ہفتہ، 26 اکتوبر، 2024

ڈیڑھ سو سال جینے کی آرزو میں

 


عالمی شہرت یافتہ امریکی گلوکار۔ مائیکل جیکسن امریکی ریاست انڈیانا میں انتیس اگست انیس سو اٹھاون کو پیدا ہوا اسے بچپن سے گلوکار بننے کا شوق پیدا ہو گیا اور کڑی محنت کے بعد کنگ آف پاپ کے لقب سے جانا جانے لگا  مائیکل جیکسن ایک ایسا انسان جو نظام فطرت کو شکست دینا چاہتا تھا اسے چار چیزوں سے سخت نفرت تھی ‏اسے اپنے سیاہ رنگ سے نفرت تھی, وہ گوروں کی طرح دکھائی دینا چاہتا تھا ‏اسے گمنامی سے نفرت تھی, وہ دنیا کا مشہور ترین شخص بننا چاہتا تھا۔اسے اپنے ماضی سے نفرت تھی وہ اپنے ماضی کو اپنے آپ سے کھرچ کر الگ کردینا چاہتا تھا۔‏اسے عام لوگوں کی طرح ستر اسی برس میں مر جانے سے بھی نفرت تھی وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا ‏وہ ایک ایسا گلوکار بننا چاہتا تھا جو ایکسو پچاس سال کی عمر میں لاکھوں لوگوں کے سامنے ڈانس کرے اپنا آخری گانا گائے پچیس سال کی گرل فرینڈ کے ماتھے پر بوسہ دے اور کروڑوں مداحین کی موجودگی میں دنیا سے رخصت ہو جائے ‏مائیکل جیکسن کی آنے والی زندگی ان چار خواہشوں کی تکمیل میں بسر ہوئی۔

اس نے 1982ء میں اپنا دوسرا البم ’’تھرلر‘‘ لانچ کیا یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والا البم تھا۔ ایک ماہ میں اس کی ساڑھے چھ کروڑ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں اور یہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بن گیا تھا۔ مائیکل جیکسن اب دنیا کا مشہور ترین گلوکار تھا، اس نے گمنامی کو شکست دےدی تھی ‏مائیکل نے اس کے بعد اپنی سیاہ جلد کو شکست دینے کا فیصلہ کیا اور پلاسٹک سرجری شروع کرا دیی، امریکہ اور یورپ کے 55 چوٹی کے پلاسٹک سرجنز کی خدمات حاصل کیں یہاں تک کہ 1987ء تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت، جلد، نقوش اور حرکات و سکناتبدل گئیں ‏سیاہ فام مائیکل جیکسن کی جگہ گورا چٹا اورنسوانی نقوش کا مالک ایک خوبصورت مائیکل جیکسن دنیا کے سامنے آ گیا یوں اس نے اپنی سیاہ رنگت کو بھی شکست دے دی


‏اس کے بعد ماضی کی باری آئی، مائیکل جیکسن نے اپنے ماضی سے بھاگنا شروع کردیا اس نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کر لیا۔ اس نے اپنے ایڈریسز تبدیل کر لئے، اس نے کرائے پر گورے ماں باپ حاصل کر لئے اور تمام پرانے دوستوں سے بھی جان چھڑا لی۔ ان تمام اقدامات کے دوران جہاں وہ اکیلا ہوتا چلا گیا وہاں وہ مصنوعی زندگی کے گرداب میں بھی پھنس گیا۔اس نے خود کو مشہور کرنے کیلئے ایلوس پریسلے کی بیٹی لیزا میری پریسلے سے شادی کر لی۔ اس نے یورپ میں اپنے بڑے بڑے مجسمے بھی لگوا دئیے اور اس نے مصنوعی طریقہ تولید کے ذریعے ایک نرس ڈیبی رو سے اپنا پہلا بیٹا پرنس مائیکل بھی پیدا کرا لیا۔ ڈیبی رو کے بطن سے اسکی بیٹی پیرس مائیکل بھی پیدا ہوئی ‏اس کی یہ کوشش بھی کامیاب ہوگئی اس نے بڑی حد تک اپنے ماضی سے بھی جان چھڑا لی ‏لہٰذا اب اس کی آخری خواہش کی باری تھی۔


 وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا مائیکل جیکسن طویل عمر پانے کیلئےدلچسپ حرکتیں کرتاتھا مثلاً وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھا وہ جراثیم وائرس اور بیماریوں کے اثرات سے بچنے کیلئے دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملاتا تھا۔ وہ لوگوں میں جانے سے پہلے منہ پر ماسک چڑھا لیتا تھا وہ مخصوص خوراک کھاتا تھا اور اس نے مستقل طور پر بارہ‏ڈاکٹر ملازم رکھے ہوئے تھے ‏یہ ڈاکٹر روزانہ اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتے تھے، اس کی خوراک کا روزانہ لیبارٹری ٹیسٹ بھی ہوتا تھا اور اس کا سٹاف اسے روزانہ ورزش بھی کراتا تھا اس نے اپنے لئے فالتو پھیپھڑوں، گردوں، آنکھوں، دل اور جگر کا بندوبست بھی کر رکھا تھا۔یہ وہ ڈونر تھے، جن کے تمام اخراجات مائیکل اٹھا رہا تھا اور ان ڈونرز نے بوقت ضرورت اپنے اعضاء اسے عطیہ کر دینا تھے، چنانچہ اسے یقین تھا کہ وہ ڈیڑھ سو سال تک ضرور زندہ رہے گا ‏


لیکن پھر 25 جون کی رات آئی، اسے سانس لینے میں دشواری پیش آئی، اس کےڈاکٹرز نے ملک بھر کے سینئر ڈاکٹرز کو اس کی رہائش گاہ پرجمع کر لیا یہ ڈاکٹرز اسے موت سے بچانے کیلئے کوشش کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے تو ہسپتال لے گئے ‏وہ شخص جس نے ڈیڑھ سو سال کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی، جو ننگے پاؤں زمین پر نہیں چلتا تھا، جو کسی سے ہاتھ ملانے سے پہلے دستانے چڑھا لیتا تھا، جس کے گھر میں روزانہ جراثیم کش ادویات چھڑکی جاتی تھیں اور جس نے 25 برس تک کوئی ایسی چیز نہیں کھائی تھی جس سے ڈاکٹروں نے اسے منع کیا ہو۔ وہ شخص صرف 50 سال کی عمر میں اور صرف تیس منٹ میں انتقال کر گیا۔اس کی روح چٹکی کے دورانیے میں جسم سے پرواز کر گئی مائیکل جیکسن کے انتقال کی خبر گوگل پر دس منٹ میں آٹھ لاکھ لوگوں نے پڑھی، یہ گوگل کی تاریخ کا ریکارڈ تھا اور اس ہیوی ٹریفک کی وجہ سے گوگل کا سسٹم بیٹھ گیا اور کمپنی کو 25 منٹ تک اپنے صارفین سے معذرت کرنا پڑی۔مائیکل جیکسن کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلا کہ بہت زیادہ احتیاط کی وجہ سے اس کا جسم ڈھانچہ بن چکا تھا، وہ سر سے گنجا ہو چکا تھا اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اس کے کولہے، کندھے، پسلیوں اور ٹانگوں پر سوئیوں کے بے تحاشا نشان تھے۔‏وہ پلاسٹک سرجری کی وجہ سے ’’پین کلرز‘‘ کا محتاج ہو چکا تھا، چنانچہ وہ روزانہ درجنوں انجیکشن لگواتا تھا لیکن یہ انجیکشنز، یہ احتیاط اور یہ ڈاکٹرز بھی اسے موت سے نہیں بچا سکے اور وہ ایک دن چپ چاپ اُس جہاں سے چلا گیا اور یوں اس کی آخری خواہش پوری نہ ہو سکی۔مائیکل جیکسن کی موت ایک اعلان ہے، انسان پوری دنیا کو فتح کر سکتا ہے لیکن وہ اپنے مقدر کو شکست نہیں دے سکتا۔ وہ موت اور اس موت کو لکھنے والے کا مقابلہ نہیں کر سکتا چنانچہ کوئی راک سٹار ہو یا فرعون اسے موت کا مزہ چکھنا لازم ہے-ڈیڑھ سو سال جینے کی آرزو  میں وہ محض پچاس کی عمر میں دنیائے فانی چھوڑ گیا  ‏  

جمعہ، 25 اکتوبر، 2024

خالق دینا ہال کراچی کا تاریخی ورثہ


   خالق دینا ہال کراچی کے تاریخی ورثہ  کی تعمیر کےلیے کراچی کے ایک مخیر‘ ممتاز اور علم دوست شخصیت تاجر غلام حسین خالق دینا نے اس وقت 18ہزار روپے کی رقم اور ایک قطعۂ اراضی 2289 گز  بھی عطیہ  کیا لیکن انہوں نے شرط یہ رکھی  کہ اس لائبریری کا نام ان کے نام سے منسوب کیا جائے، لیکن تعمیراتی کام شروع ہونے سے پہلے اندازہ لگایا گیا کہ   ہال کے لیے جگہ کم تھی‘ اس لیے اس وقت کی  تعمیراتی کمیٹی نے مزید زمین کے لیے بمبئی حکومت کو ایک درخواست دی ،جو 11فروری 1902ء کو منظور ہوئی ،جس کے بعد حکومت نے اس کی تعمیر کے لیے 2522گز کا ملحقہ قطعہ اراضی دے دیا۔ ہال   زمین کا مسئلہ  حل ہونے کے بعد  بلڈنگ  کی تعمیر کے لیے رقم کی کم تھی  جس کے لیے کمیٹی نے کراچی میونسپلٹی کو مالی مدد کی درخواست دی جو قبول کر لی گئی اور میونسپلٹی نے 16ہزار کی رقم تعمیر کے لیے دی۔


 ہال کی تعمیر کا آغاز 1905ء میں ہوا اور ایک سال کے قلیل عرصہ میں تقریباً38ہزار روپے کی کثیر رقم سے یہ عمارت مکمل کی گئی ۔ اس کی تعمیر میں غلام حسین خالق دینا کے علاوہ سر بارٹل فریئر‘ مسٹر موتی رام‘ ایس ایڈوانی ‘تھل رام کھیم چند کابھی نمایاں حصہ ہے۔خالق دینا ہال70فٹ لمبا اور 45فٹ چوڑا ہےجبکہ چھت 30فٹ اونچی کنک پوسٹ پر بنائی گئی ہے۔ ہال میں700سے 800افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ ہال کے تین اطراف 10فٹ چوڑا برآمدہ اور سامنے 52فٹ لمبا اور 32فٹ چوڑا سائبان ہے۔ یہ سائبان 16ستونوں پر کھڑا ہے۔ ہال کے چاروں طرف پتھروں کی سیڑھیاں ہیں جن کی تعداد ہر طرف 7ہے۔ ہال کے دو بڑے دروازے ہیں جبکہ دونوں اطراف 7،7 دروازے ہیں۔ہال میں تقریباً 500 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے ۔عمارت کافرش سیمنٹ کی خوب صورت ٹائلوں سے مزین ہے‘ جبکہ اندرکناروں پر کالے ڈیزائن سے مزین فائل کئے ہوئے ہیں ، چھت پر برماٹیک کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔عمارت کافرش سیمنٹ کی خوب صورت ٹائلوں سے مزین ہے‘ جبکہ اندرکناروں پر کالے ڈیزائن سے مزین فائل کئے ہوئے ہیں ، چھت پر برماٹیک کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ اس کی تعمیر میں بھورے رنگ کا پتھر استعمال ہوا ہے۔ جب کہ ڈیزائن قدیم مغربی اور مشرق طرز تعمیر سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے


 اس کی تعمیر میں بھورے رنگ کا پتھر استعمال ہوا ہے۔ جب کہ ڈیزائن قدیم مغربی اور مشرق طرز تعمیر سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے۔مقدمہ بغاوت کے فیصلے کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس عمارت میں کے ایم سی برابر کی حصہ دار ہوگی ،کیونکہ کے ایم سی نے کم و بیش اس کی تعمیر کے لئے آدھی رقم فراہم کی تھی۔ کمیٹی نے حکومت کے اس فیصلے پر احتجاج کیا لیکن بلآخر حکومت کے دبائو کے سامنے اس فیصلے کو آخر کار مان لیاکراچی شہر کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر واقع ایک قدیم‘ تاریخی اور خوب صورت عمارت خالق دینا ہال واقع ہے۔ یہاں تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے حوالے سے کئی اجلاس منعقد ہوئے جبکہ اس عمارت کو انگریز سرکار کی جانب سے عدالت کا درجہ دے کر تحریک خلافت کے عظیم رہنمائوں مولانا محمد علی جوہر ، ان کے بھائی مولانا شوکت علی ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا نثار احمد کانپوری، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، پیر غلام مجدت سرہندی اور سوامی شنکر اچاریہ پر مقدمہ بغاوت چلایا گیا اور انہیں دو سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی


   اس  کے باعث خالق دینا ہال کو تاریخی حیثیت حاصل ہوئی اور اس عمارت میں جرأت، ہمت، شجاعت اور حریت کی شاندار تاریخ رقم ہوئی۔26ستمبر 1921ء کو کراچی میں مولانا محمدعلی جوہراور ان کے ساتھیوں پر جو مقدمہ 9جولائی 1921ء کو عید گاہ میدان میں منعقدہ خلافت کانفرنس میں اس قرار داد کے منظور کیے جانے کی پاداش میں چلایا گیا جس میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے ساتھیوں نے مسلمانوں کے لیے برطانوی افواج میں ملازمت کو کفر قرار دیا تھا۔ مقدمے میں مسلم قائدین نے الزامات کو قبول کیا-خالق دینا ہال میں قیام پاکستان کے بعد دسمبر 1947ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے نام سے آل انڈیا کے الفاظ ختم کردیئے جائیں، اسی طرح 11 اکتوبر 1947 ء کو قائد اعظم نے سول اور فوجی افسران کے ایک اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’میرا پختہ یقین ہے کہ ہماری کامیابی اور فلاح نبی کریم ﷺکے مرتب کردسنہری اصولوں کو اپنانے میں ہی مضمر ہے، آئیں مل کر ہم اسلام کے زریں اصولوں پر مبنی جمہوریت کی بنیاد رکھیں۔ ‘‘


قدیم تاریخی اہمیت کا حامل ’’خالق دینا ہال‘‘23جون 1948کو سندھ کے گورنر شیخ غلام حسین ہدایت اللہ نے کراچی کے خالق دینا ہال میں سندھ سیکریٹریٹ کے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے سندھی عوام کو ہدایت کی کہ، وہ مہاجرین کے بارے میں وسیع القلبی کا عملی مظاہرہ کریں۔ غیر مسلم جہاں ہزاروں سرکاری آسامیاں خالی چھوڑ کر گئے ہیں ہمیں یہ خلا ہر صورت پُر کرنا ہے۔ مہاجرین کو متروکہ جائیدادوں اور خالی آسامیوں میں سے ان کے جائز حصّے سے محروم رکھنا غلط ہے۔انہوں نے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کو ملازمتوں کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔خالق دینا ہال، دراصل ایک لائبریری کے طور پر 1906ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔انگریزوں کے دور میں جب انگریز آفیسروں کی سرپرستی میں علم و ادب کی ترقی کا آغاز ہوا تو شہریوں کے لیے لائبریریوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔1851ء میں سندھ کے دوسرے کمشنر ،سربارٹل فریئر تھے، جن کے دور میں ان کاموں کا آغاز ہوکراچی کی پہلی لائبریری 1851ء میں لیڈیز کلب کے ایک کمرے میں وجود میں آئی جس کا نام جنرل لائبریری رکھا گیا تھا جسے بعد میں وسعت دی گئی۔ اور اسی وقت سے کراچی کے علم دوست یادگار لوگوں کا  پینل وجود میں آیا جنہوں نے اس وقت کے کراچی کے ماتھے  کے جھومر میں ایک نگینہ  عمارت کا اضافہ کیا 

جمعرات، 24 اکتوبر، 2024

پاکستان میں مذید صوبے وقت کی اہم ترین ضرورت

 

 دوسری بڑی ہی بدقسمتی ہے کہ  جب بھی ملک میں مزید صوبوں کی بات ہوتی ہے  انکی زبردست مخالفت شروع ہو جاتی ہے ۔اب اگر ہم پاکستان کی آبادی کا دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کریں ہمیں احساس ہوگا کہ کس طرح ہم اپنے ملک کے عوام سے زیادتی کے مرتکب ہو رہے ہیں پاکستان کی آبادی  پچیس  کروڑ سے کچھ زیادہ  ہی ہو چکی ہے اسکے باوجود یہاں صرف چار صوبے ہیں جب کہ Ireland  -انگلستان ، ایران اور فرانس کی آبادی چھ کروڑ ہے اور صوبے بالتر تیب 54 ، 24 اور 22 ہیں یعنی فی صوبہ تناسب انگلستان گیارہ لاکھ گیارہ ہزار ایک سو گیارہ ، ایران پچیس لاکھ ، فرانس پچیس لاکھ ستائیس ہزار دو سو بہتر جبکہ سعودی عرب جسکی آبادی ایک کروڑ چھتیس لاکھ ہے وہاں 14 صوبے اور آسٹر یلیا جہاں کی آبادی ایک کروڑ چھ لاکھ ہے وہاں آٹھ صوبے ہیں ۔

 مصر پانچ کروڑ کی آبادی کا ملک ہے اور صوبوں کی تعداد وہاں بیالیس ہے وہاں کا فی صوبہ آبادی کا تناسب تقریبا گیارہ لاکھ نوے ہزا ر بنتا ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت جسکا قیام ہمارے ساتھ ہی وجود میں آیا قیام کے وقت وہاں صرف آٹھ صوبے تھے اور اب 27 صوبے موجود ہونے کے با وجود مزید تین صوبوں کے قیام کی منظوری کا بل پارلیمنٹ میں موجود ہے-ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہیئے کہ مزید صوبوں کے قیام کا منصوبہ تشکیل دیں اور اسے اپنی پالیسیوں میں اولین تر جیح دیں تبدیلی ہند میں صوبوں میں اضافے کے وجہ سے بھی ترقی کے رفتار بہت تیز رہی ہے ۔ہندآزاد ہواتو 13صوبے تھے70سال میں 36صوبے بن گئے جن میں 7یونین ٹیریٹریز بھی شامل ہیں ۔گویا 29بھر پور صوبوں کا درجہ رکھتے ہیں اور کچھ کم حقوق کی 7یونین ہیں کیونکہ ریاستیں ختم اور جاگیرداری نظام ختم ہوچکا تھا لہذا عوام میں شعور پیدا ہواتو نئے نئے صوبوں کا مطالبہ رہا ۔

تو ہر 2سال بعد نئے صوبوں کا رجحان بڑھا تو آج 13صوبے بڑھ کر 36صوبے بن چکے ہیں ۔ہمارے ان جاگیرداروں ،نوابوں ،زمینداروں نے نئے صوبے نہیں بننے دیئے بلکہ سب سے زیادہ نقصان کراچی کو پہنچا جو پاکستان کا دارالحکومت تھا ساتھ ہی ایک مکمل بڑا صوبہ بھی تھا۔ اسلام آباد کو دارالحکومت بنا کر کراچی کا کردار ختم کیا ۔پھر اس آزاد صوبے کراچی کو سندھ میں ضم کرکے صوبہ کادرجہ بھی چھین لیا اسی طرح خیر پور او ربہاولپور بھی الگ الگ صوبے تھے ان کو بھی بالترتیب سندھ اور پنجاب میں ضم کرکے ان کے عوام کو بھی محکوم بنا ڈالا۔وہ آج تک سرائیکی صوبے کاخواب دیکھ رہے ہیں ۔جس طرح ماضی میں کئی کمیشن بھی بنے انہوں نے بھی اپنی اپنی رپوٹوں میں اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی 25کروڑ کی آبادی ہونے کے باوجود نئے صوبے نہیں بنائے گئے جس کی وجہ سے پاکستان دنیا کی دیگر ممالک کی طرح عوام کو ان کی بنیادی حقوق اورسہولیات فراہم کرنے میں ناکام ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے ۔

کیونکہ جب تک پاکستان میں مزید صوبے نہیں بنائے جائیں گے، عوام کے معاشی وسماجی مسائل حل نہیں ہوسکیں گے ۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر نئے صوبے اور نئے اضلاع بنائے جارہے ہیں تاکہ قومی وسائل کو منصفانہ طورپر تقسیم کرکے معاشرتی وتہذبی ہم آہنگی پیدا کی جاسکے۔ بھارت جب 1947ء میں آزاد ہوا تو اس وقت اس کے صرف آٹھ صوبے تھے اور آبادی چالیس کروڑ کے قریب تھی ، لیکن اب بھارت میں 36صوبے بن چکے ہیں اور آبادی ایک ارب بیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ بھارت میں آزادی کے بعد جتنے بھی صوبے بنے ہیں، ان کی تشکیل لسانی بنیادوں پر نہیں، بلکہ خالصتاً انتظامی ومعاشی بنیادوں پر کی گئی تھی یہی وجہ ہے جب بھارت میں نئے صوبے بنے تو آبادی کے کسی بھی طبقے کی جانب سے مزاحمت نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی فساد برپا ہوا۔ ہمارے ایک اور پڑوسی ملک افغانستان میں بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر کئی صوبے بن چکے ہیں، جسکی وجہ سے وہاں غربت وافلاس کا گراف نیچے آیاہے، اس قسم کا تجربہ بنگلہ دیش میں بھی ہوا ہے، اس لئے اگر پاکستان میں بھی مزید صوبے بن جاتے ہیں جس کا پاکستان میں کئی دہائیوں سے مطالبہ کیا جارہا ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور وغوض کرنے کی ضرورت ہے ۔یہاںیہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس وقت پاکستان کی موجودہ آبادی اٹھارہ کروڑ نہیں بلکہ اب پچیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اس  پچیس کروڑ کی آبادی میں بارہ کروڑ عوام خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں،

مزید براں ہمارا سیاسی نظام چند خاندانوں کی اجارہ داری تک محدود ہوچکا ہے، جبکہ ایک عام آدمی صرف ووٹ دینے کی حد تک تو ''جمہوریت‘‘ کے نام سے آشنا ہے، لیکن کوئی اسے حقوق دینے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ وسائل کی گردش بھی چند خاندانوں تک محدود ہے، اس لئے اگر پاکستان میں مزید صوبے بن جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے پڑوسی ممالک  میں ہوا ہے، تو اس میں تشویش یا گھبرانے کی کیا بات ہے؟ دراصل مزید صوبوں کے مطالبے سے موجودہ سیاسی نظام کے تحت بننے اور پرورش پانے والے چند خاندان   ہیں  جو مزید صوبوں کے قیام کے مطالبے کو رد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر انتظامی بنیادوں پر سرائیکی صوبہ، ہزارہ صوبہ 'کراچی صوبہ ' اگر یہ صوبے بن جاتے ہیں تو ان کی وجہ سے عوام کے بہت سے مسائل حل ہوسکیں گے، نیز سیاست میں چند خاندانوں کی اجارہ داری بھی ٹوٹ سکے گی، جن کی زیادتیوں کی وجہ سے عوام ہر سطح پر مجبور ومحکوم نظر آرہے ہیں، سندھ میں مزید صوبوں کے قیام کے خلاف بیان دیتے ہوئے سندھ کے وزیر اعلیٰ جناب قائم علی شاہ نے'' طنزا ًکہا تھا ‘‘ کہ سندھ کسی کا برتھ ڈے کیک نہیں ہے، بچہ بچہ اسکی حفاظت کرے گا۔ قائم علی شاہ کا یہ بیان دراصل ان کی ترجمانی کررہا ہے جو سندھ کے موجودہ استحصالی نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ عناصر عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینا نہیں چاہتے ۔حالانکہ سندھ میں مزید صوبوں کا قیام خود سندھیوں کے حق میں انتہائی با ثمر اور سود مند ثابت ہوگا۔وہ خود بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جب تک پاکستان میں بھارت کی طرز پر انتظامی بنیادوں پر صوبے نہیں بنیں گے، بڑھتی ہوئی آبادی کے سیاسی ، معاشی اور سماجی مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ پاکستان میں مزید صوبوں کے قیام کا مطالبہ آئین اور عوام کی بڑھتی ہوئی معاشی ومعاشرتی ضروریات کے پیش نظر کیا ہے ۔ اس سے قبل کراچی کے ایک سیاسی رہنما اور دانشور ظفر انصاری مرحوم نے بھی پاکستان میں مزید صوبوں کے قیام کو پاکستان کی ترقی اور قومی یکجہتی کے ساتھ لازم وملزوم قرار دیا تھا۔اس وقت مرحوم نے تیرہ صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کی تھی جبکہ پاکستان کی آبادی بارہ کروڑ سے زیادہ نہیں تھی۔ اب پاکستان کی آبادی پچیس کروڑ تک پہنچ گئی ہے، وسائل سکڑتے جارہے ہیں ، 

بدھ، 23 اکتوبر، 2024

کربلا گامے شاہ کے خالق کو ن تھے

 یہ ان دنوں کا زکر ہے جب تخت لاہور پر  مہاراجہ رنجیت سنگھ  سریر آرائے سلطنت ہوا کرتا تھا -اسی کے دور حکومت میں باباگامے شاہ نے 1828ء میں سب سے پہلے ایک تعزیہ تیارکیا اور روز عاشور اپنے شانوں پر اٹھاکر اسے لاہور کی گلیوں اور سڑکوں پر   اما م حسین علیہ السلام کی مرثیہ گوئ اور ساتھ ہی گریہ و زار ی  کرتے ہوئے گشت کیا ۔مہاراجہ  رنجیت سنگھ کو یہ خبرملی تواس نے بابا گامے شاہ کو اپنے دربار میں بلوا کر اسے سخت الفاظ استعمال  کرتے ہوئے بے عزت کیا اور حکم جاری کیا کہ آئندہ وہ کبھی تعزیہ نہیں نکالے گا۔ اس پر گامے شاہ نے دلیری سے انکار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ ہر  سال محرم کے مہینے میں  تعزیہ  بھی بنائے گا اور اس کے ساتھ سڑکوں پر گشت بھی  کرے گا اور زندگی بھر  ایسا کرتا رہے گا۔ رنجیت سنگھ نے یہ دوٹوک جواب سنا توحکم جاری کیا کہ گامے شاہ کو شاہی قلعہ لاہور میں قید کردیا جائے۔


 اسی رات سے رنجیت سنگھ کو رات میں سوتے ہوئے ڈراؤنے خواب آنے لگے۔ وہ یہ خواب دیکھ کر راتوں کو جاگتا رہا اور پھر پریشانی کے عالم میں اپنے وزیرفقیر سید عزیزالدین کو ساتھ لے کر اس جیل میں گیا جہاں بابا گامے شاہ کو قید کیا گیا تھا۔ پھر اس نے فقیر سید عزیزالدین کی موجودگی میں گامے شاہ سے معافی مانگی اور اسے قید سے رہا کردیا ۔گامے شاہ جب تک زندہ رہے تعزیہ نکالتے رہے ۔ لاہور کی تاریخ میں محرم کو عوامی طور پر منانے کی روایت اٹھارویں  صدی کے اوائل میں جاری ہوئی جو آج تک جاری ہے اور تاقیامت رہے گی … اندرون لاہور اور اسلام پورہ (سابق کرشن نگر) میں تعزیئے‘ ماتمی جلوس اور ذوالجناح دیکھنے والے ہوتے ہیں


اس طرح لاہور سے تعزیہ نکالنے کی ابتدا  درویش شخص غلام علی شاہ نے کی تھی جو بعد میں بابا گامے شاہ کے نام سے مشہور ہوئے اور آج تک اسی نام سے مشہور ہیں۔ گامے شاہ کے بارے میں روایت مشہور ہے کہ وہ عام لاہوریوں کی نظر میں تو دیوانے شمار ہوتے تھے‘ لیکن درحقیقت و عارف کامل اور شہیدانِ کربلا کے ایسے عاشق تھے کہ جس کی مثال اس وقت کے لاہور میں کہیں نہیں ملتی تھی۔ بابا گامے شاہ ہمیشہ سیاہ لباس پہنتے تھے اور دربار داتاصاحب کے قریب ایک قدیم برف خانہ تھا وہاں زمین پر بیٹھے رہتے تھے۔ ایک اور بڑھیا تھی جسے آغیاں مائی کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ وہ بھی عاشورہ کے روز موچی دروازہ سے نوحہ خوانی کرتے اور اپنا سر پیٹتے ہوئے گامے شاہ کے ڈیرہ پر آجاتی تھی۔
 
 قید سے رہائی کے بعد بابا گامے شاہ ہرسال محرم کے دنوں میں اپنا بنایا ہوا تعزیہ اپنے سر پراٹھا کر لاہور شہرکے گلی کوچوں میں جاتے اور گریہ زاری کرتے ہوئے گزرتے تھے اور لاہوریوں کا ایک ہجوم ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا تھا جب بابا گامے شاہ کا انتقال ہوا توانہیں نہایت احترام کے ساتھ مزارحضرت داتا صاحب کے قریب جہاں وہ زندگی بھر بیٹھتے رہے تھے‘ اسی حجرے میں انہیں دفن کیا گیا۔ مزار کے ساتھ ہی ایک بڑے برتن میں کربلا کے میدان سے لائی گئی مٹی میں رکھی گئی ہے جو بابا گامے شاہ کی تعزیہ سازی اور محرم میں کربلا میں دی جانے والی بے مثال قربانیوں کی تشہیرکے حوالے سے ایک نذرانۂ عقیدت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس جگہ کو پھرکربلا گامے شاہ کا نام دے دیا گیا ۔ گامے شاہ کے مزار کے اوپری حصہ پر وہ قدیم تعزیہ میں جلوہ نما ہے جسے وہ اپنے سر پر اٹھاکر لاہور شہرکے گلی کوچوں میں گھوما کرتے تھے اور باآواز بلند گریہ وماتم بھی کیا کرتے تھے۔ یہ ماتمی سفر آج بھی لاہور شہر کے گلی کوچوں میں محرم کے دوران نمایا  ں دکھائی دیتا ہے بلکہ لاہورکے محرم کا  لازمی حصہ بن چکا  ہے

گامے شاہ کی وفات کے بعد تعزیہ سازی کی روایت کو برقرار رکھنے کیلئے نواب علی رضا قزلباش اور سر نوازش علی قزلباش نے کچھ اور لوگوں سے مل کر یہ جگہ خریدلی اور پھریہاں گامے شاہ کا مقبرہ بھی تعمیر کروایا اور مقبرے کے ساتھ ہی ایک ’’کربلا‘‘ بھی بنوائی۔ پھر اس جگہ کا نام کربلا گامے شاہ رکھا گیا۔ پھراس کربلا کو وہ شہرت ملی کہ لاہور میں بنائے جانے والے سارے تعزئیے دس محرم کو یہیں لائے جاتے ہیں۔ لاہور کی عزاداری کی تاریخ میں کربلا گامے شاہ بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکی ہے۔ 1868ء میں پورے شہر لاہور میں تعزیہ سازی پر لاکھوں روپیہ خرچ ہونے لگا اور بے شمار ڈیزاءنو ں  تعزئیے بنائے جانے لگےیہ تعزیے سونے، چاندی ، لکڑی، بانس، کپڑے، کاغذ اور سٹیل سے تیار کیے جاتے ہیں ۔ پھریوں ہوا کہ تعزیوں کو شہر لاہور میں  بغرض زیارت گشت  کے بعد شہر سے باہر لے جاکر مٹی میں دفن کیا جانے لگا۔ عموماً یہ تعزئیے دریائے راوی کے کنارے میں دبائے جاتے تھے۔ جن تعزیوں پر قیمتی چیزیں لگائی گئی ہوتی تھیں‘ انہیں اگلے روز ریت سے نکال کر آئندہ محرم کیلئے محفوظ کرلیا جاتا تھا۔ بابا گامے شاہ کا جاری کردہ تعزیہ سازی اور ماتم گساری کا یہ سلسلہ آج تک جاری وساری ہے۔ 

منگل، 22 اکتوبر، 2024

منکی پاکس -احتیاط لازم ہے

 پ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ  د  نیا میں چیچک  کا مرض   کم از کم 3000 سال تک موجود رہا- اور بالآخر 1980 میں عالمی ادارہ صحت نے چیچک کے دنیا سے باضابطہ طور پر ختم ہونے کا اعلان کیا۔لیکن کافی عرصے کے بعد چیچک سے ملتی جلتی بیماری نے سر  اُٹھا یا ہے -جس کا نام منکی پاکس ہے  یہ بیماری ایک وائرل انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس کی علامات چیچک سے ملتی جلتی ہیں، مگر یہ چیچک سے کم خطرناک ہوتی ہے۔ منکی پاکس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے۔2022 میں عالمی منکی پاکس (mpox) وبا کے آغاز سے لے کر جولائی 2024 کے آخر تک، 116 ممالک سے منکی پاکس کے 99,176 مصدقہ کیسز اور 208 اموات رپورٹ کی جا چکی ہیں۔ منکی پاکس عام طور پر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے، اور اس کی علامات جلد پر دانے، بخار، اور جسمانی درد شامل ہیں۔ یہ بیماری پہلی بار 1958 میں دریافت ہوئی جب بندروں میں اس کی وبا پھوٹی، اور اسی وجہ سے اس کا نام ’منکی پاکس‘ رکھا گیا۔ تاہم، منکی پاکس جیسی وائرل بیماریوں نے سائنسدانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کچھ دیگر وائرس بھی چیچک کے وائرل خاندان سے جڑے ہو سکتے ہیں۔ منکی پاکس پہلی بار 1958 میں دریافت ہوئی جب ڈنمارک کی ایک تجربہ گاہ میں تحقیق کے دوران بندروں میں اس بیماری کی شناخت ہوئی۔ اس کے بعد، 1970 میں یہ بیماری پہلی بار انسانوں میں کانگو (وسطی افریقہ) میں پائی گئی۔ اس کے بعد مختلف افریقی ممالک میں منکی پاکس کے کیسز سامنے آئے۔


منکی پاکس کیا ہے؟منکی پاکس ایک وائرل انفیکشن ہے  -یہ وائرس بنیادی طور پر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے، خاص طور پر جنگلی جانور جیسے بندر، چوہے اور گلہریاں اس بیماری کے اہم کیرئیرز سمجھے جاتے ہیں۔ منکی پاکس وائرس کی دو بڑی قسمیں ہیں:(1)  وسطی افریقی (کنغوی) قسم: یہ قسم زیادہ خطرناک ہے اور انسانوں میں زیادہ آسانی سے منتقل ہوتی ہے۔ (2)  مغربی افریقی قسم: یہ قسم کم خطرناک ہے اور انسانوں کے درمیان منتقلی کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔منکی پاکس کے پھیلاؤ کا طریقہ: منکی پاکس کی منتقلی زیادہ تر جانوروں سے انسانوں میں ہوتی ہے۔ جانوروں کے کاٹنے، خراشوں، یا ان کے جسمانی مواد سے براہِ راست رابطے کے ذریعے وائرس انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، کسی متاثرہ جانور کے گوشت کا استعمال بھی بیماری پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ انسانوں میں منتقلی کے دوران، یہ وائرس زیادہ تر متاثرہ شخص کے جسمانی مواد، جلد پر بننے والے دانوں، یا متاثرہ شخص کے لباس اور بستر وغیرہ کے ذریعے پھیلتا ہے۔انسانوں میں منکی پاکس کی منتقلی کے ذرائع میں یہ عوامل شامل ہیں: متاثرہ جانور سے براہِ راست رابطہ، متاثرہ جانوروں کے گوشت کا استعمال، متاثرہ شخص سے قریبی جسمانی رابطہ، متاثرہ شخص کے کپڑے، بستر یا دیگر استعمال شدہ اشیاء کے ذریعے۔


منکی پاکس کی علامات-منکی پاکس کی علامات ابتدائی طور پر فلو جیسی ہوتی ہیں اور اس کے بعد جلد پر خاص قسم کے دانے نمودار ہوتے ہیں۔ علامات کی تفصیل درج ذیل ہے:بخار: منکی پاکس کی سب سے پہلی اور عام علامت بخار ہے، جو وائرس کے جسم میں داخل ہونے کے 5 سے 21 دن بعد شروع ہوتا ہے۔ سر درد اور تھکن: بخار کے ساتھ ہی شدید سر درد، تھکن، اور جسم میں درد کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔گلے کی سوجن: متاثرہ شخص کے لیمف نوڈس (glands) سوج جاتے ہیں، جو چیچک سے اس بیماری کو مختلف بناتے ہیں۔جلد پر دانے: بخار کے چند دن بعد جلد پر دانے نمودار ہوتے ہیں، جو چیچک کی علامات سے ملتے جلتے ہیں۔ یہ دانے اکثر چہرے سے شروع ہوتے ہیں اور پھر پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔پپڑیاں بننا: دانے پھٹنے کے بعد ان پر پپڑیاں بن جاتی ہیں جو بعد میں سوکھ کر گر جاتی ہیں۔


مرض کی شدت: منکی پاکس کی شدت مختلف افراد میں مختلف ہو سکتی ہے۔ زیادہ تر کیسز میں بیماری کی شدت درمیانی ہوتی ہے، اور مریض دو سے چار ہفتوں کے اندر صحت یاب ہو جاتا ہے۔ تاہم، بعض اوقات یہ بیماری شدید بھی ہو سکتی ہے، خاص طور پر بچوں، حاملہ خواتین، اور ایسے افراد میں جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو۔منکی پاکس کی تشخیص زیادہ تر طبی علامات اور مریض کی تاریخ کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ تاہم، چونکہ اس بیماری کی علامات چیچک اور دیگر جلدی امراض سے ملتی جلتی ہیں، اس لیے لیبارٹری ٹیسٹ ضروری ہوتے ہیں۔ منکی پاکس کی تشخیص کے لیے درج ذیل ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں:پی سی آر (Polymerase Chain Reaction) ٹیسٹ: یہ ٹیسٹ منکی پاکس وائرس کی موجودگی کی تصدیق کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ وائرس کلچر: وائرس کو لیبارٹری میں کلچر کر کے اس کی شناخت کی جاتی ہے۔ 


 منکی پاکس کا علاج

چونکہ یہ ایک وائرل بیماری ہے، اس لیے اس کا علاج زیادہ تر علامات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ بخار، درد، اور جلد کی علامات کو دور کرنے کے لیے عام ادویات دی جاتی ہیں۔ بیماری کی شدت کو کم کرنے کے لیے مریض کو مکمل آرام، مناسب غذا، اور جسم میں پانی کی کمی دور کرنے کے لیے پانی اور دیگر سیال فراہم کیے جاتے ہیں۔چیچک کی ویکسین اور منکی پاکس: چیچک کی ویکسین منکی پاکس کے خلاف بھی 85 فیصد تک مؤثر سمجھی جاتی ہے۔ ان افراد کو جنہیں منکی پاکس کا خطرہ ہو یا جنہوں نے متاثرہ علاقوں کا سفر کیا ہو، چیچک کی ویکسین دی جا سکتی ہے تاکہ بیماری سے بچاؤ ممکن ہو سکے

پیر، 21 اکتوبر، 2024

عالمی ادارہ صحت نے خناق کی ادویات سندھ حکومت کو عطیہ کردیں

 


عالمی ادارہ صحت نے خناق ڈپتھیریا کی ادویات سندھ حکومت کو عطیہ کردیں

ہیلتھ ڈیسک شائع October 16, 2024

Dawn News WhatsApp Channel واٹس ایپ چینل

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خناق کے علاج کی اینٹی ٹاکسن ادویات سندھ حکومت کو عطیہ کردیں۔سندھ بھر کے سرکاری ہسپتالوں سمیت نجی ہسپتالوں میں خناق کے علاج کے دوران کام کرنے والی اینٹی ٹاکسن ادویات کی قلت پیدا ہوگئی تھی، جس وجہ سے صوبے بھر میں خناق کے مرض میں مبتلا بچوں کی اموات بھی ہوئی ہیں۔محکمہ صحت نے بتایا تھا کہ خناق کے سب سے زیادہ کیسز صوبائی دارالحکومت کراچی میں رپورٹ ہوئے، تاہم اموات سب سے زیادہ حیدرآباد ڈویژن کے ضلع دادو میں ہوئیں۔اس سے قبل خبریں پھیلی تھیں کہ سندھ بھر میں خناق سے 100 بچوں کی اموات ہوئی ہیں، جس پر سندھ حکومت نے واضح کیا تھا کہ بیماری سے صرف 28 بچوں کی اموات ہوئی ہیںمحکمہ صحت سندھ نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ صوبے بھر میں رواں برس 5 اکتوبر تک خناق سے 28 بچوں کی اموات ہوئیں اور 166 کیسز رپورٹ ہوئے۔سندھ بھر میں خناق کے علاج میں کام آنے والی اینٹی ٹاکسن ادویات کی قلت کے بعد عالمی ادارہ صحت نے سندھ حکومت کو ویکسینز فراہم کیں


انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے حکام نے اینٹی ٹاکسن ویکسینز کی 500 خوراکیں سندھ حکومت کے حوالے کیں، جنہیں سندھ انفیکشس ڈیزیز سمیت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این آئی سی ایچ) میں استعمال کیا جائے گا۔دوسری جانب وفاقی محکمہ صحت کے ادارے ”ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان“ ’ڈریپ‘ نے بھی اینٹی ٹاکسن ادویات کی بیرون ملک فروخت پر پابندی عائد کرتے ہوئے ہدایات جاری کیں ہیں کہ پہلے ملک میں ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ خناق میں مبتلا بعض بچوں کے علاج کے لیے اینٹی ٹاکسن کی ادویات پر ڈھائی لاکھ روپے تک خرچ آتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ خناق ناقابل علاج نہیں، اگر والدین پابندی سے بچوں کو خناق سے بچائو کی ویکسینز لگوائیں تو اس بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔یہ بیماری خصوصی طور پر نوزائیدہ یا 10 سال سے کم عمر بچوں کو  ہوتی ہے، خناق وائرس سے ہونے والا سنگین انفیکشن ہے جس کے سبب سانس کی نالیوں میں سوزش ہوجاتی ہے اور بچے کے سانس لینے پر آواز آتی ہیں۔خناق کی عام علامات میں سخت اور بڑے آواز کی کھانسی، اونچی آواز میں سانس لینا، خرخراہٹ، سانس لینےمیں مشکل ہونا، گلے میں خارش، آواز کا بھاری یا تبدیل ہونا ناک بہنا یا بند ہونا اور بخار شامل ہیں، تاہم اس میں سے بعض علامات دوسرے مسائل کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہیں۔بچوں میں مذکورہ علامات کے بعد فوری طور پر ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جانا چاہیے 


خناق ایک شدید بیکٹیریل انفیکشن ہے جو گلے اور ناک کی(چپچپا ) جھلیوں کو متاثر کرتا ہے۔ اگرچہ جدید دور میں یہ نسبتاً نایاب ہے، بنیادی طور پر بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کی وجہ سے، وباء اب بھی ہو سکتی ہے، خاص طور پر صحت کی دیکھ بھال کے ناقص انفراسٹرکچر والے علاقوں میں۔ جب کوئی وباء پھیلتی ہے، تو یہ تیزی سے پھیل سکتا ہے اور اگر فوری طور پر علاج اور اس پر قابو نہ پایا جائے تو شدید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔   خناق کیا ہے اور یہ کیسے پھیلتا ہے۔ بیکٹیریم کی کھانسی یا چھینک سے سانس کی بوندوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ آلودہ اشیاء یا سطحوں کے ساتھ رابطے سے بھی پھیل سکتا ہے۔خناق کی علامات میں گلے اور ٹانسلز پر ایک موٹی، سرمئی کوٹنگ شامل ہے، گلے کی سوزش، سوجن غدود، سانس لینے میں دشواری، اور بخار۔ علاج کے بغیر، خناق شدید پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے، جیسے قلب کی ناکامی یا فالج -خناق سے بچاؤ کے اقداما ت -بچوں میں خناق کی روک شاٹس کی ایک سیریز ملنی چاہیے۔ 


یہ شاٹس عام طور پر دو ماہ، چار ماہ، چھ ماہ، 15-18 ماہ، اور 4-6 سال کی عمر میں دیے جاتے ہیں۔بالغوں میں خناق کی روک تھام استثنیٰ کو برقرار رکھنے کے لیے بالغوں کو ہر دس سال بعد Tdap   حاملہ خواتین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ہر حمل کے دوران Tdap ویکسین لگائیں تاکہ وہ خود کو او اپنے نوزائیدہ بچوں کو خناق سے بچائیں۔ہائی ویکسینیشن کوریج کو برقرار رکھنا-کسی کمیونٹی میں ویکسینیشن کی اعلی شرح کو برقرار رکھنا وباء کو روکنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس تصور کو، جسے ہرڈ امیونٹی کے نام سے جانا جاتا ہے، کا مطلب ہے کہ جب کافی لوگوں کو ویکسین لگائی جاتی ہے، تو بیماری کے پھیلنے کا امکان کم ہوتا ہے،۔صفائی اور حفظان صحت کو فروغ دیناحفظان صحت کے اچھے طریقوں سے خناق کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ 


 اگر خناق کی وباء کا سامنا کرنے والے کسی علاقے کا سفر کرتے ہوئے، اضافی احتیاطی تدابیر ضروری ہوسکتی ہیں، جیسے کہ بیمار افراد کے ساتھ قریبی رابطے سے گریز کرنا اور حفظان صحت کے بہتر اقدامات پر عمل کرنا۔ ان میں صحت کی دیکھ بھال تک محدود رسائی، ویکسین سے ہچکچاہٹ، ۔ خناق کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ان رکاوٹوں پر قابو پانا ضروری ہے ۔ صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور سستی یا مفت ویکسینیشن خدمات فراہم کرنے کی کوششیں خناق سے بچاؤ کے لیے ں۔عوامی بیدار ی  ترغیب دے سکتی ہ۔  اقدامات کے فوائد سے آگاہ کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔خناق کا علاج اور روک تھاماگرچہ روک تھام کلیدی حیثیت رکھتی ہے، لیکن خناق کے علاج کے اختیارات پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی انفیکشن ہوتا ہے تو، ڈپتھیریا اینٹی ٹاکسن، جو اینٹی بائیوٹکس کے ساتھ دیا جاتا ہے، بیکٹیریا کے ذریعہ پیدا ہونے والے زہر کو بے اثر کر دیتا ہے

اتوار، 20 اکتوبر، 2024

ہالو وین-دو ہزار سال پرانا تہوار

      دراصل   اس تہوار کے منائے جانے میں  اس  کا تعلق بد روحوں،چڑیلوں، مُردوں، شیطان، اور ہر  طرح کی غیر روحانی مخلوقات سے جوڑا جاتا ہے-بتایا جاتا ہے  کہ امریکہ میں اس کی ابتدا1921ء میں شمالی ریاست مینسوٹا سے ہوئی، پھر اسی سال پہلی بار شہر کی سطح پر یہ تہوار منایا گیا، پھر آہستہ آہستہ دو ہزار سال پرانا یہ تہوار امریکہ کے دوسرے شہروں اور قصبوں تک پھیل گیا،  اس  تہوار  میں ا کتوبر کی آخری شام کو امریکہ اور کینیڈا   میں    گھروں  کے باہر عوامی مقامات کو بھوت پریت، چڑیلیوں کے ڈراؤنے ڈھانچوں سے سجایا جاتا ہے-  اس رات  کو    ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور   ٹرک اند ٹریٹ  صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور اور حسب مقدور  کھانے کی  میٹھی اشیاء دے کر رخصت کردیتے ہیں۔


 

   اس دن  لوگ اپنے گھروں کے باہر ہڈیاںِ، ڈھانچے، کتبے اس لئے لگاتے ہیں کہ بد روحیں یہ سمجھیں کہ یہ پہلے سے ہی بد روحوں کا مسکن ہے ، یہاں انسان نہیں رہتے اور دھوکا کھا کر واپس چلی جائیں ہا لووین کا   تہوار  قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ ان کے رواج کے مطابق نئے سال کا آغاز یکم نومبر سے ہوتا تھا۔ موسمی حالات کے باعث ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہوجاتی تھی اور نومبر سے سرد اور تاریک دنوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ سردیوں کو قبائل موت کے ایام سے بھی منسوب کرتے تھے کیونکہ اکثر اموات اسی موسم میں ہوتی تھیں۔ہالووین کی موجودہ رسوم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے- ہالووین کے  موقعہ پر ہر سال لاکھوں ، کروڑوں ڈالر کے چاکلیٹس کے علاوہ کاسٹیومز، کھوپڑیاں، ڈھانچے اور لا محدود قسم کے لوازمات بکتے ہیں۔



 ان قبائل کا عقیدہ تھا کہ 31 اکتوبر کی رات کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان موجود سرحد نرم ہوجاتی ہے اور روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے قبائلی 31 اکتوبر کی رات آگ کے الاؤ روشن کرتے، اناج بانٹتے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ ہالووین کی موجودہ رسم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ہالو وین کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ موسم گرما کے اختتام کے ساتھ یعنی31اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور امریکہ میں تو25اکتوبر سے شروع ہوجاتا ہے یورپ و امریکہ میں اس دن کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔ کہیں کہیں کدو یعنی پمپکن  کے پیٹ سے بیج نکال کر اس میں دیئے رکھ کر روشنی کی جاتی ہے کدو  کو مختلف اشکال میں ڈھالا جاتا ہے۔ لوگ بھیس بھی اسی لئے بدلا کرتے ہیں  کہ شیطان اورارواح خبیثہ انہیں پہچان نہ پائیں۔ بچوں میں کھانے کی چیزیں بانٹنے کے پیچھے بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ شیطان اور چڑیلیں بچوں کو خوش کرنے کی وجہ سے اہل خانہ سے دور رہیں۔


 انیسویں صدی کے آخر تک امریکہ میں ہالو وین پارٹیاں عام ہونے لگیں جن میں بچے اور بڑے شریک ہوتے۔ ان پارٹیوں میں کھانے کے علاوہ چہرے پر خوفناک ماسک چڑھائے جاتے، اب بھی یہ تہوار زیادہ جوش و خروش سے منایا جاتا ہے جس میں گلی کوچوں، مارکیٹس، پارکوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈرائونے چہروں اور خوفناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر کدو پیٹھے نظر آتے ہیں جن پر ہیبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں۔ کئی گھروں کے باہر ڈرائونے ڈھانچے کھڑے کیے ہوتے ہیں۔ جب ان کے قریب سے گزریں تو خوفناک دل دہلانے والا قہقہہ لگاتے ہیں۔ یہ کہا جائے کہ اس تہوار کو خوف و ہراس سے منسوب کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، بھلے اس کاروباری قسم کے تہوار سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں،۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی ہیبت ناک قسم کی سچویشن سوٹ نہیں کرتی، اسے عام طریقے سے منایا جائے تو بہتر ہے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر