پیر، 16 اکتوبر، 2023

حضرت بہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ


حضرت بہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ کوفہ میں پیدا ہوئے آپ حضرت امام جعفر صادق کے شاگرد اور امام موسی کاظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے جب امام موسی کاظم کے ساتھیوں کو ایک ایک کر کے ختم کرنا شروع کیا تو آپ کچھ ساتھیوں کے ہمراہ امام موسی کاظم سے ملے جو اس وقت زیر حراست تھے جب امام موسی کاظم سے درپیش حالات کے حوالے سے مشورہ مانگا تو آپ نے صرف ایک حرف "ج" لکھ کر دیا۔ اس حرف کی سب نے اپنے اپنے انداز سے تشریح کی اور اس پر عمل کیا۔ "ج" سے جلا وطن، جبل یعنی پہاڑ اور حضرت بہلول دانا کے لیے "ج" سے جنون۔اگلے روز آپ نے اپنی عالیشان زندگی کو خیرآباد کہا اور فقیرانہ حلیے میں بغداد کی گلیوں میں پھرنا شروع کر دیا۔ جلد اہل بغداد نے آپ کو بہلول مجنون کے نام سے پکارنا شروع کر دیا اور اس طرح آپ ہارون الرشید کے عتاب سے محفوظ ہو گئے۔ ذیل میں حضرت بہلول دانا کے چند مشہور واقعات بیان کیے جا رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ نے مصلحت کے تحت مجزوبانہ حلیہ اپنایا تھا۔

کہتے هیں کہ ہارون الرشید کی دلی تمنا تھی کہ حضرت بہلول دانا رح اس سے ملاقات کریں لیکن آپ رح کبھی بھی اس کے دربار میں تشریف نہ لے گئے.. ایک دن یوں هوا کہ ہارون الرشید اپنے محل کی چھت پر بیٹھا تھا ک اس نے حضرت بہلول دانا رح کو شاهی محل کے قریب سے گزرتے دیکھا.. فورا حکم دیا که حضرت بہلول دانا رح کو کمند ڈال کر محل کی چھت پر کھینچ لیا جائے.. چنانچہ ایسا هی کیا گیا.. جب آپ رح ہارون الرشید کے سامنے پہنچے تو اس نے پوچھا.. " یہ فرمائیے کہ آپ اللہ تک کیسے پہنچے..؟ " آپ نے فرمایا.. " جس طرح آپ تک پہنچا.. " ہارون الرشید نے کہا.. " میں سمجھا نہیں.فرمایا. اگر میں خود آپ تک پہنچنا چاهتا تو نہا دھو کر ' لباس فاخره پہن کر ' دربان کی منتیں کر کے محل کے اندر داخل هوتا.. پھر عرضی پیش کرتا ' پھر گھنٹوں انتظار کرتا ' پهر بھی ممکن تھا کہ آپ میری درخواست رد کر دیتے.. لیکن جب آپ نے خود مجھے بلانا چاها تو محض کچھ لمحوں میں هی اپنے سامنے بلا لیا.. " اسی طرح جب اللہ کو اپنے بندے کی کوئی ادا پسند آتی هے تو اسے لمحوں میں قرب کی وه منزلیں طے کروا دی جاتی هیں جو بڑے بڑے عابدوں کیلئے باعث رشک بن جاتی هیں 

حضرت بہلول دانا رح کی ملاقات خلیفہ ہارون الرشید سے ہوئی تو خلیفہ (جو آپ کو مجزوب اور دیوانہ سمجھتا تھا) نے اپنی چھڑی اٹھا کر آپ رح کو دی اور مزاحاً کہا کہ بہلول یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے اُسے دے دینا۔ حضرت بہلول رح نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی اور واپس چلے آئے۔ کچھ عرصہ کے بعد ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہو گئی۔ بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔ طبیبوں نے جواب دے دیا ۔ تو ایک دن حضرت بہلول دانا رح خلیفہ کی عیادت کے لئے پہنچے اور سلام کے بعد پوچھا۔ کیا حال ہے؟ خلیفہ نے کہا حال پوچھتے ہو بہلول؟ بڑا لمبا سفر درپیش ہے ۔ حضرت بہلول رح نے پوچھا کہاں کا سفر؟ خلیفہ نے جواب دیا۔ آخرت کا۔ حضرت بہلول رح نے سادگی سے پوچھا۔ واپسی کب ہوگی؟ خلیفہ نے کہا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی واپس آتا ہے۔ حضرت بہلول رح نے تعجب سے کہا۔ اچھا آپ واپس نہیں آئیں گے تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اور ساتھ ساتھ کون جائے گا؟ ہارون الرشید نے کہا آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا، خالی ہاتھ جا رہا ہوں۔ حضرت بہلول رح نے فرمایا "اچھا اتنا لمبا سفر کوئی معین ومددگار نہیں پھر تو لیجئے (خلیفہ ہارون الرشید کی دی ہوئی چھڑی بغل سے نکال کر کہا) یہ امانت واپس ہے۔ مجھے آپ کے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے۔ تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے۔ حشم وخدم کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے۔ اتنے لمبے سفر کی، جس میں واپسی بھی ناممکن ہے، آپ نے تیاری نہیں کی۔ میری نظر میں آپ سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے۔" چھڑی واپس  دے کر اٹھے اور بے نیازی سے چلے گئے

کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی رح سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟" لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟" شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔" مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں حضرت بہلول رح کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ حضرت بہلول رح سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول رح نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟" شیخ نے جواب دیا۔ "میں ہوں جنید بغدادی۔" "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔" شیخ نے جواب دیا۔ حضرت بہلول نے پوچھا "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔" پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔" یہ سن کر بہلول رح اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر حضرت بہلول رح نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"بہلول رح ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا "کون ہو تم؟ "میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"بہلول رح نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے تو ناواقف ہو لیکن گفتگو کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔ میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول کے احکام کے بارے میں بتاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔ تو بہلول رح نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟" "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول رح کا پیچھا کیا۔ بہلول رح نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔ جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔ بہلول رح نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر بہلول رح نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔" کچھ دیر بعد بہلول رح نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔" شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" پھر بہلول رح نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔ اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو" حضرت بہلول دانا رح کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔حضرت بہلول دانا رح چلے گئے اور اس ملاقات کے بعد خلیفہ ہارون الرشید کی طبیعت درست ہو گئ کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی رح سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟" لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟" شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔" مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں حضرت بہلول رح کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔

شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ حضرت بہلول رح سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول رح نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟" شیخ نے جواب دیا۔ "میں ہوں جنید بغدادی۔" "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟" "جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔" شیخ نے جواب دیا۔ حضرت بہلول نے پوچھا "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔" پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔" یہ سن کر بہلول رح اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر حضرت بہلول رح نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔" "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"بہلول رح ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون

ہو تم"میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"

بہلول رح نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے تو ناواقف ہو لیکن گفتگو کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟" شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔ میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول کے احکام کے بارے میں بتاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔ تو بہلول رح نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟" "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول رح کا پیچھا کیا۔ بہلول رح نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔ جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔ بہلول رح نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔" یہ کہہ کر بہلول رح نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔" کچھ دیر بعد بہلول رح نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔" شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" پھر بہلول رح نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔ اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو" حضرت بہلول دانا رح کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائےایک دفعہ حضرت بہلول دانا رح کہیں سے گزر رہے تھے کہ ایک بچے کو دیکھا… وہ کھڑا رو رہا تھا … دوسرے بچے اخروٹ سے کھیل رہے تھے… انہوں نے سمجھا اس کے پاس اخروٹ نہیں، اس لیے رو رہا ہے، میں اس کو لے کر دیتا ہوں ، انہوں نے کہا بیٹا !رو نہیں … میں تجھے اخروٹ لے کر دے دیتا ہوں … تو بھی کھیل۔ اس بچے نے کہا: اے بہلول! کیا ہم دنیا میں کھیلنے آئے ہیں؟ ان کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ بچہ ایسا جواب دے گا تو انہوں نے کہا اچھا، پھر کیا کرنے آئے ہیں؟ بچے نے کہا: الله تعالیٰ کیعبادت کرنے آئے ہیں … انہوں نے کہا بچے ابھی تو تم بہت چھوٹے ہو تمہارے غم کی یہ چیز نہیں ہے ابھی تو تمہارا اُس منزل پر آنے میں بھی بہت وقت پڑا ہے … تو اس نے کہا: ارے بہلول! مجھے دھوکہ نہ دے میں نے اپنی ماں کو دیکھا ہے … وہ صبح جب آگ جلاتی ہے تو پہلے چھوٹی لکڑیوں سے جلاتی ہے اور پھر بعد میں بڑی لکڑیاں رکھتی ہے اس لیے مجھے ڈر ہے کہیں دوزخ مجھ سے نہ جلائی جائے اور میرے اوپر بڑوں کو نہ ڈالا جائے ۔

ہفتہ، 14 اکتوبر، 2023

تھینکس گیونگ ڈے

 

 

دنیا کی بہت سی اقوام اپنے اپنے طور پر ایک تہوار ضرور ایسا رکھتی ہیں جس میں وہ اپنے عزیز و اقارب کو اپنے گھر بلا کر بہت اچھّی سی ضیافت کر سکیں جیسے کہ بیساکھی یا مسلمانوں کا بڑا تہوار عید -یورپی ممالک میں ایک بہت بہترین تہوار تھینکس گیونگ ڈے منایا جاتا جس میں مرغی نما پرندے 'ٹرکی' کی دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے-تھینکس گیونگ کے موقع پر خواتینِ خانہ اپنے ہاں آنے والے مہمانوں کے لیے دعوتوں کا اہتمام کرتی ہیں جن میں مرغی نما پرندہ 'ٹرکی' کو روسٹ کر کے خاص طور پر ڈشز میں شامل کیا جاتا ہے۔ٹرکی دنیا کے متعدل موسم والے ممالک میں پایا جاتا ہے۔ امریکی ریاست آئیووا میں اس کی افزائس کے کئی مراکز قائم ہیں۔اس پرندے میں گوشت کی مقدار بھی مرغی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ابتدا میں مختلف امریکی ریاستیں مختلف دنوں میں تھینکس گیونگ کا تہوار مناتی تھیں۔ لیکن امریکی صدر ابراہم لنکن نے 1863 میں ہر سال نومبر کی آخری جمعرات کو 'تھینکس گیونگ ڈے' قرار دے دیا۔بعد ازاں 1942 میں صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کے دور میں کانگریس نے ایک قانون کے ذریعے ہر سال نومبر کی چوتھی جمعرات کو 'تھینکس گیونگ ڈے' مقرر کیا جس کے بعد سے ہر سال اب نومبر کی چوتھی جمعرات کو ہی یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ اس روز امریکہ بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے-

تھینکس گیونگ کو امریکہ اور اس سے ملحقہ ریاستوں میں سب سے بڑے ثقافتی تہوار کا درجہ حاصل ہے-مریکہ میں یومِ تشکر یعنی تھینکس گیونگ کا یہ تہوار منانے کے لیے 1863 میں باقاعدہ طور پر عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ اس دن سے امریکہ بھر میں تعطیلات کا سیزن شروع ہو جاتا ہے جو سالِ نو یعنی یکم جنوری تک جاری رہتا ہے۔تھینکس گیونگ کی تاریخ چار صدیاں پہلے شروع ہوئی۔ یہ ذکر ہے 1621 کا۔ میساچوسٹس کے پلی متھ کے مقام پر انگریز آبادکاروں کی ایک کالونی میں لوگوں نے فصلوں کی کٹائی کے موقع پر امریکہ کے آبائی باشندوں کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور اسے یومِ تشکر کا نام دیا۔ یہ شکر تھا اللہ کی ان نعمتوں کا جو اس نے فصلوں اور مختلف صورتوں میں عطا کیں۔ اس موقع پر انہوں نے یہ عہد کیا کہ وہ ان نعمتوں کو مل بانٹ کر اور بھائی چارے کے ساتھ اپنی خوش حالی اور ترقی کے لیے استعمال کریں گے۔تاریخ کے مطابق اس وقت ہونے والی ضیافت میں دستر خوان پر ٹرکی، آلو کا بھرتہ، شکر قندی، لابسٹر، مچھلی، پھل اور سبزیاں رکھی گئی تھیں۔تاہم چار صدیاں پہلے اس خطے میں آباد لوگ پیاز، لہسن، انگور اور مقامی میوہ جات، بشمول اخروٹ، کرین بیری اور شاہ بلوط سے آگاہ ہو چکے تھے۔ اس لیے غالب گمان یہ ہے ممکنہ طور پر یہ چیزیں بھی کسی نہ کسی انداز میں دسترخوان کی زینت بنتی ہوں گی۔ تھینکس گیونگ کے ٹرکی کو کھانے کی میز کے وسط میں سجایا جاتا ہے اور دعوت میں شامل ہر شخص اس کا ایک ٹکڑا ضرور لیتا ہے۔ ٹرکی کو عموماً سالم بیک کیا جاتا ہے۔جب سے امریکہ میں دنیا کے مختلف حصوں سے بڑی تعداد میں تارکینِ وطن آ کر آباد ہوئے ہیں، ٹرکی بیک کرنے کے انداز اور طریقے بھی بدل گئے ہیں۔ ہر برادری اپنے مصالحوں کے ساتھ ٹرکی کو بیک کرتی ہے اور اسے منفرد ذائقہ دیتی ہے۔آج کل ٹرکی کے گوشت کے علاوہ ایپل پائی اور حلوہ کدو بھی تھینکس گیونگ کے کھانے کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ہر برداری تھینکس گیونگ کی ٹیبل پر اپنے علاقے کی مخصوص ڈشز بھی رکھتی ہے۔ یہاں، ہم آپ کو مزے دار تھینکس گیونگ کو سجانے سے لے کر ایک سوادج کھانا پکانے اور ایونٹ کے دوران تفریحی سرگرمیوں کے لیے تحائف کی تیاری سے لے کر مفید مشورے دیتے ہیں۔تھینکس گیونگ ڈنر میں کیا لینا ہے؟ اگر آپ کو تھینکس گیونگ ڈنر میں مدعو کیا گیا ہے، تو آپ ایک چھوٹا سا تحفہ دے کر میزبان کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گے۔ میزبان کے ساتھ آپ کے تعلقات پر منحصر ہے، آپ کچھ عملی، معنی خیز، معیاری، تفریحی یا منفرد انتخاب کر سکتے ہیں۔ امریکہ میں کم ہی گھر ایسے ہوں گے جہاں تھینکس گیونگ کی شام خصوصی طور پر میز نہ سجائی جاتی ہو اور گھر کے افراد، اپنے عزیزوں اور قریبی دوستوں کے ساتھ مل کر کھانا نہ کھاتے ہوں۔اس خصوصی ضیافت میں میز پر مرکزی حیثیت ٹرکی کو حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ مکئی، پھلیاں اور کئی دوسری ڈشز کو بھی رکھا جاتا ہے۔یہ وہ روایتی کھانے ہیں جو آج سے 400 سال پہلے تھینکس گیونگ کی پہلی دعوت میں رکھے گئے تھے جس میں یورپ سے امریکہ آنے والے نئے تارکینِ وطن نے مقامی قدیم باشندوں کے ساتھ مل کر شرکت کی تھی۔ اس دن کو 'تھینکس گیونگ' کا نام دیا گیا تھا۔ اب یہ امریکہ کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ تھینکس گیونگ ڈنر میں کیا لینا ہے؟ اپنے پیارے خاندان اور دوست کے لیے بہترین تھینکس گیونگ ڈنر پیش کرنے کے لیے، آپ خود آرڈر کر سکتے ہیں یا خود پکا سکتے ہیں۔

 ٹوسٹڈ ترکی میز پر ایک کلاسک اور ناقابل تلافی ڈش ہے، لیکن پھر بھی آپ ٹرینڈنگ اور تھینکس گیونگ کی عمدہ ترکیبوں سے اپنے کھانے کو مزید لذیذ اور نابھولنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ کچھ سرخ اور سفید شرابیں شروع میں آپ کی پارٹی کے لیے برا انتخاب نہیں ہیں۔ آپ بچوں کے لیے کچھ پیاری اور مزیدار تھینکس گیونگ ڈیسرٹ تیار کر سکتے ہیں۔ تھینکس گیونگ ڈنر میں کیا لینا ہے؟۔ ماحول کو گرمانے اور لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے ہمیشہ تفریحی سرگرمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔بعض روایات کے مطابق 1621 میں امریکہ آنے والے تارکینِ وطن برطانوی باشندوں نے کھیتی باڑی سکھانے والے آبائی امریکی باشندوں کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا جس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ابتدا میں مختلف امریکی ریاستیں مختلف دنوں میں تھینکس گیونگ کا تہوار مناتی تھیں۔ لیکن امریکی صدر ابراہم لنکن نے 1863 میں ہر سال نومبر کی آخری جمعرات کو 'تھینکس گیونگ ڈے' قرار دے دیا۔ جس کے بعد سے ہر سال اب نومبر کی چوتھی جمعرات کو ہی یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ اس روز امریکہ بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ لوگ اس تہوار کے دوران ایک دوسرے کو اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں۔ اس تہوار کو امریکہ میں تعطیلات کے موسم کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے جو سالِ نو کے آغاز تک جاری رہتا ہے۔ تھینکس گیونگ کے بعد سے ہی کرسمس کی تیاریوں میں بھی تیزی آ جاتی ہے اور اس تہوار سے قبل اور اس کے دوران لوگوں کی ایک بڑی تعداد خرید و فروخت اور تعطیلات منانے کے لیے گھروں سے نکلتی ہے۔اس دن ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں قومی یکجہتی کے اظہار کے لیے پریڈیں ہوتی ہیں۔ اس روز لوگ مل کر ٹی وی شوز اور کھیلوں کے مقابلے دیکھنے کا بھی خاص اہتمام کرتے ہیں۔

منگل، 10 اکتوبر، 2023

برج عقرب کے تحت پیدا ہونے والے افراد کا جائزہ

 

24 اکتوبر تا 22 نومبر

 برج عقرب کے تحت پیدا ہونے والے افراد کی شخصیت کا مختصر جائزہ – بلند ہمت، بد گمان، جوشیلا، تلخ، طنزیہ، قبضہ پسند، حاسد -عقرب افراد کیسے ہوتے ہیں؟ پراسرار شخصیت والوں کا برج. گہری سوچ کے مالک – ن کی شخصیت میں کنٹرول اور طاقت اہم ترین عنصر ہیں. برج عقرب میں بچھو اور سانپ جیسی خصوصیت ہوتی ہیں. رومانوی معاملات میں ان کو کامیابی کا ہمیشہ یقین نہیں ہوتا. یہ لوگ مالیاتی امور سے ایک قدرتی لگاؤ رکھتے ہیں. برج عقرب والے مریخ کی منفی پوزیشن یا کسی منفی زاویے کے نتیجے میں جنسی جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ، خاص طور پر قمری برج عقرب والے ، واضح رہے کہ برج عقرب کا تعلق خاص طور پر اخلاقیات  سے ہے ، یہ حمل کی طرح بھڑکنے والے نہیں ہوتے ، اپنے جذبات پر قابو پانا یا انہیں عارضی طور پر کچلنا جانتے ہیں اور موقع کی تلاش میں رہتے ہیں بعض بدنام زمانہ  اخلاقی جرائم پیشہ افراد کا تعلق اسی برج سے رہا ہے ، ڈاکٹر کرسچئن برنارڈ کے نام سے کون واقف نہیں ہوگا ، میڈیکل کی تاریخ میں دل کی تبدیلی کا پہلا آپریشن کرنے والے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر کرسچئن برنارڈ کی سب سے بڑی کمزوری اخلاق باختگی  تھی اور ایسی ہی ایک  زیادتی کے نتیجے میں وہ قتل ہوگئے تھے ، ان کا شمسی برج عقرب تھا ۔

حسد و رقابت کا مادّہ بھی سب سے زیادہ برج عقرب میں پایا جاتا ہے، اگر مریخ یا پلوٹو متاثرہ یا مخالف نظرات رکھتے ہوں تو یہ جذبے نہایت شدید ہوجاتے ہیں اور منفی کردار سامنے آتا ہے ، یہ لوگ بہت گہرے ، پیچیدہ ، سازشی اور متشدد ہوتے ہیں ، ان کی حرکات و سکنات کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا ، ان کے جرائم بھی پیچیدہ اور پُرفریب ہوتے ہیں ، ان کی تہہ تک پہنچنے کے لیے کسی ذہین سُراغ رساں کی ضرورت ہوسکتی ہے ، حالاں کہ وہ خود بھی بہترین سُراغ رساں ہوتے ہیں اور اکثر پولیس یا انٹیلی جنس سروسز کے بہترین دماغوں میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔

عقرب ایک ایسا برج ہے جسے سب سے زیادہ غلط سمجھا گیا ہے. اس برج کا تعلق عام طور پر جنس مخالف، طاقت اور سازش سے ہوتا ہے. پارٹی میں کسی شخص کا یوں تعارف کرانا کہ میرا برج عقرب ہے، لوگوں کو خائف کر دیتا ہے. جب یہ شخص پارٹی سے چلا جائے تو لوگ اسے برا بھلا کہہ کر اطمینان کا سانس لیتے ہیں. عقرب کو غلط سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس برج کے تحت پیدا ہونے والے افراد اپنی سرگرمیوں کو حد درجہ مخفی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں  ہیں.

یہ افراد زندگی کے ہر میدان میں بہت زیادہ حوصلہ مند اور باہمت ہوتے ہیں۔ دیگر برجوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن کاموں سے کترا جاتے ہیں۔ عقرب افراد کوان مہم جو کاموں کو بڑے حوصلے کے ساتھ انجام دینے کا فن آتا ہے ایسے کاموں کے دوران یہ لوگ اپنے اندر موجود تمام خدشات، خطرات اور منفی سوچوں کا خاتمہ کر دیتے ہیں اور ان کے سامنے صرف اور صرف مزکورہ کام ہوتے ہیں اور جب تک یہ لوگ یہ کام نہ کر لیں انہیں سکون نہیں ملتا۔

یہ افراد زندگی کے ہر میدان میں بہت زیادہ حوصلہ مند اور باہمت ہوتے ہیں۔اور ان کے سامنے صرف اور صرف کام ہوت اور جب تک یہ لوگ یہ کام نہ کر لیں انہیں سکون نہیں ملتا۔

ان کی پراسرار سرگرمیاں دوسروں کو شک و شبہ میں مبتلا کر دیتی ہیں.یہ لوگ اپنی نجی زندگی میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے، اور اپنے آپ کو بھی سمیٹ کر رکھتے ہیں. یہ دوسروں سے دوستی کرنے میں بے حد محتاط ہوتے ہیں. سماجی تقریبات میں ان کا جانا بہت کم ہوتا ہے. اور اگر جائیں بھی تو زیادہ تر الگ تھلگ رہتے ہیں. اپنی انہی عادات کے باعث یہ اوائل عمر میں ہی اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا سیکھ جاتے ہیں.اور کبھی بھی جذباتی پیچید گیوں کا شکار نہیں ہوتے .عقرب مرد چونکہ زندگی کے تمام معاملا ت کا بغور جائزہ لینے کے عادی ہوتے ہیں اس لئے کسی عورت کی جانب پیش قدمی کرنے سے پہلے یہ اس کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کرتے ہیں اور اگر وہ عورت ان کے معیار پر پوری اتر جائے تو یہ اس سے راہ و رسم بڑھاتے ہیں ورنہ یہ آسانی سے اپنا راستہ بدل لیتے ہیں  

یہ لوگ بہت وفادار اور قابل اعتماد ہوتے ہیں، وفاداری کے بارے میں ان کا فلسفہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وفا کا ارادہ کر لیا ہے تو صرف وفا کرو، اس کے بدلے کی فکر نہ کرو، سامنے والا کیا کرتا ہے، یہ بھول جاؤ، خود صرف وفا کرو تا کہ اپنی شخصیت کی شان برقرار رہے۔ یہ لوگ نہایت قابل اعتماد ہوتے ہیں، ان پر ہر طرح کا بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ انہیں اپنے راز بتائے جا سکتے ہیں۔یہ لوگ بات بات پر ہنستے اور مسکراتے رہتے ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان پر اپنی محدود زندگی کی سوچوں کا غلبہ رہتا ہے اور یہ سوچتے ہیں کہ جو بھی وقت ہے اسے ہنس کھیل کر گزار دیا جائے جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی تمام تر بے چینی اور بے قراری کے باوجود زندگی سے لطف اندوز ہونا جانتے ہیں۔

ان کی شخصیت میں کنٹرول اور طاقت اہم ترین عنصر ہیں. برج عقرب کے لوگوں کا کسی کے کنٹرول میں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ان پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے. 

بچھو کی نشانی کے تحت پیدا ہونے والی مشہور شخصیات

فیوڈور دوستوفسکی ، روسی مصنف-بل گیٹس ، امریکی کاروباری ، چیف سافٹ ویئر آرکیٹیکٹ اور مائیکروسافٹ کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین -پابلو پکاسو ، ہسپانوی مصور، گرافک آرٹسٹ، مجسمہ ساز اور سیرامسٹ-کرسٹوفر کولمبس ، مشہور ہسپانوی نیویگیٹر ، نئی زمینوں کا دریافت کرنے والا ا لفریڈ سیسلی 

 معلومات علم نجوم ہے

ہفتہ، 7 اکتوبر، 2023

حمّا س اور اسرائیل-یہ دن تو آنا تھا

 دونوں جانب لاوہ بہت دنوں سے پک رہاتھا-خاص طور پر غزّہ سے برسہا برس سے آباد فلسطینیوں کے گھر مسمار کر کے ان کی جبری بےدخلی اور اسرائیل کے دیگر مظالم -لیکن دیکھئے لڑائ کہیں بھی ہو اس کے اسباب بھی کیا ہوں لیکن نقصان تو صرف عام عوام کا ہوتا ہے   اب ایک جانب اسرائیل  کے جیٹ طیاروں نے حماس کے فوجی اہداف کے طور پر بیان کردہ دو عمارتوں پر حملہ کر کےعمارتوں کو نشانہ بنایا ہے، ان حملوں میں غزہ میں کم از کم 232 افراد ہلاک اور دیگر 1,697 زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب حماس نے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کر دی ہے اوراسرائیل کے اندر جانی و مالی نقصان پہنچایا ہےحماس یروشلم اور مغربی کنارے میں مسجد الاقصی پر اسرائیل کے حالیہ اقدامات پر اسرائیل پر اپنے بے مثال حملے کا الزام لگا رہی ہے۔ لیکن اسرائیل کی اتحادی حکومت ایک سال سے زائد عرصے سے فلسطینی انتہا پسندوں اور بڑھتے ہوئے فلسطینی دہشت گرد حملوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے گزشتہ ماہ این بی سی نیوز کے لیسٹر ہولٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ "ہم اپنے علاقائی ممالک اور صیہونی حکومت کے درمیان کسی بھی دوطرفہ تعلقات کے خلاف ہیں،" اسرائیل کے حوالے سے۔ رئیسی نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ صیہونی حکومت خطے میں اپنے لیے سلامتی پیدا کرنے کے لیے علاقائی ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔حالیہ ہفتوں میں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے سفارت کاروں نے این بی سی نیوز کو بتایا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر جو بائیڈن سبھی نے اس معاہدے کی حمایت کا اظہار کیا ہے جس کے نتیجے میں سعودی عرب اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کر لے گا۔ . اگرچہ تینوں فریقوں کے پاس ایسے معاہدے کے لیے پیچیدہ شرائط ہیں۔اہدے کے لیے پیچیدہ شرائط ہیں۔

 ادھرشہزادہ بن محمد سلمان، ماضی کے سعودی حکمرانوں کے برعکس، یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں، کیونکہ اس سے سعودی عرب کو وسیع اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔ لیکن سعودی چاہتے ہیں کہ امریکہ سویلین نیوکلیئر پروگرام تیار کرنے میں ان کی مدد کرے، جس کی نیتن یاہو کے اتحاد کے سخت دائیں بازو کے ارکان اور امریکی سینیٹ کے ارکان نے مخالفت کی، جس کے لیے اس طرح کے کسی بھی معاہدے کو منظور کرنا ہوگا۔علیحدہ طور پر، جب وہ گزشتہ ماہ نیویارک میں ملے تھے، صدر بائیڈن نے نیتن یاہو سے کہا تھا کہ کسی بھی معاہدے میں فلسطینیوں کے لیے زمین کو شامل کرنا ہو گا تاکہ وہ ایک قابل عمل ریاست قائم کر سکیں، جس میں نیتن یاہو کی مغربی کنارے میں جاری آبادکاری کی توسیع کو روکا جائے گا۔ پچھلے ہفتے سینیٹرز کے ایک دو طرفہ گروپ نے وائٹ ہاؤس کو لکھے گئے ایک خط میں انہی خدشات کا اظہار کیا تھا۔

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کرنے پر راضی ہو جاتا ہے تو وہ دوسری عرب ریاستوں کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کرے گا۔ اس طرح کے معاہدوں کی ایک سیریز سے اسرائیل اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان 1948 کی دہائیوں کی دشمنی ختم ہو جائے گی۔ آج کے حماس کے حملے سے پہلے، یہ اطلاعات تھیں کہ سعودی عرب نے وائٹ ہاؤس کو کہا تھا کہ وہ ایک معاہدے کو مضبوط کرنے میں مدد کے لیے اپنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے گا۔ بائیڈن وائٹ ہاؤس نے دو سال کی مہلت مانگی ہے۔7 اکتوبر 2023، شام 6:26 EDT کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے آج علی الصبح اسرائیل پر ایک حیرت انگیز اور بے مثال حملہ شروع کیا، ایک کثیر محاذی گھات لگا کر حملہ کیا جس میں کچھ سوالات ہیں کہ اسرائیل کی مضبوط انٹیلی جنس کس طرح بے خبر پکڑی گئی-اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ملک حماس کے ساتھ جنگ میں ہے اور مسلح افواج کو بڑھانے کے لیے ریزروسٹ کو بلایا جائے گا۔ انہوں نے کہا، "دشمن کو وہ قیمت چکانا پڑے گی جس کا اسے پہلے کبھی علم نہیں تھا۔" اسرائیل کی وزارت خارجہ نے کہا کہ 200 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔

 غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ جوابی اسرائیلی حملوں میں غزہ میں کم از کم 232 افراد مارے گئے۔اسرائیلی فوج نے کہا کہ حماس کے جنگجوؤں نے متعدد شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے، آپریشن شروع ہونے کے کئی گھنٹے بعد جنوبی اسرائیل میں لڑائی جاری ہےصدر جو بائیڈن نے اسے "حماس کے دہشت گردوں کی طرف سے اسرائیل کے خلاف خوفناک حملہ" قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ "اسرائیل کو اپنے اور اپنے لوگوں کے دفاع کا حق حاصل ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "اسرائیل کی سلامتی کے لیے میری انتظامیہ کی حمایت ٹھوس اور غیر متزلزل ہے۔"یہ خونریزی گذشتہ برسوں میں حماس اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں سب سے نمایاں اضافہ ہے۔یونیسیف نے دشمنی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ڈینس رومیرو-اقوام متحدہ کے بچوں کی وکالت کرنے والے گروپ، یونیسی نے حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملے اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے جنگ کے اعتراف کے بعد فوری طور پر لڑائی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔


منگل، 3 اکتوبر، 2023

دنیا کی تاریخ میں زلزلے


 کافی دنوں پہلے کا زکر ہے جب میرا کراچی کے ساحل سینڈز پٹ پر جانا ہوا تو میں نے دیکھاکہ سمندر کے اندر ڈھلان میں پانی کی جانب سینکڑوں انسانی پیروں کے بہت بڑے بڑے نشان جاتے ہوئے نظر آ رہے تھے میں وہیں ٹہر گئ اور میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ تو آتش فشاں کا لاوہ ہے جو سمندر کی جانب بہتا ہوا گیا ہے -وہ تمام جگہ کا لے چٹانی حصّہ پر مشتمل تھی -خیر پکنک ختم ہو گئ سب ہی اپنے اپنے گھر لوٹ آئے-اس زمانے میں کمپیوٹر تو تھا نہیں جو گوگل کر لیتے -میں نے گھر میں تذکرہ کیا تو میرے شوہر نے مجھے کے ایم سی کا کتابچہ لا کر دیا جس میں کراچی میں آنے والے زلزلوں کی ہسٹری موجود تھی-تب مجھےمعلوم ہوا کہ کراچی بھی زلزلوں کی اپنی تاریخ رکھتا ہے اب آئیے دنیا کی تاریخ میں زلزلوں کی ریکارڈ دیکھتے ہیں- دنیا  کی تاریخ میں  قدیم ترین زلزلہ کب اور کہاں آیا، یہ تو وثوق سے نہیں کہا جاسکتا البتہ وہ پہلا زلزلہ جو انسان نے اپنی تحریر میں ریکارڈ کیا تقریباً تین ہزار برس قبل 1177 قبل مسیح میں چین میں آیا تھا۔ اس کے بعد قدیم ترین ریکارڈ 580 قبل مسیح میں یورپ اور 464 قبل مسیح میں یونان کے شہر اسپارٹا کے زلزلے کا ملتا ہے۔ مورخین کا خیال ہے یہ زلزلہ اسپارٹا اور ایتھنس کے درمیان لڑی جانے والی پولینیشین جنگ کے دور میں آیا تھا۔پورے شہر کو ملیا میٹ کردینے والا زلزلہ 226 قبل مسیح یونان کے جزیرے رہوڈس میں آیا تھا۔ جس نے یہاں کے شہر کیمر یوس کو نیست و نابود کر دیا اور ساتھ ہی اس شہر کے ساحل پر نصب عظیم الشان مجسمہ ہیلوس بھی تباہ ہو گیا جس کا شمار دنیا کے سات عجائبات میں ہوتا ہے۔

63 عیسوی میں اٹلی کے شہر پومپائی میں زبردست زلزلہ آیا جس سے اس کی تمام عمارتیں خاک میں مل گئیں۔ پھر اس شہر کی ازسِر نو تعمیر میں 16 سال لگ گئے مگر 24 اگست، 79ءیہاں دوبارہ زلزلہ آیا اور اس شہر کے پہاڑ کوہ وسیوس کا آتش فشاں پھٹ پڑا چنانچہ پومپائی اور ہرکولینم شہر مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ تاریخی حوالوں کے مطابق تقریباً 25 ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔365ءمیں یونان کے جزیرہ کریٹ میں زلزلہ آیا جس سے اس کا شہر کنوسس کُل 50 ہزار نفوس کے ساتھ برباد ہو گیا۔ اس زلزلے کی شدت کا اندازہ 8.1 میگنیٹیوڈ لگایا گیا ہے۔ تاریخ میں اسی سال لیبیا کے شہر سیرین Cyrene میں بھی ایک زلزلہ کا تذکرہ ملتا ہے۔

20 مئی، 526ء کو شام کے شہر انطاکیہ Antiochia میں خوفناک زلزلے سے ڈھائی لاکھ افراد جاں بحق ہو گئے۔ 844ء میں دمشق شہر میں شدید زلزلہ آیا جس سے تقریباً 50 ہزار جانیں ضائع ہوئیں، ماہرین کا خیال ہے کہ ریکٹر اسکیل کے مطابق اس کی شدت 6.5 رہی ہوگی۔ 847ء میں دمشق میں دوبارہ زلزلہ آیا۔ 70 ہزار افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً نصف شہر تباہ ہو گیا، سائنسدن اس زلزلہ کی شدّت 7.3 میگنیٹیوڈ سے زیادہ بتاتے ہیں۔ اسی سال عراق کے شہر موصل میں بھی زلزلہ آیا جس سے 50 ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔ 22 دسمبر، 856ءکو ایران میں زلزلے سے تباہی ہوئی جس سے دمغان اور قومیس شہر کو نقصان پہنچا اور کُل دو لاکھ افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی سال یونان کے شہر کورنتھ میں بھی زلزلے سے 45 ہزار جانیں ضائع ہوئیں۔

893ء میں تاریخ کے تین بڑے زلزلے آئے۔ ایک کائوکاسس Caucasus شہر میں جس سے 84 ہزار نفوس ہلاک ہوئے،دوسرا ایران کے شہر ارادبِل میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ جانیں ضائع ہوئیں اور تیسرا زلزلہ ہندوستان میں وادی سندھ کے قدیم شہر دے پور Daipur یعنی دیبل میں آیا اور تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ تاریخ ابن کثیر میں تحریر ہے کہ اُس وقت سندھ پر عبد اﷲ بن عمر ہباری کی حکومت تھی جو خلیفہ بغداد معتضد باﷲ کی جانب سے مقرر کردہ تھے۔ یہ زلزلہ 14 شوال 280 ہجری میں برپا ہوا اور اس دوران چاند گرہن اور تیز آندھی کے آثار بھی روایتوں میں بیان ہوئے ہیں۔ ابن کثیر کے مطابق نصف شب یکے بعد دیگرے پانچ زلزلے آئے اور بمشکل سو مکان ہی سلامت رہ سکے۔ طبری اور ابن کثیر نے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار بتائی ہے۔

گیارہویں صدی عیسوی کے دوران 1036ء میں چین کے شہر شانکسی میں زلزلہ سے 23 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ 1042ء میں شام میں تبریز، پالرا اور بعلبک کے مقام پر زلزلے سے 50 ہزار افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے اور تبریز شہر کی نصف آبادی ختم ہو گئی۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ زلزلہ 7.3 میگنیٹیوڈ کی شدّت کا رہا ہوگا۔ 1057ء میں چین کے شہر چیہلی Chihli میں 25 ہزار افراد زلزلے کی زد میں آکر ہلاک ہوئے۔بارہویں صدی عیسوی کے سال 1138ء میں شام میں گنزہ Ganzah اور الیپو Aleppo کے مقام پر خوفناک زلزلہ آیا اور تقریباً 2 لاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے، اس کی شدّت کا اندازہ ریکٹر اسکیل پر 8.1 میگنیٹیوڈ کے برابر لگایا گیا ہے۔ 1156ء اور 1157ء کے دوران بھی شام میں زبردست زلزلے سے تیرہ شہر برباد ہو گئے۔ 1169ءمیں شام میں شدید زلزلہ آیا اور کُل 80 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ 1170ء میں سسلی میں زلزلے سے 15 ہزار افراد موت کا شکار ہوئے۔

تیرہویں صدی عیسوی میں 5 جولائی 1201ءکے دوران بالائی مصر اور شام میں تاریخ کا بدترین زلزلہ برپا ہوا جس میں کُل گیارہ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ 1268ءمیں ترکی کے شہر اناطولیہ اور سلسیہ Cilcia میں زلزلے سے 60 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ 27 ستمبر 1290ءچیہلی (چین) میں 6.7 میگنیٹیوڈ کا زلزلہ آیا جس سے ایک لاکھ انسانوں کی اموات ہوئیں۔ اس کے تین سال بعد 20 مئی 1293ءمیں جاپان کے شہر کاماکورا میں آنے والے زلزلہ سے تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔چودھویں اور سترھویں صدی کے دوران 6 بڑے زلزلے آئے۔ 18 اکتوبر 1356ءمیں سوئٹرزلینڈ کے علاقے باسِل میں زلزلے سے ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ امریکی تاریخ کا سب سے قدیم ترین زلزلہ 1471ءمیں پیرو میں آیا تھا۔ مگر اس کی تفصیلات نہیں ملتیں۔ 26 جنوری1531ءمیں پُرتگال کے علاقے لِسبن میں زلزلے سے تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ تاریخ کا دوسرا بڑا زلزلہ 23 جنوری 1556ءکو شانکسی (چین) میں آیا، جس سے 8 لاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ نومبر 1667ءمیں شماکھا (آذربائیجان) 80 ہزار افراد زلزلے سے جاں بحق ہوئے۔ 17 اگست 1668ءمیں اناطولیہ (ترکی) میں زلزلے سے 8 ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔

اٹھارہویں صدی میں تقریباً 13 بڑے زلزلے آئے۔ 26 جنوری 1700ءمیں امریکا کی پلیٹ کاسکاڈیا میں حرکت کی وجہ سے زلزلہ آیا جس کا اثر نارتھ کیلیفورنیا سے وان کودر آئی لینڈ تک پہنچا۔ یہ زلزلہ 9 میگنیٹیوڈ کا تھا۔ 1703ءمیں جاپان کے شہر جے ڈو Jeddo میں زلزلہ سے ایک لاکھ 90 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ 1707ءمیں جاپان میں زیرِسمندر زلزلہ ”سونامی“ آیا جس سے تیس ہزار افراد کی اموات ہوئیں۔ 30 ستمبر 1730ءکو جاپان کے ہوکائیڈو آئی لینڈ کے ایک لاکھ 37 ہزار افراد زلزلہ کی زد میں آئے 

-----

اس مضمون میں وکیپیڈیا سے میں نے مدد لی ہے

منگل، 26 ستمبر، 2023

سورہ الفاتحہ- پورے قران کا خلاصہ

 

 

سورہ الفاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے فاتحہ کے معنی آغاز اور ابتداء کے ہیں ۔ اس لئے اسے الفاتحہ یعنی فاتحۃ الکتاب کہا جاتا ہے ۔اس کا  نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی رحمت وربوبیت اور عدل وبادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا ومناجات ہے جوبندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے ۔اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہےیہ صراطِ مستقیم یہ وہ اسلام ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔

ف۲ صراط مُستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا ۔(وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا 69؀ۭ) 4۔النساء:69) اور جو بھی اللہ تعالٰی کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ) سے مراد یہودی اور (وَلاَ الضَّآلِیْن) گمراہوں سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اسمیں کوئی اختلاف نہیں مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ دونوں کے گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔  قرآن حکیم کی یہی واحد سورہ ہے جو اتنے بہت سارے ناموں سے مشہور ہے سورہ فاتحہ‘ چونکہ اس سورہ سے قرآن حکیم کا افتتاح ہوتا ہے اس لیے یہ سورہ فاتحہ کہلاتی ہے۔ اس کا پورا نام ” فاتحہ الکتاب“ یعنی کتاب کا افتتاح کرنے والی سورہ ہے اس سورہ کو افضل القرآن کا نام بھی دیا گیا ہے اور یہ نام اس کی عظمت و رفعت پر دلالت کرتا ہے۔

 اس کے علاوہ احادیث میں بھی اس سورہ کے 30 نام اور بھی مذکور ہوئے ہیں اور شاید قرآن حکیم کی یہی واحد سورہ ہے جو اتنے بہت سارے ناموں سے مشہور ہے۔ اس کا ایک نام ام القرآن ہے۔ اسے ام القرآن اس لیے کہتے ہیں کہ یہ سورہ قرآن حکیم کے تمام مضامین کا نچوڑ ہے اور تمام روحانی عقائد کی بنیاد ہے۔ بعض علماءنے فرمایا ہے کہ سورہ فاتحہ متن ہے اور پورا قرآن اس متن کی شرح ہے۔ اس سورہ کو ”سورہ الشفا“ بھی کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورہ مختلف بیماریوں کیلئے وجہ شفا ثابت ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک مرتبہ کسی شخص کو سانپ نے کاٹ لیا۔ حضرت ابوسعید خدری نے سورہ فاتحہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا تو وہ ٹھیک ہوگیا۔ تفسیر بیضاوی میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سورہ فاتحہ تمام جسمانی بیماریوں کیلئے شفاءہے۔ اس سورہ کا ایک نام ”کافیہ“ بھی ہے۔ یہ سورہ ایک مومن کیلئے ہر اعتبار سے کافی ہے۔

 یہ سورہ دوسروں کی محتاجی سے روکتی ہے۔ ایک بار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر سورہ فاتحہ کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیں اور بقیہ تمام قرآن فاتحہ کے علاوہ ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھدیں تو سورہ فاتحہ کا وزن سات قرآنوں کے برابر ہوگا۔ (تفسیر بیضاوی‘ تفسیر عزیزی) اس سورہ کا ایک نام ”کنز“ بھی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سورہ عرش الٰہی کے خصوصی خزانوں میں سے عطاءکی گئی ہے۔ صوفیاءسے منقول ہے کہ جو کچھ پہلی کتابوں میں تھا وہ سب کلام پاک میں موجود ہے اور جو کچھ قرآن حکیم میں ہے۔ اس کا خلاصہ سورہ فاتحہ میں ہے اور جو کچھ سورہ فاتحہ میں ہے اس کا خلاصہ بسم اللہ میں ہے۔ اس سورہ فاتحہ کی قرات فرض ہے اور یہ اس کا ضروری رکن ہے جس کے ترک سے نماز باطل ہوجاتی ہے ‘تمام قرآن میں سے صرف اسی صورت کو نماز میں بطور رکن کے مقرر کیا گیا اور باقی قرات کے لئے اختیار دیا گیا کہ جہاں سے چاہو پڑھ لو اس کی وجہ یہ کہ سورہ فاتحہ پڑھنے میں آسان ‘مضمون میں جامع اور سارے قرآن کا خلاصہ اور ثواب میں سارے قرآن کے ختم کے برابر ہے۔ اتنے اوصاف والی قرآن کی کوئی دوسری سورت نہیں ہے۔ اس سورت کے ناموں میں سے سورہ الحمد اور سورۃ الحمدللہ رب العالمین بھی ہے۔

 ( بخاری و دار قطنی ) اس لئے کہ اس میں اصولی طور پر خدائے تعالی کی تمام محامد مہمہ مذکور ہیں اور اس کو الشفاء و الرقیہ بھی کہا گیا ہے۔ سنن دارمی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورہ فاتحہ ہر بیماری کے لئے شفاءہے ( دارمی ‘ رضی اللہ عنہ 430 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک موقع پر ایک صحابی نے ایک سانپ ڈسے شخص پر اس سورہ سے دم جھاڑا کیا تھا تو اسے شفا ہوگئی تھی ( بخاری ) ان ناموں کے علاوہ اور بھی اس سورۃ شریفہ کے کئی ایک نام ہیں مثلاالکنز ( خزانہ ) الاساس بنیادی سورہ الکافیہ ( کافی وافی ) الشافیہ ( ہر بیماری کے لئے شفاء ) الوافیہ ( کافی وافی ) الشکر ( شکر ) الدعاء ( دعا ) تعلیم المسئلہ اللہ سے سوال کرنے کے آداب سکھانے والی سورت ) المنا جاۃ ( اللہ سے دعا ) التفویض ( جس میںبندہ اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دے ) اور بھی اس کے کئی ایک نام مذکور ہیں یہ وہ سورہ شریفہ ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اعطیت فاتحۃالکتاب من تحت العرش ( الحصن ) یعنی یہ وہ سورت ہے جسے میں عرش کے نیچے کے خزانوں میں سے دیا گیا ہوں جس کی مثال کوئی سورت نہ توریت میں نازل ہوئی نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ قرآن میں یہی سبع مثانی ہے اور قرآن عظیم جو مجھے عطاہوئی 

ہفتہ، 23 ستمبر، 2023

تاندہ ڈیم کا دلخراش حادثہ

  ا للہ تعالیٰ نے پاکستان کے گوشے گوشے کو اپنی قدرت کے بیش بہا خزانے عطا کئے ہیں لیکن یہ عوام کی بد قسمتی ہے کہ ان کو حکومت کی جانب سے کوئ بھی ریلیف نہیں ملتا نتیجہ میں وہ اپنے محدود وسائل کو استعمال کرتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔جس کی ایک اندوہناک  مثال  جنوری کے مہینہ کی آخری تاریخوں  میں ہونے والا تاندہ ڈیم کا دلخراش حادثہ ہے۔خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندہ ڈیم میں 29 جنوری کو کشتی حادثے کا شکار ہو  گئ   خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندہ ڈیم میں شکار ہونے والے  تمام بچو ں کی ۵۲میتوں  کو پانی سے نکال لیا گیا  جبکہ چھ افراد کو زندہ بچا لیا گیا تھا۔ دستیاب معلومات کے مطابق کشتی میں کل 58 افراد سوار تھے بعض حادثات انسان کی اپنی غفلت اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں مزید نقصانات سے بچنے اور ان کے سدبا  ب اور  حادثات کے اسباب و عوامل کا تعین کرناضروری ہوتا ہے ایسا نہ کرنا مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کے زمرے میں آتاہے ۔

ا یسی ہی غفلت کا مظاہرہ شہر کوہاٹ نے چندروز قبل29 جنوری کی صبح شہر کے جنوب مغرب میں واقع واحد تفریحی مقام تاندہ ڈیم کے مقام پر ایک دلخراش سانحے کی صورت میں دیکھاجوگنجائش سے زیادہ بچوں کو ایک کشتی میں بٹھانے بلکہ لادنے کی وجہ سے رونما ہو ا۔ اس روز ایک مقامی مدرسے کا مہتمم مدرسے کے امتحانات ختم ہونے پر بچوں کو سیر کی غرض سے ڈیم کی دوسری جانب واقع ایک چھوٹے سے جزیرے پر لے جا رہاتھا۔ سیاحت کو سہولیات کیوں نہیں دی تھیں -حادثے کے بعد دو دن تک نہ تو مدرسہ اور نہ ہی پولیس ناموں کی مکمل فہرست جاری کرسکی تھی۔ دوسری جانب عوام اس بات پر بھی برہم دکھائی دیے کہ آخر ضلعی انتظامیہ یا کسی محکمے نے تاندہ ڈیم میں کشتی کی سیاحت کو سہولیات کیوں نہیں دی تھیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس جھیل میں صرف دو کشتیاں ہی تھیں، جن میں ایک ماہی گیروں کی اور دوسری حادثے کا شکار ہونے والی حفیظ اللہ ملاح کی تھی، جو کا فی عرصے سے یہاں کشتی چلا کر گزر بسر کر رہے تھے۔

عمر رسیدہ حفیظ اللہ خود بھی  اس حادثے کا شکار ہوئے-حادثے کا شکار ہونے سے قبل کشتی کم وبیش سترہ بچوں کوپکنک کے سامان اور لوازمات سمیت مذکورہ جزیرے پر بحفاظت چھوڑ کر باقی بچوں کو لینے واپس آئی اور مہتمم مدرسہ کی نگرانی میں ایک ایسی کشتی جس میں سیفٹی معیار کے مطابق آ ٹھ سے دس بالغ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی اس میںساٹھ کے قریب بچوں کو بٹھا دیا گیا۔ابھی بمشکل آدھا ہی سفر طے ہوا تھا کہ بدقسمت بچوں سے لدی کشتی اچانک الٹ گئی اور ملاح سمیت کشتی میں سوار تمام بچے ڈیم کے منفی ڈگری سینٹی گریڈ پانی میں گر گئے۔خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے تاندا ڈیم میں ڈوبنے والے بچوں کی لاشیں نکالنے کا عمل منگل کو بھی جاری ہے اورڈی پی او کوہاٹ کے مطابق آج مزید 20 لاشیں نکالی گئی ہیں جس کے بعد اس حادثے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 50 ہو گئی ہے۔اتوار کو میر باش خیل اور سلیمان تالاب نامی دیہات کے بچے پکنک منانے تاندہ ڈیم گئے تھے جہاں وہ کشتی الٹ گئی جس پریہ بچے سوار تھے۔  کوہاٹ کے قریب میر باش خیل گاؤں کے قریب واقع تاندہ ڈیم مقامی لوگوں کے لیے ایک اہم پکنک پوائنٹ ہے۔ اس علاقے میں بیشتر افراد اچھے تیراک ہیں اور سماجی کارکن شاہ محمود بھی ان میں شامل ہیں۔جب انھیں تاندہ ڈیم میں مدرسے کے طلبا کی کشتی الٹنے کی اطلاع ملی تو وہ بھی موقع پر پہنچے اور پانی سے بچوں کو نکالنے کی کوششوں میں شامل ہو گئے۔وہ چھ، سات بچوں کو پانی سے نکال چکے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ ڈوبنے والوں میں ان کے اپنے  بچے بھی شامل ہیں۔الٹنے والی کشتی یں شاہ محمود کے دو بیٹے، چار بھتیجے، دو کزن اور ایک رشتہ دار سوار تھے لیکن انھیں اس کا علم نہیں تھا۔ وہ تو انسانی ہمدردی کے تحت بچوں کو ڈیم کے گہرے پانی سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ماہر تیراک جس کے اپنے بچے بھی پانی کی نذر ہو گئےشاہ محمود چھ سات بچوں کو پانی سے نکال چکے تھے تب انھیں معلوم ہوا کہ ڈوبنے والوں میں ان کے اپنے  بچے بھی شامل ہیں۔

شاہ محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ڈیم میں جب پہلی نظر پڑی تو بچوں کے سر نظر آ رہے تھے وہ پانی میں ہاتھ مار رہے تھے، بچے جیسے تڑپ رہے تھے۔ میں پانی میں کود گیا تھا اور کچھ دیر میں ہم نے مل کر چھ سات بچے نکال لیے تھے۔‘جب باہر آیا تو پولیس انسپکٹر نے بچوں کی فہرست دی، میں اس فہرست کو غور سے دیکھ رہا تھا کہ پانچ نمبر پر میرے بیٹے کا نام اور ولدیت میں میرا نام لکھا تھا، میرے پیروں تلے سے جیسے زمین ہی نکل گئی۔۔۔‘شاہ محمود بتاتے ہیں ’اس کے بعد دیکھا تو میرے دوسرے بیٹے کا نام  میری حالت غیر ہو رہی تھی۔۔۔ اتنے میں دیکھا کہ میرے چار بھتیجوں کے نام بھی لکھے تھے اور ولدیت میں میرے بھائیوں کے نام تھے، یہی نہیں اس کے بعد میرے دو کزن اور ایک سالے کا نام بھی اسی فہرست میں تھا۔تاندہ ڈیم میں کشتی الٹنے سے 11 امواتشاہ محمود نے بتایا کہ ان کے ایک بیٹے کی عمر تقریباً ساڑھے چار سال اور دوسرے کی عمر آٹھ سال کے لگ بھگ ہے جبکہ بھتیجوں کی عمریں بھی چار سے پانچ سال کے قریب ہیں۔شاہ محمود کہتے ہیں ’میں ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر نکالتا ہوں اور اب تو میرے اپنے بچے بھی اسی پانی کی نذر ہو گئے ہیں۔‘شاہ محمود تاندہ ڈیم پر موجود تھے جہاں اب ریسکیو کے ادارے کے اہلکار اور سیکیورٹی فورسز کے ماہرین ڈیم میں ڈوبے  بچوں کو تلاش کر رہے تھے۔ پہلے روز جب  یہ واقعہ پیش آیا تو مقامی افراد جن میں شاہ محمود، دو پولیس اہلکار اور ہوٹل پر کام کرنے والا ایک نوجوان اور چند دیگر افراد نے 17 افراد کو پانی سے نکال لیا تھا مگر ان میں دس بچے دم توڑ چکے تھے۔

شاہ محمود نے بتایا کہ انھوں نے جن بچوں کو نکالا انھیں فوری طور پر طبی امداد فراہم کی ’کچھ ایسے بچے بھی تھے جن کی سانس بمشکل چل رہی تھی، ان کی سانسیں مصنوعی سانس سے بحال کی گئیں اور فوری طور پر انھیں ہسپتال پہنچایا گیا۔‘دونوں بیٹوں کے زندہ ہونے کا اب کوئی چانس نہیں مگر ان کی ماں کے پاس تو بچوں کو لے جاؤں کہ اسے تسلی ہو‘تاندہ ڈیم پر سرچ آپریشن پر نظر رکھے کئی بچوں کے والد اور بھائی بے چین نظر ائے۔۔۔ اس حادثے کے بعد وہاں بڑی تعداد میں مقامی لوگ پہنچ گئے تھے ۔دولت خان کا کہنا تھا کہ ان کے دو بیٹے اس کشتی میں سوار تھے جن کا اب تک کچھ پتہ نہیں ہے۔دولت خان کہہ رہے تھے کہ ’دونوں بیٹوں کے زندہ ہونے کا اب کوئی چانس نہیں ہے لیکن ان کی ماں کے پاس تو بچوں کو لے جاؤں تاکہ اسے تسلی ہو کیونکہ وہ تو ایسی ہے کہ نہ زندہ ہے اور نا ہی مردہ ہے بس بچوں کو یاد کر رہی ہے۔‘دولت خان کے ساتھ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے سرکاری کالج کے پرنسپل پروفیسر مکمل خان نے بتایا کہ وہ اسی علاقے کے رہنے والے ہیں اور وہ چھ سال کے تھے جب سے وہ اس ڈیم میں تیراکی کرتے آئے ہیںانھوں نے بتایا کہ انھیں معلوم ہے کہ اس ڈیم کے نیچے کہاں ریت ہے، کہاں مٹی ہے اور کہاں جھاڑیاں ہیں اس لیے انھیں اجازت دی جائے تاکہ وہ بچوں کو نکال سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک جن 18 بچوں کو نکالا گیا ہے وہ سب مقامی لوگوں نے نکالا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس حادثے میں ڈوبنے والے دولت خان کے دو بچوں کے علاوہ ان کے بھتیجے اور بھانجے بھی شامل ہیں۔پروفیسر مکمل خان کا کہنا تھا کہ ’ان کے گھروں میں ماتم ہے، خواتین سخت صدمے سے دوچار ہیں۔ انھیں یہ امید ہے کہ بچے ڈیم سے زندہ نکل آئیں گے اور اسی امید پر وہ جی رہے ہیں۔‘سلمان تالاب گاؤں  کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھی ہے‘-کم از کم میں اس حادثہ کا تجزیہ کرتے ہوءے سوچ رہی ہوں کہ  جنوری کے مہینہ میں پانی کی پکنک ہونی ہی نہیں چاہئے تھی -والدین کو اس پکنک کی شدید مخالفت کرنی چاہئے تھی کہ موسم کے بہتر ہونے پر وہ اپنے بچوں کو پکنک پر بھیجیں گے-انتہائ ناقص کشتی پر گنجائش سے کہیں زیادہ  بچے کشتی میں بٹھائے گئے اور کسی کو لائف جیکٹ بھی نہیں پہنائ گئ -اللہ پاک ہمارے سماج کو بھی عقل سلیم عطا فرمائے آمین


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر