ٹک ٹاک کے جنون میں حال ہی میں امریکہ میں ایک 10 سال کی بچی کی موت واقع ہو گئ - 10 سال کی بچی ٹک ٹاک کے مشہور زمانہ چیلنج ہیش ٹیگ بلیک آؤٹ کا حصہ بنی۔ ٹک ٹاک بناتے ہوئے موت کے منہ میں جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس چیلنج میں لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنا گلا دبا کر اپنی سانس کو اس حد تک بند کریں کہ وہ بے ہوش ہو جائیں۔اسی چیلنج کو پورا کرنے کی کوشش کی 10 سال کی بچی نے اور اس حد تک اپنا گلا دبایا کہ جان سے گزر گئی۔ پاکستان میں اس سے قبل بھی ٹک ٹاک بناتے ہوئے کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ٹک ٹاک کمپنی نے کہا ہے کہ صارفین کے تحفظ کے لیے ہم ایسا تجربہ کرنے میں بہت محتاط ہیں جو کچھ ہم نے نوجوانوں کی حفاظت اور راز داری کے لیے اب تک کیا ہے اس کے بارے میں مزید جاننے کے منتظر ہیں -ٹک ٹاک کمپنی صارفین کی حفاظت کو ترجیح دیتی ہے -
نوبیاہتا دلہن ٹک ٹاک بناتے ہوئے ہلاک،فاطمہ کی شادی کو دو روز ہوئے تھے اور ابھی اس کے کمرے میں مسہری سجی ہوئی تھی اور اس کے پھولوں سے خوشبو بھی آرہی تھی۔ اس کی والدہ اور چھوٹی بہن اسے ملنے آئی تھیں۔ تینوں ایک ہی کمرے میں بیٹھی ہوئی تھیں کہ اچانک فاطمہ کو خیال آیا کہ کیوں نا ان خوب صورت لمحات کی وہ ٹک ٹاک ویڈیو بنا لے۔ نئے آئیڈیا کی تلاش میں انہوں نے الماری میں سے ایک پستول نکالا جو غالباً اُن کے شوہر کا تھا۔دلہن نے پستول کو اپنی کنپٹی پر رکھا اور ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے ساتھ ایک گانا پلے کیا اور پستول کے ٹریگر کو دبا دیا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کی زندگی کی آخری ٹک ٹاک ویڈیو ہے۔ فائر کی آواز کے ساتھ ہی فاطمہ خون میں لت پت مسہری پر ڈھیر ہو گئیں۔ فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی فاطمہ کی عمر 17 یا 18 برس تھی۔ان کے والد محمد عباس نے روتے ہوئے بتایا کہ میری بیٹی کبھی کبھار ٹک ٹاک پر کوئی ویڈیو بنا لیتی تھی اور اس دن بھی وہ خوش تھی اور ویڈیو بنانا چاہتی تھی۔’تاہم اسے اندازہ نہیں تھا کہ پستول کو استعمال کیسے کرنا ہے، میری اہلیہ اور میری چھوٹی بیٹی بھی اس کمرے میں موجود تھیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے یہ سب ہوا
۔ میں نے پولیس کو بھی اس حوالے سے آگاہ کیا ہے۔ ‘محمد عباس کا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی تو چلی گئی میں دوسرے والدین کو کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو اس ٹک ٹاک جیسی لعنت سے دُور رکھیں، میں اس نقصان کو کبھی بھی پورا نہیں کر سکوں گا میں بہت تکلیف میں ہوں۔‘ٹک ٹاک بناتے ہوئے موت کے منہ میں جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ۔گذشتہ چند برسوں میں پاکستان میں ٹک ٹاک بناتے ہوئے کئی اموات رپورٹ ہو چکی ہیں۔ 21 مئی 2021 میں کبل (سوات) کے رہائشی حمید اللہ نامی ایک ٹک ٹاکر نے ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بناتے ہوئے خود پر گولی چلا دی جس کے باعث وہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے۔ اسی طرح دسمبر 2019 میں اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ سیالکوٹ میں رونما ہوا۔ تین دوست ٹک ٹاک کے لیے ایک ویڈیو فلما رہے تھے کہ ایک دوست کو حقیقت میں گولی لگ گئی اور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ نومبر 2020 میں لاہور کے علاقے سُندر میں دو دوست پستول تھامے ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بنا رہے تھے کہ اچانک گولی چل گئی، ایک دوست آنکھ میں گولی لگنے سے موقع پر ہی ہلاک ہوگیا جبکہ دوسرا دوست بازو میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوا۔ جون 2020 کو کراچی میں 17 سال کا نوجوان ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بناتے ہوئے گولی لگنے سے جان کی بازی ہار گیا۔
فروری 2020 کو لاہور میں پانچ نوجوان رکشہ میں بیٹھ کر ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے، تین نوجوان ہلاک جبکہ دو زخمی ہوئے تھے۔ جنوری 2021 کو اِسی طرح ویڈیو بناتے ہوئے ریل سے ٹکرا کر ایک نوجوان جان کی بازی ہار گیا۔ شناخت کے بحران کا مسئلہ:پوری دنیا میں نفسیات دان سوشل میڈیا خاص طور پر ٹک ٹاک کے حوالے سے کافی زیادہ تحقیقات کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ لوگ خطرے کی حد تک حتیٰ کہ اپنی جان تک دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ڈاکٹر ز کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کی سائبر ایڈکشن ہے جس سے اس وقت نئی دنیا میں نوجوان نسل کے جنون کا سامنا ہےواسطہ پڑا ہے۔‘’اس سے پہلے نشہ صرف ڈرگز کا ہوتا تھا لیکن اب سوشل میڈیا کا استعمال ایک نشے کی طرح ہی دماغ کو ڈوپامین فراہم کرتا ہے جیسے نشے کی حالت میں کوئی اور نشہ کیا جائے ‘ کیونکہ اس کے اندر صرف چھوٹی ویڈیو کا استعمال کیا جاتا ہے اور چھوٹی سی ویڈیو کے اندر ہی کلائمیکس بھی ہوتا ہے، یعنی نفسیات کے اعتبار سے اس کے تمام جزئیات کسی ذہن کو اس کی لت ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔‘ماہر نفسیات ارم ارشاد کہتی ہیں کہ ’شناخت کا بحران سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ لوگ سوشل میڈیا پر جب کوئی چیز ڈالتے ہیں تو اس کے بعد جب دوسرے لوگ لائک کے بٹن سے یا اس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں یا اظہار کرتے ہیں تو اس کا سیدھا سیدھا آپ کے ذہن پہ اثر ہوتا ہے۔’ٹک ٹاک نے بنیادی طور پر ہر ایک شخص کو ایک سلیبرٹی بنا دیا ہے -
اب یہ دنیا کے والدین کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کس طرح اس جنون سے دور رکھ سکتے ہیں جو انکی اولاد کی جان کے درپئے ہے -ایک اور نوجوان جس کی وڈیو نیٹ پر موجود ہے ایک پر سکون بیٹھے ہوئے اونٹ کے قریب جا کر جیسے ہی وڈیو بنانا چاہتا ہے اونٹ اس دخل در معقولات کو ناپسند کرتے ہوئے نوجوان کے بال اپنے دانتوں میں لے کر کھڑا ہوتا ہے پھر اس نوجوان کو زمین پر پٹخنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ نوجوان یا تو مر جاتا ہے یا بے ہوش ہوجاتا ہے تب اونٹ اس کی جان چھوڑتا ہے -اب نوجوانوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی جانوں سے نہیں کھیلیں اور والدین کا فرض ہےکہ وہ اپنی اولاد کی نگہداشت پر پوری توجہ رکھیں -اللہ ہم سب کا حامئ و ناصر ہو