جمعہ، 17 مارچ، 2023

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا - میرا ڈ ھولک بجانے کا شوق

 میرے بچپن کا ایک انتہائ شوق تھا کہ میں کسی طرح ڈھولک بجانا سیکھ جاؤں اس زمانے میں جب کسی گھر میں شادی ہوتی تھی تو رات کے وقت ڈھو لک کی محفل ضرور سجتی تھی اور میرے پیروں میں پہئے لگ جاتے تھے کہ کس طرح میں اس گھر میں پہنچ جاؤں جہاں ڈھولک بج رہی ہے ،مقصد واحد ہوتا تھا کہ ڈھول بجانے ولی لڑکی کی انگلیاں کس طرح چل رہی ہیں خود دیکھوں اور سیکھوں مگر یہ شوق آ ج بھی ناتمام ہی ہےا-بّا جان تو رات کے وقت گھر سے قدم نکالنے کے ہی سخت مخالف تھے اور امّی جان ابّا جان کے تابع تھیں، میری عمر یہی کوئ سات یا آٹھ برس کے دور میں تھی ایسے میں ہمارے سامنے والے محلّے کے ایک گھر سے مجھے دن کے وقت ڈھولک بجنے کی آواز آئ اور میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ ابّا جان تو گھر پر نہیں ہیں مجھے اجازت دے دیجئے-بس امّی جان نے اجازت د ی اور میں نے جھٹ پٹ چھوٹے بھائ کوگود میں اٹھایا اور چند منٹ میں کلّو چھولے والے کے گھر پہنچ گئ 


،میں بھائ کے بغیر گھر سے قدم نکالنے کی بھی مجاز نہیں تھی کیونکہ وہ ڈھائ برس کی جان میری واپسی تک امّی جان کا جینا حرام کردیتا ،اس وقت کلٰو چھولے والے کا گھر مجھے دور سے ہی پرستان کے شہزادے کا گھر دکھا ئ دینے لگا گھر کے اندر باہر بلاروک ٹوک آنا جانا لگا ہوا تھا مین نے بھی اسی آپا دھاپی میں اندر پہنچ کر شادی کے گھر کے مناظر کے مشاہدے میں لگ گئ کچّے آنگن میں ایک طرف کوری ہانڈی میں پانی کے اندر ننھی ننھی مچھلیاں تیر رہی تھیں میں نے ہانڈی میں جھانکا اور پھر گود میں موجود بھائ کو مچھلیاں دکھائیں دوسری طرف بڑے سے تھال میں سل پر پیسی گئ کچّی مہندی بھیگی ہوئ تھی جس کی سوندھی خوشبو گلی کے اندر دور تک مہک رہی تھی اور ساتھ ہی مہکتے چنبیلی کے تیل میں ابٹن کی خوشبو بھی ملی جلی تھی-

گھر کے کچّے آنگن کی ملتانی مٹّی سے شائد رات کو ہی لپائ کی گئ تھی آنگن بلکل صاف ستھرا تھااور اب اس پرگھر کی عورتیں ایک رسم ہندووانہ ادا کرنے جا رہی تھیں یعنی لال رنگ کے بھیگے ہوئے گیرو اور صندل کے آمیزے میں سات سہاگنوں کے ہاتھ ڈبو کر ان کو آنگن کی دیوار پر چھاپنا تھا ،بڑی بوڑھی کا سختی سے حکم تھا کہ خبر دار ہاتھ الگ الگ تھال پر نا پڑے اور ٹیڑھا میڑھا بھی نا پڑے یہ سب بد شگونیاں سہاگ بھرے بھاگ کے گھر میں بد شگونیاں مانی جاتی ہیں،اس رسم کو پہلی دفعہ ہی دیکھنے کا میرا اتّفاق تھا گھر کی سب سے بڑی بوڑھی خاتون کو لا کر چار پائ پر بٹھا یا گیا اور گیرواور صندل کا سرخ آمیزے سے بھرا تھال ان کے آگے رکھ دیا گیا ساتھ ہی گڑ کا اور مرمروں کا بڑا سا تھا ل آیا اور پھرڈھولک کی تھاپ پر عورتوں نے کوئ اپنی دیہاتی زبان میں گیت گانا شروع کیا ساتھ ہی آوازیں بھی دی جانے لگیں اری او کہاں ہے آ ری آ ،آج ہمرے دوارے سہاگن آئ گیو رے ، عورتیں آتی گئیں ڈھول بجتی رہی اور صندل اور گیرو کے چھاپے دیوار کو سجاتے رہے-ارے کلّو چھولے والے کا تعارف تو رہ ہی گیا یہ ایک بمشکل بیس بائیس سال کا انتہائ درجے کا سانولا لیکن دلکش نقوش والا نوجوان تھا ،

جو ٹھیک دس بجے دوپہر سے پہلے اپنی ماں کے ہاتھ کے تیّار کئے ہوئے مزیدار چٹ پٹے چھولے کا ٹھیلا لے کر لب سڑک ہمارے گھر سے کچھ فاصلے کھڑا ہوجاتا تھا اور اس کے چھولے اتنے مذیدار ہوتے تھے کہ دوپہر کو یہ گھر واپس چلاجاتا تھا مجھے یا د ہے جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا تو بڑی حیرت سے دیکھتی رہی تھی سرسوں کے تیل میں چپڑا ہوا سرجس کے بال بلکل جٹ سیاہ اس پر سرسوں کے تیل کی اس کے ماتھے تک آئ ہوئ بہار، بڑی بڑی آنکھیں جن میں بہتا کاجل رچا ہوا ،لیکن وہ اپنے اطراف سے بیگانہ اپنے چھولوں کی دنیا میں مگن سر جھکا کے آتا اور سر جھکا کے واپس جا تا-جب اس کی شادی ہوئ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی ماں نانی اور خالائیں اس کی شادی پر اپنے اپنے ارمان پورے کر رہی تھیں-

خیر میری دلچسپی کا ساما ن اس گھر کی رسمیں تھیں میں جن کو دل و جان سے دیکھ بھی رہی تھی اور نگاہوں کے راستے حفظ بھی کر رہی تھی-اب صاف ستھری دیوار پر سات سہاگنو ں کے چودہ ہاتھوں کے لال لال نقش لہلہا رہے تھے میں نے ان نقوش کو بار بار دیکھا ،کوئ خاص بات تو نظر نہیں آئ لیکن اب میں سوچتی ہوں شادی کے گھر میں ان معصوم لوگوں کے کتنے ہزار ارمان تو ہاتھوں کے ان نقوش میں ہی نہاں ہوتے ہوں گے-ہاتھوں کے چھاپے پورے ہو گئے اور تمام مہمانوں میں گڑ اور مرمرے تقسیم کئے گئے ،مین نے بھی وہ گڑ اور مرمرے کھائے اپنے بھائ کو بھی کھلائے سنہرا گڑ اور سفید مرمرے وہ مٹھا س آج بھی میرے منہ میں  سفید مرمروں کے ساتھ سنہرے گڑ کی مٹھا س آج بھی منہ میں محسوس ہورہی ہے-اگلا دن اس کوہ قاف کے شہزادے  کی کا تھا اور میری خوشی کا ٹھکانہ کیاتھا میں بتانے سے قاصر ہوں ایسا لگ رہا تھا کلّو چھو لے والا دنیا میں میرا سب سے بڑا عزیز تھا جس کی شادی میں شرکت مجھے بہر طور کرنی تھی -ویسے بھی سارے مہاجر اس دور میں جی رہے تھے جب سب کی خوشی غمی اپنی خوشی غمی سمجھی جاتی تھی اب میرا بھائ میری گود میں کچھ بے چینی محسوس کر رہا تھا اس لئے میں گھر واپس آگئ-اب اگلا دن اس حسین شہزادے کی بارات میں ۔ میں بلکل بن بلائ مہمان بن کر محلّے کے تمام بچّوں کے کی ریل پیل میں جا نے کو بے چین تھی کہ ابّا جان بے وقت گھر آگئے ،ابّا جان کو دیکھ کر میرے اوپربلاشبہ عالم نزع طاری ہوگیا کچھ دیر کے لئے گلے کے اندر گھگّھی سی بندھ گئ ،

میں نے گھڑونچی پر رکھّی صراحی سے پانی گلاس میں لے کرپیا میری چھوٹی بہن شائد میری بے چینی کو بھانپ گئ تھی اس نے مجھ سے پوچھا بجّو کیا ہوا میں نے کہا کچھ نہیں مجھے کلّو چھولے والے کی شادی میں جانا تھا اور ابّا جان گھر آ گئے ہیں چھوٹی بہن نے انداز بے نیازی سے کہا تو چلی جائے ،نہیں اب میں نہیں جا سکتی ہوں کیونکہ ابّا جان نے کہا ہے کہ یہ واہی تواہی پھرے گی تو اس کی ہڈّیا ں توڑ دوں گا،، آج میں سوچتی ہوں کہ میری سرگرمیاں یقیناً میرے پیارے ابّا جان کواتنی گراں گزرتی ہوں گی جو انہوں نے مجھے یہ دھمکی دی تھی ،جبکہ میرے والد زبان کے معاملے میں انتہائ نفیس انسان تھے-کچھ ہی دیر میں مجھے امّی جان جب اکیلی نظر آئیں میں نے ان سے خوشامد کرتے کہا امّی جان بس آج کا دن اور اج تو کلّو چھولے والے کی بارات ہے مجھے جانے دیجئے ،امّی جان نے مجھ سے کہا تم قلم اور کاپی ساتھ میں لے لو تمھارے ابّا پوچھیں گے تو میں کہ دوں گی کہ صالحہ کے پاس پڑھنے گئ ہے ،میں نے اپنی امّی جان کو لپٹ کر پیار کیا اور کاپی قلم لے کر اپنی دوست کے گھر رکھوایا۔میری اس دوست کا گھر ہمارے پڑوس میں ہی تھا اور پھر میں دوست کو بھی ساتھ لے کر بارات کا منظر دیکھنے پہنچ گئ بیچارے دولہا کا چھوٹا سا تو مکان تھا اس وقت اس میں چھوٹے بڑے بلائے گئے اور میری طرح بن بلائے سب کی دھکّم پیل مچی ہوئ تھی کلّو چھولے والے نے سرخ ڈھڈھاتے رنگ کا ٹول کا کرتا اور سفید شلوار زیب تن کی ہوئ تھی اور اس دونو ن ہاتھ سرخ رنگ کی مہندی سے رچے ہوئے تھے اور سہرا بندھا ئ کی رسم کے گانے ہو رہے تھے ڈھول کی ڈھما ڈھم میں کان پڑی آواز سنائ نہیں دے رہی تھی سہرا بندھائ کے فورا بعد بارات روانہ ہو گئ

دولہا سہرا باندھے اپنے عزیزوں کے ساتھ پیدل آگے آگے اور باقی باراتی اس کے پیچھے پیچھے شائد میں نے کسی سے پوچھاتھا کہ سب پیدل کیوں جارہے ہیں تو جواب ملا تھا دلہن ورلی گلی میں تو رہتی ہے ،ورلی گلی میں؟ میں نے حیران ہو کر کہا ، لیکن میں تو اس گلی کی سب لڑکیوں کو جانتی ہوں۔تب معلوم ہوا کہ کلّو چھولے والے کی ننھیالی رشتے دار انڈیا سے آئے ہوئے ہیں ان کی بیٹی سے شادی ہو رہی ہے

بہر حال بارات جا چکی تھی اس لئے میں اپنی دوست کے ساتھ اس کے گھرآ گئ اصولاً مجھے اپنے گھر آنا چاہئے تھا لیکن دوست نے کہا کہ اس نے کاغذ کو رنگ کر پھول بنائے ہیں بس اسی بہانے میں اس کے ساتھ آئ دوسری باتی یہ تھی میرا قلم اورکاپی بھی تو اسی کے گھر پر ہی رکھّا ہوا تھا ،یہ بھی بتا دوں کہ میری اس دوست کا دروازہ ہمارے گھر سے تیسرا دروازہ تھا اور مجھے گلی کے بس چند ہی گھروں میں آنے جانے کی اجازت تھی ،خیر ابھی تو ہم دونوں سہیلیا ں باتیں ہی کر رہے تھے کہ پھر ڈھول ڈھمکّا اور شہنائ کی آوازیں ہمارے کانوں میں گونجنے لگیں اور ہم دونو ں ہی اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر بھاگے مشکل سے پون گھنٹے میں دلہن بیاہ کر لائ جارہی تھی مگر گھوڑے جتے ہوئے ٹانگے میں آگے بھی بینڈ باجا تھا اور پیچھے باراتی پیدل پیدل،ہجوم اتنا تھا کہ ہم دونوں دولہا کے گھر کی دیوار سے چپک کر کھڑے ہوگئے ،ٹانگہ رکا اور ( جسے ہم مان گون اور نیگ کہتے ہیں ) یہ ان کی زبان میں بیل اور بدھائیا ں تھیں ناچنے والے ناچ رہے تھے ۔گانے والے گا رہے تھے اور اور بینڈ باجا سونے پر سہاگے کا کام کر رہا تھا بدھائیوں کی رسم دلہن کو ٹانگے سے اتارنے سے پہلے گھر کے دروازے پر ہوئ ،اور دولہا سے کہا گیا کہ وہ دلہن کو گود میں لے کر اتارے،دولہا کچھ کسمسایا کچھ شرمایا لیکن پھر کسی نے ڈانٹ کر کہا کہ دلہن کو جلدی اندر لاؤ رسمیں ریتیں کرنا ہے تب دولہا نے دلہن کو تانگے کی دہلیز پر کھڑا کیا اور پھر اپنے کندھے پر لا دا اور مجھے لگا کہ د لہن ایک منحنی سی سرخ گٹھری نما کوئ شئے ہے ،دولہا بہت تیزی سے گھرکے اندر داخل ہوا اور میں اپنی دوست کا ہاتھ پکڑ دولہا کے پیچھے ہی گھر کے اندر داخل ہو  گئ ۔

۔دلہن کو کمرے میں بچھے چپر کھٹ پر دولہا نے گود سے اتار دیا اور وہیں پہلے موجود ایک خاتون اپنے ہاتھ میں کھیر کا پیالہ لئے  خود بھی چپرکھٹ پر دلہن کے قریب بیٹھ گئیں اور دولہا کو بھی دلہن کے رو برو بٹھا یا گیا -اب دلہن کے مہندی لگے ہاتھ کو ایک عورت نے تھاما دوسری نے ہتھیلی پر پان کا پتّا رکھّا اور پان کے پتّے پرایک چمچی کھیر رکھ کردلہن کی ہتھیلی دولہا کے منہ کے قریب کر کے دولہا سے کہا کھیر کھاو اور دولہا نے جیسے ہی کھیر کھانے کی کوشش کی دلہن کی ہتھیلی کو پیچھے کر لیا گیا اور کمرہ قہقہوں سے جلترنگ بن گیا -کچھ دیر کی کھیر کی رسم کے بعد دلہن کی مانگ میں صندل  بھرنےکی رسم کی ادائگی ہو ئ اور پھر کمرے میں ایک گرجدار آواز گونجی -چلو بھئ کمرے سے سب نکل جاو دلہن کے دادا دعا کے لئے آ رہے ہیں اورمجھ سمیت سارے بچّے کمرے سے ہنکا دئے گئے-اور یوں میرے بچپن کی یہ شادی کی رسومات ساری عمر کے لئے نقش ہو گئیں 

پیر، 13 مارچ، 2023

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا..میری بسم ا للّٰہ کی تقریب

  

 ہجرت کا پُر مصائب سفر طے کرنے کے بعد ہمارے کچھ دنوں کے لئے اچھّے دن شروع ہوئے کیونکہ والد صاحب کو ائرفورس میں سروس مل گئ-اسوقت ہم سب ملیر کے علاقے کی ایک فوجی چھاؤنی میں مقیم تھے ہجرت کے بعدکی زندگی میں کچھ کچھ ٹہراؤ سا محسوس ہونے لگا تھا مگر پھرہمارے گھر میں کچھ ماورائےفطرت حالات پیش آ ئےاور پھرتقدیر کی گردش نے ہم کو بارہ سال  گردش میں رکھا،ان حالات کے گرداب میں ہمارا خاندان اس طرح آیا کہ والد صاحب اتنے شدید بیمار ہوئے کہ ان کی ائرفورس کی سروس بھی چھوٹ گئ اور ہم کو چھاؤنی کا مکان بھی بہت عجلت میں چھوڑنا پڑا اور والد صاحب ہم سب بچّوں اور والدہ کو لے کر اپنے ایک مخلص دوست جناب حفیظ اللہ صاحب کے گھر آ گئے آج اس گھر میں  جاوداں سیمنٹ کی ایجنسی اور گیٹ گرل کا کاروبار جما ہوا ہئے،بہر کیف کچھ عرصے کے بعد ہم سب وہاں سے اپنے والد کے بنائے ہوئے کچے پکے آشیانے میں آ گئے
میرابچپن
میرا بچپن عام بچّوں کا بچپن نہیں تھا یہ وہ زمانہ تھا جب مہاجروں کے گھروں میں پانی کے لئے علاقے میں پانی کے ٹینکر آیا کرتے تھے اور میں بہت چھوٹی سی عمر میں ٹینکرکی آواز محلّے میں آتے ہی اپنا کنستر لےکر پانی لینے والوں کی لائن میں کھڑی ہو جاتی تھی ،اور ہمارے محلّے کا کوئ خداترس انسان میرا کنستر بھر کر ہمارے دروازے تک یا گھر کے اندر تک رکھ جایا کرتا تھا اس کے علاوہ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ماشکی بھی صبح شام ایک ایک مشک پانی  معمو لی قیمت پر ڈال جاتا تھا پھر یوں ہوا کہ کچھ عرصے بعد پانی کے ٹینکر کا آنا موقو ف ہو گیا اورہماری گلی کے ختم پر  ایک عدد حوضی بنا کر اس میں سرکاری نل سے پانی کی ترسیل کا انتظام کیا گیا،میرے والد صاحب ،،اپنے والد صاحب کے تذکرے کے تصّور سے ہی   بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ہین کیونکہ مجھے اپنے والدکا بنک جانے سے پہلے نماز فجر کے وقت حوضی سے پانی بھرنا یاد آرہا ہے میں ابھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ ان کاموں میں والد کا ہاتھ بٹا سکتی لیکن زرا سا وقت گزرنے پر  گھر میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے میں نے یہ ڈیوٹی اپنے زمّے لے لی تھی۔اسوقت ایک خدا ترس انسان نے اپنے گھر کے سامنے ایک کنواں بنوا کر وقف عام کر دیا تھا چنانچہ میں نے زرا سا ہوش سنبھانے پر یہ اہم ڈیوٹی اپنے زمّہ لے لی تھی کہ والد صاحب کے لائے ہوئے پانی کے علاوہ جو بھی کمی ہوتی اسے خود سے پورا کر دیا کرتی تھی اس وقت ہمارے محلّے میں کوئ حوضی نہیں بنی تھی لیکن اپنے گھر سے بیس منٹ کے فاصلے سے  کنوئین سے پانی بھر کر لانے لگی اس کنوئیں میں چمڑے کی بالٹی ایک مو ٹے رسّے کے زریعے کنوئیں کی تہ تک اتار کر بھر لی جاتی اور پھر الٹی چرخی چلا کر پانی کھینچ لیا جاتا تھا ،یہ ایک بہت محنت طلب کام ہوتا تھا لیکن میں اس کام کو بھی سر انجام دے لیا کرتی تھی  اس کے علاوہ جھٹ پٹا ہوتے ہی گھر کی لالٹینیں اور لیمپ روشن کرنا بھی میرے زمّے تھا میں سب لالٹینوں کی چمنیاں نکال کر ان کو چولھے کی باریک سفید ریت سے پہبے صاف کرتی پھر صابن سے دھو کر خشک کرتی تھی تو لالٹین کی روشنی بہت روشن محسوس ہوتی تھی،کوئلو ں کی سفید راکھ بنانے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ دہکتے ہوئے کوئلوں کو یونہی چھوڑ دیا جاءے تووہ خود بخود بجھتے جاتے ہیں اور ان کے اوپر سفید راکھ کی موٹی تہ جمتی جاتی ہے یہ راکھ دیگچیوں کے پیندوں کو اجلا کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی تھی میں اس راکھ کو ایک ڈبّے میں محفوظ کر لیتی تھی  
 اس کے ساتھ ساتھ میری ایک اہم ڈیوٹی گھر میں جلانے کے لئے ٹال سے لکڑیاں لانے کی بھی تھی ،اور یہ کام کوئ مجھ سے جبریہ نہیں کرواتا تھا بلکہ میں اپنی والدہ کے لئے کام کی سہولت چاہتی تھی
با لآخرزمانے کے ان نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے ہمارے گھرانے کی علمی صحبتیں برقر ار ہی تھیں اور ان ادبی صحبتوں کارنگ بھی میری زات پر نمایاں ہو نے لگا تھا  اور میں نے بہت جلد برّصغیر کے نامور ادیبو ں کی 
لا تعداد کتابیں پڑھتے ہوئے حفظ کر لی تھیں ،ان نامور ادباء میں کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی عصمت چغتائ ،قرّۃ العین حیدر ،عظیم بیگ چغتا ئ ،را م لعل ساحر لدھیانوی  اور اس وقت کے جو بھی مشہور ادیب اور شاعر تھے  سب کو بار بار پڑھایہ وقت جب ادب کے آسمان پر پاکستانی ادب بھی بھر پور انداز سے اپنا آپ منوانے کی جستجو مین جٹا ہواتھا اور یہاں کے ادیب بھی ہندوستانی ادیبوں سے کسی طور پر بھی کم نہیں تھے کرنل محمّد خان ،مشتاق احمد یوسفی  بریگیڈئیر صدّیق سالک ،ممتاز مفتی جبکہ خواتین بھی ادب کے میدان پر جلوہ افروز ہو چکی تھِن اور بھی کہنہ مشق ادیب و شاعر پاکستانی ادب کے آسمان پرجگمگا رہے تھے چنانچہ شادی سے پہلے تو میں بس پڑھتی ہی چلی گئ لکھنے کی باری  شادی کے بعد میں آئ جب کہ یہ احساس دل میں اجاگر ہواکہ میں کچھ کچّا پکّا ادب بھی تحریر کر سکتی ہوں 
میرے ادبی شوق کی ابتدا میرے بچپن کے ابتدائ دور میں ہی ہو چکی تھی بس اردو پڑھنی آئ ہی تھی کہ مجھے بچّوں کی کہانیاں پڑھنے کا چسکہ لگ گیا تھا اور شاعری میں بھی خاص دلچسپی لینے لگی تھی  مجھے ابھی بھی اچھّی طرح یاد ہے کہ میں نے  چھٹی کلاس میں ایک نظم اپنے وطن سے محبّت کے اوپرپڑھی تھی 
  یہ ہمارے اسکول کی جانب سے طالبات کا مشاعرہ تھا جو بیگم رعنا لیاقت علی خان کے قائم کردہ فلاحی ادارے  اپوا کے زیر اہتما م ہواتھا
 اس مشاعرے میں ایک مشہور علمی گھرانے کی قد آور  شخصیت محترمہ وحیدہ نسیم صاحبہ مہمان خصوصی کے طور پر بلائ گئیں تھیں ،انہوں نے میری نظم سن کر مجھے شاباشی بھی دی تھی 
اور پھر کلاس ہشتم کے بعد ہی اس زمانے کے رواج کے مطابق میری شادی ہوگئ 
پچّیس اپریل انّیس سو پینسٹھ کی ایک سہانی شام میں اپنے والدین کے گھر سے اپنےمحترم شوہر نامد ار سیّد انوار حسین رضوی کے گھر آگئ

اس وقت اپنی شادی شدہ زندگی کی زمّہ داریوں کو نباہنے کے ساتھ ساتھ   میری توجّہ کا مرکز میری والدہ اور چھوٹے بہن بھائ ہو ا کرتے تھے اور میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ میں کسی بھی صورت وقت نکال کر اپنی پیاری ماں کی کوئ تو خدمت کر کے گھر واپس آجاؤن ،میں نے دیکھا کہ اللہ پاک شکر خورے کو شکر ضرور دیتا ہئے چنانچہ اس مالک کے کرم سےمیری شادی کے چند مہینوں بعد ہی دسمبر انیّس سو پینسٹھ میں ہی والد صاحب اپنےکچّے پکّے مکان سے اٹھ کرفیڈرل بی ایریا کے علاقے میں  دو سو چالیس گز کے بنگلے میں  دستگیر نمبر نو میں آگئے،والدہ جیسے ہی فیڈرل بی ایریا شفٹ ہوئیں انہوں نے مجھے بھی اپنے برابر کے مکان بلاکر رکھ  لیا فیڈرل بی ایریا ان دنوں نیا نیا آباد ہونا شروع ہواتھا اور یہاں کے مکانات جو ہرے بھرے درختوں کے درمیان اور لہلہاتے کھیتوں کے قریب ترتیب میں بھی اچھّے لگتے تھے اور رہائش کے لئے بھی کشادہ تھے  یہ نئ بستی لالوکھیت کے مقابلے میں اسوقت  کی ڈیفنس سوسائٹی دکھائ دیتی تھی   چنانچہ والد صاحب جو جہد مسلسل سے وابستہ رہتے ہوئے ترقّی کی جانب گامزن تھے ۔والد صاحب نے جلد ہی پھر بنکینگ کا امتحان پاس کیا اس کامیابی نے ان  کو  دوسو چالیس گز کے اس بنگلے اٹھا کر نارتھ ناظم آباد بلاک ڈی میں پانچ سو گز کے  اپنے زاتی بنگلے میں بٹھا دیا میری والدہ  ایف بی ایریا میں پانچ سال رہیں اور میں انکے ہمراہ دوسرے گھر مین رہتی رہی اس طر ح پورے پانچ سال گزر گئے  ،لیکن پانچ سالوں  بعدجب مجھے محسوس ہوا کہ اب میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوں تب میں نے قلم کا سفر شروع کیا میرے قلمی سفر کی ابتداء  جنگ اخبار میں معاشرتی موضوعات سےہوئ لیکن جلد ہی  افسانہ نگاری شر وع کی افسانہ نگاری کا سفر طویل رہا ،پاکیزہ ،دوشیزہ جنگ ڈائجسٹ ،حنا ،آنچل اخبار جہاں سچّی کہانیا ں آئیڈئیل اور بھئ کئ جن کے نام بھی زہن میں نہیں ہیں ان میں لکھتی رہی ،میرا خیال ہئے کہ آج کے دور میں ناول کے مقابلے میں افسانہ زیادہ پڑھا جانے والا ادب ہئے لیکن ناول پڑھنے والے بھی کم نہیں ہیں ،شائد افسانہ نگاری کی جانب میری زیادہ توجّہ کا سبب بھی یہی ہو کہ افسانہ لکھنا مجھے ناول کی نسبت ہمیشہ آسان لگا در اصل میرے خیال میں ناول ایک بڑی اور کشادہ زہنی کی تخلیق ہوتا ہے ،اور میں اپنی گونا گوں زمّے داریوں کے سبب بڑی سوچ پر آنا نہیں چاہتی ہوں یہاں کینیڈا میں میری اون لائن ناول میں سہاگن بنی !مگر،،، عالمی اخبار کی زینت بنی ،،،یہ ناول در حقیقت میں نے پاکستان میں روز افزوں بڑھتی ہوئ شرح'' طلاق''' جیسے ناروا و ناپسندیدہ امر پر لکھی اس کے لکھنے کا مقصد نوجوان نسل کو پیغام دینا تھا کہ شادی ہوجانے  کے بعد ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور کمزوریو ں کو نظر انداز کرتے ہوئے گھر کی بنیاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں ،اسی طرح میری کوشش یہی ہوتی ہئے کہ میں اپنی افسانوی تحریروں کے زریعے اپنے سماج کو کوئ ایسا مثبت پیغام دے سکوں جو پڑھنے والے کی رہ نمائ کا باعث ہو  افسانہ نگاری کا لم نویسی آج بھی  جاری ہئے

 افسانہ نگاری نا ول نویسی معاشرتی مضامین کچھ روحانیت کے کام  پر بھی توجّہ ہئے 
اس کے علاوہ ایک دستر خوان بھی شمع کا دستر خوان کے نام سے بازار میں آیا ،میرے ایک افسانو ی مجموعے رنگ شفق کی یہاں کینیڈاایڈمنٹن میں ہی ملٹی کلچرل  کونسل کی روح رواں محترمہ صوفیہ یعقو ب صاحبہ نے رونمائ کروائ اور ٹورانٹو سے کہنہ مشق ادیب و شاعرجناب تسلیم الٰہی زلفی نے میرے اس مجموعے پر تبصرہ لکھا  یہ مجھ جیسی کم علم رکھنے والی طالبہ کے لئے ایک یقینی  اعزاز کی بات ہے 
 بات یہ ہئے کہ انسان سماج میں رہتے ہوئے کبھی اکیلا کچھ نہیں کر سکتا ہئے اس کو ہر حال میں سہاروں کی ضرورت ہوتی ہئے رہبری بھی چاہئے ہوتی ہئے ،یہ میری خوش قسمتی ہئے کہ مجھے تمام عمر ،اچھّے راہبر ،اور اچھّے استاد میسّر آئے جنہوں نے فراخ دلی سےمیری بھرپور رہ نمائ کی اور ادب کی دنیا میں مجھے قدم جمانے کے موقع فراہم کئے 
مجھے اپنی زندگی کے بلکل ابتدائ دور میں ہی قبلہ جناب رئیس امروہوی جیسے جیّد استادکی صحبت ان کے ہمراہ نشست و برخاست کے ساتھ ساتھ ملی قبلہ محترم نے میری پہلی ناول کا دیباچہ تحریر کیا  تھا یہ ناول سندھ اکیڈمی کے توسط سے پرنٹنگ کے مراحل تک پہنچ چکی تھی اس  کے بعد میرا رابطہ ختم ہو گیا اب مجھے نہین معلوم کیونکہ پینتیس برس کے عرصے میں بہت کچھ بدل چکا ہے 
قبلہ رئیس امروہوی کے بعد کے دور میں میرے ادبی راہنما اخبار جہاں سے منسلک  جناب محترم انوار علیگی صاحب ہیں  جو میرے بہترین استاد بھی  ہیں میں جناب انوار علیگی صاحب کی بہت ممنون احسان ہوں جنکی رہنمائ نے مجھے کافی کچھ سیکھنے کی راہیں دکھائیں،اور میرے محسن بھائ جناب محترم  پرویز بلگرامی ہیں  جوکراچی مقیم ہوتے ہوئے  اس وقت بھی مجھے اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے ہیں  
 مجھے امّید ہے کہ میرے قارئِین ادب کے میدان میں مجھے ایک نو آموز طالبہ سمجھ کر میری رہنمائ ضرور کریں گے 
واسّلام 
سیّدہ زائرہ 

 
 
 


















اتوار، 12 مارچ، 2023

قدیم زمانے کی ائر کنڈیشنزیا باد گیر

قدیم ونڈ مل دنیا کی نظر میں یہاں بیٹھ کر آپ جب ارد گرد کی چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے اس گرم آب و ہوا میں انسان نے اپنی سہولت کے لیے یہ تکنیک کیونکر ایجاد کر لی تھی۔ایران کے ہزاروں سال پرانے اے سی-بادگیر یعنی ہوا کو کھینچنے والی یہ تعمیر کسی چمنی جیسی ہے اور یہ ایران کے ریگستانی شہروں کی قدیمی عمارتوں پر بنی نظر آتی ہے۔یہ بادگیر ٹھنڈی ہوا کو کھینچ کر عمارت کے نیچے لے جانے کا کام کرتے ہیں اور ان سے گھروں کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

اور ان سے گرمی کی وجہ سے خراب ہونے والی چیزوں کو بچانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ایران کے شہر یزد کے ایک رہائشی کہا کہ ان کے یہاں پانی والے ایئرکنڈیشنر بھی ہیں لیکن انھیں قدرتی اے سی میں بیٹھنا پسند ہے کیونکہ یہ انھیں پرانے دنوں کی یاد دلاتے ہیں۔صابری کے قدرتی ایئر کنڈیشنر سے مراد ان کا 'بادگیر' ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'ہم اسی کے سائے تلے بیٹھے ہیں۔'ریگستان میں آباد یزد شہر میں شدید گرمی پڑتی ہے اور یہاں کا درجۂ حرارت 40 ڈگری سیلسیئس سے تجاوز کر جاتا ہے 

ایسے گرم موسم میں چائے کا خیال آنا کسی عجوبے سے کم نہیں۔لیکن بادگیر والے مکان کے آنگن بیٹھنے کے بعد تپتا سورج بھی مدھم معلوم ہوتا ہےیہاں اس قدر آرام محسوس ہوتا ہے کہ اپنے میزبان کو الوداع کہنے کا خیال ہی نہیں آتا۔ تمام طرح کی تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ بادگیر کی مدد سے درجۂ حرارت کو دس ڈگری تک کم کیا جا سکتا ہے۔عہد قدیم میں مصر سے لے کر عرب اور بابل کی تہذیب و تمدن میں اس طرح کے فن تعمیر کی کوشش کی گئی جو موسم کی سختیوں کو دور کر سکے۔اس طرح کی عمارتوں کو قدرتی طور پر ہوا دار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس قسم کے بادگیر یا ہوا دار عمارتیں مشرق وسطی سے لے کر مصر اور ہندو پاک میں نظر آتی رہی ہیں -

بادگیر کس طرح تعمیر کیے جاتے ہیں؟بادگیر عمارتوں کے سب سے اونچے حصے میں تعمیر کے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی دیکھ بھال بڑا چیلنج ہے۔ان کی ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ایران میں کئی عمارتوں پر تعمیر بادگیر 14 ویں صدی تک کے ہیں۔ فارسی شاعر ناصر خسرو کی شاعری میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے، اور ان کا زمانہ تقریباً ایک ہزار سال پہلے کا ہے۔جبکہ مصر میں حضرت عیسیٰ سے بھی 1300 سال پرانی بعض پینٹنگز میں اس کا نمونہ نظر آیا ہے۔ڈاکٹر عبدالمنعم الشورباغی سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم عفت یونیورسٹی میں فن تعمیر اور ڈیزائن کے پروفیسر ہیں۔وہ کہتے کہ 'مشرق وسطیٰ کے ممالک سے لے کر پاکستان اور سعودی عرب تک بادگیر ملتے ہیں۔'یہ خلافت عباسیہ کے دور کے محلوں کی مربع نما عمارتوں سے مماثل ہیں۔ اور اس قسم کے محل عراق کے اخیضر علاقے میں آٹھویں صدی میں تعمیر کیے گئے تھے۔ بادگیر کی ابتدا عرب ممالک میں ہوئی -یہ بات حتمی تو نہیں کی جا سکتی ہے لیکنایک نظریہ یہ بھی ہے کہ بادگیر کی ایجاد عرب ممالک میں ہوئی تھی اور جب عربوں نے ایران کو فتح کیا، تو ان کے ساتھ یہ فن تعمیر فارس بھی پہنچا۔ یزد شہر کی زیادہ تر عمارتوں پر بنے یہ بادگیر مستطیل ہیں اور چاروں جانب ہوا کی آمد کے لیے خانے بنے ہوئے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں شش پہلو اور ہشت پہلو بادگیر بھی ملتے ہیں۔یزد کی پرانی عمارت میں ایک کیفے کے ملازم معین کہتے ہیں کہ 'بادگیر میں ہر طرف سے آنے والی ہوا کو کھینچنے کے خانے بنے ہوتے ہیں۔ جبکہ یزد سے کچھ فاصلے پر موجود قصبے میبد کے بادگیروں میں صرف ایک جانب ہی خانے ہوتے ہیں کیونکہ وہاں ایک ہی جانب سے ہوا آتی ہے بادگیر کی تعمیر اس حکمت کے ساتھ کی جاتی ہے کہ ماحول میں موجود ہوا کو کھینچ کر وہ نیچے کی جانب لے جائے اور ٹھنڈی ہوا کے دباؤ سے گرم ہوا عمارت سے نکل جاتی ہے۔اس گرم ہوا کو باہر نکلنے کے لیے بادگیر کے دوسری جانب ایک کھڑکی نما جگہ کھلی چھوڑ دی جاتی ہےیہاں تک کہ اگر سرد ہوا نہ بھی چل رہی ہو تو بادگیر گرم ہوا کو دباؤ بنا کر باہر نکالنے کا کام کرتا رہتا ہے جس سے گھر میں گرمی کم ہوتی رہتی ہے۔موسم سرما اور گرما کے گھریزد شہر میں قاجاری دور کی کئی عمارتیں اب بھی اچھی حالت میں ہیں۔ ان میں سے ایک مشہور لریحہ ہاؤس ہے۔ انیسویں صدی میں تعمیر شدہ یہ عمارت ایرانی فن تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔س کے درمیان ایک مستطیل آنگن ہے۔ موسم گرما اور موسم سرما کے مطابق عمارت کے علیحدہ حصے ہیں عمارت کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مقصد سردیوں میں سورج کی گرمی کا زیادہ سے زیادہ استعمال اور گرمیوں میں سورج سے بچنے کی کوشش ہے۔ 

بادگیر اس عمارت کے گرمی والے حصے میں بنایا گیا ہے۔بادگیر سے آنے والی ہوا ایک محراب دار روشن دان سے گزرتی ہوئی عمارت کے تہہ خانے تک جاتی ہے۔ تہہ خانے میں وہ چیزیں رکھی جاتی ہیں جو جلدی خراب ہو سکتی ہیں۔ اس عمارت کی 38 سیڑھیوں سے نيچے جائیں تو موسم گرما میں بھی سردی کا احساس ہونے لگتا ہے۔اس حصے کو سرداب یعنی سرد پانی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے نہروں کا پانی گزرتا ہے۔سرد ہوا اور پانی مل کر اس حصے کو ریفریجریٹر جیسا یخ بنا دیتے ہیں۔ پہلے اس طرح کی کوٹھریوں میں برف رکھی جاتی تھی۔آج اس طرح کا قنات کا نظام ختم ہو گیا اور اسی طرح تکنیکی ترقی کے سبب بادگیر بھی معدوم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ اے سی نے لے لی ہے۔

ہفتہ، 11 مارچ، 2023

آو سات سمندر پار چلیں میری کینیڈا بیتی

<\head>

 


قران کریم میں ارشاد ربّ العزّت ہے -تم میں سے کسی کو نہیں معلوم کہ کون کہاں مرے گا اور کہاں گڑے گا -اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی روشنی میں جب میں نے اپنی زندگی کے فلسفہ پر غور کیا تب میں نےدیکھا میں کہاں دنیا میں آئ -کہاں میں نے اپنے خاندان کے ہمراہ پہلے ہجرت کی پھر تمام زندگی بسر کی اور اب زندگی کے آخری کنارے پر میں اپنے وطن سے ہزاروں میل دور سات سمند رپار بیٹھی ہوئ ہوں تو اب میری مٹّی کہاں کی ہے یہ میرارب جانے

-اب آپ میری آپ بیتی پڑھئے 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

 نحمدہ  و نصلّی علٰی  رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین 

 میں خدائے ذوالجلال والاکرام کی بے حد شکر گزار ہوں کہ بحیثیت ایک انتہائ قلیل و کم علم رکھنے والی طالبہ کے آج مجھے اپنے قارئین کے سامنے اپنی داستان حیات پیش کرنے کا موقع میسّر آیا ہے،میری کوشش ہو گی کہ  اپنی اس کتاب زندگی میں اپنے ہوش کی زندگی سے لے کرتادم تحریرمیں نے کارزارزندگی سے جو پایا ہے اسے من وعن پیش کر سکوں  اورمیرے قلم کا لکھا ہوا ایک ایک حرف صدقہ ہے میرے پیارے نبی حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم شہر علم اورباب علم سلطان اولیاء مولائے کائنات حضرت علی ابن طالب کے علم کا میری جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان کے ما ئہ ناز خطّہ زمین حیدرآباد  دکن تاریخ پیدائش آٹھ نو مبر سن انّیس سو  اڑتالیس  

ہجرت , جون انیس سو  انچاس بوجوہ سقوط حیدرآباد دکن 

 سقوط حیدرآبا د کا ظالما نہ عمل تو قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے انتقال کے اگلے روز ہی پنڈت جواہر لعل نہرو نے باقاعدہ اعلان کر کے کیا تھا   

 سقوط حیدار آباد میں بھی ہزاروں کی تعداد میں وہاں کی مسلمان آباد ی تہ تیغ کی گئ ,,بعد از سقوط ناگفتہ بہ فرقہ وارانہ حالات کے 

 پاکستان ہجرت کی اوربعد از ہجرت تمام عمر اپنے پیارے محبوب وطن پاکستان کے قلب کراچی میں بسر ہوئ ۔سولہ جنوری دو ہزار سات کو ہو نے کواپنے عزیز از جان شریک زندگی کی وفات  کے بعد کینیڈا آنا ہوا اور پھر یہیں کی مٹّی نے قدم پکڑ لئے  میں اپنی داستان زندگی کے آغاز پر ہی اللہ کریم رحمٰن و رحیم , کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اپنے والدین مر حومین کی بھی بے حد شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مجھے قرطاس وقلم کی اہمیت سےروشنا س کیا,اور زندگی کے لق ودق صحرا میں پیش آنے والی  اونچ نیچ سمجھائ ,,مشکلات کی کٹھن گھڑیوں میں  صبر اور نماز سے مدد کی  نصیحت کی  اور زندگی کے ہر ہر قدم پر میری رہنمائ کی ان ہستیوں کے ہمراہ اپنے محترم علم دوست شوہر  کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ جن کی قریب قر یب بیالیس سالہ رفاقت میں مجھےا ن کے آ  نگن میں سائبا ن  علم نصیب ہوا

 اب میں قارئین کو اپنا خاندانی پس منظر بتانا چاہوں گی 

میری والدہ کے اجد ا دسرزمین ہند کے زی وقار اور منفرد تہزیب رکھنےوالے شہر لکھنؤ میں سادات کے سو سالہ دور حکومت  میں ایران سے وارد ہند ہوئے،ان کا شجرہء نسب نجیب الطرفین سادا ت سے ہوتا ہوا چوتھے امام حضرت اما م زین العابدین علیہ السّلام سے جا ملتا تھا اور وہ  ایران کے شاہی دربار سےمنسلک شاہانہ طرز حیات رکھنے والے  لوگ تھے   ان میں ادباء و فضلاء شعراءصاحبان علم وحکمت  تھے چنانچہ ان کی لکھنؤ میں آمد پر شاہی دربار میں بھی ان کی خاص پذیرائ ہوئ اور یہ یہاں بھی شاہی دربار سے ہی وابستہ ہوئےان کی امارت کا یہ عالم تھا کہ جب میری والدہ شادی ہو کر حیدرآباد دکن آئیں اسوقت ان کا جہیز ریل کی بوگی ریزرو کر کے لایا گیا ،ان کی شادی کے جوڑے سونے کے تاروں اور ریشم کی آمیزش سے تیّار کئے گئے تھے

 ( ہجرت نے ہماری والدہ کواور ہم کو ان چیزوں سے فیضیاب ہونے کی مہلت نہیں دی اور سب کچھ بھرا گھر چھوڑ کر جان بچانے کو گھر سے نکل آ ئےامارت کے باوجود علم و ادب کےان شیدا ئیو ں میں  خواتین کے علم سے بھی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اس دور میں جب ہند وستان میں عورت کی تعلیم ایک جرم سمجھی جاتی تھی یہ لوگ اپنے گھر کی بچّیوں کی تعلیم پر بھی بھرپور توجّہ دیتے تھے  مجھے میری نانی جان نے بتایا تھا کہ سن انّیس سو تیس میں جب میری والدہ پانچ برس کی ہوئیں تب ان کو پڑھانے کے لئے ایک بزرگ استاد گھر پر رکھّے گئے اور میری والدہ نے اپنے استاد محترم سے فارسی عربی اردو اور انگلش کی تعلیم حاصل کی جبکہ ان کا داخلہ بھی ایک مسلم اسکول میں اسی عمر میں کروادیا گیا ،، صبح آٹھ بجے ان کی ڈیوڑھی پر پردے لگا ہوا یکّہ آکر رکتا تھا اور میری والدہ کو گھر کے کوئ  بزرگ لے جا کرایکّے میں  سوار کرواد یتے تھے  اور شام چار بجے پھر اسی طرح سے واپسی کے وقت یہی عمل دہرایا جاتا تھا

 اس طرح میری والدہ نے غیر منقسم ہندوستان میں ہی مڈل کلاس پاس کرلی تھی میری والدہ اور دادی جان مرحومہ کا تعلّق اسی خانوادے سے تھاچنا نچہ ہوش سنبھالنے پر میں نے اپنے گھر کے آنگن میں ادبی محفلیں سجتی ہوئ دیکھیں اور ان کا اثر بھی قبول کیا دراصل ہمارا گھرانہ بنیادی طور پر ایک ادبی لیکن ساتھ ساتھ  مذہبی گھرانہ تھا اس لئے مجھے ادب سے اپنے گھرانے کی وابستگی آہستہ آہستہ میرے مزاج میں بھی رچتی اور بستی گئ میری والدہ کے قبلہ محترم رئیس امروہوی صا حب  سے  گھریلو مراسم تھے ،جبکہ  محترم سجّاد ظہیر صاحب کے گھر ا نے سے  بھی والدہ کے ہمراہ آنا جانا لگا رہتا تھا-میری والدہ صاحبہ کے  یہ خا ندانی  مراسم تقسیم ہند سے پہلے لکھنؤ سے ہی چلے آرہے تھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ میری والدہ محترمہ کا تعلّق لکھنؤ کے سادات سے تھا 

جبکہ والد بھی یوپی کے سادات کے اہم خانوادے سادات نو گانواں میں عابدی سادات کےجیّد علمائے دین کے قبیلے  سے تعلعق رکھتے تھے ،میرے محترم دادا جان جنوبی ہندوستان میں قطب شاہی دور حکومت میں اپنا آبائ شہر چھوڑ کر حیدرآباد دکن آئے اور انہون نے یہیں پر مستقل سکونت اختیار کی ،جسے ازاں بعد ہم بھی چھوڑ کر پاکستان آگئے  

جاری ہے

جمعہ، 10 مارچ، 2023

لپروسی ہسپتال منگھو پیر کراچی

 





 قیام پاکستان سے پچاس برس پہلےکراچی سے چالیس میل کے فاصلے پر منگھوپیر کی پہاڑیوں  کے  دامن میں قائم ہونے والا جذام اسپتال اس وقت کے دور میں بہترین اور مثالی کارکردگی،انسانیت کی خدمت اور جذام کے خلاف جدوجہد کی ایک داستان لپروسی اسپتال منگھوپیر کراچی ہے اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ عہد قدیم سے ہی جذام یا کوڑھ کے مرض نے ہمیشہ دنیا بھر کے انسانوں کو انتہائی دہشت زدہ رکھا ہوا ہے، اس مرض میں مبتلا مریضوں کی جلد سن اور رنگت تبدیل ہوتی ہے، گرم و سرد کا احساس جاتا رہتا ہے، عضلات شل ہوجاتےاور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، بھنوؤں کے بال گرنے لگتے ہیں، چہرا سوج جاتا ہے،ہاتھ پاؤں اور جسم کے دوسرے اعضاء موم کی طرح پگھلنے لگتے ہیں ،جس سے مریض انتہائی خوف ناک شکل اختیار کرجاتا ہے۔ ابتداء میں جب اس مرض کا علاج شروع نہیں ہوا تھا تو مریض کو مرنے کے لئے دور دراز علاقوں میں چھوڑ دیا جاتا تھا تاکہ یہ مرض دوسرے کسی شخص کو منتقل نہ ہوسکے۔اللہ تعالیٰ کا کرنا یہ ہوا کہ 1896ء میں ایک بنگالی ڈاکٹر، بی ایل رائے ایک تقریب میں منگھوپیر میں گرم چشمے کے کنارے پکنک منانے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کھلے آسمان تلے جذام میں مبتلا مریض بے یار و مددگارکھلے آسمان تلے پڑے ہیں، ان مریضوں میں بھارت، ایران، افغانستان اور دیگر ملکوں کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مریض شامل تھے۔

 

انہیں اس بات کا یقین دلایا جاتا تھا کہ وہ گرم پانی کے چشمے سے نہا کرصحت یاب ہوجائیں گے، دوسری بات یہ تھی کہ عزیز و اقارب اس خوف میں مبتلا رہتے کہ کہیں یہ مرض انہیں نہ لگ جائے ان مریضوں کو یہاں چھوڑ دیتے تھے ،اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتے تھے۔ ڈاکٹر بی ایل رائے نے اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے کچھ پیسے جمع کئے اور ایک خانقاہ تعمیر کرائی، تاکہ ان مریض کو جنہیں مرنے کے لئے ان کے خاندان کے افراد یہاں چھوڑ گئے ہیں کچھ سہارا ملے، خانقاہ کا افتتاح بھی 1896 ء میں ہی کیا گیا، 27 برس تک اس خانقاہ کے علاوہ ان مریضوں کے لئے کچھ نہ ہوسکا اور جذام میں مبتلا کئی مریضوں نے تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دی۔ 

 

خانقاہ کے علاوہ علاج معالجے کی کوئی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں تھی، پھر 1923 ء میں چار ممتاز افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں کلکٹر آف کراچی کو صدرآر ایس سیٹھ، آر ایس جوکا رام ڈنومل کو نائب صدر، جمشید نسروانجی مہتا اوربھگو مل کو ممبران کے طور پر کمیٹی میں رکھا گیا،ان ممبران کے علاوہ بھی دیگر اہم شخصیات کو ان مریضوں کی دیکھ بھال کی دعوت دی گئی تاکہ زندگی سے مایوس ان مریضوں میں امید کی کرن جاگ جائے اور یہ شخصیات ان

 

کی دیکھ بھال میں معاونت کرسکیں۔
کمیٹی نے مریضوں کو کھانا کھلانے کی سہولتیں فراہم کرنا شروع کیں اور 1923 ء میں ہی دو نئے وارڈ تعمیر کئے جن میں 34 مریضوں کو علاج معالجے، کھانے پینے اور کپڑے فراہم کرنے کی سہولت دی گئی۔1944 ء میں ہیلتھ سروے اینڈ ڈویلپمنٹ کمیٹی مرکزی حکومت انڈیا کی اس وقت کی سروے رپورٹ کے مطابق یہ اسپتال ایک بڑا ادارہ بن چکا تھا ،جس میں 200 سے زائد مریضوں کی گنجائش تھی یہاں مریضوں کے قیام، طعام اور علاج کا بہترین انتظام تھا، کراچی کے پہلے میئر اور ممتاز سماجی شخصیت جمشید نسروانجی مہتا جو اس کمیٹی کے ممبر تھے اگلے تیس برس تک انتہائی سرگرمی کے ساتھ ان مریضوں کی خدمت کرتے رہے۔ 1952 ء میں جمشید نسروانجی نے اپنی زندگی کے آخری ایام بھی اس اسپتال میں مریضوں کے ساتھ گزارے 

 

۔ان کا کہنا تھا کہ ان مریضوں کو علاج کے علاوہ محبت اور دوستی کی اشد ضرورت ہے۔ جمشید نسروانجی آخری دم تک جذام کے ان مریضوں کے ساتھ رہے، جو ہمدردی، محبت اور تیمارداری کی ایک روشن مثال ہے
1947ء میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس اسپتال کی دیکھ بھال پاکستان لپروسی ریلیف ایسوس ایشن نے اپنےذمے لے لی ، اس تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر امین عبدالحفیظ تھے،1960ء تک یہ اسپتال اسی ادارے کے زیر انتظام رہا۔ جولائی 1960 ء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسپتال کا انتظام و انصرام بلدیہ کے سپرد کردیا جائے تاکہ اسپتال کو مزید بہتر بنایا جائے، صاف پانی کے حصول کے لئے تگ و دو کی جائے اور مریضوں کو بہتر سہولیات مہیا کی جائیں، ڈاکٹر ایم مظفر کو میڈیکل سپرنٹنڈنٹ آفیسر مقرر کیا گیا، جبکہ 1962ء میں بلدیہ کے ایک اور ڈاکٹر سید جعفر علی ہاشمی کو اسپتال کا میڈیکل انچارج مقرر کیا گیا۔ 

بلدیہ کراچی نے 1963 ء میں لپروسی اسپتال کے لئے پہلی مرتبہ باقاعدہ بجٹ مختص کیا جو دو لاکھ روپے تھا، اس میں 70 ہزار 500 روپے انتظامی اخراجات اور ایک لاکھ 22ہزار 500 روپے مریضوں کے علاج اور سہولتوں کی فراہمی کے لئے مختص کئے گئے، یہ اقدام جذامی مریضوں کو باقاعدہ اور مسلسل طبی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اٹھایا گیا جو اس سے قبل ایسوسی ایشن کے اشتراک سے کیا جاتا تھا، یوں یہ اسپتال بلدیہ کے زیر انتظام ایک باقاعدہ طبی ادارہ بن گیا۔
1963ء میں ہی دو عیسائی بہنوں نے اعزازی طور پر لپروسی اسپتال میں خدمات انجام دینا شروع کیں، مریضوں کو صحت کی ضروری بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ دوائیں، خوراک اور کپڑے بھی فراہم کئے جانے لگے، بلدیہ کراچی نے ایک اور سماجی تنظیم جرمن ویلفیئر سوسائٹی کے تعاون سے ایک ڈاکٹر اور دو اسٹاف نرسوں کو اسپتال میں تعینات کردیا ،تاکہ مریضوں کو بروقت طبی امداد دی جاسکے۔1966 ء میں لپروسی انٹرنیشنل مشن نے ڈاکٹر گریس وارن ،کو اسپتال بھیجا، ان کا تعلق آسٹریلیا تھا اور یہ ماہر ڈاکٹر 
اکٹر رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ (جرمن: Ruth Katherina Martha Pfau)  رتھ فاؤ (1929ء تا 10 اگست 2017ء) ایک جرمن ڈاکٹر، سرجن اور سوسائیٹی آؤ ڈاٹرز آف دی ہارٹ آؤ میری نامی تنظیم کی رکن تھیں۔ انہوں نے 1962ء سے اپنی زندگی پاکستان میں کوڑھیوں کے علاج کے لیے وقف کی ہوئی تھی۔ 1996ء میں عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کو قابو میں قرار دے دیا۔ پاکستان اس ضمن میں ایشیا کے اولین ملکوں میں سے تھا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کا انتقال 10 اگست 2017ء کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں ہوا۔

ابتدائی زندگی
9 ستمبر 1929 کو جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہونے والی رُتھ کیتھرینا مارتھا فائو کے خاندان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی تسلط والے مشرقی جرمنی سے فرار پر مجبور ہونا پڑا۔ مغربی جرمنی آکر رُتھ فائو نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا اور 1949 میں "مینز" سے ڈگری حاصل کی۔ زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش ڈاکٹر رُتھ کو ایک مشنری تنظیم "دختران قلب مریم" تک لے آئی اور انہوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد حیات قرار دے لیا۔
پاکستان کے لیے خدمات-سن 1958ء میں ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔ پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔ 1960 کے دوران مشنری تنظیم نے ڈاکٹر رُتھ فائو کو پاکستان بھجوایا۔ یہاں آکر انہوں نے جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو واپس نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ کوڑھیوں کی بستی میں چھوٹا سے فری کلینک کا آغاز کیا جو ایک جھونپڑی میں قائم کیا گیا تھا۔ "میری ایڈیلیڈ لیپرسی سنٹر" کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا۔ اسی دوران میں ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا۔ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1963 میں ایک باقاعدہ کلینک خریدا گیا جہاں کراچی ہی نہیں، پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے آنے والے جذامیوں کا علاج کیا جانے لگا۔ کام میں اضافے کے بعد کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے گئے اور ان کے لیے عملے کو تربیت بھی ڈاکٹر رُتھ فائو ہی نے دی۔ جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ڈاکٹر رُتھ نے پاکستان کے دورافتادہ علاقوں کے دورے بھی کیے اور وہاں بھی طبی عملے کو تربیت دی۔ پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انہوں نے پاکستان کے علاوہ جرمنی سے بھی بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی کئی ہسپتالوں میں لیپرسی ٹریٹمنٹ سنٹر قائم کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیشنل لیپرسی کنٹرول پروگرام ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر رُتھ فاو، ان کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل کی بے لوث کاوشوں کے باعث پاکستان سے اس موذی مرض کا خاتمہ ممکن ہوا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے1996 میں پاکستان کو ایشیا کے ان اولین ممالک میں شامل کیا جہاں جذام کے مرض پر کامیابی کے ساتھ قابو پایا گیا۔

جمعرات، 9 مارچ، 2023

اثنا ء عشری نجیب الطرفین سید''خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ

 

 

 آفتابِ طریقت اور ماہتابِ شریعت۔سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ’۔۔جو پاسبانِ حقیقت بھی تھے اور صاحبِ نسبت بھی۔۔۔جورہبرِ گمگشتگانِ راہ بھی تھے اور شبستانِ ہدایت بھی۔۔۔جو آلِ رسول بھی تھے اور بدرِ ولایت بھی۔ خواجہ اجمیری کی زندگی سادہ تھی،لباس پیوند دار تھا۔ خوراک سوکھی روٹی تھی،رہنے کیلئے ایک جھونپڑی تھی مگر بڑے بڑے اولوالعزم شاہانِ زمانہ آپ کے آستانہ پر حاضر ہو کر آپ کی قدم بوسی کو اپنے لئے سب سے بڑی سعادت اور اعزاز سمجھتے تھے۔سلطان شہاب الدین غوری آپ کی قدم بوسی کیلئے آیا۔کبھی سلطان شمس الدین التمش نے آپ کے سامنے سر ارادت جھکایااور یہ سلسلہ صرف ظاہری حیات میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی جاری رہا۔ کبھی سلطان محمود خلجی آپ کے روضہ انوار پر حاضرہو کر فتح کی دعا مانگتا ہے

 سلسلہ نسب -سلطان الہند ’’  اثنا ء عشری سادا ت میں نجیب الطرفین سید‘‘ ہیں نجیب الطّرفین کے معنی  والدہ کا بھی اہلِ سادات سے تعلّق ہونا اور والد کا بھی سیّد ہونا اس طرح آپ حسنی اور حسینی سیّد  ہیں ۔  کفر کے اندھیروں میں حق پرستی کی شمع جلانے کے واسطے بحکم پروردگار عالم آپ وارد ِ ہند ہوئے اور بستی سے کچھ فاصلے پر  ایک ویرانے میں جھیل اناساگر کے پہلو میں ایک پہاڑ ی پر گوشہ نشین ہو گئے ،یہ ہندوستان میں راجہ پرتھوی راج کا دور تھا اور اسی کی سلطنت کا ہندوستان  کی عظیم الشّان حکومت میں  چار دانگ عالم ڈنکا بج رہا تھا ،ایسے میں ناجانے  کس طرح ایک درویش کی کٹیا کا کیونکر  شہرِ میں شہرہ ہوا کہ پرتھوی راج کے محل  مین عوام الناّ س کی حاضری کم ہونےلگی راجہ نے اپنے خدّام سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ شہر سے باہر ایک درویش نے اپنا فقیرانہ آشیانہ جب سے بنایا ہے عوام کا ہجوم صبح ہوتے ہی اسی درویش کی کٹیا  کی جانب چلا جاتا ہے  بس یہیں سے راجہ پرتھوی راج کے زوال کا وقت شروع ہو گیا کیونکہ اس نے خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کو شہر بدر کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے سپاہیوں کو بھیجا کہ فقیر سے کٹیا خالی کروا کر اسےاس کی سلطنت بدر کیا کر کے  جنگل میں بھیجا جائے جب سپاہی راجہ کا حکم لے کر آئے تو خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میں تمھارے راجہ کے لئے خطرہ نہیں ہوں لیکن اگر مجھے یہاں سے ہٹایا گیا تو یہ تمھارے راجہ کے لئے اچھّا نہیں ہو گا ،سپاہیوں نے جب خواجہ جی کا پیغام راجہ کو پہنچایا لیک اس نے سپاہیوں سے کہا کہ فقیر کو ہر صورت ہٹانا ہے اس بار جب سپاہی خواجہ جی  رحمۃ اللہ علیہ کے پاس راجہ کا حکم نامہ لے کر آئےتب خواجہ جی نے ان سے کہااچھّا مجھے جھیل سے ایک کٹوراپانی لے لینے دو آپ پہاڑی سے اتر کر جھیل تک آئے اور جونہی پا نی کا کٹوارا بھرا جھیل کاپانی مکمّل خشک ہو گیا یہ منظر دیکھ کر سپاہی خوفزدہ ہو کر واپس لوٹ گئے اور راجہ پھر سے خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کو شہر بدر کرنے کی ترکیبیں سوچنے لگا اور آپ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیرچمنستان اسلام  کی آبیاری میں لگے رہے ، آپ اپنی  مخالفت  اور ناسازگار ہوائے زمانہ کی پرواہ کئے بغیر،بدسے بدتراورسخت سے سخت تر حالات میں بھی مشنِ تبلیغِ اسلام سے شمّہ بھر بھی پیچھے نہیں ہٹےاوربالآخر کامیابی  آپ ہی کی رکابِ قدم ہوئ۔چنانچہ کچھ ہی عرصے میں راجہ پرتھوی راج کے سب سے بڑے مندرکا سب سے بڑا پجاری ’’سادھورام‘‘سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا۔اس کے بعد اجمیرکے مشہور جوگی’’جے پال‘‘نے بھی اسلام قبول کرلیااوریہ دونوں قبولِ اسلام کے ساتھ ہی خواجہ جی کے ساتھ اسلامی مشن میں ہاتھ بٹانے لگے اور پھرہندوستان کے کفرستان میں سینکڑوں سال سے بڑے بڑے تاجدار  شہنشاہوں، بادشاہوں و گداؤ ں کے دلوں پر بلا تفریق  مذ ہب و مسلک راج کرنے والا بے تاج  بادشاہ تاجدار ہند جنہوں نے اپنے کاملہ اخلاق سے ہندوستان کے کفرستان میں علم ِ دین کا کبھی نا بجھنے والا ایسا چراغ جلایا کہ آج تک کوئ اس کو گل کرنے کی ہمّت بھی نہیں پیدا کر سکا  سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے مقتدائے زمانہ ہستیوں سے علومِ دینیہ یعنی علم قرآن،علم حدیث،علم تفسیر،علم فقہ ، علم منطق اورعلم فلسفہ اور دیگر علوم ظاہری وباطنی کی تعلیم حاصل کی۔آپ نے علمِ حصولی کے حصول  کی خاطر  اپنی عمرِعزیز کے  تقریباًچونتیس برس صرف کیے،جب کہ علوم دینیہ کے حصول سے فارغ ہونے کے بعدعلم معرفت وسلوک کی تمناآپ کوایک جگہ سے دوسری جگہ کُشاں کشاں لے جاتی رہی۔

چنانچہ  سرزمین   عجم میں پہنچ کرعلمِ معرفت وسلوک کی تحصیل کے لیےآپ نے اپنے علم ِ معرفت کی خاطر مرشدکامل کو تلاش کیا اور بالآخرآپ کونیشاپورکے قصبہ ’’ہاروَن‘‘میں مل گیا۔جہاں آپ حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی رحمۃ اللہ علیہ ایسے عظیم المرتبت اورجلیل القدربزرگ کی خدمت میں حاضرہوئے اورآپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے۔حضرت شیخ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ نے نہ صرف آپ کودولت بیعت سے نوازابلکہ آپکوخرقۂ خلافت کے ساتھ ساتھ آپ کواپناخاص مصلّٰی، عصااورپاپوش مبارک بھی د یا-بارگاہِ  خاتم المر سلین حضرت محمّد  صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم  میں حاضری

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیرو مرشد کے ہمراہ بیس سال تک رہے اور بغداد شریف سے اپنے شیخ طریقت کے

 ہمراہ زیارتِ حرمین شریفین کا مبارک سفر اختیار فر ما یا ۔ چنانچہ اس مقدس سفر میں اسلامی علوم و فنون کے عظیم مراکز مثلاً بُخارا،

 سمر قند، بلخ، بد خشاں وغیرہ کی سیرو سیاحت کی۔ بعد ازاں مکہ مکرمہ پہنچ کر مناسکِ حج ادا کر کے حضرت خواجہ شیخ عثمان ہا روَنی

 رحمۃ اللہ علیہ نے حضر ت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ پکڑ ا اور میزابِ رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر با رگاہِ خدا وندی میں

 اپنے ہاتھ پھیلا کر یوں دُعا فر ما ئی

’’اے میرے پروردگار! میرے معین الدین حسن کو اپنی با ر گاہ میں قبول فر ما‘‘!

اسی وقت غیب سے آوازآئی’’معین الدین !ہمارا دوست ہے ، ہم نے اسے قبول فر ما یا اور عزت و عظمت عطا کی ‘‘۔

یہاں سے فراغت کے بعد حضرت خواجہ عثمان ہا رونی ، خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو لے کر مدینہ منورہ میں بار گاہِ  رسولِ

 دوسرا  صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پہنچے اورآپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم کی بار گاہِ مقدسہ میں اپنا ہدیہ درودو سلام پیش کیا الصلوٰ ۃ والسلام

 علیکم یا سید المرسلین و خاتم النبین۔روضۂ اقدس سے یوں جواب عنایت ہوا وعلیکم السلام یا قطب المشائخ حضرت خواجہ معین

 الدین چشتی علیہ الرحمۃ با ر گاہ ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے سلام کا جواب اورقطب المشائخ کا خطاب سن کر بہت ہی

 خوش ہوئے ۔

چنا نچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ سیروسیاحت کرتے کرتے مختلف شہروں سے ہو تے ہوئے اور اولیاءِ کرام کی

 زیا رت و صحبت کا فیض حاصل کر تے ہوئے جب لا ہور تشریف لا ئے تو یہاں حضور دا تا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمۃ کے

 مزار شریف پر حاضری دی اور چالیس دن تک معتکف بھی رہے اور یہاں بے بہا انوارو تجلیات سے فیضیاب ہو ئے تو رخصت ہو

 تے وقت یہ شعر بہ طورِ نذرانۂ عقیدت حضور داتا صاحب کی شان میں پیش کیا ۔

گنج بخش ، فیض عالم ، مظہر نورِ خدا

ناقصاں را پیر کامل ، کا ملاں را راہنما

حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ کو جو فیوض برکا ت اور انوار و تجلیات یہاں سے حاصل ہوئیں ، اس کا اظہار و اعلان اس

 شعر کی صورت میں کر دیا۔ اس شعر کو اتنی شہرت ہو ئی کہ اس کے بعد حضور داتا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمۃ کو لوگوں نے

 ’’داتا گنج بخش‘‘کے نام سے مو سوم اور مشہور کر دیا۔

سیرت و کردار-حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی انقلاب آفرین شخصیت ہندوستان کی تاریخ میں ایک نہایت ہی زریں با ب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کے اس دور میں جہاں ایک طرف آپ کی توجہ اور تبلیغی مسا عی سے ظلمت کدہ ہند میں شمع ِ اسلام کی روشنی پھیل رہی تھی ، دلوں کی تاریکیاں ایمان و یقین کی روشنی میں تبدیل ہو رہی تھیں ، لو گ جو ق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ تودوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ بھی بڑھ رہاتھا۔حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مندوں اور مریدوں میں شامل سلطان شہاب الدین غوری اوراُن کے بعدسلطان قطب الدین ایبک اور سلطان شمس الدین التمش ایسے با لغ نظر ، بلند ہمت اور عادل حکمران سیاسی اقتدار کو مستحکم کر رہے تھے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ اسلام ، احیائے دین و ملت ، نفاذِ شریعت اور تزکیۂ قلوب واذہان کا

 اہم ترین فریضہ جس موثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا ، وہ اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ آپ کی

 تشریف آوری کے بعد تو اس ملک کی کا یا ہی پلٹ گئی ۔ لا کھوں غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام لائے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔آپ کی تمام زندگی

 تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی۔ آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام میں گزارتے

 تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل نمونہ تھے ۔

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ غرباء اور مساکین کے لیے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے اور غریبوں سے بے مثال

 محبت و شفقت کی وجہ سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘کے عظیم لقب سے یا د کر تی ہے ۔دنیا سے بے رغبتی اورزہد و قناعت کا یہ

 عالم تھا کہ آپ کی خدمت عالیہ میں جو نذرانے پیش کیے جا تے وہ آپ اسی وقت فقراء اور غرباء میں تقسیم فر ما دیتے تھے۔ سخاوت

 و غریب نوازی کا یہ حال تھا کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی ہا تھ نہ جا تا تھا۔ آپ بڑے حلیم و بر د بار ، منکسر المزاج اور

 بڑے متوا ضع تھے۔

آپ کے پیش نظر زندگی کا اصل مقصد تبلیغ اسلام اور خدمت خلق تھا۔آپ کے بعض ملفوظاتِ عالیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ

 بڑے صاحب دل،وسیع المشرب اور نہایت دردمند انسان تھے۔ آپ عمیق جذبہ انسانیت کے علمبردار تھے۔ آپ اپنے مریدین

 ، معتقدین اور متوسلین کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی مانند سخاوت و فیاضی، سورج ایسی گرم جوشی و شفقت اور زمین

 ایسی مہمان نوازی اور تواضع پیدا کیاکریں۔

اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ : ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ

 اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خداوند قدوس اس بندے کو اپنیرحمتِ خاص

 سے نواز دیتا ہے  یہاں تک کہ وہ صفات الٰہی کا خودمظہر بن جاتا ہے اور آپ حقیقت میں اس کا عملی نمونہ بن گئے تھے ‘۔تبلیغ و اشاعت دین-تاجدارِ ہند حضرت خواجہ معین الدین  حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جب علم وعرفاں اورمعرفت وسلوک کے منازل طے کرچکے اوراپنے شیخ طریقت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ کے علمی وروحانی فیضان سے فیض یاب ہوئے توپھراپنے وطن واپس تشریف لے گئے۔وطن میں قیام کئے ابھی تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی کہ آپ کے دل میں بیت اللہ اورروضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے تڑپ پیدا ہوئی۔چنانچہ اسی وقت آپ اس مقدس سفرکے لئے چل پڑے۔حرمین طیبین پہنچنے کے بعداپنے دل کی مرداپائی اور قلب کوتسکین حاصل ہوئی۔ حضورسیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس کئی دنوں تک عبادت و ریاضت اورذکروفکرمیں مشغول رہے۔(آپ کی اجمیر آمد )آپ ایک دن اسی طرح عبادت اورذکرو فکر میں مستغرق تھے کہ روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سعادت افروزآوازآئی:

’’اے معین الدین!توہمارے دین کامعین ومددگار ہے،ہم نے تمھیں ہندوستان کی ولایت پرفائزکیاہے، لہٰذااجمیرجاکر اپناقیام

 کروکیوں کہ وہاں کفرو شرک اورگمراہی وضلالت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں اور تمھارے وہاں ٹھہرنے سے کفروشرک کا

 اندھیرادور ہوگااوراسلام وہدایت کے سورج کی روشنی چہارسوپھیلے گی‘‘۔ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ہندو ستان میں اجمی

 کس جگہ پر ہے کہ اچانک اونگھ آگئی اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے شرف یا ب ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ

 وسلم نے مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب تمام ہندوستان کی سیر کر ادی اور اجمیر کا پہاڑ بھی دکھا دیا ۔

اجمیرشریف!وسطیٔ ہندکاایک مشہورشہرہے۔جس طرح یہ شہرمرکزِ سلطنت بننے کیلئے موزوں تھا،اسی طرح یہ

 شہرتوحیدورسالت کے انوارو تجلیات اور علم وعرفاں کاروحانی مرکزومنبع بننے کیلئے بھی بے حد مناسب تھا۔حضرت ِوالانے ایک

 مناسب جگہ منتخب کرکے اس کواپنامسکن بنالیااور ذکروفکراوریادخداوندی میں مشغول ہوگئے۔لوگوں نے جب آپ کے سیرت

 وکردار،علم وفضل اورذکروفکر کے اندازو اطور کودیکھاتووہ خودبہ خودآپ کی طرف متوجہ ہوتے گئے۔چنانچہ اجمیر کا جوبھی آدمی

 ایک مرتبہ آپ کی خدمت ِعالی میں حاضرہوجاتاوہ اسی وقت آپ کا مریدو معتقد اور گرویدہ ہو جاتا۔تھوڑے ہی عرصہ میں

 ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں نے آپ کی صحبت کیمیا اثراورآپ کے عظیم اخلاق وکردارکے باعث اسلام قبول گیا۔چنانچہ ایک

 مشہورروایت کے مطابق تقریباًنوے لاکھ (90لاکھ) غیر مسلم اسلام کی دولت سے فیض یاب ہوکرمسلمان ہوئے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و منصب کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کو با ر

 گاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’قطب المشائخ‘‘کا لقب عطا ہوا۔آپ نے دین حق کی تبلیغ کا مقدس فریضہ نہایت شاندار

 طریقے سے سر انجام دیا۔ آج ہندوستان کا گوشہ گوشہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے ما لامال ہے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدین و معتقدین کو اشاعت اسلام اور رشد و ہدایت کی مشعل

 روشن کر نے کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں روانہ کیاتا کہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ اسلام کی ضیاء پا شیوں سے روشن و

 تاباں ہو جائے ۔ آپ نے اپنے عظیم کر دار اور اچھے اخلاق سے بہت جلد غیر مسلموں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور وہ فوج در فوج اسلام

 قبول کر نے لگے اور یوں انتہائی قلیل مدت میں اجمیر شریف اسلامی آبادی کا عظیم مر کز بن گیا اور آپ کے حسنِ اخلاق سے آپ

 کی غریب نو ازی کا ڈنکا چہار دا نگِ عالم بجنے لگا۔ یہ تھا ایمان ویقین اور علم و عمل کا وہ کرشمہ اور کرامت جو ایک مر د ِ مو من نے سر

 زمینِ ہند پر دکھا ئی اور جس کی بدولت اس ملک میں جہاں پہلے ’’نا قوس ‘‘ بجا کر تے تھے  بت خانوں میں اپنی اپنی پسند کے بتوں کی

 پوجا ہوتی تھی وہاں جائے نمازوں کی صفیں بچھائ جانے لگیں ، اور معاشرے میں  اللہ اکبر‘‘کی دلفریب و دلآویز صدائیں  گونجنے

 لگیں۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اثر آفرین جدو جہد سے اس وسیع و عریض ملک کے باشندوں کو کفر و

 شرک اور گمراہی و ضلالت کے زنداں سے آزاد فر ما یا ۔ تبلیغ دین حق کے لئے آپ سراپا عمل بن کر میں میدان میں آئے اور

 استقامت کا بے نظیر ثبوت دیا اور لو گوں کو اسلام ، حق و صداقت اور علم و عمل کی دعوت دی ، لا کھوں افراد آپ کی طرف متوجہ

 ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُن کے دل درست عقائد، عملِ صالح اور پا کیزہ اخلاق  سے سیراب ہو  گئے اور اصلاحِ

 معاشرہ کی تحریک کو روز افزوں استحکام نصیب ہوا۔ یوں تو ہزاروں کرامتیں آپ سے ظہور پذیر ہوئیں اور آفتاب و مہتاب بن

 کر نمایاں ہوئیں لیکن آپ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کے انقلاب آفرین جدو جہد اور اثر آفرین تبلیغ اسلام کے

 طفیل ہندوستان میں دین ِ اسلام کی حقانیت و صداقت کا بو ل با لا ہوا۔سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ  نے عوام

 النّاس کے قلوب کو اپنی اخلا ق اور حلم سے سنوارا   اور شہر اجمیر کو  اجمیر  شریف کا لقب دے کر  جنت ِمعرفت بنا دیا۔ آپ کے فیضِ

 با طنی سے اسلام کا آفتاب ہندوستان میں طلوع ہوا تو لاکھوں غیر مسلم آپ کی توجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔تقریباً 45برس

 تک آپ اجمیر شریف میں حیات ظاہری کے ساتھ مخلوقِ خدا کو فیض یاب فر ما تے رہے ۔ہندوستان میں اشاعتِ اسلام اور رشد

 وہدایت کی شمع روشن کر نا آپ کا سب سے تاریخی او ر عظیم کا ر نا مہ ہے  آپ فرماتے تھےجس نے اسلام میں کسی نیک کا م کی

 ابتداء کی اوراس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں بھی اس طرح اجر لکھ دیا جائے گا جیسا کہ عمل کرنے والے

 کے اعمال نامہ میں لکھاجائے گا‘‘)

چنانچہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق آپ کی دعوت وتبلیغ، سیرت و کردار کی برکت سے دنیامیں جس قدر مسلمان ہو ئے اور آئندہ قیامت تک جتنے مسلمان ہوں گے اور اُن مسلمانوں کے ہاں جو مسلمان اولاد پیدا ہو گی، اُن سب کا اجر و ثواب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ پر انوار کو پہنچتا رہے گا،کیونکہ یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جس کا اجروثواب قیامت تک ملتا رہے گا۔اجمیر شریف آمداورپرتھوی راج کی مخالفت-سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ لاہورسے دہلی تشریف لے گئے،جہاں اس دورمیں ہر طرف کفرو شرک اورگمراہی کادوردورہ تھا۔حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ نے یہاں کچھ عرصہ قیام فرمایااورپھراپنے خلیفۂ خاص حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ کو مخلوق کی ہدایت اورراہنمائی کے لئے متعین فرماکرخودحضور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اجمیرجانے کاقصد فرمایا،آپ کی آمدسے نہ صرف 

اجمیربلکہ پورے ہندوستان کی قسمت جاگ اٹھی ۔  

راجہ پرتھوی راج کاستانا اور اس کا بد انجام

اجمیرکاراجہ پرتھوی راج روزانہ نت نئے طریقوں سے خواجہ جی کو تکلیف پہنچانے اور پریشان کرنے کی کوششیں کرتا رہتا  تھا - اللہ

 تعالٰی  کے فضل و کرم اور عنائت سے اس کی ہر تدبیر الٹی ہو جاتی تھی اکبر بادشاہ نے اپنے یہاں اولادِ نرینہ کی دعاء حضر خواجہ معین

 الدّین سے کروائ تھی اور ساتھ ہی منّت مانی تھی کہ اگر بیٹا ہو گیا تو وہ م آستانہ پر ننگے پاؤں حاضری دے گا اور چار من  چاول کی

 دیگ چڑھائے گا جب اس کی منّت پوری ہوئ تب وہ پاپیادہ دیگ لے حاضر آستانہ ہوا اور آستانہ ء مبارک پر اس دیگ میں چاول

 پکائے جانے لگے اللہ کی مخلوق ان چاولوں سے فیضیاب ہونے لگی راجہ پرتھوی راج نے اپنے سپاہی بھیج کر خواجہ جی کو پیغام بھیجا کہ

 اس طرح رعایا کی عادتیں خراب ہوتی ہیں اور آستانے پر چاول پکانے اور کھلانے کا ،

سلسلہ موقوف کیا جائے

خواجہ جی نے راجہ کو جواب میں کہلوایا کہ جس روز میرا اللہ مجھ کو چاول دینا بند کر دے گا میں اس کی مخلوق کو کھلانا بند کر دوں گا

پھر ایک دن خواجہ جی نے اپنے مریدین سے با اطمینان کہا

’’میں نے پرتھوی راج کوزندہ سلامت لشکراسلام کے سپردکردیا‘‘۔

چنانچہ آپ کافرمان درست ثابت ہوااورتیسرے ہی روزفاتح ہند سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کوفتح

 کرنے کی غرض سے دہلی پرزبردست لشکرکشی کی۔راجہ پرتھوی راج لاکھوں کا لشکر لے کرمیدان جنگ میں پہنچا اور معرکہ

 کارزارگرم کردیا۔کفرواسلام اورحق وباطل کے درمیان زبردست معرکہ جاری تھا اوردست بہ دست لڑائی اپنے عروج پرتھی

 کہ سلطان غوری نے پرتھوی راج اوراس کے لشکرکوشکستِ فاش دے کرپرتھوی راج کوزندہ گرفتارکرلیا اوربعدازاں وہ قتل

 ہوکرواصلِ جہنم ہوگیا۔ راجہ پرتھوی کے عبرت ناک قتل اور ذلت آمیزشکست اور سلطان شہاب الدّین غوری کے لشکراسلام

 کی عظیم الشان اور تاریخی فتح کے نتیجے میں ہزاروں لوگ فوج درفوج اسلام قبول کرنے لگے۔یوں اجمیر شریف میں سب سے

 پہلے پرچم  اسلام سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ  کے دستِ حق پرست سے بلند ہو ا۔

سلطان شہاب الدین غوری کاشرفِ بیعت

فاتح ہندسلطان شہاب الدین غوری بہ صدعجزوانکسارسلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی

 خدمت عالیہ میں حاضرہوا اورآپ سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔چنانچہ روایت ہے کہ دہلی فتح کرنے کے بعدجب سلطان شہاب

 الدین غوری اجمیرشریف میں داخل ہوئے تو شام ہوچکی تھی۔ مغرب کاوقت تھا،اذانِ مغرب سنی تودریافت کرنے پرمعلوم

 ہواکہ ایک درویش کچھ عرصے سے یہاں اقامت پذیرہیں۔ چنانچہ سلطان غوری فوراًمسجد کی طرف چل پڑے۔جماعت کھڑی

 ہوچکی تھی اور سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ مصلیٔ امامت پرفائزہوکرامامت فرما رہے ہیں ۔

 سلطان غوری بھی جماعت میں شامل ہوگئے۔

جب نمازختم ہوئی اوراُن کی نظر خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ پرپڑی تویہ دیکھ کرآپ کوبڑی حیرت ہوئی کہ آپ کے سامنے وہی

 بزرگ جلوہ فرماہیں، جنہوں نے آپ کوخواب کے اندر’’فتح دہلی‘‘ کی بشارت دی تھی۔سلطان شہاب الدین غوری فوراًآگے

 بڑھے اورخواجہ غریب نوازکے قدموںمیں گرگئے اور آپ سے درخواست کی کہ حضور!مجھے بھی اپنے مریدوں اورغلاموں

 میں شامل فرمالیں ۔چنانچہ حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی اس خواہش کو شرف ِقبولیت بخش کرآپ کودولت

 بیعت سے نوازکر اپنامرید بنالیا۔

یہ وہی سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے نام نامی اسم گرامی سے ہمارے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان

 کا سپرپاور اسلامی ایٹمی میزائل’’غوری میزائل‘‘موسوم ہے،جو محسنِ پاکستان  فرزندپاکستان   وقومی ہیروڈاکٹرعبدلقدیر خان اور

 آپ کے دیگرسائنس داں ساتھیوں نے تخلیق کیاہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان سلطان شہاب الدین غوری خاندان

 سے تعلق رکھتے ہیں۔

خواجہ غریب نوازکافیض عام  تو فتح یاب ہوتا ہے اور کبھی اکبر بادشاہ آپ کی درگاہِ عالیہ میں اولاد کی درخواست پیش کرتا ہے تو بامراد لوٹتا ہے۔ کبھی جہانگیر اپنی شفایابی پر سرِ دربار آپ کا حلقہ بگوش غلام ہو جاتا ہے۔

اس وقت سے لے کر آج تک ہندوستان کے سارے حکمران بلا امتیاز عقیدہ و مسلک، اس آستانہ عالیہ پر اپنا سر نیاز جھکاتے آئے

 ہیں اور آپ کے  مبارک قدموں کے طفیل  سرزمینِ ہندوستان رشک فردوس بن  گئ اور  آپ کی دہلیز کی خاک ہزاروں قلوب کی

 شفائے  دوا بن گئ  ۔ آج بھی آپ کی شانِ غریب نوازی کار فرما ہے۔ آپ کا پیغامِ محبت فضائے عالم میں گونج رہا ہے۔اللہ کی مخلوق

 سے بے غرض  الفت و محبّت  دھرتی کے سینے پر امر ہو گئ اوراہلِ طریقت آپ کے حسنِ باطن اور عشقِ حقیقی کے تصرفات سے

 آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آپ کے نورِ ولایت کا آفتاب آج بھی چمک اور دمک رہا ہے۔ آپ کا قلبی نور آج بھی ضیاء بخش

 عالم ہے۔آپ کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو آج بھی آبِ حیات اور بارانِ رحمت کی طرح فیض رساں ہیں۔نامورخلفاء

 کرامحضرت خواجہ خواجگان، قطب الاقطاب، سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ سے حسب ِ ذیل جلیل القدر ہستیوں کو بھی خلافت حاصل ہوئی:

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت علاءو الدین علی بن احمد صابر کُلیری، حضرت خواجہ نظام

 الدین اولیاء محبوب ِالٰہی، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ شامل ہیں۔۔۔یہ برگزیدہ اور عظیم المرتبت بزرگ اپنے وقت

 کے ولیٔ کامل اور باکرامت اولیاء اللہ ہوئے۔ ان حضرات نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی جلائی ہوئی شمعِ توحید سے نہ صرف خود

 روشنی حاصل کی بلکہ کروڑوں لوگوں کو اس شمعِ توحید کی ضیاء پاشیوں سے فیض یاب کیا، جس کی بدولت آج چہار عالم روشن و

 تاباں ہیں۔۔۔ چناں چہ خانقاہِ چشتیہ سلیمانیہ تونسہ شریف، گولڑہ شریف، سیال شریف،مکھڈشریف، چشتیاں شریف وغیرہ کی

 خانقاہوں کے چراغ اسی شمع کی بدولت روشن ہیں اور دوسروں کو بھی نور ایمان و ایقان اور نورِ علم و معرفت سے روشن کر رہے ہیں۔

وصال مبارک

تاجدارعلم ومعرفت، آفتابِ رشدوہدایت، قطب المشائخ، سلطان الہند،خواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ایک طویل مدت تک مشارق ومغارب میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کرتے رہے۔ رشدوہدایت کی شمع جلاتے رہے۔ علم ومعرفت کوچہارسوپھیلاتے رہے۔ لاکھوں افراد کومشرف بہ اسلام کیا۔ لاتعدادلوگوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا۔ ہزاروں کو رشدوہدایت کا پیکر بنایا۔ الغرض یہ کہ آپ کی ساری زندگی امربالمعروف ونہی عن المنکرپر عمل کرتے ہوئے گزری۔بالآخریہ عظیم پیکرعلم وعرفاں، حامل سنت وقرآں، محبوبِ یزداں،محب سروروکون ومکاں،شریعت وطریقت کے نیرتاباں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ 6رجب المرجب633ھ/1236ء کو باغ عدن کی جانب کوچ کر گئےروایات میں آتا ہے کہ جس وقت آپ کا وصال ہوا،آپ کی پیشانی مبارکہ پرنورانی خط میں تحریرتھااللہ کا دوست، اللہ کی محبت میں وصال کرگیاخواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مزارپرانوار اجمیر شریف ہندوستان  میں مرجع خلائق ہے ۔آپ کے مزارِ مبارک  پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے بھی لا کھوں افراد بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ حاضر ہو تے ہیں ۔ اجمیر شریف میں آپ کی درگاہِ عا لیہ آج بھی ایمان و یقین اور علم و معرفت کے نو ر بر ساتی ہے اور ہزاروں خوش نصیب لو گ فیض یاب ہو تے ہیں۔

آپ کا عرس مبارک ہر سال نہ صرف اجمیرمیں بلکہ پورے پاک وہند میں پورے عقیدت واحترام اورتزک واحتشام کے ساتھ

 منایاجاتا  ہے،تاجدارِ معرفت اوررشدو ہدایت کے پیکر عارف باللہ  قطب الاقطاب اس عظیم سورج کو غروب ہوئے کئی سوسال

 گزرچکے ہیں مگراس کی گرمی وحرارت سے آج بھی طالبانِ علم و معرفت اسی طرح فیض یاب ہو رہے ہیں، جس طرح آپ کی

 حیاتِ مبارکہ میں ہوتے تھے

آ پ کے مزار پر فارسی زبان میں جو شعر تحریر ہے اس کے معنی ہیں میرے اجداد کربلا میں پانی کے محتا ج  نہیں تھے لیکن انہوں

 نے دینِ حق بقاء کی خاطرپیاس کی شدّت میں شہادت کو ترجیح دی

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر