اتوار، 26 مارچ، 2023

اسلامی دنیا کے نامور ریاضی دان محمّد بن موسیٰ خوارز می

 

 

، یہ وہ وقت  تھا  جب یورپ تاریک دور سے گزر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خوارزمی کے کام کو ’خطرناک‘ یا ’جادو‘ گردانا گیا تھا۔ان کا عظیم ترین کام یقیناً ان کی الجبرہ سے متعلق کتاب تھی-روائت ہے کہ خوارزمی جیسے بلند و بالا ماہر فلکیات و ماہر ریاضی کے جب یورپ کی دنیا پر جوہر کھلے تو یورپ کی دنیا نے ان کوایک  خطرنا ک ہستی قرار دیا یہ وہ وقت  تھا  جب یورپ تاریک دور سے گزر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خوارزمی کے کام کو ’خطرناک‘ یا ’جادو‘ گردانا گیا تھا۔ان کا عظیم ترین کام یقیناً ان کی الجبرہ سے متعلق کتاب تھی-

لیکن خوارزمی کو ناتو پیچھے دیکھنے کی عادت تھی نا اس کی پرواہ تھی کہ دنیا ان کو کیا کہتی ہے وہ تحقیق  کی  دنیا کے صحرا نورد تھے جوبالآخر اسی صحرا نوردی میں اپنا نام کر   گئے -ترکستان کے مشہور دریا جیحوں کے قریب خوارز م شہر میں اسلامی دنیا کے نامور ریاضی دان محمّد بن موسیٰ خوارز می پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کرنے کے بعد آپ بغداد چلے گئے اور وہاں بیتِ الحکمت کے رُکن بن گئے۔۔خوارزمی کی تحقیقات کا اصل میدان ریاضی ہے۔ ریاضی میں ان کی دو کتابیں "حساب اور جبر و مقابلہ" یعنی الجبر تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ ازمنہ وسطیٰ میں اہلِ یورپ نے جتنا ان دو کتابوں سے سیکھا اُتنا کسی سے نہیں سیکھا۔ یونانیوں اور رومیوں کے زمانہ سے اہلِ مغرب اعداد کو رومن میں لکھتے تھے. جس سے جمع،تفریق، ضرب اور تقسیم پیچدہ ہو جاتے تھے۔ موسیٰ خوارزمی کا "حساب" وہ کتاب تھی جس میں سے اہلِ مغرب نے گنتی کے طریقے کو اخذ کیا اور پھر اسے اپنی علامتوں میں تبدیل کر کے رومن طریقے کی بجائے رائج کیا۔ اور پھر اسی تبدیلی سے انہوں نے سائنس کے میدان میں انقلاب برپا کیا.. اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اہلِ مغرب خوارزمی کے کتنے بڑے احسان مند ہیں۔

۔حساب اور الجبرا کی کُتب کے علاوہ محمّد بن موسیٰ خوارزمی نے ان موضوعات پر بھی تصانیف لکھیں۔ان کا ایک رسالہ اصطزلاب پر بھی ہے۔ جس میں انہوں نی ان آلے کے بارے معلومات درج ہیں۔ ایک رسالہ "دھوپ کی گھڑی" ہے. جس میں اس گھڑی کو قائم کرنے کی تفصیلات درج ہیں۔ ایک اور رسالے میں زاویوں کے (sines) اور جیوب (Tangent) کے نقشے دئیے گئے ہیں۔ جو ٹرگنومیڑی میں ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ۔یہ کتابیں اور رسالے اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن الخوارزمی کے الجبرا کو ان سب پر فوقیت حاصل ہے۔کیوںکہ جن دیگر مو ضوعات پر اس نے قلم کے جوہر دکھاے ان پر اس سے پیش تر بھی رسالے اور کتب موجود تھیں۔لیکن الجبرا پر اس کی کتاب “الجبرا المقابلہ” اپنے موضوع کی پہلی تصنیف ہے۔خوارزمی کا الجبرا اگرچہ لاطینی میں ترجمہ ہو کر ازمنہ وسطیٰ میں یورپ میں پھیل گیا ۔مگر اس کا انگریزی ترجمہ انگریز مصنف روزن نے لندن سے ۱۸۳۱ء میں شائع کیا۔محمد بن موسیٰ کی پہلی دو تصانیف “حساب” اور “الجبرا والمقابلہ” کا حوالہ پہلے دیا جا چکا ہے۔ان کی تیسری تصنیف “زیچ خوارزمی” ہے۔جس میں ہیت اور ٹرگنومیٹری کی بہت سی جدولیں ہیں۔موسیٰخوارزمی کی چوتھی تصنیف”صوتالارض”ہے۔۱۹۲۶ءمیں ایک جرمن فاضل Hans نے اسے عربی میں شائع کیا۔اور چند برسوں بعد اس کا جرمن ترجمہ لسی شہر میں طبع ہوا۔ 

وہ خلیفہ المامون کے لیے کام کرتے تھے۔ خلیفہ مامون جو خود یونانی کتب کے عربی میں تراجم کروانے کے شیدائی اور تاریخ میں سائنسی علوم میں تحقیق اور ان کی اہمیت سمجھنے والی بڑی شخصیات میں سے ایک تھے۔الخوارزمی خلیفہ کے بنائے گئے ’بیت الحکمت‘ میں کام کرتے تھے، جو ایک ایسا ادارہ تھا جو سننے میں بالکل فرضی معلوم ہوتا ہے۔ یہ ترجمے اور سائنسی علوم میں اصلی تحقیق کا مرکز تھا اور یہاں ایک ایسے دور کے عظیم دماغ جمع ہوتے تھے جنھیں عربی سائنس کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔عربی کا لفظ یہاں اس لیے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اس دور میں اکثر کتابیں عربی زبان میں لکھی جاتی تھیں کیونکہ یہ نہ صرف سلطنت کی سرکاری زبان تھی بلکہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن بھی اسی زبان میں نازل ہوئی تھی۔

ان سائنسی کتب میں متنوع سائنسی شعبوں کا احاطہ کیا گیا تھا جس میں فلسفہ، علم طب، ریاضی، علم بصریات اور علم فلکیات وغیرہ شامل ہیں۔ اس دور کی عظیم سائنسی کامیابیوں میں سے ہم کچھ ایسے کارناموں کا ذکر کریں گے جو الخوارزمی سے براہ راست منسلک تھے۔نویں صدی کی دوسری دہائی میں خلیفہ المامون نے بغداد میں علمِ فلکیات پر تحقیق کے لیے رصدگاہیں بنوائیں۔ اس کے ایک، دو سال بعد یونانی علم فلکیات کے تنقیدی جائزے کا آغاز ہوا۔ اس دوران الخوارزمی کی سرپرستی میں متعدد محققین نے مل کر سورج اور چاند سے متعلق متعدد مشاہدے کیے۔اس دوران ایک ہی مقام پر موجود 22 ستاروں کا طول الارض اور طول البلد کا ایک ٹیبل بنایا گیا۔ المامون نے اس دوران جبل قاسیون ک ڈھلوان پر ایک اور رصدگاہ تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں سے دمشق شہر صاف دکھائی دیتا تھا۔ اس رصدگاہ کی تعمیر کا مقصد اس حوالے سے مزید اعداد و شمار اکھٹے کرنا تھا۔

اس کام کے اختتام پر الخوارزمی اور ان کے ساتھی متعدد ستاروں کی محل وقوع سے متعلق اعدادوشمار کے ٹیبل بنا چکے تھے۔

ایک اور شاندار پراجیکٹ جو ان سکالرز کی جانب سے شروع کیا گیا وہ مزید بلند نظر تھاالخوارزمی کی سرپرستی میں متعدد محققین نے مل کر سورج اورچاند سے متعلق متعدد مشاہدے کیے-یونانی ماہرِ فلکیات ٹونومی نے اپنی معروف کتاب 'دی جغرافیہ' میں دنیا بھر کے جغرافیے سے متعلق جو کچبھی موجود تھا وہ درج کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے کام کا عربی ترجمہ ہی جغرافیہ میں اسلامی دنیا کی دلچسپی کا باعث بنا۔المامون نے اپنے سکالرز کودنیا کا نیا نقشہ بنانے کی ہدایت کی کیونکہ ٹونومی کی جانب سے بنائے گئے نقشے میں اہم اسلامی شہر جیسے مکہ یا دارالحکومت بغداد شامل نہیں تھے۔

 ٹونومی کے دور میں مکہ کی اتنی اہمیت نہیں تھی اور بغداد اس وقت وجود میں ہی نہیں آیا تھا۔الخوارزمی اور ان کے ساتھیوں نے ان دو شہروں کےدرمیان فاصلے کو ناپنے کی ٹھانی۔ اس سلسلے میں انھوں نے چاند گرہن کے دوران پیمائش کی اور اعدادوشمار لیے۔انھوں نے اس قدیم دور میں اندونوں شہروں کے درمیان جو فاصلہ نکالا وہ موجودہ دور کے اعداد و شمار کے مقابلے میں دو فیصد سے بھی کم غلط تھا۔ انھوں نے پھر دیگر اہم مقاماکوہ خطوط دوبارہ جاننے کی کوشش کی جن سے ان مقامات کے مرکزی نقطے کا مقام معلوم ہو سکے۔مثال کے طور پر ان کے نقشے میں بحر اوقیانوس اور بحر ہند کو پانی کی کھلی گزرگاہوں کے طور پر دکھایا گیا نہ کہ زمین سے گھرے ہوئے سمندر، جیساکہ ٹونومی نے اپنی کتاب میں بتایا تھا۔لخوارزمی کی کتاب ’صورت الارض‘ یعنی دنیا کی تصویر کے باعث انھیں اسلام کے پہلے جغرافیہ نگار ہونے کااعزاز حاصل ہے۔ یہ کتاب 833 عیسوی میں مکمل ہوئی۔ یہ خلیفہ المامون کی وفات کا سال بھی ہے۔ اس کتاب میں 500 شہروں کے طولالارض اور طول البلد کے ٹیبل موجود تھے۔اس کتاب میں مختلف مقامات کو قصبوں، دریاؤں، پہاڑوں، سمندروں اور جزیروں میں تقسیم کیاگیا۔ ہر ٹیبل میں ان جگہوں کی ترتیب جنوب سے شمال کے حساب سے کی گئی تھی۔الخوارزمی نے دریائے نیل اور اس کے راستے کی جغرافیے کی ایک کتاب میں وضاحت پیش کیاہم یہ تمام کامیابیاں ان کی ریاضی کے شعبے میں کارناموں کے سامنے دھندلا جاتی ہیں۔ ان کی جانب سے ہندسوں و اعداد پر لکھے جانے والےمقالوں کے باعث مسلم دنیا میں نظام اعشاری (ڈیسیمل نمبر سسٹم) متعارف ہوا۔ ان کی کتاب ’الجم والتفریق بی الہند‘ کو ریاضی کے ذیلی شعبےمیں خاصی اہمیت حاصل ہے۔یہ کتاب 825 عیسوی کے قریب لکھی گئی تھی تاہم اس کا کوئی مستند عربی ترجمہ موجود نہیں ہے اور کتاب کا عنوان بھی صرف ایک اندازہ ہے۔تاہم شاید یہ اعشاری نظام پر لکھی گئی وہ پہلی کتاب تھی جس کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ اس کا آغاز لاطینی زبان میں لکھے گئے ان الفاظ سے ہوتاہے ’الخوارزمی نے کہا کہ۔۔۔

اس کتاب میں حساب سے متعلق مختلف ہدایات بتائی گئی ہیں اور یہیں سے لفظ ایلگورتھم کی اصطلاح وجود میں آئی جو دراصل الخوارزمی کو لاطینی میں بولنے کا طریقہ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر