معدنی دولت سے مالا مال بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا مگر پسماندہ صوبہ ہے، جہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہونے کے باوجود عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔بلوچ عوام کی محرومیوں کی بنیادی وجوہات میں مقامی سیاست دانوں کی بے حسی، سرداری نظام اور وسائل کا غلط استعمال شامل ہیں۔مقامی سیاست دان عوامی فلاح و بہبود کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، آپ اندازہ لگا یئے کہ سوئ کے مقام سے گیس برامد ہوتی ہے جو تمام ملک کے طول عرض میں بھیجی جاتی ہے لیکن بلوچ عورت آج بھی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اس کا گٹھا سر پر رکھ کر لاتی ہے تب اس کے گھر کا چولہا جلتا ایسے میں احساس محرومی پیدا ہو گا کہ نہیں -دراصل سرداری نظام عوام کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے، اب آیئے دیکھتے ہیں کہ ریکوڈیک کیا ہے، اہم معدنی منصوبے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں تاہم بلوچستان میں اس منصوبےکو لے کر خدشات اور تحفظات ہیں۔ اس اربوں ڈالر کے منصوبے سے آخر یہ منصوبہ ہے کیا اور اس سے کیا فوائد اٹھائے جا سکتے ہیں؟ ریکوڈک پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع ایک اہم معدنی منصوبہ ہے، جس میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔خود اس صوبے کے اندر اس منصوبےکو لے کر خدشات ہیں تحفظات ہیں۔ اس اربوں ڈالر کے منصوبے سے کیا فوائد اٹھائے جاسکیں گے؟ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو ہر طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔لیکن غریب تر صوبہ ہے -حالانکہ یہاں تیل، قدرتی گیس، سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں
ء2024 میں ایک فزیبلٹی سٹڈی نے ریکوڈک میں 15 ملین ٹن تانبے اور 26 ملین اونس سونے کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔وزیر برائے توانائی پیٹرولیم ڈویژن علی پرویز ملک نے گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کو بتایا کہ ریکوڈک سے پہلے مرحلے میں پیداوار 2028 میں شروع ہوگی جوکہ سالانہ سونے کی تین لاکھ اونس اور تانبے کی دو لاکھ ٹن ہوگی۔ دوسرے مرحلے میں پیداوار 2034 میں شروع ہوگی جو کہ سالانہ سونے کی بڑھ کر پانچ لاکھ اونس اور تانبے کی چار لاکھ ٹن ہو جائے گی۔سعودی کمپنی منارہ ریکوڈک میں سرمایہ کاری کر سکتی ہے: پاکستانی وزیر-سعودی عرب کی ریکوڈک مں ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری کا امکان: میڈیا-ریکوڈک سے بندرگاہ تک آمدورفت کی سکیورٹی یقینی بنائیں گے: حکومت ریکوڈک معاہدہ: ’بلوچستان کے لیے 25 فیصد حصہ قابلِ قبول نہیں‘یہ پاکستان میں سب سے بڑا مغربی سرمایہ کاری کا منصوبہ ہو گا اور اس سے موجودہ مائن پلان کی تقریباً 37 سالہ زندگی میں 75 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی مفت کیش فلو پیدا کرنے کی توقع کی گئی ہے۔
یہ اعداد و شمار حقیقی کیش فلو پر مبنی ہیں، جو محتاط ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر مفت کیش فلو 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی پیداوار بھی کر سکتا ہے۔اس وقت کینیڈا کی بیرک گولڈ کارپوریشن حکومت پاکستان کے اشتراک سے اس منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ حکومت پاکستان کے پاس اس کے 25 فیصد حصص ہیں۔ایک اہم حالیہ پیش رفت سعودی عرب کے ریاستی سرمایہ کاری کے فنڈ، منارا منرلز، کی بظاہر دلچسپی ہے۔ اس کی طرف سے ریکوڈک منصوبے میں 10-20 فیصد حصص حاصل کرنے کی توقع ہے۔بلوچستان کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے یقینی بنایا کہ صوبے کی ترقی کے لیے وہاں کام کرنے والی کمپنی صوبائی حکومت کو پہلے سال 50 لاکھ ڈالر جبکہ دوسرے سال 75 لاکھ ڈالر قبل از وقت رائلٹی کی ادائیگی کرے گی جو تیسرے سال اور اس کے بعد تجارتی پیداوار تک ایک کروڑ ڈالر سالانہ کی ہو گی۔
وفاقی حکومت کے علاوہ بلوچستان حکومت کا بھی 25 فی صد حصہ ہو گا، ٹیکس اور رائلٹی کی مد میں دیگر معاشی فوائد بھی ملیں گی۔بلوچستان کی حکومت کو پانچ فیصد رائلٹی کی ادائیگی ہوا کرے گی۔ملازمتوں کی مد میں بھی بلوچستان کو کافی فائدہ متوقع ہے۔ منصوبے کے عروج کے دوران لازمتیں پیدا ہوں گی۔حکومتی بیان کے مطابق فی الحال ریکوڈک مائنگ کمپنی کے ملازمین میں 77 فیصد بلوچستان سے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فوائد پہنچانے کے لیے دیگر مختلف اقدامات کیے گئے ہیں: جس کے ذریعے علاقے میں صحت، تعلیم اور دیگر انفراسٹرکچر پر کام جاری ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ مقامی طلبہ کو بھی سکالر شپس بھی فراہم کی جا رہی ہیں-حکومت کی ان سکیموں کا بظاہر مقصد مقامی افراد کو اس اہم منصوبے کا شراکت دار بنانا اور وسائل کے غلط استعمال کے بارے میں شکوک و شبہات دور کرنا ہے۔
ایک تجویز یہ بھی دی جا رہی ہے کہ اس منصوبے سے ملنے والی آمدن میں بلوچستان کے حصے کا 75 فیصد اس کے اردگرد اضلاع پر ہی خرچ کیا جائے۔وفاقی حکومت کا اصرار ہے کہ ریکوڈک منصوبے میں جائز تقسیم اور جواب دہی کو یقینی بنانے کے لیے ایک مضبوط نگرانی کا طریقہ کار موجود ہے۔ریکوڈک مائننگ کمپنی کی نگرانی ایک بورڈ کے ذریعے کی جاتی ہے جس کی صدارت بلوچستان کے چیف سیکرٹری کرتے ہیں، جس میں سیکرٹری معدنیات اور دیگر وفاقی ریاستی اداروں کے نمائندے شامل ہیں۔یہ بورڈ منصوبے کی ترقی جانچنے کے لیے سہ ماہی اجلاس منعقد کرتا ہے اور شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔بس اب دیکھنا ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی ادائگی کیسے ہوتی ہے
مضمون انٹرنیت کی مدد سے لکھا گیا