منگل، 24 اکتوبر، 2023

ایلو ویرا یا کوار گندل

 

 



 ایلو ویرا آپ کے لئے  کس 'کس طرح فائدہ مند ہو سکتا ہے آئے دیکھتے ہیں ۔قدیم یونان، مصر، ہندوستان، میکسیکو، جاپان اور چین وغیرہ میں اس کا طبی استعمال صدیوں سے ہورہا ہے اور اسے متعدد امراض سے نجات کا نسخہ سمجھا جاتا ہے۔موجودہ عہد میں یہ افریقہ، ایشیا، یورپ اور امریکا میں اگتا ہے اور ہر سال کروڑون افراد اسے مختلف مقاصد کے لیے مختلف شکلوں جیسے جیل، جوس اور کیپسول وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں -درحقیقت کاسمیٹک، فوڈ اور فارماسیوٹیکل انڈسٹریز قدرت کے اس عجوبے پر انحصار کرتی ہیں جو ہزاروں برسوں سے انسان استعمال کررہے ہیں

 ۔تو اس میں ایسا کیا خاص ہے ؟ تو اس کا جواب اس میں چھپنے اینٹی آکسائیڈنٹس اور جراثیم کش خصوصیات میں چھپا ہے، اس پودے کے پتے 3 تہوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور ہر تہہ کا اپنا فنکشن اور استعمال ہے۔

ایلوویرا وٹامنز اور منرلز سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میں وٹامن اے، سی، ای، بی 1، بی 2، بی 3 اور بی 12؛ پروٹین، لپڈز، امائینو ایسڈز، فولک ایسڈ اور کیلشیئم، میگنیشیئم، زنک، کرومیئم، سیلینیئم، سوڈیئم، آئرن، پوٹاشیئم، کاپر اور مینگنیز جیسے منرلز شامل ہوتے ہیں جو ہماری صحت بہتر رکھنے کے لیے مفید سمجھے جاتے ہیں اور ان کی کمی سے مختلف اقسام کی بیماریاں ابھر آتی ہیں۔ ہم انسانوں کے لئے اسی زمین سے کیا کیا نعمتیں عطا کی ہیں کہ ہم ان کا شمار کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے ہیں -ان پیاری پیاری نعمتوں میں ایک بہترین غذائ نعمت ایلو ویرا بھی ہے جو کہ غ‍‍ذا کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے بہترین شفا کا بھی باعث ہے-آئیے اس کی شفا اور غذا دونوں طرح کی ا فادیت  پر نظر ڈالتے ہیں ایلو ویرا کے فائدے جاننے سے پہلے آیئے ایلو ویرا کا مختصر تعارف ۔ ایلو ویرا ایلو نسل کی ایک خوشگوار پودوں کی ایک خاص نسل ہے۔ تقریبا پانچ سو نسلوں کے ساتھ ایلو ویرا وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جاتا ہے اور دنیا کے بہت سارے علاقوں میں سے ایک ناگوار نوع سمجھا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب سے نکلتا ہے۔ ایلوویرا کو پنجابی زبان میں کوار گندل کہا جاتا ہے۔ایلو ویرا(کوار گندل) کے فوائد  کواور گندل کے ان گنت فائدے ہیں جن میں سے کچھ کی فہرست دردج ذیل ہیں-ایلو ویرا جسے گھیکوار یا کوار گندل بھی کہتے ہیں ایک ایسا پودا ہے جو اپنے آپ میں بے شمار طبی فوائد کا خزانہ رکھتا ہے۔ ڈاکٹر ایلو ویرا کو کھانے میں استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیوں کہ بہت ساری امراض کے علاج میں اپنا عمدہ کردار ادا کرتا ہے۔یہ جلدی امراض جیسا کہ معدے کی خرابی، دانت کا درد، بال کا جھڑنا یا سر کی خشکی جوڑوں اور پھٹوں کی تکلیف، آرائش حسن اور دیگر کئی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔جگر اور تلی کی بیماریوں میں اس کے گودے کو بہت ہی شفا بخش تصور کیا جاتا ہے۔ جو لوگ جگر کی بیماری میں مبتلا ہیں انہیں ایلو ویرا کا استعمال با قاعدگی سے کرنا چاہئیے۔نزلہ زکام اور کھانسی بہت ہی عام سی بیماری ہی جو اکثر کچھ لوگوں میں تو خاندانی پائی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ایلو ویرا کے بھونے ہوئے پتوں کا جوس شہد کے ساتھ لینا بہترین علاج ہے۔ ایسا کرنے سے پرانے سے پرانا نزلہ زکام بہت کم عرصہ میں ٹھیک ہو جائے گا۔گھیکوار یا ایلوویرا کمر درد، جوڑوں کے درد میں افاقه دیتی ہے۔ اس کے موئثر علاج کے لیے روزانہ ایک پتے کا گودا کھانا مفید ہے۔ اس پتے کو آپ چاہیں تو قیمہ کے ساتھ کھانے میں کھا سکتے ہیں۔

یہ متعدد غدودوں کو دفعال بنانے میں بھی معاون ہے۔ ایک پتے کا گودا  کالے نمک اور ادرک کے ساتھ روزانہ  صبح دس دن تک استعمال کرنا جگر کی خرابی کے لیے مفید ہے۔ اور غدودوں کے مسائل سے چھٹکارا پانے کا مویئژ طریقہ ہے۔ایلو ویرا یا کوار گندل کے جیل یا گودے کا استعمال چہرے کی جھریوں کو کم کرنے کے لیے بے حد فائدہ مند ہے۔ ایلوویرا میں موجود وٹامن E اور C آپ  کی جلد کی نمی کو برقرار رکھتا ہے۔ایلو ویرا جسم کے مدافعتی سسٹم کو بڑھانے،منہ کے چھالوں، السر اور کینسر میں بھی بہت مفید ہے۔ کوار گندل میں کئی معدنیات اور وٹامن پائے جاتے ہیں جو انسانی جسم کے لیے انتہائی مفید ہوتے ہیں۔ ان میں کیلشیم، پوٹاشیم، آئرن، زنک کمیم، میگنیز، کا پروا میگن یشیم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایلو ویرا جیل میں وٹامن B12 کی A,B گروپ C,E اور فولک ایسڈ بھی موجود ہوتا ہے۔ لہذا ایلو ویرا جیل کا با قاعده استعمال ان معدنیات کی کمی کو پورا کرتا ہے۔ایلو ویرا کا جیل یا گودے کا استعمال چہرے کے دانوں اور کیل مہاسوں کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔ یہ جلد کے داغ دھبوں کو دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔کوار گندل یا ایلویرا کا گودا آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کو دور کرنے اور آنکھوں کی خوبصورتی کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔رمیوں میں اگر ایلو ویرا کے گودے کو چہرے ،ہاتھوں اور پیروں پر لگایا جائے تو آپ کی دھوپ کی شدت سے نیہں ہوتی اورایسے آپ کی جلد کی نمی رونق دونوں برقرار رہتی ہے۔یہ ایک سن بلاک کا بھی کام کرتی ہے، دھوپ میں نکلنے سے پہلے اسے چہرے پر لگانے سے چہرہ کالا نہیں ہوتا۔ دھوپ میں جانے سے پیلے ایلو ویرا کا استعمال کرنا چہرے کو سن برن سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

لڑکیوں کے چہرے اور ناک پر نظر آنے والے بلیک ہیڈز دراصل کھلے منہ والے دانے ہوتے ہیں جو سکن کو خراب رکھتے ہیں اور سکے ساتھ ساتھ خوبصورتی کا داغ لگاتے ہیں۔ بلیک ہیڈز سے نجات کے لیے بہترین نسخہ ہے ایلو ویرا کا استعمال جو نہ صرف بلیک ہیڈز ختم کرے گا بلکہ چہرے کو پاک صاف کر دے گا۔جل جانے صورت میں ایلو ویرا کا رس لگائیں ، جلن دور اس کے جراثیم کش اثرات زخموں کو خراب ہونے سے بچاتے ہیں اور جہاں چھالے پر جائیں وہ جلد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔قبض اوربواسیر کی شکایات کے لیے رات کو سونے سے پہلے دو چمچ ایلو ویرا کھالیں اور ساری رات کی شکائیتوں سے بچیں۔ایلو ویرا کا حلوہ کمر کے درد، جوڑوں کی اینتھن اور مجموعی طور پر جسمانی کمزوری دور کرنے کے لئے اکسیر سمجھا جاتا ہے۔ عرق النساء کے مریض بھی ڈاکٹر کے مشورے کے ساتھ استعمال کر سکتے ہیں۔ایلو ویرا جیل  جلد کے داغ دھبوں کو دور کرنے کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے.مردوں کے لیے چہرے پر شیو کرنے کے بعد ایلو ویرا جیل  کا استعمال بہتر رہتا ہے۔ چونکہ شیو کے دوران مردوں کے چہرے پر معمولی زخم ہوجاتے تو اس ضمن میں اگر وہ ایلو ویرا کے گودے کو چہرے پر لگائیں تو اس سے انھیں ٹھنڈک  کا احساس بھی ہوگا اور انکے زخم بھی جلد بھر جایئں گے۔

معدے کی گرمی سے نجات

ایلو ویرا جیل جلاب جیسی خصوصیات رکھتا ہے جو نہ صرف آنتوں میں پانی کی مقدار بڑھاتا ہے بلکہ فضلے کی حرکت کو بھی آسان کرتا ہے۔ معدے کی جلن پر قابو پانے کے لیے آدھا کپ ایلو ویرا جیل کھانے سے پہلے پی لیں۔ اس سے  معدے میں جلن یا تزابیت کی شکایت پر ضرورت پڑنے پر پی لیں۔پیٹ اندر کرنے کے لئےتین کھانے کے چمچ ایلو ویرا کا جیل، گرائپ فروٹ ایک کپ دونوں کو ملا کر بلینڈ کر کے پی لیں۔ اس کے استعمال سے پیٹ پر جمی اضافی چربی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی اور جو پیٹ نکلا ہوا ہو گا وہ با آسانی اندر ہو جائے گا۔ایلو ویرا نظام انہضام  کو بہتر کرتا ہےاگر آپکو ہاضمے میں مسلہ درپیش ہو تو آپ ایلو ویرا کے استعمال سے اس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مشہور اور مفید طریقہ ہے جس سے آپکا پورا نظام انہضام بلکل درست ہو جاتا ہے۔ یہ قبض اور اسہال کے خاتمے کے لیے بھی انتہائی  کار آمد ہے۔ یہ اخراج کے کے نظام کو بھی درست کرتا ہے۔ایلو ویرا آنتوں کے کیڑوں کا خاتمہ کرتا ہے

پیر، 23 اکتوبر، 2023

ایلی کاٹ سے علی گوہر بننے تک کا سفر

 جب انسان عشق کے راستے کا مسافر بن جاتا ہے تب اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے ایک نیا جنم لیا ہے اور اس کا پچھلا جنم محض ایک خواب و خیال تھا اس پوسٹ میں آپ کو میں ایک ایسے ہی عاشق امام مظلوم کربلا کے بارے میں بتانا چاہوں گی -صوبہ سندھ کے ضلع حیدر آباد میں گذشتہ 52 سال سے محرم کی آٹھ تاریخ کو ایلی کاٹ کے نام سے بھی ایک ماتمی جلوس  نکالاجا  تا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایلی کاٹ کون تھے اور اُن کی کہانی کیا ہے۔حیدرآباد کے چند عمر رسیدہ لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ ایلی کاٹ سفید فام تھے اور وہ ہر سال محرم الحرام میں سیاہ کپڑے زیب تن کیے عزاداری میں پیش پیش نظر آتے تھے۔بیلے ڈانس کے دلدادہ ایلی کاٹ اپنے ڈرائیور کی زبانی واقعہ کربلا سُن کر ایسے مسلمان ہوئے کہ انھوں نے گھر بار اور بیوی بچے سب کچھ چھوڑ دیا اور مرتے دم تک ’غم حسین‘ کو سینے سے لگائے رکھا۔چارلی ایلی کاٹ جنھوں نے مسلمان ہونے کے بعد اپنا نام علی گوہر رکھا، ان کا جنم کہاں ہوا اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تاہم انھیں ایلی کاٹ سے علی گوہر بنے 82 سال ہو چکے ہیں۔والدہ بھی نذر نیاز کرتیں-حکومت سندھ کے مرتب کردہ انسائیکلوپیڈیا سندھیانہ کا دعویٰ ہے کہ ایلی کاٹ عرف علی گوہر کی والدہ لیڈی ڈفرن ہسپتال حیدرآباد میں میڈیکل سپرنٹینڈنٹ تھیں اور ان کے والد آرتھر سڈنی کاٹ حیدرآباد اور میرپورخاص میں کلیکٹر تھے۔

چارلی ایلی کاٹ کی والدہ حیدرآباد کے ہر ماتمی جلوس میں نذر و نیاز کرتی تھیں۔ ایلی کاٹ کی والدہ کے منشی محمد علی کی بیگم سے اچھے مراسم تھے۔ ان کی اولاد نہیں تھی تو ایک بار جب اشرف شاہ کے پڑ سے جلوس آرہا تھا تو سب کو دعا مانگتا ہوا دیکھ کر انھوں نے بھی دعا مانگی اور اسی سال ان کو اولاد نرینہ ہوئی۔انسائکلوپیڈیا سندھیانہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر لیڈی ڈفرن محرم میں ایلی کاٹ کو سیاہ کپڑے پہناتی تھیں۔ بعد میں ایلی کاٹ نے اسلا قبول کیا اور اپنا نام علی گوہر رکھا۔وہ سندھ کے محکمہ ایکسائز میں انسپکٹر بھی رہے۔ وہ اپنا وقت قدم گاہ اور اشرف شاہ کے پڑ میں گزارتے تھے۔وہ لندن بھی گئے جہاں والد نے ان کی شادی کرائی۔ ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا بھی تھا۔قیام پاکستان کے بعد انھوں نے واپس جانے سے انکار کیا اور یوں ماں بیٹا یہاں مقیم ہو گئے۔

 ایلی کاٹ کی وفات 1971 میں ہوئی اور اشرف شاہ کے پڑ کا نام ایلی کاٹ کے نام سے مشہور ہوا۔واضح رہے کہ پڑ سندھی میں اس علاقے کو کہتے ہیں جہاں علم لگایا جاتا ہے اور ذوالجناح کا جلوس نکالا جاتا ہے۔ قدیم حیدرآباد میں ہر علاقہ وہاں کے رہائشی افراد کے پیشے کے لحاظ سے آباد ہوا اور تالپور حکومت میں ہر جگہ پڑ اور علم بنائے گئے۔حیدر آباد میں گذشتہ 54 سال سے محرم کی آٹھ تاریخ کو ایلی کاٹ کے نام سے بھی ایک ماتمی جلوس نکالا جاتا ہےایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی سے کہا وہ ’مومن‘ ہونا چاہتے ہیں -ایلی کاٹ کے ڈرائیور کا نام عبدالغفور چانڈیو تھا اور ان سے ہی واقعہ کربلا اور حضرت علی کے حالات زندگی کے بارے میں سُن کر ایلی کاٹ کو بھی حسینی قافلے میں شامل ہونے کا شوق ہوا۔

عبدالغفور چانڈیو کے بیٹے غلام قادرچانڈیو نے سنہ 2004 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایلی کاٹ نے اُن کے والد عبدالغفور سے کہا تھا کہ وہ بھی ماتمی جلوس نکالنا چاہتے ہیں لیکن عبدالغفور چانڈیو گریز کرتے رہے اور کہتے رہے کہ اس کے لیے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔بقول غلام قادر، چارلی اپنے فیصلہ پر اٹل رہے۔ بالآخر عبدالغفور نے چارلی ایلی کاٹ کی سرپرستی میں ماتمی جلوس نکالنے کے لیے حامی بھر لی، جس پر چارلی کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہیحیدرآباد کے پکے قلعہ میں چانڈیوں کی امام بارگاہ سے پہلی بار ذوالجناح کا جلوس نکالنے کی تیاری کی گئی۔ یکم محرم الحرام کو جب یہ جلوس روانگی کے لیے تیار تھا تو عجیب اتفاق یہ ہوا کہ چارلی کی والدہ کی وفات ہو گئی۔غلام قادر بتاتے ہیں کہ بابا عبدالغفور نے ایلی کاٹ کو یاد دلایا کہ انھیں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ اس کام میں بڑی قربانی دینی پڑتی ہے جس سے ایلی کاٹ کا ایمان اور پختہ ہو گیا۔

ایلی کاٹ نے صبح کو والدہ کی حیدرآباد کے شمال میں واقع گورا قبرستان میں تدفین کی اور شام کو اپنے غم کو بھول کر اور سیاہ کپڑے پہن کر ننگے پاؤں ماتم میں شامل ہو گئے۔غلام قادر جو ایلی کاٹ کے ساتھی رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ ایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی کو بتایا کہ وہ ’مومن‘ ہونا چاہتے ہیں۔ اس لیے اُن کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا یہ کہ وہ بھی مسلمان ہو جائیں اور دوسرا یہ کہ واپس انگلینڈ چلی جائیں اور اپنی زندگی گزاریں۔اُن کی بیوی نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور وہ بچوں سمیت انگلینڈ چلی گئیں، جہاں سے وہ کبھی بھی چارلی کے لیے لوٹ کر نہیں آئیں۔چارلی اب علی گوہر بن چکے تھے۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر چلے گئے جہاں انھوں نے چھ ماہ تک ملنگوں والی زندگی گزاری۔ چھ ماہ بعد حیدرآباد لوٹ آئے اور بقیہ تمام زندگی اپنے ڈرائیور عبدالغفور کے پاس رہ کر گزار دی۔17 اپریل 1971 کو چارلی ایلی کاٹ کی وفات ہوئی اور انھیں اُسی ماتمی گنبد میں دفن کر دیا گیا، جہاں وہ رہتے تھے۔


اتوار، 22 اکتوبر، 2023

بادشاہ "خدا بندہ” کے شیعہ ہونے کا خوبصورت قصہ

 



علامہ حلی قدس سرہ کے ہاتھوں ، بادشاہ "خدا بندہ” کے شیعہ ہونے کا خوبصورت قصہ -علامہ حلی کی زندگی کی اہم خصوصیت، ان کے ہاتھوں بادشاہ "محمد خان خدا بندہ” کا شیعہ ہونا ہے کہ جس کی وجہ سے اور بھی بہت سارے لوگ شیعہ ہوئے اور شیعہ کتابیں پھیل گئیں۔ اور جس کے بعد ایران میں مذہب جعفری کو ملک کے رسمی مذہب کے طور اعلان کیا گیا ۔تفصیل کچھ یوں ہے کہ 709 قمری کو ایلخانیان سلسلے کے گیارہویں بادشاہ "خدا بندہ "نے شیعہ مذہب اختیار کر لیااور شیعہ مذہب کو پھیلانے میں اہم خدمات انجام دیں اور جب تبریز گیا اور وہاں کے تخت پر بیٹھا تو اسے "بخشے گئے بادشاہ "کا لقب دیا گیا۔ انہی کے حکم سے ملک میں نئے سکے رائج کرنے کا حکم دیا گیا جن کے ایک طرف پیامبر اکرم ﷺ اور ائمہ معصومین کے نام نقش کئے گئے اور دوسری طرف اس کا اپنا نام۔

خدا بندہ اصل میں سنّی تھا، لیکن کچھ وجوہات نے اس کے دل کو شیعیت کی طرف مائل ہونے پر مجبور کیا۔ علماء کی بڑی بڑی مجلسیں ترتیب دینا اسے پسند تھا، انہی مجالس میں سے ایک میں علامہ حلی بھی پہنچے اور شافعی عالم دین شیخ نظام دین کو مناظرہ میں شکست دی۔ بادشاہ علامہ حلی کی دلائل سن کر مبہوت ہوا اور زبان ان کےگن گانے لگی اور کہا: "علامہ حلی کی دلیلیں بالکل واضح ہیں۔ لیکن ہمارے علماء جس راستے پر چلے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے فی الحال اس کی مخالفت کرنا اختلاف اور جھگڑے کا باعث ہے۔ اس لیے ضروری ہے ان باتوں پر پردہ پڑا رہے اور لوگ آپس میں مت جھگڑیں۔”

اس کے بعد بھی مناظروں کا سلسلہ چلتا رہا اور علامہ حلی کی دلیلوں کو سن کر اور علمی مرتبے کو دیکھ کر بادشاہ متاثر ہوتا رہا۔ آخر کار بادشاہ کی طرف سے اپنی بیوی کو تین بار طلاق دینے کا مسئلہ پیش آیا۔ ایک دن بادشاہ کو غصہ آیا اور ایک ہی مجلس میں تین بار اپنی بیوی کو تجھے طلاق ہے کا صیغہ دہرایا۔ بعد میں بادشاہ کو اپنے اس کام پر شرمندگی ہوئی۔ اسلام کے بڑے بڑے علماء کو بلایا گیا اور ان سے اس مسئلے کا حل پوچھا۔ سب علماء کا ایک ہی جواب تھا: "اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دیں، اور پھر وہ کسی مرد کے ساتھ شادی (حلالہ) کر لیں، پھر وہ اگر طلاق دیتا ہے تو آپ دوبارہ اس عورت کے ساتھ شادی کر سکتے ہیں۔” بادشاہ نے پوچھا: "ہر مسئلے میں کچھ نہ کچھ اختلاف اور گنجائش ہوتی ہے۔ اس مسئلے میں ایسا کچھ نہیں ہے؟” سب علماء نے مل کر کہا: "نہیں۔ اس کے علاوہ کوئی راہ حل نہیں۔” وہاں بیٹھا ایک وزیر بولا: "میں ایک عالم دین کو جانتا ہوں جو عراق کے حلًہ شہر میں رہتے ہیں اور ان کے مطابق اس طرح کی طلاق باطل ہے۔” (اس کی مراد علًامہ حلی تھے)۔ خدا بندہ نے علامہ حلی کو خط لکھ کر اپنے پاس بلا لیا۔ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے علامہ حلی نے حلہ سے سلطانیہ (زنجان کے قریب کا ایک علاقہ) کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔ بادشاہ کے حکم سے ایک بہت بڑی مجلس کا اہتمام کیا گیا اور تمام مذاہب کے علماء کو دعوت دی گئی جن میں اہل سنت کے چاروں فقہوں کے بڑے علماء شامل تھےعلامہ حلًی کا اس مجلس میں آنے کا انداز سب سے مختلف اور عجیب تھا۔ جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے، تمام اہل مجلس کو سلام کیا اور پھر جا کے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے۔ دوسرے مذاہب کے علماء نے فورا اعتراض کیا: "بادشاہ حضور! کیا ہم نے نہیں کہا تھارافضیوں کے علماء میں عقل کی کمی ہوتی ہے۔” بادشاہ نے کہا: ” اس نے یہ جو حرکت کی ہے اس کی وجہ خود اس سے پوچھو۔” علمائے اہل سنت نے علامہ حلی سے تین سوال کیے:

۱۔ کیوں اس مجلس میں آتے ہوئے بادشاہ کے سامنے نہیں جھکے؟ اور بادشاہ کو سجدہ نہیں کیا؟

۲۔ کیوں آدابِ مجلس کی رعایت نہ کی اور بادشاہ کے ساتھ جا کے بیٹھ گئے؟

۳۔ کیوں اپنے جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے آگئے؟

علامہ حلی نے جواب دیا: پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ پیامبر اکرم ﷺ حکومت میں سب سے بلند مرتبہ رکھتے تھے، جبکہ لوگ (صحابہ) ان کو صرف سلام کرتے تھے، سجدہ نہیں کرتے تھے۔ قرآن کریم کا بھی یہی حکم ہے: (… فَاِذا دَخَلْتُمْ بُیُوتا فَسَلِّمُوا عَلَی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّةً مِنْ عِنْدِاللّهِ مبارَکَةً طَیِّبَةً…)ترجمہ: پس جب گھروں میں داخل ہوں تو اپنے اوپر سلام کرو، اور خدا کی طرف سے بھی پر برکت اور پاکیزہ سلام ہو۔ اور تمام علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ غیر خدا کے لیے سجدہ جائز نہیں۔دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اس مجلس میں سوائے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی کے کوئی اور نشست خالی نہ تھی، اس لیے میں وہاں جا کے بیٹھ گیا۔اور جہاں تک تعلق ہے تیسرے سوال کا کہ کیوں اپنےجوتے ہاتھ میں لیے آیا اور یہ کام کوئی عاقل انسان نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے ڈر تھا کہ باہر بیٹھے حنبلی مذہب کے لوگ میرے جوتے نہ چرا لیں۔ چونکہ پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں ابو حنیفہ نے آپ ﷺکی جوتے چرا لیے تھے۔ حنفی فقہ کے علماء بول پڑے: بے جا تہمت مت لگائیں۔ پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں امام ابوحنیفہ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ علًامہ حلی نے کہا: میں بھول گیا تھا وہ شافعی تھے جنہوں نے آپﷺ کے جوتے چرا لیے تھے۔ شافعی مذہب کے علماء نے فریاد بلند کی: تہمت مت لگائیں۔ امام شافعی تو امام ابو حنیفہ کے روز وفات پیدا ہوئے تھے۔ علًامہ حلًی نے کہا: غلطی ہوگئی۔ وہ مالک تھے جنہوں نے چوری کی تھی۔ مالکی مذہب کے علماء فورا بول پڑے: چپ رہیں۔ امام مالک اور پیامبر اکرمﷺ کے درمیان سو سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ علًامہ حلی نے کہا: پھر تو یہ چوری کا کام احمد بن حنبل کا ہوگا۔ حنبلی علماء بول پڑے کہ امام احمد بن حنبل تو ان سب کے بعد کے ہیں۔

اسی وقت علامہ حلی نے بادشاہ کی طرف رخ کیا اور کہا: آپ نے دیکھ لیا کہ یہ سارے علماء اعتراف کر چکے کے اہل سنت کے چاروں اماموں میں سے کوئی ایک بھی پیامبر اکرمﷺ کے زمانے میں نہیں تھے۔ پس کیا بدعت ہے جو یہ لوگ لے کر آئے ہیں؟ اپنے مجتہدین میں سے چار لوگوں کو چن لیا ہے اور ان کے فتوی پر عمل کرتے ہیں۔۔ ان کے بعد کوئی بھی عالم دین چاہے جتنا بھی قابل ہو، متقی ہو، پرہیزگار ہو، اس کےفتوی پر عمل نہیں کیا جاتا بادشاہ خدا بندہ نے اہل سنت کے علماء کی طرف رخ کر کے کہا: سچ ہے کیا کہ اہل سنت کے اماموں میں سے کوئی بھی پیغمبر اکرمﷺ کے زمانے میں نہیں تھا؟ علماء نے جواب دیا: جی ہاں۔ ایسا ہی ہے۔ یہاں علامہ حلی بول پڑے: صرف شیعہ مذہب ہے جس نے اپنا مذہب امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ سے لیا ہے۔ وہ علیؑ جو رسول خدا کی جان تھے، چچا زاد تھے، بھائی تھے اور ان کے وصی تھے۔ شاہ خدا نے کہا: ان باتوں کو فی الحا ل رہنے دو، میں نے تمہیں ایک اہم کام کے لیے بلایا ہے۔ کیا ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں درست ہیں؟ علامہ نے کہا: آپ کی دی ہوئی طلاق باطل ہے۔ چونکہ طلاق کی شرائط پوری نہیں ہیں۔ طلاق کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ دو عادل مرد طلاق کے عربی صیغے کو سن لیں۔ کیا آپ کی طلاق کو دو عادل لوگوں نے سنا ہے؟ بادشاہ نے کہا : نہیں۔ علامہ نے کہا: پس یہ طلاق حاصل نہیں ہوئی اور آپ کی بیوی اب بھی آپ پر حلال ہے۔ (اگر طلاق حاصل ہوتی بھی تو ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ، ایک طلاق کے حکم میں ہیں۔)اس کے بعد بھی علامہ نے اہل سنت علماء کے ساتھ کئی مناظرے کئے اور ان کے تمام اشکالات کے جوابات دئیے۔  خدا بندہ نے اسی مجلس میں شیعیت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد علامہ حلی کا شمار بادشاہ کے مقربین میں سے ہونے لگا اور انہوں نے حکومتی امکانات سے اسلام اور تشیع کو مضبوط کرنے کے لیے استفادہ کیا۔

حسن اتفاق یہ کہ شاہ خدا بندہ اور علامہ حلًی دونوں ایک ہی سال میں ، یعنی 726 ہجری میں اس دنیا سے انتقال کر گئے۔

حوالہ 📚منتخب التواريخ، ص 410،

حكايات علما با سلاطين، ص 69.

تبدیلی سختی سے منع ہے شیئر کرسکتے ہیں ۔شکریہ

نوٹ ۔۔سورہ فاتحہ کی اپیل ہے برائے ارواح علماء حقہ و آیت اللہ عظام

خادم انصار امام زمانہ عجہ

مظھر علی مطھری۔   

جمعہ، 20 اکتوبر، 2023

نابیناوں کی بینا سفید چھڑی

 اللہ کریم و کارساز  نے ہمیں آنکھوں کی جو بیش قیمت  نعمت عطا کی ہےوہ  اتنی  قیمتی ہے کہ اس سے محرومی کی صورت میں چاہے دنیا کی کتنی ہی دولت کیوں نہ ہو سب بےکار ہے۔ اس بات کا احسا   س تب زیادہ شد  ت سے ہوتا ہے جب ہم کسی سفید چھڑی والے فرد کو بازار، سڑک یا کسی پر ہجوم جگہ پر بینا افراد کے درمیان جدوجہد کرتے دیکھتے ہیں۔اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام ہر سال آ ج کا دن یعنی پندرہ اکتوبر سفید چھڑی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن کا آغاز 1964ء کو ہوا تھا جب اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ سفید چھڑی کو نابینا افراد کے لیے بطور امید اور سہارا منتخب کیا جس کے بعد ہر برس اس دن کی مناسبت سے سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے آگاہی سیمینارز اور ریلیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔یہ دن منانے کا مقصد نابینا افراد کو درپیش مسائل اور مشکلات کے متعلق معاشرے کو آگاہی فراہم کرنا ہے تاکہ عام لوگوں کو یہ باور کروایا جا سکے کہ بصارت سے محروم افراد بھی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ ذمہ دار اور مفید شہری ثابت ہو سکتے ہیں۔ 

نابینا افراد کا خیال رکھنا معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے

  ’’بیٹن‘‘ کہلانے والی خاکی چھڑی کسی عہدے اور ذمہ داریوں کی علامت ہے، اسی طرح ’’سفید چھڑی‘‘ نابینا افراد کی بے بسی و محتاجی کی علامت ہے تاکہ اسے دیکھنے والے افراد ان کی ہر ممکن مدد کریں۔ سفید چھڑی کے حامل نابینا افراد کو راستہ بتائیں، ان کو پہلے گزرنے دیں۔

پہلی سفید چھڑی:ایک فوٹو گرافر جس کانام جیمس بکس تھا ، جس کی1921 ء کو ایک حادثے میں بینا ئی جاتی رہی ،یہ پہلا شخض تھا جس نے اپنی چھڑی کو سفید رنگ کروا لیا تا کہ لوگ اس چھڑی کے رنگ سے سمجھ لیں اور اسے راستہ دیں ۔پھر 1930ء میں بوم حیم نامی شخص نے لائنز کلب میں یہ نظریہ پیش کیا کہ نابینا افراد کی چھڑی کو سفید کر دیا جائے اور اس کو عام کیا جائے تاکہ نابینا افراد اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی علم ہو جائے کہ سفید چھڑی رکھنے والے شخص کو بینائی کا مسئلہ ہے۔6 اکتوبر 1964 ء کو کانگریس نے ایک جائنٹ ریزولوشن HR753 پاس کیا جسے USA کے صدر نے منظور کیا کہ ہر سال 15 اکتوبر کو وائٹ کین سیفٹی ڈے منایا جائے گا۔

صدر جانسن پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کو عام کیا اور پاس کیا، اسی وجہ سے 1964ء سے اب تک ہر سال 15 اکتوبر انٹرنیشنل وائٹ کین سیفٹی ڈے منایا جاتا ہے ۔ وائٹ کین کو نابینا افراد کے لئے آزادی اور عزت کا نشان بنا دیا گیا ۔اس دن کی ابتدا کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز 1930ء میں فرانس کے شہر پیرس سے ہوا جہاں عام لاٹھیوں کو سفید رنگ دے کر اس دن کو متعارف کروایا گیا۔ پاکستان میں یہ دن پہلی بارپندرہ اکتوبر 1972 ء کو منایا گیا۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں نابینا افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ 60 لاکھ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050ء میں یہ تعداد تین گنا بڑھ کر 11 کر وڑ 50 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس وقت جنوبی ایشیا میں ایک کروڑ 17 لاکھ افراد آنکھوں کے مرض کا شکار ہیں جب کہ مشرقی ایشیا میں یہ تعداد 60 لاکھ 20 ہزار ہے اور جنوب مشرقی ایشیا کی 30 لاکھ 50 ہزار آبادی متاثر ہے۔

پاکستان میں تقریباً 20 لاکھ افراد بینائی سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ یہاں اندھے پن کی شرح 1.08 ہے، جب کہ پاکستان میں جزوی طور پر نابینا افراد کی تعداد تقریباً 60 لاکھ کے قریب ہے۔ پاکستان کی 17 فیصد آبادی ذیابیطس کی شکار ہے جو اندھے پن کی ایک اہم وجہ ہے جس سے آنکھ کے عدسے کے متاثر ہونے یعنی آنکھ میں موتیا آجانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں نابینا افراد کو کار آمد بنانے کے ادارے ناپید ہیں اور ان خصوصی افراد کو کسی قسم کی سہولت بھی میسر نہیں۔ ان افراد کو روز مرہ کے کاموں کی انجام دہی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تا ہم کچھ نجی ادارے اس کارِ خیر میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

بصارت کی خرابی بعض صورتوں میں اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ ایسے افراد سڑک کے پار کھڑے ہوئے شخص کو شناخت نہیں کر سکتے اور وہ قانونی طور پر ڈرائیونگ کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظر کی بیماریوں اور اس کے علاج معالجے پر سرمایہ کاری کریں۔ کیوں کہ اس سے نہ صرف متاثرہ افراد کی زندگی میں بہتری آئے گی بلکہ وہ کام کاج کر کے معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق صرف پاکستان میں66 فیصد افراد موتیا، 6 فیصد کالے پانی اور 12 فیصد بینائی کی کمزوری کا شکار ہیں۔ یہ بیماریاں بتدریج نابینا پن کی طرف لے جاتی ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں ڈیجیٹل اشیاء جیسے کمپیوٹر اور موبائل فون کا ضرورت سے زائد استعمال ہماری بینائی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہورہاہے۔ جدید ٹیکنالوجی، اشیاء کی جلتی بجھتی اسکرین ہماری آنکھوں کی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہیں، اس کے باوجود ہم ان چیزوں کے ساتھ بے تحاشاوقت گزار رہے ہیں۔ موبائل کی سکرین خاص طور پر آنکھوں کی مختلف بیماریوں جیسے نظر کی دھندلاہٹ، آنکھوں کا خشک ہونا، گردن اور کمر میں درد اور سر درد کا سبب بنتی ہے۔ ان اسکرینوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا نہ صرف آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ یہ دماغی کارکردگی کو بھی بتدریج کم کردیتا ہے، جب کہ یہ نیند پر بھی منفی اثرات ڈالتا ہے اور انسان رات میں ایک پرسکون نیند سونے سے محروم ہوجاتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ آنکھوں سے محروم افراد نے پاکستان کو دو بار ورلڈ کپ جتوا کر اپنا نام عمران خان اور یونس خان کی صف میں شامل کیا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت بصارت سے محروم لیکن بصیرت افروز نابینا افراد کو باعزت روزگار دے کر یا مناسب وظیفہ مقرر کرکے ان کو معاشرے کا بہترین حصہ بنانے میں موثر کردار ادا کرے۔ ہمارے ہاں نابینا افراد مناسب حقوق نہ ملنے پر آئے روز احتجاج کرتے اور دھرنے دیتے نظر آتے ہیں ۔

دنیا بھر میں اس دن کے موقع پر، نابینا افراد کے معاشرتی مسائل کو سنجیدگی سے سوچا جاتا ہے۔ ان افراد کی زندگی میں آنے والے معاشرتی مسائل اور ان کے حقوق کو شفافیت کے ساتھ پیش کرنا اہم ہوتا ہے۔ یہاں پر ان کے معاشرتی مسائل پہ توجہ کی اشد ضرورت ہے۔تعلیم کا دستور،روزگار کی فراہمی اورصحت کی دیکھ بھال ان کی اولین ضروریات ہیں۔نابینا افراد کے لئے معاشرتی شمولیت کی فراہمی مہمان نوازی اور مسائل کی اجتماعی تشہیر اہم ہوتی ہے۔ ---

پیر، 16 اکتوبر، 2023

حضرت بہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ


حضرت بہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ کوفہ میں پیدا ہوئے آپ حضرت امام جعفر صادق کے شاگرد اور امام موسی کاظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے جب امام موسی کاظم کے ساتھیوں کو ایک ایک کر کے ختم کرنا شروع کیا تو آپ کچھ ساتھیوں کے ہمراہ امام موسی کاظم سے ملے جو اس وقت زیر حراست تھے جب امام موسی کاظم سے درپیش حالات کے حوالے سے مشورہ مانگا تو آپ نے صرف ایک حرف "ج" لکھ کر دیا۔ اس حرف کی سب نے اپنے اپنے انداز سے تشریح کی اور اس پر عمل کیا۔ "ج" سے جلا وطن، جبل یعنی پہاڑ اور حضرت بہلول دانا کے لیے "ج" سے جنون۔اگلے روز آپ نے اپنی عالیشان زندگی کو خیرآباد کہا اور فقیرانہ حلیے میں بغداد کی گلیوں میں پھرنا شروع کر دیا۔ جلد اہل بغداد نے آپ کو بہلول مجنون کے نام سے پکارنا شروع کر دیا اور اس طرح آپ ہارون الرشید کے عتاب سے محفوظ ہو گئے۔ ذیل میں حضرت بہلول دانا کے چند مشہور واقعات بیان کیے جا رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ نے مصلحت کے تحت مجزوبانہ حلیہ اپنایا تھا۔

کہتے هیں کہ ہارون الرشید کی دلی تمنا تھی کہ حضرت بہلول دانا رح اس سے ملاقات کریں لیکن آپ رح کبھی بھی اس کے دربار میں تشریف نہ لے گئے.. ایک دن یوں هوا کہ ہارون الرشید اپنے محل کی چھت پر بیٹھا تھا ک اس نے حضرت بہلول دانا رح کو شاهی محل کے قریب سے گزرتے دیکھا.. فورا حکم دیا که حضرت بہلول دانا رح کو کمند ڈال کر محل کی چھت پر کھینچ لیا جائے.. چنانچہ ایسا هی کیا گیا.. جب آپ رح ہارون الرشید کے سامنے پہنچے تو اس نے پوچھا.. " یہ فرمائیے کہ آپ اللہ تک کیسے پہنچے..؟ " آپ نے فرمایا.. " جس طرح آپ تک پہنچا.. " ہارون الرشید نے کہا.. " میں سمجھا نہیں.فرمایا. اگر میں خود آپ تک پہنچنا چاهتا تو نہا دھو کر ' لباس فاخره پہن کر ' دربان کی منتیں کر کے محل کے اندر داخل هوتا.. پھر عرضی پیش کرتا ' پھر گھنٹوں انتظار کرتا ' پهر بھی ممکن تھا کہ آپ میری درخواست رد کر دیتے.. لیکن جب آپ نے خود مجھے بلانا چاها تو محض کچھ لمحوں میں هی اپنے سامنے بلا لیا.. " اسی طرح جب اللہ کو اپنے بندے کی کوئی ادا پسند آتی هے تو اسے لمحوں میں قرب کی وه منزلیں طے کروا دی جاتی هیں جو بڑے بڑے عابدوں کیلئے باعث رشک بن جاتی هیں 

حضرت بہلول دانا رح کی ملاقات خلیفہ ہارون الرشید سے ہوئی تو خلیفہ (جو آپ کو مجزوب اور دیوانہ سمجھتا تھا) نے اپنی چھڑی اٹھا کر آپ رح کو دی اور مزاحاً کہا کہ بہلول یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے اُسے دے دینا۔ حضرت بہلول رح نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی اور واپس چلے آئے۔ کچھ عرصہ کے بعد ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہو گئی۔ بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔ طبیبوں نے جواب دے دیا ۔ تو ایک دن حضرت بہلول دانا رح خلیفہ کی عیادت کے لئے پہنچے اور سلام کے بعد پوچھا۔ کیا حال ہے؟ خلیفہ نے کہا حال پوچھتے ہو بہلول؟ بڑا لمبا سفر درپیش ہے ۔ حضرت بہلول رح نے پوچھا کہاں کا سفر؟ خلیفہ نے جواب دیا۔ آخرت کا۔ حضرت بہلول رح نے سادگی سے پوچھا۔ واپسی کب ہوگی؟ خلیفہ نے کہا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی واپس آتا ہے۔ حضرت بہلول رح نے تعجب سے کہا۔ اچھا آپ واپس نہیں آئیں گے تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اور ساتھ ساتھ کون جائے گا؟ ہارون الرشید نے کہا آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا، خالی ہاتھ جا رہا ہوں۔ حضرت بہلول رح نے فرمایا "اچھا اتنا لمبا سفر کوئی معین ومددگار نہیں پھر تو لیجئے (خلیفہ ہارون الرشید کی دی ہوئی چھڑی بغل سے نکال کر کہا) یہ امانت واپس ہے۔ مجھے آپ کے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے۔ تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے۔ حشم وخدم کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے۔ اتنے لمبے سفر کی، جس میں واپسی بھی ناممکن ہے، آپ نے تیاری نہیں کی۔ میری نظر میں آپ سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے۔" چھڑی واپس  دے کر اٹھے اور بے نیازی سے چلے گئے

کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی رح سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟" لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟" شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔" مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں حضرت بہلول رح کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ حضرت بہلول رح سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول رح نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟" شیخ نے جواب دیا۔ "میں ہوں جنید بغدادی۔" "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔" شیخ نے جواب دیا۔ حضرت بہلول نے پوچھا "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔" پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔" یہ سن کر بہلول رح اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر حضرت بہلول رح نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"بہلول رح ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا "کون ہو تم؟ "میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"بہلول رح نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے تو ناواقف ہو لیکن گفتگو کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔ میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول کے احکام کے بارے میں بتاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔ تو بہلول رح نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟" "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول رح کا پیچھا کیا۔ بہلول رح نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔ جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔ بہلول رح نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر بہلول رح نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔" کچھ دیر بعد بہلول رح نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔" شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" پھر بہلول رح نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔ اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو" حضرت بہلول دانا رح کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔حضرت بہلول دانا رح چلے گئے اور اس ملاقات کے بعد خلیفہ ہارون الرشید کی طبیعت درست ہو گئ کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی رح سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟" لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟" شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔" مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں حضرت بہلول رح کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔

شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ حضرت بہلول رح سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول رح نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟" شیخ نے جواب دیا۔ "میں ہوں جنید بغدادی۔" "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟" "جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔" شیخ نے جواب دیا۔ حضرت بہلول نے پوچھا "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔" پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔" یہ سن کر بہلول رح اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر حضرت بہلول رح نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔" "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"بہلول رح ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون

ہو تم"میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"

بہلول رح نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے تو ناواقف ہو لیکن گفتگو کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔ میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول کے احکام کے بارے میں بتاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔ تو بہلول رح نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟" "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول رح کا پیچھا کیا۔ بہلول رح نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔ جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔ بہلول رح نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر بہلول رح نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔" کچھ دیر بعد بہلول رح نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔" شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" پھر بہلول رح نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔ اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو" حضرت بہلول دانا رح کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائےایک دفعہ حضرت بہلول دانا رح کہیں سے گزر رہے تھے کہ ایک بچے کو دیکھا… وہ کھڑا رو رہا تھا … دوسرے بچے اخروٹ سے کھیل رہے تھے… انہوں نے سمجھا اس کے پاس اخروٹ نہیں، اس لیے رو رہا ہے، میں اس کو لے کر دیتا ہوں ، انہوں نے کہا بیٹا !رو نہیں … میں تجھے اخروٹ لے کر دے دیتا ہوں … تو بھی کھیل۔ اس بچے نے کہا: اے بہلول! کیا ہم دنیا میں کھیلنے آئے ہیں؟ ان کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ بچہ ایسا جواب دے گا تو انہوں نے کہا اچھا، پھر کیا کرنے آئے ہیں؟ بچے نے کہا: الله تعالیٰ کیعبادت کرنے آئے ہیں … انہوں نے کہا بچے ابھی تو تم بہت چھوٹے ہو تمہارے غم کی یہ چیز نہیں ہے ابھی تو تمہارا اُس منزل پر آنے میں بھی بہت وقت پڑا ہے … تو اس نے کہا: ارے بہلول! مجھے دھوکہ نہ دے میں نے اپنی ماں کو دیکھا ہے … وہ صبح جب آگ جلاتی ہے تو پہلے چھوٹی لکڑیوں سے جلاتی ہے اور پھر بعد میں بڑی لکڑیاں رکھتی ہے اس لیے مجھے ڈر ہے کہیں دوزخ مجھ سے نہ جلائی جائے اور میرے اوپر بڑوں کو نہ ڈالا جائے ۔

ہفتہ، 14 اکتوبر، 2023

تھینکس گیونگ ڈے

 

 

دنیا کی بہت سی اقوام اپنے اپنے طور پر ایک تہوار ضرور ایسا رکھتی ہیں جس میں وہ اپنے عزیز و اقارب کو اپنے گھر بلا کر بہت اچھّی سی ضیافت کر سکیں جیسے کہ بیساکھی یا مسلمانوں کا بڑا تہوار عید -یورپی ممالک میں ایک بہت بہترین تہوار تھینکس گیونگ ڈے منایا جاتا جس میں مرغی نما پرندے 'ٹرکی' کی دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے-تھینکس گیونگ کے موقع پر خواتینِ خانہ اپنے ہاں آنے والے مہمانوں کے لیے دعوتوں کا اہتمام کرتی ہیں جن میں مرغی نما پرندہ 'ٹرکی' کو روسٹ کر کے خاص طور پر ڈشز میں شامل کیا جاتا ہے۔ٹرکی دنیا کے متعدل موسم والے ممالک میں پایا جاتا ہے۔ امریکی ریاست آئیووا میں اس کی افزائس کے کئی مراکز قائم ہیں۔اس پرندے میں گوشت کی مقدار بھی مرغی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ابتدا میں مختلف امریکی ریاستیں مختلف دنوں میں تھینکس گیونگ کا تہوار مناتی تھیں۔ لیکن امریکی صدر ابراہم لنکن نے 1863 میں ہر سال نومبر کی آخری جمعرات کو 'تھینکس گیونگ ڈے' قرار دے دیا۔بعد ازاں 1942 میں صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کے دور میں کانگریس نے ایک قانون کے ذریعے ہر سال نومبر کی چوتھی جمعرات کو 'تھینکس گیونگ ڈے' مقرر کیا جس کے بعد سے ہر سال اب نومبر کی چوتھی جمعرات کو ہی یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ اس روز امریکہ بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے-

تھینکس گیونگ کو امریکہ اور اس سے ملحقہ ریاستوں میں سب سے بڑے ثقافتی تہوار کا درجہ حاصل ہے-مریکہ میں یومِ تشکر یعنی تھینکس گیونگ کا یہ تہوار منانے کے لیے 1863 میں باقاعدہ طور پر عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ اس دن سے امریکہ بھر میں تعطیلات کا سیزن شروع ہو جاتا ہے جو سالِ نو یعنی یکم جنوری تک جاری رہتا ہے۔تھینکس گیونگ کی تاریخ چار صدیاں پہلے شروع ہوئی۔ یہ ذکر ہے 1621 کا۔ میساچوسٹس کے پلی متھ کے مقام پر انگریز آبادکاروں کی ایک کالونی میں لوگوں نے فصلوں کی کٹائی کے موقع پر امریکہ کے آبائی باشندوں کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور اسے یومِ تشکر کا نام دیا۔ یہ شکر تھا اللہ کی ان نعمتوں کا جو اس نے فصلوں اور مختلف صورتوں میں عطا کیں۔ اس موقع پر انہوں نے یہ عہد کیا کہ وہ ان نعمتوں کو مل بانٹ کر اور بھائی چارے کے ساتھ اپنی خوش حالی اور ترقی کے لیے استعمال کریں گے۔تاریخ کے مطابق اس وقت ہونے والی ضیافت میں دستر خوان پر ٹرکی، آلو کا بھرتہ، شکر قندی، لابسٹر، مچھلی، پھل اور سبزیاں رکھی گئی تھیں۔تاہم چار صدیاں پہلے اس خطے میں آباد لوگ پیاز، لہسن، انگور اور مقامی میوہ جات، بشمول اخروٹ، کرین بیری اور شاہ بلوط سے آگاہ ہو چکے تھے۔ اس لیے غالب گمان یہ ہے ممکنہ طور پر یہ چیزیں بھی کسی نہ کسی انداز میں دسترخوان کی زینت بنتی ہوں گی۔ تھینکس گیونگ کے ٹرکی کو کھانے کی میز کے وسط میں سجایا جاتا ہے اور دعوت میں شامل ہر شخص اس کا ایک ٹکڑا ضرور لیتا ہے۔ ٹرکی کو عموماً سالم بیک کیا جاتا ہے۔جب سے امریکہ میں دنیا کے مختلف حصوں سے بڑی تعداد میں تارکینِ وطن آ کر آباد ہوئے ہیں، ٹرکی بیک کرنے کے انداز اور طریقے بھی بدل گئے ہیں۔ ہر برادری اپنے مصالحوں کے ساتھ ٹرکی کو بیک کرتی ہے اور اسے منفرد ذائقہ دیتی ہے۔آج کل ٹرکی کے گوشت کے علاوہ ایپل پائی اور حلوہ کدو بھی تھینکس گیونگ کے کھانے کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ہر برداری تھینکس گیونگ کی ٹیبل پر اپنے علاقے کی مخصوص ڈشز بھی رکھتی ہے۔ یہاں، ہم آپ کو مزے دار تھینکس گیونگ کو سجانے سے لے کر ایک سوادج کھانا پکانے اور ایونٹ کے دوران تفریحی سرگرمیوں کے لیے تحائف کی تیاری سے لے کر مفید مشورے دیتے ہیں۔تھینکس گیونگ ڈنر میں کیا لینا ہے؟ اگر آپ کو تھینکس گیونگ ڈنر میں مدعو کیا گیا ہے، تو آپ ایک چھوٹا سا تحفہ دے کر میزبان کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گے۔ میزبان کے ساتھ آپ کے تعلقات پر منحصر ہے، آپ کچھ عملی، معنی خیز، معیاری، تفریحی یا منفرد انتخاب کر سکتے ہیں۔ امریکہ میں کم ہی گھر ایسے ہوں گے جہاں تھینکس گیونگ کی شام خصوصی طور پر میز نہ سجائی جاتی ہو اور گھر کے افراد، اپنے عزیزوں اور قریبی دوستوں کے ساتھ مل کر کھانا نہ کھاتے ہوں۔اس خصوصی ضیافت میں میز پر مرکزی حیثیت ٹرکی کو حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ مکئی، پھلیاں اور کئی دوسری ڈشز کو بھی رکھا جاتا ہے۔یہ وہ روایتی کھانے ہیں جو آج سے 400 سال پہلے تھینکس گیونگ کی پہلی دعوت میں رکھے گئے تھے جس میں یورپ سے امریکہ آنے والے نئے تارکینِ وطن نے مقامی قدیم باشندوں کے ساتھ مل کر شرکت کی تھی۔ اس دن کو 'تھینکس گیونگ' کا نام دیا گیا تھا۔ اب یہ امریکہ کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ تھینکس گیونگ ڈنر میں کیا لینا ہے؟ اپنے پیارے خاندان اور دوست کے لیے بہترین تھینکس گیونگ ڈنر پیش کرنے کے لیے، آپ خود آرڈر کر سکتے ہیں یا خود پکا سکتے ہیں۔

 ٹوسٹڈ ترکی میز پر ایک کلاسک اور ناقابل تلافی ڈش ہے، لیکن پھر بھی آپ ٹرینڈنگ اور تھینکس گیونگ کی عمدہ ترکیبوں سے اپنے کھانے کو مزید لذیذ اور نابھولنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ کچھ سرخ اور سفید شرابیں شروع میں آپ کی پارٹی کے لیے برا انتخاب نہیں ہیں۔ آپ بچوں کے لیے کچھ پیاری اور مزیدار تھینکس گیونگ ڈیسرٹ تیار کر سکتے ہیں۔ تھینکس گیونگ ڈنر میں کیا لینا ہے؟۔ ماحول کو گرمانے اور لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے ہمیشہ تفریحی سرگرمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔بعض روایات کے مطابق 1621 میں امریکہ آنے والے تارکینِ وطن برطانوی باشندوں نے کھیتی باڑی سکھانے والے آبائی امریکی باشندوں کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا جس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ابتدا میں مختلف امریکی ریاستیں مختلف دنوں میں تھینکس گیونگ کا تہوار مناتی تھیں۔ لیکن امریکی صدر ابراہم لنکن نے 1863 میں ہر سال نومبر کی آخری جمعرات کو 'تھینکس گیونگ ڈے' قرار دے دیا۔ جس کے بعد سے ہر سال اب نومبر کی چوتھی جمعرات کو ہی یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ اس روز امریکہ بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ لوگ اس تہوار کے دوران ایک دوسرے کو اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں۔ اس تہوار کو امریکہ میں تعطیلات کے موسم کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے جو سالِ نو کے آغاز تک جاری رہتا ہے۔ تھینکس گیونگ کے بعد سے ہی کرسمس کی تیاریوں میں بھی تیزی آ جاتی ہے اور اس تہوار سے قبل اور اس کے دوران لوگوں کی ایک بڑی تعداد خرید و فروخت اور تعطیلات منانے کے لیے گھروں سے نکلتی ہے۔اس دن ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں قومی یکجہتی کے اظہار کے لیے پریڈیں ہوتی ہیں۔ اس روز لوگ مل کر ٹی وی شوز اور کھیلوں کے مقابلے دیکھنے کا بھی خاص اہتمام کرتے ہیں۔

منگل، 10 اکتوبر، 2023

برج عقرب کے تحت پیدا ہونے والے افراد کا جائزہ

 

24 اکتوبر تا 22 نومبر

 برج عقرب کے تحت پیدا ہونے والے افراد کی شخصیت کا مختصر جائزہ – بلند ہمت، بد گمان، جوشیلا، تلخ، طنزیہ، قبضہ پسند، حاسد -عقرب افراد کیسے ہوتے ہیں؟ پراسرار شخصیت والوں کا برج. گہری سوچ کے مالک – ن کی شخصیت میں کنٹرول اور طاقت اہم ترین عنصر ہیں. برج عقرب میں بچھو اور سانپ جیسی خصوصیت ہوتی ہیں. رومانوی معاملات میں ان کو کامیابی کا ہمیشہ یقین نہیں ہوتا. یہ لوگ مالیاتی امور سے ایک قدرتی لگاؤ رکھتے ہیں. برج عقرب والے مریخ کی منفی پوزیشن یا کسی منفی زاویے کے نتیجے میں جنسی جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ، خاص طور پر قمری برج عقرب والے ، واضح رہے کہ برج عقرب کا تعلق خاص طور پر اخلاقیات  سے ہے ، یہ حمل کی طرح بھڑکنے والے نہیں ہوتے ، اپنے جذبات پر قابو پانا یا انہیں عارضی طور پر کچلنا جانتے ہیں اور موقع کی تلاش میں رہتے ہیں بعض بدنام زمانہ  اخلاقی جرائم پیشہ افراد کا تعلق اسی برج سے رہا ہے ، ڈاکٹر کرسچئن برنارڈ کے نام سے کون واقف نہیں ہوگا ، میڈیکل کی تاریخ میں دل کی تبدیلی کا پہلا آپریشن کرنے والے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر کرسچئن برنارڈ کی سب سے بڑی کمزوری اخلاق باختگی  تھی اور ایسی ہی ایک  زیادتی کے نتیجے میں وہ قتل ہوگئے تھے ، ان کا شمسی برج عقرب تھا ۔

حسد و رقابت کا مادّہ بھی سب سے زیادہ برج عقرب میں پایا جاتا ہے، اگر مریخ یا پلوٹو متاثرہ یا مخالف نظرات رکھتے ہوں تو یہ جذبے نہایت شدید ہوجاتے ہیں اور منفی کردار سامنے آتا ہے ، یہ لوگ بہت گہرے ، پیچیدہ ، سازشی اور متشدد ہوتے ہیں ، ان کی حرکات و سکنات کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا ، ان کے جرائم بھی پیچیدہ اور پُرفریب ہوتے ہیں ، ان کی تہہ تک پہنچنے کے لیے کسی ذہین سُراغ رساں کی ضرورت ہوسکتی ہے ، حالاں کہ وہ خود بھی بہترین سُراغ رساں ہوتے ہیں اور اکثر پولیس یا انٹیلی جنس سروسز کے بہترین دماغوں میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔

عقرب ایک ایسا برج ہے جسے سب سے زیادہ غلط سمجھا گیا ہے. اس برج کا تعلق عام طور پر جنس مخالف، طاقت اور سازش سے ہوتا ہے. پارٹی میں کسی شخص کا یوں تعارف کرانا کہ میرا برج عقرب ہے، لوگوں کو خائف کر دیتا ہے. جب یہ شخص پارٹی سے چلا جائے تو لوگ اسے برا بھلا کہہ کر اطمینان کا سانس لیتے ہیں. عقرب کو غلط سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس برج کے تحت پیدا ہونے والے افراد اپنی سرگرمیوں کو حد درجہ مخفی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں  ہیں.

یہ افراد زندگی کے ہر میدان میں بہت زیادہ حوصلہ مند اور باہمت ہوتے ہیں۔ دیگر برجوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن کاموں سے کترا جاتے ہیں۔ عقرب افراد کوان مہم جو کاموں کو بڑے حوصلے کے ساتھ انجام دینے کا فن آتا ہے ایسے کاموں کے دوران یہ لوگ اپنے اندر موجود تمام خدشات، خطرات اور منفی سوچوں کا خاتمہ کر دیتے ہیں اور ان کے سامنے صرف اور صرف مزکورہ کام ہوتے ہیں اور جب تک یہ لوگ یہ کام نہ کر لیں انہیں سکون نہیں ملتا۔

یہ افراد زندگی کے ہر میدان میں بہت زیادہ حوصلہ مند اور باہمت ہوتے ہیں۔اور ان کے سامنے صرف اور صرف کام ہوت اور جب تک یہ لوگ یہ کام نہ کر لیں انہیں سکون نہیں ملتا۔

ان کی پراسرار سرگرمیاں دوسروں کو شک و شبہ میں مبتلا کر دیتی ہیں.یہ لوگ اپنی نجی زندگی میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے، اور اپنے آپ کو بھی سمیٹ کر رکھتے ہیں. یہ دوسروں سے دوستی کرنے میں بے حد محتاط ہوتے ہیں. سماجی تقریبات میں ان کا جانا بہت کم ہوتا ہے. اور اگر جائیں بھی تو زیادہ تر الگ تھلگ رہتے ہیں. اپنی انہی عادات کے باعث یہ اوائل عمر میں ہی اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا سیکھ جاتے ہیں.اور کبھی بھی جذباتی پیچید گیوں کا شکار نہیں ہوتے .عقرب مرد چونکہ زندگی کے تمام معاملا ت کا بغور جائزہ لینے کے عادی ہوتے ہیں اس لئے کسی عورت کی جانب پیش قدمی کرنے سے پہلے یہ اس کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کرتے ہیں اور اگر وہ عورت ان کے معیار پر پوری اتر جائے تو یہ اس سے راہ و رسم بڑھاتے ہیں ورنہ یہ آسانی سے اپنا راستہ بدل لیتے ہیں  

یہ لوگ بہت وفادار اور قابل اعتماد ہوتے ہیں، وفاداری کے بارے میں ان کا فلسفہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وفا کا ارادہ کر لیا ہے تو صرف وفا کرو، اس کے بدلے کی فکر نہ کرو، سامنے والا کیا کرتا ہے، یہ بھول جاؤ، خود صرف وفا کرو تا کہ اپنی شخصیت کی شان برقرار رہے۔ یہ لوگ نہایت قابل اعتماد ہوتے ہیں، ان پر ہر طرح کا بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ انہیں اپنے راز بتائے جا سکتے ہیں۔یہ لوگ بات بات پر ہنستے اور مسکراتے رہتے ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان پر اپنی محدود زندگی کی سوچوں کا غلبہ رہتا ہے اور یہ سوچتے ہیں کہ جو بھی وقت ہے اسے ہنس کھیل کر گزار دیا جائے جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی تمام تر بے چینی اور بے قراری کے باوجود زندگی سے لطف اندوز ہونا جانتے ہیں۔

ان کی شخصیت میں کنٹرول اور طاقت اہم ترین عنصر ہیں. برج عقرب کے لوگوں کا کسی کے کنٹرول میں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ان پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے. 

بچھو کی نشانی کے تحت پیدا ہونے والی مشہور شخصیات

فیوڈور دوستوفسکی ، روسی مصنف-بل گیٹس ، امریکی کاروباری ، چیف سافٹ ویئر آرکیٹیکٹ اور مائیکروسافٹ کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین -پابلو پکاسو ، ہسپانوی مصور، گرافک آرٹسٹ، مجسمہ ساز اور سیرامسٹ-کرسٹوفر کولمبس ، مشہور ہسپانوی نیویگیٹر ، نئی زمینوں کا دریافت کرنے والا ا لفریڈ سیسلی 

 معلومات علم نجوم ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر