منگل، 3 دسمبر، 2024

ٹک ٹاک سلیبرٹی - جان کی بازی مت ہاریں

 ٹک ٹاک کے جنون میں حال ہی میں امریکہ میں ایک 10 سال کی بچی کی موت  واقع ہو گئ   - 10 سال کی بچی ٹک ٹاک کے مشہور زمانہ چیلنج ہیش ٹیگ بلیک آؤٹ کا حصہ بنی۔ ٹک ٹاک بناتے ہوئے موت کے منہ میں جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔  اس چیلنج میں لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنا گلا دبا کر اپنی سانس کو اس حد تک بند کریں کہ وہ بے ہوش ہو جائیں۔اسی چیلنج کو پورا کرنے کی کوشش کی 10 سال کی بچی نے اور اس حد تک اپنا گلا دبایا کہ جان سے گزر گئی۔ پاکستان میں اس سے قبل بھی ٹک ٹاک بناتے ہوئے کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں  ٹک ٹاک کمپنی نے کہا ہے کہ  صارفین کے تحفظ کے لیے  ہم ایسا تجربہ کرنے میں بہت محتاط ہیں جو کچھ ہم نے نوجوانوں کی حفاظت اور راز داری کے لیے اب تک کیا ہے اس کے بارے میں مزید جاننے کے منتظر ہیں  -ٹک ٹاک  کمپنی صارفین کی حفاظت کو ترجیح دیتی ہے -


نوبیاہتا دلہن ٹک ٹاک بناتے ہوئے ہلاک،فاطمہ کی شادی کو دو  روز ہوئے تھے اور ابھی اس کے کمرے میں مسہری سجی ہوئی تھی اور اس کے پھولوں سے خوشبو بھی آرہی تھی۔ اس کی والدہ اور چھوٹی بہن اسے ملنے آئی تھیں۔ تینوں ایک ہی کمرے میں بیٹھی ہوئی تھیں کہ اچانک فاطمہ کو خیال آیا کہ کیوں نا ان خوب صورت لمحات کی وہ ٹک ٹاک ویڈیو بنا لے۔ نئے آئیڈیا کی تلاش میں انہوں نے الماری میں سے ایک پستول نکالا جو غالباً اُن کے شوہر کا تھا۔دلہن نے پستول کو اپنی کنپٹی پر رکھا اور ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے ساتھ ایک گانا پلے کیا اور پستول کے ٹریگر  کو دبا دیا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کی زندگی کی آخری ٹک ٹاک ویڈیو ہے۔ فائر کی آواز کے ساتھ ہی فاطمہ خون میں لت پت مسہری پر ڈھیر ہو گئیں۔ فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی فاطمہ کی عمر 17 یا 18 برس تھی۔ان کے والد محمد عباس نے روتے ہوئے بتایا کہ میری بیٹی کبھی کبھار ٹک ٹاک پر کوئی ویڈیو بنا لیتی تھی اور اس دن بھی وہ خوش تھی اور ویڈیو بنانا چاہتی تھی۔’تاہم اسے اندازہ نہیں تھا کہ پستول کو استعمال کیسے کرنا ہے، میری اہلیہ اور میری چھوٹی بیٹی بھی اس کمرے میں موجود تھیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے یہ سب ہوا


۔ میں نے پولیس کو بھی اس حوالے سے آگاہ کیا ہے۔ ‘محمد عباس کا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی تو چلی گئی میں دوسرے والدین کو کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو اس ٹک ٹاک جیسی لعنت سے دُور رکھیں، میں اس نقصان کو کبھی بھی پورا نہیں کر سکوں گا میں بہت تکلیف میں ہوں۔‘ٹک ٹاک بناتے ہوئے موت کے منہ میں جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ۔گذشتہ چند برسوں میں پاکستان میں ٹک ٹاک بناتے ہوئے کئی اموات رپورٹ ہو چکی ہیں۔ 21 مئی 2021 میں کبل (سوات) کے رہائشی حمید اللہ نامی ایک ٹک ٹاکر نے ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بناتے ہوئے خود پر گولی چلا دی جس کے باعث وہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے۔  اسی طرح دسمبر 2019 میں اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ سیالکوٹ میں رونما ہوا۔ تین دوست ٹک ٹاک کے لیے ایک ویڈیو فلما رہے تھے کہ ایک دوست کو حقیقت میں گولی لگ گئی اور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ نومبر 2020 میں لاہور کے علاقے سُندر میں دو دوست پستول تھامے ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بنا رہے تھے کہ اچانک گولی چل گئی، ایک دوست آنکھ میں گولی لگنے سے موقع پر ہی ہلاک ہوگیا جبکہ دوسرا دوست بازو میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوا۔ جون 2020 کو کراچی میں 17 سال کا نوجوان ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بناتے ہوئے گولی لگنے سے جان کی بازی ہار گیا۔


فروری 2020 کو لاہور میں پانچ نوجوان رکشہ میں بیٹھ کر ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے، تین نوجوان ہلاک جبکہ دو زخمی ہوئے تھے۔ جنوری 2021 کو اِسی طرح ویڈیو بناتے ہوئے ریل سے ٹکرا کر ایک نوجوان جان کی بازی ہار گیا۔  شناخت کے بحران کا مسئلہ:پوری دنیا میں نفسیات دان سوشل میڈیا خاص طور پر ٹک ٹاک کے حوالے سے کافی زیادہ تحقیقات کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ لوگ خطرے کی حد تک حتیٰ کہ اپنی جان تک دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ڈاکٹر ز کا کہنا  ہے کہ یہ ایک طرح کی سائبر ایڈکشن ہے جس سے اس وقت نئی دنیا میں نوجوان نسل کے جنون  کا سامنا ہےواسطہ پڑا ہے۔‘’اس سے پہلے نشہ صرف ڈرگز کا ہوتا تھا لیکن اب سوشل میڈیا کا استعمال ایک نشے کی طرح ہی دماغ کو ڈوپامین فراہم کرتا ہے جیسے نشے کی حالت میں کوئی اور  نشہ کیا جائے ‘ کیونکہ اس کے اندر صرف چھوٹی ویڈیو کا استعمال کیا جاتا ہے اور چھوٹی سی ویڈیو کے اندر ہی کلائمیکس بھی ہوتا ہے، یعنی نفسیات کے اعتبار سے اس کے تمام جزئیات کسی ذہن کو اس کی لت ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔‘ماہر نفسیات ارم ارشاد کہتی ہیں کہ ’شناخت کا بحران سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ لوگ سوشل میڈیا پر جب کوئی چیز ڈالتے ہیں تو اس کے بعد جب دوسرے لوگ لائک کے بٹن سے یا اس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں یا اظہار کرتے ہیں تو اس کا سیدھا سیدھا آپ کے ذہن پہ اثر ہوتا ہے۔’ٹک ٹاک نے بنیادی طور پر ہر ایک شخص کو ایک سلیبرٹی بنا دیا ہے  -


 اب یہ دنیا کے والدین کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کس طرح اس جنون سے دور رکھ سکتے ہیں جو انکی اولاد کی جان کے درپئے ہے -ایک اور نوجوان جس کی وڈیو نیٹ پر موجود ہے ایک پر سکون بیٹھے ہوئے  اونٹ کے قریب جا کر جیسے ہی وڈیو بنانا چاہتا ہے اونٹ اس دخل در معقولات کو ناپسند کرتے ہوئے نوجوان   کے بال اپنے دانتوں میں لے کر کھڑا ہوتا ہے پھر اس نوجوان کو زمین پر پٹخنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ نوجوان یا تو مر جاتا ہے یا بے ہوش ہوجاتا ہے تب اونٹ اس کی جان چھوڑتا ہے -اب نوجوانوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی جانوں سے نہیں کھیلیں اور والدین کا فرض  ہےکہ وہ اپنی اولاد کی نگہداشت پر پوری توجہ رکھیں -اللہ ہم سب کا حامئ و ناصر ہو

بدھ، 27 نومبر، 2024

بلند و با لا کو ہ سا رو ں کا مجمو عہ کو ہ ہمالیہ

 



  بلند و با لا کو ہ سا  رو  ں کا مجمو عہ کو ہ  ہمالیہ ایک طو   یل پہا ڑی سلسلہ ہے جو برصغیر پاک و ہند کو سطح مرتفع تبت سے جدا کرتا ہے۔ کوہ ہمالیہ میں کرہ ارض کی کچھ بلند ترین چوٹیاں ہیں، جن میں سب سے اونچی، ماؤنٹ ایورسٹ بھی شامل ہے جو چین اور نیپال کی سرحد پر واقع ہے۔ ہمالیہ کی بلندی میں 7,200 میٹر (23,600 فٹ) سے زیادہ 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں۔ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو موجود ہیں۔ 8,000 میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔ اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7,200 میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلد ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکاگوا ہے جس کی بلندی صرف 6,962 میٹر ہے-دنیا کے بہت سے بڑے دریا جیسے سندھ، گنگا، برہم پتر، یانگزی، میکانگ، جیحوں، سیر دریا اور دریائے زرد ہمالیہ کی برف بوش بلندیوں سے نکلتے ہیں۔ ان دریاؤں کی وادیوں میں واقع ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، پاکستان، چین، نیپال، برما، کمبوڈیا، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، قازقستان، کرغیزستان، تھائی لینڈ، لاؤس، ویتنام اور ملائیشیا میں دنیا کی تقریباً آدھی آبادی، یعنی 3 ارب لوگ، بستے ہیں۔

ہمالیہ کا جنوبی ایشیا کی تہذیب پر بھی گہرا اثر ہے؛ اس کی اکثر چوٹیاں ہندو مت، بدھ مت اور سکھ مت میں مقدس مانی جاتی ہیں۔ ہمالیہ کا بنیادی پہاڑی سلسلہ مغرب میں دریائے سندھ کی وادی سے لے کر مشرق میں دریائے برہمپترا کی وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ برصغیر کے شمال میں 2,400 کلومیٹر لمبی ایک مہراب یا کمان کی سی شکل بناتا ہے جو مغربی کشمیر کے حصے میں 400 کلومیٹر اور مشرقی اروناچل پردیش کے خطے میں 150 کلومیٹر چوڑی ہے۔ یہ سلسلہ تہ در تہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جن کی اونچائی جنوب سے شمال کی طرف بڑھتی جاتی ہے۔ تبت سے قریب واقع انتہائی شمالی سلسلے کو، جس کی اونچائی سب سے زیادہ ہے۔
گلیشئر اور دریا-ہمالیہ نام سنسکر ہِمالَے' بمعنی برف کا گھر) سے مشتق ہے۔ ہمالیہ میں کم و بیش 15,000 گلیشیٔر ہیں جن میں تقریب 12,000 مکعب کلومیٹر پانی ذخیرہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع 70 کلومیٹر لمبا سیاچن گلیشیر دنیا میں قطبین سے باہر دوسرا طویل ترین گلیشیر ہے۔ قطبین کے باہر طویل ترین گلیشیر بھی ہمالیہ سے زیادہ دور نہیں، یہ تاجکستان کا فریڈشینکو گلیشیر ہے جس کی لمبائی 77 کلومیٹر ہے۔ ہمالیہ کے کچھ دوسرے مشہور گلیشیر گنگوتری اور یمنوتری گیشیر (اتراکھنڈ)، نوبرا، بیافو اور بالتورو گلیشیر (قراقرم)، زیمو اور کھُمبو گلیشیر (ماؤنٹ ایورسٹ) ہی


گرم علاقوں کے قریب واقع ہونے کے باوجود ہمالیہ کے بلند تر علاقے سارا سال برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ ان برف پوش چوٹیوں سے بہت سے دریا نکلتے ہیں جو موسمی دریاؤں کے برعکس سارا سال چلتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر دریا برصغیر پاک و ہند کے دو دریائی نظاموں میں سے کسی ایک میں شامل ہوجاتے ہیں:مغربی دریا سندھ طاس کا حصہ ہیں جن میں دریائے سندھ سب سے بڑا ہے۔ دریائے سندھ تبت میں دریائے سینگے اور دریائے گار کے ملاپ سے وجود میں آتا ہے اور بھارت اور پاکستان سے گزرتا ہوا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ اس کے معاونین میں جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج کے علاوہ دوسرے بہت سے چھوٹے دریا بھی شامل ہیںہمالیہ کے دیگر دریاؤں کی اکثریت گنگا برہماپترا طاس میں شامل ہے۔ اس طاس کے سب سے بڑے دریا گنگا اور برہم پترا ہیں۔ برہماپترا مغربی تبت میں دریائے یارلنگ تسانگپو کی حیثیت سے شروع ہوتا ہے اور مشرق کی طرف سفر کرتا ہوا تبت اور پھر آسام کی وادیوں سے گزرتا ہے۔ گنگا اور برہماپترا کا ملاپ بنگلہ دیش میں ہوتا ہے جس کے بعد یہ دریا دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا بناتا ہوا خلیج بنگال میں گرتا ہے۔


ہمالیہ سے نکلنے والے مشرقی ترین دریا میانمار کے دریائے آئیروادی سے ملتے ہیں۔ یہ دریا جنوب کی جانب بہتے ہیں اور مشرقی تبت اور میانمار سے ہوتے ہوئے بحیرہ انڈمان میں گرتے ہیں۔دریائے سالوین، میکانگ، یانگزی اور ہوانگ ہی (دریائے زرد) بھی سطح مرتفع تبت سے نکلتے ہیں تاہم تبت کے یہ حصے ارضیاتی طور پر کوہ ہمالیہ کا حصہ نہیں اور اس لیے ان دریاؤں کو ہمالیہ کے دریاؤں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ تاہم کچھ ارضیات دان ان تمام دریاؤں کو مجموعی طور پر "حلقہ ہمالیہ دریا" کہتے ہیںحالیہ سالوں میں سائنسدانوں نے گلیشیروں کے پگھلنے میں خاطر خواہ تیزی دیکھی ہے۔ اگرچہ گلیشیروں کے پگھلنے کے اثرات بہت سالوں تک پوری طرح واضع نہیں ہوں گے، اس سے شمالی بھارت اور پاکستان میں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے جو خشک موسم میں اپنے دریاؤں میں ان گیشیروں سے آنے والے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔قرار دیے گئےدنیا کا نواں اور پاکستان کا دوسرا بلند ترین پہاڑ نانگا پربت گلگت بلتستان کے ضلع استور میں اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑاہے ،جس کو حرف عام میں کلر مائونٹین بھی کہا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی مشکلوں سے یہ پہاڑ 1953 میں جرمن کوہ پیمائوں کی ٹیم نے سر کیا۔

دنیا کے ٹاپ ٹین گلیشیئر میں سے 5 گلیشیئر پاکستان کےاسی علاقے میں واقع ہیں، جو پاکستان میں پانی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔انہی پہاڑی سلسلوں میں شاہراہ قراقرم اپنی آن بان اور شان کے ساتھ بل کھاتا ہوا مزید آگے کو بڑھتا جاتا ہے، جو پاک چین دوستی کی عظیم مثال ہے۔یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس بل کھاتے روڈ سے ان عظیم پہاڑوں کا منظر بڑا دلکش و دلفریب نظاہرہ پیش کرتا ہے۔ سیاح دنیا بھر سے ان دلکش نظاروں کو دیکھنے بڑی تعداد میں امڈ آتے ہیں۔جب ناران سے ہوتے بابوسر ٹاپ سےگزریں تو دنیا کے بلند و بالا پہاڑی سلسلے اپنے برف پوش چوٹیوں کی وجہ سے ایک منفرد منظر پیش کرتے ہیں۔ ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ پاکستان و افغانستان کی سرحدوں کے درمیان واقع ہے، جو سلسلہ قراقرم اور کوہ پامیر کے مغرب کی جانب پھیلا ہوا ہے۔اس سلسلے کی بلند ترین چوٹیاں ضلع چترال میں ترچ میر، نوشاق، استور نال ہیں۔پاکستان کا سوئٹزرلینڈ سوات اسی سلسلے کا حصہ ہے۔کوہ پامیر پہاڑوں کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان میں یہ پہاڑی سلسلہ پنجاب اور بلوچستان کی سرحد پر ہے۔کوہ نمک پنجاب کے شمالی حصے میں دریائے جہلم سے دریائے سندھ تک پھیلا یہ سلسلہ اپنی کانوں کےلیےمشہور ہے،یہاں موجود بڑی کانوں میں کھیوڑہ، کالاباغ، مایووارچا شامل ہیں، جن سے بڑی مقدار میں نمک اور کچھ مقدار میں درمیانے درجے کا کوئلہ بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ کھیوڑہ دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان ہے۔ اس سلسلے کی بلند ترین چوٹی سیکسر سطح سمندر سے 1522 میٹر بلند ہے، چوٹی سے میانوالی، خوشاب، چکوال، سرگودھا اور جہلم کا نظارہ مسحور کردیتا ہے۔

منگل، 26 نومبر، 2024

دنیا میں غلامی کی تاریخ

   ، کسانوں کی بڑی آبادی والی اسلامی دنیا میں ، زرعی مزدوری کی ضرورت اتنی  نہیں تھی جتنی امریکا میں۔  اسلام میں غلام بنیادی طور پر خدمت کے شعبے میں ہدایت کی جاتی تھی  –     باورچی ، پورٹرز اور سپاہی  – غلامی کے ساتھ ہی بنیادی طور پر پیداوار کے ایک عنصر کی بجائے کھپت کی ایک شکل ہے۔ اس کے لیے سب سے زیادہ بتانے والے ثبوت صنفی تناسب میں پائے جاتے ہیں۔ صدیوں میں اسلامی سلطنت میں سیاہ فام غلاموں میں تجارت کرنے والے ، ہر مرد کے لیے تقریبا دو خواتین تھیں۔ ان میں تقریبا تمام خواتین غلاموں کے گھریلو پیشے تھے۔ کچھ لوگوں کے لئے ، اس میں اپنے آقاؤں کے ساتھ جنسی تعلقات بھی شامل تھے۔ یہ ان کی خریداری کا ایک جائز مقصد تھا اور سب سے عام۔  عثمانی غلام طبقے کا ایک رکن ، جسے ترکی میں کول کہتے ہیں ، اعلی مقام حاصل کرسکتے ہیں۔



مراکش کی سلطنت میں نوعمری کے عمل سے گزرنے کے لیے غلاموں کا انتخاب انتہائی منتخب تھا۔ بہت ساری اوصاف اور صلاحیتیں ہیں جن کے مالک اپنے آقاؤں کا احسان اور اعتماد جیت سکتے ہیں۔ آقا / غلام تعلقات کی جانچ پڑتال کرتے وقت ہم یہ سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں کہ اسلامی معاشروں میں سفید پوشیدہ غلام خاص طور پر قابل قدر تھے۔ اضافی طور پر ، حصول کے طریقہ کار ، اسی طرح عمر کے ساتھ ساتھ غلام غلام کی قیمت کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا ، ، مالک غلام تعلقات پر بھروسا کرسکتی ہے۔ نوکروں یا یہاں تک کہ نو عمر بالغوں کے طور پر حاصل کردہ غلاموں نے ان کے آقاؤں کے قابل بھروسا مددگار اور مدعی بن گئے۔ مزید برآں ، نوعمری کے دوران غلام کا حصول عام طور پر تعلیم و تربیت کے مواقع کا باعث بنتا ہے ، کیونکہ نوعمری کے زمانے میں حاصل شدہ غلام فوجی تربیت شروع کرنے کے لیے ایک عمدہ عمر میں تھے۔

 کالے کاسٹ شدہ غلاموں کو ، شاہی حرموں کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا ، جب کہ سفید فام غلاموں نے انتظامی کاموں کا فریضہ دیا گیا ۔ ینی چری ایک "کے طور پر بچپن میں جمع شاہی فوجوں کی اشرافیہ فوجیوں تھے خون ٹیکس ، جبکہ" گیلی غلاموں میں گرفتار غلام چھاپوں یا کے طور پر جنگی قیدیوں ، شاہی وریدوں سے تعینات. غلامی دراصل عثمانی سیاست میں سب سے آگے رہتی تھی۔ عثمانی حکومت میں اکثریت کے عہدے دار غلام خریدے گئے ، آزاد ہوئے اور سلطنت عثمانیہ کی 14 ویں صدی سے 19 ویں تک کامیابی کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ بہت سے عہدے داروں کے پاس خود بڑی تعداد میں غلام تھے ، حالانکہ سلطان خود اس کی ملکیت میں سب سے بڑی رقم رکھتے تھے۔  اینڈرون جیسے محل اسکولوں میں عہدے داروں کی حیثیت سے غلاموں کی پرورش اور خصوصی طور پر تربیت کرکے ، عثمانیوں نے حکومت اور جنونی وفاداری کا پیچیدہ علم رکھنے والے منتظمین بنائے۔


مراکش کی سلطنت میں نوعمری کے عمل سے گزرنے کے لیے غلاموں کا انتخاب انتہائی منتخب تھا بہ ساری اوصاف اور صلاحیتیں ہیں جن کے مالک اپنے آقاؤں کا احسان اور اعتماد جیت سکتے ہیں۔ آقا / غلام تعلقات کی جانچ پڑتال کرتے وقت ہم یہ سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں کہ اسلامی معاشروں میں سفید پوشیدہ غلام خاص طور پر قابل قدر تھے۔ اضافی طور پر ، حصول کے طریقہ کار ، اسی طرح عمر کے ساتھ ساتھ غلام غلام کی قیمت کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا ، ، مالک غلام تعلقات پر بھروسا کرسکتی ہے۔ نوکروں یا یہاں تک کہ نو عمر بالغوں کے طور پر حاصل کردہ غلاموں نے ان کے آقاؤں کے قابل بھروسا مددگار اور مدعی بن گئے۔ مزید برآں ، نوعمری کے دوران غلام کا حصول عام طور پر تعلیم و تربیت کے مواقع کا باعث بنتا ہے ، کیونکہ نوعمری کے زمانے میں حاصل شدہ غلام فوجی تربیت شروع کرنے کے لیے ایک عمدہ عمر میں تھے۔ اسلامی معاشروں میں یہ عمل دس سال کی عمر میں شروع کرنا ، پندرہ سال کی عمر تک جاری رہنا معمول تھا ،


 اس موقع پر یہ جوان فوجی خدمت کے لیے تیار سمجھے جاتے تھے۔ اسلامی غلام معاشروں میں مہارت رکھنے والے غلاموں کی بہت زیادہ قدر کی جاتی تھی۔ عیسائی غلاموں کو اکثر عربی میں بولنے اور لکھنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ سفارتی امور کا انگریزی اور عربی زبان میں روانی رکھنے کا ایک انتہائی قابل قدر ذریعہ تھا۔ تھامس پیلو جیسے دو زبانوں والے غلاموں نے اپنی ترجمانی کی صلاحیت کو سفارت کاری کے اہم آداب کے لیے استعمال کیا۔ پیلو خود مراکش میں سفیر کے مترجم کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔پہلا بہمنی سلطان ، علاؤالدین بہمن شاہ نے شمالی کارناٹک سرداروں سے لڑائی کے بعد ہندو مندروں سے ایک ہزار گانا اور ناچنے والی لڑکیوں کو گرفتار کیا تھا۔ بعد میں بہمنیوں نے بھی جنگوں میں شہری خواتین اور بچوں کو غلام بنایا۔ شاہ جہاں کی حکمرانی کے دوران ، بہت سے کسان زمین کی محصول کی طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنی خواتین اور بچوں کو غلامی میں فروخت کرنے پر مجبور تھے۔

پیر، 25 نومبر، 2024

مصنوعی زہانت اور کاربن کا پھیلا ؤ

 

دنیا جس قدر ترقی کر رہی ہے اسی حساب سے ا نسا ن  ‍    کے لئے  ا س   کی مشکلات میں اضافہ بھی ہو رہا ہے  -پہلے تو آپ زرا شہروں کی آلودگی کی  حالت ملا حظہ کیجئے جو دن بدن بد ترین ہوتی جا رہی ہے اس پر  نت نئ ٹیکنالوجی ہے جس کے پیچھے انسان بھاگا چلا جا رہا ہے-ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سسٹم بڑے پیمانےپر کاربن خارج کر رہے ہیں اور یہ صورت حال گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بدتر ہوتی جا رہی ہےسن 2023 میں دنیا کی 63 بڑی معیشتوں کے کیے جانے والے تجزیے کے مطابق یہ عالمی سطح پر ہونے والی مضر گیسوں کے 90 فیصد اخراج کی ذمہ دار ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ملک شدید موسمیاتی اثرات میں کمی کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔ادھریونیورسٹی کالج لندن میں انرجی سسٹم کے پروفیسر، اسٹیو پائی کے مطابق فوسل فیول سےبتدریج چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے یہ اہم ہے کہ تبدیلی کو یقینی بنایا جائے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ''منصفانہ مرحلہ کس طرح نظر آتا ہے؟ یہ امیر ممالک پر منحصر ہے جن کا فوسل فیول پر انحصار کم ہے اور وہ بڑی معیشتوں کے حامل ہیں۔ انہیں رہنما کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نا کہ  انسان کو نت نئ سہولیات دے کر اسے آسان راستہ مہیا کرنا ۔


یہ  مسلم ہے کہ پیچیدہ ماڈلز کو چلانے اور ان کی تربیت کرنے کیلئے توانائی کی اضافی مانگ ماحولیات پر سنجیدہ نوعیت کے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ سسٹم بہتر ہونے کے ساتھ ان کو مزید کمپیوٹنگ پاور اور چلنے کیلئے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اوپن اے آئی کا موجودہ سسٹم ''جی پی ٹی4‘‘ اپنے گزشتہ ماڈل سے 12 گُنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔سسٹمز کی تربیت کرنا ایک چھوٹا سا عمل ہے۔ دراصل اے آئی ٹولز کو چلانے کیلئے تربیت کے عمل سے 960 گُنا زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔محققین کے مطابق ان اخراج کے اثرات وسیع ہو سکتے ہیں۔  نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے اس تحقیقی منصوبے کی قیادت ایسوسی ایٹ پروفیسر یوان نے  وا ضح کیا  کہ مصنوعی ذہانت کے ٹو لز ماحولیاتی نقصان اور فوائد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مصنوعی ذہانت (AI) بہت زیادہ توانائی سے چلتے  ، اور اس توانائی کا بیشتر حصہ فوسل فیول کے جلانے سے حاصل ہوتا ہے، جو کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ صنعتی ماحولیات اور پائیدار نظام کی ایسوسی ایٹ پروفیسرکا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کیلئے کمپیوٹنگ سسٹمز کو چلانے کیلئے توانائی( بجلی) کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجلی کی پیداوار آلودگی پیدا کرتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بجلی کی پیداوار میں فوسل فیولز کا غلبہ ہے۔


 توانائی کیلئے فوسل فیولز کوجلانے کے ماحول پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی میں اضافہ کرتے ہیں۔فوسل فیولز کے جلنے سے وہ آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے جو ہوا اور پانی کو آلودہ کرتی ہے، سانس کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے، اور تیزابی بارش (ایسڈ رین) کا باعث بنتی ہے۔ مزید برآں، فوسل فیولز کو نکالنے اور توانائی کے انفراسٹرکچر کی تعمیر سے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور ماحولیاتی تنزلی کا سبب بنتا ہے۔ان منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے شمسی اور ہوا جیسی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی اور توانائی کی مؤثر حکمت عملیوں کو اپنانا ضروری ہے۔مصنوعی ذہانت ماحول پرکن طریقوں سے اثر ڈالتی ہے-توانائی کے استعمال کے علاوہ مصنوعی ذہانت کو ہارڈویئر آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ہارڈویئر ز، جیسے سرورز اور ڈیٹا سینٹرز، کی تیاری، نقل و حمل، دیکھ بھال اور تلفی کیلئے اضافی توانائی اور وسیع مواد اور قدرتی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً کوبالٹ، سلیکون، سونا، اور دیگر دھاتیں۔مصنوعی ذہانت کے ہارڈویئر میں استعمال ہونے والی دھاتوں کی کان کنی اور تیاری مٹی کے کٹاؤ اور آلودگی کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید برآں، بہت سی الیکٹرانک اشیاء کو مناسب طریقے سے ری سائیکل نہیں کیا جاتا، جس کے نتیجے میں الیکٹرانک فضلہ پیدا ہوتا ہے جو مزید آلودگی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان آلات میں استعمال ہونے والے مواد اگر مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگائے جائیں تو یہ مٹی اور پانی کو آلودہ کر سکتے ہیں۔


مصنوعی ذہانت کے ماحول  کیلئے مثبت پہلو-مصنوعی ذہانت کے اطلاق سے ماحول کیلئے فائدے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ چند سال ایک تحقیق شائع ہوئی تھی  میں کیمیائی صنعت میں مصنوعی ذہانت کے فوائد کا جائزہ لیا گیا تھا۔ مصنوعی ذہانت توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہے اور توانائی کے استعمال کو کم کر سکتی ہے، اور یہ ماحولیاتی نگرانی اور انتظام میں مدد فراہم کرتی ہے، جیسے گیسز کے اخراج کا سراغ لگانا۔مزید برآں، مصنوعی ذہانت ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کیلئے عمل اور سپلائی چین کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔تحقیقی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کو لائف سائیکل اسیسمنٹ (LCA) میں مدد کیلئے استعمال کیا، جو کسی مصنوعات کی پوری زندگی کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے کا ایک معیاری طریقہ ہے۔ مصنوعی ذہانت ہمیں مختلف حیاتیاتی مواد سے بنی مصنوعات کے ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ کرنے میں مدد دیتی ہے، جو روایتی طریقوں کے ذریعے بہت وقت طلب عمل ہوتا ہے۔


پروگرام ''ایکسپیڈیشنز‘‘ (Expeditions) کیا ہے؟یہ امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کا ایک پروگرام ہے ،جس کا مقصداگلی دہائی میں کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو 45فیصد تک کم کرنے پر توجہ مرکوزکرنا ہے۔ اس کے تین اہم اہداف ہیں۔(1)کمپیوٹنگ آلات کی پوری زندگی کے دوران کاربن کے اخراج کی پیمائش اور رپورٹنگ کیلئے معیاری پروٹوکول تیار کرنا۔ (2)کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو کم کرنے کے طریقے تیار کرنا۔(3)تیزی سے ترقی کرنے والی ایپلی کیشنز، جیسے مصنوعی ذہانت اور ورچوئل رئیلٹی سسٹمز، کے کاربن اخراج کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرنا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ منصوبہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کو کیسے حل کرے گا؟ اس کے جواب میں پروفیسر یوان یائو کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کا اندازہ لگانے کیلئے شفاف اور مضبوط طریقوں کی ضرورت ہے۔ 

اتوار، 24 نومبر، 2024

حضرت یوسف علیہ السلام اور مصر کا بازار

 دنیا میں غلامی اور غلاموں کی خریدو فروخت کے بارے میں پڑھتے ہوئے میرا زہن اچانک  حضرت   یوسف علیہ السلام کی جانب چلا گیا  آپ  علیہ السلام  با زارمصر میں بہ  طور غلام  اس طرح بیچے گئے کہ  جب ان کے بھائیوں نے آپ کو کنوئیں میں ڈال دیا تو ایک شخص جس کا نام مالک بن ذعر تھا جو مدین کا باشندہ تھا۔ ایک قافلہ کے ہمراہ اس کنوئیں کے پاس پہنچا اور اپنا ڈول کنوئیں میں ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اس ڈول کو پکڑ لیا اور مالک بن ذعر نے آپ کو کنوئیں میں سے نکال لیا تو آپ کے بھائیوں نے اُس سے کہا کہ یہ ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے۔ اگر تم اس کو خرید لو تو ہم بہت ہی سستا تمہارے ہاتھ بیچ دیں گے۔ چنانچہ اُن کے بھائیوں نے صرف بیس درہم میں حضرت یوسف علیہ السلام کو بیچ ڈالا مگر شرط یہ لگا دی کہ تم اس کو یہاں سے اتنی دور لے جاؤ کہ اس کی خبر بھی ہمارے سننے میں نہ آئے۔ مالک بن ذعر نے ان کو خرید کر مصر کے بازار کا رخ کیا اور بازار میں ان کو فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ ان دنوں مصر کا بادشاہ دیان بن ولید عملیقی تھا اور اس نے اپنے وزیراعظم قطفیر مصری کو مصر کی حکومت اور خزانے سونپ دیئے تھے اور مصر میں لوگ اس کو ''عزیز مصر'' کے خطاب سے پکارتے تھے۔ جب عزیز مصر کو معلوم ہوا کہ بازارِ مصر میں ایک بہت ہی خوبصورت غلام فروخت کے لئے لایا گیا ہے اور لوگ اس کی خریداری کے لئے بڑی بڑی رقمیں لے کر بازار میں جمع ہو گئے ہیں


حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں   یہ سنا  کہ بازار مصر میں ایک انتہائ  پُر جمال  اور شکیل نوجوان فروخت کے لئے آیا ہے   عزیز  مصر  بہت سا سونا  چاندی  اور دیگر قیمتی اشیاء لے کر بازار میں آن پہنچا     اور  اس نے  ان کے  وزن  کے مساوی  سونا، اور اتنی ہی چاندی، اور اتنا ہی مشک، اور اتنے ہی حریر قیمت دے کر خریدلیا اور گھر لے جا کر اپنی بیوی ''زلیخا''سے کہا کہ اس غلام کو نہایت ہی اعزاز و اکرام کے ساتھ رکھو۔ اس وقت آپ کی عمر شریف تیرہ یا سترہ برس کی تھی۔ ''زلیخا''حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو گئی اور ایک دن خوب بناؤ سنگھار کر کے تمام دروازوں کو بند کردیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو تنہائی میں لبھانے لگی۔ آپ نے معاذ اللہ کہہ کر فرمایا کہ میں اپنے مالک عزیز مصر کے احسان کو فراموش کر کے ہرگز اُس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کرسکتا۔ پھر جب خود زلیخا آپ کی طرف لپکی تو آپ بھاگ نکلے۔ اور زلیخا نے دوڑ کر پیچھے سے آپ کا پیراہن پکڑ لیا جو پھٹ گیا اور آپ کے پیچھے زلیخا دوڑتی ہوئی صدر دروازہ پر پہنچ گئی۔ اتفاق سے ٹھیک اسی حالت میں عزیز مصر مکان میں داخل ہوا۔


اور دونوں کو دوڑتے ہوئے دیکھ لیا تو زلیخا نے عزیز مصر سے کہا کہ اس غلام کی سزا یہ ہے کہ اس کو جیل خانہ بھیج دیا جائے یا اور کوئی دوسری سخت سزا دی جائے کیونکہ اس نے تمہاری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اے عزیز مصر!یہ بالکل ہی غلط بیانی کررہی ہے۔ اس نے خود مجھے لبھایا اور میں اس سے بچنے کے لئے بھاگا تو اس نے میرا پیچھا کیا۔ عزیز مصر دونوں کا بیان سن کر حیران رہ گیا اور بولا کہ اے یوسف علیہ السلام میں کس طرح باور کرلوں کہ تم سچے ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ گھر میں چار مہینے کا ایک بچہ پالنے میں لیٹا ہوا ہے جو زلیخا کے ماموں کا لڑکا ہے۔ اس سے دریافت کرلیجئے کہ واقعہ کیا ہے؟ عزیز مصر نے کہا کہ بھلا چار ماہ کا بچہ کیا جانے اور وہ کیسے بولے گا؟ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کو ضرور میری بے گناہی کی شہادت دینے کی قدرت عطا فرمائے گا کیونکہ میں بے قصور ہوں۔ 


چنانچہ عزیز مصر نے جب اُس بچے سے پوچھا تو اُس بچے نے باآوازِ بلند فصیح زبان میں یہ کہا کہ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿26﴾وَ اِنْ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَہُوَ مِنۡ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿27﴾ (پ12،یوسف:26،27)ترجمہ کنزالایمان:۔گواہی دی اگر ان کا کرتا آگے سے چرا ہے تو عورت سچی ہے اور انہوں نے غلط کہا اور اگر ان کا کرتا پیچھے سے چاک ہوا تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے۔بچے کی زبان سے عزیز مصر نے یہ شہادت سن کر جو دیکھا تو ان کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ تو اس وقت عزیز مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا:۔اِنَّہٗ مِنۡ کَیۡدِکُنَّ ؕ اِنَّ کَیۡدَکُنَّ عَظِیۡمٌ ﴿28﴾یُوۡسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا ٜ وَ اسْتَغْفِرِیۡ لِذَنۡۢبِکِ ۚۖ اِنَّکِ کُنۡتِ مِنَ الْخٰطِـِٕیۡنَ ﴿٪29﴾ (پ12،یوسف:28،29)ترجمہ کنزالایمان:۔ بیشک یہ تم عورتوں کا (فریب)ہے بیشک تمہارا چرتر (فریب)بڑا ہے اے یوسف تم اس کا خیال نہ کرو اور اے عورت تو اپنے گناہ کی معافی مانگ بے شک تو خطا واروں میں ہے۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن،صفحہ 128-126)


چترال میں غلاموں کی خرید و فروخت کس پیمانے پر کی جاتی تھی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1880 میں انگریزوں نے ’گزیٹیئر آف ایسٹرن ہندوکش‘ کے نام سے ایک دستاویز مرتب کی تھی جس میں چترال میں غلاموں کی تجارت کو ریاست کی آمدنی کا تیسرا بڑا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔اس کتاب میں لکھا گیا ہے کہ ’چترال اور یاسین میں اپنے ہی رعایا کو غلام بنا کر بیچنے کا عمل وہاں کے حکمرانوں کے لیے ان لوگوں کے درمیان میں بھی شدید بدنامی کا باعث بن گیا ہے جہاں ابھی تک غلامی کو اس طرح برا نہیں سمجھا جاتا جس طرح یورپ میں سمجھا جاتا ہے (گزیٹ، 93)۔ غلاموں کی لین دین مہتر کے وزیرِ خزانہ جسے دیوان بیگی کہا جاتا تھا، کی سرکاری ذمہ داریوں میں شامل تھی (بڈلف، 67)۔اسی طرح چترال سے متعلق انگریز افسروں اور مہم جوؤں کی لکھی اکثر یادداشتوں، رپورٹوں اور کتابوں میں چترال غلامی اور ان کی تجارت کا ذکر ملتا ہے۔ چترال پر تحقیق کرنے والے اطالوی محققین، کاکو پارڈو برادران کے مطابق اٹھارویں صدی کے آخر میں ہر سال چترال سے 500 لوگ بطورِ غلام چترال سے باہر بیچے جاتے تھے اور چترال کے اندر کوئی بھی گھرانہ ایسا نہیں تھا جہاں سے کسی کو اٹھا کر فروخت نہ کیا گیا ہو۔ (گیٹس آف پرستان، 59 )۔چترال کے غلاموں کو جن منڈیوں میں لے جایا جاتا تھا ان میں خیوہ، یارقند، خوقند، بخارا، ترکستان، قندوز، فیض آباد، جلال آباد اور کابل شامل تھے (منشی 132، فیض، 10)۔

 


چترال کے مشہور شاعر بابا سیئر کی منظوم تاریخِ چترال ’شاہ نامہ سیئر‘ جو کہ غالباً 1810 میں لکھی گئی تھی اور چترال کی تاریخ پر اولین کتاب ہے، سے واضح ہے کہ اٹھارویں صدی کے آخر میں واخان کے والی جہان خان نے چترال پر حملہ کیا اور کئی باشندوں کو غلام بنا کر ساتھ لے گیا تھا۔اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے چترالی حکمران محترم شاہ کٹور ثانی نے بروغول سے گزر کر واخان پر چڑھائی کی، دیہات کو نذرِ آتش کیا اور دوسرے مالِ غنیمت کے ساتھ کئی لوگ بھی غلام بنا کر ساتھ لے آیا۔ ان میں سے دو غلام عورتوں کو محترم شاہ نے اپنے حرم میں شامل کیا جن سے اولادیں بھی ہوئیں

مضمون انٹر نیٹ سے استفادہ کر کے لکھا گیا ہے

ہفتہ، 23 نومبر، 2024

پاڑہ چنار قتل عام -مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا

 

 جمعرات 22 نومبر 2024ء کو ضلع کرم میں لوئر کے علاقے اوچت میں کانوائے میں شامل  200مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی جانب سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 44 افراد جاں بحق ہو گئے جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں  جبکہ ایک پولیس اہلکار سمیت   62 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔پولیس حکام کے مطابق پارا چنار سے پشاور جانے والے کانوائے میں شامل مسافر گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں پر خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی۔جبکہ راستے میں موجود  مسجد سے شر پسند فائرنگ  اور پتھراؤ کر رہے تھے حکام نے بتایا کہ واقعہ میں زخمی ہونے والوں میں 3 خواتین بھی شامل ہیں جبکہ ایک خاتون سمیت 5 افراد کی لاشیں علی زئی پہنچادی گئی ہے ۔پولیس اور ہسپتال ذرائع کے مطابق پاراچنار سے مسافر گاڑیوں کا کانوائے پشاور جا رہا تھا اسی طرح پشاور سے مسافر گاڑیوں کا کانوائے پاراچنار جا رہا تھا جونہی 200 گاڑیوں کا یہ قافلہ لوئر کرم کے علاقے مندوری چار خیل اور اوچت کے علاقے میں پہنچا تو وہاں پر مسلح افراد نے مسافر گاڑیوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 44  افراد جاں بحق اور  62 مسافر  زخمی ہو گئے ہیں۔حملہ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا اور اس دوران ہلکا اور بھاری ہر قسم کا اسلحہ استعمال کیا گیا۔قافلے کے  آگے ایک فیلڈر گاڑی تھی، ایک راکٹ اس گاڑی کو آ کر لگا اور زور کا دھماکہ ہوا اورگاڑی اپنے مسافروں سمیت  تباہ ہو گئٍ


جاں بحق افراد میں ایک نو سالہ بچی  دو شیر خوار بچوں سمیت 7 خواتین بھی شامل ہیں۔2 خواتین سمیت 12 زخمیوں کو سی ایم ایچ ٹل پہنچایا گیا ہے جبکہ 16 زخمی تحصیل ہسپتال علیزئی لائے گئے ہیں۔طوری بنگش قبائل کے رہنما بنگش کا کہنا ہے کہ اب بھی علاقے میں درجنوں کی تعداد میں مسافر پھنسے ہوئے ہیں فورسز فوری طور پر کاروائی کر کے ان کو محفوظ طریقے سے علاقے سے نکالیں اور زخمیوں کی جان بچانے کے لیے بھی فوری اقدامات کیے جائیں ۔قبائلی رہنما جلال بنگش اور علامہ تجمل حسین نے واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے وہ حکومت سے آمد و رفت کے راستے محفوظ بنانے کی التجا کر رہے ہیں اور ایک لاکھ سے زائد افراد نے دو ہفتے قبل پارا چنار سے پشاور اسلام آباد کے لیے احتجاج کے طور پر امن واک کیا جس کے بعد کانوائے شروع کی گئی تا ہم آمدورفت کے راستے محفوظ بنانے کے لیے موثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس کی وجہ سے اس قسم ناخوشگوار اور افسوسناک واقعات پیش آ رہے ہیں۔صدر مملکت کا اظہار افسوس-صدر مملکت آصف علی زرداری نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانی نقصان پر اظہار افسوس کیا-اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ نہتے مسافروں پر حملہ انتہائی بزدلانہ اور انسانیت سوز عمل ہے، معصوم شہریوں پر حملے کے ذمے داران کو کیفر کردار پہنچایا جائے۔صدر مملکت نے زخمی افراد کو بروقت طبی امداد کی فراہمی اور ذمے داران کے خِلاف کاروائی کی ضرورت پر زور دیا۔


وزیر اعظم کی مذمت-وزیرِاعظم شہباز شریف نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے خواتین اور بچوں سمیت متعدد افراد کے جاں بحق ہونے پر اظہار افسوس کیا اور جاں بحق افراد کے بلندی درجات اور اہلخانہ کیلئے صبر کی دعا کی۔شہباز شریف نے حملے میں زخمی افراد کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے اور حملہ آوروں کی نشاندہی کر کے قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت کی۔ان کا کہنا تھا کہ امن دشمنوں نے معصوم شہریوں کے قافلے پر حملہ کیا جو حیوانیت ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ تخریب کار ایسی بزدلانہ کاروائیوں سے قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکتے، شہریوں کا خون بہانے والے شرپسند مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں۔وزیر داخلہ کی مذمت-وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور جاں بحق افراد کے لواحقین سے دلی ہمدردی و اظہار تعزیت کیا۔محسن نقوی کا کہنا تھا کہ معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والے  کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام تر ہمدردیاں جاں بحق افراد کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا مالی امداد کا اعلان -وزراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے حملے کا نوٹس لیتے ہوئے مذمت کی اور جاں بحق افراد کے لواحقین کے لئے مالی امداد کا بھی اعلان کیا۔


اپنے پیغام میں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ کرم میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے پہلے والے جرگے کو پھر سے فعال کیا جائے، اور صوبے میں تمام شاہراہوں کو محفوظ بنانے کے لئے پراونشل ہائی ویز پولیس کے قیام پر کام کیا جائے۔علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ علاقے میں امن وامان کو بہتر بنانے کے لئے حکومت پولیس اورمتعلقہ ادارے مل کرسنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں، بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانا انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے، واقعے میں ملوث عناصر قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔وزیر اعلیٰ نے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس اور سوگوار خاندانوں سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا جبکہ جاں بحق افراد کی معفرت اور پسماندگان کے لئے صبر جمیل کی دعا کی۔انہوں نے صوبائی وزیر قانون ، متعلقہ ایم این اے، ایم پی اے اور چیف سیکرٹری پر مشتمل وفد کو فوری کرم کا دورہ کرنے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی  


جمعہ، 22 نومبر، 2024

بہترین قائدانہ صلاحیتوں کی مالک ملکہ چاند بی بی

 

  مغلیہ دور   کےہندوستان میں مسلمانوں کے دور حکومت میں کئ ایسی خواتین کا ذکرملتا ہے جنہوں نے میدان جنگ میں  اپنی نڈر اورقائدانہ سلاحیتوں کی بدولت   اپنی فوجوں سے  کہیں بڑی فوجوں کو نہ صرف شکست دی بلکہ برسوں تک ان کے نام کا دبدبہ قائم رہا ۔ سولہویں صدی کی ایک ہندوستانی بہادراور زیرک مسلمان حکمران چاند بی بی کا نام بھی بڑے احترام سے لیا جاتا ہے جس کی جنگجویانہ صلاحیتوں نے مغل شہنشاہوں کے تخت و اقتدار کو چیلنج کردیااور مغل شہزادوں کو شکست سے دوچار کردیا تھا ۔ چاند بی بی کو اسلامی تعلیمات  پر مکمل عبور تھا ۔ چاند بی بی نے 1550 ءکو احمد نگر میں آنکھ کھولی۔ والد حسین نظام شاہ اوّل احمد نگر کے حکمراں تھے۔ 14 سال کی عمر میں اسکا بیاہ بیجا پور کے حکمراں علی عادل شاہ کے ساتھ اس ایما پر ہوا کہ احمد نگر اور بیجا پور کی پرانی دشمنی اور عداوت کو ختم کردیا جائے ۔بدلے کی اس شادی میں چاند بی بی کی شادی علی عادل شاہ سے اور چاند بی بی کے بھائی مرتضیٰ کی شادی  علی عادل شاہ کی بہن ہدیہ سلطان سے ہوئی۔علی احمد کے مطابق ان شادیوں سے احمد نگر اور بیجا پور میں پرانی دشمنی ختم ہوئی۔ چاند بی بی، علی عادل شاہ کی کئی مہموں میں ان کے ساتھ رہیں۔ وہ میدانِ جنگ کی سختیاں جھیلتیں، ان کے ساتھ شکار کھیلتیں اور ضرورت پڑنے پرانھیں مشورے دیتی اور ان کی ہمت بندھاتیں۔چاند بی بی کے والد نے اس کی سپاہیانہ تربیت کی تھی   -


اور اورنگ زیب کے بہمنی سلطنت کے خاتمہ کے بعد پانچ چھوٹی سلطنتیں وجود میں آئیں   ان میں احمد نگر اور بیجا پور  میں دشمنی    بہت بڑھ گئ تب ا  ن کے یہاں ایک بدلے کی شادی کر کے اس دشمنی کا خاتمہ کیا گیا  ۔ چاند بی بی، علی عادل شاہ کی کئی مہموں میں ان کے ساتھ رہیں۔ وہ میدانِ جنگ کی سختیاں جھیلتیں، ان کے ساتھ شکار کھیلتیں اور ضرورت پڑنے پر انھیں مشورے دیتی اور ان کی ہمت بندھاتیں۔ان ہی کے مشوروں اور کوششوں سے بیجا پور کے احمد نگر سے تعلقات اچھے رہے، سلطنت مضبوط ہوئی اور بغاوتیں ختم ہوئیں۔ایک مرتبہ علی عادل شاہ کو اپنے قتل کی سازش کی خبر ملی۔ چاند بی بی نے شوہر کو تسلی دی اور کہا کہ وہ رات کو ان کی حفاظت کریں گی۔ ایک رات اچانک بالا خانے پر کسی کے کودنے کی آواز آئی۔ چاند بی بی خود تلوار سونت کر تن تنہا بالا خانے پر چڑھ گئیں۔تلواریں لیے دونقاب پوش ان پر جھپٹے۔ پھرتی سے پیچھے ہٹ کر چاند بی بی نے تلوار کا ایسا بھر پور وار کیا کہ ایک وہیں ڈھیر ہوگیا۔ دوسرا آگے بڑھا تو اس کا بھی وہی حشر ہوا۔


شور سن کرعلی عادل شاہ جاگ اٹھےاور بھاگتے ہوئے اوپر آئے۔ انھوں نے یہ منظر دیکھا تو اپنی بہادر ملکہ کی تلوار چوم لی اور بولے ’چاند بیگم اگر تمام دنیا بھی میری دشمن ہو جائے تو آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی ڈر نہیں۔‘جب علی عادل شاہ نے وفات پائی تو چاند بی بی کی عمر 28 سال تھی مگرمورخین کہتے ہیں کہ وہ رزم و بزم کے تمام قواعد و فنون سے واقف تھیں۔اولاد نہ ہونے کے باعث، علی عادل شاہ کے قتل پرحکومت ان کے بھتیجے ابراہیم کو منتقل ہوئی جو تاریخ میں ابراہیم عادل شاہ ثانی کے لقب سے جانے گئے۔ مغلیہ فوج نے کئی بار احمد نگر کو فتح کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ چاند بی بی تھی جس نے اپنی ذہانت،دلیری اور ہمت سے مغلوں کو منہ توڑ جواب دیا۔چاند بی بی نے فن حرب اور سپہ گری اور گھڑ سواری کی سخت تربیت حاصل کی تھی ۔میدان جنگ میں وہ فوجیوں کے لباس میں ہوتی تھیں۔ ایسی جنگی چالیں چلتی اور بہادری و شجاعت کے ایسے جوہر دکھاتی کہ کہ بڑے بڑے جنگی سورما بھی خوفزدہ ہو کر پیچھ ہٹ جایا کرتے تھے 

 اکبر کی سلطنت میں احمد نگر شامل نہیں تھا۔ اکبر نے اس اہم قلعہ کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کیلئے شہزادہ مراد کی زیر قیادت بھاری لشکر کو احمد نگر کوچ کرنے کا حکم دیا۔ یہ 1595 کی بات ہے۔ جب شہزادہ مراد بڑے لشکر کے ساتھ احمد نگر پہنچا مگر چاند بی بی نے اس لشکر کا راستہ روک دیا اور ایسی جنگی چالیں چلیں کہ شہزادہ بے نیل ومرام واپس لوٹ گیا پھر دوسرے سال مغل شہزادہ دانیال کی سرکردگی میں مغلوں کی فوج احمد نگر کی تسخیر کیلئے پہنچی مگر اس بار بھی اس عظیم جنگجو خاتون نے مغل فوج کے چھکے چھڑا دےئے۔ اپنی شجاعت اور بہادری سے نہ صرف احمد نگر قلعہ کا کامیابی کے ساتھ دفاع کیا بلکہ مغل فوج کو بے مراد واپس کوچ کرنا پڑا۔آخر کار اکبر نے 1598ء کو لشکر کے ساتھ خود احمد نگر پہنچا۔ چاند بی بی نے مغل فوج کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور احمد نگر قلعہ کی حفاظت کی۔ اس نے اکبر کو تگنی کا ناچ نچوادیاتھا ۔ اس قلعہ کی تسخیر کیلئے مغل فوج کے تمام جنگی منصوبے ناکام ہوتے دکھائی دے رہے تھے ۔

اس کے باوجود اکبر ڈٹا رہا اور اس کے خلاف چاند بی بی بھی عزم و حوصلہ کے ساتھ برابر ڈٹی رہیں۔محقیقین کے مطابق چاند بی بی کو عربی،فارسی،ترکی مراٹھی اور کنڑا پر زبردست عبور تھا۔ ستار بجانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ مصوری ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ پھولوں کے خاکوں میں رنگ بھرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔بھارت میں چاند بی بی کو جرات و ہمت کی علامت سمجھا جاتا ہے    -ایک بار بہمنی سلطنت سے نکلی باقی تین سلطنتوں کی فوجوں نے احمدنگرپر اکٹھے حملہ کر دیا۔ جتنے دن محاصرہ رہا چاند بی بی برابر ایک مورچے سے دوسرے مورچے پر جاتی رہیں۔ ایک موقع پر جب شدید بارش تھی اورایک جگہ شگاف بھی پڑ گیا تھا، وہ حفاظت کے لیے بذاتِ خود کھڑی رہیں اور اپنی نگرانی میں شگاف بند کروایا۔   اس دوران یہ افواہ پھیلائی گئی کہ چاند بی بی نے مغل فوج سے مفاہمت کرلی ہے۔ یہ افواہ پھیلانے میں خود اس کے امراء اور وزراء ملوث تھے۔ آخر کار 1599ءکووہ منحوس گھڑی آگئی،جب چاند بی بی اپنے محل میں تھی،اس وقت اس کے سپاہیوں کے ایک دستہ نے محل پر دھاوا بولا اور چاند بی بی کو قتل کر دیا ۔ بتایا جاتا ہی کہ اس غدار گروپ کو قلعہ دار حمید خان کی تائید و حمایت حاصل تھی اس کی غداری اور سازش سے احمد نگر کا قلعہ مغلوں کی فوجوں کے ہاتھ چلا گیا مگر حقیقت میں مغل فوج نے اس قلعہ کو فتح نہیں کیا۔ - 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر