اتوار، 27 اگست، 2023

لاوڈ اسپیکر کی دہشت گردی


 سنا ہے جس بندے کی گستاخ تحریراور تصویر ملی ہے وہ بیچارہ ان پڑھ ہے جس کو پڑھنا نہیں آتا وہ لکھنا کیاجانے -اب یہ جنونی وحشی ہجوم کو کون سمجھائے-کیونکہ سمجھایا تو انسانوں کو جاتا ہے وحشیوں اور جنونیوں کو نہیں اور اب ہم ایک جنگلی اور وحشی ہجوم ہیں -ہم نے جڑنوالہ کی بے گناہ لوگوں کے گھر املاک اور زندگی بھر کی جمع پونجی خاکستر کر کے پکی اسلامی  قوم بن گئے ہیں -ہم سے ملک کے طول و عرض کا  پولیس جیسا محافظ ادارہ بھی اس قدر ڈرتا ہے کہ وہ جلائ جانے والی بستی کی حفاظت کے بجائے بستی والوں سے کہتا ہے کہ جانیں بچانا ہے تو آدھے گھنٹے میں بستی خالی کر دو اور پھر وحشی ہجوم خواتین کو دوپٹّے اور پاوں کی جوتی بھِی لینے کی مہلت نہیں دیتا ہے اوروحشی ہجوم  ہلّہ بول دیتا ہے اور خواتین جوتی اور دوپٹّے کے بغیر بچّے لے کر بستی سے بھاگتی ہیں -یہاں پولیس شاباش کی مستحق ہے جس نے جانیں بچانے کا اہتمام تو کیا -اب جنونی ہجوم ہے پٹرول کے ڈبّے ہیں اور اس بستی کو بھسم کرنا ہے جو صبح سے لے کر رات گئے تک رزق حلال کماتا ہے اور بال بچوّں کا پیٹ بھرتا ہے اب بستی بھسم ہو چکی ہے جنونی فاتح اسلامی ہجوم شہروں -شہروں بستیاں  بھسم کر کے فتح کا جشن منانے جا چکا ہے اور مجبور بے بس جلی ہوئے مکانوں کے مکین کھیتوں میں زمین پر زمینی حشرات کے ساتھ  بیٹھے اپنی بے بسی پر ماتم کناں ہیں ناجانے ان کو کھانا ملا کہ نہیں پینے کو پانی ملا کہ نہیں -پولیس نے جانیں بچانے کا فرض تو پورا ہی کر دیا تھا اب پولیس نے کسی اجڑے ہوئے کے کھانے پانی کا ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا ہے 

ابھی عوام بھولے تو نہیں ہوں گے -احمد پور شرقیہ کے نزدیک الٹنے والے آئل ٹینکرجو 40 ہزار لیٹر پیٹرول سے لدا ہوا احمد پور شرقیہ ہی میں آئل ٹینکر الٹنے کے بعد دھماکے سے پھٹ گیا تھا، اس حادثے میں  معلوم ڈھائ سو افراد جھلس کر جاں بحق ہو گئے تھے۔ اورٹینکر ایسی جگہ الٹا جہا ں سڑک کے ساتھ نشیبی زمین تھی   بس اسی نشیب میں تمام پٹرول جمع ہو گیا اور پھر علاقے کے ملّا جی نے مسجد سے پٹرون کا تالاب بھرے جانے کے علاقے کے لوگوں کو اطّلاع دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اپنے اپنے برتن لے آو اور پٹرول لے جاو بس پھر عورتیں بچّے بڑے جس سے جو ہوسکا وہ پٹرول کے تالاب کی جانب دوڑ پڑےبعض خواتین گود کے بچّے اور برتن سمیت پٹرول کی بہتی گنگا سے اپنا حصّہ وصول کرنے آئ تھیں جب مجمع لگ بھگ ڈھائ سو کے قریب پہنچ گیا تب وہا ں ایک انسان کے روپ میں موت کا فرشتہ آں پہنچا -سڑک کے کنارے آکر اس نے سگرٹ جلائ اور ماچس کی جلتی تیلی پٹرول کے تالاب میں بے نیازی سے پھینک دی- بس  سرخ آگ کا ایک بڑا شعلہ لپکا اور قیامت خیز چیخو ں کی آواز چند سیکنڈ میں فضاوں میں گم ہو گئیں شعلہ بجھ گیا پٹرول کے تالاب کے مقام پرڈھائ سو جلی ہوئ مسخ شدہ چھوٹی بڑی لاشیں تھیں اوراعلان کرنے والا ملّا ناجانے کہاں جا چکا تھا-

اب لاوڈ اسپیکر کی ایک اور دہشت گردی  ایک شہر میں شیعہ خاتون کا انتقال ہو گیا جنازہ ہوا اور قبرستان کی منزل پر پہنچا دیا گیا -قبرستان سے واپسی پرمسجد سے ملّا جی اعلان کیا جس 'جس نے شیعہ عورت کا جنازہ پڑھا ہے اس کا نکاح ختم ہو چکا ہے -اور پھر بستی کے پچاس لوگوں نے شام تک دوبارہ نکاح پڑھوائے -مسجد سے اعلان کرنے والے ملّا کوپکڑ کر قرار واقعئ سزا دی جاتی تو آگے کا راستہ بند ہوسکتا تھا 

لاوڈ اسپیکر کی  دہشت گردی

ایک بات اور بتاتی چلوں جب جڑانوالہ میں گھر جل رہے تھے، پاکستان کی آزادی والی ٹی شرٹ پہنے بچہ ماں کو تسلی دے رہا تھا، جب ہم پھاڑ کے رکھ دیں گے کہ ترانے چلا رہے تھے تو کسی سیانے نے کہا چلو تحریک لبیک نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا۔میں بھی لاوڈ اسپیکر کی دہشت گردی کی بات کرتے ہوئے کہا ں نکل گئ -ایک مسیحی کا کہنا ہے ہر چیز بلکل ٹھیک جا رہی تھی کہ علی الصبح فجر کے وقت مسجد سے اعلان ہوا کہ قران کے اوراق جلائے گئے ہیں -اور پھر عوام کی غیرت کو للکارا بس پھر کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ 'فجر کی نماز کے بعد اس واقعے کی اطلاع ملنے پر مشتعل افراد کی بڑی تعداد علاقے میں جمع ہو گئی اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔‘عینی شاہد کے مطابق مظاہرین نے نہ صرف اس بستی میں موجود گرجا گھروں کو نذر آتش کیا بلکہ کالونی کے ان گنت  مکانات اور ان کے اندر موجود اثاہ کو بھی جلا ڈالا جو بچ گیا وہ دھاوے والے لوٹ کر لے گئے۔انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے کرسچین کالونی کے مکینوں کو یہ علاقہ خالی کرنے کو بھی کہا۔ صحافی کے مطابق بھاری نفری تعینات ہونے کے باجود پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔ 

ایک عینی شاہد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہر کے متاثرہ علاقوں میں کرسچین کالونی، ناصر کالونی، عیسیٰ نگری، مہاراوالا، چک نمبر 120 گ ب شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کے شہر کے وسط میں قائم کرسچین کالونی کی آبادی گھروں کو چھوڑ کر جا چکی ہے۔جڑانوالہ کے گرجا گھروں کے انچارج فادر خالد مختار نے بی بی سی کے عماد خالق سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مجموعی طور پر شہر میں چھ گرجا گھر جلائے گئے جبکہ ان کی اپنی رہائش گاہ ’پیرش پاسٹر ہاؤس‘ کو بھی نذر آتش کر دیا گیا ہے۔فادر خالد مختار کے مطابق ’کرسچین کالونی میں سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ کرسچین کالونی کا گرجا گھر نذر آتش کرنے کے بعد ایک گروہ نے ناصر کالونی میں واقع ان کی رہائش گاہ پیرش ہاؤس کا رخ کیا اور دو گھنٹے سے زیادہ وہ اس کے باہر جمع ہو کر احتجاج کرتے رہے۔ فادر خالد مختارنے بتایا  کہ وہ خود بھی مشتعل ہجوم کے نرغے میں آ گئے تھے اور تقریباً دو گھنٹے سے زائد وقت تک اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ناصر کالونی میں واقع گھر میں محصور رہنے کے بعد جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔فادر خالد مختار کے مطابق اس دوران انھوں نے متعدد مرتبہ پولیس کی ہیلپ لائن پر مدد کے لیے کال کی لیکن پولیس ان کی مدد کو نہیں آئی۔وہ بے چارے جانتے نہیں ہوں گے کہ پولیس کا تعلّق بھی شائد اسی مذہبی جماعت ہو جن کے اوپر ریاست نے اقلّیتوں کے جان و مال کی لوٹ مار حلال کر دی ہےشنیدنی ہے بستی کے ایک شخص پرویز مسیح سے اے باہر بھضوانے کے لئے  ایک مسلمان آدمی نے چار لاکھ کی رقم لی تھی باہر وہ بھجوا نہیں سکا تو اب پرویز مسیح نے اپنی رقم کی واپسی کا تقاضہ کیا جس کے جواب میں مسلمان آدمی نے اسے سبق سکھانے کے لئے یہ سارا ڈرامہ رچا کر پوری مسیحی قوم کو پیغام دیا ہے کہ آئندہ پاکستان میں جینا ہوتو غلام بن کر جینا ہے

منگل، 22 اگست، 2023

شہادتِ بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا



حبیبِ خدا، رحمت العالمین، خاتم المرسلین فخرِ انبیأ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے چھوٹے اور لاڈلے نواسے ، علی و فاطمہ (س) کے دل کا چین، نورِ عین شافیِ محشر حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ سکینہ میری نمازِ شب کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ۔حضرت سکینہ خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراؓ کی پوتی، حضرت امام حسینؓ کی لاڈلی بیٹی اور حضرت ام رباب سکینہ کی والدہ ماجد تھیں۔ حضرت سکینہ اپنی والدہ محترمہ حضرت سکینہ ام رباب کیطرح رضا، صبر کا پیکر تھیں، تاریخ گواہ ہے کہ معصوم سکینہ کا سارا بچپن اذیت اور پریشانی میں بسر ہوا، جس نے چھوٹی سی عمر میں کربلا کا خونچکاں سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور انتہائی صبر و استقلال کا ثبوت دیاحضرت سکینہ خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہرا کی پوتی، حضرت امام حسین علیہ السلام کی لاڈلی بیٹی اور حضرت ام رباب سلام اللہ علیہا سکینہ کی والدہ ماجد تھیں۔ حضرت سکینہ اپنی والدہ محترمہ حضرت سکینہ ام رباب کیطرح رضا، صبر کا پیکر تھیں، تاریخ گواہ ہے کہ معصوم سکینہ کا سارا بچپن اذیت اور پریشانی میں بسر ہوا، جس نے چھوٹی سی عمر میں کربلا کا خونچکاں سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور انتہائی صبر و استقلال کا ثبوت دیا۔

28 رجب 60ہجری کو امام عالی مقام نے اپنے گھر مدینہ سے سفر کیا تو ساڑھے چار سال کا سن سکینہ کا تھا۔ اور جس طرح ہر بہن بھائی کو بھائی سے محبت ہوتی ہے، اسی طرح، سکینہ کو بھی اپنے چھوٹے بھائی علی اصغر سے محبت کرتی تھی، گھر والے سکینہ کو اپنی گود میں اٹھائے رکھتے، سکینہ اپنے بھائی اصغر کو ہر وقت اپنی ننھی سی گود میں رکھتی تھیں -حشر خیز میدان کربلا کا ایک راوی یوں بیان کرتا ہے کہ سفر کربلا میں امام عالی مقامؓ نے ایک جگہ قیام کیا، خیموں کے عین درمیان امامؓ کا خیمہ لگایا گیا، اتنے میں خیمہ سے ایک کنیز نکلی، جس کی گود میں ایک چھوٹی بچی تھی، جس کے دونوں کانوں میں چمکتے ہوئے موتیوں کی بالیاں تھیں، امام حسینؓ بچی کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور معصوم بچی کو گود میں لے کر پیار کرنے لگے، یہ معصوم بچی امامؓ کے سینے سے چمٹ گئی، اس وقت حضرت امامؓ کی آنکوں سے آثار مسرت نمایاں تھے اور یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ کو اس بچی سے بے پناہ محبت ہے۔

راوی کہتا ہے کہ جب میں نے اس بچی کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا، کہ یہ بچی سکینہ بنت الحسینؓ حضرت سکینہ خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہرا کی پوتی، حضرت امام حسین علیہ السلام کی لاڈلی بیٹی اور حضرت ام رباب سلام اللہ علیہا سکینہ کی والدہ ماجد تھیں۔ حضرت سکینہ اپنی والدہ محترمہ حضرت سکینہ ام رباب کیطرح رضا، صبر کا پیکر تھیں، تاریخ گواہ ہے کہ معصوم سکینہ کا سارا بچپن اذیت اور پریشانی میں بسر ہوا، جس نے چھوٹی سی عمر میں کربلا کا خونچکاں سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور انتہائی صبر و استقلال کا ثبوت دیا۔
28 رجب 60ہجری کو امام عالی مقام نے اپنے گھر مدینہ سے سفر کیا تو ساڑھے چار سال کا سن سکینہ کا تھا۔ اور جس طرح ہر بہن بھائی کو بھائی سے محبت ہوتی ہے، اسی طرح، سکینہ کو بھی اپنے چھوٹے بھائی علی اصغر سے محبت کرتی تھی، گھر والے سکینہ کو اپنی گود میں اٹھائے رکھتے، سکینہ اپنے بھائی اصغر کو ہر وقت اپنی ننھی سی گود میں رکھتی تھیں -حشر خیز میدان کربلا کا ایک راوی یوں بیان کرتا ہے کہ سفر کربلا میں امام عالی مقامؓ نے ایک جگہ قیام کیا، خیموں کے عین درمیان امامؓ کا خیمہ لگایا گیا، اتنے میں خیمہ سے ایک کنیز نکلی، جس کی گود میں ایک چھوٹی بچی تھی، جس کے دونوں کانوں میں چمکتے ہوئے موتیوں کی بالیاں تھیں، امام حسینؓ بچی کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور معصوم بچی کو گود میں لے کر پیار کرنے لگے، یہ معصوم بچی امامؓ کے سینے سے چمٹ گئی، اس وقت حضرت امامؓ کی آنکوں سے آثار مسرت نمایاں تھے اور یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ کو اس بچی سے بے پناہ محبت ہے۔
راوی کہتا ہے کہ جب میں نے اس بچی کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا، کہ یہ بچی سکینہ بنت الحسینؓ ہے، لیکن اس کے تھوڑے ہی دن بعد جو عظیم انقلاب اس معصومہ کو دیکھنا پڑا، خداند کریم ایسا انقلاب کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔حضرت امام حسین 2 محرم 61 ہجری کو وارد سرزمین نینوا ہوگئے، اگلے روز یزیدی فوجوں کی آمد شروع ہوگئی، پانچ محرم سے فرات پر ظالموں کا قبضہ ہو گیا، ساتویں محرم کو خیام حسین میں قحط آب ہوگیا۔ نویں محرم کو مظلوم امامؓ نرغہ اعدا میں گھر گئے۔ روز عاشور یزید کے کم از کم تیس ہزار سپاہیوں اور حضرت امام حسین کے 72 اصحاب کے درمیان قیامت خیز جنگ ہوئی اور عصر کا ہنگام آتے آتے حضرت امام حسین مع اپنے جملہ اصحاب اور افراد خاندان کے کئی روز کے بھوکے پیاسے اللہ کی راہ میں قربان ہوگئے۔

جب حضرت امام عالی مقام شہید ہوگئے، تو یزید کی فوج نے آل محمد کے خیموں کو لوٹ کر ان کو آگ لگادی، راوی کہتا ہے کہ میں اس وقت دیکھ رہا تھا، جب خیمہ عصمت، طہارت کو آگ لگی۔ تو وہی معصوم سیکنہ خیمہ عصمت و طہارت سے باہر آئی جس کے دامن کو آگ لگی ہوئی، وہ بہت پریشان اور بے چین تھی واویلا کر رہی تھی۔مگر یتیم سکینہ کی فریاد کون سنتا، اس کے دامن کی آگ کون بجھاتا، حضرت امام حسین کی لاڈلی بیٹی، دہشت زدہ ہو کر ہائے بابا، پکارتی ہوئی مقتل میں جاپہنچی۔ شہدا کے سرتن سے جدا کر کے لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جا رہے تھے۔ شمر نے سکینہ کو انکے باباؓ کے سینے سے لپٹا دیکھ لیا اور بے دردی کے ساتھ سکینہ کو باپ کی نعش مبارک سے الگ کیا،
راوی کہتا ہے کہ شمر نے سکینہ کے کانوں سے چمکتے ہوئے موتیوں والی بالیاں اس بیدردی سے نوچیں کہ معصوم بچی کے نازک کانوں سے خون بہنے لگا۔ سکینہ شدت کرب سے چلائی اور اپنے شہید بابا کو پکارا، جس پر ظالموں نے طمانچے مارے آخر شدید درد کی تاب نہ لا کر زمین پر گرپڑیں معصوم بچی کو کوفہ و شام میں اسیروں کے ساتھ مصائب و آلام کا سامنا رہا، سکینہ کے گلے میں دوسرے اسیروں کی طرح رسی باندھی گئی، جس سے ان کا گلا گھٹنے لگا، اس قدر سخت گرہیں لگائی گئی تھی کہ جب اس معصوم کے گلے سے رسی کھولنے کا وقت آیا، تو گرہ کھل نہ سکی، آخری یہ رسی چھری سے کاٹنا پڑی۔
پھر ایام اسیری میں  وہ دن بھی آیا جب بی بی سکینہ اپنے بابا کو بہت یاد کررہی تھیں اور کسی کی گود میں بھی ان کو قرار نہیں آ رہا تھا  ۔۔۔۔۔ تمام بیبیاں بھی ان کی اس کیفیت کے سبب  رو رہی تھیں یزید کے محل میں جب اس نالہ و شیون کی آواز پہنچی تو اس نے اپنے غلام سے پوچھا  کہ کیا معاملہ ہے اس کو بتایا گیا کہ حسین علیہ السلام کی چھوٹی بچی اپنے بابا کو یاد کر کے رو رہی ہے ۔۔۔ یزید ملعون نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ اس کو کس طرح خاموش کیا جائے یزید کو بتایا گیا کہ اگر سرِ حسین علیہ السلام زندان میں بجھوادیں تو یہ بچی خاموش ہوجائے گی ، پھر ایسا ہی ہوا سرِ امام حسین زندان میں لایا گیا ۔۔۔ اک حشر برپا ہوا ، تمام بیبیاں احتراماً کھڑی ہوگئیں۔

سید سجاد ، عابدِ بیمار طوق و زنجیر سنبھالے بابا حسین  علیہ السلامکے سر کو لینے آگے بڑھے سکینہ کی گود میں جب بابا کا سر آیا بے چینی سے لرزتے ہونٹ امامِ عالی مقام کے رخسار پر رکھ دیے ، کبھی ماتھا چومتی کبھی لبوں کا بوسہ لیتیں روتی جاتیں اور شکوے کرتی جاتیں۔بابا ۔۔۔ بابا مجھے طمانچے مارے گئے ۔۔۔۔بابا میرے کانوں سےگوشوارے چھینے گئے ۔۔۔۔ میرے کان زخمی ہوگئے میرے دامن میں آگ لگی بابا نہ آپ آئے نہ عمو آئے نہ بھائی اکبر آئے ۔۔۔۔ بابا ہمیں بازاروں میں گھمایا گیا بابا اس قید خانے میں میرا دم گھٹتا ہے ۔۔۔۔ پیاسی سکینہ روتی رہی ہچکیوں کی آواز بتدریج ھم ہوتی گئی ۔۔۔ پھربالآخر خاموشی چھاگئی ۔۔۔۔۔۔ سید سجاد کھڑے ہو گئے پھوپی زینب کو سہارا دیا اور بلند آواز میں فرمایا: - انا للہِ وانا الیہِ راجعون سکینہ ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو گئی شام میں یزید کے محل کے ساتھ اس چھوٹے سے قید خانہ میں ہی اس معصوم بچی کو اسی خون آلود کرتے میں دفنا دیا گیا جو لوگ شام میں زیارات کے لیے جاتے ہیں اس بی بی کے مزار پر ضرور دیا جلاتے ہیں۔اے پروردگار اس معصوم سکینہ کی یتیمی کے صدقے کسی بچی کو اس کم سنی میں یتیم نہ کرنا ۔۔آمین۔۔
یارب کوئی معصومہ زنداں میں نہ تنہا ہو
پابند نہ ہوں انہیں رونے پہ نہ پہرا ہوہے،

جمعرات، 17 اگست، 2023

ضرورت ایجاد کی ماں ہے

 

ایک پراٹھے میں لپٹے ہوئے مزیدار چٹنی کے ساتھ بھنے ہوئے گوشت کے چھوٹے ٹکڑے جن کو پراٹھا رول کہا جاتا ہے، پاکستان میں عام شہریوں کے لیے ویسے ہی ہیں جیسے امریکی عوام کے لیے ہاٹ ڈاگ۔کی تیز رفتار  کراچی میں یہ خوراک کا اہم جزو سمجھے جاتے ہیں۔ مختلف نسلوں اور زبانوں کے متنوع شہر میں پراٹھا رول کو فخریہ انداز میں مقامی تخلیق قرار دیا جاتا ہے۔یہاں یہ سوال نہیں ہوتا کہ کیا کسی نے پراٹھا رول کھایا ہے یا نہیں بلکہ سوال کیا جاتا ہے کہ سب سے اچھا پراٹھا رول کون بناتا ہے۔اس کی ترکیب سادہ ہے۔ کباب کو پراٹھے میں لپیٹ دیں۔ لیکن معصومہ یوسفزئی، جو کراچی میں ہی پلی بڑھی ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ دو پکوانوں کی شادی جیسا ہے۔عام طور پر کباب اور پراٹھا الگ الگ کھایا جاتا ہے لیکن ان دونوں کو اکھٹا کرنے سے ان کا ذائقہ اور مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔معصومہ کہتی ہیں کہ ’اس ترکیب کی مدد سے اسے ہاتھ میں پکڑ کر ایک ساتھ کھایا جا سکتا ہے، اور چٹنی کے ساتھ تو ہر نوالہ ذائقے کا سر محسوس ہوتا ہے۔ یہ اس تجربے کو بہت بہتر بنا دیتا ہے اور زیادہ ذائقے دار بھی۔‘پراٹھا رول کی کہانی بھی اتنی ہی مزیدار ہے۔ 1970 کی دہائی میں حافظ حبیب الرحمان نے کراچی کی مشہور طارق روڈ پر ’سلور سپون سنیکس‘ نامی دکان میں کباب رول کی ایک نئی ترکیب تیار کی جو کافی لذیذ ثابت ہوا۔

اس زمانے میں سلور سپون نئی دکان تھی جہاں ایک پلیٹ میں کباب اور پراٹھا الگ الگ پیش کیا جاتا تھا۔ یہاں چاٹ اور آئس کریم بھی ملتی تھی۔ایک دن ایک گاہک کو جلدی تھی اور وہ بیٹھ کر کھانے کے بجائے اپنا کھانا ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ حبیب نے جلدی میں کباب کو پراٹھے میں لپیٹ کر اس کے گرد کاغذ چڑھایا اور گاہک کے ہاتھ میں تھما دیا۔قریب ہی موجود ایک اور گاہک نے جب یہ دیکھا تو اس نے بھی فرمائش کی۔ حبیب کو سمجھ آئی کہ یہ طریقہ تو اچھا ہے۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ان کو زیادہ برتن نہیں دھونے پڑتے تھے۔ گاہکوں کو بیٹھنے کے لیے جگہ بھی درکار نہیں ہوتی اور ان کو کھانا بھی جلد مل جاتا۔یہ ایک نئی چیز بھی تھی۔حبیب کہتے ہیں ’جب ہم نے پہلی بار کباب رول متعارف کروایا تو ویٹرز کو سمجھانا پڑتا کہ کاغذ اتار کر اسے روٹی کی طرح نہیں کھانا۔‘حافظ حبیب الرحمان 1970 سے پراٹھا رول بنا رہے     ہیں -شروع شروع میں حبیب نے مفت پراٹھا رول بانٹا۔ وہ زیادہ بکنے والے کھانوں جیسا کہ چاٹ کے ساتھ رکھ دیتے یا پھر لبرٹی چوک پر کھڑی گاڑیوں میں کسی اخبار والے کی طرح پراٹھا رول بانٹتے کہ یہ مشہور ہو جائے۔اور ایسا ہی ہوا۔س زمانے میں کراچی میں فاسٹ فوڈ کا چرچہ تھا اور برگر اور سینڈوچ کھانے والے حبیب کے پراٹھا رول کو ناک چڑھا کر دیکھتے تھے۔لیکن تقریبا نصف صدی بعد پراٹھا رول جنوبی ایشیا کی ایک معروف سٹریٹ فوڈ بن چکا ہے جو پاکستان کے علاوہ انڈیا، بنگلہ دیش میں بھی مشہور ہے اور خطے کی خوراک کا چہرہ بن چکا ہے۔

کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈاکٹر سحر ندیم حامد کے مطابق پراٹھا رول نے روایتی خوارک کو جدت کا روپ دیا۔وہ کہتی ہیں کہ ’1970 کی دہائی میں ہمارے پاس گھر کے باہر سستے کھانے کے زیادہ مواقع نہیں ہوتے تھے۔ زیادہ لوگ ایرانی کیفے جاتے تھے لیکن وہ کافی مہنگے ہوتے تھے۔ ٹھیلے سستے تھے لیکن وہاں یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ آپ باہر جا کر کھانا کھا رہے ہیں۔ سلور سپون نے مقامی ذائقہ لے کر اسے فاسٹ فوڈ کی طرح پیش کیا جو سستا بھی تھا۔‘تیزرفتاری سے پھیلتے ہوئے اس بڑے شہر میں ایسی خوراک کی ضرورت بھی تھی۔ سحر کہتی ہیں کہ ’اگر آپ کو شاپنگ کرتے ہوئے مال میں بھوک لگی ہے تو آپ رول کھا سکتے ہیں یا دفتر میں کام کرنے والوں کو کم وقت میں کھانا مل سکتا ہے۔ یہ خاندان کے لیے تفریح کا بندوبست بھی ہے اور گھر کے کھانے سے الگ بھی۔‘1970 کی دہائی میں اپنی قیمت اور آسانی کی وجہ سے پراٹھا رول کی مقبولیت رفتہ رفتہ آسمان کو چھونے لگی۔ انھیں چلتے پھرتے یا ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھی کھایا جا سکتا تھا اور وہ اتنے صاف ہوتے تھے کہ تیل اوپر لپٹے کاغذ کے ساتھ چپکا رہتا جبکہ ہاتھ صاف رہتے۔

واتین کے لیے بھی معاشرتی اعتبار سے یہ ایک موزوں پکوان تھا۔ وہ آرام سے پراٹھا رول لے کر کھا سکتی تھیں اور ان کو کسی جگہ بیٹھنا نہیں پڑتا تھا۔ سلور سپون میں بیٹھنے کی محدود جگہ کی وجہ سے زیادہ تر مرد گاہک ہی موجود ہوتے تھے۔جلد ہی سلور سپون نے ایک پوری انڈسٹری کو جنم دیا۔ ریڈ ایپل، ہاٹ اینڈ سپائسی، مرچیلی جیسے ناموں کے ساتھ پراٹھا رول بیچنے والی اور دکانیں بھی میدان میں آ گئیں۔

لیکن 1970 میں پراٹھا رول کا مزہ چکھنے والے افراد کو حبیب الرحمان کے توا پراٹھا کا وہ ابتدائی مزہ اور ذائقہ اب بھی یاد ہے۔حبیب بتاتے ہیں کہ جب بیرون ملک مقیم پاکستانی کراچی آتے تو وہ ایئر پورٹ سے سیدھا ان کی دکان پر پہنچتے چاہے وہ 20 یا 30 سال بعد بھی واپس آ رہے ہوتے۔ ان کے لیے پراٹھا رول گھر واپسی کا اظہار تھا۔2019 میں بین الاقوامی فوڈ چین کے ایف سی نے بھی ’زنگریتھا‘ نام کا پراٹھا رول متعارف کروایا جو زنگر برگر اور پراٹھے کے امتزاج تھا۔اشتہاری مہم میں ایسے نوجوان گاہکوں کے لیے اسے ایک حل کے طور پر پیش کیا گیا جو دیسی اور مغربی کھانوں کے بیچ پھنسے ہوئے تھے۔کے ایف سی نے کہا ’یہ کنفیوژن نہیں، فیوژن ہے۔‘پاکستان میں کافی لوگوں نے اسے کھایا لیکن ان کو زیادہ پسند نہیں آیا۔ ان کے نزدیک پراٹھا رول دو مقامی پکوانوں کا امتزاج تھا نا کہ مقامی اور مغربی ذائقے کا۔زلیخا احمد کراچی فوڈ ایڈونچر نامی فوڈ بلاگ چلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کے ایف سی کے پراٹھے میں بہت زیادہ میاونیز اور میٹھی چٹنی تھی۔ ہمارے خیال میں کے ایف سی کو اپنے فرائیڈ چکن تک محدود رہنا چاہیے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’مقامی پراٹھا رول کا مخصوص ذائقہ چٹنی اور پیاز سے آتا ہے، جبکہ چکن کے گوشت کو کوئلوں کی آگ سے تیار کیا جاتا ہے جس کا ایک مخصوص ذائقہ ہوتا ہے۔ زنگریتھا کا صاف ستھرا فیوژن گلی میں تیار ہونے والے پراٹھے کے ذائقے کے قریب بھی نہیں تھا۔‘

ضیا تبارک سٹریٹ فوڈ پی کے نام ی کے نام سے یو ٹیوب چینل چلاتے ہیں۔ وہ بھی اس نکتے سے متفق ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’زنگریتھا کا نام ہی غیر مقامی نہیں لگتا بلکہ اس میں پاکستانی ذائقہ بھی نہیں تھا جو پراٹھا رول میں ہوتا ہے۔‘زنگریتھا اب بھی کے ایف سی میں دستیاب ہے اور اس کے گاہک بھی ہیں۔ لیکن کراچی کی گلیوں میں بکنے والے پراٹھا رول سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ضیا کہتے ہیں کہ ’میرے نزدیک یہ پراٹھا رول کی بڑی کامیابی ہے کہ کے ایف سی جیسی فوڈ چین نے اس کی نقل کرنے کی کوشش کی لیکن اصل تو اصل ہی ہوتا ہے، اس کی مکمل نقل نہیں کی جا سکتی۔‘

امام حسین ع سے ہندو شعرا و مشاہیرکی عقیدت

 

 

جھانسی کی رانی لکشمی بائی کو امام حسین سے غیر معمولی عقیدت تھی۔ پروفیسر رفیعہ شبنم نے اپنی کتابہندوستان میں شیعیت اور عزاداری میں جھانسی کی رانی کے تعلق سے لکھا ہے کہ وہ یوم عاشورہ بڑے خلوص وعقیدت کے ساتھ مجلس عزا برپا کرتی تھی۔ مہارانی لکشمی بائی کی قائم کردہ مجلس اب تک جھانسی پولیس کوتوالی میں منعقد کی جاتی ہے جہاں پہلے اس رانی کا قلعہ تھا جس نے امام حسین علیہ السلام سے حق پر ڈٹے رہنے کا سبق حاصل کیا تھا ۔ منشی جوالہ پرشاد اختر لکھتے ہیں کہصوبہ اودھ میں امام حسین کی فوج کے سپہ سالار اور علمبردار عباس کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھا جس کے اٹھانے کا سہرا مغلیہ فوج کے ایک راجپوت سردار دھرم سنگھ کے سر ہے۔ اودھ سلطنت میں لکھنؤ کی عزاداری کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ محرم کی مجلسوں اور جلوسوں میں ہندوں کی شرکت و عقیدت ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا ایک ایسا نمونہ ہے جس نے قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

لکھنؤ کے ہندوؤں کی امام حسین سے عقیدت

مسز میر حسن علی نے لکھنؤ کی عزاداری کے سلسلہ میں اہل ہنود کی امام حسین سے غیر معمولی عقیدت و احترام کا ذکر اپنی ایک تحریر میں کرتی ہوئی لکھتی ہیں کہ لکھنؤ کا مشہور روضہ کاظمین ایک ایسے ہی ہندو عقیدت مند جگن ناتھ اگروال نے تعمیر کرایا تھا۔ اسی طرح راجا جھالال کا عزاخانہ جو آج بھی لکھنؤ کے ٹھاکر گنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجا جھالال نے تعمیر کرایا تھا۔ راجا بلاس رائے اور راجا ٹکیل رائے نے بھی عزاخانے تعمیر کرائے اور ان میں علم اور تعزیے رکھے۔ گوالیار کے ہندومہاراجاں کی امام حسین سے عقیدت خصوصی طور پر قابل ذکر ہے جو ہر سال ایام عزا کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے کرتے تھے۔مدھیہ پردیش کے علاقہ گونڈوانہ کے ضلع بیتول میں بلگرام خصوصًا بھاریہ نامی قصبہ میں ہریجن اور دیگر ہندو حضرات امام حسین سے بے پناہ عقیدت و محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے اہم اور ضروری کاموں میں کامیابی کے لیے حسین بابا کا تعزیہ اٹھانے کی منت مانتے ہیں۔

عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر نے ہندوں کی عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشان دہی کرتے ہوئے لکھاہے۔ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہے حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا تھا۔ راہیب کو سلطان کا خطاب بخشا گیا تھا اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت بھی کہا جاتا ہے وہ امام حسین کے تقدس و احترام کے بڑے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہمیراتعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سو گ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نہیں کھایا جاتا ہے۔ سری نگر کے امام باڑے میں حضرت امام حسین کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا ہے۔ ایک حسینی برہمن اسے سو سال قبل کابل کے امام باڑے سے لایا تھا۔

کشمیر سے کنیا کماری تک پھیلے ہوئے ہندوستان میں ماہ محرم آتے ہی یہاں کے مختلف شہروں، قصبوں، پہاڑی بستیوں اور دیہاتوں میں عزاداری سیدالشہدا کی مجالس اور جلوس عزا میں مشترکہ تہذیب کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں ہندو عقیدت مند مسلمان عقیدت مندوں کے ساتھ شریک عزا ہوتے ہیں۔ کہیں ہندو حضرات عزاداروں کے لیے پانی و شربت کی سبیلیں لگاتے ہیں تو کہیں عزاخانوں میں جا کر اپنی عقیدتوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں اور اپنی منتیں بڑھاتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ عقیدت مند ہندو خواتین اپنے بچوں کو علم اور تعزیوں کے نیچے سے نکال کر حسین بابا کی امان میں دیتی ہیں۔اجستھان اور آندھرا میں ہندوؤں کی عزاداریا مام حسینؑ کو غیر مسلم شعراء کا خراجِ عقیدت -آندھراپردیش کے لاجباڑی ذات سے تعلق رکھنے والے اپنے منفرد انداز میں تیلگو زبان میں دردناک لہجہ میں پر سوز المیہ کلام پڑھ کر کربلا کے شہیدوں کو اپنی عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح راجستھان کی بعض ہندو ذات کے لوگ کربل اکی جنگ کا منظرنانہ پیش کرتے ہیں اور ان کی عورتیں اپنے گاں کے باہر ایک جلوس کی شکل میں روتی ہوئی نکلتی ہیں۔ یہ عورتیں اپنی مقامی زبان میں یزیدی ظلم پر اسے کوستی ہیں اور اپنے رنج وغم کا اظہار اپنے بینوں کے ذریعے کرتی ہیں۔

 راجستھان میں ہندوں کی عزاداری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہاراجے جو ہندو سوراج کے لقب سے جانے جاتے تھے شب عاشور سر و پا برہنہ نکلتے تھے اور تعزیہ پر نقدی چڑھایا کرتے تھے۔پریم چند کا مشہور ڈراما کربلا حق و باطل سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اسی طرح اردو ادب میں ایسے ہندو شاعروں کی تعداد کچھ کم نہیں جنہوں نے اپنی معرکہ آرا منظوم تخلیقات میں معرکہ کربلا سے انسانیت کے اعلیٰ کرداروں کی خوشہ چینی کی ہے۔ ایسے قابل ذکر شعرا بیجاپور کے راماروا، مکھی داس، منشی چھنولال دلگیر، راجا بلوان سنگھ، لالہ رام پرشادبشر، دیاکشن ریحان، راجا الفت رائے، کنوردھنپت رائے، کھنولال زار، دلورام کوثری، نانک لکھنوی، منی لال جوان، روپ کماری، یوگیندر پال صابر جوش ملیشانی منشی گوپی ناتھ امن، چکبست، باواکرشن مغموم، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، کرشن بہاری، ڈالٹر دھرمیندر ناتھ، ماتھر لکھنوی، مہیندر سنگھ اشک، بانگیش تیواری، گلزاردہلوی، بھون امروہوی وغیرہ کا کلام امام حسین سے ان کی غیر معمولی عقیدتوں کا مظہر ہے۔

۔ اسلام کی بقاء کا راز کربلا ہے۔ جس طرح نبی کی نبوت کسی ایک قوم یا قبیلے کے لئے نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح امام ؑ کی امامت بھی تمام عالمِ بشریت و جن و انس کے لئے ہوتی ہے۔ میرے پاس ہندو اور سکھ شاعروں کا نعتیہ کلام بھی موجود ہے اور ان کا رثائی کلام بھی۔  ۔ میں سوچتا ہوں کہ حسین ؑ تو مسلمانوں کے نبی (ص) کے لاڈلے نواسے تھے۔۔ پھر ڈاکٹر ستنام سنگھ خمار کو حسینؑ سے اتنا عشق کیوں؟ نکتہ یہی ہے جو ہندو شاعرہ روپ کماری نے کہا تھا۔ جوش ملیح آبادی کا مصرع بھی لمحہ بہ لمحہ اس حقیقت کا گواہ بنتا چلا جا رہا ہے کہ ‘‘ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ -امام حسینؑ کو غیر مسلم شعراء کا خراجِ عقیدت -امام حسین ؑ صرف مسلمانوں کے لئے ہی قابلِ تعظیم نہیں بلکہ دنیا کا ہر عدل پسند انسان امامِ عالی مقام کی قربانی اور ہدف کو تعظیم و تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بے شک مسلم مشاہیر، مفکرین، علماء اور شعراء واقعہ کرب و بلا کو اپنے اپنے انداز میں خراجِ تحسین پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔

جمعرات، 10 اگست، 2023

مرتبہ ء شہادت اللہ کی نظر میں

 

 

 شہید کربلاامام حسین علیہ السّلام کی شہادت-یہ کائنات عالم کی وہ شہادت عظمیٰ ہے جس پر زمین و ہفت آسمان روئے-سمندر کی آخری حدود تک کی مخلوقات خدا روئیں  شجر و ہجر روئے-ہوائیں روئیں -بحرو بر روئے -خشک و تر روئے-ماہِ محرم ہمیں نواسۂ رسول،شہیدِ کربلا حضرت امام حسین اوران کے عظیم جاں نثاروں کی یاد دلاتا ہے ،جنہوں نے کربلا میں ظلم اور باطل نظام کے خلاف کلمۂ حق بلند کرتے ہوئے راہِ حق میں اپنی جانیں قربان کیں۔شہدائے کربلا کے سالار حضرت امام حسین علیہ السّلام  کی ذاتِ گرامی جرأت وشجاعت اور حق وصداقت کا وہ بلند مینار ہے، جس سے دین کے متوالے ہمیشہ حق کی راہ پر حق و صداقت کا پرچم بلند کرتے رہیں گے-قران مجید والفرقان الحمید میں ارشادِباری تعالیٰ ہے:’’اورجولوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انہیں مُردہ مت کہو (وہ مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں،اللہ تعالیٰ کے راستے میں  جان جان آفریں دیننے والوں کو شہید کیونکہ  کہتے ہیں ؟ لیکن تمہیں(ان کی زندگی کا) شعور نہیں ہے‘‘۔(سورۃ البقرہ)شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے پاتے ہیں، جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے۔

 اللہ تعالیٰ کے راستے میں  جان جان آفریں دیننے والوں کو شہید  کہتے ہی-مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ۚوَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا ؕ(۶۹)ترجمہ کنز الایمان ::اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔  ؟شہادت کے فضائل سے قرآن وحدیث بھرے ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلمان کی حقیقی ودائمی کامیابی یہی ہے کہ وہ اﷲ کے دین کی سربلندی کی خاطر شہید کردیا جائے، لہٰذا ایک مومن کی تو دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کی راہ میں شہادت سے سرفراز ہو۔’ سورۃ النساء ‘‘ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شہدائے کرام کوان لوگوں کے ساتھ بیان کیا ہے، جن پراللہ تعالیٰ نے اپناخاص فضل وکرم اورانعام واکرام فرمایا اور انہیں صراطِ مستقیم اور سیدھے راستے کامعیاروکسوٹی قرار دیا ہے۔میدان کربلا میں امام حسین کی ثابت قدمی-بے شک سیّد الشہدا حضرت امام حسینؓ نے اپنے پیارے نانا ، خاتم النبیین، رحمت اللعالمین جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین ِ کے گلشن کو اپنے پاکیزہ نورانی لہو سے ایسا سیراب فرمایا کہ تاقیامت اس گلشن میں آنے والے طالبانِ عشق مولیٰ اس سے سیراب ہوتے رہیں گے۔

حضرت امام حسینؓ کی ذاتِ اقدس سے ہی طالبانِ مولیٰ کو ایفائے عہد، راہِ حق میں جرأت و بہادری ،رضائے الٰہی کے حصول میں حقیقی وفا و قربانی اور شدید سخت آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کا عظیم درس ملتاہے- دنیا کی بے شمار نعمتوں سے انسان لطف اندوز  ہوتا ہے، کسی نعمت کو کھاتا ہے، کسی کو پیتا ہے، کسی کو سونگھتا ہے، کسی کو دیکھتا ہے اور ان کے علاوہ مختلف طریقوں سے تمام نعمتوں کا استعمال کرتا ہے اور ان سے مسرور ومحفوظ ہوتا ہے، لیکن مردِ مؤمن کو شہادت سے جو لذّت حاصل ہوتی ہے، اس کے مقابل دنیا کی ساری لذّتیں ہیچ ہیں، یہاں تک کہ شہید جنت کی تمام نعمتوں سے فائدہ اٹھائے گا اور ان سے لُطف اندوز ہو گا، مگر جب اس کو اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سر کٹانے کا مزہ یاد آئے گا تو وہ جنت کی ساری نعمتیں اور ان کا مزہ بھول جائے گا اور تمنا کرے گا کہ اے کاش !میں دنیا میں واپس کیا جاؤں اور بار بار شہید کیا جاؤں۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اِنَّ لشَھِیْدٍ عِندَ اللہِ سَبْعَ خِصَالٍ ، اَنْ یُغْفَرَ لَہُ فِی اَوَّلِ دَفْعَةٍ مِن دَمْعِہ وَيَری مَقْعَدَہ فِی الجَنَّةِ وَ یُحَلّی حُلَّةَ الِایْمَانِ وَ یُزوَّجَ مِنَ الحُورِ العِیْنِ وَ یُجَارُ مِن عَذَابِ القَبْرِ وَیَامَنَ مِنْ یَوْمِ الفَزَعِ الْاَکْبَرِ وَیُوْضَعَ عَلی رَاسِہ تَاجُ الوَقَارِ الْیَا قُوْتَةُ مِنْہ خَیْرٌ مِنَ الدُنْیَا وَمَا فِیْھَا وَ یُزَوَّجَ اِثْنَتَیْنِ وَ سَبْعِینَ زَوْجَةً مِنَ الحُوْرِ العِینِ وَیُشَفَّعُ فِیْ سَبْعِینَ اِنْسَانًا مِنْ اَقَارِبِہ۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ کے یہاں شہید کے لئے 7 کرامتیں ہیں ۔ پہلی بار اسکے بدن سے خون نکلتے ہی اسکی بخشش فرمادی جاتی ہے جنت میں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے ایمان کے زیور سے آراستہ کردیا جاتا ہے حوروں سے اسکی شادی کردی جاتی ہے عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے قیامت کی ہولناکیوں سے مامون رکھا جاتا ہے اسکے سر پر یاقوت کا تاج عزت رکھا جاتا ہے جو دنیا و ما فیھا سے بہتر ہوتا ہے -اسکے اقربا سے ستر شخصوں کے حق میں اسے شفیع بنایا جائے گا۔جو لوگ لڑائی میں قتل کئے جاتے ہیں، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک وہ بندۂ مؤمن ہے، جو اپنی جان اور اپنے مال سے اللہ کی راہ میں لڑے اور دشمن سے خوب مقابلہ کرے، یہاں تک کہ قتل کردیا جائے گا۔ یہ وہ شہید ہے، جو صبر اور مشقت کے امتحان میں کامیاب ہوا۔ 

۔ حضرت علی علیہ السلام کی اتنی بڑی فضیلتیں ہونے کے باوجود ، سب سے پہلے پیغمبرِ اِسلام پر ایمان لانے والے،پیغمبر اسلام کی جگہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سونا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے بھائی ہیں ،اماموں کے والد اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ہمسر ہیں ، بت شکن تھے اور جنگ خندق کے روز آپ علیہ السلام کی ایک ضربت دونوں جہانوں کی عبادت سے افضل پھر بھی آپ علیہ السلام نے کبھی  «فُزت» نہیں فرمایا لیکن جب آپ علیہ السلام کے مبارک سر پر محراب عبادت میں ضربت لگی تو فرمایا :«فزت و ربّ الکعبة» رب کعبہ کی قسم آج علی کامیاب ہوا۔علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، علی کی نگاہ میں بستر پر آنے والی موت سے ،خدا کی راہ میں تلوار سے ہزار بار چھلنی ہو کر مرنے کی اہمیت زیادہ ہے۔۔ جنگ احد میں شہادت نصیب نہ ہونے پر علی علیہ السلام غمگین تھے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے آپ علیہ السلام کو شہادت کی خوشخبری سنائی

یہ شہید اللہ تعالی کے عرش کے نیچے خیمۂ خداوندی میں ہوگا۔اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی بقا کے لئے بے شمار شہداء نے شہادت کا جام نوش کیا، مگر ان تمام شہداء میں سیّد الشہداء حضرت امام حسین علیہ السّلام  کی شہادت بے مثل ہے کہ آپ جیسی مصیبتیں کسی دوسرے شہید نے نہیں اُٹھائیں، تین دن کے بھوکے پیاسے اس حال میں کہ آپ کے رفقاء عزیز و اقارب و اہل و عیال اور چھوٹے بچے پانی کے لئے تڑپ رہے تھے، جب کہ پانی موجود تھا، یہاں تک کہ دشمن کےجانور بھی اس سے سیراب ہو رہے تھے-

سیما اور سچن -محبّت کہانی

 

اگر دیکھا جائے تو آ ج کے دور میں الیکٹرانک میڈیا دنیا کے دور دراز شہروں -ملکوں میں رہنے والے افراد کے لئے ایسی طاقت ور سورس ہے،  جس کے ذریعے سے ملک کے لوگوں میں آگاہی اور شعور بیدار کیا جاسکتا ہے، اقدار، روایات اور تہذیب پروان چڑھائی جاسکتی ہے۔  وہ کسی طرح نوجوانوں کے لیے مناسب نہیں، رہن سہن، لباس، تہذیب، زبان سب ہی گراوٹ کا شکار ہے۔پھر پاکستانی اور   انڈین  ڈرامے ہیں جو آگاہی کے نام پر وہ کچھ دکھاتے ہیں جو معاشرے میں ایک فی صد کہیں ہورہا ہوتا ہے جرائم ہوں یا عشق و عاشقی کی تربیت ہمارے ڈرامے بخوبی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ بعض دفعہ تو مجرم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں آئیڈیا ڈراموں سے ملا تھا۔ ٹھیک ہے عقل مند کہتے ہیں کہ برائی کو جتنا عام دکھایا اور بتایا جائے گا وہ اتنی ہی پھیلے گی۔-اس کے علاوہ جوان بیویوں کو چھوڑ کر دیار غیر پیسہ کمانے چلے جانا بھی معاشرے میں فساد کا باعث ہوتا ہے-پھر انٹر نیٹ کے مختلف گیمز ہیں جن کے زریعہ دو اجنبی مردو زن قریب آتے ہیں اور پھر وہی ہوتا ہے جو سیما اور سچن کیس میں سامنے آیا ہے 

سیما حیدر کیس پر اہم پیشرفت سامنے آئی ہے ۔بھارتی پولیس نےسیما حیدر سے پانچ پاکستانی پاسپورٹ ، چار موبائل ، دو ویڈیو کیسٹس اور ایک ادھورے نام پر مشتمل غیر مستعمل پاسپورٹ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔دوسری جانب پولیس نے سیما حیدر کے حوالے سے ایک تفصیلی نوٹ جاری کیا ہے جس میں تفصیلی سے بتایا گیا ہے کہ سیما حیدر پاکستان سے ہندوستان کیسے پہنچی ہے ۔تفصیلات کےمطابق کھٹمنڈو کے ایک ہوٹل مالک گنیش نے دعوی کیا ہے کہ سیما حید ر اور سچن نے اس کے ہوٹل میں 8 دن قیام کیا۔رپورٹ کے مطابق گنیش  کا کہنا ہے کہ مارچ 2023 میں دونوں اس کے ہوٹل میں آئے تھے سیما اور سچن زیادہ تر ہوٹل کے کمرے میں ہی رہتے تھے اور صرف شام کو باہر نکلتے تھے اور ساڑھے 9 بجے تک واپس آجاتے تھے ۔ گنیش کے بیان کے مطابق ہوٹل کا کمرہ بک کرنے کے لئے سچن پہلے آیا تھا جبکہ سیما اس سے اگلے دن پہنچی تھی اسی طرح سیما نے ایک دن پہلے ہوٹل چھوڑا تھا اور اگلے دن سچن نے چیک آؤٹ کیا ۔ گنیش کا دعوی ہے کہ دونوں کے ہمراہ کوئی بچہ نہیں تھا کمرے میں بس دونوں تھے ۔ سچن نے اپنا نام شیوانش لکھایا تھا جبکہ کرائے کی ادائیگی بھارتی روپوں میں نقد کی گئی تھی۔

لکھنؤ ، 24جولائی:(اردودنیانیوز.کام/ایجنسیز) پاکستان سے فرار مبینہ طور پر مرتد ہوکر ہندو مذہب میں داخل ہونے والی خاتون سیما حیدر ہر طرح کے دعوے کر رہی ہیں لیکن جب سے یوپی اے ٹی ایس نے اپنی جانچ شروع کی ہے۔ اس معاملے میں آئے روز نئے انکشافات ہو نے لگے ۔ اب اسی تناظر میں اتر پردیش کے بلند شہر سے دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جن پر الزام ہے کہ اس نے اپنی طرف سے سیما اور سچن مینا کے لیے جعلی دستاویزات بنائے تھے۔گرفتار ملزمان کے نام پشپیندر مینا اور پون مینا ہیں۔ یہ دونوں بھائی ہیں اور ان میں ایک عوامی خدمت مرکز ہے جہاں وہ کام کرتے ہیں۔ اب الزام یہ ہے کہ سیما حیدر اور سچن ان بھائیوں کے پاس جعلی دستاویزات بنوانے آئے تھے۔کچھ پیسوں کے عوض دونوں نے جعلی دستاویزات بنا کر دے دیا۔ اب اے ٹی ایس نے ان دونوں کو گرفتار کر لیا ہے اور مزید پوچھ گچھ ہونے جا رہی ہے۔اب یہ پہلا انکشاف نہیں ہے جس کی وجہ سے سرحدی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔

 کچھ دن پہلے نیپال کے ایک ہوٹل کے مالک نے کہا تھا کہ سیما اور سچن وہاں ضرور ٹھہرے ہیں لیکن پھر سچن نے اپنا نام شیونش بتایا تھا۔ یعنی وہاں بکنگ بھی فرضی نام رکھ کر کی گئی۔ سیما حیدر نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس الزام کی تردید کی۔ ان کی طرف سے کہا گیا کہ ان کا نام چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔حال ہی میں سیما حیدر کی شادی کی تصویر بھی وائرل ہوئی تھی۔ وائرل تصویر میں سیما حیدر سچن کے ساتھ کھڑی ہیں، ان کے چار بچے بھی موجود ہیں۔ ایک اور تصویر بھی سامنے آئی ہے جس میں سیما سچن کے پاؤں چھو رہی ہیں۔یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیما نے خود دعویٰ کیا تھا کہ اس نے سچن مینا سے اس سال 13 مارچ کو نیپال کے پشوپتی مندر میں شادی کی تھی۔ اس وقت تک اس شادی کا کوئی ثبوت نہیں ملا؛ لیکن اب اچانک تین ایسی تصویریں منظر عام پر آگئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ شادی ہوئی ہے۔

ملک بھر میں میڈیا کے ذریعہ سنسنی بنائی گئی پاکستانی خاتون سیما حیدر کو لے کر جیوتش پیٹھ شنکراچاریہ اوی مکتیشورانند سرسوتی نے بڑا بیان دے ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سیما حیدر ملک کے لئے خطرہ ہے، اگر وہ زیادہ دیر تک ملک میں رہی تو ہندوستان کے ساتھ کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتاہے، اس لیے سیما حیدر نامی عورت کو جلد از جلد پاکستان بھیجو۔ انہوں نے یہ بات مدھیہ پردیش کے نرسنگھ پور ضلع میں واقع پرمہنسی گنگا آشرم جھوتیشور میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ سیما کو فوری طور پر ان کے ملک واپس بھیج دینا چاہئے-شنکر اچاریہ کے مطابق ایک وقت تھا جب سیاست مذہب کی سرپرستی میں ہوتی تھی، لیکن اب وہ سیاست نہیں رہی۔ اب سیاست ہو رہی ہے کہ عوام کو کیسے بے وقوف بنایا جائے؟وہیں گیان واپی کے معاملہ پر انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ چاہتے تھے کہ شیولنگ کی پوجا کی جائے، پوجا کے لئے 108 گھنٹے اپواس پر بیٹھے رہے۔ ہمارے دیوتا، پرکٹ ہونے کے بعد بھی پوجیہ نہیں ہیں، ایسے میں ہمارے ملک کے کروڑوں سناتنی لوگ افسردہ ہیں۔جیوتش پیٹھ شنکراچاریہ اوی مکتیشورانند سرسوتی نے مندروں میں ڈریس کوڈ کی بھی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ جب کمپنیوں اور اسکولوں میں ڈریس کوڈ ہے تو مندروں میں بھی ڈریس کوڈ ہونا چاہئے۔بھگوان کے سامنے کیسا لباس پہن کر جانا چاہئے، یہ ڈریس کوڈ ہونا ضروری ہے۔ ہمارا بھی تو ڈریس کوڈ ہے۔

پیر، 7 اگست، 2023

بھکشووں کا پیشوا 'گوتم بدھ

 

 

سن 563 ق م میں ہمالیہ کی ترا ئ میں کپل وستو کے راجہ شدھودا نا کے گھر میں ایک شہزادہ پیدا ہوا جس کا نام سدھارتھ رکھا گیا ۔ ننھے شہزادے کو شروع سے ہی تلوار بازی اور جنگی فنون سکھائے گئے ۔ اس کے علاوہ اپنے وقت کے دانا استادوں نے اسے مذہب و فلسفے کی خصوصی تعلیم دی ۔ سدھارتھ کا خاندانی نام گوتم تھا،  جو آگے چل کر گوتم بدھ(Gautama Buddha) بنا ۔ گوتم کی شادی   ہوئی ، جس سے اس کے ہاں ایک خوب صورت بیٹا پیدا ہوا۔ اس شہزا دے کو بچپن سے غو ر و فکر کی عا دت تھی- غور و فکر کی منزلوں سے گزرتے ہو ۓ ایک دن گوتم بدھ  دنیا سے تیاگ لےکرجنگل کی جا نب نکل گیا  -کئ برس کے بعد اپنی حالت پر غورکرکے گوتم بدھ اس نتیجے پر پہنچا کہ حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ طریقہ درست نہیں تھا۔ گوتم نے تیاگ ختم کیا اور پیپل کے درخت کے نیچے یو گا کا ایک آسن جما کر بیٹھ گیا اور تہیہ کرلیا کہ جب تک اسے نروان نہیں ملے گا، تب تک وہ اس درخت کے نیچے ہی بیٹھار ہے گا۔ آخر انسانی دکھوں ، عذابوں ، بیماریوں ، بڑھاپے اور موت کا سبب کیا ہے؟ یہ سوال مسلسل اس کے ذہن میں گردش کرتا رہا تو اچانک اسے اس سوال کا جواب مل گیا اوراسے نروان حاصل ہو گیا۔ 

گوتم کہتا ہے کہ "میں نے اپنا ذہن ایک نکتے پر مرکوز رکھا اور مجھے خالص گہری و مافوق الانسانی بصیرت حاصل ہوگئی ، جس سے میں نے خود کو مرتے اور پھر جنم  لیتے دیکھا اسکوگہرے غو ر و فکر کی عا دت تھی- ہرجنم میں دکھ، اذیتیں عذاب اور تکلیفیں وغیرہ پہلے جنم سے بھی زیادہ تھیں ۔ ایک جنم کے گناہوں کی سزا، انسان دوسرے جنم میں بھگت رہا تھا۔ بس میں بات سمجھ گیا اور مجھے میرے سوالات کا جواب یہ ملا کہ "انسانی دکھوں کی بڑی وجہ انسانی جنم ہے"۔  نروان حاصل کرنے کے بعد گوتم ، جو اب گوتم بدھ بن چکا تھا، وہ شاگردوں کو با قاعدہ تعلیم دینے لگا۔شہزادہ سدھارتھ نے تنہائی میں انسان کی موجودگی کے مسائل پر استغراق کیا، آخر ایک شام جب وہ ایک عظیم الجثہ انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا تو اسے اس معمے کے سبھی ٹکڑے  باہم یکجا ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ سدھارتھ نے اس کے بعد ساری رات غورو فکر میں بتائی ، صبح ہوئی تو اس پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ اس نے حل پالیا ہے اور وہ یہ کہ اب وہ بدھ بن گیا ہے۔ جس کے معنی ایک اہل بصیرت کے ہیں۔ شہزادہ سدھارتھ جب بدھ بنا تو اس کی عمر 35 برس تھی۔  زندگی کے اگلے 45 سال اس نے شمالی ہندوستان میں سفر کرتے ہوئے گزارے، وہ ان لوگوں کے سامنے اپنے خیالات کا پرچار کرتا جو اسے سننے آتے تھے، 483 قبل مسیح میں وہ  اپنی وفات کے سال تک ہزاروں پیروکار بنا چکا تھا۔

 اگرچہ اس کے افکار لکھے نہیں گئے تھے  لیکن اس کے ماننے والوں نے اس کی تعلیمات کو یاد رکھا  ۔  گوتم کی ساری تپسیا اور اس کے اخلاقی نظام کا حاصل  یہ ہے کہ نروان حاصل کیا جائے ، مگر یہ نروان ہے کیا ؟ اسے کوئی حتمی لفظی معنی دینا تو کچھ مشکل ہے مگر اس کا مفہوم واضح ہے ۔ سنسکرت میں نروان کا طالب ہے " بجھا نا اور ختم کرنا"  اور اس کا مفہوم بنتا ہے خواہشات کی آگ کو بجھا نا۔ اس کے دیگر معنی یہ ہیں ، آواگون یعنی دوبارہ پیدائش سے نجات ،انفرادی شعور کا خاتمہ ،مرنے کے بعد خوشی وسکون حاصل کرنا ، اگر ان تمام مفاہیم کو بدھ کے تناظر میں رکھ کر نروان کا کوئی ایک مفہوم واضح کیا جائے  تو وہ ہوگا "ہرقسم کی خواہشات کے خاتمے کے ذریعے  ،ازلی دکھوں سے نجات  اس وقت کے دستور کے مطابق گوتم بدھ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر درس دیتا تھا اور پھر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر جاری رکھتا تھا۔ اس کے پیروکاروں کی تعداد بڑھنے لگی ۔ آخر کار جب و وسفر کر تا تھا تو بارہ سو پیروکار یا بھکشو  بھی ہمراہ ہوتے ۔ مہاویر کی طرح گوتم نے بھی دیدوں کی الوہیت سے انکار کیا اور کہا کہ یہ برہمنوں کے تخلیق کردہ ہیں ۔

  وہ ہند و نظام میں مروج پر وہتی نظام کے سخت خلاف تھا، جس میں بابے، مہاراج، پروہت  اور دوسرے مذہبی پیشوا اپنے پیٹ بھرنے کے لیے سادہ و جاہل لوگوں کو بے وقوف بنا کر ، چالاکی سے ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔  گوتم بدھ کے خیالات تیزی سے پھیلنے لگے اور یہ ہر جگہ مقبول ہونے لگے جوں جوں اس کی عمر بڑھتی گئی اس کے اندرونی سکون میں اضافہ ہوتا چلا گیا  گوتم نے اپنی تعلیمات کو موثر بنانے کے لیے ان کو مختلف تشریحات یعنی خلاصوں میں تقسیم کیا۔ گوتم بدھ کے مطابق، دکھ کے محرک اور وجوہات ختم کر دیں تو دکھ ختم ہو جائیں گے۔ یعنی خواہش کا خاتمہ ہی دکھوں کا خاتمہ ہے ۔“  دکھوں کے خاتمے کا یہ عظیم راستہ آٹھ منازل پرمشتمل  ہے جو یہ ہیں : درست نظر ، درست اراده، درست گفتگو، درست رویہ، درست کمائی،  درست کوشش، درست سوچ اور درست مراقبہ ۔بدھ نے پانچ اخلاقی فرمان جاری کیے، جو کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہ    بدھ کے فلسفے کا مرکز انسان ہے ۔ انسان کے دکھ اور ان کا خاتمہ، بدھ کے نزدیک بہت اہم ہے۔ اس کا پیغام محبت کا پیغام ہے۔ اہنسا اور عدم تشدد کا پیغام ہے، مساوات کا پیغام ہے اور پورے عالم انسانیت کی بھلائی کے لیے سچائی ، دیانت داری اور راست گوئی کا پیغام ہے۔ یہ پیغام تیزی سے ہر طرف پھیلا۔ نیپال و ہندوستان سے ہوتا ہوا موجودہ پاکستان، افغانستان، وسطی ایشیا اور روس تک پہنچا۔ دوسری طرف مشرق بعید سے ہوتا ہوا، خصوصا جاپان و چین میں انتہائی مقبول ہوا۔ پورے ایشیا میں جگہ جگہ بدھ کے آثار موجود ہیں ۔

بدھ مت میں کئی فرقے پیدا ہوئے لیکن نروان ان کا مرکزی نکتہ ہے، جس پر سب متفق ہیں۔ ہندوستان کا عظیم فلسفی شہنشاہ "اشوکا"  بھی بدھ مت کا پیروکار ہو گیا تھا اور  اس نے بے شمار مقامات پر بدھ کے مجسمے نصب کروائے ۔ زمانے کی گرد ہر نظریے کو دھندلا دیتی ہے مگر آج بھی گوتم کے فلسفہ انسانیت ، محبت اورہمدردی کے  کروڑوں پرستار موجود ہیں ۔  سن 483 ق م میں چہرے پر بے پناہ سکون اور دھیمی مسکراہٹ سجائے تاج و تخت کو ٹھکرانے والا کپل وستو کا شہزادہ اپنے لاکھوں بھکشوؤں کو سوگوار چھوڑ کر 80 سال کی عمر میں اس دنیا کو خاموشی سے الوداع کہہ گیا۔           گوتم نے ساری زندگی ہرقسم کی قربانی وعبادت کی مخالفت کی مگر اس کےانتقال کے بعد اس کی ہی پوجا شروع ہوگئی۔ جگہ جگہ اس کے مجسمے نصب ہو گئے اور بھکشوا سے ایک عظیم نر وان یافتہ اور نجات یافتہ روح سمجھ کر پوجنے لگے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر