔ اس رصدگاہ کی تعمیر کا مقصد اس حوالے سے مزید اعداد و شمار اکھٹے کرنا تھا۔

اس کام کے اختتام پر الخوارزمی اور ان کے ساتھی متعدد ستاروں کی محل وقوع سے متعلق اعدادوشمار کے ٹیبل بنا چکے تھے۔

ایک اور شاندار پراجیکٹ جو ان سکالرز کی جانب سے شروع کیا گیا وہ مزید بلند نظر تھاالخوارزمی کی سرپرستی میں متعدد محققین نے مل کر سورج اورچاند سے متعلق متعدد مشاہدے کیے-یونانی ماہرِ فلکیات ٹونومی نے اپنی معروف کتاب 'دی جغرافیہ' میں دنیا بھر کے جغرافیے سے متعلق جو کچبھی موجود تھا وہ درج کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے کام کا عربی ترجمہ ہی جغرافیہ میں اسلامی دنیا کی دلچسپی کا باعث بنا۔المامون نے اپنے سکالرز کودنیا کا نیا نقشہ بنانے کی ہدایت کی کیونکہ ٹونومی کی جانب سے بنائے گئے نقشے میں اہم اسلامی شہر جیسے مکہ یا دارالحکومت بغداد شامل نہیں تھے۔

 ٹونومی کے دور میں مکہ کی اتنی اہمیت نہیں تھی اور بغداد اس وقت وجود میں ہی نہیں آیا تھا۔الخوارزمی اور ان کے ساتھیوں نے ان دو شہروں کےدرمیان فاصلے کو ناپنے کی ٹھانی۔ اس سلسلے میں انھوں نے چاند گرہن کے دوران پیمائش کی اور اعدادوشمار لیے۔انھوں نے اس قدیم دور میں اندونوں شہروں کے درمیان جو فاصلہ نکالا وہ موجودہ دور کے اعداد و شمار کے مقابلے میں دو فیصد سے بھی کم غلط تھا۔ انھوں نے پھر دیگر اہم مقاماکوہ خطوط دوبارہ جاننے کی کوشش کی جن سے ان مقامات کے مرکزی نقطے کا مقام معلوم ہو سکے۔مثال کے طور پر ان کے نقشے میں بحر اوقیانوس اور بحر ہند کو پانی کی کھلی گزرگاہوں کے طور پر دکھایا گیا نہ کہ زمین سے گھرے ہوئے سمندر، جیساکہ ٹونومی نے اپنی کتاب میں بتایا تھا۔لخوارزمی کی کتاب ’صورت الارض‘ یعنی دنیا کی تصویر کے باعث انھیں اسلام کے پہلے جغرافیہ نگار ہونے کااعزاز حاصل ہے۔ یہ کتاب 833 عیسوی میں مکمل ہوئی۔ یہ خلیفہ المامون کی وفات کا سال بھی ہے۔ اس کتاب میں 500 شہروں کے طولالارض اور طول البلد کے ٹیبل موجود تھے۔اس کتاب میں مختلف مقامات کو قصبوں، دریاؤں، پہاڑوں، سمندروں اور جزیروں میں تقسیم کیاگیا۔ ہر ٹیبل میں ان جگہوں کی ترتیب جنوب سے شمال کے حساب سے کی گئی تھی۔الخوارزمی نے دریائے نیل اور اس کے راستے کی جغرافیے کی ایک کتاب میں وضاحت پیش کیاہم یہ تمام کامیابیاں ان کی ریاضی کے شعبے میں کارناموں کے سامنے دھندلا جاتی ہیں۔ ان کی جانب سے ہندسوں و اعداد پر لکھے جانے والےمقالوں کے باعث مسلم دنیا میں نظام اعشاری (ڈیسیمل نمبر سسٹم) متعارف ہوا۔ ان کی کتاب ’الجم والتفریق بی الہند‘ کو ریاضی کے ذیلی شعبےمیں خاصی اہمیت حاصل ہے۔یہ کتاب 825 عیسوی کے قریب لکھی گئی تھی تاہم اس کا کوئی مستند عربی ترجمہ موجود نہیں ہے اور کتاب کا عنوان بھی صرف ایک اندازہ ہے۔تاہم شاید یہ اعشاری نظام پر لکھی گئی وہ پہلی کتاب تھی جس کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ اس کا آغاز لاطینی زبان میں لکھے گئے ان الفاظ سے ہوتاہے ’الخوارزمی نے کہا کہ۔۔۔

اس کتاب میں حساب سے متعلق مختلف ہدایات بتائی گئی ہیں اور یہیں سے لفظ ایلگورتھم کی اصطلاح وجود میں آئی جو دراصل الخوارزمی کو لاطینی میں بولنے کا طریقہ ہے۔

جمعہ، 24 مارچ، 2023

وہ میرے گھر میلے کپڑے دھونے آئ تھی اور میرا اجلا میاں چرا لے گئ

 


 

وہ میرے گھر میلے کپڑے دھونے آئ تھی اور میرا اجلا میاں چرا لے گئ

یہ حرف حرف سچّی کہانی میرے ماضی میں  میری آنکھوں کے سامنے رقم ہوئ جس کو میں نے  افسانہ  کا روپ دے دیا ہےفیصلہ قارئین پر ہے ،،کہانی کے کرداروں سے انصاف کیسا ہو-کہانی کا آغاز-

انیلہ کی جاب ایک نیوز ایجنسی میں رپورٹر کی تھی اس نے شہر کے ایک ریسٹورنٹ کے کچن کی لائیو رپورٹ تیّار کر کے نیوز ایجنسی کو بھیجی ،،ریسٹورینٹ کے مالک نے اس رپورٹنگ کے لئے اسے خود بلایا تھا تاکہ عوام میں اس کے ریسٹورینٹ کے مذیدارکھانوں کی اوراچھّی سروس کی پبلسٹی ہو سکے

رپورٹ تیّار کرتے ہی انیلہ کو اپنی جاب پر پہنچنا تھا وہ جیسے ہی ریسٹورینٹ سے باہر آئ ریسٹورینٹ کا مالک بھی عجلت میں اس کے پیچھے ہی چلا آیا اور اس نے انیلہ سے درخواست کی کہ وہ چند منٹ کا توقّف کر لے. اس کے ساتھ ہی ایک معقول قسم کی خاتون ریسٹورینٹ سے باہر نکل کران کے قریب آ گئیں ،،ریسٹورینٹ کے مالک نے کہا خالہ آپ ان کے ساتھ چلی جائیے یہ آ پ کو راستے میں اتار دیں گی ،انیلہ نے خاتون کو دیکھا اور سلام کر کے عزّت کے ساتھ ان کو کار میں بٹھایا ،کار جب سڑک پر رواں ہوئ تو انیلہ نے خاموشی توڑنے کے لئے خاتون سے پوچھا آ پ رہتی کہاں ہیں ،خاتون نے اپنا پتا بتایا اور پھر گویا ہوئین کہ ریسٹورینٹ کا مالک ان کا بھتیجا ہے جس کے پاس وہ کبھی کبھی ملنے آتی ہیں اب انیلہ کے تجسس نے سر ابھارا اور اس نے ان کے اپنے گھر بار کے لئے سوال و جواب کئے تو وہ خاتون جیسے دل کے پھپھو لے پھوڑنے کو تیّار ہی بیٹھی تھیں .پھر انہوں نے بتایا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے علاقے میں پانی کا قحط شروع ہوا میری اپنے سامنے گلی کے گھر سے اچھّی علیک سلیک تھی ہم اچھّا پکاتے تو ایک دوجے کو ضرور بھیجتے یہ تو میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا اعتبار بھی اپنا بھرم کھو دیتا ہے ،،بہر حال ہو یہ رہا تھا کہ گلی دو رویہ تھی ہماری جانب پانی کی فراوانی تھی دوسری جانب قحط کا سماں تھا اس گھر میں ایک کنواری لڑکی تھی جو میرے بچّو ں کا بھی خیال کرتی تھی بس وہ لڑکی میرے گھر پانی بھرنے کے لئے آنےلگی کچھ دن تو کچھ بھی نہیں محسوس ہوا لیکن ایک دن جب میرے میاں گھر پر تھے وہ آ گئ اور اس نے آ کر پوچھا کیا میں تمھارے گھر میلے کپڑے دھونے آجاوں بڑا ڈھیر جمع ہو گیا ہے میں نے بہت خلوص سے کہا ہاں ہاں آ جاو وہ کپڑوں کا ایک بڑا سا گٹھّر لے کر آ گئ اور جب کپڑے دھو کر واپس جانے لگی تو گیلے کپڑوں سے بھری بالٹی کا وزن زیادہ ہو چکا تھا ایسے میں میرے میاں نے کمرے سے نکل کر اسے دیکھا اور لپک کر اس کے ہاتھ سے گیلے کپڑوں سے بھری بالٹی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہنے لگے ارے یہ تو بہت بھاری ہے آپ کس طرح اٹھائیں گی اور پھر میرے میاں نے وہ بھری بالٹی اس کے گھر پہنچا دی -

بس اس دن کی پہلی ملاقات جانے کس طرح رنگ لائ کہ میرے میاں شا م کو زرا جلدی گھر آنے لگے اور گھر کی بالکونی میں دیر دیر تک کھڑ ے رہنے لگے پہلے پہلے تو میں اس تبدیلی کو سمجھ نہیں سکی جب سمجھ آئ تو میں بھی ایک دن میاں جی کے برابر میں جا کرکھڑی ہوگئ تو سامنے والی لڑکی گلی کے بچّوں کے ساتھ بیڈمنٹن کھیل رہی تھی ،

میرے بالکونی میں جاتے ہی میرے میاں وہاں سے ہٹ کر کمرے میں چلے گئے تھے تب میں سمجھی تھی کہ کوئ دال میں کالا ہے ،،پھر کچھ اور بھی تبدیلیاں ظاہر ہوئیں تھیں کہ میرے میاں نت نئ خوشبو کی بوتلیں لا لا کر استعمال کر نے لگے تھے نئے نئے کلر کی شرٹس بھی ےبدل بد ل کر پہننے لگے تھے جبکہ اس سے پہلے وہ کہتے تھے کہ مجھے صرف سفید رنگ ہی پسند ہے میں نے زیادہ کچھ کریدنا بہتر نہیں جانا تاکہ گھر کا ماحول پراگند ہ نا ہو لیکن ایک دن میرے بیٹے نے اپنے برابر میں کھڑے اپنے پاپا سے کہا پاپا آپ نے کاغذ کیوں نیچے پھینکا ؟ آپ ہمیں تو منع کرتے ہیں کہ گلی میں کوئ چیز ناپھینکو اور بیٹے کی بات پر میرے شوہر نے بے اختیار میری جانب دیکھا اور بیٹے کی بات ادھر ادھر کر کے اسے اپنے ساتھ وہاں سے ہٹا لے گئے،یعنی اب بالکونی سے ان کی خط و کتابت کا آغاز بھی ہو چکا تھا ،،میں نے اپنے شوہرسے کچھ سوال جواب کئےتوبس اب ہمارے گھر طوفانو ں کی آمد کی ابتداء ہو گئ ،یہی وہ وقت تھا جب میں اپنے شوہر کی محبّت جیتنے کے لئے کچھ سوچتی میں نے شوہر سے دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھان لی اور بالآخر انہوں نے کہ دیا کہ اب وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں اورشادی کا فیصلہ کر چکے ہیں اب یا تو مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیدو کہ میں اپنے شوہر کو بخوشی دوسری شادی کی اجازت دے رہی ہوں اس صورت میں ،میں تم کو تمھارا خرچہ پانی دیتا رہوں گا اور انصاف سے چلوں گا میں نے شوہر کی بات کے جواب میں خودکشی کی دھمکی دی-انہوں نے کہا اگر تم کو حرام موت مرنے کا شوق ہے تو کل کی مرتی آج مر جاوُمیری بلا سے اور کہ کر گھر سے نکل گئے اور پھر چند روز کے اندر مجھے طلاق نامہ بھیج دیا ،میں شوہر کے انتقام میں اتنی اندھی ہو چکی تھی کہ میں نے اپنے تینوں معصوم بچّوں کو رکشہ میں بٹھایا اور لے جاکر ان کی بوڑھی دادی کے منہ پر یہ کہ کر مارا کہ تمھارے بیٹے کے بچّے ہیں میں میکے سے تو لائ نہیں تھی ،میرا بڑا بیٹا سات برس کا بیچ والی بیٹی پانچ برس کی اور تیسرا بیٹا چاربرس کاتھا جب میں ان کی دادی کے گھر سے نکل رہی تھی میرا چار برس کا بیٹا میرے پیچھے روتا ہوا بھاگا تھا اور میں نے بے رحمی سے دروازہ بند کیا اور پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا 

یہ  گھرجس میں میں  رہ رہی ہوں میرے شوہر کے نام تھا   لیکن شوہر نے گھر سے بیدخل  نہیں کیا

پھرکچھ برس بعد میرے دل میِں بچّوں کی مامتا جاگی اور میں نے اسکول جاکر ملنے کی کوشش کی تو وہ بے سود ثابت ہوئ پھر بارہ برس پہلے بچّوں کی دادی کا انتقال ہوا تب مین نے ان کی دادی کے جنازے میں شرکت چاہی تو مجھے بتایا گیا کہ دادی کی و صیّت ہے کہ مجھے ان کے جنازے میں شامل نا کیا جا ئَےدادی کے مرنے کے بعد بچّون کے چچا اور چچی نے ان کی پرورش کا فریضہ انجام دیابس اس کے بعد پھر اب تو اٹھّارہ برس بیت گئے ہیں سوکن آج بھی میرے شوہر کے ساتھ خوش و خرّم زندگی گزار رہی ہے کئ بچّے ہو کر بڑے بھی  ہو چکے ہیں اورمیں جنم جلی اپنے ہاتھوں اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے پیچھے تنہا تنہا جی رہی ہوں دو برس پہلے میری بیٹی کی شادی ہوچکی ہے ،بڑے بیٹے کی منگنی اس کے چچا نے اپنی بیٹی سے کر دی ہے چھوٹا بیٹا ابھی حال میں پڑھائ سے فارغ ہوا ہے وہ بچّہ جو میرے بغیر ایک گھڑی نہیں رہتا تھا-

اسے تو اب میری شکل سے نفرت ہے اور بڑے بھائ سے کہتا ہے کہ امّی ملنے آئیں تو مجھے کمرے سے باہر نہیں بلانا ہے ،بڑے بیٹے کوکچھ خوف خدا ہے تو وہ کچھ نرم دل ہے اور مجھ سے ملنے بھی آجاتا ہے اور اپنے فلیٹ پر بھی بلا لیتا ہے اس نے شادی کرنے سے پہلے ہی اپنا زاتی فلیٹ لے لیا ہے،میں اسی فلیٹ پر جا کر اس سے مل لیتی ہوں میرے شوہر نے اپنا دوسرا گھر اپنی ماں کے قریب ہی لے لیاتھا اس طرح وہ بچّوں سے دور ہو کر بھی دور نہیں ہوئے نقصان تو صرف میں نے اٹھایا-خاتون خاموش ہو گئیں تو انیلہ نے ان سے سوال کیا کیا آپ معاشرے کی خواتین کو کوئ پیغام دینا چاہیں گی-خاتون نے کہا ہاں ضرور دوسری شادی مرد کا جائز اور اللہ کا مقّررکردہ حق ہے جبکہ وہ انصاف سے چلنے کی بات بھی کر رہا ہو اس لئے ایسی صورت میں اس کو دوسری شادی کی اجازت ضرور دے دینی چاہئے-

خاتون کی منزل آچکی تھی اور وہ اتر کر چلی گئیں اور انیلہ کو اس کی نئ کہانی کا عنوان دے گئین تھیں اور انیلہ شام کو جب تھکی ہاری واپس گھر آئ تب بستر پر لیٹ کر اسے ان خاتون کا خیال آیا اور ان کے الفاظ یاد آئے ،،،دوسری شاد ی مردکاجائز حق ہے اسے خوشی خوشی اجازت دے دینی چاہئے ورنہ مرد اپنا یہ  حق  جبریہ چھین لیتا ہے-اس سے اگلے دو دنوں میں   اس نے  کہانی  کو اجلا میاں کا عنوان دے کر مکّمل کیا   اور تھک ہار کر بستر پر چلی گئ ،بستر پر جا کر بھی اس کا دماغ   خاتون کی کہانی میں الجھا رہا اور پھرانہی سوچوں میں انیلہ کی آنکھ لگ گئ اور اس نے خواب میں دیکھا ایک پنڈال ہے جس مین ساٹھ فیصد مرد اور چالیس فیصد عورتیں کرسیوں پر براجمان ہیں اور ایک اسٹیج پر مقرّرین بیٹھے ہیں یہ تقریری مباحثہ ہے ،،شادی شدہ مرد کو دوسری شادی کی اجازت دی جائے کہ نہیں ،مباحثہ مردوں نے اپنے دلائل سے جیت لیا ہے انیلہ نے بھی اپنا ووٹ مردوں کے حق میں کاسٹ کیا ہے اور اس کے ساتھ پنڈال میں شور و ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے مرد تالیاں بجا رہے ہیں اور عورتیں کھڑی ہو کر نعرے لگا رہی ہیں-

ہمیں اپنے میا وُں کی دوسری شادی نامنظوراور اسی ہنگامہ آرائ میں انیلہ کی آنکھ کھل گئ اس نے کچھ دیر خواب کے عناصر پر غور کیا پھر اٹھ کر کمپیوٹر اون کیا اور اپنے ان باکس میں جاکر اپنی کہانی کا وہ حصّہ حذف کر دیا جس میں شادی شدہ مردوں کو دوسری شادی کی اجازت دینے کی بات تھی .

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

افسانہ نگار زائرہ عابدی

حضرت امام علی نقی علیہ السلام ولادت باسعادت اور شہادت

 

         

حضرت امام علی نقی علیہ السلام

ولادت باسعادت

آپ بتاریخ ۵/ رجب المرجب ۲۱۴ ہجری یوم سہ شنبہ بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے (نورالابصارص ۱۴۹ ،دمعہ ساکبہ ص ۱۲۰) ۔

شیخ مفیدکاکہناہے کہ مدینہ کے قریب ایک قریہ ہے جس کانام صریا ہے آپ وہاں پیداہوئے ہیں (ارشادص ۴۹۴) ۔

اسم گرامی،کنیت، اورالقاب

 آپ   کا اسم گرامی  علی-آپ کے والدماجدحضرت امام محمدتقی نے رکھا،اسے یوں سمجھنا چاہئے کہ سرورکائنات نے جواپنے بارہ جانشین اپنی ظاہری حیات کے زمانہ میں معین فرمائے تھے، ان میں سے ایک آپ کی ذات گرامی بھی تھی آپ کے والدماجدنے اسی معین اسم سے موسوم کردیا علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ چہاردہ معصومین کے اسماء لوح محفوظ میں لکھے ہوئے ہیں سرورکائنات نے اسی کے مطابق سب کے نام معین فرمائے ہیں اورہرایک کے والدنے اسی کی روشنی میں اپنے فرزندکوموسوم کیاہے (اعلام الوری ص ۲۲۵) ۔

کتاب کشف الغطاء ص ۴ میں ہے کہ آنحضرت نے سب کے نام حضرت عائشہ کولکھوادئیے تھے آپ کی کنیت ابوالحسن تھی … آپ کے القاب بہت کثیرہیں جن میں نقی،ناصح ،متوکل مرتضی اورعسکری زیادہ مشہورہیں (کشف الغمہ ص ۱۲۲ ، نورالابصار ۱۴۹ ، مطالب السؤل ص ۲۹۱) ۔

آپ کاعہدحیات اوربادشاہان وقت

آپ جب ۲۱۴ ہجری میں پیداہوئے تواس وقت بادشاہ وقت مامون رشیدعباسی تھا ۲۱۸ ہجری میں مامن رشیدنے انتقال کیااورمعتصم خلیفہ ہوا(ابوالفداء)

۲۷۲ ہجری میں واثق بن معتصم خلیفہ بنایاگیا (ابوالفداء) ۲۳۲ ہجری میں واثق کاانتقا ل ہوا اورمتوکل عباسی خلیفہ مقررکیاگیا (ابوالفداء)۔

پھر ۲۴۷ ہجری میں منتصربن متوکل اور ۲۴۸ ہجری میں مستعین اور ۲۵۲ ہجری میں زبیرابن متوکل المکنی بہ متزباللہ علی الترتیب خلیفہ بنائے گئے(ابوالفداء ،دمعہ ساکبہ ۱۲۱) ۲۵۴ ہجری میں معتزکے زہردینے سے امام علی نقی علیہ السلام شہیدہوئے (تذکرة المعصومین)۔

حضرت امام محمدتقی کاسفربغداد اورحضرت امام علی نقی کی ولیعہدی

مامون رشیدکے انتقال کے بعد معتصم باللہ خلیفہ ہواتواس نے بھی اپنے آبائی کردارکوسراہا اورخاندانی رویہ کااتباع کیا اس کے دل میں بھی آل محمدکی طرف سے وہ جذبات ابھرے جواس کے آباؤاجدادکے دلوں میں ابھرچکے تھے،اس نے بھی چاہا کہ آل محمدکو کوئی فردسطح ارض پرباقی نہ رہے ، چنانچہ اس نے تخت نشین ہوتے ہی حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کو مدینہ سے بغدادطلب کرکے نظربندکردیاامام محمدتقی علیہ السلام نے جواپنے آباؤاجدادکی طرح قیامت تک کے حالات سے واقف تھے مدینہ سے چلتے وقت اپنے فرزندکو اپناجانشین مقررکردیا اوروہ تمام تبرکات جوامام کے پاس ہواکرتے ہیں آپ نے امام علی نقی علیہ السلام کے سپردکردئیے مدینہ منورہ سے رونہ ہوکر آپ ۹/ محرم الحرام ۲۲۰ ہجری کو واردبغدادہوئے بغدادمیں آپ کو ایک سال بھی نہ گزرتھاکہ معتصم عباسی نے آپ کوبتاریخ ۲۰/ ذی قعدہ زہرسے شہید کردیا (نورالابصارص ۱۴۷) ۔

اصول کافی میں ہے کہ جب امام محمدتقی علیہ السلام کوپہلی بارمدینہ سے بغدادطلب کیاگیاتو راوی خبراسماعیل بن مہران نے آپ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کی مولا، آپ کوبلانے والے دشمن آل محمدہے کہیں ایسانہ ہوکہ ہم بے امام ہوجائیں آپ نے فرمایاکہ ہم کو علم ہے تم گھبراؤ نہیں اس سفرمیں ایسانہ ہوگا اسماعیل کابیان ہے کہ جب دوبارہ آپ کومعتصم نے بلایاتوپھرمیں حاضرہوکرعرض پردازہواکہ مولایہ سفرکیسارہے گااس سوال کاجواب آپ نے آنسوؤں کے تارسے دیا اورباچشم نم کہاکہ اے اسماعیل میرے بعدعلی نقی کواپناامام جاننا اورصبر وضبط سے کام لینا۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام کاعلم لدنی

بچپن کاواقعہ

یہ ہمارے مسلمات سے ہے کہ ہمارے آئمہ کوعلم لدنی ہوتاہے یہ خداکی بارگاہ سے علم وحکمت لے کرکامل اورمکمل دنیامیں تشریف لاتے رہے ہیں انہیں کسی سے علم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اورانہوں نے کسی دنیاوالے کے سامنے زانوئے ادب تہ نہیں فرمایا ”ذاتی علم وحکمت کے علاوہ مزیدشرف کمال کی تحصیل اپنے آباؤاجدادسے کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ انتہائی کمسنی میں بھی یہ دنیاکے بڑے بڑے عالموں کوعلمی شکست دینے میں ہمیشہ کامیاب رہے اورجب کسی نے اپنے کوان کی کسی فردسے مافوق سمجھا تووہ ذلیل ہوکررہ گیا،یاپھر سرتسلیم خم کرنے پرمجبورہوگیا۔

علامہ مسعودی کابیان ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کی وفات کے بعدامام علی نقی علیہ السلام جن کی اس وقت عمر ۷ ۔ ۶/ سال کی تھی مدینہ میں مرجع خلائق بن گئے تھے، یہ دیکھ کروہ لوگ جوآل محمدسے دلی دشمنی رکھتے تھے یہ سوچنے پرمجبورہوگئے کہ کسی طرح ان کی مرکزیت کوختم کیاجائے اورکوئی ایسامعلم ان کے ساتھ لگادیاجائے جوانہیں تعلیم بھی دے اوران کی اپنے اصول پرتربیت کرنے کے ساتھ ان کے پاس لوگوں کے پہونچنے کاسدباب کرے، یہ لوگ اسی خیال میں تھے کہ عمربن فرج رجحی فراغت حج کے بعدمدینہ پہنچا لوگوں نے اس سے عرض مدعاکی بالآخر حکومت کے دباؤسے ایساانتظام ہوگیا کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو تعلیم دینے کے لیے عراق کاسب سے بڑاعالم، ادیب عبیداللہ جنیدی معقول مشاہرہ پرلگایاگیا یہ جنیدی آل محمدکی دشمنی میں خاص شہرت رکھتاتھا۔

الغرض جنیدی کے پاس حکومت نے امام علی نقی علیہ السلام کورکھ دیااورجنیدی کوخاص طورپراس امرکی ہدایت کردی کہ ان کے پاس روافض نہ پہنچنے پائیں جنیدی نے آپ کوقصرصربامیں اپنے پاس رکھا ہوتایہ تھا کہ جب رات ہوتی تھی تودروازہ بندکردیاجاتاتھا اوردن میں بھی شیعوں کے ملنے کی اجازت نہ تھی اس طرح آپ کے ماننے والوں کی آمدکاسلسلہ منقطع ہوگیااورآپ کافیض جاری بندہوگیا لوگ آپ کی زیارت اورآپ سے استفادہ سے محروم ہوگئے ۔

راوی کابیان ہے کہ میں نے ایک دن جنیدی سے کہا غلام ہاشمی کاکیاحال ہے اس نے نہایت بری صورت بناکر کہا انہیں غلام ہاشمی نہ کہو، وہ رئیس ہاشمی ہیں ، خداکی قسم وہ اس کمسنی مین مجھ سے کہیں زیادہ علم رکھتے ہیں سنو میں اپنی پوری کوشش کے بعد جب ادب کاکوئی باب ان کے سامنے پیش کرتاہوں تو وہ اس کے متعلق ایسے ابواب کھول دیتے ہیں کہ میں حیران رہ جاتاہوں ”یظن الناس اتی اعلمہ واناواللہ اتعلم مہ“ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میں انہیں تعلیم دے رہاہوں لیکن خداکی قسم میں ان سے تعلیم حاصل کررہاہوں میرے بس میں یہ نہیں کہ میں انھیں پڑھا سکوں ”ہذاواللہ خیراہل الارض وافضل من بقاء اللہ“ خداکی قسم وہ حافظ قرآن ہی نہیں وہ اس کی تاویل وتنزیل کوبھی جانتے ہیں اورمختصر یہ ہے کہ وہ زمین پربسنے والوں میں سب سے بہتراورکائنات میں سب سے افضل ہیں (اثبات الوصیت ودمعہ ساکبہ ص ۱۲۱) ۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے کرامات اورآپ کاعلم باطن

امام علی نقی علیہ السلام تقریبا ۲۹/ سال مدینہ منورہ میں قیام پذیررہے آپنے اس مدت عمرمین کئی بادشاہوں کازمانہ دیکھا تقریبا ہرایک نے آپ کی طرف رخ کرنے سے احترازکیا یہی وجہ ہے کہ آپ امورامامت کوانجام دینے میں کامیاب رہے یعنی تبلیغ دین اورتحفظ بنائے مذہب اوررہبری ہواخواہاں میں فائزالمرام رہے آپ چونکہ اپنے آباؤاجدادکی طرح علم باطن اورعلم غیب بھی رکھتے تھے اسی لیے آپ اپنے ماننے والوں کوہونے والے واقعات سے باخبرفرمادیاکرتے تھے اورسعی فرماتے تھے کہ حتی الوسع مقدورات کے علاوہ کوئی گزند نہ پہنچنے پائے اس سلسلہ میں آپ کے کرامات بے شمارہیں جن میں سے ہم اس مقام پرکتاب کشف الغمہ سے چندکرامات تحریرکرتے ہیں۔

۱ ۔ محمدبن فرج رجحی کابیان ہے کہ حضرت امام علی نقی نے مجھے تحریرفرمایا کہ تم اپنے تمام امورومعاملات کوراست اورنظام خانہ کودرست کرلو اور اپنے اسلحوں کوسنبھال لو، میں نے ان کے حکم کے بموجب تمام درست کرلیا لیکن یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ حکم آپ نے کیوں دیاہے لیکن چنددنوں کے بعد مصرکی پولیس میرے یہاں آئی اورمجھے گرفتارکرکے لے گئی اورمیرے پاس جوکچھ تھا سب لے لیا اورمجھے قیدخانہ میں بندکردیا میں آٹھ سال اس قیدخانہ میں پڑارہا، ایک دن امام علیہ السلام کاخط پہنچا، جس میں مرقوم تھا کہ اے محمدبن فرج تم اس ناحیہ کی طرف نہ جانا جومغرب کی طرف واقع ہے خط پاتے ہی میری حیرانی کی کوئی حدنہ رہی میں سوچتارہا کہ میں توقیدخانہ میں ہوں میراتوادھرجاناممکن ہی نہیں پھرامام نے کیوں یہ کچھ تحریرفرمایا آپ کے خط آنے کوابھی دوچاریوم ہی گذرے تھے کہ میری رہائی کاحکم آگیا اورمیں ان کے حسب الحکم مقام ممنوع کی طرف نہیں گیا قیدخانہ سے رہائی کے بعدمیں نے امام علیہ السلام کولکھا کہ حضورمیں قیدسے چھوٹ کرگھرآگیاہوں، اب آپ خداسے دعاء فرمائیں کہ میرامال مغصوبہ واپس کرادے آپ نے اس کے جواب میں تحریرفرمایاکہ عنقریب تمہاراسارامال تمہیں واپس مل جائے گا چنانچہ ایساہی ہوا۔

۲ ۔ ایک دن امام علی نقی علیہ السلام اورعلی بن حصیب نامی شخص دونوں ساتھ ہی راستہ چل رہے تھے علی بن حصیب آپ سے چندگآم آگے بڑھ کرلولے آپ بھی قدم بڑھاکرجلدآجائیے حضرت نے فرمایاکہ اے ابن حصیب ”تمہیں پہلے جاناہے“ تم جاؤ اس واقعہ کے چاریوم بعدابن حصیب فوت ہوگئے۔ ۔ ایک شخص محمدبن فضل بغدادی کابیان ہے کہ میں نے حضرت امام علی نقی علیہ السلام کولکھا کہ میرے پاس ایک دکان ہے میں اسے بیچنا چاہتاہوں آپ نے اس کاکوئی جواب نہ دیا جواب نہ ملنے پرمجھے افسوس ہوا لیکن جب میں بغداد واپس پہنچا تووہ آگ لگ جانے کی وجہ سے جل چکی تھی۔

۴ ۔ ایک شخص ابوایوب نامی نے امام علیہ السلام کولکھاکہ میری زوجہ حاملہ ہے، آپ دعا فرمائیے کہ لڑکاپیداہو،آپ نے فرمایاانشاء اللہ اس کے لڑکاہی پیداہوگا اورجب پیداہوتو اس کانام محمدرکھنا چنانچہ لڑکاہی پیداہوا، اوراس کانام محمدرکھاگیا۔

۵ ۔ یحی بن زکریاکابیان ہے کہ میں نے امام علی نقی علیہ السلام کولکھاکہ میری بیوی حاملہ ہے آپ دعافرمائیں کہ لڑکاپیداہوآپ نے جواب میں تحریرفرمایا، کہ بعض لڑکیاں لڑکوں سے بہترہوتی ہیں، چنانچہ لڑکی پیداہوئی۔

عہدواثق کاایک واقعہ

۶ ۔ ابوہاشم کابیان ہے کہ میں ۲۲۷ ہجری میں ایک دن حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضرتھا کہ کسی نے آکرکہاکہ ترکوں کی فوج گذررہی ہے امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ائے ابوہاشم چلوان سے ملاقات کریں میںحضرت کے ہمراہ ہوکرلشکریوں تک پہنچا حضرت نے ایک غلام ترکی سے اس کی زبان میں گفتگوشروع فرمائی اوردیرتک باتیں کرتے رہے اس ترکی سپاہی نے آپ کے قدموں کابوسہ دیا میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کونسی چیزہے جس نے تجھے امام کاگرویدہ بنادیاہے اس نے کہاامام نے مجھے اس نام سے پکاراجس کاجاننے والا میرے باپ کے علاوہ کوئی نہ تھا۔

تہترزبانوں کی تعلیم

۷ ۔ ابوہاشم کہتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت کی خدمت میں حاضرہواتوآپ نے مجھ سے ہندی زبان میں گفتگوکی جس کامیں جواب نہ دے سکا توآپ نے فرمایاکہ میں تمہیں ابھی ابھی تمام زبانوں کاجاننے والابتائے دیتا ہوں یہ کہہ کرآپ نے ایک سنگریزہ اٹھایا اوراسے اپنے منہ میں رکھ لیا اس کے بعداس سنگریزہ کومجھے دیتے ہوئے فرمایاکہ اسے چوسو، میں نے منہ میں رکھ کراسے اچھی طرح چوسا، اس کانتیجہ یہ ہواکہ میں تہترزبانوں کاعالم بن گیا جن میں ہندی بھی شامل تھی اس کے بعدسے پھرمجھے کسی زبان کے سمجھنے اوربولنے میں دقت نہ ہوئی ص ۱۲۲ تا ۱۲۵

امام علی نقی کے ہاتھوں میں ریت کی قلب ماہیت

۸ ۔ آئمہ طاہرین کے اولوالامرہونے پرقرآن مجیدکی نص صریح موجودہے ان کے ہاتھوں اورزبان میں خداوند جوارادہ کریں اس کی تکمیل ہوجائے جوحکم دیں اس کی تعمیل ہوجائے ابوہاشم کابیان ہے کہ ایک دن میں نے امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں اپنی تنگ دستی کی شکایت کی آپ نے فرمایابڑی معمولی بات ہے تمہاری تکلیف دورہوجائے گی اس کے بعدآپ نے رمل یعنی ریت کی ایک مٹھی زمین سے اٹھاکرمیرے دامن میں ڈال دی اورفرمایااسے غورسے دیکھو اوراسے فروخت کرکے کام نکالو ابوہاشم کہتے ہیں کہ خداکی قسم جب میں نے اسے دیکھاتووہ بہترین سونا تھا، میں نے اسے بازارلے جاکرفروخت کردیا(مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱۹) ۔

امام علی نقی اوراسم اعظم

۹ ۔ حضرت ثقة الاسلام علامہ کلینی اصول کافی میں لکھتے ہیں کہ امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا اسم اللہ الاعظم ۷۳/ حروف میں ان میں سے صرف ایک حرف آصف برخیا وصی سلیمان کودیاگیاتھا جس کے ذریعہ سے انہوں نے چشم ردن میں ملک سباسے تخت بلقیس منگوالیاتھا اوراس منگوانے میں ہوایہ تھا کہ زمین سمٹ کرتخت کوقریب لے آئی تھی، اے نوفلی(راوی) خداوندعالم نے ہمیں اسم عظم کے بہترحروف دئیے ہیں اوراپنے لیے صرف ایک حرف محفوظ رکھاہے جوعلم غیب سے متعلق ہے مسعودی کاکہناکاہے کہ اس کے بعدامام نے فرمایاکہ خداونداعالم نے اپنی قدرت اوراپنے اذن وعلم سے ہمیں وہ چیزیں عطاکی ہیں جوحیرت انگیزاورتعجب خیزہیں مطلب یہ ہے کہ امام جوچاہیں کرسکتے ہیں ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہوسکتی(اصول کافی،مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱۸ ، دمعہ ساکبہ ص ۱۲۶) ۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام اورصیحفہ کاملہ کی ایک دعا

حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے ایک صحابی سبع بن حمزہ قمی نے آپ کوتحریرکیاکہ مولامجھے خلیفہ معتصم کے وزیرسے بہت دکھ پہنچ رہاہے مجھے اس کابھی اندیشہ ہے کہ کہیں وہ میری جان نہ لے لے حضرت نے اس کے جواب میں تحریرفرمایا کہ گھبراؤ نہیں اوردعائے ”صحیفہ کاملہ“ یامن تحل بہ عقدالمکارہ الخ پڑھو مصیبت سے نجات پاؤگے۔

یسع بن حمزہ کابیان ہے کہ میں نے امام کے حسب الحکم نمازصبح کے بعداس دعاکی تلاوت کی جس کاپہلے ہی دن یہ نتیجہ نکلاکہ وزیر خودمیرے پاس آیا مجھے اپنے ہمراہ لے گیا اورلباس فاخرہ پہناکرمجھے بادشاہ کے پہلومیں بٹھادیا۔

حکومت کی طرف سے امام علی نقی کی مدینہ سے سامرہ میں طلبی اور راستہ کاایک اہم واقعہ

متوکل ۲۳۲ ہجری میں خلیفہ ہوا اوراس نے ۲۳۶ ہجری میں امام حسین علیہ السلام کی قبرکے ساتھ پہلی باربے ادبی کی، لیکن اس میں پوری کامیابی نہ حاصل ہونے پراپنے فطری بغض کی وجہ سے جوآل محمدکے ساتھ تھا وہ حضرت علی نقی علیہ السلام کے طرف متوجہ ہوا متوکل ۲۴۳ ہجری میں امام علی نقی کوستانے کی طرف متوجہ ہوا، اوراس نے حاکم مدینہ عبداللہ بن محمدکوخفیہ حکم دے کربھیجا کہ فرزندرسول امام علی نقی کوستانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے چنانچہ اس نے حکومت کے منشاء کے مطابق پوری توجہ اورپورے انہماک کے ساتھ اپنا کام شروع کردیا خودجس قدرستاسکا اس نے ستایا اورآپ کے خلاف ریکارڈ کے لیے متوکل کوشکایات بھیجنی شروع کیں۔

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ امام علی نقی علیہ السلام کویہ معلوم ہوگیاکہ حاکم مدینہ نے آپ کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کردی ہیں اوراس سلسلہ میں اس نے متوکل کوآپ کی شکایات بھیجنی شروع کردی ہیں توآپ نے بھی ایک تفصیلی خط لکھا جس میں حاکم مدینہ کی بے اعتدالی اورظلم آفرینی کاخاص طورسے ذکرکیا متوکل نے آپ کا خط پڑھ کرآپ کواس کے جواب میں لکھاکہ آپ ہمارے پاس چلے آئیے اس میں حاکم مدینہ کے عمل کی معذرت بھی تھی، یعنی جوکچھ وہ کررہاہے اچھانہیں کرتا ہم اس کی طرف سے معذرت خواہ ہیں مطلب یہ تھا کہ اسی بہانہ سے انہیں سامرہ بلالے خط میں اس نے اتنانرم لہجہ اختیارکیاتھا جوایک بادشاہ کی طرف سے نہیں ہواکرتا یہ سب حیلہ سازی تھی اورغرض محض یہ تھی کہ آپ مدینہ چھوڑکرسامرہ پہنچ جائیں (نورالابصارص ۱۴۹) ۔

علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ متوکل نے یہ بھی لکھاتھا کہ میں آپ کی خاطرسے عبداللہ ابن محمدکومعزول کرکے اس کی جگہ پرمحمدبن فضل کومقررکررہاہوں (جلاء العیون ص ۲۹۲) ۔

علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ متوکل نے صرف یہ نہیں کیا کہ علی نقی علیہ السلام کوخط لکھا ہوکہ آپ سامرہ چلے آئیے بلکہ اس نے تین سوکا لشکریحی بن ہرثمہ کی قیادت میں مدینہ بھیج کرانہیں بلاناچاہا، یحی بن ہرثمہ کابیان ہے کہ میں حکم متوکل پاکرامام علیہ السلام کولانے کے لیے بہ ارادہ مدینہ منورہ روانہ ہوگیا میرے ہمراہ تین سوکالشکرتھا اوراس میں ایک کاتب بھی تھاجوامامیہ مذہب رکھتاتھا ہم لوگ اپنے راستہ پر جارہے تھے اوراس سعی میں تھے کہ کسی طرح جلدسے جلدمدینہ پہنچ کرامام علیہ السلام کولے آئیں اورمتوکل کے سامنے پیش کریں ہمارے ہمراہ جوایک شیعہ کاتب تھا اس سے ایک لشکرکے افسرسے راستہ بھرمذہبی مناظرہ ہوتارہا۔

یہاں تک کہ ہم لوگ ایک عظیم الشان وادی میں پہنچے جس کے اردگرد میلوں کوئی آبادی نہ تھی اوروہ ایسی جگہ تھی جہاں سے انسان کامشکل سے گزرہوتاتھا بالکل جنگل اوربے آب وگیاہ صحراتھا جب ہمارے لشکروہاں پہنچاتواس افسرنے جس کانام ”شادی“ تھا، اورجوکاتب سے مناظرہ کرتاچلاآرہاتھا کہنے لگااے کاتب تمہارے امام حضرت علی کایہ قول ہے کہ دنیاکی کوئی ایسی وادی نہ ہوگی جس میں قبرنہ ہویاعنقریب قبرنہ بن جائے کاتب نے کہا بے شک ہمارے امام علیہ السلام غالب کل غالب کایہی ارشادہے اس نے کہابتاؤاس زمین پرکس کی قبرہے یاکس کی قبربن سکتی ہے تمہارے امام یونہی کہہ دیاکرتے ہیں ابن ہرثمہ کاکہنا ہے کہ میں چونکہ حشوی خیال کاتھا لہذاجب یہ باتیں ہم نے سنیں توہم سب ہنس پڑے اورکاتب شرمندہ ہوگیاغرض کہ لشکربڑھتارہااوراسی دن مدینہ پہنچ گیا واردمدینہ ہونے کے بعد میں نے متوکل کاخط امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا امام علیہ السلام نے اسے ملاحظہ فرماکرلشکرپرنظرڈالی اورسمجھ گئے کہ دال میں کچھ کالاہے آپ نے فرمایااے ابن ہرثمہ چلنے کوتیارہوں لیکن ایک دوروزکی مہلت ضروری ہے میں نے عرض کی حضور”خوشی سے“ جب حکم فرمائیں میں حاضرہوجاؤں اورروانگی ہوجائے ۔

ابن ہرثمہ کابیان ہے کہ امام علیہ السلام نے میرے سامنے ملازمین سے کہاکہ درزی بلادواوراس سے کہوکہ مجھے سامرہ جاناہے لہذا راستے کے لیے گرم کپڑے اورگرم ٹوپیاں جلدسے جلدتیارکردے میں وہاں سے رخصت ہوکراپنے قیام گاہ پرپہنچااورراستے بھریہ سوچتارہاکہ امامیہ کیسے بیوقوف ہیں کہ ایک شخص کوامام مانتے ہیں جسے (معاذاللہ) یہ تک تمیزنہیں ہے کہ یہ گرمی کازمانہ ہے یاجاڑے کا، اتنی شدیدگرمی میں جاڑے کے کپڑے سلوارہے ہیں اوراسے ہمراہ لے جانا چاہتے ہیں الغرض میں دوسرے دن ان کی خدمت میں حاضرہواتودیکھا کہ جاڑے کے بہت سے کپڑے سلے ہوئے رکھے ہیں اورآپ سامان سفر درست فرمارہے ہیں اوراپنے ملازمین سے کہتے جاتے ہیں دیکھوکلاہ بارانی اوربرساتی وغیرہ رہنے نہ پائے سب ساتھ میں باندھ دو، اس کے بعدمجھے کہااے یحی بن ہرثمہ جاؤتم بھی اپناسامان درست کروتاکہ مناسب وقت میں روانگی ہوجائے میں وہاں سے نہایت بددل واپس آیا دل میں سوچتاتھا کہ انہیں کیاہوگیاہے کہ اس شدیدگرمی کے زمانہ میں سردی اوربرسات کاسامان ہمراہ لے رہے ہیں اورمجھے بھی حکم دیتے ہیں کہ تم بھی اس قسم کے سامان ہمراہ لے لو۔

مختصریہ کہ سامان سفردرست ہوگیااورروانگی ہوگئی میرالشکرامام علیہ السلام کوگھیرے میں لیے ہوئے جارہاتھا کہ ناگاہ اسی وادی میں جاپہنچے، جس کے متعلق کاتب امامیہ اورافسرشادی میں یہ گفتگوہوئی تھی کہ یہاں پرکس کی قبرہے یاہوگی اس وادی میں پہنچناتھا کہ قیامت آگئی، بادل گرجنے لگے،بجلی چمکنے لگی اوردوپہرکے وقت اس قدرتاریکی چھائی کہ ایک دوسرے کودیکھ نہ سکتاتھا ، یہاں تک کہ بارش ہوئی اورایسی موسلادھاربارش ہوئی کہ عمربھرنہ دیکھی تھی امام علیہ السلام نے آثارپیداہوتے ہی ملازمین کوحکم دیاکہ برساتی اوربارانی ٹوپیاں پہن لو اورایک برساتی یحی بن ہرثمہ اورایک کاتب کودیدو غرض کہ خوب بارش ہوئی اورہوااتنی ٹھنڈی چلی کہ جان کے لالے پڑگئے جب بارش تھمی اوربادل چھٹے تو میں نے دیکھاکہ ۸۰/ افرادمیری فوج کے ہلاک ہوگئے ہیں ۔

امام علیہ السلام نے فرمایاکہ اے یحی بن ہرثمہ اپنے مردوں کودفن کردو اوریہ جان لو کہ ”خدائے تعالی ہم چنین پرمی گرواندبقاع راازقبور“ اس طرح خداوندعالم نے ہربقعہ ارض کو قبروں سے پرکرتاہے اسی لیے میرے جدنامدارحضرت علی علیہ السلام نے فرمایاکہ زمین کاکوئی ٹکڑاایسانہ ہوگا جس میں قبرنہ بنی ہو

”یہ سن کرمیں اپنے گھوڑے سے اترپڑااورامام علیہ السلام کے قریب جاکرپابوس ہوا،اوران کی خدمت میں عرض کی مولامیں آج آپ کے سامنے مسلمان ہوتاہوں، یہ کہہ کرمیں نے اس طرح کلمہ پڑھا ”اشہدان لاالہ الااللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ وانکم خلفاء اللہ فی ارضہ “ اوریقین کرلیاکہ یہی حضرت خداکی زمین پرخلیفہ ہیں اوردل میں سوچنے لگاکہ اگرامام علیہ السلام نے جاڑے اوربرسات کاسامان نہ لیاہوتااوراگرمجھے نہ دیاہوتا تومیرا کیاحشرہوتاپھروہاں سے روانہ ہوکر ”عسکر“ پہنچا اورآپ کی امامت کاقائل رہ کرزندہ رہا اورتاحیات آپ کے جدنامدارکاکلمہ پڑھتارہا (کشف الغمہ ص ۱۲۴) ۔

علامہ جامی اورعلامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ دوسوسے زائدافرادآپ کے اپنے گھیرے میں لیے ہوئے سامرہ پہنچے وہاں آپ کے قیام کا کوئی انتظام نہیں کیاگیاتھا اورحکم تھا متوکل کاکہ انہیں فقیروں کے ٹہرانے کی جگہ اتاراجائے چنانچہ آپ کوخان الصعالیک میں اتارگیا وہ جگہ بدترین تھی وہاں شرفاء نہیں جایاکرتے تھے ایک دن صالح بن سعیدنامی ایک شخص جوآپ کے ماننے والے تھے آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اورکہنے لگے مولایہ لوگ آب کی قدرومنزلت پرپردہ ڈالنے اورنورخداکوچھپانے کی کس قدرکوشش کرتے ہیں کجاحضورکی ذات اقدس اورکجایہ قیام گاہ حضرت نے فرمایاائے صالح تم دل تنگ نہ ہو۔میں اس کی عزت افزائی کاخواہاں اوران کی کرم گستری کاجویاں نہیں ہوں خداوندعالم نے آل محمدکوجودرجہ دیاہے اورجومقام عطافرمایاہے اسے کوئی چھین نہیں سکتا اے صالح بن سعید میں تمہیں خوش کرنے کے لیے بتاناچاہتاہوں کہ تم مجھے اس مقام پردیکھ کرپریشان نہ ہوخداوندعالم نے یہاں بھی میرے لیے بہشت جیسا بندوبست فرمایاہے یہ کہہ کرآپ نے انگلی سے اشارہ کیااورصالح کی نظرمیں بہترین باغ بہترین قصوراوربہترین نہریں وغیرہ نظرآنے لگیں صالح کابیان ہے کہ یہ دیکھ کرمجھے قدرے تسلی ہوگئی (شواہدالنبوت ص ۲۰۸ ، نورالابصارص ۱۵۰) ۔

امام علی نقی علیہ السلام کی نظربندی

امام علی نقی علیہ السلام کودھوکہ سے بلانے کے بعدپہلے توخان الصعالیک میں پھر اس کے بعد ایک دوسرے مقام میں آپ کونظربندکردیا اورتاحیات اسی میں قیدرکھا امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ متوکل آپ کے ساتھ ظاہرداری ضرورکرتاتھا، لیکن آپ کاسخت دشمن تھا اس نے حیلہ سازی اوردھوکہ بازی سے آپ کوبلایا اوردر پردہ ستانے اورتباہ کرنے اورمصیبتوں میں مبتلاکرنے کے درپے رہا (نورالابصار ص ۱۵۰) ۔

علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ متوکل نے آپ کوجبرا بلاکرسامرہ میں نظربندکردیا اورتازندگی باہرنہ نکلنے دیا (صواعق محرقہ ص ۱۲۴) ۔

امام علی نقی علیہ السلام کا جذبہ ہمدردی

مدینہ سے سامرہ پہنچنے کے بعد بھی آپ کے پاس لوگوں کی آمدکاتانتا بندھارہا لوگ آپ سے فائدے اٹھاتے اوردینی اوردنیاوی امورمیں آپ سے مدد چاہتے رہے اورآپ حل مشکل میں ان کے کام آتے رہے علمائے اسلام لکھتے ہیں کہ سامرہ پہنچنے کے بعدجب آپ کی نظر بندی میں سختی اورشدت نہ تھی ایک دن آپ سامرہ کے ایک قریہ میں تشریف لے گئے آپ کے جانے کے بعدایک سائل آپ کے مکان پرآیا، اسے یہ معلوم ہوا کہ آپ فلاں گاوں میں تشریف لے گئے ہیں، وہ وہاں چلاگیا اورجاکرآپ سے ملا، آپ نے پوچھا کہ تم کیسے آئے ہو تمہاراکیاکام ہے؟

اس نے عرض کی مولامیں غریب آدمی ہوں، مجھ پردس ہزاردرہم قرض ہوگیاہے اوراس کی ادائیگی کی کوئی سبیل نہیں، مولا خداکے لیے مجھے اس بلاسے نجات دلائیے حضرت نے فرمایاگھبراؤنہیں ،انشاء اللہ تمہاراقرضہ کی ادائیگی کابندوبست ہوجائے گا وہ سائل رات کو آپ کے ہمراہ مقیم رہاصبح کے وقت آپ نے اس سے کہاکہ میںتمہیں جوکہوں اس کی تعمیل کرنا اوردیکھو اس امرمیں ذرا بھی مخالفت نہ کرنا اس نے تعمیل ارشادکاوعدہ کیا آپ نے اسے ایک خط لکھ کردیا جس میں یہ مرقوم تھا کہ ”میں دس ہزاردرہم اس کے اداکردوں گا“اورفرمایاکہ کل میں سامرہ پہنچ جاؤں گا جس وقت میں وہاں کے بڑے بڑے لوگوں کے درمیان بیٹھاہوں توتم مجھ سے روپے کاتقاضاکرنا اس نے عرض کی حضوریہ کیوں کرہوسکتاہے کہ میں لوگوں میں آپ کی توہین کروں حضرت نے فرمایاکوئی حرج نہیں، میں تم سے جوکہوں وہ کرو غرض کہ سائل چلاگیا اورجب آپ سامرہ واپس ہوئے اورلوگوں کوآپ کی واپسی کی اطلاع ملی تواعیان شہرآپ سے ملنے آئے جس وقت آپ لوگوں سے محوملاقات تھے سائل مذکوربھی پہنچ گیا سائل نے ہدایت کے مطابق آپ سے رقم کاتقاضہ کیا آپ نے بہت نرمی سے اسے ٹالنے کی کوشش کی، لیکن وہ نہ ٹلا اوربدستوررقم مانگتارہا بالاخرحضرت نے اس سے تین میں ادائیگی کاوعدہ فرمایا اوروہ چلاگیا یہ خبرجب بادشاہ وقت کوپہنچی تواس نے مبلغ تیس ہزاردرہم آپ کی خدمت میں بھیج دئیے، تیسرے دن جب سائل آیاتو آپ نے اسے فرمایاکہ تیس ہزاردرہم لے لے اوراپنی راہ لگ اس نے عرض کی مولامیرا قرضہ توصرف دس ہزارہے آپ تیس ہزاردے رہے ہیں آپ نے فرمایا جوقرضہ کی ادائیگی سے بچے اسے اپنے بچوں پرصرف کرنا وہ بہت خوش ہوا اوریہ پڑھتاہوا ”اللہ یعلم حیث یجعل رسالتہ“ خداہی خوب جانتاہے کہ رسالت وامامت کاکون اہل ہے) اپنے گھرچلاگیا (نورالابصارص ۱۴۹ ، صواعق محرقہ، ۱۲۳ ، شواہدالنبوت ص ۲۰۷ ، ارجح المطالب ص ۴۶۱) ۔

امام علی نقی کی حالت سامرہ پہنچنے کے بعد

متوکل کی نیت خراب تھی ہی امام علیہ السلام کے سامرہ پہنچنے کے بعداس نے اپنی نیت کامظاہرعمل سے شروع کیا اورآپ کے ساتھ نامناسب طریقہ سے دل کابخارنکالنے کی طرف متوجہ ہوا لیکن اللہ جس کی لاٹھی میں آوازنہیں اس نے اسے کیفرکردارتک پہنچادیا مگراس کی زندگی میں بھی ایسے آثاراوراثرات ظاہرکئے جس سے وہ یہ بھی جان لے کہ وہ جوکچھ کررہاتھا خداونداسے پسندنہیں کرتا مورخ اعظم لکھتے ہیں کہ متوکل کے زمانے میں بڑی آفتیں نازل ہوئیں بہت سے علاقوں میں زلزلے آئے زمینیں دھنس گئیں آگیں لگیں، آسمان سے ہولناک آوازیں سنائی دیں، بادسموم سے بہت سے جانوراورآدمی ہلاک ہوئے ، آسمان سے مثل ٹڈی کے کثرت سے ستارے ٹوٹے دس دس رطل کے پتھرآسمان سے برسے، رمضان ۲۴۳ ہجری میں حلب میں ایک پرندہ کوے سے بڑاآکربیٹھا اوریہ شورمچایا ”یاایہاالناس اتقواللہ اللہ اللہ “ چالیس دفعہ یہ آوازلگاکر اڑگیا دودن ایساہی ہوا (تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۶۵)

حضرت امام علی نقی اورسواری کی برق رفتاری

علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے مدینہ سے سامرہ تشریف لے جانے کے بعد ایک دن ابوہاشم نے کہا مولامیرا دل نہیں مانتا کہ میں ایک دن بھی آپ کی زیارت سے محروم رہوں ، بلکہ جی چاہتاہے کہ ہرروز آپ کی خدمت میں حاضرہواکروں حضرت نے پوچھا اس کے لیے تمہیں کونسی رکاوٹ ہے انہوں نے عرض کی میراقیام بغدادہے اورمیری سواری کمزورہے حضرت نے فرمایا”جاو“ اب تمہاری سواری کاجانور طاقتورہوجائے گا اوراس کی رفتاربہت تیزہوجائے گی ابوہاشم کابیان ہے کہ حضرت کے اس ارشادکے بعدسے ایساہوگیاکہ میں روزانہ نمازصبح بغدادمیں نمازظہرسامرہ عسکرمیں اورنمازمغرب بغدادمیں پڑھنے لگا (اعلام الوری ص ۲۰۸) ۔

دوماہ قبل عزل قاضی کی خبر

علامہ جامی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ سے آپ کے ایک ماننے والے نے اپنی تکلیف بیان کرتے ہوئے بغدادکے قاضی شہر کی شکایت کی اورکہاکہ مولاوہ بڑا ظالم ہے ہم لوگوں کو بے حد ستاتاہے آپ نے فرمایا گھبراونہیں دوماہ بعد بغدادمیں نہ رہے گا راوی کابیان ہے کہ جونہی دوماہ پورے ہوئے قاضی اپنے منصب سے معزول ہوکراپنے گھربیٹھ گیا (شواہدالنبوت)۔

آپ کااحترام جانوروں کی نظرمیں

علامہ موصوف یہ بھی لکھتے ہیں کہ متوکل کے مکان میں بہت سی بطخیں پلی ہوئی تھیں جب کوئی وہاں جاتاتووہ اتناشورمچایاکرتی تھیں کہ کان پڑی آوازسنائی نہ دیتی تھی لیکن جب امام علیہ السلام تشریف لے جاتے تھے تووہ سب خاموش ہوجاتی تھیں اورجب تک آپ وہاں تشریف رکھتے تھے وہ چپ رہتی تھیں (شواہدالنبوت)۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام اورخواب کی عملی تعبیر

احمدبن عیسی الکاتب کابیان ہے کہ میں نے ایک شب خواب میں دیکھا کہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرماہیں اورمیں ان کی خدمت میں حاضرہوں، حضرت نے میری طرف نظراٹھاکردیکھا اوراپنے دست مبارک سے ایک مٹھی خرمہ اس طشت سے عطافرمایا جوآپ کے سامنے رکھاہواتھا میں نے انہیں گناتووہ پچس تھے اس خواب کوابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ مجھے معلوم ہواکہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام سامرہ سے تشریف لائے ہیں میں ان کی زیارت کے لیے حاضرہوا تومیں نے دیکھا کہ ان کے سامنے ایک طشت رکھا ہے جس میں خرمے ہیں میں نے حضرت امام علی نقی علیہ السلام کوسلام کیا حضرت نے جواب سلام دینے کے بعد ایک مٹھی خرمہ مجھے عطافرمایا ، میں نے ان خرموں کوشمارکیا تووہ پچیس تھے میں نے عرض کی مولاکیا کچھ خرمہ اورمل سکتاہے جواب میں فرمایا! اگرخواب میں تمہیں رسول خدانے اس سے زیادہ دیاہوتاتومیں بھی اضافہ کردیتا (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۲۴) ۔

اسی قسم کا واقعہ امام جعفرصادق علیہ السلام اورامام علی رضاعلیہ السلام کے لیے بھی گزراہے۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام اورفقہائے مسلمین

یہ تومانی ہوئی بات ہے کہ آل محمدوہ ہیں جن کے گھرمیں قرآن مجیدنازل ہوا ان سے بہترنہ قرآن کاسمجھنے والاہے، نہ اس کی تفسیرجاننے والا، علماء کابیان ہے کہ جب متوکل کوزہردیاگیا تواس نے یہ نذرمانی کہ ”اگرمیں اچھاہوگیاتوراہ خدامیں مال کثیردوں گا“ پھرصحت پانے کے بعد اس نے اپنے علماء اسلام کوجمع کیااوران سے واقعہ بیان کرکے مال کثیرکی تفصیل معلوم کرناچاہی اس کے جواب میں ہرایک نے علیحدہ علیحدہ بیان دیا ایک فقیہ نے کہا مال کثیرسے ایک ہزاردرہم دوسرے فقیہ نے کہا دس ہزاردرہم ،تیسرے نے کہاایک لاکھ درہم مرادلینا چاہئے متوکل ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ ایک دربان سامنے آیا جس کانام ”حسن“ تھا عرض کرنے لگا کہ حضوراگرمجھے حکم ہواتومیں اس کاصحیح جواب لادوں متوکل نے کہابہترہے جواب لاو اگرتم صحیح جواب لائے تو دس ہزاردرہم تم کوانعام دوں گا اوراگرتسلی بخش جواب نہ لاسکے توسوکوڑے ماروں گا اس نے کہامجھے منظورہے اس کے بعد دربان حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں گیا امام علیہ السلام جونظربندی کی زندگی بسرکررہے تھے دربان کودیکھ کربولے اچھامال کثیرکی تفصیل پوچھنے آیاہے جا اورمتوکل سے کہہ دے مال کثیرسے اسی درہم مرادہے دربان نے متوکل سے یہی کہہ دیا متوکل نے کہا جاکردلیل معلوم کر ،وہ واپس آیا حضرت نے فرمایا کہ قرآن مجیدمیں آنحضرت علیہ السلام کے لیے آیا ہے ہ ”لقدنصرکم اللہ فی مواطن کثیرة“ اے رسول اللہ نے تمہاری مددمواطن کثیرہ یعنی بہت سے مقامات پرکی ہے جب ہم نے ان مقامات کاشمارکیا جن میں خدانے آپ کی مددفرمائی ہے تووہ حساب سے اسی ہوتے ہیں معلوم ہواکہ لفظ کثیرکااطلاق اسی پرہوتاہے یہ سن کرمتوکل خوش ہوگیا اوراس نے اسی درہم صدقہ نکال کر دس ہزاردرہم دربان کوانعام دیا (مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱۶) ۔

اسی قسم کاایک واقعہ یہ ہے کہ متوکل کے دربارمیں ایک نصرانی پیش کیاگیاجومسلمان عورت سے زنا کرتاہواپکڑاگیا جب وہ دربارمیں آیاتوکہنے لگا مجھ پرحدجاری نہ کی جائے میں اس وقت مسلمان ہوتاہوں یہ سن کرقاضی یحی بن اکثم نے کہاکہ اسے چھوڑدیناچاہئے کیونکہ یہ مسلمان ہوگیا ایک فقیہ نے کہا کہ نہیںحدجاری ہوناچاہئے غرض کہ فقہائے مسلمین میں اختلاف ہوگیا متوکل نے جب یہ دیکھاکہ مسئلہ حل ہوتانظرنہیں آتا توحکم دیا کہ امام علی نقی کوخط لکھ کران سے جواب منگایاجائے ۔

چنانچہ مسئلہ لکھا گیا حضرت امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں تحریرفرمایا ”یضرب حتی یموت “ کہ اسے اتناماراجائے کہ مرجائے جب یہ جواب متوکل کے دربارمیں پہنچا تویحی بن اکثم قاضی شہراورفقیہ سلطنت نیزدیگرفقہانے کہا اس کاکوئی ثبوت قران مجیدمیں نہیں ہے براہ مہربانی اس کی وضاحت فرمائیے آپ نے خط ملاحظہ فرماکریہ آیت تحریرفرمائی جس کاترجمہ یہ ہے (جب کافروں نے ہماری سختی دیکھی توکہاکہ ہم اللہ پرایمان لاتے ہیں اوراپنے کفرسے توبہ کرتے ہیں یہ ان کاکہناان کے لیے مفیدنہ ہوا، اورنہ ایمان لاناکام آیا)

آیت پڑھنے کے بعدمتوکل نے تمام فقہا کے اقوال کومستردکردیا اورنصرانی کے لیے حکم دیدیا کہ اسے اس قدر ماراجائے کہ ”مرجائے“ (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۴۰) ۔

شاہ روم کوحضرت امام علی نقی کاجواب

علامہ محمدباقرنجفی لکھتے ہیں کہ بادشاہ روم نے خلیفہ وقت کولکھا کہ میں نے انجیل میں پڑھاہے کہ جوشخص اس سورہ کی تلاوت کرے گا جس میں یہ سات لفظ نہ ہوں ث، ج، ح، ز، ش، ظ ، ف، وہ جنت میں جائے گا اسے دیکھنے کے بعد میں نے توریت وزبورکااچھی طرح مطالعہ کیا لیکن اس قسم کاکوئی سورہ اس میں نہیں ملا آپ ذرااپنے علماء سے تحقیق کرکے لکھیے کہ شایدیہ بات آپ کے قرآن مجیدمیں ہوبادشاہ وقت نے بہت سے علماء جمع کئے اوران کے سامنے یہ چیز پیش کی سب نے بہت دیرتک غورکیا لیکن کوئی اس نتیجہ پرنہ پہنچ سکا کہ تسلی بخش جواب دے سکے جب خلیفہ وقت تمام علماء سے مایوس ہوگیا توامام علی نقی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا جب آپ دربارمیں تشریف لائے اورآپ کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیاگیا توآپ نے بلاتاخیرفرمایاوہ سورہ حمدہے اب جوغورکیاگیا توبالکل ٹھیک پایاگیا ، بادشاہ اسلام خلیفہ وقت نے عرض کی، ابن رسول اللہ کیااچھاہوتا اگرآپ اس کی وجہ بھی بتادیتے کہ یہ حروف اس سورہ میں کیوں نہیں لائے گیے کہ آپ نے فرمایا یہ سورہ رحمت وبرکت ہے اس میں یہ حروف اس لے نہیں لائے گئے کہ (ث) سے ثبورہلاکت تباہی، بربادی کی طرف،ج ۔سے جہیم جہنم کی طرف ، خ۔ خیبت یعنی خسران کی طرف،ز۔ سے زقوم یعنی تھوہڑکی طرف،ش۔ سے شقاوت کی طرف،ظ۔ سے ظلمت کی طرف،ف۔ سے فرقت کی طرف تبادرذہنی ہوتاہے اوریہ تمام چیزیں رحمت وبرکت کے معافی ہیں۔

خلیفہ وقت نے آپ کاتفصیلی بیان شاہ روم کوبھیج دیا بادشاہ روم نے جونہی اسے پڑھا وہ مسرورہوگیا اوراسی وقت اسلام لایا اورتاحیات مسلمان رہا (معہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۴۰ بحوالہ شرح شافیہ ابوفراس)۔

متوکل کے کہنے سے ابن سکیت وابن اکثم کاامام علی نقی سے سوال

علماء کابیان ہے کہ ایک دن متوکل اپنے دربارمیں بیٹھاہواتھا دیگرکاموں سے فراغت کے بعدابن سکیت کی طرف متوجہ ہوکر بولاابوالحسن سے ذراسخت سخت سوال کرو ابن سکیت نے اپنی قابلیت بھرسوال کئے امام علیہ السلام نے تمام سوالات کے مفصل اورمکمل جواب دیئے یہ دیکھ کر یحی ابن اکثم قاضی سلطنت نے کہااے ابن سکیت تم نحو،شعر،لغت کے عالم ہو،تمہیں مناظرہ سے کیادلچسپی، ٹہرو میں سوال کرتاہوں یہ کہہ کراس نے ایک سوالنامہ نکالاجوپہلے سے لکھ کراپنے ہمراہ رکھے ہوئے تھا اورحضرت کودیدیا حضرت نے اس کااسی وقت جوال لکھنا شروع کردیا اورایسامکمل جواب دیا کہ قاضی شہرکو متوکل سے کہنا پڑا کہ ان جوابات کو پوشیدہ رکھاجائے ، ورنہ شیعوں کی حوصلہ افزائی ہوگی ان سوالات میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ قرآن مجیدمیں ”سبعة البحر“ اورنفدت کلمات اللہ“ جوہے اس میں کن سات دریاؤں کی طرف اشارہ ہے اورکلمات اللہ سے مراد کیاہے آپ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایاکہ وہ سات دریایہ ہیں عین الکبریت، عین الیمن ، عین البرہوت، عین الطبریہ، عین السیدان، عین الافریقہ، عین الیاحوران، اورکلمات سے ہم محمدوآل محمدمرادہیں جن کے فضائل کااحصاناممکن ہے (مناقب جلد ۵ ص ۱۱۷) ۔

قضاوقدرکے متعلق امام علی نقی علیہ السلام کی رہبری ورہنمائی

قضاوقدرکے بارے میں تقریباتمام فرقے جادہ اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں، اس کی وضاحت میں کوئی جبرکاقائل نظر آتاہے کوئی مطلقا تفویض پرایمان رکھتا ہوادکھائی دیتاہے ہمارے امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے آباؤاجدادکی طرح قضاوقدرکی وضاحت ان لفظوں میں فرمائی ہے ”لاجبرولاتفویض بل امربین امرین“ نہ انسان بالکل مجبورہے نہ بالکل آزادہے بلکہ دونوں حالتوں کے درمیان ہے (معہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۳۴) ۔

میں حضرت کا مطلب یہ سمجھتاہوں کہ انسان اسباب واعمال میں بالکل آزادہے اورنتیجہ کی برآمدگی میں خداکامحتاج ہے۔

علماء امامیہ کی ذمہ داریوں کے متعلق امام علی نقی علیہ السلام کاارشاد

حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے ارشادفرمایاہے کہ ہمارے علماء ،غیبت قائم آل محمدکے زمانے میں محافظ دین اوررہبرعلم ویقین ہوں گے ان کی مثال شیعوں کے لیے بالکل ویسی ہی ہوگی جیسی کشتی کے لیے ناخداکی ہوتی ہے وہ ہمارے ضیعفوں کے دلوں کوتسلی دیں گے وہ افضل ناس اورقائدملت ہوں گے (معہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۳۷) ۔

حضرت امام علی نقی اورعبدالرحمن مصری کاذہنی انقلاب

علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ ایک دن متوکل نے برسردربارامام علی نقی کوقتل کردینے کا فیصلہ کرکے آپ کودربارمیں طلب کیا آپ سواری پرتشریف لائے عبدالرحمن مصری کابیان ہے کہ میں سامرہ گیاہواتھا اورمتوکل کے دربارکایہ حال سناکہ ایک علوی کے قتل کاحکم دیاگیاہے تومیں دروازے پراس انتظارمیں کھڑاہوگیا کہ دیکھوں وہ کون شخص ہے جس کے قتل کے انتظامات ہورہے ہیں اتنے میں دیکھاکہ امام علی نقی علیہ السلام تشریف لارہے ہیں مجھے کسی نے بتایاکہ اسی علوی کے قتل کابندوبست ہواہے میری نظرجونہی ان کے چہرہ پرپڑی میرے دل میں ان کی محبت سرایت کرگئی اورمیں دعا کرنے لگا خدایامتوکل کے شرسے اس شریف علوی کوبچانا میں دل میں دعاکرہی رہاتھا کہ آپ نزدیک آپہنچے اورمجھ سے بلاجانے پہچانے فرمایاکہ اے عبدالرحمن تمہاری دعاقبول ہوگئی ہے اورمیں انشاء اللہ محفوظ رہوں گا چنانچہ دربارمیں آپ پرکوئی ہاتھ نہ اٹھاسکا اورآپ محفوظ رہے پھرآپ نے مجھے دعادی اورمیں مالامال ہوگیا اورصاحب اولادہوگیا عبدالرحمن کہتاہے کہ میں اسی وقت آپ کی امامت کاقائل ہوکرشیعہ ہوگیا (کشف الغمہ ص ۱۲۳ ، دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۲۵) ۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام اوربرکتہ السباع

علماء کابیان ہے کہ ایک دن متوکل کے دربارمیں ایک عورت جوان اورخوبصورت آئی اوراس نے آکرکہا کہ میں زینب بنت علی وفاطمہ ہوں متوکل نے کہاکہ تو جوان ہے اورزینب کوپیداہوئے اوروفات پائے عرصہ گذرگیا اگرتجھے زینب تسلیم کرلیاجائے تویہ کیسے ماناجائے، کہ زینب اتنی عمرتک جوان رہ سکتی ہےں اس نے کہاکہ مجھے رسول خدانے یہ دعادی تھی کہ میں ہرچالیس اورپچاس سال کے بعد جوان ہوجاؤں اسی لیے میں جوان ہوں متوکل نے علماء دربارکوجمع کرکے ان کے سامنے اس مسئلہ کوپیش کیاسب نے کہایہ جھوٹی ہے زینب کے انتقال کوعرصہ ہوگیا ہے متوکل نے کہاکوئی ایسی دلیل دو کہ میں اسے جھٹلاسکوں سب نے اپنے عجزکاحوالہ دیا۔

فتح ابن خاقان وزیرمتوکل نے کہاکہ اس مسئلہ کو”ابن الرضا“ علی نقی کے سواکوئی حل نہیں کرسکتا لہذاانہیں بلایاجائے متوکل نے حضرت کوزحمت تشریف آوری دی جب آپ دربارمیں پہنچے متوکل نے صورت مسئلہ پیش کی امام نے فرمایا جھوٹی ہے، متوکل نے کہاکوئی ایسی دلیل دیجئیے کہ میں اسے جھوٹی ثابت کرسکوں ، آپ نے فرمایا میرے جدنامدارکاارشادہے کہ ”حرم لحوم اولادی علی السباع“ درندوں پرمیری اولادکاگوشت حرام ہے اے بادشاہ تواس عورت کو درندوں میں ڈال دے ،اگریہ سچی ہوگی اس کازینب ہوناتودرکنار اگریہ سیدہ بھی ہوگی توجانوراسے نہ چھیڑیں گے اوراگرسادات سے بھی بے بہرہ اورخالی ہوگی تودرندے اسے پھاڑکھائیںگے ابھی یہ گفتگوجاری ہی تھی کہ دربارمیں اشارہ بازی ہونے لگی اوردشمنوں نے مل جل کرمتوکل سے کہا کہ اس کاامتحان امام علی نقی ہی کے ذریعہ سے کیوں نہ لیاجائے اوردیکھاجائے کہ آیا درندے سیدوں کوکھاتے ہیں یانہیں ۔

مطلب یہ تھا کہ اگرانہیں جانوروں نے پھاڑکھایا تومتوکل کامنشاء پوراہوجائے گا اوراگریہ بچ گئے تومتوکل کی وہ الجھن دورہوجائے گی جوزینب کذاب نے ڈآل رکھی ہے غرض کی متوکل نے امام علیہ السلام سے کہا ”اے ابن الرضا“ کیااچھاہوتا کہ آپ خودبرکتہ السباع میں جاکر اسے ثابت کردیجئے کہ آل رسول کاگوشت درندوں پرحرام ہے امام علیہ السلام تیارہوگئے متوکل نے اپنے بنائے ہوئے برکت السباع شیرخانہ میں آپ کوڈلواکرپھاٹک بندکروادیا، اورخود مکان کے بالاخانہ پرچلاگیا تاکہ وہاں سے امام کے حالات کامطالعہ کرے۔

علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ جب درندوں نے دروازہ کھلنے کی آوازسنی توخاموش ہوگئے جب آپ صحن میں پہنچ کرسیڑھی پرچڑھنے لگے تودرندے آپ کی طرف بڑھے (جن میں تین شیراوربروایت دمعہ ساکبہ چھ شیربھی تھے) اورٹہرگئے اورآپ کوچھوکرآپ کے گردپھرنے لگے، آپ نے اپنی آستین ان پرملتے تھے پھردرندے گھٹنے ٹیک کربیٹھ گئے متوکل امام علیہ السلام کے متعلق چھت پرسے یہ باتیں دیکھتارہااوراترآیا، پھرجناب صحن سے باہرتشریف لے آئے متوکل نے آپ کے پاس گراں بہاصلہ بھیجا لوگوں نے متوکل سے کہاتوبھی ایساکرکے دکھلادے اس نے کہاشایدتم میری جان لیناچاہتے ہو ۔

علامہ محمدباقرلکھتے ہیں کہ زینب کذابہ نے جب ان حالات کوبچشم خوددیکھا توفورا اپنی کذب بیانی کااعتراف کرلیا، ایک روایت کی بناپراسے توبہ کی ہدایت کرکے چھوڑدیا گیا دوسری روایت کی بناپرمتوکل نے اسے درندوں میں ڈلواکرپھڑواڈالا(صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، ارحج المطالب ص ۴۶۱ ،دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۴۵ ، جلاء العیون ص ۳۹۳ ،روضة الصفاء، )

فصل الخطاب، علامہ ابن حجرکاکہناہے کہ اسی قسم کاواقعہ عہدرشیدعباسی میں جناب یحی بن عبداللہ بن حسن مثنی ابن امام حسن علیہ السلام کے ساتھ بھی ہواہے۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام اورمتوکل کاعلاج

علامہ عبدالرحمن جامی تحریرفرماتے ہیں کہ جس زمانہ میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام نظربندی کی زندگی بسرکررہے تھے متوکل کے بیٹنے کی جگہ یعنی کمرکے نیچے جسم کے پچھلے حصہ میں ایک زبردست زہریلاپھوڑانکل آیا، ہرچندکوشش کی گئی مگر کسی صورت سے شفاء کی امیدنہ ہوئی جب جان خطرہ میں پڑگئی تومتوکل کی ماں نے منت مانی کہ اگرمتوکل اچھاہوگیاتومیں ابن الرضا کی خدمت میں مال کثیرنذرکروں گی اورفتح بن خاقان نے متوکل سے درخواست کی کہ اگرآپ کاحکم ہوتومیں مرض کی کیفیت ابوالحسن سے بیان کرکے کوئی دواء تجویزکرالاؤں۔

متوکل نے اجازت دی اورابن خاقان حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے انہوں نے ساراواقعہ بیان کرکے دواکی تجویزچاہی،امام علیہ السلام نے فرمایا ”کسب غنم“ (بکری کی مینگنیاں) لے کرگلاب کے عرق میں حل کرکے لگاؤ، انشاء اللہ ٹھیک ہوجائے گا وزیرفتح ابن خاقان نے دربارمیں امام علیہ السلام کی تجویزپیش کی، لوگ ہنس پڑے اورکہنے لگے کہ امام ہوکرکیا دواتجویزفرمائی ہے وزیرنے کہااے خلیفہ تجربہ کرنے میں کیاحرج ہے اگرحکم ہوتومیں انتظام کروں خلیفہ نے حکم دیا، دوالگائی گئی، پھوڑاپھوٹا، متوکل کی آنکھ کھل گئی اوررات بھرپورا سویا تین یوم کے اندرشفاء کامل ہوجانے کے بعدمتوکل کی ماں نے دس ہزار اشرفی کی سربمہرتھیلی امام علیہ السلام کی خدمت میں بھجوادی (شواہدالنبوت ص ۲۰۷ ، اعلام الوری ص ۲۰۸) ۔

امام علی نقی علیہ السلام کے تصورحکومت پرخوف خوف خداغالب تھا

حضرت کی سیرت زندگی اوراخلاق وکمالات وہی تھے جواس سلسلہ عصمت کی ہرفردکے اپنے اپنے دورمیں امتیازی طورپر مشاہدہ میں آتے رہتے تھے قیدخانہ اورنظربندی کاعالم ہویاآزادی کازمانہ ہروقت ہرحال میں یادالہی، عبادت ، خلق خداسے استغناء، ثبات قدم، صبرواستقلال، مصائب کے ہجوم میں ماتھے پرشکن کانہ ہونا ، دشمنوں کے ساتھ حلم ومروت سے کام لینا، محتاجوں اورضرورت مندوں کی امدادکرنا، یہی وہ اوصاف ہیں جوامام علی نقی کی سیرت زندگی میں نمایاں نظرآتے ہیں۔

قیدکے زمانہ میں جہاں بھی آپ رہے آپ کے مصلے کے سامنے ایک قبرکھدی تیاررہتی تھی دیکھنے والوں نے جب اس پرحیرت اوردہشت کااظہارکیا توآپ نے فرمایامیں اپنے دل میں موت کاخیال رکھنے کے لیے یہ قبراپنی نگاہوں کے سامنے تیاررکھتاہوں حقیقت میں یہ ظالم طاقت کواس کے باطل مطالبہ اطاعت اوراسلام کے حقیقی تعلیمات کی نشرواشاعت کے ترک کردینے کی خواہش کاایک عملی جواب تھا یعنی زیادہ سے زیادہ سلاطین وقت کے ہاتھ میں جوکچھ ہے وہ جان کالے لینا مگرجوشخص موت کے لیے اتناتیارہوہ ہروقت کھدی ہوئی قبراپنے سامنے رکھے وہ ظالم حکومت سے ڈرکرسرتسلیم خم کرنے پرکیسے مجبورکیاجاسکتا ہے مگراس کے ساتھ دنیاوی سازشوں میں شرکت یاحکومت وقت کے خلاف کسی بے محل اقدام کی تیاری سے آپ کادامن اس طرح بری رہاکہ باوجود دارالسلطنت کے اندرمستقل قیام اورحکومت کے سخت ترین جاسوسی انتظام کے کبھی آپ کے خلاف تشدد کے جوازکی نہ مل سکی باوجودیکہ سلطنت عباسیہ کی بنیادیں اس وقت اتنی کھوکھلی ہورہی تھیں کہ دارالسلطنت میں ہرروزایک نئی سازش کافتنہ کھڑاہوتاتھا۔

متوکل سے خوداس کے بیٹے کی مخالفت اوراس کے انتہائی عزیزغلام باغررومی کی اس سے دشمنی منتصرکے بعدامرائے حکومت کاانتشاراور آخر متوکل کے بیٹوں کوخلافت سے محروم کرنے کافیصلہ مستعین کے دورحکومت میں یحی بن عمربن یحی بن حسین بن زیدعلوی کاکوفہ میں خروج اورحسن بن زیدالملقب بہ داعی الحق کاعلاقہ طبرستان پرقبضہ کرلینا اورمستقل سلطنت قائم کرلینا پھردارالسلطنت میں ترکی غلاموں کی بغاوت، مستعین کاسامرہ کوچھوڑکربغدادکی طرف بھاگنا اورقلعہ بندہوجانا آخرکوحکومت سے دست برداری پرمجبورہونا اورکچھ عرصہ کے بعدمعتزباللہ کے ہاتھ سے تلوارکے گھاٹ اترنا، پھرمعتزباللہ کے دورمیں رومیوں کامخالفت پرتیاررہنا، معتزباللہ کوخوداپنے بھائیوں سے خطرہ محسوس ہونا اورمویدی زندگی کاخاتمہ اورموفق کابصرہ میں قیدکیاجانا، ان تمام ہنگامی حالات، ان تمام شورشوں، ان تمام بے چینیوں اورجھگڑوں میں سے کسی میں بھی امام علی نقی کی شرکت کاشبہ تک نہ پیداہونا، کیااس طرزعمل کے خلاف نہیں ہے؟۔

جوایسے موقعوں پرجذبات سے کام لینے والوں کا ہواکرتاہے ایک ایسے اقتدارکے مقابلہ میں جسے نہ صرف وہ حق وانصاف کے روسے ناجائزسمجھتے ہیں بلکہ ان کے ہاتھوں انہیں جلاوطنی قیداوراہانتوں کاسامنابھی کرناپڑاہے مگر جذبات سے بلنداورعظمت نفس کے کامل مظہردنیاوی ہنگاموں اوروقت کے اتفاقی موقعوں سے کسی طرح کافائدہ اٹھانا اپنی بے لوث حقانیت اورکوہ سے بھی گراں صداقت کے خلاف سمجھتاہے اورمخالفت پرپس پشت حملہ کرنے کواپنے بلندنقطہ نگاہ اورمعیارعمل کے خلاف جانتے ہوئے ہمیشہ کنارہ کش رہتاہے (دسویں امام ص ۱۶) ۔ 

امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت

متوکل کے بعداس کابیٹا مستنصرپھرمستعین پھر ۲۵۲ ہجری میں معتزباللہ خلیفہ ہوا معتزابن متوکل نے بھی اپنے باپ کی سنت کونہیں چھوڑااورحضرت کے ساتھ سختی ہی کرتارہا یہاں تک کہ اسی نے آپ کوزہردیدیا ۔

”سمعہ المعتز، انوارالحسینیہ جلد ۲ ص ۵۵ ،اورآپ بتاریخ ۳/ رجب ۲۵۴ ہجری یوم دوشنبہ انتقال فرماگئے (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۴۹) ۔

علامہ ابن جوزی تذکرة خواص الامة میں لکھتے ہیں کہ آپ معتزباللہ کے زمانہ خلافت میں شہیدکئے گئے ہیں اورآپ کی شہادت زہرسے واقع ہوئی ہے، علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ آپ کوزہرسے شہیدکیاگیاہے (انوارالابصارص ۱۵۰) ۔

علامہ ابن حجرلکھتے ہیں کہ آپ زہرسے شہیدہوئے ہیں ، صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۴۸ میں ہے کہ آپ نے انتقال سے قبل امام حسن عسکری علیہ السلام کومواریث انبیاء وغیرہ سپردفرمائے تھے وفات کے بعدجب امام حسن عسکری علیہ السلام نے گریبان چاک کیاتولوگ معترض ہوئے آپ نے فرمایا کہ یہ سنت انبیاء ہے حضرت موسی نے وفات حضرت ہارون پراپناگریبان پھاڑاتھا (دمعہ ساکبہ ص ۱۴۸ ، جلاء العیون ص ۲۹۴) ۔

آپ پرامام حسن عسکری نے نمازپڑھی اورآپ سامرہ ہی میں دفن کئے گئے ”اناللہ واناالیہ راجعون“ ، علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کی وفات انتہائی کس مپرسی کی حالت میں ہوئی انتقال کے وقت آپ کے پاس کوئی بھی نہ تھا (جلاء العیون ص ۲۹۲) ۔

آپ کی ازواج واولاد

آپ کی  کئی اولادیں پیداہوئیں جن کے اسماء یہ ہیں امام حسن عسکری، حسین بن علی، محمدبن علی، جعفربن علی، دخترموسومہ عائشہ بن علی (ارشادمفید ص ۵۰۲ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۶ طبع مصر)۔

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر