اتوار، 8 جون، 2025

جیرارڈ اسٹریٹ ٹورنٹو

 جیرارڈ اسٹریٹ ٹورنٹو، اونٹاریو، کینیڈا کی ایک  مشہور اسٹریٹ  ہے۔ یہ دو الگ الگ حصوں پر مشتمل ہے، جسے تاریخی طور پر لوئر جیرارڈ اور اپر جیرارڈ کہا جاتا ہے۔جیرارڈ اسٹریٹ ٹورنٹوجیرارڈ اسٹریٹ ویسٹ کا واک اسکور 100 میں سے 99 ہے۔ یہ مقام واکرز پیراڈائز ہے اس لیے روزانہ کے کاموں کے لیے کار کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ٹورنٹو میں کوریڈور پڑوس۔ قریبی پارکوں میں الیگزینڈر اسٹریٹ پارکیٹ، لیری سیفٹن پارک اور ہائی پارک شامل ہیں۔پرانے ٹورنٹو میں یونیورسٹی ایوینیو اور کاکس ویل ایونیو کے درمیان 6 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ مؤخر الذکر حصہ لوئر جیرارڈ کے مشرقی ٹرمینس سے 300 میٹر شمال میں شروع ہوتا ہے اور کاکس ویل ایونیو اور کلونمور ڈرائیو کے درمیان، وکٹوریہ پارک ایونیو اور وارڈن ایونیو کے درمیان، اسکاربورو میں مزید 4 کلومیٹر تک چلتا ہے۔


جیرارڈ اسٹریٹ ٹورنٹو کے چند اہم اضلاع اور محلوں سے گزرتی ہے، خاص طور پر ڈسکوری ڈسٹرکٹ، ایسٹ چائنا ٹاؤن، اور جیرارڈ انڈیا بازار، ٹورنٹو کا سب سے بڑا جنوبی ایشیائی نسلی انکلیو۔جیرارڈ کا نام سیموئیل جیرارڈ (1767-1857) کے لیے رکھا گیا ہے، جو زیریں کینیڈا میں ایک اینگلو-آئرش تاجر اور عزت مآب جان میک گل کے ذاتی دوست ہیں، جو اپر کینیڈا کی قانون ساز کونسل کے رکن ہیں۔اپر جیرارڈ اصل میں "لیک ویو ایونیو" کے نام سے ایک الگ گلی تھی جو مشرقی ٹورنٹو کے قصبے میں تھی۔ 1908 میں ٹورنٹو کے ذریعہ ایسٹ ٹورنٹو کے الحاق کے بعد نام تبدیل کر دیا گیا۔جیرارڈ گاؤں-بے سٹریٹ سے لاپلانٹے ایونیو تک جیرارڈ سٹریٹ ویسٹ کے ایک مختصر حصے کو جیرارڈ ولیج کہا جاتا ہے، ایک بوہیمین-گرین وچ گاؤں جیسا علاقہ 19ویں صدی کے آخر سے 1920 کی دہائی میں ابھرا اور 1960 کی دہائی کے آخر میں غائب ہو گیا۔ سابق محلے کی چند عمارتیں اب بھی موجود ہیں، لیکن رہائشی اور باقی کاروبار اب ماضی سے تعلق نہیں رکھتے۔جو لوگ رہتے تھے یا اس سے وابستہ ہیں ان میں مشہور ادیب، فنکار شامل تھے: 


پیئر برٹن - کینیڈا کے مورخ اور مصنفارنسٹ ہیمنگوے - امریکی ناول نگار اور رپورٹر 1919-1920 کے آس پاس ٹورنٹو میں اپنے وقت کے دوران یہاں رہتے تھے۔لارین ہیرس - کینیڈین پینٹر اور گروپ آف سیون کے رکنالبرٹ فرانک - ڈچ نژاد کینیڈین پینٹرراستے کی تفصیل-جیسا کہ ٹورنٹو میں عام ہے، Yonge Street پر گلی کو مشرقی اور مغربی پتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ عام طور پر، گلی کا مغربی حصہ بہت چھوٹا ہوتا ہے — صرف چار بلاکس لمبے ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی ایونیو میں اس کا مغربی ٹرمینس ڈاون ٹاؤن ٹورنٹو کے "ہسپتال قطار" کے مرکز میں واقع ہے، جو ٹورنٹو جنرل ہسپتال، ماؤنٹ سینائی ہسپتال، شہزادی مارگریٹ کینسر سینٹر، ٹورنٹو ری ہیب، اور بیمار بچوں کے لیے ہسپتال پر مشتمل ہے۔ جیرارڈ اسٹریٹ کا بڑا حصہ دراصل جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹورنٹو میٹروپولیٹن یونیورسٹی جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ پر یونگ اسٹریٹ کے بالکل مشرق میں واقع ہے۔



مزید مشرق میں، پارلیمنٹ اسٹریٹ پر، جیرارڈ اسٹریٹ کیبی ٹاؤن کو ریجنٹ پارک سے الگ کرتی ہے۔دریائے ڈان کو عبور کرنے کے بعد، جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ ٹورنٹو کے ایسٹ چائنا ٹاؤن سے گزرتا ہے جو براڈ ویو ایونیو اور کارلو ایونیو کے درمیان جیرارڈ پر مرکوز ہے۔ مشرق کو جاری رکھتے ہوئے، گرین ووڈ ایونیو اور کوکس ویل ایونیو کے درمیان جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ شمالی امریکہ میں جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے بازاروں میں سے ایک کا گھر ہے۔ جیرارڈ اور براڈ ویو ایونیو کے چوراہے پر دو دو لسانی سڑک کے نشان ہیں جن پر الفاظ ہیں " ۔اپر جیرارڈ بڑے پیمانے پر رہائشی اور چھوٹے پڑوس کے کاروبار کا مرکب ہے۔ وکٹوریہ پارک ایونیو میں، کلونمور ڈرائیو میں ضم ہونے سے پہلے آخری چار بلاکس کے لیے گلی کا نام "جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ" کے بجائے صرف "جیرارڈ اسٹریٹ" میں واپس آجاتا ہے۔ اس نام کی عجیب و غریبیت وکٹوریہ پارک کے مشرق کا علاقہ اسکاربورو میں ہونے کی وجہ سے ہے، جس نے ٹورنٹو سے داخل ہونے والی سڑکوں کو "مشرق" کے نام سے لیبل نہیں کیا،


یہاں تک کہ میٹروپولیٹن ٹورنٹو کی تخلیق کے بعد، جس نے سڑکوں کے لیے متحد مرکزی سمتوں کا استعمال کیا، بشمول اسکاربورو میں خود ہی شمال مشرقی یارک سے سڑکوں کے لیے۔ (جیرارڈ اور کوئین وہ واحد سڑکیں تھیں جن پر "مشرق" کے نام کا لیبل لگا ہوا تھا جو ٹورنٹو سے براہ راست اسکاربورو میں داخل ہوئیں؛ دونوں ختم ہونے سے پہلے اسکاربورو میں صرف چند بلاکس تک جاریرہیں۔)ٹرانزٹ-ٹورنٹو ٹرانزٹ کمیشن (TTC) پارلیمنٹ اسٹریٹ اور کاکس ویل ایونیو کے درمیان ٹورنٹو اسٹریٹ کار روٹ 506 کارلٹن کے ساتھ لوئر جیرارڈ کی خدمت کرتا ہے۔ راستہ پھر کاکس ویل ایونیو کے ساتھ سفر کرتا ہے اور اپر جیرارڈ کے ساتھ مین اسٹریٹ تک جاری رہتا ہے، جہاں یہ مڑ کر مین اسٹریٹ اسٹیشن پر ختم ہوتا ہے۔ مین اسٹریٹ کے مشرق میں جیرارڈ اسٹریٹ کا بقیہ حصہ ٹی ٹی سی بس روٹ 135 جیرارڈ کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے، جو مین اسٹریٹ اسٹیشن اور وارڈن اسٹیشن کے درمیان سفر کرتی ہے۔  

حجِ بیت اللہ 'ایک عاشقانہ عبادت

 حجِ بیت اللہ 'ایک عاشقانہ عبادت                 حج تو درحقیقت خدا کی اس مقدس سرزمین پر حاضری کا نام ہے، جہاں نبیوں، رسولوں اور برگزیدہ بندوں نے اپنی حاضری کے ذریعہ اطاعت وبندگی کا فریضہ انجام دیا ہے، اور اپنی اطاعت وبندگی کا عہدوپیمان کیا ہے۔  مختلف مکاتب میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس خواب کا ذکرآیا ہے جو کہ قربانی سے متعلق ہے۔ حضرت ابراہیم ؑنے یہ خواب مسلسل تین رات تک دیکھا تھا۔ انہوں نے خواب دیکھا جس میں حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔ آپؑ نے اس موقع پر اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا تو آپ کو حضرت اسماعیل ؑ نظر آئے تو آپ نے بیٹے سے تینوں راتوں کے خواب کا ذکر کیا۔ اس سے کہا۔ میر ے پیارے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے قربان کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا، والد محترم جو حکم ہوا ہے، اسے بجا لائیے، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔


 غرض جب دونوں مطیع ہو گئے ۔ تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم ؑیقیناً تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ بے شک ہم نیکی کرنے والے کو اسی طرح جزادیتے ہیں۔ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔‘‘(سورہ الصافات آیات نمبر 101-تا106)قربانی محض جانور ذبح کرنے اور گوشت کھانے کا نام نہیں ہےیہ ایثار وجاں نثاری، تقویٰ اور طہارت کا نام ہے  - عید الاضحی کے دن حضرت ابراہیم ؑکی اس عظیم ترین اطاعت خدا وندی کی مثال کی یاد گار کے طور پر ادا کیا جاتا ہے جس کے تحت خلیل اللہ (اللہ کے دوست) لقب پانے والے اس حق و صداقت کے علمبر دار پیغمبر ؑ نے اپنی ہزاروں دعاؤں اور تمناؤں کے بعد پیدا ہونے والے پیارے بیٹے کو حکم خداوندی سے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا ارداہ کر لیا تھا۔قربانی کا مطلب ہے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنا جبکہ شرعی اصطلاح میں اس کا مطلب عبادت کی نیت سے ایک خاص وقت میں حلال جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا یا ذبح کرنا ہے۔


یہ خاص وقت10ذی الحج کی صبح یعنی اشراق سے شروع ہوتا ہے اور 12ذی الحجہ کی عصر تک رہتا ہے۔ نماز عید سے قبل قربانی نہیں ہوتی۔عید الاضحی کی قربانی اصل میں اس واقعہ عظیم کی یاد کو تازہ کرتی ہے جو حضرت ابراہیم ؑ سے واقع ہوا یعنی خواب میں فرزند عزیز حضرت اسما عیل ؑ کو ذبح کرتے دیکھا تو سچ مچ انہیں قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ مختلف مکاتب میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس خواب کا ذکرآیا ہے جو کہ قربانی سے متعلق ہے۔ حضرت ابراہیم ؑنے یہ خواب مسلسل تین رات تک دیکھا تھا۔ پہلی رات یعنی آٹھ ذی الحج جسے شرعی اصطلاح میں ’’یوم الترویہ‘‘کہا جاتا ہے۔ لغت میں ترویہ کے معنی ’’سیراب کرنا‘‘پانی فراہم کرنا، منی اور عرفات میں چونکہ پانی نہیں ہے اس لئے ایام صبح میں یعنی اسی تاریخ کو یہاں بذریعہ ٹینکر پانی سپلائی کیا جاتا ہے جس کی شہادت عازمین حج بھی دیتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ’’ترویہ‘‘ کے معنی و مفہوم میں ’’پانی پلانا‘‘لکھے ہیں لوگ اس دن اپنے اونٹوں کو پانی پلاتے تھے۔


 بعض اہل زبان نے ’’ترویہ‘‘کورویت سے لیا ہے اس لئے ’’دیکھنے کے ‘‘ معنی میں لیا ہے۔حضرت ابراہیم ؑنے بھی چونکہ خواب دیکھا تھا اس لئے دیکھنے کے معنوں میں ترویہ لیا۔ اس کی ایک توجیہہ یہ بھی لکھی ہے کہ اس دن عازمین حج نماز ظہر کے بعد احرام باندھ کر منی کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور زادراہ کی خاطر پانی بھی ساتھ رکھتے ہیں۔  حضرات ابراہیم ؑنے خواب دیکھا جس میں حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔ صبح اٹھ کر آپؑ نے سوچا کہ کیا چیز قربان کی جائے کہ جس سے منشائے ایزدی پوری ہو جائے۔ آپؑ نے سوسرخ اونٹ قربان کر دیئے۔ دوسری رات پھر وہی خواب آیا۔ چنانچہ آپؑ نے پھر ایسا ہی کیا۔ واضح ہوکہ حجاز کی سرزمین پر سرخ اونٹ شروع ہی سے بڑا قیمتی رہا ہے جسے صرف چند مخصوص افراد استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ عام آدمی کی قیمت خرید سے باہر ہوتا ہے۔ اس دوسرے دن آپؑ نے جو قربانی پیش کی وہ ’’یوم عرفہ‘‘ تھا جس کے معنی ’’پہچاننے‘‘کے ہیں۔عر فہ نوذی الحج کا دن ہوتا ہے۔ اسی دن تمام عازمین حج عرفات کے میدان میں آتے ہیں جو حج کارکن اعظم ہے،


 یہاں کی حاضری خواہ چند ساعتوں کیلئے ہی سہی ، ضروری ہے ورنہ حج نہیں ہوتا۔ اس دن عازمین حج اپنے آپ کو مجرموں کی طرح رب کائنات کے حضور پیش کر کے اپنے گناہوں کا اعتراف بر ملا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے چونکہ عرفہ والی رات کو بھی یہ خواب دیکھا تھا۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپؑ نے اپنے پہلے دن والے خواب کو پہچان لیا تھا کہ یہ وہی خواب ہے جو کل دیکھا تھا۔ اسی دن فجر کی نماز سے تیر ھویں کی عصر تک تکبیر تشریق ہر فرض نماز کے بعد خواتین و حضرات پر چاہے وہ مقیم ہو یا مسافر ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہےمفسرین کرام    بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے جب خواب دیکھا   اس وقت حضرت اسمعیل ؑ کی عمر 13برس تھی۔ پیغمبران کرام کے خواب بھی وحی الہٰی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لئے بیٹے کی قربانی کے حکم کو وحی الٰہی جانتے ہوئے تسلیم کیا اور بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امرالٰہی کے لئے کس حد تک تیار ہے؟۔ انہی تمام صورتوں کا مجموعہ اللہ تعالیٰ نے حج کی شکل میں عطا فرمایا۔ شعائراللہ کی صورت میں انبیاءو مرسلین  کی مختلف یادگاروں کو مناسک حج میں قائم فرما دیا۔


جمعرات، 5 جون، 2025

سفیر امام ع حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ)

  


حضرت مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے فرزند تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو  حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں   حضرت مسلم بن عقیل حضرت امام حسین ؑ مدینے سے ہی آپ کے ہمراہ تھے ۔ مکے میں کوفیوں کے خطوط کی کثرت کو دیکھتے ہوئے امام نے عراق کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے حضرت مسلم کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ۔اگر وہاں کے حالات کوفیوں کے خطوط کی غمازی کرتے ہوں تو آپ کوفہ کی جانب سفر کریں گے ۔جناب مسلم بن عقيل امام حسين عليہ السلام كے خط كے ساتھ كوفہ ميں جناب مختار كے گھر پہنچے ،


 خط ميں امام حسين عليہ السلام نے جناب مسلم كو اپنا بھائي اور مورد اعتماد قرار ديا تھا ۔باطل نظام کے خلاف قیام کی جدوجہد میں عوامی رابطہ مہم کی ذمہ داری جس شخصیت کے ذمہ لگائی گئی وہ حضرت مسلم بن عقیل بن ابی طالب تھے۔ حضرت مسلم بن عقیل نے حقیقی اسلام کے سفیر کا کردار ادا کیا۔مسلم اور کوفہ -حضرت مسلم جب کوفہ پہنچے تو وہاں مختار بن ابی عبیدہ کے نام سے گھر میں ساکن ہوئے ۔شیعیان اس گھر میں آپ کو ملنے آتے۔ مسلم نے حضرت امام حسین کا خط انہیں پڑھ کر سنایا   ۔ابن عساکر کہتا ہے کہ 12000 افراد نے مسلم کے ہاتھ پر حضرت امام حسین کی بیعت کی  بعض نے بیعت کرنے والوں کی تعداد 18000 لکھی ہے   دیگر بعض نے 30000 افراد ذکر کی  ۔مسلم کی اس قدر حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے یزید کے جاسوسوں نے یزید کو خط میں کوفہ کے حالات لکھے اور کہا کہ حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کمزور ہے یا کمزوری کا اظہار کر رہا ہے اگر کوفہ چاہتے ہو تو بصرے کے موجودہ حاکم عبید اللہ کو کوفہ کا حاکم بنا دو پس یزید نے عبید اللہ کو کوفے کا حاکم مقرر کر دیا ۔ امام حسین ؑ کے نمائندے مسلم بن عقیل کی تلاش عبید اللہ کا پہلا اقدام تھا عبید اللہ نے کوفیوں ڈرانے اور لالچ دینے کے بعد "حر بن یزید ریاحی" کو سپاہیوں کے ہمراہ حضرت امام حسین ؑ کا راستہ روکنے کیلئے روانہ کیا نیز انہیں حکم دیا کہ حسین ؑ کو کسی ایسی جگہ پڑاؤ نہ ڈالنے دے جہاں پانی وغیرہ نہ ہو  


عبید اللہ کے کوفہ آنے پر مسلم بن عقیل مختار کے گھر سے نکل کر ہانی بن عروۃ کے گھر منتقل ہوئے جو کوفہ کے ایک بزگ شخصیت مانے جاتے تھے ۔ہر چند مسلم کے شیعیاں کوفہ سے روابط پوشیدہ تھے لیکن عبید اللہ کے ذریعے مسلم کی رہائشگاہ کا پتہ لگا لیا ۔لہذا اس نے ہانی کو اپنے قصر میں طلب کیا اور تقاضا کیا کہ وہ مسلم اس کے حوالے کر دے لیکن ہانی نے ایسا کرنے سے انکار کیا ۔ ہانی کی قصر میں حاضر طلبی کی وجہ سے قبیلۂ مذجج نے قصر کا گھیراؤ کر لیا لیکن عبید اللہ نے قاضی شریح کے ذریعے انہیں دھوکہ دے کر منتشر کر لیا ۔ کیونکہ وہ جس ہستی کے حکم پر مدینہ سے کوفہ کی طرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لئے روانہ ہوئے وہ ہستی (امام حسین ) دین اسلام اور شریعت محمدی ۖ کے دفاع اور تحفظ کے لئے کمربستہ تھی اور حضرت مسلم بن عقیل نواسہ رسول ۖ کے شانہ بشانہ اس جہاد میں شریک تھے اور اپنی شہادت کے ذریعہ واقعہ کربلا کی بنیادیں استوار کرگئے۔جس وقت كوفہ والوں كو جناب مسلم كے آنے كي خبر ملي تو ۱۸ہزار افراد نے آكر جناب مسلم كے ہاتھوں پر بيعت كي ، اور جب جناب مسلم كو ان كي باتوں پر اطمينان ہو گيا تو آپ نے امام حسين عليہ السلام كو خط لكھا كہ ۱۸ ہزار اہل كوفہ نے آپ كے نام پر ہمارے ہاتھوں پر بيعت كر لي ہے لہذا خط ملتے ہي آپ كوفہ كے لئے روانہ ہو جائيں ۔ 



امويوں نے جناب مسلم كے اس عظيم استقبال كو ديكھتے ہوئے يزيد كو خط لكھا كہ اگر كوفہ بچانا چاہتے ہو تو كسي لائق والي كو يہاں بھيجو ۔ چنانچہ يزيد نے عبيداللہ بن زياد كو كوفہ كا والي مقرر كيا اور وہ بصرہ سے كوفہ آيا اور لوگوں كو ڈرانا دھمكانا شروع كيا جس كي وجہ سے اہل كوفہ نے جناب مختار كي حمايت كم كر دي اور جيسے جيسے عبيداللہ كا منحوس سايہ اہل كوفہ پر پڑتا گيا جناب مسلم كے حامي كم ہوتے گئے ۔جب عبيداللہ نے ڈرا دھمكا كر اہل كوفہ كو مسلم سے دور كر ديا تو جناب مسلم كي تلاش شروع كي اور جناب مسلم كا پتہ بتانے والے كو انعام و اكرام سے نوازنے كا وعدہ كيا ۔ جناب مسلم كے ميزبان ہاني بن عروہ كو دار الامارہ ميں بلا كر سزا دي ۔ جناب مسلم نے چار ہزار افراد كے ساتھ دارالامارہ كا محاصرہ كيا ليكن عبيداللہ كي سازشوں كي وجہ سے لشكر كے درميان پھوٹ پڑ گئي اور لوگ جناب مسلم كا ساتھ چھوڑنے لگے يہاں تك كہ نماز مغرب و عشاء كے بعد جناب مسلم تنہا ہو گئے ۔


آخر كار كوفہ كي گليوں ميں عبيداللہ كے سپاہيوں سے مقابلہ ہوا اور جناب مسلم نے تنہا ۴۱ سپاہيوں كو واصل جہنم كيا ليكن پياس كي شدت اور شديد زخموں كي وجہ سے مقابلے كي تاب نہ لا سكے ۔ ايك سپاہي نے پيچھے سے نيزہ مارا آپ زمين پر گر پڑے ۔ لشكر والوں نے آپ كو گرفتار كر ليا اور دارالامارہ لے گئے ، عبيداللہ بن زياد نے حكم ديا كہ آپ كو دارالامارہ كي چھت سے نيچے پھينك ديا جائے جس سے آپ كي شہادت واقع ہو گئي اس كے بعد ابن زياد نے جناب ہاني بن عروہ اور جناب مسلم رضوان اللہ عليھم كے سر اقدس كو يزيد كے پاس بھيج ديا ۔ "آپ كي شہادت ۹ ذي الحجہ سن ۶۰ ہجري ميں واقع ہوئي ۔ آپ كي شہادت سے ايك دن قبل امام حسين عليہ السلام نے كوفہ كے ارادہ سے مكہ كو چھوڑا اس لئے آپ كو شہادت كي خبر راستے ميں ملي ۔ جس وقت امام حسين عليہ السلام نے جناب مسلم اور جناب ہاني كي شہادت كي خبر سني تو آپ نے كئي مرتبہ يہ آيت پڑھي "" انا للہ وانا اليہ راجعون"" اور جناب مسلم كے حق ميں دعا كي- 

منگل، 3 جون، 2025

مشعل اوباما- علم کی جھلملاتی قندیل



   مشعل اوباما- علم کی جھلملاتی قندیل مشعل   اوبامہ  وہائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے صرف امریکی خواتین کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام  خواتین کے لئے اپنے نقش قدم چھوڑ گئ ہیں  اور اس کے علاوہ ان کی تحریریں ان لاکھوں دلوں میں   روشن  قندیل کی  مانند  جھملاتی رہیں گی  جو خواتین ان سے رہنمائ چاہیں گی -جی ہاں  یہ پیشورانہ لحاظ سے وکیل ہیں' ایک خاتون خا نہ ہیں جو اپنے شوہر اور اپنے گھر بار پر اور بچوں پر بھرپور توجہ دیتی ہیں-سماجی تقریبات ہوں یا خاندانی سلسلے یہ آپ کو ہر جگہ ایکٹیو نظر آئیں گی لیکن انکی سب  سے بڑی خوبی ان کی تحریریں  ہیں جن کو یہ کتابی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں   - مشعل اوبامہ جن کی پہلی  کتاب نے  کسی بھی لکھاری کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دئے ہیں- اور یہ پہلی کتاب  ان کی لائف کی بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ اس کتاب کی دنیا بھر میں 17 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔  سابق خاتون اول مشعل اوباما نے دنیا میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور قوموں کے نئے بحرانوں کے حوالے سے ایک اور کتاب 'دی لائٹ وی کیری' لکھی۔ اس کتاب کا اعلان انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے کیا۔ سابق خاتون اول نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ان کی پہلی کتاب کے بعد دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ بہت سے بحرانوں کے علاوہ ایک عالمی وبا کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 


ان تمام وجوہات کی وجہ سے ہم کمزور ہو چکے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کا سامنا کیسے کریں؟ اپنے خوف کا سامنا کیسے کریں؟ اپنی مایوسی اور پریشانی کو مثبت انداز میں کیسے ہینڈل کریں۔ مشعل نے اس ویڈیو میں اپنی کتاب کے بارے میں کہا کہ یہ ایک ٹول باکس کی طرح ہوگی۔ مشعل کی دوسری کتاب کا ٹائٹل 'دی لائٹ وی کیری' ہے۔ یہ کتاب 15 نومبر سے کتابوں کے شائقین کے لئے تھی۔مشعل اوباما کی پہلی کتاب 2018 کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کے طور پر درج کی گئی تھی، جس کی دنیا بھر میں تقریباً 17 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کی اہلیہ اور امریکی تاریخ کی پہلی سیاہ فام خاتون اول، 54 سالہ مشیل اوباما نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے مصنوعی حمل کے ذریعے اپنی بیٹیوں کو جنم دیا۔مشیل اوباما نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں اپنی شادی کے ابتدائی سالوں کے بعد حاملہ ہونے میں مشکل پیش آئی تھی۔


 سابق امریکی خاتون اول کے مطابق حمل ضائع ہونے کے بعد ان کے شوہر براک اوباما نے انہیں بچے پیدا کرنے کے لیے ’ان وٹرو فرٹیلائزیشن‘ (IVF) کی تکنیک کا سہارا لینے کا مشورہ دیا۔خبر رساں ایجنسی 'ایسوسی ایٹڈ پریس' (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق مشعل اوباما نے اپنی آنے والی کتاب میں نہ صرف اپنی بیٹیوں کی پیدائش کے حوالے سے اہم انکشافات کیے ہیں بلکہ کئی دیگر معاملات پر بھی کھل کر بات کی ہے۔20رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشیل اوباما نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ جب وہ 33 یا 34 سال کی تھیں تو ان کا حمل ضائع ہوا، جس کے بعد انہوں نے آئی وی ایف کی مدد سے لڑکیوں کو جنم دینے کا فیصلہ کیا۔ مشیل اوباما نے یہ اعتراف اپنی آنے والی کتاب میں کیا ہے۔ سابق خاتون اول نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے شوہر کے مشورے پر IVF کے ذریعے اپنی دونوں بیٹیوں کو جنم دیا۔ 


واضح رہے کہ آئی وی ایف کے لیے بچوں کو دوبارہ پیدا کرنے کا عمل مصنوعی طریقے سے کیا جاتا ہے، اس کے لیے ماں کے رحم سے انڈوں کو نکال کر لیبارٹری میں والد کے سپرم کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ دونوں کے ملاپ کے صرف ایک ہفتے کے اندر حمل پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد حمل کو دوسری  ۔ مشیل اوباما نے  کے ذریعے جن بیٹیوں کو جنم دیا تھا ان کی عمریں اب 17 اور 20 سال ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی مالیہ کی عمر 20 سال ہے جبکہ چھوٹی بیٹی ساشا کی عمر 17 سال ہے۔ مالیا اور ساشا کی پیدائش کے بعد انہوں نے اپنی تمام توجہ بیٹیوں کی تعلیم تربیت پر رکھی  -مشیل اوباما نے 1992 میں سابق امریکی صدر براک اوباما سے شادی کی، لیکن ان کا رشتہ 1980 میں شروع ہوا، جب وہ طالب علم تھیں۔


 مشعل اوباما ریاستہائے متحدہ کی 44 ویں خاتون اول اور پہلی سیاہ فام خاتون اول تھیں۔ ان کے شوہر 59 سالہ باراک اوباما امریکہ کے پہلے سیاہ فام اور 44ویں صدر منتخب ہوئے۔ باراک اوباما پہلی بار 20 جنوری 2009 اور دوسری بار 2013 میں امریکی صدر منتخب ہوئے اور وہ 20 جنوری 2017 تک خدمات انجام دیتے رہےریٹائرمنٹ کے بعد سابق امریکی صدر نے اوباما فاؤنڈیشن کے نام سے ایک سماجی تنظیم قائم کی جس کے تحت دنیا بھر میں صحت، تعلیم، خواتین کی خود مختاری اور غربت کے خاتمے کے لیے منصوبے جاری ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں قیام کے دوران سابق صدر کی بیٹیاں میڈیا کی توجہ کا مرکز رہیں  -مشعل اوباما کی یادداشتیں جلد شائع ہونے والی ہیں، جس میں انہوں نے امریکی خاتون اول کے طور پر اپنے بچپن، شادی اور واقعات کے بارے میں بھی لکھا۔ مشعل اوباما نے اپنی کتاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کی اہلیہ مشعل اوباما کی سوانح عمری 'بیکمنگ' نے رواں سال صرف 15 دنوں میں امریکا میں شائع ہونے والی تمام کتابوں کی فروخت کا ریکارڈ توڑ دیا  ہے -میری دعاء ہے کہ اللہ تعالٰی  ان کے قلم کو یوں ہی رواں دواں رکھے آمین ہے-


تحریر و تلخیص بقلم خود     




اتوار، 1 جون، 2025

قدرت کبھی خاموش نہیں رہتی ہے

 

 نظام قدرت ہے کہیں سمندر میں جوار بھاٹا ہے تو کہیں دریا اپنے رخ بدل رہے ہیں  تو کہیں بلند و بالا پہاڑ اپنی جگہ سے سرک رہے ہیں  میں نے ابھی حال ہی میں  انٹر نیٹ پر  ایک وڈیو دیکھی جس میں دکھایا جا رہا ہے کہ  سوئٹزرلینڈ کی ایک پوری بستی کیسے  دنیا کے  نقشے سے اچانک غائب ہو رہی ہے۔یہ  سانحہ سوئٹزرلینڈ کے جنوب میں واقع خوبصورت پہاڑی بستی "بلاتن"میں پیش آیا ۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، وادی "بِرش" کے گلیشیئر میں شدید دراڑیں اور کمزوری پیدا ہونے کے بعد برف اور مٹی کی  چٹانوں کا ایک عظیم تودہ اچانک نیچے آ گرا، جس نے بلاتن گاؤں کے ہر گھر کو  مکمل طور پر اپنے نیچے دفن کر دیا۔ یہ تودہ کئی میٹر موٹا اور دو کلومیٹر سے زیادہ لمبا تھا۔خوش قسمتی سے، مقامی حکام نے جدید سرویلیئنس سسٹمز کے ذریعے زمین میں پیدا ہونے والی دراڑوں اور ممکنہ خطرے کو پہلے ہی محسوس کر لیا تھا، جس کے باعث حادثے سے دو دن قبل ہی گاؤں کے تمام مکینوں کو بحفاظت منتقل کر لیا گیا۔فرانسیسی روزنامے "لوباریزیان" نے اس المیے کو ایک "غیر معمولی قدرتی سانحہ" قرار دیا ہے۔ -اس سانحہ میں انسانی جانوں کا زیاں اس لئے نہیں ہوا کہ سوئس حکومت نے اپنے شہریوں کو وہاں سےپہلے ہی بحفاظت نکال  لیا تھا 


 ماحولیاتی ماہر رافائیل لودووِک کے مطابق، اس پیمانے کا واقعہ شاذ و نادر ہی دیکھا جاتا ہے، وہ بھی صرف ہمالیہ یا اینڈیز جیسے پہاڑی سلسلوں میں، نہ کہ یورپ کے قلب میں واقع الپس جیسے نسبتاً مستحکم پہاڑی سلسلے میں۔ لودووِک نے مزید انکشاف کیا کہ  گلیشیئر کی چوٹی میں غیر معمولی دراڑیں اور جھکاؤ نوٹ کیا گیا تھا، جو بالآخر اس ہولناک سرکنے کا سبب بنا۔خطرے کی دوسری لہر؟ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ پہاڑ سے نیچے آنے والی چٹانوں اور برف نے دریائے "لونزا" کو تقریباً دو کلومیٹر تک بند کر دیا ہے، جس سے وہاں ایک مصنوعی جھیل بن چکی ہے جو مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔ اگر اس جھیل کو قابو میں نہ رکھا گیا تو اس کے پھٹنے سے ایک تباہ کن مٹی اور پانی کا سیلاب آسکتا ہے۔ سوئس حکام نے فوری طور پر فوج اور سول ڈیفنس کی ٹیموں کو متحرک کر دیا ہے تاکہ وہ مصنوعی جھیل سے پانی نکالنے کے لیے پمپوں اور پائپوں کے ذریعے کام کر سکیں۔


لودووِک نے کہا: "جیسے جیسے برف پگھلے گی، پانی کی مقدار بڑھے گی اور اگر نکاسی کا مؤثر بندوبست نہ ہوا تو وادی کے نچلے علاقے شدید طوفانی سیلاب کی زد میں آ سکتے ہیں۔"ماحولیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات -ماہرین کے مطابق، اس سانحے کی جڑیں "کلائمٹ چینج" یعنی ماحولیاتی تبدیلی سے جا ملتی ہیں۔ الپس میں گہرائی تک جما ہوا برفانی جُبہ(permafrost) تیزی سے پگھل رہا ہے، جس کی وجہ سے پہاڑوں کی ساخت کمزور ہو رہی ہے۔ ایسے میں چٹانوں کے سرکنے اور گلیشیئرز کے ٹوٹنے جیسے واقعات مستقبل میں مزید بڑھ سکتے ہیں۔ ماہرین نے فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک کو بھی خبردار کیا ہے۔ رافائیل لودووِک کے مطابق "ہم فرانس کے الپائن علاقوں میں بھی عدم استحکام کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، گزشتہ نومبر میں فرانس کے وانویز سلسلے میں ''مونٹ بوری'' نامی پہاڑ سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر لمبا تودہ گرا تھا، جس میں سینکڑوں ٹن چٹانیں نیچے آ گریں۔"


-اب یہ دوسری  کہانی ہے جس کا تعلق پاکستان سے ہے   

عطا آباد بالا کے پہاڑوں پر جب دراڑیں بہت واضح ہو گئیں تو حکومت نے اس گاؤں کے رہائشیوں کو دسمبر دو ہزار نو کے شروع میں جھیل والے حصے کو شدید خطرناک قرار دے کر وہاں کے رہائشیوں کو دوسری جانب منتقل ہونے کو کہا تاہم حکومت نے عطا آباد پائن کو محفوظ قرار دے دیاسنہ دو ہزار نو کے وسط میں عطا آباد بالا کے رہائشیوں نے حکومت پاکستان اور فوکس پاکستان سے دوبارہ کہا کہ پہاڑ سرک رہا ہے اور شگاف بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔عطا آباد بالا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ چٹانیں سرکنے کا عمل جاری رہا اور دراڑیں مزید گہری اور بڑی ہوتی گئیں۔چار جنوری کو عطا آباد بالا کے دائیں ہاتھ پر پہاڑ کا پورا حصہ سرکا نہیں بلکہ سیدھا دریائے ہنزہ میں آ گرا۔ عطا آباد کے سامنے سے دریائے ہنزہ کی چوڑائی کم ہے۔ 


پہاڑ جب نیچے دریا میں گرا تو اس کا ملبہ زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ ہوا میں اچھلا اور یہ ملبہ عطا آباد پائن پر جا گرا جو عطا آباد بالا سے درے نیچا تھا اور اس عمل کے نتیجے میں وہاں انیس ہلاکتیں ہوئیں۔ کیونکہ  ہماری حکومت نے رہائشیوں کی جانوں کی حفاظت سے چشم پوشی برتی -عطا آباد پائن وہی گاؤں ہے جس کو حکومت نے محفوظ قرار دیا تھا تاہم اب جھیل بن جانے کے بعد اب عطا آباد بالا اور عطاآباد پائن دونوں ایک ہوچکے ہیں۔عطا آباد بالا کے ایک رہائشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’سنہ دو ہزار نو میں پوزیشن یہ ہو گئی تھی کہ کھیتوں کو پانی دو تو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ پانی کہاں گیا۔ ہماری زمین ناہموار ہو گئی تھی۔‘ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ زمین ’ناہموار‘ سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا کہ انکے  کھیت کی زمین ایک جگہ سے اوپر ہو گئ  اور تھا اس کے ساتھ کا حصہ نیچے ہو گیا۔ ’کئی جگہوں پر تو ایسا لگ رہا   تھا جیسے سیڑھیاں بنی ہوں۔‘یہ مصنوعی جھیل عطا آباد بالا کے قریب بنی تھی جوقدرے اونچائی پر ہے، جبکہ عطا آباد پائن نیچے کی جانب ہےپہاڑ گرنےاور ملبے کا زمین پرگر کر اچھلنے کو گلگت بلتستان کی انتظامیہ ’سپلیش‘ کا نام دیتے ہیں


تحریر و تلخیص  بقلم خود

ہفتہ، 31 مئی، 2025

فن لینڈ کی خوشحالی کا کیا راز ہے

 


 فن لینڈ   کی خوشحالی کا کیا راز  ہے؟آ ئیے جانتے ہیں ' پالیسی ساز ریاست خوشحال معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔‘مسلسل ساتویں سال فن لینڈ دنیا کے خوشحال ترین ممالک میں سرفہرست ہے۔ ساتھ ہی یہ دنیا کے محفوظ ترین ممالک کی فہرست میں 13ویں نمبر پر براجمان ہے۔ورلڈ ہیپی نیس‘ رپورٹ میں فن لینڈ کو مسلسل چھ برسوں تک دنیا کا سب سے زیادہ خوشحال ملک قرار دیا گیا ہے۔فن لینڈ کو خوشحال ملک اس لیے قرار نہیں دیا جاتا کہ وہاں کے لوگ ہر وقت مسکراتے رہتے ہیں یا اُنہیں کبھی کوئی پریشانی پیش نہیں آتی، فن لینڈ اس لیے بھی خوشحال ملک قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ وہاں کے عوام کو اعلیٰ معیار کی جمہوریت اور معاون عوامی اداروں سے عوام دوست پالیسیز حاصل ہیں۔فن لینڈ میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک غیر ملکی طالبِ علم محمد الاسلام نے دنیا کے خوشحال ترین ملک سے متعلق بات کی ہے۔محمد الاسلام  نے 2016ء سے 2019ء تک فن لینڈ کے ایک اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ظالب علم کے مطابق فن لینڈ کی حکومت اور اُن کی جانب سے بنائی گئی عوام دوست پالیسیاں ملک میں خوشحالی میں کتنی  مددگار ہیں۔


طالبِ علم محمد الاسلام کی گفتگو سے ظاہر تھا کہ اُس نے کتنی راحت اور پرسکون زندگی کا تجربہ کیا ہے۔ محمد الاسلام کا کہنا ہے کہ فن لینڈ کے لوگ عام طور پر اپنے پڑوسیوں پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اُنہیں بھی پُراعتماد اور پرسکون محسوس کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔طالبِ علم کے مطابق اُس نے کبھی سڑک پر کھڑے ہوئے اپنے لیے کسی دوسرے کی آنکھوں میں اجنبیوں والی غیریقینی کی سی کیفیت یا بدنیتی پر مبنی ارادے محسوس نہیں کیے، اُس نے وہاں خود کو ہر طرح سے آزاد محسوس کیا، اُس نے محسوس کیا کہ یہاں وہ کسی بوجھ یا ذبردستی کے بغیر اپنی سیاسی رائے (مثبت یا منفی) کا آزادانہ اظہار کر سکتا ہے۔فن لینڈ کے عوام بھی اپنے مقامی سیاست دانوں پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں، وہاں انتخابات کا عمل بہت پرسکون ماحول میں آزادانہ ہوتا ہے۔طالبِ علم کا بتانا ہے کہ فِن لینڈ کی سب سے اچھی بات اُنہیں یہ لگی کہ وہاں کا تعلیمی نظام بالکل مفت ہے، انہوں نے فن لینڈ میں 2016ء میں اسکول شروع کیا تھا، اس لیے اُنہیں اور دیگر بین الاقوامی طلبہ کو مفت تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تھا جبکہ 2017ء میں پالیسی میں تبدیلی کے بعد بعض طلبہ کو ٹیوشن فیس ادا کرنا پڑ سکتی ہے جو کہ ہر اسکول کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔



طالبِ علم نے بتایا کہ مفت تعلیم اُن کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی مگر اُنہیں اپنی رہائش اور کھانے پینے کے اخراجات خود اٹھانے تھے جس کے لیے نوکری ڈھونڈنے میں اُنہیں تھوڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔طالبِ علم نے بتایا کہ انہوں نے وہاں ایک صحت سے متعلق پالیسی بھی خرید لی تھی اور صحت کی مفت خدمات بھی حاصل کی تھیں۔فن لینڈ کے سابق طالبِ علم کا کہنا ہے کہ اِس ملک میں رہتے ہوئے تحفظ کا زبردست احساس ہی فن لینڈ کو خوشحال بناتا ہے۔محمد الاسلام کے مطابق فن لینڈ کی خوشحالی کے پیچھے وسیع فلاحی پالیسیاں بھی ہے جو پیدائش سے لے کر قبر تک بہت سی بنیادی ضروریات کا احاطہ کرتی ہیں اور رہائشیوں کو تحفظ کا اعلیٰ احساس فراہم کرتی ہے۔محمد الاسلام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں عوام کو اپنی خوشی اور بہتر زندگی کے لیے مکمل طور پر خود ذمہ دار نہیں ہونا چاہیے، پالیسی ساز ریاست خوشحال معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔‘عالمی دہشتگردی کے انڈیکس میں اس کا 89واں نمبر ہے جو اس فہرست میں نچلے درجے کی نشاندہی کرتا ہے۔



اگرچہ یہ دنیا کے محفوظ ترین ملک میں سے ایک ہے لیکن اس کے باوجود پُرتشدد انتہاپسندی پر قابو پانا فن لینڈ کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔انتہاپسندی روکنے کا فن لینڈ کا پہلا نیشنل ایکشن پلان 2012ء میں تیار کیا گیا جبکہ اس کا دوسرا ورژن 2016ء میں ڈرافٹ کیا گیا تھا۔ بیرونی مشاہدین نے اس کا جائزہ لیا اور 2019ء میں تشخیصی رپورٹ شائع ہوئی۔ منصوبے کے مقاصد میں پُرتشدد انتہاپسندی کو کم کرنا اور اس سے لاحق خطرات، مساوات، آزادی اظہار، دیگر آئینی حقوق کے نفاذ کو فروغ دینا، نفرت انگیز جرائم کا پتا لگانا اور ان کی تحقیقات کرنا شامل تھا۔فن لینڈ کی وزارت داخلہ اب پُرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کی ذمہ دار ہے اور وہ نیشنل کوآپریشن نیٹ ورک کی قیادت بھی کرتی ہے جبکہ فن لینڈ کی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس سروس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پولیس اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔ فن لینڈ کا یہ منصوبہ، معاشرے کی سمت کا تعین کرنے اور پُرتشدد انتہاپسندی کے حوالے سے رائے عامہ اور رویوں کو متاثر کرنے والی اقدار کی وضاحت کرنے میں سیاست دانوں کے اثرورسوخ کا بھی معترف ہے۔



ہر سال یو این او کی سرپرستی میں دنیا بھر کا سروے کیا جاتا ہے اور پھر اس کی سالانہ رپورٹ شائع کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سات برس سے یورپ کا ایک چھوٹا ملک فن لینڈ خوش ترین ملک کا اعزاز حاصل کر رہا ہے۔ یہ پڑھ کر مجھے تجسس ہوا کہ میں فن لینڈ کی خوشی کا راز کیا ہے؟یو این او کے سروے کے تحت جو معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اُن میں دیکھا جاتا ہے کہ وہاں اوسط عمر کیا ہے۔ خوشحالی اور سوشل سکیورٹی کتنی ہے۔ لوگوں کو کتنی فریڈم حاصل ہے۔ اس فریڈم میں سیاسی‘ صحافتی‘ سماجی اور ذاتی آزادی سب شامل ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم کیا جاتا ہے کہ ملک میں گورننس کیسی ہے اور کرپشن کتنی ہے۔فن لینڈ خوشحال ہے مگر دنیا کے پہلے بیس امیر ترین ممالک میں اس کا شمار نہیں ہوتا۔ فن لینڈ ایک ویلفیئر سٹیٹ ہے۔ اس کی آبادی صرف 55 لاکھ ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی 56 ہزار ڈالر ہے۔ یہاں کے باسیوں کی خوشی کا ایک نہیں‘ کئی رازہیں۔ فن لینڈ میں کسی شہری کو بے بسی کا ہرگز کوئی احساس نہیں ہوتا۔ لوگوں کی آمدنی اور قیمتوں کے درمیان کوئی بڑا تفاوت نہیں۔ یہ نہیں کہ راتوں رات گیس چھ سو فیصد بڑھا دی جائے۔ اگر کسی شخص کو اپنے شعبے کا کام نہیں ملتا تو حکومت اسے نہایت معقول وظیفہ دیتی ہے۔ یو این او کے مقرر کردہ خوشحالی اور خوشی کے تمام معیارات پر فن لینڈپورا اترتا ہے۔ اس ملک کے خوش ترین ہونے کے رازوں تک رسائی حاصل کرتے کرتے بعض دلچسپ انکشافات بھی ہمارے سامنے آئے ہیں۔ بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ فن لینڈ میں مقبولِ عام 'سونا باتھ‘ وہاں کے شہریوں کی خوشی میں بڑا بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ فن لینڈ میں جھیلیں اور جنگل بہت ہیں۔ یہاں 40 نیشنل پارک ہیں۔ لوگ سیرو سیاحت اور قدرتی  مناظر کے دلدادہ ہیں فضائ آلودگی کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ غرض یہ کہ فن لینڈ ایک  بے پناہ خوبصورت  ملک ہے  جس کے  دامن آنے والا ہر شہری اپنے آپ کو پُرسکون محسوس کرنے لگتا ہے

 

جمعہ، 30 مئی، 2025

جدید تعلیم میں سیلانی ویلفئر مددگار

 



ایک طرف جہاں تعلیمی معیار کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے وہیں انتظامی امور کے لئے بھی تعلیمی ادارے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ اسکول کی سطح پر ایسا سافٹ ویراستعمال کیا جارہا ہے۔ جس کی مدد سے طالب علم کے داخلے سے لے کر اس کے اسکول چھوڑنے تک تمام ریکارڈ ایک داخلہ نمبر کے ساتھ محفوظ ہوتا ہے۔ طلبا کے پروگریس کارڈ اور امتحانی پرچے اور ماڈل پیپر وغیرہ بھی کمپیوٹر کی مدد سے تیار کئے جارہے ہیں۔ مجموعی طور پر تعلیم کے فروغ میں ٹیکنالوجی اہم رول ادا کر رہی ہےسیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے بانی و چیئرمین مولانا بشیر فاروقی قادری کے مطابق سیلانی ٹرسٹ ملک بھر میں ایک کروڑ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے پرعزم ہے اور ٹرسٹ نے میگا آئی ٹی ٹیسٹ کی تقریبات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہےجس کے دوران ہاکی اسٹیڈیم کراچی میں حال ہی میں ایک اور میگا آئی ٹی ٹیسٹ اور ایس ایم آئی ٹی پروگرام کے تحت انتظامات کے لیے منعقدہ تقریب میں سندھ کے گورنر نے بھی شرکت کی۔جس میں سیلانی ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی قادری نے کہا کہ ملک کی ترقی کا انحصار آئی ٹی کی تعلیم کے حصول میں ہے اور سیلانی ٹرسٹ اس سلسلے میں مصروف عمل ہے


 اور ٹرسٹ 2035 تک پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے سرگرداں ہے جس کے تحت ہی ملک بھر میں آئی ٹی ٹیسٹ ہو رہے ہیں جہاں بلامعاوضہ ٹرسٹ آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے اور حالیہ ٹیسٹ میں بھی دس ہزارنوجوانوں کے ٹیسٹ لیے گئے ہیں۔موجودہ دور آئی ٹی کا دور ہے جس کی اہمیت کو پاکستان سے پہلے بھارت نے تسلیم کیا تھا جس کے تحت انٹرنیٹ کے سلسلے میں دنیا بھر میں ایک عالمی طاقت بن کر ابھرا ہے جس کے مقابلے میں آئی ٹی کی اہمیت کو دیر سے تسلیم کیا گیا جس کی وجہ سے ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے اور حکومتوں کی طرف سے آئی ٹی کی تعلیم پر دیر سے توجہ دی گئی۔ اب حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ کی تعلیم دینے کے لیے جو اقدامات ہوئے وہاں ملک کے نجی اداروں نے بھی ملک کے بچوں کو آئی ٹی کی تعلیم کے حصول پر راغب کیا جن میں ملک میں ایک بہت بڑا فلاحی ادارہ سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ ہے جہاں بلا معاوضہ آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرکے نوجوان میدان میں آنا شروع ہوگئے ہیں اور لاکھوں روپے ماہانہ کمانے لگے ہیں، جو کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔


سیلانی آئی ٹی پروگرام سے منسلک ہزاروں نوجوانوں نے عہد کیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک سے حاصل کردہ اپنی آمدنی کو پاکستان میں ترسیلات زر کی شکل میں لائیں گے تاکہ ملک کے کروڑوں ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی میں مدد دے سکیں، موہٹہ پیلس میں سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے تحت آئی ٹی تربیتی پروگرام کے گریجویٹس کے پہلے اجتماع کا انعقاد کیا گیا ،تقریب کے مہمان خصوصی محمد علی ٹبہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا اقتصادی بحران آئی ٹی پروفیشنلز کی تیاری سے ختم ہوسکتا ہے، حکومت پرائیویٹ سیکٹر اور غیر منافع بخش اداروں کے آئی ٹی پروگراموں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرے،،بینکار یوسف حسین، تاجر عارف حبیب نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، مولانا بشیر فاروق قادری نے تقریب میں موجود آئی ٹی لرننگ پروگرام کے گریجویٹس کو اپنی نشستوں سے اٹھ کر عہد کرنے کی دعوت دی ۔تفصیلات کے مطابق سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے تحت فالکن سوسائٹی کے قریب بلوچ کالونی پل سے متصل جدید ترین عمارت میں زیتون اشرف آئی ٹی پارک قائم کردیا گیا ہے ۔


 زیتون اشرف آئی ٹی پارک کا افتتاح بدھ(کل)  سہ پہر ساڑھے تین بجے ہوگا۔گورنر سندھ کامران ٹیسوری افتتاح کریں گے ۔تقریب میں سیلانی کے بانی اور چیئرمین مولانا بشیر فاروق قادری کے علاوہ اہم کاروباری شخصیات بھی شرکت کریں گی سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے بانی و چیئرمین مولانا بشیر فاروقی قادری کے مطابق سیلانی ٹرسٹ ملک بھر میں ایک کروڑ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے پرعزم ہے اور ٹرسٹ نے میگا آئی ٹی ٹیسٹ کی تقریبات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے دوران ہاکی اسٹیڈیم کراچی میں حال ہی میں ایک اور میگا آئی ٹی ٹیسٹ اور ایس ایم آئی ٹی پروگرام کے تحت انتظامات کے لیے منعقدہ تقریب میں سندھ کے گورنر نے بھی شرکت کی۔جس میں سیلانی ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی قادری نے کہا کہ ملک کی ترقی کا انحصار آئی ٹی کی تعلیم کے حصول میں ہے اور سیلانی ٹرسٹ اس سلسلے میں مصروف عمل ہے اور ٹرسٹ 2035 تک پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے سرگرداں ہے جس کے تحت ہی ملک بھر میں آئی ٹی ٹیسٹ ہو رہے ہیں جہاں بلامعاوضہ ٹرسٹ آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے اور حالیہ ٹیسٹ میں بھی دس ہزارنوجوانوں کے ٹیسٹ لیے گئے ہیں۔


آئی ٹی میں نوجوانوں کا رجحان جس طرح تیزی سے بڑھ رہا ہے اس لحاظ سے کمرشل ادارے بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور من مانی فیسوں پر نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینے لگے ہیں مگر سیلانی ٹرسٹ کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو مفت میں آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے بلکہ اس کی ترجیح ہی آئی ٹی کی تعلیم زیادہ سے زیادہ نئی نسل کو فراہم کرنا ہے۔ ملک بھر میں طلبا اور طالبات کو آئی ٹی کی جدید تعلیم دینے کے لیے سیلانی ٹرسٹ نے مختلف انتظامات کر رکھے ہیں جہاں آئی ٹی کی تعلیم کے حصول کے خواہش مند تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔آئی ٹی کے تعلیم کا بڑھتا رجحان اب نئی نسل کی مجبوری بن چکا ہے اور لوگ آئی ٹی کی تعلیم کے سینٹروں کا رخ کر رہے ہیں جس کو دیکھ کر نوجوانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمرشل اداروں نے منہ مانگی فیسوں پر آئی ٹی کی تعلیم دینا شروع کر دی ہے جن کا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے اور ان کا اس سلسلے میں طریقہ معیاری نہیں۔سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ جو گزشتہ 20 سالوں سے زندگی کے 63 شعبوں پیدائش سے موت تک سہولیات فراہم کر رہا ہے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر